کیا تمہیں یقین ہے یہ ایسے ہی بننا تھا؟
یہ ہمارے بچے کا پہلا سویٹر ہے۔
سمارا یہ انسان کے بچے کے لئے کم اور اوکٹوپس کے بچے کے لئے زیادہ لگ رہا ہے۔
اور ٹھیک ہی تو کہ رہا تھا وہ نجانے اس میں سے کتنی ہی ٹانگیں نکل رہی تھیں۔
اس کے تاثرات اور بات سن کر سمارا بے اختیار ہسنے لگی۔
۔۔۔
آخر کار وہ دن بھی آ گیا کہ سمارا کی جان اس مسلسل آرام سے چھوٹ گئی۔
ڈاکٹر نے عون کو سمجھایا کہ سمارا کو جسمانی نہیں ذہنی آرام کی ضرورت ہے۔
عون میں مثبت تبدیلی آنے لگی تھی مگر وہ کب تک برقرار رہتی اس کا فیصلہ آنے والے وقت نے کرنا تھا۔
عون اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ایک اور عون مرزا پیدا ہو۔
اس وقت وہ آفس میں جرنل پڑھ رہا تھا جب کرسٹوفر آیا۔
کیا تم جانتے ہو ہمارے نئے پراجکٹ کے بلیو پرنٹ چوری ہو گئے ہیں۔
آہاں۔۔۔
یہ کوئی معلومی بات نہیں ہے عون۔
تم دیکھ لو کیا مسئلہ ہے اس نے لاپرواہی سے کہا۔
عون یہ کیا ہو گیا ہے تمہیں۔ بلیو پرنٹس چوری ہو گئے اور تمہیں پرواہ ہی نہیں۔
مجھے یہ بتاؤ کون سا رنگ اچھا لگے گا نرسری میں۔ جو کہ لڑکی اور لڑکے دونوں کے لئے اچھا ہو۔
کرسٹولی
اس کی شکل دیکھتا رہا اور پھر بڑبڑاتے ہوئے باہر چلا گیا۔
عون اور سمارا مل کر کمرے کے ساتھ اٹیچ سیٹنگ روم کو نرسری میں بدل رہے تھے۔
لیکن اب وہ سوچنے لگا کہ انہیں پینٹ ہاؤس واپس شفٹ ہو جانا چاہئیے۔کیونکہ وہ شہر کے وسط میں تھا۔
جبکہ گھر سے ہوسپٹل پہنچنے میں ایک گھنٹہ درکار تھا۔
اسے یاد آیا کہ آج سمارا کو ڈاکٹر کے پاس جانا تھا۔
ڈیےگو کو اس نے فون کر کے سمارا کو لانے کا کہا۔ اور خود بھی ہوسپٹل جانے کی تیاری کرنے لگا۔
۔۔۔
سمارا ڈیےگو کے ساتھ گاڑی میں موجود تھی۔ مگر اس کا دھیان کہیں اور ہی تھا۔
عون اس سے محبت کا دعویدار تھا لیکن پھر بھی اس پہ ظلم کرنے میں نہیں کتراتا تھا۔ کیا وہ اپنی اولاد کے ساتھ بھی ایسا کر سکتا ہے یہ سوچ کر اس کا وجود کانپ اٹھا۔
یہ سوچ اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی۔
وہ انھی خیالوں میں گم تھی جب ایک وین نے ان کی گاڑی کو زوردار ٹکر ماری
ٹکر سے ان کی گاڑی سڑک سے اترنے لگی اور سمارا بھی جھٹکے کی وجہ سے سیٹ پر سے گر گئی۔
ڈیےگو نے گاڑی کو بمشکل سنبھالا
سینورا جلدی کریں اور سیٹ بیلٹ لگا لیں
سمارا خود کو سنبھالتی سیٹ پر بیٹھی اور اور بیلٹ لگا لی
________
یہ کون ہے ڈیےگو اور ایسا کیوں کر رہا ہے۔
وین مسلسل گاڑی کو ٹکر مارنے کی کوشش کر رہی تھی جسے ڈیےگو تیز رفتاری سے بھگا رہا تھا۔
میں نہیں جانتا سینورا ۔ آپ اپنی پکڑ مضبوط رکھیں۔
اس کی آواز میں پریشانی نمایاں تھی۔ جس نے سمارا کو مزید خوفزدہ کر دیا۔
وین ان کی گاڑی کو سائیڈ سے ٹکر مارنے کی کوشش کرتی مقصد ان کی گاڑی کو سڑک سے اتارنا تھا۔
ڈیےگو نے اس کی مزید دو کوششیں ناکام بنا دیں لیکن تیسری بار اس وین نے زور دار ٹکر سے انہیں سڑک سے اتار دیا۔
ان کی گاڑی ڈھلان سے الٹتی ہوئی نیچے گئی اور درختوں سے ٹکر کھا کر رک گئی۔
۔۔۔
سمارا کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ اور بہت دباؤ بھی محسوس کر رہی تھی۔
نیم بےہوشی میں اسے مسلسل پانی کے ٹپکنے کی آواز آ رہی تھی۔ اس آواز نے اسے اپنی حالت سے نکلنے میں مدد کی۔
اس کی دائیں آنکھ اور اسی سائیڈ پر چہرے میں درد ہو رہا تھا۔ اور وہ گاڑی میں سیٹ بیلٹ کی وجہ سے الٹا لٹک رہی تھی۔
اس نے بمشکل ڈیےگو کو پکارا۔
جیسے جیسے اس کے ہواس سنبھلے اسے پتا لگا کہ وہ آواز پانی کی نہیں بلکہ ڈیےگو کے سر سے ٹپکتے خون کی تھی۔
اس نے آگے بڑھ کے اس کے بےجان وجود کو ہلانا چاہا پر ایسا نہیں کر پائی۔
وہ خود کو کانپتے ہاتھوں سے آزاد کرانے لگی۔
کئی بار کی کوشش کے بعد آخر اس نے بندھی ہوئی بیلٹ کھول لی۔
ڈیےگو ڈیےگو اٹھو نا پلیز۔
وہ ڈیےگو کو ہلا کر اسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھی جب گاڑی سے اٹھتا دھواں سانس لینے میں دشواری کرنے لگا۔
انہیں گاڑی سے جلد نکلنا تھا ورنہ جلد ہی لگنے والی آگ یا دھویں سے وہ مر جاتے۔
اس نے ڈیےگو کو ہوش میں لانا چاہا پر اس کا بہت سارا خون بہ چکا تھا۔
وہ یہی کوشش کر رہی تھی جب کسی نے اس کی سائیڈ کا شیشہ توڑ دیا اور اسے ٹانگوں سے پکڑ کر کھینچنے لگا۔
خود کو چھڑوانے کی کوشش کے دوران شیشے نے اس کی ٹانگ کو کاٹ دیا۔
ڈیےگو ڈیےگو رکو ۔نہیں۔۔۔ چھوڑو مجھے۔
وہ شخص اسے گاڑی سے دور لے جانے لگا اور گاڑی میں لگی آگ نے شدت اختیار کر لی۔
ہوش کھونے سے پہلے آخری منظر اس نے ڈیےگو کے جلتے وجود کا دیکھا تھا۔
________
وہ کب سے ہوسپٹل میں ان کا انتظار کررہا تھا۔اب تک تو انہیں پہنچ جانا چاہئیے تھا۔
ڈیےگو کے نمبر پہ کئی بار کال کر چکا تھا پر کوئی جواب نہیں۔
اپنے سر میں ہاتھ پھیرتا کافی پریشان دکھ رہا تھا۔
گھر فون کیا تو شارلٹ کا کہنا تھا کہ وہ کافی دیر سے گھر سے نکل چکے تھے۔
آخر اس نے خود گھرجانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ابھی کار سٹارٹ ہی کی تھی جب کسی نمبر سے کال آئی۔
ہیلو۔
کیا میں مسٹر عون سے بات کر رہا ہوں۔
یس۔
میں آفیسر جارج بات کر رہا ہوں سر آپ کے لئے ایک بری خبر ہے۔
کیا مطلب ہے آپ کا۔
آپ سٹی ہوسپٹل آ جائیں ہم وہیں بات کرتے ہیں۔
آپ مجھے بتائیں کہ کیا مسئلہ ہے میں ایک مصروف شخص ہوں۔
اس کا خوف اب اور بڑھ گیا تھا۔ کہیں سمارا کو تو کچھ نہیں ہو گیا۔
آپ کی گاڑی کا ایکسیڈینٹ ہوا ہے وہ ہمیں جلتی ہوئی حالت میں ملی۔
اس کا دھیان فورأ ڈیےگو اور سمارا کی طرف گیا۔
میری بیوی میری بیوی کیسی ہے۔
آپ جلدی سے یہاں آ جائیں پھر بات ہو گی۔
یہ کہ کر اس نے فون کاٹ دیا۔
عون کو نفرت تھی خود کو بےبس محسوس کرنے سے۔
اور اب وہ بےبسی ہی بے بسی محسوس کر رہا تھا۔
۔۔۔
وہ بیس سال کا تھا اور بہترین یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا۔ اسے اپنی ماں سے دور رہتے پانچ سال ہو گئے تھے۔
وہ ایک بچے سے ایک نوجوان بن گیا تھا۔
لیکن لاشعور میں وہ ابھی بھی اس کا قیدی تھا۔
اسے پتا لگا تھا کہ اس کی ماں نے خودکشی کر لی ہے۔
ڈیےگو کا کہنا تھا کہ اسے فریحہ کا جنازہ کروانا چاہئیے۔
اس کی لاش گورنمنٹ کے قبضے میں تھی۔ اور کوئی وارث نا پا کر اس کا اشتہار دیا گیا تھا۔
عون کو لگ رہا تھا کہ یہ اس کی ماں کا کھیل ہے۔ وہ اسے دبارہ حاصل کرنے کے لئے ایسا کر رہی ہے۔
عون کو اس عورت سے کچھ تعلق نہیں رکھنا تھا۔
وہ پہلے سے زیادہ بے چین رہنے لگا۔
اور روز ہی چیختے ہوئے جاگنے لگا۔
اس کے روم میٹ کو لگ رہا تھا وہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا ہے۔
آخر اس نے اپنی ماں کا سامنہ کرنے کی ٹھان ہی لی۔
وہ واقعی مر چکی تھی۔ عون کو یقین نہیں ہو رہا تھا۔
وہ سامنے اس کی لاش دیکھ کر بھی یقین نہیں کر پا رہا تھا۔
آخر اسے دفنا دیا گیا۔
اسے لگتا تھا کہ یہ ایک دھوکہ ہے بس نظروں کا دھوکا۔
اپنے دل کو تسلی دینے وہ دبارہ رات میں قبرستان آیا اور قبر کھودنے لگا۔
موسم خراب تھا اس لئے وہ جانتا تھی کہ ایسے میں کوئی یہاں نہیں آئے گا۔
_______
آخر اس نے قبر مکمل طور پر کھود لی اور اس لاش کو دیکھنے لگا۔
آسمان اس پر بارش برسانے لگا تھا وہ پانی اور کیچڑ سے لاپرواہ اسے دیکھنے لگا۔
آخر کار اخرکار وہ آزاد تھا۔ اونچی اونچی ہسنے لگا اور پھر چلانے۔
۔۔۔
وہ ہوسپٹل پہنچا تو اسے پتا لگا کہ گاڑی میں ایک شخص ملا تھا۔
گاڑی سڑک سے اتر گئی تھی۔ اور اس شخص کی چوٹ سے جان چلی گئی۔
اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ سمارا تو نہیں پر وہ ڈیےگو تھا۔
اس کا آدھا وجود بعد میں لگنے والی آگ سے جھلس گیا تھا۔
وہ فوری طور پہ دماغی چوٹ سے مر گیا تھا۔
عون کو افسوس تھا اسے یاد نہیں پڑتا تھا اتنا دکھ اس نے کب محسوس کیا تھا۔
ڈیےگو اس کے لئے بہت اہم تھا۔
لیکن ابھی اسے سمارا کو ڈھونڈنا تھا۔ کہیں وہ دوبارہ تو نہیں بھاگ گئی یہ سوچ کر اس کی رگیں تن گئیں۔
اسے اس کے اس عالم سے فون کی بجتی بیل نے نکال لیا۔
لیکن اس فون پر اس کی جس سے بات ہوئی اس کے بعد اس کی انکھوں میں خون اتر آیا۔
اسے ایسا نہیں کرنا چاہئیے تھا بلکل بھی نہیں۔
۔۔۔
سمارا کب تک اس اندھیرے میں گھومتی رہی وہاں سے نکلنے کا اسے کوئی راستہ نہیں دکھ رہا تھا۔
اچانک اسے کتوں آواز ائی وہ اس آواز کی مخالف سمت بھاگنے لگی۔
آخر اسے روشنی کی ایک کرن دکھائی دی۔
وہ اس کرن کی طرف بڑھنے لگی۔
۔۔۔
جب وہ ہوش میں آئی تو اس کا سر اور چہرہ اسی طرح سے درد کر رہا تھا۔
وہ یاد کرنے لگی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ شاید اس کا چہرہ اور سر حادثے کے وقت کسی چیز سے ٹکرایا تھا۔
اس نے بمشکل اپنی آنکھیں کھولیں۔
وہ کسی عجیب جگہ پر تھی۔ کوئی شخص اس کے ایک دم سامنے کھڑا تھا۔
سمارا نے ہلنا چاہا پر اس کے ہاتھ اور پاؤں بندھے تھے خوف سے اس نے اپنے اطراف کو سمجھنے کی دبارہ کوشش کی۔
اس کے اوپر کھلا آسمان تھا جو کہ لگتا تھا کسی بھی لمحے برس پڑے گا۔
جب اس سمجھ آئی کہ وہ کہاں ہے تو اسے حواس کھوتے ہوئے محسوس ہوئے۔
اس کے اردگرد مٹی کی دیواریں تھیں۔
سمارا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
وہ ایک قبر میں تھی۔
اور وہ شخص ہستے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔
کون۔۔۔کون ہو تم۔
سمارا نے ہمت سے پوچھا۔
تمہیں اس کی فکر نہیں کرنی چاہئیے ویسے بھی کچھ مرنے ہی والی ہو۔
سمارا کا حلق کڑوا ہو گیا تھا۔
ویسے یہ سب تمہارے شوہر کا قصور ہے۔ اگر وہ مجھ سے میرا سب کچھ نہیں چھینتا تو تم محفوظ ہوتی۔
___
محفوظ۔۔۔۔محفوظ ہونا کیا ہوتا ہے اسے اب یاد بھی نا تھا۔
مجھے جانے دو ۔ اگر عون تم تک پہنچ گئے تو وہ تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔
عون جیسا بھی تھا لیکن وہ یہ جانتی تھی کہ وہ اس وقت اسے ڈھونڈ رہا ہوگا۔ اور اگر اس شخص تک پہنچ گیا تو نجانے اس کا کیا حال کرے گا۔
چھوڑ دوں گا اگر مجھے وہ سب دے دے جو میں چاہتا ہوں۔ ویسے بھی وہ یہاں پہنچنے والا ہوگا۔
سمارا آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی۔ عون یہاں آ رہا تھا۔
اس نے عون کو یہاں بلایا تھا۔ کیا اسے اپنی بان عزیز نہیں۔
نجانے دن کا کونسا وقت تھا بدلوں نے ہو طرف اندھیرا کر رہا تھا۔
ان کی گرجنے کی آواز سمارا کو مزید خوفزدہ کر رہی تھی۔
اور اگر اس نے میری خواہش پوری نہ کی تو تم یہاں سے زندہ نہیں جاؤ گی۔
سمارا پر جھکتے ہوئے اس نے کہا اور پھر اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
سمارا خود کو آزاد کروانے کی کوشش کرنے لگی اس کے ہاتھ اس کے سر کے اوپر بندھے تھے۔
سمارا نے انہیں اپنے منہ تک لانا چاہا لیکن رسی کسی چیز سے بندھی تھی جس سے وہ ہاتھ نیچے نہیں کر پا رہی تھی۔
اس نے ٹانگیں کھینچنا چاہیں پر وہ بھی بےسود۔
سمارا نے ہاتھوں سے محسوس کرنا چاہا کہ وہ کس سے بندھی ہے لیکن رسی شاید قبر سے باہر جا رہی تھی۔
۔۔۔
پابلو اب قبرستان کے قریب موجود پہاڑی پر اس کا انتظار کر رہا تھا۔
اس نے عون کو پیسے اور ہوٹل کے کاغذات لانے کا کہا تھا۔
وہ کافی عرصے سے عون اور اس کی بیوی کے آنے جانے پہ نظر رکھے تھا۔
اور آخر کار آج اپنے منصوبے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
بارش ہونا شروع ہو گئی تھی اور اس میں شدت آنے لگی تھی۔
اس نے عون کی بیوی کا سوچا اور مسکرانے لگا۔
لگتا ہے قدرت بھی اسے زندہ رکھنا نہیں چاہتی۔
اسے ایک دم درختوں کے پاس کوئی سایہ دکھا۔
وہ سایہ اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔
پابلو نے اپنی گن نکالی اور اس کی طرف کر دی۔
عون میں جانتا تھا تم ضرور آؤ گے۔
میری بیوی کہاں ہے۔
وہ پابلو کو کئی گھائل شکاری کی طرح لگا۔ جو کہ اپنا آخری داؤ آزمانے کے لئے تیار تھا۔
اتنی جلدی بھی کہاں ہے پہلے مجھے دیکھنے تو دو کہ جو میں نے کہا تھا تم وہ لائے ہو۔
عون نے ہاتھ میں پکڑا ہوا بریف کیس اس کی طرف اچھال دیا۔
جیسے ہی پابلو اسے اٹھانے کے لئے جھکا عون نے اس کو کلائی سے پکڑتے ہوئے بازو کو پیچھے کی طرف گھما دیا۔
جس سے گن ہاتھ سے گر گئی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...