اب جبکہ میں ایک طویل عمر گزار چکا ۱پنی سٹڈی میں آسودہ، پل پل اترتی شام کی آہٹ سنتا ہوں، سال خُوردہ سیاہ شیشم کی شاندار آرام کرسی میں نیم دراز، بڑے بڑے، شفاف شیشوں سے باہر کھڑکی پر سایہ کئے بوگن ویلیا اور جھُومر بیل کی شاخوں کو نرم ہوا سے جھُومتا دیکھتا ہُوں، جو باہر آنگن میں لگی رات کی رانی شام سے پہلے ہی جرعہ جرعہ خُوشبُو اُنڈیلنا شُرُوع کر دیتی ہے اور کمرے کے اندر ہونے کے باوجُود میرے مشام جاں کو مُعطر کئے دیتی ہے، ایسے میں نیم وا آنکھیں اور نیم خوابیدہ ذہن لئے سوچتا ہوں کیا میری سب سے شدید مُحبت وُہ تھی جو میری زندگی میں دیر سے آئی اور کبھی میری نہ ہو پائی؟کیا میری محبت کو دنیا کی نظر کھا گئی؟ کیا کوئی فیصلہ غلط ہو گیا تھا؟ کیا کوئی فیصلہ بہت دیر میں ہوا؟ کیا ایک نقصان قابل تلافی تھا اور دوسرا ناقابل تلافی؟ بہت سی سوچیں میری یاد کے گھوڑے کو دُلکی چال چلاتے ماضی کے صحراؤں کی بے أنت وسعتوں میں بھٹکاتی ہیں۔ میں تلخ کافی کا آخری گھونٹ نگل کر سگریٹ کے باقی ماندہ حصے کو ایش ٹرے میں مسل کر آنکھیں موند لیتا ہوں۔
میں رومان پسند تو تھا ہی سو کچی پکی محبت کے سچے جھوٹے جھولے اوائل عمر ہی میں جھول چکا۔ اگر باقی لڑکوں نے یہ سلسلے دسویں گیارہویں جماعت سے شروع کئے تو میں تب تک اس فن میں نیم استاد ہو چکا تھا۔ میری محبت بہت شدت سے شروع ہوتی اور بڑی سرعت سے یہ بخار مجھے جھلسا نے لگتا۔ یہ بھی سچ ہے کہ جس تیزی سے یہ ابال اٹھتا اسی تیزی سے بیٹھ جاتا۔ میری ان محبتوں کا دورانیہ چھ ماہ سے ایک سال کا ہوتا اور پھر میں پرانی منزل کو وقت کی دھول میں لپیٹ نئی منزل کے لئے کمر بستہ ہو جاتا۔ بس ایک منزل سر کر لیتا تو دوسری کا سبب نکل آتا۔ آپ مجھے ہرجائی بھی کہہ سکتے ہیں لیکن میری یہ مہمات فریق ثانی کو سوائے جذباتی دھچکوں کے کوئی جسمانی یا اخلاقی ضرر نہ پہنچاتیں۔
اسی خوش بختی کے جھولے جھولتا میں یونیورسٹی تک آپہنچا۔ اگرچہ عمر کے اس حصے میں نہیں تھا کہ تجربہ کار کہلاؤں لیکن بالفعل تھا گھاگ اور تجربہ کار۔
پھر یہ ہونی بیتی کہ عروج سے ملاقات ہو گئی۔ ہمیں قریب آتے آتے ایک سمسٹر گزر گیا۔ میں جو منازل ہفتوں بلکہ دنوں میں طے کیا کرتا تھا مہینوں میں بھی مکمل طے نہ ہو پا رہی تھیں۔ جانے کیوں ہر قدم پھونک پھونک کر، تسلی اور اطمینان سے اٹھ رہا تھا۔ دونوں طرف کوئی عجلت تھی نہ بے صبری۔
اسکی چھب، بانکپن، دلیری، بے تکلفی اور خود اعتمادی لئے غیرمعمولی چُلبلا پن مجھے ڈراتا تھا کہ اس کے ساتھ کچھ ہو گا۔ میں نظر لگ جانے وغیرہ جیسے توہمات کو نہیں مانتا لیکن مشاہدہ کا کیا کریں کہ میں نے ایسی غیر معمولی پروازوں کی ایسی ہی ہنگامی لینڈنگز دیکھی تھیں۔ میرا دل ڈرتا تھا کہ کبھی بھی کچھ ہو جائے گا اور دلی خواہش تھی کہ کچھ نہ ہو۔ جی چاہتا تھا کہ وہ یونہی یونیورسٹی کی راہداریوں، کیفے، کامن روم، لائبریری اور شاپنگ سنٹر میں چہکتی پھرے۔ مجھے نظر آتی رہے اور ایسی ہی نظر آتی رہے۔ میں نے نظر بد کا سن رکھا تھا لیکن مکمل طور پر قائل نہیں تھا۔ اس میں بھری شگفتگی اور چلبلاہٹ اس کی بے پرواہی، اعتماد اور بے نیازی بہت خاص تھی۔ وہ جدھر جاتی زندگی جلو میں ہوتی، میری نظریں تعاقب میں اور میرا دل مٹھی میں۔
“کبھی سنجیدہ ہو جایا کرو عروج” میں اپنے خوف کو چھپاتا ہوا اسے کہتا۔
“کیوں بھئی؟
“بس ایسے ہی”
“پھر بھی بتاؤ عاشر، کیوں بھلا؟تم جو مجھ سے بات کرتے ہوئے، ہنستے کھیلتے چپ ہو جاتے ہو۔ سوچ میں گم ہو جاتے ہو۔ بہت سنجیدہ ہو جاتے ہو۔ بلکہ غمگین سے نظر آتے ہو تو کیا وجہ ہے اس کی؟”
وہ پوچھتی تو مجھے کچھ جواب نہ سوجھتا۔ بس دل میں چھپا وسوسہ اپنے تک ہی رکھ لیتا۔ ہمارے تعلق کا ہمیں خود کچھ اندازہ نہ تھا کہ کیا ہے۔ دوستی ہے یا دشمنی۔ پیار ہے یا نفرت۔ بس واقفیت ہے اورساتھ ہونے کا اتفاق یا اس سے گہرا اور اس سے بھی سنجیدہ کچھ اور۔ بہرحال تھا کچھ۔ تھا کچھ خاص اور علیحدہ سا۔ کچھ تھا جو الجھاتا تھا اور پوری طرح سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ نہ کسی طرف لگتا تھا نہ جان چھوڑتا تھا۔ نہ دل اور دماغ میں واضح ہوتا تھا نہ زبان تک پہنچتا تھا۔ پتہ نہیں کیا۔ بہرحال یہ سچ تھا کہ ہم اک دوسرے کے بغیر زیادہ دیر رہ نہیں سکتے تھے۔ اگر ایک دن جھگڑا ہوتا تو دوسرے دن ہم میں سے کوئی بھی کل کی بات کو یاد نہ رکھتا اور صبح یونیورسٹی کی نیلی بس سے دو مختلف دروازوں سے نکل کر ہم مقناطیس اور لوہے کی مانند ایک دوسرے سے آ چپکتے۔
ہم دونوں میں کوئی خاص طبقاتی فرق نہیں تھا۔ دونوں متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ چھوٹے شہروں یا زیادہ بہتر طور پر کہوں تو قصبات سے بڑے شہر پڑھنے آئے تھے۔ دونوں کے خاندان مالی طور پر اتنے مستحکم تھے کہ ہمیں اچھے تعلیمی ادارہ کے ہاسٹل میں آسودگی سے رکھ سکتے تھے۔ معقول جیب خرچ مل جاتا تھا۔ زندگی بہت مزے سے کٹ رہی تھی۔ زندگی دلچسپ تھی۔
اُس دن موسم ابر آلود تھا۔ وسط مارچ کی خوشگوار نیم سرد ہوائیں نہر کنارے اونچے درختوں کی ہری شاخوں کو زور سے اور چھوٹے پودوں کی بھرپور سبز شاخوں کو نرمی سے جھلا رہی تھیں۔ بہار کے پھولوں کے رنگ برنگے تختے نظروں کو لبھاتے اور اُن کی خوشبو فضا کو معطر کئے دے رہی تھی۔
ہم دونوں نے یونیورسٹی بس میں لوگوں کے کاندھوں کے اوپر سے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارہ کیا اور ہوسٹلز کے بلاک شروع ہونے سے ایک سٹاپ پہلے اپنے اپنے دروازوں سے اتر گئے۔ آگے پیچھے چلتے ہم نے سڑک عبور کی اور گھاس کے میدان میں اتر گئے۔ پھولوں کے رنگوں سے سجے ہلکی ہلکی خوشبو میں بسے ماحول نے ہر سُو ایک نشہ سا پھیلایا تھا۔ ہم گھاس کے پلاٹ کے درمیان بنی پھولوں سے لدی کیاری کے پاس بچھی دو بینچوں پر آمنے بیٹھ گئے۔
“میرا رشتہ آیا ہے۔ بلکہ یہ کہنا بہتر ہو گا کہ ایک اور رشتہ آیا ہے۔”
اُس نے بڑی سہولت سے دھماکہ کیا۔
مجھے نہ خوشی ہوئی نہ غم۔
کچھ دیر کو ایک سناٹا سا چھایا۔
مجھے جو افسردہ سا احساس ہوا وہ بس اتنا ہی تھا کہ کوئی تیسرا آ جائے گا جو ہمارے بیچ ہو گا اور مجھ سے زیادہ اہم ہو گا۔
“کیا اُس تیسرے کی جگہ میں خود ہونا چاہتا ہوں کہ ہم دو ہی رہیں اور کوئی تیسرا بیچ میں نہ آئے؟”
میں نے خود سے سوال کیا۔
کوئی حتمی جواب نہ ملا۔
زیادہ سے زیادہ یہ احساس جاگا کہ میں موجودہ صورت حال سے آسودہ ہوں۔ اس میں تبدیلی کے تصور سے مجھے الجھن اور بے چینی سی محسوس ہو رہی تھی۔ بس اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
“عروج تم زندگی سے کیا چاہتی ہو؟
یا یہ سمجھ لو کہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ تم اپنی زندگی کو کیسا بنانا چاہتی ہو؟
کیسی زندگی گزارنا چاہتی ہو؟”
میں نے بظاہر بڑے پرسکون لہجے میں پوچھا۔
میرے اندر کا مد و جزر اندر ہی جذب ہو رہا تھا اور بیرونی لہریں شانت تھیں۔
اُس نے میری طرف متوجہ ہونے کی بجائے نظریں دور کہیں گاڑے رکھیں جہاں غالبا وہ کچھ بھی نہیں دیکھ رہی تھی۔
جذبات سے خالی مُردہ اور رُوکھی لیکن قطعیت سے معمور آواز میں بولی،
“عاشر زندگی ایک حقیقت کا نام ہے۔
رومانویت نہر کنارے روتے ویپنگ ولوز کی لٹکتی نوحہ خواں شاخوں کی نرمی سے چپکی تراوٹ سے نم ادھر ہی معلق رہ جائے گی۔ باقی بچیں گی سنگلاخ زندگی کا بے مہر نوحہ پڑھتی ننگی حقیقتیں۔ وہ حقیقتیں نہ فیض کی نظموں سے بہلیں گی نہ غالب کی غزلوں سے۔ انہیں بُلھے کے بول ٹالیں گے نہ محمد رفیع کے رسیلے گانے پرچائیں گے۔ اُن سے ہتھیار بند ہو کر، مسلح ہو کر نبردآزما ہونا پڑے گا عاشر۔ ان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جسم اور روح کی جنگ میں جسم حقیقت ہے جو سامنے دھری ہے اور روح احساس ہے جو خود کو محسوس تو کرواتی ہے نظر نہیں آتی۔ اگر تم مجھے مادہ پرست بھی سمجھو تو سمجھ سکتے ہو لیکن سچ یہی ہے جو میں بول رہی ہوں۔ میں نے بڑے بڑے فن کاروں، شاعروں، مصوروں کو زندگی کے مکروہ ننگے پن میں بے بس اور بے لباس دیکھا ہے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں رومانس کے خالی اور خیالی جھولے جھولنے کی بجائے حقیقت کے سپاٹ، سیدھے اور مستحکم میدان میں پکے پیروں اتروں گی۔ مجھے تمہارے نظریات کا پتا ہے لیکن میرا فیصلہ سوچا سمجھا اور عقلیت کی کسوٹی پر پرکھا ہوا ہے۔”
مجھے سمجھنے میں ایک لحظہ بھی نہ لگا کہ ہمارے ساتھ کا راستہ دو پگڈنڈیوں میں ڈھل گیا ہے اور یہیں سے راہیں جدا ہوں گی۔ ہم کب پھر گھوم پھر کر ایک دوسرے کی راہیں کاٹیں گے کچھ بھی اندازہ لگانا مشکل تھا۔ یہ بھی امکان تھا کہ ہماری پگڈنڈیاں کبھی بھی ایک دوسرے کو نہ چھوئیں اور ہم مخالف یا متوازی چلتے ہوئے فنا کی منزل کو پا جائیں۔ یہ طے تھا کہ میں عروج کے منتخب کردہ راستے، تلخ حقیقتوں کے آشنا جہان سے ہنوز جھجک رہا تھا اور اپنے خیال و خواب ہی کی اسیری عزیز رکھ رہا تھا۔
اور پھر وہ چلی گئی۔
اُس کے ساتھ جو اسے وہ سب کچھ دے سکتا تھا جو اس کے خیال میں حقیقی خوشی کا ضامن تھا۔ وہ سب سامان زیست کہ جو مہیا ہونے پر کارزارِ حیات میں کامران و شادکام ہوا جا سکتا تھا۔
مجھے کچھ وقت لگا اور پھر وہ مجھے کم یاد رہ گئی۔
میں نے اپنی راہ چن لی۔ میری زندگی درمیانہ سی تھی۔ اپنی عادتیں چھوڑیں نہ محبتیں۔ بمشکل زیست کی۔ پرواز بہت پست رہی لیکن مستقل اور ہموار۔ سادہ لفظوں میں گزر گزر ان ہی ہوا۔ شادی، بچے، گھر گھرہستی اور درمیانہ درجہ کی نوکری جو نہ پوری طرح خوش حال رکھے اور نہ بد حال۔ بس گرتی پڑتی چلتی چلی جائے۔
اتنا وقت گزر گیا جیسے صدیاں بیت گئیں۔
اُس نے امریکہ سے پاکستان کے کئی چکر لگائے۔ مشترک دوستوں سے حال احوال کا پتہ چلتا رہا۔ کئی بار ہم ایک ہی وقت میں ایک ہی شہر یہاں تک کہ ایک ہی عمارت میں اکٹھے ہونے کے باوجود کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملے۔
اک عمر بیت گئی۔
ہڈیوں پر کسا گوشت ڈھیلا پڑ گیا۔ میرے بہت سے بال جھڑ گئے اور جو بچ گئے وہ کہیں سے بدرنگ اور کہیں سے سفید ہو گئے جنہیں میں نے کبھی رنگنے کی کوشش نہیں کی۔
پھر ایک دن میرا فون بجا۔
میں ان جانے نمبر کبھی نہیں اٹھاتا لیکن اُس دن بے خیالی میں اٹھا لیا۔
قیامت منتظر تھی۔
“اب مل ہی لیں۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور کبھی نہ مل سکیں۔
ملو اور حساب کتاب کر کے کھاتہ بند کر لو۔
مرنے کے بعد پتہ نہیں کیا بکھیڑے ہوں۔
ادھر ہی مل لو تو کام نپٹے۔”
میرا دل اُچھل کر حلق میں آ گیا۔ پتہ نہیں کیوں سانس رُک گئی اور کہاں سے نمی اکٹھی ہو کر آنکھیں بھگونے لگی۔
کافی دیر مجھ سے کچھ بولانہ گیا اور اُس نے بھی نہ فون بند کیا نہ اور کوئی بات کی۔
“وہیں آ جانا کل اُسی وقت۔ مقررہ وقت پر اُنہی بینچوں پر اگر وہ وہیں ہوئیں۔”
میں نے اپنی آواز سنی۔
ایک بڑی سی اور ایک چھوٹی سی گاڑی کیمپس میں پہنچ گئیں۔ جہاں کبھی شاید ہی کوئی کار نظر آیا کرتی تھی وہاں گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی۔ میں نے جان بوجھ کر گاڑی ایڈمنسٹریشن بلاک کے پاس کھڑی کی اور سڑک اور پھر نہر پیدل پار کر کے کچھ پرانی یادیں تازہ کرنی چاہیں۔
کیمپس بہت بدل چکا تھا۔ نہ وہ سکون تھا نہ سکوت۔ نہ ہوا میں تازگی تھی نہ خوشبو۔ نہر کے کچے کنارے پکے ہو کر اپنی اصلیت کھو چکے تھے۔ جس مٹی سے لپٹ کر خانہ بدوش پتے گدلے ہوا کرتے تھے اس کا نام تھا نہ نشان۔ سیاہ تارکول اور بھورے سیمنٹ نے ساری دھرتی نگل لی تھی۔ کنکریٹ کے بے حس، بدخصلت بند کے اوپر سرد لوہے کے جنگلے نے بد کردار ٹریفک کو نہر تک پہنچنے سے روک رکھا تھا اور ہماری نہر ان کریہہ جکڑ بندوں سے بہت نیچے بے دلی اور بے رغبتی سے خواہ مخواہ بہتی جا رہی تھی۔ نہر پار کرنے کو جہاں لکڑی کے تختوں والاپل ہوتا تھا، ہم جس پر جان بوجھ کر زور زور سے پیر مار کر آوازیں پیدا کیا کرتے تھے وہاں نہر کے نیچے سے ایک گزرگاہ بنا دی گئی تھی۔
میں اس زیر آب غیر دلچسپ گزرگاہ میں غروب ہو کر اگلی سمت طلوع ہوا تو راستہ ہوسٹل بلاکس میں گھستا نظر آیا۔ میں پکے راستے کو چھوڑ کر گھاس کے میدان میں گھس گیا اور گھاس کو روندتا ہوا ایک پلاٹ سے گزر کر دوسرے پلاٹ میں داخل ہوا۔ یہ دیکھ کر حیران بھی ہوا اور خوش بھی کہ وہ گھاس بھرا میدان قائم تھا اور اس کے بیچوں بیچ بڑی کیاری وہیں موجود تھی اگرچہ کیاری میں کسی پودے کی نازک پنیری جڑیں پکڑ رہی تھی۔ ننھے ننھے بچہ پودے اپنے گنتی کے چند پتوں کے معصوم سے کان کھڑے کر رہے تھے۔ پھولوں کا موسم آنے میں ابھی بہت وقت تھا۔
دونوں بینچوں کی جگہ دو ذرا نئے نمونے کے، کسی با ذوق ڈیزائنر کے تخلیق کئے، پلاسٹک سے ڈھالے، درختوں کے مصنوعی تنوں پر ٹکے نقلی شہتیروں والے بنچ پڑے تھے۔
اُن میں سے ایک بنچ پر خزاں چھائی تھی۔
عروج ایسی ہو چکی ہو گی میرے تصور میں بھی نہیں تھا۔ اس کے گرد چھائی یاسیت اور سستی اسے اس عروج سے بہت مختلف دکھا رہی تھی جسے میں جانتا تھا۔ اس کے کپڑے تک پھیکے رنگ کے تھے۔ زیور قیمتی تھے لیکن اصلی ہونے کے باوجود مصنوعی لگ رہے تھے۔ زندگی اور ذہانت کی لو جو اس کے ساتھ چلا کرتی تھی مجھے نظر نہ آئی۔ شوخیوں اور اعتماد کی خوشبو، امید کی جھلملا ہٹ غائب تھی۔ پا لینے کا سکون اور منزل کے حصول کی تسکین مفقود تھی۔ عافیت اور آسودگی کا نور غائب تھا۔
بس عروج کا ہیولیٰ میرا منتظر تھا جس سے روح اور زندگی نچڑ چکی تھی۔ ایک بنا سنورا خالی وجود میرا منتظر تھا جسے دیکھ کر مجھے بے اختیار وہ بے جان مجسمے یاد آئے جو ہم مہنگے ملبوسات اور زیورات کی دوکانوں میں سجے دیکھتے ہیں۔
عروج، وہ عروج کہ جسے میں جانتا تھا جس سے باتیں کئے بغیر میرا کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا اور جسے دیکھے بنا میرا یونیورسٹی کا دن نہیں گزرتا تھا غائب تھی۔
کیا اُسے نظر لگ گئی تھی۔
میں بغیر سلام کئے ساتھ کی بنچ پر بیٹھ گیا۔
اُسے دیکھنے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔ میں نے اپنی نظریں اپنے بن پالش کے جوتوں پر جما رکھی تھیں اور جانتا تھا کہ وہ بھی مجھے نہیں دیکھ رہی بس محسوس کر رہی ہے۔ میں نے اپنے اندر جھانکا۔ میری روح موجود محسوس ہو رہی تھی۔ گو کچھ خوابیدہ اور گرد آلُود۔ میری خوشی کہیں کونے میں پڑی تھی اور اطمینان کا بس سایہ سا موجود تھا۔
زندگی نہ مفقود تھی نہ موجود۔
“کیا مجھے بھی نظر لگ گئی ہے؟” میں نے سوچا۔
“اگر لگی بھی ہے تو کم۔
اس لئے کہ مجھ میں تھا بھی کم جو نظر لگنے کے قابل ہو”۔
مجھے اپنے اندر اپنی ہی آواز سنائی دی۔
“شاید ایک نقصان قابل تلافی ہے اور ایک ناقابل تلافی”۔
ہم ایک دوسرے کو دیکھے ایک دوسرے سے بات کئے بغیر بہت دیر بیٹھے رہے۔
پلاسٹک سے ڈھالے مصنوعی تنے اور شہتیروں والے بینچوں نے ہمیں نگل جانا چاہا۔ نہر کنارے براجمان، قابض سیاہ سڑکوں نے ہمیں لپیٹ کر نہر کے نیچے سے گزرتے انڈر پاس کی بے جان تاریکی میں غرق کر دیا۔
اگلے سرے سے ہمیں اُگلا بھی نہیں۔
کیا کیمپس کو بھی نظر لگ چکی تھی؟
کیا شہر، ملک اور دنیا کو بھی نظر لگ چکی تھی؟
کیا یہ نقصان قابل تلافی تھا؟
تو پھر نظر بد کا وجود ہے نا۔۔۔
٭٭٭