ایگزام سے فارغ ہو کر ایمل نے زیان سے ڈرائیونگ سیکھ لی اب تو اسے پر لگ گئے تھے وہ سارا دن گاڑی کیساتھ غائب رہتی ۔رابی کچھ بولتی تو شاہ زیب اسے یہ کہہ کر چپ کروا دیتا کہ “ایک ہی تو بیٹی ہے ہماری” مگر اسکا دل ایمل کیطرف سے بہت پریشان تھا۔
میٹرک کا رزلٹ اسکا شاندار رہا تھا اور اسے شہر کے بڑے کالج میں ایڈمیشن بھی مل گیا تھا وہ اپنی گاڑی لے کر کالج جاتی تھی۔
وہ کلاسس اٹینڈ کر کے کیفے ٹیریا آگئی برگر اور مینگو جوس لے کر وہ کرسی پر بیٹھ گئی اور برگر چٹنی میں ڈبو ڈبو کر کھانے لگی تبھی کالج کا سینئر جنید وہاب اس کے پاس آیا
ہیلو۔ کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں۔ وہ اس کے بلکل سامنے کھڑے بیٹھنے کی اجازت مانگ رہا تھا
بیٹھ جاؤ۔ وہ جوس کا گھونٹ بھرتے ہوۓ بولی
جنید اسکے سامنے بیٹھا تھا مگر وہ بے نیازی سے برگر سے انصاف کرتی رہی۔ ریپر وغیرہ ڈسٹ بِن میں ڈال کر وہ کیفے سے باہر نکلی۔اس کے پیچھے جنید بھی باہر آیا تھا۔
ہیلو میڈم بات تو سنو۔
پہلی بات یہ کہ میں میڈم نہیں اسٹوڈنٹ ہوں اور دوسری بات جو کہنا ہے جلدی کہو۔وہ دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر گویا ہوئی پل بھر کے لیے جنید کے ہونٹوں پر مسکراہٹ چھا گئی
کوئی لطیفہ سنایا ہے میں نے۔وہ تو اسکی ہنسی دیکھ کر جل بھن گئی
نہیں۔کہنا یہ تھا کہ آپ سے دوستی کرنی ہے۔ جنید نے جلدی سے کہا
واہ کتنی آسانی سے کہہ دیا دوستی کرنی ہے شکل دیکھی ہے اپنی؟ اگر میں نے بھائی کو بتا دیا نا تو ٹانگیں توڑ کر گلے میں لٹکا دینگے۔وہ بپھر گئی تھی
بات میں نے منہ سے کہی ہے اور تڑواؤ گی ٹانگیں۔وہ اسکی باتوں کو انجواۓ کر رہا تھا اس بار وہ کچھ بولنے کی بجاۓ اسے غصے سے گھورتی رہی
تمہارا بھائی توپ چیز ہے کیا جو ٹانگیں توڑ دے گا میری۔جنید نے اسکے غصے میں اضافہ کیا
ہمت ہے نا تو کل ادھر ہی ملنا۔ یہ جو دانت باہر نکلے ہوۓ ہیں نا اندر کو دھنس جائیں گے۔ وہ پاؤں پٹختی اپنے ڈیپارنمنٹ کیطرف بڑھی مگر اسکا قہقہہ وہ سن چکی تھی۔
گھر آکر وہ بے چینی سے زیان کا انتظار کرنے لگی اور جب وہ آیا بھاگتی ہوئی اسکے گلے لگ گئی
بھائی آج آپ نے دیر کر دی۔اس نے اسکے گلے میں بازو ڈال کر شکوہ کیا
اوں ہوں لگتا ہے میری ایمی کو آج شدت سے میرا انتظار تھا۔وہ اسکے لاڈ اٹھاتے ہوۓ بولا
کل آپ میرے ساتھ کالج جائیں گے تیار رہیے گا ہاں۔ وہ اسکے ساتھ لگی لاؤنج میں آئی
کیوں بھئی میں کس لیے چلوں؟ وہ حیران ہوا
بس کل معلوم ہوجائیگا۔ وہ منہ بسور کر بولی
اچھا میں فریش ہو آؤں۔ وہ اسے چھوڑتا اپنے بیڈ روم کیطرف بڑھا۔
ایمل۔ رابی جو کب سے کھڑی انہی کو دیکھ رہی تھی اسے آواز دی
جی ممی۔
میرے کمرے میں آو۔ وہ غصہ کنٹرول کرتے ہوۓ بولی اسے ایمل کا اسطرح زیان کے ساتھ لپٹنا گلے لگنا بالکل پسند نہیں تھا۔یہ بات ایمل کے سوا سبھی جانتے تھے کہ زیان اسکا بھائی نہیں کزن ہے۔
بولیے۔ وہ اسکے کمرے میں آکھڑی ہوئی
کتنی بار بیٹا منع کیا ہے اسطرح بھائی سے لپٹتے نہیں ہیں تم اب بڑی ہو گئی ہو چھوٹی سی بچی نہیں ہو۔ رابی نے اسے نرمی سے سمجھایا
او ہو ممی وہ میرے بھائی ہیں اور میری سب کلاس فیلوز اپنے بھائی سے ایسے ہی ریکٹ کرتی ہیں۔اس نے رابی کی بات کو ہلکا لیا تھا
مگر بیٹا وہ ہے تو ایک مرد ہی۔ رابی نے اسے سمجھانا چاہا
مگر وہ میرے تو بھائی ہیں آپ کے ذہن میں نہ جانے کیا چلتا رہتا ہے ممی۔ اسکا موڈ بن چکا تھا وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی۔
۞۞
اگلے دن وہ زیان کو لے کر کالج گئی تھی۔اسے سامنے ہی وہ شخص نظر آگیا تھا جس سے اسکی لڑائی ہوئی تھی۔
وہ رہا بھائی بندر۔ اسنے انگلی سے جنید کیطرف اشارہ کیا۔وہ زیان کو لے کر اسکی طرف بڑھی۔
ارے جنید۔ زیان اور وہ بغل گیر ہو گئے جب کے وہ منہ کھولے حیرت سے انہیں دیکھ رہی تھی۔
آپ اس شخص کو جانتے ہیں بھائی۔ وہ مراقبے سے نکلی
ارے یہ میرا بہترین دوست رہ چکا ہے اور آج ملا ہے۔ زیان نے خوشی سے بتایا
خبر دار جو اسے دوست کہا تو۔ یہ کل آپ کے بارے میں۔برا بھلا بول رہا تھا۔ ایمل نے جنید کیطرف غصیلی نظر سے دیکھا اور زیان کا بازو پکڑ کر اسے کھینچنے لگی
کیا ہو گیا ایمل جاؤ کلاس میں۔ میں واپس جا رہا ہوں۔ زیان کو غصہ آگیا تھا اسے ایمل سے اسطرح کی بدتمیزی کی نہیں توقع تھی۔
ایمل زیان کو غصے میں دیکھ کر پاؤں پٹختی اپنے ڈیپارنمنٹ کی طرف بڑھ گئی وہ جانتا تھا ایمل ناراض ہو چکی ہے۔مگر وہ اسے نظرانداز کر کے جنید کیطرف متوجہ ہو گیا۔
مگر شام کو زیان نے اسے آئس کریم کھلانے کا لالچ دے کر منا لیا تھا وہ اپنی جان سے عزیز بہن سے زیادہ دیر ناراض نہیں رہ سکتا تھا۔
۞۞
وہ بیڈ پر اپنی کتابیں پھیلاۓ نوٹس بنا رہا تھا اور ساتھ نمکو اور چپس سے بھی پورا پورا انصاف کر رہی تھی تبھی دروازہ ناک کر کے رابی اندر داخل ہوئی۔
کیا کر رہی ہے ماما کی گڑیا۔ رابی نے پیار سے کہا
اسٹڈی کر رہی ہوں ماما۔ وہ رابی کو کبھی ماما کہتی تھی اور کبھی ممی۔
کل ایک پارٹی پر جانا ہے سوچا تمہیں بھی ساتھ لے چلوں گی۔ رابی نے کہا
ایمل تو ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتی تھی ایک دم سے اچھل پڑی
کہاں ماما۔
منان نے قراٰن مجید ختم کر لیا ہے نا اس سلسلے میں حرا کے سسرالیوں نے تقریب رکھی ہے کل تو سنڈے ہے تم بھی چلنا اگر موڈ ہوا تو۔ رابی نے اسے تفصیل سے بتایا
کچھ سوچتے ہوۓ اس نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ربیکا کا دل ایمل کیطرف سے ہر وقت خوف سے لرزتا رہتا تھا وہ حد سے زیادہ پر اعتماد تھی اور معصوم بھی۔اچھے برے کو سمجھتی ہی نہیں تھی شاید یہ سب کا لاڈ پیار تھا۔
۞۞
اگلے دن وہ رابی کیساتھ تقریب میں آئی تھی۔لان کے پنک اور وائٹ قمیص شلوار میں وہ بہت حسین لگ رہی تھی۔سب رشتہ داروں سے مل کر وہ ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔
زرق برق لباس پہنے ہنستی کھلکھلاتی اردگرد گھوم رہی تھی۔کہیں سے بھی یہ نہیں لگ رہا تھا کہ یہ ختمِ قراٰن پاک کی تقریب ہے اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے شادی کے فنکشن میں آئی ہے۔حرا خود بھی چمکتا دمکتا لباس پہنے مہمانوں کو ریسیو کر رہی تھی
اسکے عقب میں چند عورتیں اور ناصرہ بھی بیٹھی ہوئی تھی۔تبھی ان میں سے ایک عورت بولی
“یہ رابی کی بیٹی ہے نا ماشاءاللہ جوان ہو گئی ہے” اسکے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ چھا گئی
“ایک بیٹا بھی ہے اسکا” وہی عورت پھر بولی
“نہیں ایک ہی بیٹی ہے اسکی” ناصرہ نے جواب دیا تھا۔ایمل کے چہرے کا رنگ بدلا تھا
“مگر میں نے تو سنا ہے اسکا بیٹا بھی ہے اس سے بڑا” دوسری عورت بھی بولی تھی نہ جانے یہ عورتیں کیوں دوسروں کی بات پر دھڑادھڑ تبصرے کرتی ہیں۔
“ارے کہاں وہ تو اسکے مرحوم دیور کا بیٹا ہے وہ تو بڑاپن ہے ربیکا کا جو اسے بیٹی سے بھی زیادہ اہمیت دیتی ہے”ناصرہ کے الفاظ نے اسکے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا
“منگنی وغیرہ کر دی ہے یا ابھی نہیں کی”اب ایک اور سوال داغا گیا تھا جس کے جواب میں ناصرہ نے جو بات کہی ایمل کے اوساں خطا کرنے کے لیے کافی تھی
“ابھی تو کہیں بات نہیں ہوئی، گھر میں جوان بیٹی ہے اسکی مجھے لگتا ہے وہ زیان کا رشتہ اپنے گھر ہی کرے گی۔لڑکا گھر میں ہوتے ہوۓ وہ کیوں کہیں اور لڑکی بیاہے گی” لہجہ زہر سے بھی زیادہ کڑوا تھا
وہ تیزی سے اٹھ کر رابی کے پاس آئی
ماما میں گھر جا رہی ہوں۔
او کیا ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری؟ رابی کو پریشانی ہوئی تھی مگر وہ اس وقت جواب دینے کی پوزیشن می نہیں تھی
ڈرائیور کو بھین دونگی آپکو پک کر لے گا۔ وہ یہ کہہ کر رابی کو حیران پریشان چھوڑ کر باہر نکل گئی تھی۔
۞۞
وہ رش ڈرائیونگ کر کے گھر پہنچی تھی ڈرائیور کو رابی کا پک کرنے کا کہہ کر وہ کمرے میں آگئی۔اسکا دماغ درد سے پھٹا جا رہا تھا اس نے تو کبھی ایسا سوچا بھی نہیں تھا کہ زیان اسکا بھائی نہیں کزن ہے۔
وہ منہ بازوں میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی “ایسا نہیں ہو سکتا نانو جھوٹ کہہ رہی تھی”
“مگر وہ جھوٹ کیوں بولیں گی مجھے جاننا چاہیے اتنا بڑا سچ مجھ سے کیوں چھپایا گیا”
اس نے پاس پڑا موبائل اٹھا کر دیوار پر مارا
“ماما بھی تو زیان بھائی سے گریز کرنے کا کہتی ہیں کوئی نا کوئی بات تو ہے” اسے رابی کی بات یاد آئی
کئی وسوسے دل میں پیدا ہو رہے تھے۔
“کیا ہوا میرے چچا کا بیٹا ہے مگر۔۔۔۔”اچانک اسکے ذہن میں ایک خیال آیا وہ جھٹکے سے بیڈ پر سے اتری اور کمرے سے باہر نکل گئی.
_________
گھر میں اسکے سوا ابھی کوئی نہیں تھا وہ آہستگی سے چلتی ہوئی کریم یزدانی کے کمرے میں آئی۔اس حقیقت کو تسلیم کرنا اس کے لیے بہت مشکل تھا وہ سر کو ایک ہاتھ سے مسلتی دراز ٹـٹولنے لگی۔
“کاش نانو نے جھوٹ کہا ہو کاش” وہ دل میں مسلسل دعا کر رہی تھی۔دراز چیک کر کے وہ الماری کیطرف بڑھی ادھر اُدھر الماری میں تلاش کرتے ہوۓ تبھی اسکی نظر البم پر پڑی اسکی تلاش ختم ہو گئی تھی وہ البم لے کر اپنے کمرے میں چلی آئی
البم دیکھتے ہوتے اسکی نظر ایک تصویر پر ٹھہر گئی۔یہ تو زیان بھائی ہیں مگر یہ کیا چچا چچی ۔۔۔۔ وہ جلدی سے اٹھی اور سائیڈ ٹیبل سے فریم اٹھا کر تصویر کو میچ کرنے لگی۔
“یہ تو زیان بھائی ہی ہیں” اس نے باقی تصویریں دیکھی ہر جگہ زیان اس شخص کا ہاتھ پکڑے کھڑا تھا یا اس عورت کی گود میں ہوتا۔
اس نے واپس البم کریم یزدانی کے روم میں رکھا
میں ماما سے کیسے پوچھوں بھائی کے بارے میں؟ وہ کمرے میں ٹہلنے لگی یہ سوچ سوچ کر اسکا دل و دماغ غم سے پھٹنے لگا تھا کہ زیان اسکا بھائی نہیں ہے۔وہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
شام کو رابی آئی تو تب بھی وہ کمرے میں بند تھی۔رابی کو اسے بخار میں تپتے دیکھ کر تشویش ہوئی
“کیا ہو گیا ایمل میری جان” اس نے نرمی سے اسکے تپتے سر پر ہاتھ رکھا
“ابھی بابا کو کال کر کے بلاتی ہوں تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے چلیں” وہ سیل پر شاہزیب کا نمبر ڈائل کرنے لگی
نہیں ممی مجھے نہیں جانا۔ وہ بھاری آواز میں بولی
کیوں نہیں جانا بخار میں تپ رہی ہو تم۔اچھا میں کچھ کھانے کو لاتی ہوں کھا کر میڈیسن لے لینا۔ رابی اٹھ کر باہر چلی گئی۔
اس نے سختی سے آنکھیں بند کر لی۔
۞۞
شام کو گھر میں سبھی افراد موجود تھے سواۓ زیان کے وہ دوستوں کے ساتھ پکنک پر گیا ہوا تھا۔شاہزیب تو اسکی بیماری کا سن کر مچل گئے جلدی سے اسکے کمرے میں آۓ مگر وہ دوا کے زیرِ اثر سو رہی تھی۔اس کی تپتی پریشانی پر بوسے دے کر لاؤنج میں آۓ۔
آپ کو بتانا چاہیے تھا ربیکا۔میری بیٹی کو کچھ ہو گیا نا تو؟ اس سے آگے وہ سوچ ہی نہ سکا۔
“کچھ نہیں ہوگا شاہ، بچے بیمار ہوتے رہتے ہیں ٹھیک ہو جاۓ گی” رابی کے بجاۓ کریم یزدانی نے بات سنبھالی شاہزیب اس وقت غصے میں تھا کہ رابی نے اسے انفارم کیوں نہیں کیا اگر رابی کچھ الٹا سیدھا کہہ دیتی تو بات بڑھ جاتی۔
زیان کی کب واپسی ہو گی؟ وہ صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولا
رات کو آجاۓ گا۔ رابی نے اسکے لیے چاۓ لاتے ہوۓ کہا
ٹیبل پر چاۓ رکھ کر وہ بھی ادھر ہی بیٹھ گئی
ارے بابا ان کو کچھ سمجھائیں اب ضروری تو نہیں انسان ہر وقت صحت مند ہی رہے بیماریاں بھی تو آتی ہیں۔ رابی نے مسلسل اسکو پریشانی میں دیکھ کر کہا
میری تو سنتا نہیں ہے یہ۔ کریم یزدانی نے مسکراہٹ دبا کر کہا معلوم تھا وہ ناراضگی ظاہر کریگا اور وہی ہوا بھی
ارے بابا جانی کب آپ کی بات نہیں مانی شادی آپ کے کہنے پر تو کی تھی ورنہ ابھی میں کنوارا ہوتا۔ شاہزیب نے ناراض سے لہجے میں کہا
جس پر کریم یزدانی اور رابی کا مشترکہ قہقہہ بلند ہوا
۞۞
صبح اسکا بخار اتر گیا تھا مگر وہ کالج نہیں گئی شاہزیب رابی کو اس کا خیال رکھنے کی تاکید کر کے آفس چلا گیا تھا۔ زیان البتہ سو رہا تھا رات کو اسکی لیٹ واپسی ہوئی تھی۔
ایمل نے فریش ہو کر بلیک اور ریڈ لان کا سوٹ پہنا۔ لائٹ میک اپ کر کے وہ سب سے نظر بچا کر گاڑی لے کر باہر نکل گئی۔
رش ڈرائیونگ کر کے وہ سہیل احمد کے گھر پہنچی ابھی صبح کے دس بجے تھے وہ گاڑی سے اتر کر کے انکے گھر چلی گئی۔
گھر میں سواۓ ناصرہ بیگم کے کوئی نہیں تھا وہ خیریت پوچھ کر برآمدے میں بیٹھ گئی۔
نانو ابھی میں نے ناشتہ نہیں کیا۔وہ کچن میں اسکے لیے چاۓ بنا رہی تھی جب ایمل نے بلند آواز میں کہا
ناصرہ اسکے لیے گرما گرم ناشتہ بنا کر لائی۔اس نے کل سے کچھ خاص نہیں کھایا تھا اور بھوک بھی شدید قسم کی لگی ہوئی تھی۔اس نے جی بھر کر ناشتہ کیا
“بہت مزیدار قسم کا ناشتہ بنایا آپ نے۔اس نے آخری نوالہ منہ میں رکھتے ہوۓ کہا ناصرہ اسکی بات پر ہلکے سے مسکرا دی
ایک بات تو بتائیں نانو۔ وہ اپنے مطلب کی بات پر آئی جس کے لیے وہ صبح صبح یہاں چلی آئی تھی
ہاں ہاں پوچھو۔ وہ بھی اسکے ساتھ والی چئیر پر آبیٹھی۔
زیان بھائی ہمارے ساتھ کیوں رہتے ہیں جب وہ میرے بھائی نہیں ہیں تو؟
تم کیوں پوچھ رہی ہو؟ ناصرہ نے اسکے چہرے پر کچھ کھوجنا چاہا
ویسے میں نے کبھی ان کے ماما پاپا کو ادھر دیکھا نہیں نا۔ اس نے جلدی سے بہانا بنایا
ہاۓ کیا بتاؤں؟ بے چاروں کا احد کی شادی پر ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا اور موقع پر ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ناصرہ نے مصنوعی آنسو صاف کیے۔مگر تم کیوں پوچھ رہی ہو ربیکا نے کچھ نہیں بتایا تمہیں۔ ناصرہ کو اچنھبا ہوا۔
ارے ویسے ہی نانو۔ ماما نے بتایا تھا مگر مجھے یقین نہ آیا اس لیے آپ سے تصدیق کی۔ وہ کافی دیر بے معنی باتیں ان سے کرتی رہی اور پھر اٹھ کر گاڑی میں آ بیٹھی۔
کافی دیر وہ سڑکوں پر بے مقصد گاڑی دوڑاتی رہی گھر پہنچی تو لاؤنج میں رابی رو رہی تھی اور زیان پریشانی سے نمبر ڈائل کر رہا تھا۔
کیا ہوا؟ ایمل نے اندر آتے ہی پوچھا رابی نے آگے بڑھ کر اسے بانہوں میں بھینچ لیا
کہاں چلی گئی تھی تم اتنی پریشان ہو گئی تھی میں۔رابی نے اسے روتے ہوۓ جھنجوڑا
دل گھبرا رہا تھا تو باہر تازہ ہوا لینے۔ وہ بمشکل مسکرا سکی۔
دادا جان کہاں ہیں؟ اس نے کریم یزدانی کو وہاں نہ پاکر کہا
آفس گئے ہیں گھر بیٹھے بیٹھے تھک جاتے ہیں۔ رابی نے آنسو صاف کیے۔ تم ادھر ہی بیٹھو میں تم دونوں کے لیے ناشتہ لاتی ہوں۔
وہ رابی کو منع نہ کر سکی رابی اٹھ کر کچن کی طرف چلی گئی
کہاں چلی گئی تھی ایمی کی بچی؟ زیان اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوۓ بولا۔مگر وہ کچھ بول نہ سکی ایک ہی بات اسکے ذہن میں گونج رہی تھی۔
“گھر میں لڑکا ہوتے ہوۓ وہ کیوں لڑکی کیوں کہیں اور بیاہے گی”
اس کا دل زور سے دھڑکا اس نے جلدی سے زیان سے خود کو الگ کیا اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
تھوڑی دیر بعد ہی رابی ان دونوں کے لیے ناشتہ لے آئی زیان نے پیٹ بھر کر ناشتہ کیا مگر اس نے بےدلی سے ایک دو نوالے لیے کیونکہ وہ پہلے ہی ناشتہ کر چکی تھی۔
۞۞
اگلے چند دن اسے اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں لگے تھے نظر کا زاویہ بدل گیا تھا اور دل کچھ اور ہی سمجھنے لگا تھا۔
شام کا وقت تھا وہ لان میں جامن کے درخت کے ساتھ لگے جھولے پر بیٹھی زور زور سے جھولا جھول رہی تھی جب ہوا اسکے وجود سے ٹکراتی تو عجیب سی سرشاری بخشتی۔
“تو کیا ماما میری شادی زیان بھ۔۔۔”
وہ اس سے آگے سوچ ہی نہ سکی دل کسی اور ہی لے پر دھڑکنیں لگا تھا۔
“یہ بات ماما نے مجھ سے کیوں چھپائی” بہت سے سوال جو اسکے دل و دماغ سے اٹھ رہے تھے مگر وہ جواب دینے سے قاصر تھی۔
وہ کچھ دیر وہاں بیٹھ کر اپنے کمرے میں چلی آئی اتنے دنوں سے کالج کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا نہ بکس کھولی تھی اب وہ بیڈ پر کتابیں پھیلاۓ گزشتہ دنوں کا ہوم ورک کرنے لگی تھی۔
کیا کر رہی ہے میری ایمی۔ زیان نے کمرے میں جھانکا
کچھ نہیں بھ بھائی۔ نہ جانے کیوں ایمل کی زبان اسے بھائی کہتے ہوۓ لڑکھڑائی۔
طبیعت ٹھیک ہے نا؟ وہ اسکے پاس آیا اور بیڈ کی پائنتی بیٹھ گیا
جی ٹھیک ہے۔ اسکی سانسیں اتھل پتھل ہو رہی تھی اور ماتھے پر پسینہ امڈ آیا تھا
اچھا تم تو بزی ہو میں بعد میں آتا ہوں خبر لینے۔ وہ مسکراتا ہوا باہر نکل گیا ایمل نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اس نے پسینہ صاف کیا اور سانسیں بحال کرنے لگی
نہ جانے کیوں وہ زیان سے کترانے لگی تھی وہ جب بھی سامنے آتا اسے ناصرہ بیگم کی کہی ہوئی بات یاد آجاتی “لڑکے کے ہوتے ہوۓ وہ کیوں بیٹی کو کہیں اور بیاہے گی”
۞۞
آسمان پر ہلکے سیاہ بادل چھاۓ تھے وہ ٹیرس پر بھاپ اڑاتی چاۓ کا مگ تھامے مسلسل اس کی سوچوں میں گم تھی۔تبھی اسکی نظر دالان میں پیڑ کے نیچے کرسی پر بیٹھے زیان پر پڑی۔
“کیا ماما بھی ایسا چاہتی ہیں مگر انہوں نے مجھے کیوں نہیں بتایا” اس نے خود سے پوچھا مگر جواب ندارد۔
وہ نیچے زیان کے پاس آئی
ہیلو۔ وہ لہراتی ہوئی اسکے ساتھ والی کرسی پر بیٹھی وہ اسے بھائی کہنا چھوڑ چکی تھی۔
تمہاری ہی کمی تھی۔ وہ کتاب پڑھ رہا تھا جو اس نے ٹیبل پر رکھی۔
چلیں آئس کریم کھانے؟ ایمل نے بادلوں سے ڈھکے آسمان کو دیکھا
اس موسم میں، میں نہیں جا رہا۔ اس نے دوٹوک انداز میں کہا
اسی موسم میں تو مزہ ہے چلیں نا پلیز۔ وہ اٹھ کر اسکا بازو کھینچنے لگی مجبوراً زیان کو اٹھنا پڑا
اگر بیمار ہوئی نا تو میں ماما کو بتا دونگا۔ زیان نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہوۓ کہا
آپ بتائیں گے ماما کو۔ وہ اسکے ساتھ بیٹھتے ہوۓ بولی۔
ہاں۔بتا دونگا تم اپنے بھائی کی کوئی بات نہیں سنتی۔چھے سال بڑا ہوں تم سے ایمی۔ وہ ناراض لہجے میں بولا جبکہ اس کے “اپنے بھائی” کہنے پر ایمل کو سخت برا لگا وہ چپ ہو کر ونڈواسکرین سے باہر دیکھنے لگی۔
آئس کریم کھانے کے بعد ایمل نے لانگ ڈرائیو پر چلنے کی ضد کر دی۔
ابھی موسم بہت خراب ہو رہا ہے ایمی ضد نہ کرو۔ اس نے ایک نظر آسمان کو دیکھا کو بارش برسانے کو بے تاب تھا
اسی موسم کا تو مزہ ہے۔ ہلکی ہلکی بارش ہو آپکے پاس پسندیدہ شخص ہو اور بہت سی باتیں ہوں۔ وہ اک ادا سے بولی
تم نہیں سدھرو گی۔ اس نے غصے سے گاڑی اسٹارٹ کی جبکہ ایمل اسکے انداز پر کھلکھلائی۔
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے آپکو مجھ سے ذرا سا بھی پیار نہیں ہے۔ کوئی بات نہیں مانتے۔ایمل نے اسے دیکھتے ہوۓ کہا
زیان نے ایک جھٹکے سے گاڑی روکی اسکا سر ڈیش بورڈ سے لگتے لگتے بچا۔
“تم نے ایسا سوچا بھی کیوں؟ تم جان سے بھی عزیز ہو مجھے خبردار کبھی ایسا سوچا تو۔ وہ انگلی اٹھا کر اسے وارن کرتے ہوۓ بولا اور اسکے لبوں پر شرمیلی سی مسکراہٹ آگئی….♧
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...