کمرے کے بیچ و بیچ کھڑی وہ مسلسل اسے غصّے سے گھور رہی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ یہاں سے کہیں دور بھاگ جائے یا کردم کو اُٹھا کر کہیں دور پھینک دے۔ جہاں سے اُس کا سایہ بھی آئینور پر نہ پڑے۔
” اب تم پھر چیخنے چلانے مت شروع ہوجانا۔”
کردم اسے یوں خود کو گھورتے دیکھ بیزار سا بولا۔ وہ اب تنگ آ گیا تھا، اس چیخنے چلانے سے۔
” کیوں نہ کچھ بولوں؟ ہمممم !! جب بلا ہی لیا تھا، تو رات اُس کے ساتھ گزار لینی تھی۔ بھیج کیوں دیا واپس؟ ”
وہ دانت پر دانت جما کر بولی۔
” بکواس بند کرو اپنی۔”
کردم جو پہلے ہی غصّے میں تھا اب بھڑک اٹھا۔
” کیوں بند کروں؟ یہ کوئی پہلی دفعہ تو نہیں آپ کے لیے۔ جو اب آپ کترا رہے ہیں۔”
آئینور کی بات پر وہ بیڈ سے اُٹھتا اس کے مقابل آیا۔ کردم کی سخت نظروں سے خائف ہو کر وہ پیچھے ہٹنے لگی مگر۔۔۔ اس سے پہلے ہی کردم نے کوئی بھی موقع دیئے بغیر اس کے جبڑوں کو سختی سے اپنی مضبوط گرفت میں لے لیا۔
” ایک اور لفظ مت بولنا ورنہ مجھ سے کچھ غلط ہو جائے گا۔” وہ غرایا۔
آئینور خود کو چھڑوانے کی کوشش کرتی رہی۔ اس کے چہرے سے تکلیف دہ آثار واضح ہو رہے تھے۔ کردم کی گرفت کچھ ڈھیلی پڑی۔
” میں نے اُسے نہیں بلایا اور نہ ہی میری کوئی ناجائز اولاد ہے۔”
اس کی بات پر آئینور نے چونک کر اسے دیکھا۔ ” مطلب وہ سن چکا تھا ” وہ سوچ کر رہ گئی۔
” کیا سوچ رہی ہو یہ ہی نہ کے مجھے کیسے پتا چلا ؟” وہ استہزائیہ انداز میں ہنسا۔
” جب تم اپنی پھوپھو سے میرے عورتوں سے تعلق اور ان سے ناجائز اولادوں کا رونا رو رہی تھیں۔ میں تب ہی گھر آ گیا تھا مگر۔۔۔ تمہاری اس بکواس کی وجہ سے میں واپس چلا گیا کہ کہیں غصّے میں تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچا دوں۔”
کردم کہہ کر اس کے جبڑوں کو چھوڑتا بیڈ کی جانب بڑھ گیا۔ آئینور شرمندہ سی اس کی پشت کو دیکھ رہی تھی۔
” اور ہاں !! مجھے معلوم ہے تمہیں مجھ سے بے پناہ نفرت ہے، مگر جب تم میرے اندر کے معاملات سے آگاہ نہیں تو آئندہ اپنی زبان سے زہر اگلتے وقت اچھے سے سوچ لینا۔” اپنی بات کہہ کر وہ بیڈ پر لیٹ گیا اور دائیں بازو کو اپنی آنکھوں پر رکھ لیا۔
آئینور شرمندہ سی وہیں نظریں جھکائے کھڑی رہی۔ کمرے میں خاموشی سی چھا گئی تھی۔ لیکن کچھ لمحوں بعد ہی آئینور کی آواز نے اس خاموشی کو توڑا۔
” میں آپ سے نفرت نہیں کرتی۔”
اس کی بات پر کردم ایک پل کے لیے ہل نہ سکا۔ پھر بازو ترچھا کرکے کنکھیوں سے اسے دیکھنے لگا۔
” کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوتا۔ جہاں اچھائی ہو وہاں بُرائی بھی ہوتی ہے۔ مجھے معلوم ہے۔ مجھ میں لاکھ اچھائیاں سہی مگر میری یہ زبان ہی مجھے جہنم میں لے جائے گی۔ میں بہت کوشش کرتی ہوں کچھ ایسا نہ بولوں جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔ لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ منہ سے نکل جاتا ہے۔ تاکہ خود کو پہنچی تکلیف میں کچھ کمی آ سکے۔”
آئینور رکی سر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا، وہ اب بھی ویسے ہی لیٹا تھا۔ وہ مزید بولی۔
” میں نے جو کچھ بھی بولا، صرف زبان سے بولا۔ میرے دل میں آپ کے لیے کوئی نفرت موجود نہیں۔ کیونکہ نفرت گناہ سے کرنی چاہیئے گناہ کرنے والے سے نہیں۔ مجھے آپ کی سرگرمیوں سے نفرت ہے آپ سے نہیں۔”
اب کی بار کردم آنکھوں سے بازو ہٹاتا پورا کا پورا اُٹھ بیٹھا۔ آئینور نے اس کی نظریں خود پر دیکھ چہرہ جھکا لیا اور چل کر بیڈ کی دوسری جانب آ لیٹی۔
” مجھ سے نفرت نہیں تو کیا ہے؟ ”
کردم واپس لیٹتے ہوئے پوچھنے لگا۔ آئینور کی اس کی طرف پشت تھی۔ وہ مسکرادی، اس سوال کے پوچھے جانے کی اسے توقع تھی۔
” کچھ نہیں۔”
صفا چٹ انکار آیا۔ کردم مسکرا دیا۔ اس چھوٹی سی بات نے ہی اس کے دل پر پڑتی کسی پھوار کا کام کیا تھا۔ وہ اس سے محبت نہیں کرتی تھی، مگر نفرت بھی نہیں کرتی تھی اور یہ ہی بات کردم کے لیے کافی تھی۔
۔****************۔
باقی دنوں کے مقابلے آج کی صبح کچھ الگ ہی نکھری نکھری سی تھی۔ یا یوں کہیں کہ کردم کو لگ رہی تھی۔ باقی دنوں کی نسبت آج وہ دیر سے جاگا تھا اور اب ڈریسنگ کے سامنے کھڑا تیار ہونے میں لگا تھا جب آئینور اس کے پاس چلی آئی۔
” مجھے آج شاپنگ پر جانا ہے۔ میں کراچی سے کچھ ہی کپڑے ساتھ لائی تھی۔ جنہیں دھو کر بار بار استعمال کر رہی تھی، مگر اب مزید نہیں کرسکتی۔”
آئینور اس کے پیچھے کھڑی آئینے میں اسے کے عکس کو دیکھتے ہوئے گویا ہوئی۔
” ٹھیک ہے !! لیکن رحیم وغیرہ تو جا چکے۔ میں ایسا کرتا ہوں غفار کو یہیں چھوڑ جاتا ہوں، اُس کے ساتھ چلے جانا۔” کردم اس کی طرف رخ کرتا ہوا بولا۔
” اس کی ضرورت نہیں میں خود چلی جاؤ گی۔” وہ فوراً بولی۔
” جو تم اپنے گھر جا کر کرچکی ہو اس کے بعد سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں نے بول دیا غفار ساتھ جائے گا تو بس۔۔۔ اس کے آگے مزید بحث نہیں، اور یہ پیسے رکھ لو۔”
کردم نے کہتے ہوئے وائلٹ سے پیسے نکال کر اس کی طرف بڑھائے۔
” مجھے ضرورت نہیں۔ پیسے ہیں میرے پاس وہ بھی حلال۔” آئینور منہ بسور کر کہتی کمرے سے باہر نکل گئی۔ ایک بار پھر اس کی زبان چلی تھی، مگر اس بار کردم غصّہ کرنے کے بجائے مسکرا دیا۔
” پاگل !! ”
۔****************۔
گاڑی ایک بڑے سے شاپنگ مال کے سامنے جا رکی تھی۔ کردم کی ہدایت کے مطابق غفار اسے فوراً ہی لے کر ادھر آگیا۔ یہاں سے واپس اسے اڈے پر جانا تھا، اس لیے آئینور بھی لمحے کی تا خیر کیے بنا اس کے ساتھ چلی آئی۔
” آپ ادھر ہی رکیں میں ابھی آئی۔”
آئینور کہتے ہوئے دروازہ کھولنے لگی کہ غفار فوراً بولا۔
” کردم دادا نے آپ کے ساتھ رہنے کو کہا تھا۔ میں آپ کو اکیلے اندر نہیں جانے دے سکتا اس لیے میں بھی ساتھ چلوں گا۔”
” لیکن۔۔۔”
” اور کردم دادا نے یہ بھی کہا تھا آپ کی بات نہ سنی جائے۔”
غفار اس کی بات کاٹتا ہوا بولا۔ آئینور جلتی کلستی گاڑی سے باہر نکل گئی۔ غفار بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔
چند دکانوں سے اپنے کپڑے لینے کے بعد وہ اور بھی دکانے دیکھنے کے لیے آگے بڑھ رہی تھی کہ اچانک رک کر اپنے پیچھے آتے غفار کو دیکھا جو اس سے دو قدم کے فاصلے پر چل رہا تھا۔ آئینور کے رکنے پر وہ بھی رک گیا۔
” کیا اب آپ ہر دکان پر میرے ساتھ جائینگے؟ ”
نقاب سے جھانکتی آنکھیں غصّے اسے دیکھ رہی تھیں۔ وہ گڑبڑا گیا۔
” نہیں آپ کو جو بھی لینا ہے۔ آپ لے کر آجائیں۔ میں ادھر ہی کھڑا ہوں۔” اس کی بات میں چھپا مطلب سمجھ کر وہ فوراً بولا۔
” ٹھیک ہے۔”
آئینور آنکھیں گھماتی آ گے کو بڑھی پھر دائیں جانب مڑ گئی۔
غفار وہیں سر جھکائے کھڑا رہا۔ اسے کھڑے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ تبھی عقب سے آتی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
” بیٹا نہیں کرو، اسے واپس رکھ دو۔ آپ کے پاس پہلے ہی بہت کھلونے ہیں۔”
آواز سن کر یکدم اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ ایک لڑکی کھڑی اپنے بیٹے سے مسکرا کر باتیں کر رہی تھی۔ وہ بچہ دیکھنے میں کوئی تین چار سال کا معلوم ہوتا تھا۔ وہ وہاں کھڑا اردگرد سے بیگانہ ہو کر بس انہیں دیکھے گیا۔
لڑکی نے اپنے اوپر کسی کی نظروں کی تپش محسوس کر کے ادھر اُدھر دیکھا تو ٹھٹھک گئی۔ وہ بے یقینی سے غفار کو دیکھنے لگی۔ پل بھر کے لیے اس کی آنکھوں میں شناسائی کی چمک اُبھری تھی۔ لیکن اگلے ہی لمحے ماند پڑ گئی۔ وہ آنکھوں میں اجنبی تاثرات لیے رخ موڑ گئی۔
” آئمہ !! کیسی ہو؟ ”
غفار اس کے پاس جا کر پوچھنے لگا۔
” ٹھیک ہو۔”
وہ جبراً مسکرا کر بولی۔
” یہ تمہارا بیٹا ہے؟ ”
غفار نے بچے کی طرف دیکھا، جو اس کے دیکھنے پر اپنی ماں کی ٹانگوں سے لگ گیا تھا۔
” ہاں !! ”
” تم نے شادی کر لی؟ ”
” ہاں !! ”
اس کے جواب پر غفار نے اس کے چہرے کو دیکھا، جو بے تاثر تھا۔
” مبارک ہو !! ”
وہ بس اتنا ہی بول پایا۔
” ہمم !! میں چلتی ہوں۔ میرے شوہر انتظار کر رہے ہونگے۔”
وہ کہہ کر ایک لمحے کی تا خیر کیے بنا فوراً وہاں سے چلی گئی۔ غفار کی نظروں نے دور تک اس کا پیچھا کیا۔
” بہت ہی پیارا بیٹا ہے آپ کا !! بالکل آپ پر گیا ہے۔”
عقب سے آتی آواز پر وہ چونک کر مڑا۔ پیچھے آئینور تھی۔ جو کافی دیر سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ جیسے ہی معاملہ اس کی سمجھ میں آیا تو بولے بنا نہ رہ سکی۔
” نہیں وہ میرا بیٹا نہیں۔” غفار کو یہ بولنا دشوار لگا تھا۔
” اچھا لیکن مجھے تو لگا آپ کی بیوی اور بیٹا تھا۔ باکل آپ میں جو مل رہا تھا۔” وہ اپنی بات پر زور دیتے ہوئے بولی۔
غفار خاموش رہا۔
” چلیں !! گھر چلتے ہیں۔”
اسے خاموش دیکھ کر آئینور بولتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ لیکن غفار کو کئی سال پیچھے دھکیل گئی۔
۔****************۔
” لڑکی !! یہ کیا صرف کپڑے اُٹھا لائی۔ کچھ ہار سنگھار کا سامان بھی لے آتی۔”
وہ لاؤنج میں بیٹھی سیما خالہ کو اپنی شاپنگ دکھا رہی تھی۔ جب اس کی شاپنگ میں چند جوڑے دیکھ کر وہ بولیں۔
” آپ کا اس عمر میں بھی ہار سنگھار کا دل کرتا ہے تو مجھے بتا دیتیں، میں لے آتی۔”
آئینور کپڑے واپس بیگ میں ڈالتے ہوئے بولی۔
” لڑکی سدھرنا مت !! میں اپنے لیے نہیں تمہاری بات کر رہی ہوں۔” سیما خالہ کا دل اس عقل کی پر ماتم کرنے کو چاہا۔
” مجھے یہ سب پسند نہیں۔” وہ فوراً بولی۔
” تم سے کون پوچھ رہا ہے پسند ہے کہ نہیں۔ میں تو کردم بیٹے کی وجہ سے بول رہی ہوں۔ اس کا بھی تو دل کرتا ہوگا اُس کی بیوی اُس کے لیے سجے سنورے۔”
” ہاں تو کس نے منع کیا ہے؟ لے آئے بیوی جو اُس کے لیے سجے سنورے۔”
اب کی بار سیما خالہ کا دل کیا اسے ایک رکھ کر دیں۔ جو بے پرواہی سے بولے جا رہی تھی۔
” کل دیکھا تھا۔ وہ لڑکی کیسے سج سنور کر آئی تھی کہ کسی بھی مرد کا انہیں دیکھتے ہی ایمان ڈگمگا جائے۔”
” مجھے اپنا ایمان بچانا ہے کسی کا ڈگمگانا نہیں۔” وہ بھی کہاں پیچھے رہنے والی تھی، فوراً بولی۔
” میں تم سے اپنے شوہر کے لیے تیار ہونے کی بات کر رہی ہوں کسی غیر مرد کے لیے نہیں۔”
” چھوڑیں سیما خالہ !! آپ بھی کسے سمجھا رہی ہیں۔”
اب کے آواز کردم کی تھی جو لاؤنج میں داخل ہوتا ان کی باتیں سن چکا تھا۔
ان دونوں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ باتوں میں اتنی مصروف تھیں کہ اس کی گاڑی کی آواز تک نہ سن سکیں۔ کردم کی نظریں خود پر دیکھ آئینور نے جھنپ کر سر جھکا دیا۔
” آج تم جلدی آگئے۔”
آئینور کی جھنپ کی خاطر سیما خالہ نے بات بدلنی چاہی۔
” جی !! آج کچھ خاص کام نہ تھا۔ ”
کردم کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی آئینور نے سُکھ کا سانس لیا تھا۔
” آپ بھی نا۔”
اس نے خفگی سے سیما خالہ کو دیکھا۔ وہ ہنس دیں۔
۔****************۔
گھر کے باہر کھڑا وہ مسلسل بیل بجانے میں لگا تھا، مگر ابھی تک کسی نے دروازہ کھولنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ اب کہ اس نے بیل بجانے کے بجائے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔
” آگئی بھئی صبر۔”
دروازے کے پیچھے سے نسوانی آواز ابھری۔ اگلے ہی لمحے دروازہ کھلا تھا، جب دروازے پر کھڑے شخص کو دیکھ کر مقابل حیران رہ گیا۔
” تم۔۔۔”
” ہاں میں اب راستہ چھوڑو۔” وہ کہہ کر اس کے سائڈ سے نکل گیا۔
” رکو۔۔۔ رکو کہاں جا رہے ہو غفار؟ ”
وہ اس کے پیچھے چلتی پریشانی سے بولی۔
” میں یہاں تم سے نہیں، تمہارے شوہر سے ملنے آیا ہوں۔ کہاں ہے؟ ” غفار ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے بولا۔
” وہ گھر پر نہیں ہیں۔” آئمہ فوراً بولی۔
” کیوں اتنی رات کو اُسے کونسا کام ہے جو گھر نہیں؟
خیر کوئی نہیں !! میرے پاس بہت ٹائم ہے۔ میں انتظار کر لوں گا۔”
غفار کمرے میں رکھے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
” تم یہاں کیسے اور تمہیں گھر کا کیسے معلوم ہوا؟ ”
وہ دونوں ہاتھ پہلو پر رکھ کر غصّے سے اسے گھورتے ہوئے پوچھنے لگی۔
” جانے من !! کسی کے بارے میں معلوم کرنا اتنا مشکل نہیں۔ صرف تمہارا گھر نہیں، یہ بھی جان گیا ہوں نہ تو تمہارا کوئی شوہر ہے اور نہ ہی تمہاری ابھی تک شادی ہوئی ہے۔” وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
” جب معلوم ہوگیا تو یہاں کیا کر رہے ہو؟ آخر تم چاہتے کیا ہو؟ ” وہ دبا دبا سا چلائی۔
” اپنا بیٹا۔” وہ بھی فوراً بولا۔
آئمہ ساکت سی اُسے دیکھے گئی۔
” میرے پاس بس ایک وہ ہی اپنا ہے۔ تم اسے بھی مجھ سے چھین لینا چاہتے ہو؟ ” اس کی مری مری سی آواز نکلی۔
غفار نے فوراً اس کے مقابل کھڑے ہوتے اسے شانوں سے تھاما۔
” میں صرف اُسے نہیں تمہیں بھی لینے آیا ہوں۔ چلو چلتے ہیں، میں تم سے شادی کر لوں گا۔ پھر ہم تینوں ایک ساتھ رہیں گے ہمیشہ۔”
” ایسا نہیں ہوسکتا۔” وہ فوراً اس کے ہاتھ جھٹکتی دور ہوئی۔
” کیوں۔۔۔ کیوں نہیں ہوسکتا ایسا؟ ” غفار بھی اب غصّے سے بولا۔
” تم کیا چاہتے ہو؟ میں اپنے بچے کو بھی اس گناہوں کی دنیا میں مرنے کے لیے چھوڑ دوں۔ اُس دنیا میں تمہارے ساتھ چل دوں جہاں مجھے ہر وقت اپنی اور اپنے بیٹے کی جان کی فکر کر رہے؟ وہاں چل دوں؟ ” وہ جواباً چلا اُٹھی۔
” ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ میں ہوں نا۔” وہ نرم پڑا۔
” ہاں !! تم ہو۔۔۔ تم ہی تو ہو، جو نہ جانے کتنے بچو کو یتیم اور لاوارث کرتا آیا ہے۔ کبھی سوچا ہے؟ تمہاری اولاد پھر کیسے محفوظ رہے گی؟ ”
” آئمہ میں۔۔۔”
” نہیں غفار !! اسی وجہ سے میں چار سال پہلے بنا بتائے تم سے الگ ہوئی تھی، کیونکہ تم یہ سب چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے اور میں اپنے بچے کو ایسی زندگی نہیں دینا چاہتی تھی۔ ایک گناہ پہلے ہی کر چکی تھی، تم سے تعلق قائم کر کے اور مزید تمہارا ساتھ نہیں دینا چاہتی۔ سمجھے؟ ” وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔
” اور اگر میں یہ سب چھوڑ دوں تو کیا تب میرے ساتھ چلو گی؟ ” غفار نے ایک آس سے پوچھا۔
آئمہ حیرت سے سامنے کھڑے مرد کو دیکھنے لگی۔
کتنی منتیں کی تھیں اس کی کہ چھوڑ دے یہ سب مگر وہ تب کردم دادا کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھا اور اب وہ خود اس کے سامنے کھڑا چھوڑنے کی باتیں کر رہا تھا۔ ” کیا اولاد کی محبت اتنی ہی زورآور ہوتی ہے؟ جو کام کرنے کا انسان کبھی تصور نہیں کرتا۔ اولاد کی محبت وہ تک کرا جاتی ہے۔” وہ سوچ کر رہ گئی۔
” میں کچھ پوچھ رہا ہوں۔” اسے خاموش کھڑا دیکھ وہ پھر بولا۔
” تب میں ایک لمحہ نہیں لگاؤ گی۔ تمہارے ساتھ چلنے میں۔” وہ مضبوط لہجے میں بولی۔
” ٹھیک ہے اب میں تمہارے پاس تب ہی آؤں گا، جب یہ سب چھوڑ دوں گا۔ تب تک اپنا اور ہمارے بیٹے کا خیال رکھنا۔”
وہ کہتا ہوا اس کے ماتھے پر محبت بھرا لمس چھوڑتا وہاں سے چلا گیا۔ آئمہ نم آنکھوں سے اسے دور جاتے دیکھتی ہوئی بڑبڑائی۔
” جو میں نہ کر سکی وہ تم نے کردیا بیٹا۔”
۔*****************۔