(Last Updated On: )
اسکی فتوحات دیکھ کر یہ اندازہ نہ لگایا جائے کہ وہ محض جنگجو حکمران تھا
اگر وہ اپنے زمانے کا سب سے بڑا فاتح اور جرنیل تھا تو وہ اتنا ہی بڑا بیدار مغز منتظم اور مقنن بھی تھا
اس کے پچپن خط ملے ہیں جو اس نے اپنے ایک گورنر کو لکھے تھے ان کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہیکہ وہ ملک کے ہر حصے کے نظم و نسق میں خود بہت گہری دلچسپی لیتا تھا ہر ایک معاملے کی جزئیات تک پر اسکی نگاہ تھی اور حکومت کا کوئی بھی معمولی سے معمولی شعبہ ایسا نہ تھا جس پر اسے خود توجہ دینے میں عار ہو
اسکی چند مثالیں پیش ہیں
1 عیلام کے علاقے سے دیوتاوں کی جو مورتیاں مال غنیمت میں آئیں انھیں نہایت عزت و احترام کے ساتھ انکے پجاریوں اور پجارنوں سمیت بابل بھیج دیا
2 دمنوم نہر کے کنارے جن زمینداروں کی زمین ہے انھیں لگا کر نہر صاف کروائی جائے اور اسکی تہ کی مٹی نکلوائی جائے اور یہ کام ایک ماہ کے اندر مکمل ہونا چاہیے
3 خبرملی ہیکہ فلاں شہر میں کسی سرکاری ملازم نے رشوت لی ہے تحقیقات کی جائے اور اگر جرم ثابت ہو تو رشوت کا مال سر بمہر کر کے اور مرتشی ملازم اور گواہوں کو یہاں بھیج دیا جائے
اسطرح کی بے شمار مثالیں یہ عیاں کرتی ہیں کہ وہ ملک کے انتظامی معاملات میں کس حد تک دلچسپی لیتا تھا اور معمولی سے معمولی بات کو بھی نظر انداز نہیں کرتا تھا
حموربی سے قبل جو قانون سومر اور اکد میں رائج تھا اسکا بھی کچھ حصہ مل گیا ہے لیکن حموربی نے اسے مکمل طور پر مدون کر کے ملک میں نافذ کر دیا ظاہر ہے یہ ایک ادھ برس کا کام نہیں تھا اسے جمع کرنے میں بہت وقت لگا ہوگا ہم نے قانون کی تمہید میں یہ الفاظ دیکھے ہیں
” عدل و انصاف پھیلانے والا رعایا کا راہنما جس نے اشور سرپرست معبود کو پھر سے وہاں قائم کیا
دشمنوں کا قلع قمع کرنے والا جس نے نینوا کے اس شمش مندر میں عشتار دیوی کا نام چمکایا ہے”
اشور اور اسکا دارلحکومت نینوا حموربی نے اپنی حکومت کے انتالیسویں سال میں فتح کیے تھے قانون میں ان کے ذکر سے یہ ثابت ہوتا ہیکہ اس نے قانون اپنی حکومت کے اخری چار سالوں میں نافذ کیا
بلاشبہ بابل کے پہلے شاہی خاندان کی بنیاد سمو ابوم نے رکھی اور اسکے جانشینوں نے اپنی تلوار کے زور سے اسکے استحکام میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا لیکن اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس گھرانے کا فخر حموربی ہی تھا نہ صرف اس نے وسیع فتوحات کے ذریعے اس کی عظمت و طاقت میں بے پناہ اضافہ کیا بلکہ اپنی انتظامی قابلیت اور دور دراز علاقوں کے جزو و کل میں ذاتی دلچسپی لیکر سارے خطے کو منتشر شہری ریاستوں کی جگہ ایک ملک بنا دیا پھر اس ملک کے لیے ایک قانون مرتب کیا اس قانون کی زد سے کوئی شخص یا طبقہ نہیں بچا حاکم و غلام خواجہ و غلام اور امیر و فقیر سب کے معاملات پر یکساں حاوی تھا
اس طبقاتی عدم مساوات اختلاف کے دور میں یہ حموربی کا اتنا بڑا کارنامہ ہیکہ رہتی دنیا تک اسکا نام زندہ رکھنے کو کافی ہے
یہ بات یقین سے کہنا مشکل ہیکہ یہ قانون پورے کا پورا حموربی کے دماغ کی اختراح ہے ہم جانتے ہیں کہ اس نے اسکی تالیف میں پہلے سومری قانون سے مدد لی اسکے علاوہ اس میں ملک کے رسم رواج کو بھی شامل کر کے اسے مستقل قانون کی حثیت دی گئی
اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اس سارے منتشر مواد کو یکجا مرتب کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا جہاں اسے سومری قانون ورواج میں کوئی نظیر نہ ملی اس نے اپنے تجربے سے فائدہ اٹھایا اور ایک مرتبہ جب یہ مجموعہ تیار ہو گیا تو پھر اس پر پوری قوت اور پابندی سے بے رو رعایت عمل کیا ہمیں ہزاروں قانونی دستاویزات حاصل ہوئی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہیکہ یہ قانون محض کاغذی اور برائے نام چیز نہ تھی بلکہ سلطنت کے طول و عرض میں روزمرہ کے کاروبار کے لیے بنیادی پتھر کی حثیت رکھتا تھا
خود حموربی کے چند خطوط جو حسن اتفاق سے دست برد زمانہ سے محفوظ رہ گئے اس میں اس امر کی ناقابل انکار شہادت ملتی ہیکہ خود حموربی کو اسکی تعمیل میں کس درجہ شغف تھا
حموربی تینتالیس سال شان و شوکت سے حکومت کرنے کے بعد 2025 قبل مسیح میں فوت ہوا اوراسکا بیٹا شمس ایلنا بابل کے تخت پر بیٹھا