ایسا اسے لگا۔۔۔۔
زونی کی نظر ابھی اس پر نہیں پڑی تھی وہ تو مشا کو پریشانی سے ڈھونڈ رہی تھی۔۔
وہ فلور سے اتر کر نیچے گئی۔۔اور لوگوں کے ہجوم سے راستا بناتی واشروم کی طرف جارہی تھی۔۔
ایسے پھر سے اپنے اوپر نظروں کی تپش محسوس ہورہی تھی جس پر وہ بہت خوفزدہ ہورہی تھی۔۔
ایک تو جگہ ایسی تھی جیسے کسی دوسری مخلوق کی بیچ ہو ۔۔
اوپر سے مجھے اکیلا چھوڑ کر پتا نہیں کہاں بھاگ گئی ہے ۔۔۔وہ خود سے کہتی اس سے ناراضی ظاہر کرتی جارہی تھی۔۔وہ اٹھارہ سال کی خوبصورت حساس لڑکی تھی ۔۔ اسکی بڑی سنہری آنکھیں اور کمر تک آتے سنہری بال اسے اور خوبصورت بنا دیتے تھے۔۔چھوٹی ناک سرخ ہونٹ سفید گلابی رنگت وہ ایک چھوٹی سی شہزادی لگتی تھی۔۔
وآشروم میں آئی پر وہ وہاں بھی نہیں تھی۔۔
اب اسے حقیقت میں پتا لگا تھا کہ ڈر کیا چیز ہے اسکے وجود میں ہلکی ہلکی کپکپاہٹ شروع ہو گئی تھی۔۔۔
وہ لوگوں کے جان بوجھ کر مارتے کندھو سے خود کو بچاتی باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔
ویکس اسے واشروم کی طرف جاتے دیکھ کر اسکے پیچھے جانے لگا۔۔۔
ابھی وہ تھوڑا آگے گیا ہی تھا جب اسے دوسرے بھیڑیے کی موجودگی کا احساس ہوا۔۔
اسنے ایک بھرپور نظر پورے کلب پے ڈالی پر اسے یہاں پر صرف انسانوں کے خون کی خوشبو آئی۔۔
اسے یہاں پر اسکے علاوہ کوئی بھیڑیا نظر نہیں آیا۔۔۔
اچانک اسکے دماغ میں دھماکہ ہوا۔۔۔مارک۔۔۔۔
او شٹ۔۔۔اسنے اپنے ہاتھ پر غصے سے مکہ مرا۔۔۔ اور زونی کو دیکھا جو رونی صورت بنائے ایک صوفے پے بیٹھی تھی۔۔اور سنہری آنکھوں میں آئی نمی سے یہاں وہاں دیکھ کر اسے لوگوں میں پہچانے کی کوشش کر رہی کہ شاید یہی کہیں مل جائے۔۔۔
ویکس اس پر ایک قہربرساتی نظر ڈال کر کلب سے باہر نکلا۔۔۔
اسنے باہر آ کر دیکھا پر مارک اسے کہیں نہیں دیکھا۔۔پر اسے بھیڑیے کی بو سے ہی پتا لگ گیا کہ مارک یہی کہیں ہے۔۔۔۔
وہ تیزی سے بھاگا اسے کسی بھی طرح مشا کے وجود کو کہیں کرنا ہوگا اور جلد ہی زونی کا بھی قصہ ختم کرنا ہو گا۔۔۔۔مارک کے اس تک پہنچنے سے پہلے۔۔
وہ کلب کی بیک سائیڈ پہ آیا۔۔۔پر وہاں پر آکر اسے جھٹکا لگا۔۔
مارک اسکے خون میں لت پت مردہ وجود کو سینے سے لگائے بے بسی سے رو رہا تھا۔۔ سامنے کھڑے ویکس کو دیکھ کر اسکی آنکھیں پھٹی پھر سب اسے سمجھ آیا۔۔۔
تم جانتے تھے میں زونی سے محبت کرتا ہوں پھر بھی تمنے اس اپنا شکار بنایا۔۔وہ غم و غصے سے غرایا۔۔
پہلے تو ویکس اسکی حالت دیکھ کر ششدر رہ گیا پر پھر جب مشا کے مردہ وجود کو دیکھا تو سمجھا۔۔۔اسکے سنہری بال اور ریڈ کلر کا ڈریس دونوں کو ریڈ کلر کا ڈریس پہنا ہوا تھا۔۔وہ اسے زونی سمجھ رہا تھا اور اسی بات کا ویکس کے شاطر دماغ نے فائدہ اٹھایا۔۔۔
شاید تم بھی جانتے ہو یہ زونی کارتھن ہے ہماری دشمن کی بیٹی۔۔اسے اس معصوم کو نوچنے پر کوئی افسوس نہیں تھا۔۔
وہ تو اپنے بھائی پر حیران تھا خود ایک بھیڑیا ہوکہ انسان کے لیے رو رہا تھا۔۔جس پر اسکے اندر آگ لگ گئی۔۔
پر وہ کیا جانے دل جانور کے پاس بھی ہوتا ہے ۔۔وہ تو ایک بھیڑیا تھا انسان اور دوسرے جانورو کو نوچنے والا وہ کیا جانے یہ آنسو کیو بہہ رہے ہیں ۔۔۔
تم رو کیو رہے ہو مارک کیا تم نہیں جاتے آج یا کل اسکا یہ حال ہونا تھا پھر یہ آنسو کیو۔۔۔وہ غصے غرایا۔۔۔
کیونکہ تمنے مارک کی زندگی ختم کی ہے۔۔اسکا عشق مارا ہے۔۔۔اسکی ڈھار پر ویکس کا ایک سرد قہقہہ لگا۔۔جو اس خوفناک ماحول کو مزید خوفناک بنا رہا تھا۔۔۔
تم ایک بھیڑیے ہو جو صرف انسانوں کو نوچنا اور چیرپھار کرنا جانتا ہے ناکہ انسے محبت عشق کرنا۔۔۔ہاہاہاہا۔۔
اسنے مارک کو اسکی حقیقت دیکھائی جو ایک کڑوا سچ تھا ہاں وہ ایک بھیڑیا تھا جانور تھا پر وہ ویکس کی طرح انسانوں کو نوچتا نہیں تھا انکو چیرپھار کے نہیں کھاتا تھا۔۔۔
آج تم ویکس مجھ پر ہنس رہے ہو بہت جلد تمہارے اندر پٹھر کی دھڑکن میں سنوگا۔۔مارک کا دل اندر پھٹ رہا تھا وہ ٹوٹ گیا تھا اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھو۔۔۔
اسنے ویکس کو کہا جو ویکس کو ایک بد دعا لگی جس پر وہ دھنگ رہ گیا۔
اسنے ایک دکھ بھری نظر ویکس پر ڈالی جو ساکت کھڑا تھا۔۔
ویکس تم میرے دل کے بہت قریب ہو ماں باپ کے بعد مینے تمہیں ہی سب کچھ سمجھا ہے پر پتا نہیں کیو آج تم سے دور جانے کو کہہ رہا ہے۔۔پر یہ مت سمجھنا کہ میرا دل تم سے جدا ہوگا۔ جب بھی ویکس پر کوئی مصیبت آئے گی۔۔مارک کو ہمیشہ ویکس کے ساتھ پاوُ گے۔۔مارک کی گرے آنکھوں میں خون کے آنسوں بہنے لگے۔۔
وہ چپ چاپ ساکت اسکی سنتا رہا۔۔اندر طوفان اٹھ رہا تھا۔جس میں سے حیوان کا سر اٹھا ۔۔
مارک نے ایک الودائی نظر ویکس پر ڈالی جس کی نیلی آنکھیں لال ہونے لگی۔۔۔اور پھر اپنے بھیڑیے روپ میں آیا اور مشا کے مردہ وجود (یہ کیسی محبت تھی جو اپنے محبوب کو نہیں پہچان پارہی تھی) کو اٹھا کر اندھیرے کی طرف غائب ہوتا گیا۔۔۔
یہ منظر زونی کی نظروں سے محفوظ نہیں رہ سکا۔۔۔۔
کہیں وہ مجھے اکیلے تو نہیں چھوڑ کے گئی یہاں۔۔وہ پریشانی سے خود سے کہتی کلب سے باہر آئی۔۔ گاڑی بھی یہی موجود ہے۔۔ آخر گئی کہاں۔۔ مارک کو بھی میسج کیا وہ بھی نہیں آیا ابھی تک او۔۔گوڈ میں کہاں پھس گئی۔۔اسکی سنہری آنکھوں سے ایک آنسو جاکر زمین پر گرا۔۔۔
وہ سرخ روشنی میں اردگرد دیکھ رہی تھی ۔ کہیں پیچھے تو نہیں ۔۔ نہیں وہا کیا کرے گی ۔ اتنی خوفناک جگہ پر مرنے کے لیے ہی پیچھے جائے گی۔ ۔اسنے خود سے سوال کیا پھر خود ہی جواب دیتی ۔۔اپنے ہونٹوں پر زبان پھیڑتی پیچھے کی جانب قدم اٹھائے۔ ۔۔اب ڈھونڈنا تو تھا ہی۔ ۔۔
صرف آج مل جا مشا آئندہ میں قسم کھاتی ہوں تیرے ساتھ میری جوتی بھی نہیں آئے گی۔۔
ابھی وہ تھوڑا آگے آئی ہی تھی جب اسے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔ ۔
کہیں مشا تو نہیں۔ ۔نہیں جانور بھی ہوسکتا ہے پہلے چھپ کر دیکھتی ہوں ۔۔۔وہ اپنے دل میں سوچتی دیوار سے تھوڑا منہ آگے کرتی دیکھنے لگی۔ ۔۔پر اسکا تھوڑا دیکھنا اسکا جسم سن کر گیا۔ آنکھیں پھٹ گئی وہ وہیں دیوار کا سہارا لے کے بیٹھنے لگی۔ ۔
م۔۔ا۔ ۔۔ر۔ ۔ک۔ ۔بھ۔۔یڑ۔۔یا ہے وہ۔ ۔۔۔وہ ممم۔ ۔مشا ۔۔۔۔نہیں مارک اسے کیسے کرسکتا ہے۔ ۔۔۔
مجھے اسے بچانا ہوگا۔ ۔۔۔۔اسنے خود سے کہا۔۔۔
پر میں اسے بچاوُں کیسے ۔۔وہ تو اسے ختم کر چکا ہے۔ ۔۔۔وہ لمبے لمبے سانس لینے لگی ۔۔ پورا جسم ٹھر ٹھر کانپ رہا تھا۔ ۔۔آنکھوں سے سمندر بہنے لگا ۔
پسینے میں پوری بھیگ چکی تھی۔ ۔کیا مینے مشا کو مروایا ہے۔ ۔اسنے ڈرتے ڈرتے خود سے سوال کیا۔ ۔ اسنے مجھ سے موبائل چھینا بھی تھا۔۔۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔مشا مجھے معاف کر دو۔۔۔
اچانک وہ اچھل کر دور جاگری۔ ۔قریب سے ہی ایک زوردار خوفناک بھیڑیے کی دھاڑ سنی۔ ۔۔
وہ آگیا مجھے بھاگنا ہوگا یہاں سے نہیں تو وہ میرا بھی یہی حال کرے گا ۔۔وہ گرتی پڑتی خود کو گھسیٹتی گاڑی تک لائی کیونکہ ٹانگوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا کپکپاہٹ سے۔
گاڑی سٹارٹ کرتی وہ تیزی سے روتے ہوہے بھاگی ابھی تھوڑی آگے آئی ہی تھی جب پیچھے سے لوگوں کی چیخ پکار سننے میں آئی۔ ۔اسکے ہاتھ اور جسم کانپ رہا تھا۔ ۔۔
اپنے ماں باپ کو یاد کرتی گاڑی کو اور تیز بھگا رہی تھی۔ ۔
جب اچانک کار کے اور کوئی جھپٹا۔ اسکے منہ سے ایک زوردار چیخ نکل گئی۔ ۔۔
ویکس اسکی کار کے اوپر تھا۔ اور اسنے اپنا بڑا سا پنجا اندر ڈال کر اسے پکڑنے کی کوشش کی جب ایک چیخ سے اسکے خون سے بھرے لمبے کالے ناخون باہر آئے۔ اور گاڑی کو جھٹکا لگا جس سے وہ اپنا بیلنس برابر نا رکھ پایا اور دھرام سے کار سے نیچے گرا ۔۔
جب تک وہ سنبھلتا کار جہاز کی تیزی سے بھاگتی اس سے دور ہوتی چلی گئی۔ ۔۔
پیچھے وہ چیختا دھاڑتا رہ گیا۔
اور پھر واپس کلب کی طرف گیا دوسرے معصوموں کی طرف۔ جو بھاگ سکے بھاگ گئے باقی جو فل نشے میں تھے انکا خون اور گوشت کے لوتھرے یہاں وہاں پڑے تھے۔
وہ اپنے رخسار اور گلے سے بہتے خون کی پروہ کیے بغیر تیزی سے کار بھگاتی گئی۔
اور شہر میں داخل ہوئی تو اسنے اپنی بند ہوتی سے دیکھا کہ اسکی گاڑی کسی دوسری سے ٹکرا گئی پھر وہ اپنے ہوش وحواس سے بیگانا ہوگئی۔
آج یونی نہیں آئی۔ لیزی اسکے ساتھ کیفے میں بیٹھی اس سے پوچھا۔
دل نہیں کر رہا تھا۔ زشیہ نے اداسی سے جواب دیا۔ جس پر لیزی نے منہ بنایا۔
تم بہت بور ہو زونی۔ زشیہ کا چہرا غصے سے سرخ ہوگیا اور سنہری آنکھوں میں کرب پھیل گیا تھا۔ ۔
ایم سوری زشیہ۔ لیزی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو جلدی سوری کہا۔
پھر کچھ سوچ کر بولی۔
زی کیا تم مجھے نہیں بتاوُ گی کہ تم اس نام سے غصہ کیو ہوتی ہو آخر ایسی کیا وجہ۔ ۔
شپ اپ لیزی مینے تمسے کہا تھا مجھ سے یہ سوال کبھی مت پوچنا۔ ۔وہ ایک دم چیخی۔ آسپاس کے لوگ اسے دیکھنے لگے اور کسی کے خوبصورت چہرے پر مسکراہٹ پھیلی۔
آخر وہ اسے کیا بتاتی کہ جسنے پیار سے یہ نام رکھا تھا اب اس سے نفرت نے اسے یہ نام چھیننے پر مجبور کیا تھا۔
آج اس حادثے کو پانچ ماہ ہوگئے تھے۔
اسکے ماں باپ اسے اس شہر سے ہی دورلے آئے تھے۔
وہ ہر چیز وہیں چھوڑ آئی تھی۔ سوائے اسکے رخسار کے نیچے سے شروع ہوتے گرد سے نیچے تک آتے بھیڑیے کے ناخون کے نشان۔ جو اسے مارک سے بے انتہائی سے زیادہ نفرت کرنے پر مجبور کرتے تھے۔