ارد و میں نظم و غزل کا استعمال الگ الگ دو مختلف معنوں میں آتا ہے ۔ یہ استعمال حالی کے بعد رونما ہونے والی جدید مغربی انداز کی تنقید کا رواج دیا ہوا ہے ۔ اس کے مطابق نظم کا مطلب جدید مغربی انداز کو موضوعاتی نظم ہے جس میں کوئی موضوع متعین کر کے ایک عنوان کے تحت اظہار خیال کیا جاتا ہے چنانچہ اردو میں نظ نگاری کی ساری تنقیدی بحث نظم کے اسی تصور پر مبنی ہوتی ہے اس سلسلے میں بعض نقادوں نے نظم نگاری کا ایک خاص معیار اپنے خیال میں اور مغرب کے حوالہ و سند سے فرض کر لیا ہے اور اسی مفروضہ و مزعومہ معیار سے وہ تمام اردو نظموں کامطلاعہ کر کے اپنے گمان میں ان کے معائب و نقائص دریافت کرتے ہیں۔
لیکن ہمارے مغرب پسند ناقدین نے الفاظ و اصطلاحات کے استعمال میں بڑی بے احتیاطی اور غیر ذمہ داری سے کام لیا ہے جو شاید کچھ تو ان کی غیر متوازن بلکہ اندھی مغرب پسندی پر مبنی ہے اور کچھ ادبی تصورات سے اس ناواقفیت پر جو ناکافی غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ اگر تھوڑے سوچ و بچار اور سمجھ بوجھ سے کام لیا جائے تو یہ سامنے کی بات بآسانی واضح ہو جائے گی کہ نظم کی ضد نثر ہے نہ کہ غزل لہٰذا غزل بھی نظم ہی کی ایک ہئیت اصلاً و اصولاً ہے پھر غزل کے علاوہ نظم کی متعدد ہئیتیں زمانہ قدیم سے رائج ہیں مثلاً مثنوی ‘ قصیدہ ‘ رباع‘ قطعہ‘ مرثیہ‘ مثلث‘ مربع‘ مخمس مسدس‘ ترجیح بند‘ ترکیب بند‘ ان میں بعض اصناف کے نام ہیں اور بعض ہئیتوں کے بہرحال یہ سب نظم کی شکلیں ہیں اورہمارے شعرا نے ان شکلوں میںاشعار کے دفتر کے دفتر لکھ رکھ دیے ہیں اس طرح جدید موضوعاتی نظم اوردو نظم نگاری کی کسی نئی اور انوکھی ہئیت کا نام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی سے اقبال تک جو موضوعاتی نظمیں لکھی تئی ہیں وہ مثنوی مثلث مخمس مسدس اور مثمن کی قدیم ہئیتوں میںہیں ارو ان میں بندوں کی ترتیب اسی طرح ہے جس طرح قدیم ادب میں ہوا کرتی تھی۔
جہاں تک اردو نظموں میںمربوط ارتقائے خیال کا تعلق ہے ۔ یہ بھی کوئی ایاب و نادر چیز نہیں ۃے ۔ اردو کے قدیم منظوم قصوں میںداستان ک مختلف مراحل کی تصویر کشی ایک ارتقائے خیال کے ساتھ ہوتی ہے اورمرثیہ تو مختلف موضوعات کے مرتب نقشوں کا ایک خزانہ ہے انہی منظوم داستانوں اور مرثیوں میں بے شمار رزمیے بھی پائے جاتے ہیں اس سلسلے میں اگر منظومات میں الگ الگ انفرادی طور پر ارتقائے خیال کے اوصاف پر بحث کرکے خوبیوں اور خامیوں کی پرکھ کی جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں بلکہ یہ ضروری ہے مناسب اور مفید ہے نیز تنقید کا فرض منصبی ہے لیکن ہمارے مغرب پسند ناقدین بڑ ا ستم کرتے ہیں او ر انتہائی نااہلی کا ثبوت دیتے ہیں جب وہ اول ت و نظم نگاری کا سراغ صرف جدید موضوعاتی نظموں میںلگاتے ہیں دوسرے مغربی بالخصوص انگریزی ادب سے مستعار ایک خیالہ نقشہ نظم کو نظم نگاری کا مثالی معیار فرض کر کے اسی کی نسبت کے جدید اردو نظموں کی ترکیب و ترتیب کاجائزہ لیتے ہیں اور تجزیے کی عجیب و غریب تکنیک سے ان نظموں میں بالعموم خامیاں ہی خامیاں دریافت کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انگریزی میں Couplet, Sonnet, Ode, Quatrain, Stanza کی جو شاعری جس کی بھی ہے اس کی ترکیب و ترتیب آخر کیا اور کیسی ہے اور کامیاب ترین نظموں کو جا نمونہ واقعتا موجود ہے اس کے مقابلے میں فنی طور پر اردو کی کامیاب ترین نظمیںکیسی ہیں اگر اس سوال کا جواب انگریزی کی بہترین شاعری کا موازنہ اقبال کی بہترین شاعری سے کر کے تلاش کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ خالص فن نظم نگاری کے اعتبار سے بھی اقبا ل کا کلام بلند ترین معیارپر ہے۔
بہرحال اقبال محض نظم نگار نہیںہیں‘ وہ جتنے بڑے نظم نگار ہیں اتنے ہی بڑے غزلگو بھی لیکن جس طرح نظم نگاری ک متعلق اردو کے مغرب پسند نقادوں نے نامعقول باتیں کی ہیں اسی طرح غزل گوئی کے بارے میں مشرقیت کے دعوے دار ناقدین نے نامناسب اور غیر حقیقی خیالات کا اظہار کیاہے۔ ان کا گمان ہے کہ غزل کی کوئی خاص زبان اور اسلوب ہ جس کے امتیازی خصائص ہیں نرمی نزاکت‘ لوچ‘اور لچک اس سلسلے میں سوز و گداز کی بھی مخصوص تشریح کی جاتی ہے چنانچہ یہ کہا جاتا ہے کہ تغزل کے اس مشرقی معیار سے اقبال غزل گو ہیں ہی نہیں یہی وجہ ہے کہ خاص قسم کی غزل گوئی کو معیار تسلیم کر کے کوئی کہتا ہے کہ میر ااردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں اور کوئی کہتا ہے کہ غالب سب سے بڑے شاعر ہیں اور اقبال تو گویا غزل گوئی کی اس روایت میں جو میر و غالب کی بنائی ہوئی ہے کہ پر ہیں میں نہیں۔ اسی لیے عصر حاضر کا رئیس المتغزلین کبھی حسرت کو کہا گیا کبھی جگر کو کبھی فراق کو ۔ تغزل کے معیار و روایت کی تعین و تشریح کے لیے لکھی جانے والی یہ عجیب و غریب تنقید صرف ذہنی افلاس کی دلیل ہے اور نقد و نظر سے یکسر خالی ہے۔ سب سے پہلے تو اس کا اندرونی تضاد ملاحظہ فرمائیے۔ یہ ایک ہی سانس میں معیار تغزل کی نمائندگی کے لیے میر و غالب دونوں کو پیش کرتی ہے۔ حالانکہ ان میں ہر ایک کا اسلوب سخن دوسرے سے بالکل جدا گانہ ہے۔ اور اگر تغزل کی وہ تعریف مان لی جائے جو ہمارے مشرقی قسم کے نقاد کرتے ہیں تو اس کی روایت سے غالب کو اسی طرح خارج کرنا پڑے گا جس طرح اقبال کو کیا جاتاہے‘ غالب کے اندر غزل گوئی کی وہ صفات بالکل مفقود ہیں جن کو لوازم تغزل بتایاجاتا ہے واقعہ تو یہ ہے کہ طرز بیان کے اعتبار سے غالب و اقبال کے ایک دوسرے کے مماثل ہیں جبکہ میر ان دونوں سے متغا یر اب یہ بھی دیکھنا چاہیی کہ اقبا ل و غالب کا اسلوب وہی ہے جو فارسی میں حافظ کا ہ جبکہ میر کو حافظ سے دور کا تعلق بھی نہیں چنانچہ اگر اردو تنقید کی عجیب و غریب تعریف تغزل کو تسلیم کر لیا جائے تو غالب و اقبال کے ساتھ ساتھ حافظ بھی جہان غزل گوئی سے جلا وطن ہو جائیں گے پھر تغزل کیا رہ جائے گا سوا رونے گانے اور بو س و کنار کے؟
شاید ہمارے مشرقی ناقدین نے اپنے تخیلات کا منطقی تجزیہ اور اس کے نتائج پر غور و فکر کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے ورنہ اپنے تصورات کے ان مضمرات سے جن کی تشریح میں نے ابھی کی ہے خد انکی وحشت ہو گی اور وہ نہیں کبھی قبول نہیںکریں گے ۔ حقیقت یہ ہے کہ غزل شاعری کی ایک ہیئت یا صنف ہے اس کا کوئی اسلوب اور طریقہ نہیں ہے شاعری کی کسی بھی صنف کا بشمل غزل کے کوئی بھی رنگ و آہنگ ہو سکتاہے ۔ اور مختلف شاعروں کے مختلف صنفوں میںمختلف رنگ و آہنگ فطرتہً اور لازماً ہوں گے۔ ورنہ ایک سے زیادہ شعراء کے درمیان نہ کوئی امتیاز رہ جائے گا نہ بنائے موازنہ اور ہر صنف سخن تنوع اور اس کے لطف سے خالی ہو جائے گی۔
غزل کی جو عظیم روایتی فارسی اور اردو میں ہے اس کے اسالیب سخن متنوع ہیں‘ ایک طرح نرمی ‘ نزاکت‘ لوچ اور لچک کا انداز تو ہے تو دوسری طرح شوخی شوکت صلابت اور محکمی کا اندا ز بھی ہے اردو غزل کی ابتدائی روایات ہی میر کے ہم عصر سودا کا طرز پہلے انداز کا نہیں ہے۔ دوسرے انداز کا ہے ۔ تعجب ہے کہ سودا کو سرے سے نظر انداز کر کے صرف میر کے طرز سخن کی بنیاد پر تغزل کا ایک تنقیدی تصور کیسے مرتب کر لیا گیا‘ جہاں تک سوز و گداز کا تعلق ہے اگر ان کو غزل گوئی کے اوصاف مان بھی لیا جائے تو اول یہ اوصاف ہو سکتے ہیں۔ لوازم نہیں۔ اور ان کے بغیر بھی غزل گوئی ہو سکتی ہے۔ دوسرے سوز ایک چیز ہے اور گداز دوسری چیز ‘ چنانچہ کوئی ضروری نہیں کہ بیک وقت دونوں ہی چیزیں مترادف طور پر موجود ہوں۔ پھر آخر اس سوز و گداز کا مطلب کیا ہے؟ کیا رقت اور ربودگی؟ ممکن ہے کہ بعض حضرات یہی سمجھتے ہوں مگر سوز و گداز کو رقت و ربودگی کا مترادف قرار دینا سخت نادانیہو گی سوز و گداز تو ہر دردمند دل کی کیفیت ہے اور جس دل می درد عشق یا درد حیات ہو گا اس میں بھی سوز و گداز بھی ہو گا۔ خاص کر سوز و گداز ضرور ہو گا تپش تڑپ اور حرارت کے معنے ہیں واقعہ یہ ہے کہ سو ز و گداز جذبے کا دوسرا نام ہے اور جذبہ عشق اور شاعری اور بالخصوص غزل گوئی دونوں کے لیے ضروری ہے ۔ اقبال غالب‘ حافظ سبھی اس جذبہ تغزل سے سرشار تھ خواہ میر کی طرح رقت و ربودگی ان کے یہاں نہ ہو۔
نظم و غزل دونوں میں اقبال کی شاعری کا انداز یکساں ہے ۔ ایک ہی اسلوب سخن اور طرز بیان ہے جو غزل میں بھی اسی شان سے نمایاں ہے جس سے نظم میں رونما ہوا ہے ۔ اس ہمواری اور ہم آہنگی کی وجہ ظاہر ہے۔ اقبال کا ایک کاص جذبہ و تخیل ہے جو ان کے مخصوص احساسات و افکار سے پیدا ہو ا ہے ۔ اسی کے اظہار و ابلاغ کے لیے انہوںنے شاعری کی ہے اور اس صنف سخن میںطبع آزمائی کی ہے جو اردو شاعری میں موجود تھی۔ لیکن اپنے فن کی روایت سے وفاداری اور انصاف کرتے ہوئے بھی ان کی انفرادیت نے اجتہاد کر کے اس روایت میں زبردست توسیع و اضافہ کیا ہے یہاں تک کہ اس کی مکمل تجدید و ترقی کا سامان ہوا ہے او ر اردو شاعری اپنے ارتقاء کے نقطہ عروج پر پہنچ گی ہے اقبال کے ہاتھوں میں غزل اور نظم کی ہئیت بنیادی طورپر وہی ہے جو مثلاً غالب و حالی کی شاعری میں تھی۔ مگر دونوں کے اسلوب اور معیار میں مجموعی طورپر ایک انقلاب عظیم برپا ہو گیا ہے جس کا تصور بھی غالب و حالی نہ کر سکتے تھے۔ غالب کو زیادہ سے زیادہ تنگ نائے غزل بقدر ظر ف نہیںمعلوم ہوتی تھی۔ اور وہ اپنے بیان کے لیے کچھ اوروسعت کے طلب گار تھے۔ اسی طرح حالی نے زیادہ سے زیادہ افراد قوم کے اخلاق کی اصلاح کی ایک کوشش کی لیکن اقبال کی شاعری فقط بیان کی وسعت اور اخلاق کی اصلاح تک محدود نہیں وہ غزل کی تنگ ناء مٰں بھی اپنے ظرف و ضمیر کا مکمل و موثر اظہار کرنے پر قادر ہیں اورنظم کی وسعتوں میں انہوںنے افراد کے اخلاق کی اصلاح سے بہت آگے بڑھ کر اقوام کے ذہن میں انقلاب کا سامان کیا ہے۔
چنانچہ اقبال کا جذبہ دل اور جذبہ عشق جو ان کی شاعری میں بروئے اظہار آیا ہے اس نے اپنی وسعتوں اور گہرائیوں اور بلندیوںکا ایک مخصوص و مناسب رنگ و آہنگ نظم و غزل دونو ں میںیکساں طور پر اختیار کیا ہے حقیقت یہ ہے کہ شاعر کے جذبات و محسوسات نے ہر فن کے سانچے کو پگھلا کر اپنے ڈھب پر ہموار کر یا ہے یہی وجہ ہے کہ اقبال کی نظموں کے ساتھ ساتھ غزلوں میں بھی اشعار کے درمیان ایک خالص ربط و ترتیب کا احساس ہر پڑھنے والے کو ہوتا ہے یہ بات اشعار کی خارجی تنظیم کے بجائے ان کی داخلی ترتیب پر مبنی ہے اقبال کے ہر صنف کے اشعار میں ایک مخصوص قسم کاوالہانہ پن سرجوش اور وروانی ہے جیسے کسی دریا کی لہریں یا سمندر کی موجیں سطح آب پر مچلتی ہوئی بہتی چلی جا رہی ہوں۔ اور پیچ و خم کے باوجود ان کی رواتی تسلسل اور باہم و گرارتباط میں کوئی فرق ‘ شگاف اور رخنہ نہ پڑ رہا ہو یا ایک فوارہ ہو جس کے قطرات یکساں زور کے ساتھ ایک ہی رفتار سے پھوٹ رہے ہوں۔ اس طرح غز ل اورنظم دونوں ایک ہی کیفیت میں ڈوبی ہوئی ایک ہی رنگ میں ان پر چھایا ہوا ہے ایک ہی آہنگ ان پر طاری ہے غزل ہے تو مسلسل نظم ہے تو مربوط ۔ دونوں منضبط۔ یہ کتاب دل کے اسرار کا سیل معانی ہے جس کا ضبط کرنا ایک قلندر کے لیے بہت مشکل تھا۔ لیکن جب بے اختیارو بے ساختہ اس نے یہ اسرار کہہ ڈالے تو دیکھا گیا کہ ان پر مشتمل اشعار میں بے پناہ جو ش اور زور کے ساتھ ساتھ زبردست ربط وضبط بھی ہے۔
رنگ و آہنگ کی اس یکسانی کے باوجود اقبال کے اشعار میں تنوع و فور اور وسعت کا احساس ہوتاہے‘ طرح طرح کے نکتے قسم قسم کے استعارات میں آوازوں کے نو بہ نو پیچ و خم کے ساتھ نظم و غزل دونوںہئیتوں میں جلوہ نما ہوتے ہیں ہر لحظہ ان کی ایک نئی ان اور نئی شان ظاہر ہوتی ہے ۔ یکسنی میں اس رنگارنگی میںیکسانی کا راز کیا ہے؟ کیا یہ ایک متضاد کیفیت ہے ؟ اس سوال کا صحیح جواب دینے کے لیے اقبال ہی کے ایک شعر کا طرز بیان مستعار لیتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ دراصل فطرت کا سرور ازلی ہے:
آہنگ میں یکتا صفت سورۃ رحمن
(مرد مسلمان…ضرب کلیم)
مدنیت اسلام (ضرب کلیم) کے ایک شعر کے استعارے میں یہ صفت یگانہ اور مثال زمانہ گوناگوں ہے فطرت رنگارنگی کے باوجود اپنا ایک رنگ رکھتی ہے۔ اور زمانہ انقلابات کے باوجود اپنا ایک آہنگ رکھتا ہے چنانچہ جس طرح زمانے کی رولمحات میں تقسیم ہو کر بھی ایک ہے اسی طرح فطرت کا نغمہ بے شمار راگوں میں ظاہر ہو کر بھی ایک سرود ازلی ہے۔ فطرت اور زمانے کے تصورات کے ساتھ ساتھ ان کی تصویر وتجسیم بھی اقال کی نظم و غزل دونوں کے اسالیب میں ہوتی ہے ۔ا س لیے کہ تنوع اور تسلسل کی ترکیب خود شاعر کی اپنی فطر ت میں اس درجہ راسخ ہے کہ ا س کا عکس ناگریز طور پر اس کے کلام پر بھی پڑا ہے۔ فن کار کا فن اس کے ذہن کا اشاریہ ہے ۔ ذہن اورفن کا یہ ارتباط پوری شاعری میں جلوہ نما ہے اور نظم و غزل دونوںنے اس سے یکساں تابندگی پائی ہے۔
کلام اقبال میں نظم و غزل کی ہم آہنگی ان اصناف سخن کی اس مصنوعی تفریق کو بھی ختم کرتی ہے جو اردو کے مغرب پسند ناقدین نے قائم کر رکھی ہے۔ اقبال کی شاعری میںدونوں ہی اصناف اس طرح ایک نظم میں پروئی ہوئی ہیں کہ دونوں کو نظم ہی بمقابلہ نثر کہنا چاہیے پھر یہ محض ہئیتی طور پر نثر سے ممیز نظم نہیں بلکہ حقیقی طور پر شعر بمقابلہ نثر ہے۔ اس لیے کہ اس میں شعریت کا عنصر بدرجہ کمال ہے اور یہ اعلیٰ شعیرت ہی اپنے مخصوص اسلوب میں جلوہ فگن ہے ۔ یہ نظم و غزل دونوں کو شاعری کے ایک خاص رنگ وا ٓہنگ میں ڈھالتی ہے۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کے تمام اسالیب پر یکساں قدرت رکھتے ہیں خواہ و ہ غزل ہو قطعہ ہو رباعی ہو مخمس ہو مسدس ہو مثمن ہو اور تمام اسالیب نظم میں انہوںنے شاعری کے بہترین نمونے اعلیٰ درجے کی شعریت کے ساتھ پیش کیے ہیں۔
ہر صنف شعری میں اقبال کا طر ز بیان متانت و سکون کا ایک نفیس مجموعہ ہے۔ متانت ان کے مقاصد میں پیدا ہوئی ہے ۔ اور شوکت ان کے مزاج سے ۔ یہ مقاصد اورمزاج دونوں شخص کے بھی ہیں اور فن کار کے بھی‘ اس لیے کہ اقبال کے معاملے میں شخص فن کار سے الگ نہیں ہے یا فن کار شخص سے الگ نہیں ہے فن کار اور شخص کی اس ہم آہنگی کو تنقید کے ایک نقطہ نظر سے فن میں فنائے شخصیت کہا جاسکتا ہے اوردوسرے نقطہنظر سے فن میں اظہار شخصیت اس سلسلے میں ٹی ایس ایلیٹ کے تصرو کر زیادہ اہم نہیں سمھتا۔ اس لیے کہ فنائے شخصیت اور معروضی مترادف ے متعلق جو کچھ اظہار خیال اس مشہور انگریز شاعر اور ناقد نے کیا ہے وہ ایک جانی اور مانی ہوئی حقیقت کی ترجمانی کے لیے صرف ایک خاص انداز بیان ہے ورنہ کوئی فن کار اپنی شخصیت کو چھوڑ کر کچھ نہیںکرتا اور ہر فن کار فن میں اپنی شخصیت کا اظہار جوں کا توں نہیں کرتا وہ بہرحال فن کی ہئیت اس کے لوازم‘ اوصاف اور اسالیب و آداب کا اظہار کرتا ہے اور شخصیت کے اسی حصے یا جز کو فن میں منعکس ہونے دیتا ہے جو ہئیت اوصاف اور اسالیب و آداب کے مطابق ہو اور وہ بہرحال اپنی شخصیت یا اقبال کے لفظ میں خودی کے بعض پہلو کا اظہار زندگی کے دوسرے اشغال کی طرح فن میں بھی کرتا ہے۔
متانت نے اقبال کے طرز بیان میںدیانت تہہ داری دقیقہ سنجی اورمعنی آفرینی کے کوائف پیدا کر دیے ہیں۔ جبکہ شوکت قوت صلابتر وضاحت وضاحب انبساط‘ وقار اور سرور پیدا کرتی ہے۔ متانت و شوق کے مضمرات سے مرکب ہو کر جو اسلوب سخن ابھرتا ہے وہ بہت ہی محکم ہونے کے ساتھ ساتھ محرک بھی ہے ۔ اس کی سنجیدگی اور بالیدگی ولولے اور حوصلے جگاتی ہے۔ اس کی پرمعنی زمزمہ سنجی آرزوئوں اور تمنائوں کو بیدار کرتی ہے اس کے زور اور شور سے دلوں میں اہتزاز و ابتہاج محسوس ہوتاہے اور اس کے تعقل اور تجمل سے دماغوںمیںفکر و انگیز ارتعاشات کی بجلیاں سی کوندتی ہیں۔ متانت ہمہ درا کی ہے اور شوکت ہمہ برا تی۔ اسلوب کی اس متین شوکت پر یا شوکت متانت کی بڑی اچھی اور نہایت خیال انگیز تشریح بال جبریل کی ایک غزل کے اس شعرسے ہوتی ہے:
جو ذکر کی گرمی سے شعلے کی طرح روشن
جو فکر کی سرعت میں بجلی سے زیادہ تیز
متانت و شوکت کی یہ پرشکوہ معنی آفرینی ایک پر سو ز نشاط یا نشاط انگیز سوز پر مبنی بھی ہے اور منتج بھی ۔ ایک سینہ روشن سے اٹھنے والا سخن ایسا ہی ہوتا ہے اور وہ عین حیات ہونے کے ساتھ ساتھ سوز حیات ابدی پر مشتمل ہے اور اس کا باعث ہوتا ہے۔ یہی نغمہ جبریل کی علامت بھی ہے اور بانگ سرافیل بھی اس لیے یہی ہے:
وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے
یہ ایک انسان کا کلام ہے مگر اس پر صحیفہ آسمانی کا نور پرتو فگن ہے ۔ اور صحیفہ آسمانی کی زبان متانت و شوکت کامعیار ہوتی ہے۔ جس کی طرف پرواز اقبال کے طرز بیان کا امتیازی نشان ہے۔
٭٭٭
غزلیں
(بانگ درا)
اقبال کے فن کا مطالعہ ان کی نظموں سے شروع کیا جاتا ہے اور تجریہ و تنقید میں زیادہ زور بھی انہی کے اوصاف پر دیا جاتا ہے۔ اس طرز تنقید کی ایک وجہ تو غزل گوئی کا وہ روایتی نصاب ہے جسے معیار تسلیم کر لیا گیا ہے اور ا سکی روشنی میں اقبال کی غزلوں کو وہ اہمیت عام طور پر نہیں دی گئی جس کی وہ مستحق ہیں۔ دوسری وجہ مغربی انداز کا یہ تصور ہے کہ فنی اعتبار سے مطلق طور پر غزل کی وہ اہہمیت نہیںہے جو نظم کی ہے۔ اس سلسلے میں پہلے مجموعہ کلام بانگ درا کی ترتیب نے بھی تنقید کا عام رجحان متعین کیا ہے مجموعے کے تینوں حصوں میںنظموں ہی کی فہرست غالب اور نمایاں ہے جبکہ ہر حصے کے آخر میں گویا ضمیمے کے طور پر غزلیات کا ایک چھوٹا سا عنوان قائم کر کے صفحہ فلاں تا صفحہ فلاں رقم کر دیا گیا ہے۔
اس صورت حال کا مطلب یہ ہے کہ اقبال کا کمال فن نظم میں ظاہر ہوا ہے جبکہ غزل محض تفن طبع کے لیے ہے۔ اس صورت حال میں اگر کسی ناقد نے اقبال کی گزلوںکی تحسین و تعریف کی بھی ہے تو تغزل کے بجائے نظم نگاری کے نقطہ نظر سے ۔ لہٰذا بہت ضروری ہے کہ اقبال کی شاعری میں ان غزلوں کی صحیح قدر و قیمت پورے طور سے واضح کی جائے تاکہ اردو شاعری یادنیائے شاعری میں ان کی اہمیت کا احساس عام ہو۔
ا س سلسلے میں سب سے پہلے تو فن کا بنیادی نکتہ یاد کر لینا چاہیے کہ اقبال نے جس روایت کے پس منظر میں شاعری کی وہ عمومی طور پر غزل ہی کی تھی جس میں اردو شاعری ہی نہیں‘ اردو زبان و ادب کے نہ صر ف لسانی و فنی وسائل بلکہ ادبی و فکری تصورات بھی پروان چڑھے تھے چنانچہ اردو ادب اور ا س کے تہذیبہ ماحول میں غزل کی اس درجہ رائج اور راسخ تھی کہ اقبال نے اپنے ذہن و مزاج کے بالکل خلاف داغ جیسے ایک روایتی شاعر کی شاگردی اختیار کی ارور ان کے رنگ میں چند غزلیں یا چند اشعار بھی کہے۔ اس لیے ہ رنگ زمانہ یہی تھا۔ اور داغ اپنے وقت کے سب سے بڑے شاعری سمجھے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی وفات پر اقبال نے ان کی شاعری کو جو خراج عقیدت پیش کیا اس میں کہا:
آخری شاعر جہان آباد کا خاموش ہے!
(داغ…بانگ درا)
لہٰذا اقبال کے فنی تجربے میں غزل کی بھی بڑی اہمیت ہے اردو میں خاص کر پہلے مجموعہ کلام بانگ درا میں اقبال کی غزلوں کی تعداد یقینا نظموں سے کم ہے۔ لیکن طرز فکر اور اسلوب سخن دونوں کے اعتبار سے یہ گزلیں اسی اقبال کی ہیں جن کی نظم نگاری نگاہ تنقید میں شاعری کا سب سے بڑا نمونہ فن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی شاعری میں ان کی غزل کا مرتبہ شیکسپئیر کی شاعری میں اس کے سونٹ کے مرتبے سے بھی زیادہ بلند ہے۔ شیکسپئیر کے نظام فن میں سونٹ کی حیثیت ایک ضمیمے سے زیادہ نہیں۔ لیکن اقبال کے نظام فن میں غزل ایک جزو ترکیبی ہے نظموں میں اقبال کے جو مضامین زیادہ وسعت اور تشریح کے ساتھ بروئے اظہار آئے ہیں وہ سب غزلوں میں بھی اختصار اور ایجاز کے ساتھ ظاہر ہوئے ہیں۔
یہ کیفیت بانگ درا ہی کی غزلیات سے شروع ہو جاتی ہے اور حصہ اول میں بھی نمایاں ہے۔ اس حصے کی پہلی ہی غزل یہ ہے:
گلزار ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
آیا ہے تو جہاں میںمثال شرار دیکھ
دم دے نہ جائے ہستی ناپائدار دیکھ
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیںہوں میں
تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ
کھولی ہیں ذوق دید نے آنکھیں تری اگر
ہر رہگذر میں نقش کف پائے یار دیکھ
٭٭٭
کیا اس ابتدائی غزل کو بھی اقبال کے علاوہ کسی اردو شاعر سے منسوب کیا جا سکتا ہے؟ احساس اور اظہار دونوں کے لحاظ سے چار اشعار کی اس مختصر سی غزل میں مجموعی و عمومی طور پر اقبال کا خاص انداز نمایاں ہے مختلف اشعار کے الگ الگ معانی کے باوجو د پوری غزل ایک ہی کیف میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ایک ہی رجحان کی غماز ہے چنانچہ جزوی طور پر مختلف المعنیٰ اشعار کا کلی مفہوم واحد ہے اور وہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا سے انتہا تک اشعار میں ایک ارتقائے خیال بھی ہے چنانچہ پہلے شعر میں گلزار ہست و بود کو یگانگی کے ساتھ با ر بار دیکھنے کی جو تلقین کی تھی وہ دو اشعار کے بعد آخری شعر میں اس مشورے پر ختم ہوتی ہے کہ اگر ذوق دید ہے تو ہر رہ گزر میں نقش کف پائے یار دیکھنا چاہیے اس سے واضح ہوتا ہے کہ گلزار ہست و بود کو بار بار گہرائی سے دیکھنے کامطلب یہ تھا کہ اگر ذوق دید ہوتو اس گلزار کی ہر روش میں محبوب کا جلوہ نظر آ سکتا ہے۔
بیچ کے دو اشعار اس نتیجے پر پہنچنے میں مدد دیتے ہیں۔ دوسرے شعر میں ہستی کی ناپایداری کی یاد چشم تماشا کا دلا کر گویا اسے فہمائش کی گئی ہے کہ زندگی کی مختصر سی مہلت کے ایک ایک لمحے کو قیمتی سمجھ کر اس کا پورا مصرف لے کر اور پیہم مشاہدہ و مطالعہ سے کام لے کر پھر تیسے شعر میں محبوب کو خطاب کر کے اپنی ہستی کی حقارت کے باوجود دیدار کے لیے اپنے شوق و انتظار کا والہانہ ذکر کیا گیا ہے۔ اس طرح چند اشعار میں فلسفہ حیات اور جذبہ عشق دونوں کا اظہار کر دیا گیا ہے اور دونوں کے امتزاج سے ایک ایسی بصیرت کا سامان کیا گیا ہے جس میں جنون و خرد مل کر بصیرت کے ساتھ ساتھ مسرت کا اہتمام کرتے ہیں یعنی بصیرت ہی اتنی گہری اور وسیع ہے کہ اس کی تہوں میں اور پہنائیوں میں مسرت کے چشمے اپنے آپ پھوٹتے ہیں اور بہتے ہیں۔ اس مرکب احساس کا اظہار جن لفظوں میں اور جس آہنگ میں ہوا ہے ان میں اقبال کی مخصوص متانت اور شوکت کے عناصر ہم آمیز ہیں۔ ایک وقار کے ساتھ مصرعوں میں روانی اور شعروں میں نغمگی ہے۔ اردو کے الفاظ کی لطافت کے ساتھ ساتھ فارسی تراکیب کی نفاست بھی ہے گلزار ہست و بود مثال شرار‘ ’’ہستی ناپایدار‘‘ ’’ذوق دید‘‘ اور نقش کف پائے یار جیسی بیک و شیریں ترکیبیں دیکھن کی چیز دم دے نہ جائے‘ ’’میرا شو ق دیکھ‘‘ ، ’’مرا انتظار دیکھ‘‘ اور ’’بار بار دیکھ‘‘ جیسے سلیس و فصیح لفظوں کے ساتھ روز مرہ اور محاورے کی طرح شیر و شکر ہیں۔ ان الفاظ و تراکیب کے حروف و اصوا میں ایک نشاط انگیز قماش نغمہ بھی ہے اور سرور انگیز جوئے سرور آفریں بھی۔
صرف چار اشعار مل کر تصور کی سطح پر ایک ولولہ تصویر پیش کرتے ہیں جس میں زمین سے آسمانی تک مجاز و حقیقت کے سارے جلوے نمایاں ہیں گلزار ہست و بود میں ایک ہستی ناپایدار کا نقش کف پائے یار دیکھنا ارضیت کے ساتھ معرفت اور حقیقت کے ساتھ مثالیت کا زبردست امتزاج ہے ارو یہ مبنی ہے ایک شوق بے اختیار کے کیف انتظار پر میر کے یہاں تو اس نشاط تصور کاسوال ہی نہیں نہ اس رنگ تصویر کی گنجائش ہے غالب کی شوخی میں بھی یہ طراری اور طراوت نہیں ہے۔ یقینا شوکت بیان کے لحاظ سے غالب و اقبال کے درمیان مماثلت ہے مگر غالب کے یہاں جو موقع ظرافت کا ہے وہی اقبال کے یہاں متانت کا ہے جس کی وجہ سے کلام اقبال میں زیادہ وقار اور وفود کا احساس ہوتا ہے۔ لہجے کی ہمواری اور استواری بھی اقبال کے یہاں زیادہ نہیں ہے جس سے ولولہ و زمزمہ دونوں میں اضافہ وہتا ہے ۔
اس ہئیت سخن میں فن کے روایتی سانچے کو توڑا نہیں گیا تھا اک ذراموڑا گیا ہے اس میں تبدیلی کے بجائے توسیع کی گی ہے۔ اور انقلاب کی بجائے ارتقاء ہوا ہے تغزل کی ساری مسلم الثبوت ادائیں ا س غزل سرائی میں موجود ہیں۔ اس کے باوجود احساس ہونے لگتا ہے کہ ان ادائوںمیں ایک نئی خموشی سے پیدا ہو رہی ہے تغزل میں مجازی و حقیقی شیو ے برابر ہی مضمر رہے ہیں۔ لیکن اب دونوں کے امتزاج سے آفاقیت کا ایک نیا عشوہ ابھرتا نظر آ رہا ہے۔ غزل کو عجم کے آب رکنا باد اور گلگشت مصلیٰ نے پروان چڑھایا ہے مگر اب اسی ویاد میں کوہ اصنم اور ریگ نواح کاظمہ کی ہوائیں چلتی محسوس ہو رہی ہیں۔ یہ شیراز کی تصویر میں نجد کا ترنم ہے اس طرح عشق کی اصلی روایت جس بیت عتیق سے روئے زمین پر جلوہ افروز ہوئی تھی صدیوں کے بعد ایک بار پھر اسی کے گرد طواف کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ بانگ درا ہے جو جلد ہی بال جبریل پر پرواز کرے گی اور دنیائے غزل پر ضرب کلیم لگا کر بالآخر زبو ر عجم بن جائے گی اور پیام مشرق کہلائے گی۔
حصہ اول کی چند دوسری غزلوں کے بھی متعدد اشعار اقبال کے مخصوص تغزل کی کیفیات کے حامل ہیں یہاں صڑف ان غزلوں کے بعض اشعار نقل کیے جا تے ہیں جو اپنی جگہ پوری کی پوری دلچسپ اور خیال انگیز ہیں:
انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں
علاج درد میں بھی درد کی لذت پہ مرتاہوں
جو تھے چھالوں میں کانٹے نوک سوزن سے نکالے ہیں
رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی
نرالا عشق ے مرا نرالے میرے نالے ہیں
نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی
نشیمن سینکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں
مرے اشعار اے اقبال کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو
مرے ٹوٹے ہوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں
٭٭٭
جنہیں وہ ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
وہ نکلے میرے ظلمت خانہ دل کے مکینوں میں
حقیقت اپنی آنکھوں پر جب نمیاںہوئی اپنی
مکاں نکلا ہمارے خان دل کے مکینوں میں
اگر کچھ آشنا ہوتا مذاق جبہ سائی سے
تو سنگ آستان کعبہ جا ملتا جبینوںمیں
کبھی اپنا بھی نظارہ کیا ہے تو نے اے مجنوں؟
کہ لیلیٰ کی طرح تو خود بھی ہے محمل نشینوں میں
کسی ایسے شرر سے پھونک اپنے خرمن دل کو
کہ خورشید قیامت بھی ہو تیرے خوشہ چینوں میں
محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا
یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوںمیں
٭٭٭
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہوا دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئی
میں انتہائے عشق ہوں تو انتہائے حسن
دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی
٭٭٭
وہ میکش ہوں فروغ مے سے خود گلزار بن جائوں
ہوائے گل فراق ساقی نامہربان تک ہے
وہ مشت خاک ہوں فیض پریشانی سے صحرا ہوں
نہ پوچھو میری وسعت کی زمیں سے آسماں تک ہے
٭٭٭
کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے
نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے
مدام گوش بہ دل رہ یہ ساز ہے ایسا
جو ہو شکستہ تو پیدا نوائے راز کرے
٭٭٭
سختیاں کرتا ہوں دل پر غیر سے غافل ہوں میں
ہائے کیا اچھی کہی ظالم ہوں میں جاہل ہوں میں
علم کے دریا سے نکلے غوطہ زن گو ہر بدست
وائے محرومی با خرف چین لب ساحل ہوں میں
٭٭٭
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر‘ آپ ہی منزل ہوں میں
٭٭٭
بعض دوسری غزلوں کے چند متفرق اشعار یہ بھی ہیں:
لائوں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے
بجلیاں بیتاب ہوں جن کو جلانے کے لیے
٭٭٭
حسن کامل ہی نہ ہو اس بے حجابی کا سبب
وہ جو تھا پردوں میںپنہاں خود نما کیونکر ہوا
٭٭٭
تقلید کی روش سے تو بہترہے خود کشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
٭٭٭
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
٭٭٭
یہ کل تیرہ غزلوں کا انتخاب ہے اور اس میں اقبال کے تغزل کے یہ سب نکات موجود ہیں:
۱۔ خودی
۲۔ آزادی خیال
۳۔ تفکر و تعقل
۴۔ سوز و نشاط
۵۔ شوخی و بے باکی
بلاشبہ منتخب اشعار معتدبہ تعداد میں ہونے کے باوجود بیشتر ان غزلوں میں واقعہ ہوئے ہیں جن میں غزل کے عام روایتی و رسمی اشعار بھی کثیر تعداد میں ہیں اور یہ بھی ہے کہ ان میں متعدد اشعار بعض رسمی مضمرات کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ اسی حصے میں دو غزلیں اس قسم کے اشعار کی بھی ہیں:
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
٭٭٭
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
٭٭٭
یقینا ایسے اشعار کا کوئی تعلق اقبا ل کے تغزل سے نہیں ہے ۔ لیکن قابل غور نکتہ یہ ے کہ بالکل ابتدائی دور میں بھی ایسے اشعار کی تعداد برائے نام ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان شعروں میں سہل ممتنع کی جو کیفیت ہے اس سے قدرت بیان کا اندازہ تو بہرحال ہوتا ہے اور صاف نظر آتا ہے کہ شعر گوئی کے شروع ہی میںاقبال نے غزل کی کلاسیکی زبان میںمہارت حاصل کر لی تھی اور نئے تجربے کے لیے درکار کمال فن انہیںمیسر آ چکا تھا۔ پھر اس قسم کی غزلوں میں بھی بعض ایسے اشعار چمک اٹھتے ہیں جو روایتی مفہوم کے باوجود ایک انفرادی تیور رکھتے ہیں:
ستم ہو کہ وعدہ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
٭٭٭
ایسے شعروں کا انداز داغ کی بجائے غالب کا ہے جن کے سہل ممتنع قسم کے اشعار ان کے عام اسلوب سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان کی غزل گوئی کا حصہ ہیں اس لیے کہ ان میں بھی جا بجا غالب کا تیور جھلک اٹھتا ہے جس کی صلابت میں اقبال نے اضافہ کیا ہے۔
بہرحال ا س حصے میں چند بہت طویل غزلیں ہیں اور باقی بھی اکثر معتدبہ حجم کی ہیں اور ان میں روایتی اور غیر روایتی اشعار ملے جلے ہیں ظاہر ہے کہ اقبال اپنے ہی ایک مقطعے کے مطابق ابھی اپنے آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ گرچہ اپنی تلاش کا یہ انداز بہت خاص اور امتیازی ہے۔
آپ ہی گویا مسافر‘ آپ ہی منزل ہوں میں
حصہ اول کی غزلیات میں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ ان میں بعض نصف سے زاید میں مقطع تخلص سے خالی ہے۔ جو غزل کی عام روایت میں ایک خاص انفرادیت ہے۔ اور آئندہ یہ ایک مخصوص تغزل کا نشان ہو گا۔
حصہ دوم کی غزلیات حصہ اول کی بہ نسبت کمیت میں نصف کی حد تک کم مگر کیفیت میں اتنی ہی زیادہ ہو گئی ہیں۔ پہلی غزل اس حصے میں بھی عشق و فلسفہ یا معرفت و حکمت کا ایک مرکب ہے جبکہ طرزبیان میں تندی و تیزی پہلے سے کچھ بڑھ گئی ہے اور شدت احساس میں بھی قدرے اضافہ معلوم ہوتا ہے :
زندگی انسان کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں
دم ہوا کی موج ہے زم کے سوا کچھ بھی نہیں
گل تبسم کہہ رہا تھا زندگانی کو مگر
شمع بوئی گریہ غم کے سوا کچھ بھی نہیں
راز ہستی راز ہے جب تک کوئی محر م نہ ہو
کھل گیا جس دم تو محرم کے سوا کچھ بھی نہیں
زائران کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی
کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں؟
اس حصے کی خاص و ممتا زترین غزلیں حسب ذیل قطعوں سے شروع ہوتی ہیں:
زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا
مری خموشی نہیںہے گویا مزار ہے حرف آرزو کا
٭٭٭
چمک تیری عیاں بجلی میں ‘ آتش میں‘ شرارے میں
جھلک تیری ہویدا چاند میں سورج میں ستارے میں
٭٭٭
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا ‘ عام دیدار یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا
٭٭٭
ان میں پہلی اور دوسری بہت ہی طویل ہیں اور ان میں اقبال نے زندگی اور زمانے کے مختلف موضوعات پر بڑی بے باکی شوخی‘ نکتہ سنجی او رعمدگی سے اپنے خیالات احساسات اور جذبا ت پیش کیے ہیں۔ اسی طرح حصہ اول کی بعض غزلوں کے ساتھ ملا کر ان غزلوں کو دیکھنے سے عیاں ہوتا ہے کہ اقبال غزل کو چند متعین روایتی موضوعات کی بجائے تمام ان تازہ واردات کا وسیلہ اظہار بنارہے ہیں جو ایک کہنہ بزم کائنات میں ان کے قلب پر نازل ہوئی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہئیت غزل کا سانچہ پگھل کراقبال کی صہبائے تخیل کی تندی کو اپنے اندر سمونے کے لیے پھیلنے لگا ہے۔ حسب ذیل معروف یا معنی اشعار جن میں چند زبان زد میں انہی غزلوں کے ہیں:
جو موج دریا لگی یہ کہنے سفر سے قائم ہے شان میری
گہر یہ بولا صدف نشینی ہے مجھ کو سامان آبروکا
نہ ہو طبیعت ہی جن کی قابل وہ تربیت سے نہیںسنورتے
ہوا نہ سبزہ رہ کے پانی عکس سرو کنار جو کا
اگر کوئی شے نہیں ہے پنہاں تو کیوں سراپا تلاش ہوں میں
نگہ کو نظارے کی تمنا ہے دل کو سودا جستجو کا
سپاس شرط ادب ہے ورنہ کرم ترا ہے ستم سے بڑھ کر
ذرا سا اک دل دیا ہے وہ بھی فریب خوردہ ہے آرزو کا
کمال وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوک نشتر سے تو جو چھڑے
یقیں ہے مجھ کو جو گرے رگ گل سے قطرہ انسان کے لہو کا
٭٭٭
بلندی آسمانوں میں زمینوں میں تری پستی
روانی بحر میں‘ افتادگی تیری کنارے میں
جو ہے بیدار انسان میں وہ گہری نیند سوتاہے
شجر میں پھول میں حیواں میں ‘ پتھر میں ستارے میں
سکوں نا اشنا رہنا اسے سامان ہستی ہے
تڑپ کس دل کی یارب چھپ کے آ بیٹھی ہے پارے میں
٭٭٭
گزر گیا وہ اب دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان میخانہ ہر کوئی بادہ خوار ہو گا
کچھ جو آوارہ جنوںتھے وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہو گا
دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیںہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ نہ بنے گا نہ پائدار ہو گا
میں ظلمت شب میں لے کر نکلوں گا اپنے درماندہ کا رواں کو
شرر فشاں ہو گی آہ میری‘ نفس مرا شعلہ بار ہوگا
٭٭٭
ان اشعار میں تغزل اقبال کے مندرجہ ذیل پہلو نمایاں ہیں:
۱۔ عصری حسیت
۲۔ سیاست و معاشرے کے اشارت
۳۔ بصیرت مستقبل
۴۔ نظریاتی نظریاتی رد عمل
۵۔ وفور‘ وسعت‘ والہانہ پن
ان غزلوں کے اسلوب سخن کا مطالعہ ‘ جن سے یہاں اشعار لیے گئے ہیں۔ صاف صا ف بتاتا ہے کہ بہت ہی پیچیدہ ثقیل ثقہ اور دقیق خیالات و احساسات کو بھی ‘ جن کا اظہار اب تک غزل میںنایاب تھا‘ تغزل کے رنگ و آہنگ اور استعارات و کنایات میں اس پختگی اور نفاست کے ساتھ جذب کیا رہا ہے کہ عنقریب غزل کا تصور ہی بدل جائے گا‘ گرچہ تغزل کی تصویر نہ صرف باقی رہے گی بلکہ اس کے نقوش پہلے سے بدرجہا زیادہ تیکھے ہو جائیں گے۔
بہرحال ان غزلوں میں تخلص کی روایت کی پابندی سختی سے کی گیء ہے شاید یہ اہتمام فن فکر کی جدت کو زیادہ گوارا بنانے کے لیے ہے۔ لیکن تخلص بھی شاعر کے مخصوص ذہن ہی کی طرف منقطع میں اپنے خاص موقعے پر واضح اشارہ کرتا ہے:
نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانہ‘ ابھی وہی کیفیت ہے اس کی
کہیں سر راہگذار بیٹھا ستم کش انتظار ہو گا
حصہ سوم کی سات آٹھ غزلیات میں اس کے باوجود کہ ایک غزل کا مقطع ہے:
خبر اقبال کی لائی ہے گلستاں سے نسیم
نو گرفتار پھڑکتا ہے تہ دام ابھی
واقعہ یہ ہے کہ اقبال کاتغزل اپنے ٹھکانے پرپہنچ گیا ہے اور تقریباً ہر غزل انتخاب ہے ۔ حسب ذیل مطلعوں کی مشہور غزلیں اسی حصے میں ہیں:
نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینہ میں اسے اور ذرا تھام ابھی
٭٭٭
پردہ چہرے سے اٹھا انجمن آرائی کر
چشم مہر و ماہ و انجم کو تماشائی کر
٭٭٭
پھر بار بہار آئی‘ اقبال غزل خواں ہوا
غنچہ ہے اگر گل ہو‘ گل ہے تو گلستاں ہو
٭٭٭
کبھی اے حقیقت منتظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
٭٭٭
ان غزلوں کو بلا تکلف و تامل ’’بال جبریل‘‘ کی غزلوں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ قبل کے دو حصوں میں بھی متعدد غزلیں ایسی ہی تھیں اور ان سب کے بے شمار اس تغزل کی طرح صریح اشارہ کرتے ہیں جس کا نمونہ کمال ’’بال جبریل‘‘ کی غزلوں کو سمجھا جاتا ہے حصہ سوم کی غزلوں کے اشعار کا ایک مختصر انتخاب حسب ذیل ہے:
عزت ہے محبت کی قائم اے قیس! حجاب محمل سے
محمل جو گیا عزت بھی گئی غیرت بھی گئی ‘ لیلا بھی گئی
٭٭٭
تیرے پیمانوں کا ہے‘ یہ اے مئے مغرب اثر
خندہ زن ساقی ہے‘ ساری انجمن بے ہوش ہے
٭٭٭
پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
عشق فرمودہ قاصد سے سبک گام عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنی پیغام ابھی
شیوہ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی
تو ہے زناری بت خانہ ایام ابھی
سعی پیہم ہے ترازو سے کم و کیف حیات
تیری میزان ہے شمار سحر و شام ابھی
٭٭٭
تو جو بجلی ہے تو یہ چشمک پنہاں کب تک
بے حجابانہ مرے دل سے شناسائی کر
نفس گرم کی تاثیر ہے اعجاز حیات!
تیرے سینے میں اگر ہے تو مسیحائی کر
کب تلک طور پہ دریوزہ گری مثل کلیم
اپنی ہستی سے عیاں شعلہ سینائی کر
ہو تری خاک کے ہر ذرے سے تعمیر حرم
دل کو بیگانہ انداز کلیسائی کر
پہلے خود دار تو مانند سکندر ہو لے
پھر جہاں میں ہوس شوکت ورائی کر
٭٭٭
آخری دونوں منتخب غزلوں (پھر باد بہار آئی… اور کبھی اے حقیقت منتظر…)میں علی الترتیب چھ اور سات اشعار ہیں اور سب کے سب انتخاب ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں غزلوں میں جو وفورو سرور اور عمدگی و نغمگی ہے وہ بال جبریل کے بہترین اشعار ہی میں پائی جاتی ہے ۔
حصہ سوم کی غزلیات میں بھی نصف ایسی ہیں جن کے مقطعوںمیں تخلص کا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ گرچہ ان بے تخلص مقطعوں میں بالعموم واحد متکلم کا معتزلانہ انداز موجود ہے ۔ بہرحال اس حصے کے بے تخلص یا باتخلص مقطعوں میں اقبا ل نے اپنے فن پر خیال انگیز تبصرے کیے ہیں مثلاً
نکلی تو لب اقبال سے ہے کیا جانیے کس کی ہے یہ صدا!
پیغام سکوں پہنچا بھی گئی‘ دل محفل کا تڑپا بھی گئی
٭٭٭
مل ہی جائے گی کبھی منزل لیلیٰ اقبال
کوئی دن اور بھی بادیہ پیمائی کر
٭٭٭
مرا ساز اگرچہ ستم رسیدہ زخمہ ہائے عجم رہا
وہ شہید ذوق وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی
٭٭٭
منزل لیلیٰ کا عدم حصول صرف ایک مسلسل تجسس اور جستجو کا غماز ہے گرچہ بادیہ پیمائی تو ایک عاشق فکر و فن کو عمر بھر کرنی پڑتی ہے۔ بہرحال حصہ سوم میں آ کراقبال کے تغزل کی وہ بادیہ پیمائی جو بانگ درا کے حصہ اول سے شروع ہوئی تھی منزل مقصود کے بہت ہی قریب گویا منزل مقصود تک پہنچ گئی ہے۔ اسی لیے اپنے لب سے نکلی ہوئی صدا کو وہ کسی اور کی ایک برتر ہستی کی صدا سمجھنے لگتے ہیں۔ جو سکوں بخش ہونے کے ساتھ ساتھ اضطراب انگیز بھی ہے یہی نوائے عاشقانہ کی خاصیت ہے اور یہ نوائے عاشانہ اپنی اصلیت میں عربی ہے چنانچہ اس کے باوجود کہ نہ تو شاعر عربی ہے اورنہ اس کی زبان عربی ہے۔ اور اس کا سازفن زخمہ ہائے عجم کا ستم رسیدہ ہے اس کا زلی پیمان وفا اپنی جگہ برقرار وپائدار ہے۔ وہ شہید ذوق وفا ہے لہٰذا ایک عجمی ہئیت سخن کے باوجود اس کی نوا عربی ہے اس کی سدا میں قرآن کریم کی عربی مبین کی بازگشت ہے۔ یہ ایک دل کشا صدا ہے۔ جس کی اصلیت کا تعارف خواہ عربی ہو مگر اس کے اثرات و مقاصد میں عجمی و تازی کا کوئی فرق و امتیاز نہیں‘ یہ درحقیقت ایک ایسے شخص کی گفتگو کا انداز محرمانہ ہے جو راز حرم سے باخبر ہے۔ ی راز حرم راز حیات ہے اور سوز حیات ابدی پیدا کرتا ہے ۔ اس کا آہنگ زمزمہ لاموجود کا سرود حلال ہے۔ جس کی گرمی سے ستاروں تک کا وجود پگھل جا سکتا ہے۔ یہ خالص تغزل کا نغمہ ہے۔ حصہ سوم کی مذکور ذیل غزل کی نوائے عاشقانہ پر تغزل اور فن غزل گوئی کی حد ختم ہو جاتی ہے۔
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
طرب آشنائے خروش ہو تو نوا ہے محرم گوش ہو
وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردہ ساز میں
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترآئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثر کہن
نہ تری حکایت سوز میں نہ مری حدیث گدا زمیں
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے حرم خانہ خراب کو ترے غضو بندہ نواز میں
نہ وہ عشق رہیں گرسیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف یار میں
جو میں سر بہ سجدا ہوا کبھی تو زمین سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا‘ تجھے کیا ملے گا نماز میں
پہلا ہی شعر اعلیٰ تغزل مین ڈوبا ہواہونے کے باوجود چونکا دینے والا ہے۔ اس لیے کہ اس کا پہلا ہی مصرع مجاز و حقیقت کی عشقیہ روایت میں ایک انقلاب کا غماز ہے ۔ یہاں مجاز کو حقیقت بنانے کی تمنا کی بجائے جو بالعموم غزل گویوں کی پرواز تخیل کا منتہا ہے حقیقت ہی کو مجاز کی شکل میں دیکھنے کی آرز و ہے اور دوسرا مصرع اشارہ کرتا ہے کہ ہزاروں سجدے جو عاشق صادق اور بندہ کامل کی جبین نیاز میں تڑ پ رہے ہیں وہ اسی محبوب حقیقی کے لیے وقف ہیں جس کے لباس مجاز میں جلوہ افروز ہونے کا انتظار ہے۔ یقینا یہ ایک موہوم تمنا ہے ایک خیالی آرزو ہے لیکن ا س سے عشق و تغزل کا ایک تیور معلوم ہوتا ہے جو بہت ہی شوخ ہونے کے علاوہ نہایت نادر ہے اس سے شاعر کی بے باکی سے زیادہ اس کی محبت کے حوصلے اور ولولے ظاہر ہوتے ہیں اس کے ظاہر کی گہرائی اور ذوق و شوق کی شدت آشکار ہوتی ہے۔ اس شعر میں ایک عمیق جذبہ ایک باریک خیال اور ایک ناز ک احساس ہے جس کا اظہار بڑے والہانہ اور پر معنی انداز میں ہوا ہے۔ الفاظ کی نشست تراکیب کی ندرت اور آہنگ کی انتہائی نغمگی نے لمبی بحر اور پیچیدہ شکل میں ہونے کے باوجود اس شعر کو ضرب المثل کی حد تک زبان زد کر دیا ہے۔ دقیق خیالات اور لطیف افکار کو ایسے رواں دلنشیں اور معنی خیز انداز میں ظاہر کرنے کے لیے روح کو جو بالیدگی اور اسلوب کو جو پختگی درکار ہے وہ اس شعر میں بدرجہ کمال نمایاں ہے۔
یہی کیفیت دوسرے شعر کی بھی ہے ۔ جس میں پہلے شعر کے عاشقانہ تخاطب وتخیل کو جاری رکھتے ہوئے ایک نئے اور زیادہ نغماتی رنگ و آہنگ میں پیش کیا گیا ہے ۔ اور اس مقصد کے لیے موسیقی کا استعارہ بڑی دقیقہ سنجی کے ساتھ استعمال کیا گیاہے۔ استعارے کے ساتھ ساتھ پورا شعر موسیقی کے نغمے میں ڈوباہوا ہے ۔ اس حد تک کہ الفاط ہی نغمات معلوم ہوتے ہیں اس لفظی موسیقی کے باوجود معانی و مضمرات بھی واضح اور متعین ہیں۔ یہ قدرت بیان اور جذبہ صادق نیز فکر کامل کاایک حسین ترین مرکب ہے۔
تیسرے شعر میں تخاطب محبوب سے بدل کر عاشق کی طرف ہو جاتا ہے ۔ اور اسے جلوہ محبوب کا مشاہدہ کرنے کے لیے اپنے آئینہ دل کو توڑنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ ا س لیے کہ اس آئینے کے خالق کی نگاہ میں اس کی سلامتی سے زیادہ ا س کی شکست ہی عزیز ہے۔ مفہوم واضح ہے جلوہ معشوق دل کی درد مندی پر منعکس ہو سکتا ہے جب تک محبوب کے مقابلے میں شکستگی و افتادگی قلب عاشق میں نہ پیدا ہو جائے‘ اس کی آرزو اور ذوق و شوق کا اعتبار قائم نہیں ہوتا اور اعتبار کے بغیر دیدار محبوب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن اس خیال کو آئینے کے تصور میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ استعارہ نہایت موزوں ہے حقیقت منتظر کا جلوہ ایک صاف و شفاف اور براق پردے ہی پر منعکس ہو گا اور پردہ سیمیں قلب انسان کے سوا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ لباس مجاز کی تمنا کے باوجود معاملہ حقیقت کا ہے جو خارجی جلوے سے نہیںباطنی مشاہدے سے ہی نظر آ سکتی ہے اور اس مشاہدے کا آلہ صرف دل ہے لہٰذا جس کسی کو مشاہدہ حقیقت کی تمنا ہوا سے سب سے پہلے اپنے قلب کو ا س کے تحمل کے لیے تیار کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ محبوب حقیقی کی تجلی کوئی معمولی اور آسان بات نہیں۔ اب جب قلب انسان مصفی و مزکی ہو کر جلوہ الٰہی کے لیے تیار و سازگار ہو جائے گا تو برق تجلے چمکے گی اور ظاہر ہے کہ آئینے کی طرح شفاف جس سطح پر وہ گرے گی اس میں شگاف پیدا کر دے گی۔ یہ برق تجلیٰ جب کوہ طور کے اییک حصے پر گری تھی تو ا س نے پاس پاش کو دیا تھا۔ چنانچہ انسان کے آئینہ دل پر بھی جسے ہی جلوہ فگن ہو گی اسے پارہ پارہ کر دے گی لیکن یہ شکستگی بڑی کامیابی ہے۔ شادکامی ہے اور محبوب کی نگاہ اعتبار میں اس کی بڑی قدر و قیمت ہے۔
چوتھے شعر میں استعارہ پہلے سے بھی زیادہ رنگین ہو جاتا ہے۔ اور محبت کے معاملے میں شمع و پروانہ کی قدیم ترین علامت استعمال کی جاتی ہے۔ پروانے کی زبان حال سے شمع کو کہلوایا گیا ہے کہ عشق کی پرانی تاثیر نہ تو شمع کی حکایت سوز میں باقی رہی ہے‘ نہ پروانے کی حدیث گدا ز میںحالانکہ اس اعتراض کے وقت پروانہ بہرحال اپنے معمول اور فطرت کے مطابق اپنے جذبہ دل سے مجبور ہو کر شمع کے گرد طواف عشق کرتا جا رہا ہے مطلب یہ کہ محبوب کا جمال اپنی جگہ تاباں ہے اور عاشق کا دل ناصبور بھی تپاں مگر اب عشق کے اصلی سوز و گداز میں معلوم ہوتا ہے ہ کمی ہو گئی ہے۔ اور وہ پہلی سی بات نہ رہی ہے۔ شاید یہ ماحول کا اثر ہے۔ لہٰذا حقیقت منتظر آرزو کے باوجود جلوہ نما کیسے ہو جب عاشق و محوبوب یا خلق خدا کے اس رشتے ہی میں کمزوری آ گئی ہے جوجلوہ نمائی کی بنیاد تھا؟ اس طرح تغزل کی ایک خالص ترین علامت کے ذریعے شاعر نے عصر حاضر کی کیفیت بیان کر دی ہے ۔ حیات و کائنات کے تعمیری و تخلیقی جذبہ عشق کی یہ خامی ظاہر ہے کہ نہایت تشویش انگیز ہے۔
پانچواں شعر انسان کے جرم خانہ خراب اور خدا کے عفو بندہ نواز دونوں کا ذکر بیک وقت کرتا ہے۔ جرم خانہ خراب کی ترکیب بہت معنی خیز ہے۔ یہ کسی معمولی جرم کی نشاندھی نہیں کرتی۔ اس کا اشارہ جرم عشق کی طرف ہے لیکن جرم کے لفظ سے دنیا میں انسان کی اخلاقی کوتاہیوں کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے ہم اس تہہ دار تصور سے دنیا میں انسان کی اخلاقی کوتاہیوں کی طرف بھی اشار ہ ہوتا ہے ہم اس تہہ دار تصور کی تشریح باسانی اس طرح کر سکتے ہیں کہ انسان نے خلافت ارضی کا بار امانت اٹھاکر گویا اپنے آپ کو تباہی میں ڈال دیا ۔ مگر اس نے یہ جسارت محبت کی شد ت میں کی۔ اور جس ذمہ داری کو انگیز کرنے پر زمین و آسمان اور پہاڑ تک آمادہ نہ ہوئے اسے اپنے سر جو لے لیا تو اپنے عشق کی طاقت اور محبوب ازل کی رحمت پر اعتماد کرکے۔لہٰذا اگر زمے داری کی ادائیگی میں اس سے کوتاہی ہوئی ہے تو نتیجے میں رونما ہونے والی تباہی سے کوئی پناہ اگر مل سکتی ہے تو اسی رحیم و کریم ہستی کے دامن عفو و رحمت میں جس کے ساتھ اس نے روز ازل سے محبت و عبودیت کا پیمان وفا باندھا تھا۔ مختصر یہ کہ عشق کی حقیقت منتظر ہی زندگی میں سلامتی کا راستہ دکھا سکتی ہے۔ اگر خلوص دل کے ساتھ اس کی طرف ایک بار پھر رجوع کیا جائے۔ تو اس طرح اقبال کے تغزل کی کیمیائے فن غم عشق اور غم روزگار نیز جذبہ دین اور جلوہ حسن دونوں کو ملا کر ایک حسین ترین مرکب تخلیق کرتی ہے جو ذہن کی شادابی کے ساتھ ہی فن کی آبیاری بھی کرتا ہے۔
واقعہ ازل کی زیر نظر تلمیح میں معنی کی ایک اور تہہ گناہ اولیںاور توبہ آدمؑ کی قبولیت کی بھی ہے۔ حضرت آدمؑ نے ضعف بشری اور ارغوائے شیطانی سے فرمان الٰہی کی خلا ف ورزی کر کے اپنے حاصل شدہ خانہ جنت کو خراب کر لیا۔ لیکن اس کے بعد اس کے اعتراف و استغنا پر خدا کی رحمت مائل بہ کرم ہوئی اور اس نے آدمؑ کی توبہ قبول کر کے اسے دنیا میں حسن عمل کا موقع عنایت کیا اور س کے صلے میں جنت کی بازیابی کا وعدہ کیا۔ اس طرح محبوب ازل نے شکستہ دل عاشق کی دست گیری کی اور اسے اپنے دامن رحمت میں پناہ دی۔ یہ ایک نہایت حوصلہ افز اپیغام ہے جو خالق کی طرف سے مخلوق کو ملا ہے اور اس نے حق تعالیٰ کے عشق آفرین حسن میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ حسن صرف حنس نہیں ہے مہرباں بھی ہے لہٰذا اس کے لیے شیفتگی میں بھی از حد اضافہ ہو جاتا ہے تغزل کے یہ عمیق مضمرات اور لطیف احساسات اقبال کے تغزل کا امتیازی نشان ہیں۔
بہرحال حسن ازل کی کرم گستری کے باوجود ہمارا شاعر دنیائے انسانیت میں کاروبار عشق کی سرد بازاری پر ملول ہے۔ وہ غزنوی و ایاز کی تاریخی تلمیحات کے ذریعے علامتی طور پر انسانی حسن و عشق دونوں کے اضمحلال پر پر درد تبصرہ کرتا ہے جس کا مقصد یہ جتانا ہے کہ جب دلوں کے جذبے سرد پڑ رہے ہوں اور کیا حسن کیا عشق سبھی اپنی آب و تاب کھو رہے ہیں‘ تو ایسے وقت میں حقیقت مطلوب کی جلوہ نمائی کیسے ہو گی۔ جب آئینہ دل ہی مکدر ہے تو جلوہ حسن کہاں منعکس ہو گا پھر اس انعکاس کے بغیر خانہ عشق کی تاریکی کیسے دور ہو گی؟ چھٹے شعرمیں اپنے اس احسا س کے اظہار کر کے ساتویں اور آخری شعر میں شاعر اپنے اس احساس کو زیادہ تیز تہہ دار اور تاب دار بنا دیتا ہے۔ ایک بار پھر مجاز سے حقیقت کی طرف رخ کر کے وہ اپنے آپ کو نوع انسانی کا نمائندہ تصور کر کے کہتا ہے کہ تلاش حق اور جستجوئے خیر میں جب وہ ہر طرف سے تھک کر حسن ازل کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوا تو زمین تک پکار اٹھی کہ جس کا دل صنم آشنا ہے اسے نما ز میں کیا ملے گا غور کیجیے یہ کتنا بڑا المیہ ہے کبھی محبوب حقیقی کے حضور عاشق صادق کا سجدہ ایسا ہوتا تھا کہ اس سے روح زمین کانپ جاتی تھی‘ اور آج وہی زمین طعنہ دیتی ہے صنم آشنائی کا ایک ایسے عاشق الٰہی کو جس کی جبیں میں حقیقت منتظر کے لیے ہزاروں سجدے تڑپ رہے تھے۔
کیا محبوب حقیقی کے حضور سجدہ گزاری کے لیے بیتابی کا اقرا ر و اعلان محض ایک فریب تھا اعلیٰ ترین سطح پر حسن و عشق کی دنیا کا یہ برڑا ہی نازک سوال ہے کہاں تو جبین نیاز میں ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں اور کہاں ایک سجدے پر سجدہ گاہ کی طرف سے اسی جبین نیاز کو صنم آشنائی کا طعنہ؟ اقبال نے ضرب کلیم کی ایک چھوٹی سی اسی عنوان کی نظم میں نماز کی تعریف اس طرح کی ہے:
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
بال جبریل میں بھی ساقی نامہ میں انہوںنے کہا تھا:
وہ سجدہ ہے لائق اہتمام
کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام
اس پس منظر میں زمین کی طرف سے سجدہ گزار کو صنم آشنائی کے طعنے کا مطلب واضح ہے۔ یہاں ایک لطیف نکتے پر غور کرنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ عشق و محبت کی عام روایت اور رسوم تغزل کا استعمال محبوب کے مفہوم میں ہوتا ہے اور وہ مقصود محبت ہوتا ہے لیکن یہاں صنم آشنائی کو عشق حقیقی کی ضد قرار دیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ جو صنم آشنا ہے اسے نمازعشق میں کچھ نہ ملے گا۔ کہہ سکتے ہیں کہ یاں ایک بار پھر مجاز و حقیقت کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے لیک قابل غور یہ ہے کہ اقبال نے صریحاً مجاز کو حقیقت کے ساتھ متصادم کر دیا ہے اور اس سے بھی آگے بڑھ کر اسی تصادم سے وہ تعشق و تغزل کے لطیف ترین مفاہیم پیدا کرنا چاہتے ہیں اس کوشش میں انہوںنے تضاف بیان کا خطرہ بھی مول لے لیا ہے غزل شروع میں ہوئی تھی اس آرزوسے کہ حقیقت منتظر لباس مجاز میں نظر آئے تاکہ جبین نیاز سجدہ گزاری کی ساری تمنائیں پوری کرے لیکن ختم ہوئی ہے اس تصور پر کہ صنم آشنائی مقصد سجود کے حصول میں حائل و مزاحم ہے اس طاہری تضاد کا حل تھوڑے غور سے مل جائے گا غزل کے پہلے شعر میں حقیقت منتظر کو مخاطب کر کے اسی سے لباس مجاز میں رونما ہونے کی التجا کی گئی ہے۔ لہٰذا یہ امر شروع سے متعین ہو گیا تھا کہ جبین نیاز ے سارے سجدے صرف محبوب حقیقی کے لیے وقف ہیں۔ چنانچہ اب غزل کے خاتمہ پر آخری شعر میں بالکل منطقی طور پر مجازی محبوبوں یعنی اصنام دنیا کی آشنائی کو محبوب حقیقی کی عبادت و محبت میں حائل قرار دیا جا رہا ہے۔ اس طرح اقبال نے مجازی و حقیقی تصورات کی روایات میں ایک خاموش انقلاب پیدا کر کے تغزل کی ایک منفررد راہ نکالی ہے۔ اور اپنی شاعری کے زور سے عشق کے خالص دینی تصور کو بھی فنی حسن کی بنیاد بنا دیا ہے ۔ جبکہ ان سے قبل کے شعراء زیادہ سے زیادہ مجا ز و حقیقت کے میل تال سے عشق کے ایک مبہم صوفیانہ تصور کو قدر جمال بنائے ہوئے تھے صوفیانہ تصور میں مجاز و حقیقت کی سرحدیںایک دوسری سے ایسی ملی ہوئی ہیں کہ اس کے سبب شاعری میں جو کچھ حسن پیدا ہوتا ہے وہ صرف ابہام کا ہے اور یہ بڑی آصان بات ہے کہ لیکن اقبال کا امتیاز و اجتہاد یہ ہے کہ انہوںنے عشق و محبت کے واضح اور قطعی دینی و شرعی تصور سے تغزل کی زیادہ گہری تہیں اور شاعری کی نئی جہتیں پیدا کی ہیں۔
زیر نظر غزل میں پہلے شعر سے آخری شعرتک چودہ مصرعوں کی معنوی و فنی ترتیب ایک ترکیب غمہ کی طرح استوار و ہموار ہے ‘ مصرع سے مصرع اس طرح ملا ہوا ہے کہ جیسے راگ سے را اور شعر سے شعر اس طرح نکلا ہے جیسے سر سے سر ‘ نکتے سے نکتہ پیدا ہوتا چلا گیا ہے اور تصوریروں پر تصویریں ابھرتی گئی ہیں استعارات‘ کنایات‘ اور علامات ہیں رنگ کی شوخیاں ہیں اور آہنگ کی طرب ناکیاں فن کی یہ ساری ادائیں ایک زبردست فکر کے پہلو بہ پہلو بلکہ اسی سے ماخوذ اور اسی پر مرکوز ہیں۔ ایک جمیل تصور نے ایک حسین تصویر بنائی ہے۔ ایک دل کش تخیل نے ایک دل نواز ترنم ابھارا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ غزل وہ سراد ازل ہے جو وکوت پردہ ساز سے نکل کر محرم گوش اور طرب آشنائے خروش ہو گیا ہے۔
بال جبریل
بانگ درا کا تغزل فن غزل گوئی پر کامل عبور کے بعد ایک نئی غزل کی تمہید ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا ثمر پیش رس بھی ہے۔ یہ اقبال کے کمال تغزل کا وہ دیباچہ ہے کہ جس میں مضامین کتاب کا خلاصہ بھی ہے اور نمونہ بھی لیکن کتاب اپنی تمام تر تفصیل وتشریح کے ساتھ نمودار ہوتی ہے ۔ بال جبریل میں اور اقبال کے فنی ارتقاء میں یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ان کا دوسرا مجموعہ ککلام بخلاف پہلے کے شروع ہی ہوتا ہے غالیات سے‘ اور ان کا تسلسل چھہتر غزلوں تک قائم رہتا ہے۔ اس ترتیب سے واضح ہوتا ہے کہ اقبال نے خود اپنے کلام کے دوسرے مجموعے میں غزل کو پہلے سے زیادہ اہمیت دی ہے اور اس پر زیادہ توجہ صرف کی ہے یعنی جیسے جیسے ان کا شعری تجربہ بڑھتا گیا ان کے فن میں تغزل کی اہمیت بھی بڑھتی گئی‘ اور اس کا کمال بھی فزوں تر ہوتا گیا۔
بال جبریل کی غزل (۱) ہے:
میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بت کدہ صفات میں
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں
گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقشبند
میری فغاں سے رستخیر کعبہ و سومنات میں
گاہ مری نگاہ تیز چیر گئی دل وجود
گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں
تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو اک راز تھا سینہ کائنات میں
پانچ اشعار کی یہ غزل ایک نغمہ لا ہوتی ہے جو عالم ناسوت کی سطح سے ابھرا ہے ۔ اور زمین سے اٹھ کر آسمانوں میں بلکہ چرخ نیلی فام سے بھی پرے اپنی منزل کی طرف محو پرواز ہے یہ اگر حمد یہ تو حمد کی ہر روایت سے الگ اور اگر غزل ہے تو غزل کی رسم سے جدا۔ شاید یہ حمد بھی ہے اور غزل بھی۔ لیکن ایک انوکھی حمد ہے اور ایک نرالی غزل ہے‘ اس میں بے پناہ تغزل ہے بے اندازہ تعشق ہے مگر غزل گوئی اور عشق کی ہر حد سے آگے یہاں معلوم و معروف مجاز و حقیقت اور ان کی شاعری کا نشان نہیں ملتا۔ اس لیے کہ شاعر و عاشق کی نگاہ تیز لباس مجاز سے گزر کر حقیقت منتظر تک پہنچ گئی ہے۔ اور جبین نیاز میں تڑپتے ہوئے ہزاروں سجدے ادا ہونے لگے ہیں۔ اقبال کا تغزل بانگ درا میں جس نقطے پر ختم ہوا تھا ٹھیک وہیں سے وہ بال جبریل میں شروع ہو ا ہے۔ دونوں مجموعوں کی گزل سرائیوں کے درمیان عبور ایک تسلسل کے ستھ ہے اب کوئی صنم حتیٰ کہ بت کدہ صفات میں بھی راہ میں حائل نہیں‘ نوائے شوق براہ راست حریم ذات میں نغمہ ریز ہے۔ فن کا تخیل حور و فرشتہ سے بھی آگے بڑھ چکا ہے۔ اور تجلیات الٰہی میں اپنی تخلیقی سرگر میوں سے گویا خلل انداز نظر آتا ہے۔ ایک آفاقی تصور نے دیر و حرم کے تعینات کی تحدید ختم کر دی ہے۔ اور اب حریم حرم اور راز نرم کے سوا کچھ نہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ زمزمہ لاموجود کے اس سرود جلال میںخود شاعر ایک انسان کی ذات حائل ہو رہی ہے۔ وہ دنیا کی ایک مخلوق ہے اور مسائل حیات میں محصور ہے لہٰذا کبھی تو جب وہ اپنے فن اور جذبے کی بلندی پر ہوتا ہے اس کی تیز نگاہ ارو ادراک دل و جور کو چیر کر روح کائنات سرچشمہ ہستی تک پہنچ جاتی ہے۔ لیکن بعض وقت جب جذبہ فن اپنی بلندی پر نہیں ہوتے یہ نگاہ اپنے ہی توہمات میں جو عالم ناسوت کے پیدا کیے ہوئے ہیں الجھ کر رہ جاتی ہے بہرحال یہ الجھن اتنی اہم نہیں ہے جتنی یہ حقیقت کہ خالق نے ایک مخلوق کو پردہ از ل سے نکال کر روئے زمین پر اپنے نائب کی صورت میں نمایاں کردیا ہے۔ اور اس طرح ایک پوری کائنات کے اصل راز کو فاش کر دیا ہے۔ چنانچہ اب کہ انسانیت کا راز حیات برسر کائنات افشا ہو چکا ہے‘ کوئی راز راز نہ رہ سکے گا‘ راز حرم دریافت ہو چکا ہے‘ لہٰذا تغزل کے انداز محرمانہ ہیں۔ ایک نوائے عاشقانہ حرف راز کا اظہار کر دینا کی زبان کے استعارات و نغمات میں کر رہی ہے۔
بانگ درا کی ایک غزل کا بہت ہی معنی خیز شعر ہے:
شریعت کیوں گریباں گیر ہو ذوق تکلم کی
چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعاروںمیں
ایک پہلوسے تو یہ ’’درکفے جام شریعت ‘ در کفے سندان عشق‘‘ کا توازن ہوا۔ لیکن یہاں ہمارے پیش نظر معاملے کا دوسرا پہلو فن کی صورت گری ہے اس اعتبار سے زیر نظر غزل کے طرز تکلم پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ پوری کی پوری استارے کی لطیف ترین شکل کنایے پر مبنیہے۔ ہر شعر کیس نہ کسی کنایے کے ذریعے ترسیل ہوتا ہے اقبا کا مطلب ان کنایوں سے جو بھی ہو دیکھنا یہ ہے کہ کنایہ در کنایہ کا ایک پورا سلسلہ پانچ شعروں تک جاری رہا ہے‘ تصوف فلسفہ اور الاہیات کی وہ ساری بحثیں جن کا تعلق خداوخودی کے معاملات سے ہے‘ ان اشعار میں اس کیمیائی طریقے پر آب مقطر کی طرح چمک رہی ہے کہ ہماری نگاہوں کے سمانے صرف تغزل اور شاعری کا آب زلال ہے جبکہ جن عناصر سے یہ زلال تیار ہوا ہے وہ کہیں تو تہوں میں پڑے رہ گئے ہیں یقینا یہ فن کی قرنبیق ہے جس نے سارے مواد فکر کو حل کر کے اتنا رقیق کر دیا ہے کہ وہ اپنی اصلی شکل ترک کر کے قطرہ قطرہ ایک ایک شعر ایک ایک مصرعے کی باریک و لطیف نلکی سے ٹپک رہا ہے جو اہر فکر کو جوہر فن میں ڈال رہا ہیل۔ ایسے پاکیزہ و درخشاں قطرات کی چکاں و آویزاں زنجیر ایک حسین ترین تصویر پیش کرتی ہے۔ اور ان قطرات کا پیہم تقاطر ایک جل ترنگ کا نغمہ جمیل پیدا کرتا ہے ۔ حالانکہ غزل کا سارا مضمون لہو ترنگ کا ہے۔ اس لیے کہ زندگی کے سنگین حقائق سے مرتب ہوا ہے لیکن مسائل حیات کے میدان جنگ میں بھی ہم ایک روح پرور نوائے چنگ سنتے ہیں یہ فن تغزل کا نقطہ کمال ہے اب یہ نوائے چنگ حدی ہو یا رجز بہرحال ایک نغمہ فن ہے اوراس کو سن کر قطب کی گہرائیوں میں ایک تلاطم برپا ہوتا ہے۔ شاعر کی اس نوا سے چمن شگفتہ بھی ہوتا ہے اور اس کا سوز نفس ہنر میں ضرب کلیمی کے انداز بھی پیدا کرتا ہے۔
خالص تغزل کا یہ فن عشق کی رنگینیاں بھی رکھتا ہے اور شعرا کا آہنگ بھی‘ دونوں ہی مکمل ترین شکل میں نوائے شوق حریم ذات بت کدہ صفات تجلیات فغاں راز دل وجود اور سینہ کائنات جیسے الفاظ و تراکیب اپنے سیاق و سباق میں مختلف احساسات کو استعاراتی و علامتی پیکر عطا کرتے ہیں۔ ان پیکروں میں فکر و بیان کی جو شوخیاں ہیں وہ نقوش کلام کو زیادہ سے زیادہ گہرا اور ریکھا بناتی ہیں۔ پھر مخصوص حروف کی ترتیب سے جو آوازیں پیدا ہوتی ہیں ان کی گونج اور گنگناہٹ ایک سماں پیدا کرتی ہے ان سب کے خیالات کا مربوط ارتقاء ایک کیفیت ہی نہیں ایک عالم ایک نظام تخلیق کرتا ہے ۔ خواہ انداز نظر مناجات کا ہو یا شکوہ کا۔ انداز تغزل نغمہ دائود اور غزل الغزلات کا ہے یہ انسان اور خدا کے درمیان سرود عشق کا وہ بسیط آہنگ ہے جس کے اندر کائنات کی ساری وسعتیں سمٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ تصویر کی ان گنت گہرائیوں کے ساتھ ترنم کی یہ وسعتیں فن تغزل کو اس کی انتہائی بلندیوں کی طرف لے جاتی ہیں۔
بال جبریل ہی کی ایک غزل کا آخری شعر ہے:
اگر ہو ذوق تو خلوت میں پڑھ زبور عجم
فغان نیم شبی بے نوائے راز نہیں
یہی بات بال جبریل کی غزلوں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ زبور عجم خاص غزلیات (فارسی) کا مجموعہ ہے اور با ل جبریل کی غزلیات (اُردو) کے ساتھ اس کی کافی مشابہت ہے۔ بالعموم تخلص کے تکلف سے دونوں ہی مجموعوں کی غزلیات خالی ہیں اور دونوں کی غزلیات کا انداز یہ ہے کہ شاعر نے حیات و کائنات کے جو کچھ تجربات حاصل کیے ہیں اور ان کے متعلق جو کچھ احساسات و جذبات اور افکار و خیالات ہیں‘ خواہ ا ن کا تعلق زمین وآسمان کے موضوعات سے ہو یا خودی و خدا کے مسائل سے ان سب کا بے ساختہ اظہار ایسی شوخی و تندی اور روانی و شیرینی کے ساتھ ہوا ہے کہ قاری کا تخیل ایک نئی اور لطیف تر فضامیں پرواز کرنے لگتاہے گویا سیل معانی کے تلاطم میں اشعار کی لہروں پر بہنے لگتا ہے‘ اپنے فرسودہ و سوختہ ماحول سے اوپر اٹھ کر ایک تازہ و شاداب عالم میں سیر کرنے لگتا ہے۔ ان مجموعوں کی ہر غزل مظاہر فطرت کی طرح سوئے خلوت گاہ دل و دامن کش انسان ہے۔ اس لیے کہ ایک راز دان فطرت کی فغان نیم شبی ہے جو اسرار و رموز پر پڑے ہوئے پردے اٹھا کر نگاہوں کو نور بصیرت سے روشن کرتی ہے۔ اور دلوں کو دنیا میں تہلکہ بپا کر کے انہیں جلوہ حقیقت کے نظارے کے لیے سراپا آرزوبنا دیتی ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ بال جبریل کی غزلیات اردو کی زبو ر عجم ہیں۔
ان غزلیات میں معانی کے وفور کے ساتھ اسالیب کا تنوع بھی ہے کبھی مناجات ہے کبھی شکوہ کہیںمعرفت کہیں سیاست کسی چیز کی تنقید‘ کسی چیز کی تحسین‘ سوز کے ساتھ ساز‘ نغمے کے ساتھ نالہ‘ فغاں کے ساتھ سرود‘ خودی بے خودی ‘جنوں و خرد ‘ ناز و نیاز بڑی بحر بھی ‘ چھوٹی بحر بھی ایک سے ایک قافیہ اور ردیف‘ رنگ بہ رنگ تشبیہ و استعارہ نوبہ نو تلمیح و کنایہ‘ ہر قسم کے رموز و علائم تازہ بہ تازہ الفاظ و تراکیب‘ فطرت و صنعت دونوں کے اشارات فقروں اور جملوں کے پیچ و خم مصرعوں کا تلاطم اور شعروں کا توازن مجاز حقیقت کے لباس میں اور حقیقت مجاز کے لباس میں پرکار سادگی اور واضھ پیچیدگی ایک کشاکش‘ ایک کشش‘ الغرض حیات سے لب ریز ایک کائنات اور کثرت میں ایک وحدت ۔
بال جبریل کی غزلوں کا انتخاب ویساہی مشکل ہے جیسا زبور عجم کی غزلوں کا تقریباً ہر غزل میںکچھ ایسا کرشمہ ہے کہ دامن د اس کی طرف کھنچتا ہے اور نظر اس پر ٹھہرتی ہے بہرحال مشتے نمونہ کے طور پر چند غزلوں اور چند اشعار کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔
غزلیات
1
گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر
ہوش و خرد شکار کر قلب و نظر شکار کر
(مطلع)
2
اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندہ آزاد
(مطلع)
3
پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے
جو مشکل اب ہے یارب پھر وہی مشکل نہ بن جائے
(مطلع)
4
دگرگوں ہے جہاں تاروں کی گردش تیز ہے ساقی
دل ہر ذرہ میں غوغائے رستا خیز ہے ساقی
5
متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی
مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی
(مطلع)
6
اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں
آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں
(مطلع)
7
یہ کون غزل خواں ہے پرسوز و نشاط انگیز
اندیشہ دانا کو کرتا ہے جنوں آمیز
(مطلع)
8
وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں
خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں
(مطلع)
9
تو ابھی رہ گزر میں ہے قید مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر پارس و شام سے گزر
(مطلع)
10
پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن
(مطلع)
11
کمال ترک نہیں آب و گل سے مہجوری
کمال ترک ہے تسخیر خاکی و نوری
(مطلع)
12
یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی
(مطلع)
13
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
(مطلع)
14
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاںہے تیرے لیے‘ تونہیں جہاں کے لیے
(مطلع)
15
خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ
(مطلع)
16
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر اٹھتے ہیں حجاب آخر
(مطلع)
17
ہر شے مسافر ہر چیز راہی
کیا چاند تارے کیا مرغ و ماہی
(مطلع)
18
ہر چیز ہے محو خود نمائی
ہر ذرہ شہدی کبریائی
(مطلع)
19
اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ
ٹوٹا ہے ایشیا میں سحر فرنگیانہ
(مطلع)
20
خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیاہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے
(مطلع)
21
ستاروںسے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
(مطلع)
22
حادثہ وہ جو ابھی پردہ افلاک میں ہے
عکس اس کامرے آئینہ ادراک میں ہے
(مطلع)
23
کریںگے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیںسوئے کوفہ و بغداد
(مطلع)
24
مری نوا سے ہوئے زندہ عارف و عامی
دیا ہے میں نے انہیں ذوق آتش آشامی
(مطلع)
25
فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ
فقر ہے میروں کا میر‘ فقر ہے شاہوں کا شاہ
(مطلع)
٭٭٭
اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا
٭٭٭
گدائے مے کدہ کی شان بے نیازی دیکھ
پہنچ کے چشمہ حیواں پہ توڑتا ہے سبو
٭٭٭
اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومی‘ کبھی پیچ و تاب رازی
٭٭٭
اس پیکر خاکی میں اک شے ہے سو وہ تیری
میرے لیے مشکل ہے اس شے کی نگہبانی
تیرے بھی صنم خانے میرے بھی صنم خانے
دونوں کے صنم خاکی‘ دونوں کے صنم فانی
٭٭٭
ہر حال میں میرا دل بے قید ہے خرم
کیا چھینے گا غنچے سے کوئی ذوق شکر خند
٭٭٭
لبالب شیشہ تہذیب حاضر ہے مئے لا سے
مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ الا
٭٭٭
کیا صوفی و ملا کو خبر میرے جنوں کی
ان کا سر دامن بھی ابھی چاک نہیں ہے
کب تک رہے محکومی انجم میں میری خاک
یا میں نہیں یا گردش افلاک نہیں ہے
٭٭٭
دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا
مہ وستارہ ہیں بحر وجود میں گرداب
٭٭٭
خودی کی شوخی و تندی کبر و ناز نہیں
جو ناز ہو بھی تو لذت بے نیاز نہیں
٭٭٭
اک اضطراب مسلسل غیاب ہو کہ حضور
میں خود کہوں تو مری داستاں دراز نہیں
٭٭٭
عشق بتاں سے ہاتھ اٹھا اپنی خودی میں ڈوب جا
نقش و نگار دیر میں خون جگر نہ کر تلف
٭٭٭
رمزیں ہیں محبت کی گستاخی و بے باکی
ہر شوق نہیں گستاخ ہر جذب نہیں بیباک
٭٭٭
ہر گہر نے صدف کو توڑ دیا
تو ہی آمادہ ظہور نہیں
٭٭٭
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے
٭٭٭
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پہ اسرار شہنشاہی
٭٭٭
مجھے آہ و فغان نیم شب کا پھر پیام آیا
تھم اے رہرو کہ شاید پھر کوئی مشکل مقام آیا
ذرا تقدیر کی گہرائیوں میں ڈوب جا تو بھی
کہ اس جنگاہ سے میں بن کے تیغ بے نیام آیا
٭٭٭
خزاں میں بھی کب آ سکتا تھا صیاد کی زد میں
مری غماز تھی شاخ نشیمن کی کم اوراتی
٭٭٭
فطرت کو خرد کے روبرو کر
تسخیر مقام رنگ و بو کر
٭٭٭
وہ اپنے حسن کی مستی سے ہیں مجبور پیدائی
مری آنکھوں کی بینائی میں ہیں اسباب مستوری
٭٭٭
عیش منزل ہے غریبان محبت پہ حرام
سب مسافر ہیں بظاہر نظر آتے ہیں مقیم
٭٭٭
عشق تیری انتہا‘ عشق میری انتہا
تو بھی ابھی ناتمام‘ میں بھی ابھی ناتمام
٭٭٭
فریب خوردہ منزل ہے کارواں ورنہ
زیادہ راحت منزل سے ہے نشاط رحیل
٭٭٭
مے شبانہ کی مستی تو ہو چکی لیکن
کھٹک رہا ہے دلوں میں کرشمہ ساقی
٭٭٭
عروج آدم خاکی کے منتظر ہیں تمام
یہ کہکشاں یہ ستارے‘ یہ نیلگوں افلاک
٭٭٭
زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ
کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادراک
٭٭٭
مہ و ستارہ سے آگے مقام ہے جس کا
وہ مشت خاک ابھی آوارگان راہ میں ہے
٭٭٭
اس خاک کو اللہ نے بخشے ہیں وہ آنسو
کرتی ہے چمک جن کی ستاروں کو غرقناک
٭٭٭
اس کو خودی ہے ابھی شام و سحر میں اسیر
گردش دوراں کا ہے جس کی زبان پر گلہ
٭٭٭
میں نے پایا ہے اسے اشک سحر گاہی میں
جس درناب سے خالی ہے صدف کی آغوش
٭٭٭
پوری پوری غزلوں کے علاوہ یہ چند اشعار جو دوسری غزلوں سے لیے گئے ہیں یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ اقبال کے تغزل میں نہ صرف یہ کہ جدید رومانی تخیلات بڑی زیبائی اور رعنائی بیان کے ساتھ ادا ہوئے ہیں بلکہ قدیم کلاسیکی تصورات بھی کثیر تعداد میں بروئے اظہار آئے ہیں۔ گرچہ شاعر کے خاص احساسات کے سبب ان میں ایک تازگی پیدا ہو گئی ہے۔ دونوں قسم کے تخیلات و تصورات ایک مخصوص شاعرانہ جذبے کی گرمی سے پگل کر منفرد قسم کے جمالیاتی نقوش و نغمات میں ڈھل گئے ہیں۔ منتخب اشعار میں متعدد ایسے ہیں جن میں عام طور سے نگاہ انتخاب نہیں پڑتی‘ بعض منتخب غزلیں بھی ایسی ہیں جن لوگوں کی نظر نہیں جاتی‘ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ بیشتر ناقدین ایک ایک غزل اور ایک ایک شعر کا پورا مطالعہ کرنے کی بجائے شاید صرف مطلعوں پر غور کر لیتے ہیں اور جو مطلع انہیںپسند آ جاتا ہے اس کی پوری غزل کا انتخاب کر لیتے ہیں۔ پھر بالعموم اشعار کے انتخاب میں اقبال کے رنگ تغزل کے بجائے یا اس سے زیادہ عمدہ طرز غزل گوئی کا تجسس کیا جاتا ہے نتیجہ یہ ہے کہ بسا اوقات اقبال کے مخصوص تغزلکے بہتیرے عناصر کی نشان دہی نہیں ہو پاتی۔
اقبال کے مخصوص و منفرد و تغزل کی تشریح کے لیے چند غزلوں کے تجزیے سے قبل چند اشعار کا مطالعہ کرنا مفید ہو گا۔ ایک بالکل گمنام شعر ہے:
اس پیکر خاکی میں اک شے ہے سو وہ تیری
میرے لیے مشکل ہے اس شے کی نگہبانی
بہ ظاہر یہ ایک مختصر معمولی اور سادہ سا شعر ہے‘ لیکن اس کے معانی نیز طرز ادا پر جتنا زیادہ غور کیا جائے گا یہ اقبال کے تغزل کے کمالات کے ساتھ ساتھ پوری غزل گوئی کی بہترین روایات پر انتا ہی محیط نظر آئے گا۔ پورے شعر میں صرف ایک ترکیب پیکر خاکی استعمال کی گئی ہے۔ اور اسی کی بنیاد پر دونوں مصرعوں کے الفاظ کا انتخاب کیا گیا ہے جو بالکل معمولی اور سادہ نظر آتے ہیں مگر لفظ شے کا استعمال جس تکرارو انداز سے ہوا ہے وہ پیکر خاکی کو اس کی تمام خاکساریوں کے باوجود خلاصہ کائنات بنا دیتا ہے چھوٹی سی تصویر سے اتنا بڑا تصور اور سامن کی بات سے اتنا دور کہ نکتہ صرف دو لفظوں پہلے مصرعے کے آخر میں تیری اور دوسرے کے آخر میں نگہبانی سے پیدا کیا گیا ہے۔ پورے شعر میںسب سے اہم او رمعنی خیز لفظ ’’اک شے‘‘‘ ہے جس کا استعمال ایسے عنوان سے ایسے لہجے میں ہوا ہے کہ ایک شے کے اندر ایک جہاں سمویا ہوا محسوس ہوتاہے شعر کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اور خود شاعر ہے تو بس ایک پیکر خاکی لیکن اس کے اندر ایک ایسی چیز ہے جو خدائے کائنات کی امانت ہے اور اب گردش لیل و نہار کے نشیب و فراز اور عالم آب و گل کی مشکلات کے پیش نظر شاعر یا انسان کے لیے اس عظیم شے کی نگہبانی مشکل ہو گئی ہے لہٰذا یہ شے جس کی امانت ہے اب وہی اس کی حفاظت کا سامان بھی پیدا کر ے۔ آخر مٹی کا ایک بدن امانت الٰہی جیسی گراں مایہ چیز کا بوجھ کب تک اٹھا سکتا ہے ؟ لیکن اگر وہ یہ بات امانت ‘ اب تک ‘ اتنے برسوں اتنی صدیوں سے اٹھا رہا ہے تو بجائے خود یہ بارکشی اس حقیر خاکی وجود کی عظمت کی دلیل ہے یہ وجود اپنی اصلیت میں کتنا ہی حقیر ہو ‘ کتنی عظیم تر‘ عظیم ترین بلکہ واحد وجود کا آئینہ دار مظہر ترجمان اور پاس دار ہے چنانچہ اپنی تمام خلقی خامیوں کے باوجود انسان کی ہستی کائنات کی سب سے بڑی ہستی خالق ہستی کے بعد ہے اور تمنا و توقع ہے کہ خالق کائنات انسان جیسے جوہر حیات ضائع نہ کرے گا۔ نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑے گا۔ بلکہ اس کی عاجزی و زاری پر اس سے بار امانت واپس لینے کی بجائے اپنی توفیق و عنایت فضل و کرم اور رحمت و برکت سے اسے اس قابل بنا دے گا کہ اس دنیا کے وجود کی آخری ساعت تک یہ بار امانت اتھائے رہے اور اس کی ذمہ داریاں ادا کرتا رہے۔
اس شعر میں ظاہر ہے کہ خودی و خدا کے جدید رومانی تصور کے ساتھ عاشق و محبوب کا قدیم کلاسیکی تخیل بھی ہم آمیز ہے اور اس حد تک کہ ذرا بھی فرق و امتیاز دونوں کے درمیان ممکن نہیں ایسے دقیق مرکب تصور کے اظہار کے لیے پیکر خاکی کی فرسودہ سی ترکیب کو اس تازگی کے ساتھ استعمال کیا گیا کہ وہ علامت و استعارہ کی شرح پر معنی اور پر اثر بن گئی ہے اور اسی کے ذیل میں اک شے جیسے پیش پا افتادہ کا لفظ کا ایسا مصرف لیا گیا ہے کہ وہ وورا الورا کی طرح لطیف ہو گیا ہے ی ہصرف طرز ادا اور انداز نظر کا کرشمہ ہے غزل گو شعرا محبت کی بات کرتے نہیںتھکتے‘ لیکن اقبال کے انداز نظر نے محبت کو امانت الٰہی اور خلافت ارفہی کا حامل بنا دیا ہے ۔ اور یہ ان کا خاص تصور عشق اپنے مجاہدانہ مضمرات کے ساتھ ہے‘ پیکر خاکی ارو اک شے کے الفاظ بالکل پامال قسم کے ہیں مگر اقبال کے طرز ادا نے انہیں اتنا بارونق اور تروتازہ بنا دیا ہے کہ ان کے اندر بالکل نئے فلسفیانہ و شاعرانہ معانی پیدا ہوگئے ہیں غور کییے تو انداز نظر اور طرز ادا کی یہ کار فرمائی مبنی ہے۔ اندیشہ و بیان کی اس شوخی پر کہ پیکر خاکی میں جو شے ہے وہ خالق پیکر کی ہے اور اب پیکر خاکی خالق پیکر کی امانت کا بار اٹحانے سے فریاد کر رہا ہے شکوہ کر رہا ہے اور مناجات کے انداز میں کر رہا ہے۔ بات دنیا اور زمانے کی مشکلات کی کر رہا ہے مگر پہنچتی ہے پرواز کے دین اور ازل تک یہ ہے تغزل اقبال کا سوز و نشاط اور اس کی وسعت و رفعت و عمق۔
ایک غیر معروف شعر یہ بھی ہے:
کوئی بتائے مجھے کہ یہ غیاب ہے کہ حضور
سب آشنا ہیں یہاں ایک میں ہوں بیگانہ
غیاب و حضور اور آشیانہ و بیگانہ کے تضاد و تقابل سے ایک عجیب و عمیق مفہوم پیداہو گیا ہے۔ شاعر بھری انجمن دنیامیں اپن آپ کو تنہا محسوس کرتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ یہ غیاب ہے کہ حضور موجودگی کہ عدم موجودگی؟ یہ غیبوبت اور حاضری کوئی معمولی موجودگی و عدم موجودگی نہیں ہے ۔ اس کا اشارہ عربی الفاظ غیاب و حضور سے ہی ہوجاتا ہے ۔ جن کے کچھ اصطلاحی مفاہیم ہیں یہاں دنیا کی محفل میں سب ایک دوسرے سے واقف ہیں‘ اپنی اپنی پہچان اور شناسائی ایک دوسرے کے ساتھ رکھتے ہیں لیکن شاعر محسوس کرتا ہے کہ اس کی شناخت سب سے الگ اور دوسروں کے لیے نامعلوم ہے کوئی اس کو جانتا پہچانتا نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اس طرح دنیا والوں سے جدا رہنا کیا شاعر کا تعلق کسی اور عالم سے قائم کرتا ہے۔ کیا وہ اس دنیا سے باہر اور بالا کسی اور ایسی محفل کا رکن ہے جہاں اس کی شناخت معلوم و معروف ہے؟ اس سوال کا جواب کون دے گا؟ کوئی دے بھی سکتا ہے؟ یہ بڑا مشکل استفہام ہے اور ااسی استفہامیہ انداز میں شاعری اور تغزل کا سارا حسن و اثر مضمر ہے۔ اس سوال کا جواب واضح ہے اگر دوسرے مصرعے کے مطلب پر غور کیا جائے جب شاعر دنیا میں سب کا رفیق ہو تے ہوئے بھی سب سے جدا ہے اعزا و احباب کی بھری محفل میں بیگانگی کا احساس کرتا ہے تو یقینا اس کا رشتہ و پیوند کسی اور عالم سے ہے کسی ایسی انجمن سے ہے جو دنیا کی محفلوں سے مختلف ہے اور اس انجمن میں شاعر دل و جان سے حاضر ہے ۔ اپنے تفکر و تصورات کی بنیاد پر شاعر محبوب حقیقی کی بارگاہ میں بار پا چکا ہے اور اس بارگاہ حق میں اس پر حقائق حیات کا ایسا واضح انکشاف ہوا ہے کہ دنیا کی کوئی وقعت اور اس کے معاملات کی کوئی اہمیت اور اس کے تعلقات کی کوئی معنویت اس کی نگاہ میں باقی نہ رہی ہے چنانچہ دنیا میں رہتے ہوئے وہ بھی عالم بالا کے تصور سے سرشار ہے۔ شاید اب دنیا کا سماج مردان خدا کے لائق نہ رہا ہے‘ اہل دنیا کے افکار و اخلاق اتنے پست اور ذلیل ہیں کہ ان کے ساتھ بیگانگی کا اقرار باعث شرم ہے لہٰذا دنیا والوں کو محسوسکرنا چاہیے کہ وہ زوال کی کس حد تک آ چکے ہیں۔ اور کوشش کرنی چاہیے کہ اس حد سے پلٹ کر عروج کی طرف مائل ہوں۔
اجنبیت کا احساس و اظہار بجائے خود بہت زیادہ غیر معمولی نہیںہر ذہین و عظیم فرد کوئی عبقری کوئی نابغہ‘ اپنے ااپ کو سماج میں اجنبی پاتا ہے۔ یعنی بعض وقت معاشرت کا زوال بھی افراد ک ایک حلقے میں اجنبیت اور تنہائی کا احساس پیدا کرتا ہے لیکن اجنبیت کے منفی تصور کے ساتھ ساتھ شناسائی کے مثبت تصور کا توازن ایک نہایت غیر معمولی امر ہے شاعر اگر تنہا ہے تو ا س لیے نہیں کہ محروم و مظلوم‘ یا منحرف و مفرور ہے۔ بلکہ بات یہ ہے کہ اس کے دل و دماغ میں ایک اور ہی عالم بسا ہوا ہے ا س کا ذہن وجود کے ایک بہتر دائرے میں آباد ہے یہی وج ہے ک معمولی اجنبیتوں کی طرح شاعر نہ تو نفسیاتی الجھنوں میں گرفتار ہے ۔ نہ اخلاقی آوارگیوں میں مبتلا ‘ نہ شکست خوردہ مایوس‘ نہ برہم و تخریب کار چونکہ اس دنیا کی بیگانگی اس دنیا کی آشنائی کے سبب ہے جہاں نگاہیں ہیں جلوہ حقیقت سے شاد کام ہو چکی ہیں۔ لہٰذا شاعر کا نفس مطمئن اس کاذہن پر سکون اور پر یقین اس کا کردار صالح اور تعمیری ہے‘ اس کے عزائم بلند ہیں اس کی امیدیں فتحمندانہ ہیں۔
استفہام‘ بیگانگی اور آشنائی غیاب اور حضور سب تغزل کی متاع عام ہیں مگر اقبال کا ایک انداز خاص ان کومتاع خاص میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اس طرح روایت تغزل میں ایک بیش قیمت اضافہ خموشی اور پختگی کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ یہی اقبال کی فن کاری کا ممتاز اور منفرد اسلوب ہے۔ جو نہایت حسین ہونے کے ساتھ ہی نہایت موثر بھی ہے۔
یہ شعر بھی محتاج توجہ ہے :
نہ بادہ ہے نہ صراحہ نہ دور پیمانہ
فقط نگاہ سے رنگین ہے بزم جانانہ
سب الفاظ غزل کے جانے مانے الفاظ ہیں ارو ان کے تصورات بھی معروف و مسلم لیکن شاعر نے ان کو استعمال جس استعاراتی انداز میں کیا ہے اس نے پرانے لفظوں کو نئی علامتوں کی شکل دے دی ہے۔ یہ دنیا ایک بزم جانانہ ہے اور اس کی ساری رنگینی نگاہ یار کے جلوہ محبوب سے ہے یہ جلوہ ہی اتنا مدہوش کن ہے کہ بادہ و صراحی اور دور پیمانہ کی ضرورت کا کوئی احساس اہل بزم کو نہیں‘ وہ سب مست مے ظہور ہیں۔ اس دنیا کا سارا کاروبار محبوب ازل کی نگاہ کرم کا مرہون منت ے اگر عرفان حقیقت ہو تو انسان کی سرشاری ک لیے نگاہ یار کا تصور ہی کافی ہے۔ خالق اسباب اپنی جلوہ فرمائی کے لیے اسباب و علل کا محتاج نہیں کن فیکون کی طرح ایک نگاہ ہی پوری کائنات میں جو اس کی انجمن ناز ہے ایک برق تجلی دوڑا رہی ہے انفس و آفاق کی ساری آیات حسن حق کے جمال جہاں آرا کی شاہدت دے رہی ہیں پورے شعر میں نگاہ کا لفظ سب سے اہم اور معنی خیز ہے ۔ یہ اقبال کا ایک خاص لفظ ہے جس کا استعمال انہوںنے استعارے کے طور پر کثرت کے ساتھ مخصوص مطالب کے لیے اپنے اشعار میں کیا ہے مثلاً:
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے
٭٭٭
نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اس میں
نہ پوچھ اے ہم نشیں مجھ سے وہ چشم شرمہ سا کیا ہے
اس شعر کی بھی اشارت و ادا پر غور کرنے کی ضرورت ہے:
عجب مزا ہے مجھے لذت خودی دے کر
وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے آپ میں نہ رہوں
بظاہر تو یہ خودنگری و خود گریکا شعر ہے لیکن س میں ایک لطیف اشارہ خود گیری اور خود شکنی کی طرف بھی ہے‘ اپنے آپ میں نہ رہنا اردو محاورے میں خود پسندی و خود نمائی کا مفہوم بھی رکھتا ہے جو اقبال کے تصور خود ی کے خلاف ہے۔ معرفت نفس یا خود شناسی کا مطلب خود داری کے ساتھ خاک ساری بھی ہے۔ فرد کی وقعت کے ساتھ معاشرے کی اہمیت اور سب سے بڑھ کر خالق کائنات کی عظمت کا احساس اس تصور خودی میںمضمر ہے۔ لذت خودی ایک بہت ہی تیز نشہ ہے۔ اس کا سودا جس کے سر میں سما جائے وہ جامے سے باہر آ جا سکتا ہے۔ جبکہ عرفان نفس آدمی کے اندر وقار پیدا کرتا ہے۔ خالق کے لیے جذبہ عبودیت کے ساتھ ساتھ احترام آدمی کا احساس ابھارتا ہے اس طرح ایک لفظ خودی کے متنوع مفاہیم کی طرف لطیف اشارہ کر کے بڑے نازک خیالات کا اظہار کیا گیاہے ۔
یہ شعر بھی خودی کی بڑی خوب صورت اور خیال انگیز تعبیر و ترجمانی کرتا ہے:
غافل نہ ہو خودی سے کر اپنی پاسبانی
شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ
حرکت وعمل اور سعی و ترقی کی شاعرانہ پیش کش تغزل کے اس شعر میں لائق مطالعہ ہے:ـ
نہیں اس کھلی فضا میں کوئی گوشہ فراغت
یہ جہاں عجب جہاں ہے نہ قفس نہ آشیانہ
گوشہ فراغت قفس اور آشیانہ محاورے کی حد تک عام تصویریں ہیں جن کا استعمال کثرت سے اردو شاعری میں خاص کر غزل میں ہوتا ہے۔ اقبال نے ان تصویروں کا بہت ہی موثر مصرف اپنے ایک خاص تصور کے ابلاغ کے لیے کیا ہے۔ وہ دنیا کو ایک کھی فضا قرار دے کر اس بات سے قطعی انکار کرتے ہیں کہ اس فضا میں کوئی گوشہ فراغت ہو سکتا ہے جس کی تلاش عام طور پر لوگوں خاص کر فن کاروں کو رہتی ہے۔ یہاں تک کہ قفس تو قفس‘ آشیانہ بھی گوشہ فراغت نہیں ہے۔ حالانکہ لوگ اسے امن و اطمینان اورسکون و قرار کی جگہ سمجھتے ہیں اور اسی کے حصول کے لیے بڑی محنت سے اس کی تعمیر کرتے ہیں‘ لیکن اقبال کا خیال ہے کہ ایک کھلی فضا میں جہاں ہر طرف اورہر لمحہ حرکت وت غیر کا عمل جاری ہے فراغت اور گوشہ فراغت کی کوئی گنجائش نہں۔ لہٰذا دنیا فرصت اور آرام کی جگ نہیں ہے سعی و جہد کا مقام ہے۔ یہ ایک راہ گزر ہے جس کی مسافتوں میںنشیب و فراز طے کرنا ہے ۔ کوئی منزل عیش نہیں‘ زندگی ایک فر ہے عیش جاوداں اس سفر کے بعد ایک دوسری دنیا میں ہے۔
ا س رواں شعر کی فصیح بلاغت پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے :
تیرے بھی صنم خانے میرے بھی صنم خانے
دونوں کے صنم خاکی دونوں کے صنم فانی
صنم اردو شاعری میں ایک محشر خیال ہے اور یہاں اقبال نے پورے صنم خانے بسا دیے ہیں میرے تیرے سب کے دلوں میں میر نے کہا تھا:
سب اسی زلف کے اسیر ہوئے۔ خواہ وہ ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے۔ اس ہمہ گیر محبت کے دام میں سب اسیر ہیں۔ ہر دل میں ایک ہی صنم نہیں پورا صنم خانہ ہے لیکن مصرعہ اول میں اردو غزل کا اتنا زبردست صنم خانہ آباد کر لینے کے بعد‘ دوسرے مصرعے میں ہمارا شاعر پورے اور سارے صنم خانے کو توڑ دیتا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ صرف ایک لفظ‘ خاکی کا تیر استعمال کرتا ہے اور خود ہی اس تیر آزمائی کا نتیجہ بھی بتا دیتاہے کہ مٹی کے گھروندے ٹوٹ کر فانی ثابت ہوتے ہیں یوں تو بقول کارخلیلاں خار گدازی ہے جب کہ آزر کا پیشہ خارا تراشی ہے۔ اور جب قوم آزر کا شعار اختیار کرتی ہے تو شاعرایک شان خلیل کے ساتھ سامنے آتا ہ۔ دنیا بت گر ہو تو بت پرست ہو تو ہو شاعر بت شکن ہے۔ لیکن یہاں اقبال اپنی کسی مجاہدانہ سرگرمی کا ذکر نہیں کرتا صرف یہ حقیقت بڑے شاعرانہ و متغزلانہ انداز میں ظاہر کرتے ہیں کہ گرچہ ہر انسان کا ذہن ایک بتخانہ تصورات ہے مگر یہ بت خانہ خاکی ہے ا س لیے کہ آدم خاکی کے ذہن کی پیداوار ہے جو عالم خاک و باد کی حدود میں کام کرتا ہے لہٰذا ایسے ناپایدار صنم خانے کو فنا ہونا ہیہ ہے اللہ بس باقی ہو جس کل من علیہا فان حالانکہ یہ ایک صوفیانہ و فلسفیانہ یا دینی تصور ہے اور اس سے ایک عبرت انگیز اخلاقی سبق ملتا ہے لیکن اس کا اظہار بڑے شاعرانہ استعارے میں اور نہات متغزلانہ انداز سے ہوا ہے جس سے خاکی و فانی وجود کے اندر بھی بڑی رومانوی دلچسپیاں اور دل فریبیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور اخلاقیات کی فضا میں بھی جمالیات کی ہوا چلنے لگتی ہے خاکی وفانی کا سبق حاصل کر کے بھی ذہن صنم خانے کے حسن کی طرف مائل ہوتا ہے اور اس طرح جمالیات کی دل فریبی میںاخلاقیات کی روح پروری زیادہ گہری تہ دار آب دار اور پائیدار محسوس ہوتی ہے۔ یہ بلاشبہ تغزل اقبال کا بانک پن اور اس کی فن کاری کا اجتہاد و امتیاز ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ تغزل میں اقبال کارومانی تجربہ عظیم ترین کلاسیکی معیار کی استواری و رعنائی رکھتا ہے:
اب صرف نمونے کی چند غزلوں کا مطالعہ کیجیے:
گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر
ہوش و خرد شکار کر قلب و نظر شکار کر
عشق بی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
تو ہے محیط بیکراں میں ہوں ذراسی آب جو
یا مجھے ہم کنار کر یا مجھے بے کنار کر
میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو
میںہوں خزف تو تو مجھے گوہر شاہوار کر
نغمہ نو بہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو
اس دم نیم سوز کو طائرک بہار کر
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر
روز حساب جب مرا پیش ہو دفتر عمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر
حسن و عشق کے عمیق ترین احساسات اور بلند ترین تخیلات سے یہ پوری غزل لب ریز ہے ایک والہانہ جذبہ شروع سے آخر تک تمام اشعار پر طاری ہے لیکن پوری اردو شاعری میں یہ انداز تغزل کسی شاعر کا نہیںکہ اپنی ذات کو نہ صرف خالق کائنات کے ساتھ وابستہکرے بلکہ کار جہاں میں اپنی مصروفیت و مہارت کو اتنی وسعت دینے کی تمنا کرے کہ پوری کائنات پر محیط ہوجائے۔ یقینا یہ عشق کی آفاقیت ہے جو حسن کی آفاقیت کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لیے مطلوب ہے لیکن ایسا شوخ بے باک کارواں اور کارفرما عشق اور کہاں ملتا ہے ۔اس عشق کے لیے شاعر کا خلوص اس آہنگ نغمہ کی روانی و فراوانی سے نمایاں ہے جو ایک سرمستی کی طرح بھی وجد میں رقص کناںہیں غزل شروع ہوتی ہے اس آرزو سے کہ محبوب ازل کی زلف گرہ گیر اتنی زیادہ تابدار ہو جائے کہ عاشق اسیر سے برھ کر مدہوش ہو جائے۔ اور سو ا محبوب کی ادائوں اور اشاروں کے کسی اور بات کا احساس اسے نہ رہ جائے محبت کی اس یکسوئی اور فرض کے لیے اس خلوص کی بنیاد پر دوسرے شعر میں محبوب سے التجا ہے کہ یا تو اس کا جلوہ حسن عام اور نمایاں ہو یا عاشق کا جذبہ و عمل تاکہ محبوب کی حقیقت واضح ہو جائے او ر عاشق کی حسرت پوری۔ اس طرح یقین و اطمینان کی کیفیت سے سار ا عالم سرشار ہو جائے اورمنصوبہ تخلیق ارتقاء کے نقطہ کمال تک پہنچ جائے۔ لیکن حسن بے کراں اور عشق محدود لہٰذا یا تو حسن اپنے کرم کے حساب سے عشق کو اپنی بے کرانی کے ساتھ ہم کنار کر دے یا اسے بھی اپنی ہی طرح بے کنار ایک پوری غزل اسی ایک خیال کی نقش گری پر مشتمل ہے:
کیا عشق ایک زندگی مستعار کا
کیا عشق پایدار سے ناپایدار کا
وہ عشق جس کی شمع بجھا دے اجل کی پھونک
اس میں مزا نہیں تپش و انتظار کا
میری بساط ہی کیا ہے ؟ تب و تاب یک نفس
شعلہ سے بے محل ہے الجھنا شرار کا
کر پہلے مجھ کو زندگی جاوداں عطا
پھر ذوق و شوق دیکھ دل بیقرار کا
کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو
یارب وہ درد جس کی کسک لازوال ہو
یہ غزل نمبر ۵ ہے جبکہ اوپر کی زیر تجزیہ غزل نمبر ۳ ہے فن کا ایک سوال یہاں سے اٹھنا چاہیے کہ نمبر ۵ غزل ہے؟ اسے نظم کیوں نہ کہا جائے خاص کر اس کے آخری شعر کھے پش نظر جس کا قافیہ باقی چار اشعار سے مختلف ہے جبکہ مضمون تو مسلسل و مربوط از اول تاآخرہے یہی سوال غزل نمبر ۱۶ کے بعد ان تین قطعات کے بارے میں اٹھ سکتا ہے جنہٰں ملا کر گویا ایک غزل کر دیا گیا ہے۔ اور اس کے بعد گویا غزلیات بال جبریل کا حصہ دوم اس سہ غزلہ کو غزل نمبر ۱ کی حیثیت سے اس حصے میں شامل کر کے شروع ہوتا ہے۔ یہ صورت حال تقریباً ویسی ہی ہے جیسی زبور عجم میں پائی جاتی ہے کہ غزلیات کے درمیان محض چند تخلیقات نظم کی ہئیت میں بھی ہیں۔ پہلے حصے میں ۵۶ غزلیات کے درمیان د و نظمیں ہیں اور دوسرے حصے میں ۷۵ غزلیات کے در میان تین نظمیں ہیں) میرا خیال ہے کہ اقال نے چونک بال جبریل اور زبور عجم دونو میں اپنی منفرد غزلیات اس مجتہدانہ انداز مین پی سکی ہیں کہ مقطع و تخلص کا تکلف اٹھا دیاہے۔ لہٰذا غزلیات کے درمیان جو بلا عنوان چند تخلیقات نظم کی ہئیت میں رکھ دی گی ہیں۔ اور اس سلسلے میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ زبور عجم ور بال جبریل دونوں کی غزلیات پر مصنف یا مرتب کسی نے بھی آ ج تک غزل کا عنوان نہ لگایا ہے چنانچہ جس طرح غزلیں بے عنوانہیں اسی طرح نظمیں بھی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان تخلیقات کو رسماً غزل نہ سمجھا جائے جس کا ایک معروف روایتی سانچہ صدیوں سے فارسی اور اردو میں چلا آ رہا ہے بلکہ انہیں غزل الغزلات یا نغمہ دائود کی آفاقی شاعری کے سرمدینغمات تصور کیا جائے اس لیے ہ ان کے مضامین اور طرز ادا ایسے ہی کچھ ہیں۔
بہرحال زیر نظر غزل کا چوتھا شعر بھی ایک آرزو‘ ایک التجا پر مشتمل ہے وہ یہ کہ شاعر اگر صدف ہے تو اس کے قطرہ فن کوگہراب دار ہونے کا موقع ملے گا اور اگر وہ خزف ہے تو اس میں اتنی آب وتاب پیدا ہو جائے کہ وہ گوہر شاہوار کی طرح قیمتی بن جائے یعنی ایک انسان کے اندر ودیعت کیے ہوئے تمام قوی پورے طور سے بروئے عمل آ جائیں اور انسانیت کے سارے امکانات کمالات بن جائیں آرزو ئے کمال کے باوجود پانچویں شعر میں ایک حسین سی حسرت ہے شاعر تمنا کرتاہے کہ جس نئی بہار انسانیت کے لیے وہ نغمہ سرائی کر رہا ہے اگر اسے دیکھنا اس کے نصیب میں نہ ہو تو کم از کم جو بہار آنے والی ہے وہ ضرور آئے ارو جب آئے تو اس بہار کا مژدہ جان فزا دینے والا طائر خوش الحان کو سمجھا جائے اور بہار کا دیدار کرنے والے مستقبل کے انسان جو بھی سمجھیں بہرحال اس بہار کا ظہور اور اس کاپیام شاعر کی ہی غزل سرائی سے وابستہ ہے یا ہو‘ چھٹے شعر میں شاعر اپنے خالق محبوب کو بتاتا ہے کہ وہ روئے زمین پر اس کی خشی ہوئی خلافت نے فرائض محبتر کی انجام دہی میں اتنا مشغول و منہمک ہے کہ اب گویا محبوب کو بھی ملاقات کے لیے اپنے فرمانروا عاشق کا دیدار اس وقت تک کرنا پڑے گا جب تک دنیا میں کار عشق تمام نہ ہو جائے۔ لیکن اندیشہ یہ ہے کہ انسان کی کمزوریاں کہیں اس کا ر عشق میں اس کو نامراد نہ کردیں وہ فرائض محبت کی ادائیگی میں ناکام نہ ہو جائے اوربار خلافت کماحقہ تحمل نہ کر سکنے کے باعث روز حساب وہ داور محشر کے سامنے بارگاہ محبوب میں شرمسار نہ ہو‘ گرچہ عاشق کی اس خجالت پر محبوب کو بھی سوچنا پڑ گا کہ کہیں عشق کی نامرادی جذب محبت کی کمی کے سبب نہ ہو۔ لہٰذا ساتویں اور آخری شعر کے اس مفہوم کے بعد بات پھر وہی پہلے شعر کے سامنے آ جاتی ہے:
گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر
ہوش و خرد شکار کر قلب و نظر شکار کر
اس لیے کہ التفات کامل کے بغیر جذب کامل نہیں ہو سکتا۔ اور جذب کامل کے بغیر کار عشق مکمل نہیںہو سکتا ۔
ممکن ہے مضمون کے لحاظ سے یہ غزل ایک فلسفہ ہو یا ایک مسئلہ تصوف ہو لیکن اسلوب سخن کے اعتبار سے یہ ایک نغمہ کامل ہے جس میں غالب سے بھی بڑھ کر حافظ کا رنگ و ٓہنگ ہے۔ گرچہ تخیل کی گہرائی اور تفکر کی بلندی میں غالب و حافظ کوئی بھی اس تغزل کے قریب نہیں پھٹکتا۔ دیوان شمس تبریز میں رومی کے تغزل میں بھی ایسی ہی سرمستی ہے مگر تخیل کا وہ نظم و ضبط اور ادراک کا وہ رسوخ رومی کی غزلوں میں نہیں جو اقبال کی غزل میں ہے بہرحال زیر نظر غزل میں ’’گیسوئے تابدار‘‘ ’’محیط بے کراں‘‘ ، ’’گوہر شاہوار‘‘ ، ’’نغمہ نوبہار‘‘،’’دم نیم سوز‘‘، ’’طائر ک بہار‘‘ ، ’’کار جہاں‘‘، ’’اور ’’دفتر عمل‘‘ کی ترکیبوں اور ان کے علاوہ ہو ش و خرد قلب و نظر حجاب آب جو بے کنار صدف گہر خذف نیز عشق و حسن کی تصویروں کو اس ترتیب کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے کہ ارتقائے خیال کا ایک ولولہ انگیز فکر انگیز اور سحر آفریں نقشہ نگاہ و دل کے اندر آراستہ ہو جاتا ہے۔
غزل نمبر 6(حصہ اول) ہے:
پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے
جو مشکل اب ہے یا رب پھر وہی مشکل نہ بن جائے
نہ کر دیں مجھ کو مجبور نوا فردوس میںحوریں
مرا سوز دروں پھر گرمی محفل نہ بن جائے
کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو
کھٹک سی ہے جو سینے میں غم منزل نہ بن جائے
بنایا عشق نے دریائے ناپیداں کراں مجھ کو
یہ میری خود نگہداری مرا ساحل نہ بن جائے
کہیں اس عالم بے رنگ و بو میں بھی طلب میری
وہی افسانہ و نبالہ محمل نہ بن جائے
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے
غزل شرو ہوتی ہے ایک نادر خیال سے کہ موت کے بعدبھی خاک آدم بکھر کر دوسری زندری میںایک بار پھر د ل بے قرار نہ بن جائے اورنتیجتہً جو مشکل اب اس دنیا میں ہے وہی پھر دوسری دنیا میں سامنے نہ آ جائے۔ چنانچہ عالم آخرت میں بھی دنیاے ولی ہی کا کاروبار شوق نہ شروع ہوجائے۔ آج زمانے کے احوال شاعر کو غزل سرائی پر مجبور کرتے ہیں تو کل فردوس کی حوریں اسے نغمہ سنجی پر مجبور نہ کر دیں اور جو سو ز دروں یہاں گرمی محفل بنا ہوا ہے وہاں بھی گرمی محفل نہ بن جائے۔ دو اشعار میں عالم بالا اور اس کی متوقع کیفیات کاایک تصور قائم کرنے کے بعد تیسرے شعر میں شاعر ایک مبہم سی بات کہتا ہے کہ دل میںجو خلش سی برابر رہتی ہے وہ ایک بار پھر منزل بن کر نہ ستانے لگے۔ اس لیے کہ چھوڑی ہوئی منزل کی یاد راہی کے دل سے محو نہیں ہوتی یہ چھوڑی ہوئی منزل کون ہے اس دنیا کے نقطہ نظر سے یہ باغ بہشت ہے جو تخلیق کے فوراً بعد مسکن آدم بنا تھا مگر آخرت کے زاویہ نگاہ سے یہ دنیا ہو سکتی ہے جس میں ایک عمر گزار کر انسان یہاں سے رحلت کرتا ہے ۔ بعد کا شعر اس ابہام سے پردہ اٹھا کر واضح کرتاہے کہ باغ بہشت یعنی فردوس گم گشتہ کی یاد تو غم منزل پر جادہ حیات کے راہی کو میدان عمل میں دوڑ ا رہی ہے تاکہ وہ پھیلے ہوئے کار جہاں کو جلد سے جلد سمیٹ کر اپنی منزل اولیں کی طرف پرواز کر جائے مگر اس جدوجہد کی محرک خود بڑی نازک اور خطرناک چیزہے۔ اس کی بے اعتدالی انسا ن کے دل میں موج زن عشق کے دریائے ناپید ا کنار کو ایک ساحل تک محدودکر سکتی ہے۔ تب کائنات کی بیکراں وسعتوں میں پرواز مشکل ہو جائے گی اور دریائے حیات کے اس پار تیر جانا بھی آسان نہ ہو گا لہٰذا انسا ن کو اپنی ذات میں گم ہو کر نہ رہ جانا چاہیے۔ بلکہ اپنے آپ کو پہچان کر اپنے رب اور اس کی وسیع کانات کو جاننا اور اس کی آفاقی سطح پر عمل پیرا ہونا چاہے تاکہ دنیا سے آخرت تک حیات کی ساری منزلیں وہ بآسانی سر کر سکے اور دونوںراہوں میں بہ شوق گامزن رہ سکے۔ لیکن اس کے بعد کا شعر اس اندیشے کو بیان کر کے او ردونوں کی راہوں میں بہ شوق گامزن رہ سکے۔ لیکن اس کے بعد کا شعر اس اندیشے کو بیان کر کے ایک بار پھر ابہا م کا پردہ ڈال دیتا ہے ۔ کہ کہین عالم بے رنگ و بو بھی انسان کا ذوق طلب اسے عشق کی ایک نئی جستجو کی طرف مائل نہ کر دے او رقیس و محمل کا افسانہ ایک نئے انداز سے دوسری دنیا میں بھی شروع نہ ہو جائے۔ ا س طرح چھوڑی ہوئی منزل کا راز راز ہی رہتا ہے غور کیجیے تو اس کا راز رہنا ہی بہتر ہے ۔ اس رمزیت سے ایک تو راز کا اپنا حسن ابھرتا ہے اور ذوق تجسس کو ابھارتا ہے ۔ دوسرے گہری ایمایت برڑی معنی آفریں کار آفریں ثابت ہوتی ہے۔ منزل کوئی ہو جب تک اس کا نشان باقی ہے اس کا تصور بھی قائم رہے گا اور تصور ایک تصویر بنائے گا وار جو اپنی طرف دامن دلکو کھینچے گی اور یہ کشش اقدام و عمل پر آمادہ کرے گی‘ چنانچہ ساتواں اور آخری شعر پھر ہمیں دنیا کے دارالعمل میں پہنچا دیتا ہے۔ جہاں ہم منزلیں اولیں کے آسماں سے ٹوٹے ہوئے کوکب انسان کو حصول منزل کے لیے کوشاں پاتے ہیں اور محسو س کرتے ہیں کہ اس کی کوششیں مرحلہ بہ مرحلہ کامیاب ہو کر منزل کے قریب پہنچتی جا رہی ہیں یہ دیکھ کر آسمان کے وہ ستارے جو ازل سے فلک نشین رہے ہیں سہمے جاتے ہیں کہ فلک کائنات کا کوکب درخشاں جو اپنی ایک لغزش سے ٹو ٹ کر کبھی زمین کی پستی میں گر چکا تھا دوبارہ عروج پر کر ستارہ کیا مہ کامل نہ بن جائے۔
ارتقا ء اور اس کے محرک درد دل اور آرزوے منزل کا مضمون عالم رنگ و بو اورعالم بے رنگ و بو کے جس تانے بانے کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اس سے ایک بسیط نغمہ حیات کے تارو پود تیار ہوتے ہیں یہ گویا Pointاور Counter Pointکی موسیقی ہے جو بیان و بدیع کی صنعت تضاد و صنعت اشتقاق وغیرہ سے بہت آگے کی چیز ہے اور ایسی نادر فن کاری کا تصور بھی اقبال کائف و نشر معنی و بیان کا ایک بے مثال شیوہ ہے جس کی جدت وجوت بے نظیر ہے مجبور نوا ’’سو ز دروں‘‘،’’گرمی محفل‘‘،’’غم منزل‘‘،’’ناپید کراں‘‘،’’عالم بے رنگ و بو‘‘اور ’’مہ کامل‘‘ کے علاوہ افسانہ دبنالہ محمل اور عروج آدم خاکی جیسی پر معنی اور پر اثر ترکیبیں توالی اضافات کے باوجود سبک و شیریں اور ترنم آفریں ہیں اور محض تین تین لفظوں میں تاریخ انسانی رسم عشق اور روایت فن کے واقعات و تجربات کا عطر پیش کرتی ہیں۔ ایسی ہی ترکیبوں سے جو کلام اقبال میں بکثرت پائی جاتی ہیں وہ تلمیحات وعلامات مرتب ہوتی ہیں جو زندگی کو شعر اور شعر کو زندگی بناتی ہیں۔ دل سوز دروں ’’فردوس‘‘،’’حوریں‘‘،’’غم منزل‘‘اور ’’عشق و طلب‘‘ کے الفاظ پوری غزل میں حسین تصورات و احساسات کی ایک سنہری لکیر اور زنجیر بناتے ہیں کہ ان کے زر افشان تسلسل سے ایک شیرازہ جمال بندھ جاتاہے اور اسی سے سات شعروں اور چودہ مصرعوں کا شیرازہ خیال اور شیرازہ بیان مرتب ہوتا ہے۔
حصہ اول کی غزل نمبر 4کو پڑھ کر بیک وقت کہکشاں اور شہاب ثاقت کے تصورات ابھرتے ہیں:
اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں
آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں
بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم
اک ردائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں
کارواں تھک کرفضا کے پیچ و خم میں رہ گیا
مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں
کہہ گئیں راز محبت پردہ داری ہائے شوق
تھی فغاں وہ بھی جسے ضبط فغاں سمجھا تھا میں
تھی کسی درماندہ رو کی صدائے دردناک
جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں
ایک سے پانچ اشعار تک انسانی ارتقاء کے نقطہ کمال کا والہانہ عاشقانہ و شاعرانہ بیان ہے‘ شروع میں انسان نے اپنا میدان عمل صرف زمین کو سمجھ رکھا تھا اور تصور کرتا تھا کہ دنیائے آب و گل ہی اس کا جہاں ہے لیکن قدرت کے اسرار و رموزکی بے حجابی سے نگاہوں کا طلسم ٹوٹ گیا اور معلوم ہوا کہ آسمان درحقیقت وہ ردائے نیلگوں نہیںہے جو زمین کے اوپر تنی ہوئی ہے بلکہ اس سے بہت آگے رفعتو ں کا وہ آسماں وہ مقام،ہے جسے سدرۃ المنتہیٰ کہا جاتاہے اور جہاںپہنچ کر خاتم المرسلینؐ نے آفاق کی تمام آیات الٰہی کا راست مشاہدہ کیا اور کائنات کے سارے حقائق بے حجاب ہو گئے معراج النبیؐ کے اس عظیم الشان سفر ارتقاء میں مہر و ماہ مشتری جیسے سارے ستارے پیچھے رہ گئے نمائندہ انسانیت کے بڑھتے ہوئے قدموں کے سامنے زمین و آسمان کی ساری وسعتیں سمٹ گئیں۔ اور عشق الٰہی کی ایک جست نے پوری کائنات کو قدموںمیںڈال دیا۔ محبت حقیقی کی پردہ داریاں بھی کاشف اسرار ثابت ہوئیں چنانچہ ضبط فغاں بھی فغاں ہی کی طرح غماز عشق بن گئی لیکن چھٹے اور آخری شعر میں ایسا لگتا ہے کہ ارتقاء کا وہ طلسم یکایک ٹوٹ گیا جو مسلسل پانچ شعروں میں ابھرتا رہا تھا۔ اس لیے کہ جس چیز کو شاعر نے کاروان ارتقاء کے کوچ کی آواز تصور کیا تھا وہ فی الواقع کارواں سے بچھڑے ہوئے ایک درماندہ رہرو کی دردناک صدا تھی‘ مطلب یہ کہ ارتقا کا نقطہ عروج تو چودہ صدیوں قبل انسان کاملؐ نے حاصل کر لیا اور واضح کر دیا تھا مگر کاروان انسانیت عروج آدم خاکی کے اس صراط مستقیم پر گامزن نہ رہا جو کبھی روشن پامال ہوا تھا ۔ لہٰذا مادی ترقی کے تمام انکشافات و ایجادات کے باوجود منزل ارتقاء صرف ایک نشان رہ بن کر رہ گئی ہے اس لیے کہ روحانی زوال نے عصر حاضر میں زندگی کے اس توازن کو برہم کر دیا جو مادی و روحانی عناصر کی باہمی ترکیب اور ہم آہنگی سے کبھی قائم ہو اتھا۔
’’جولاں گاہ زیر آسمان‘‘ک،’’اب و گل کے کھیل‘‘،’’بے حجابی‘‘،’نگاہوں کا طلسم‘‘،’’ ردائے نیلگوں‘‘ ، ’’کارواں‘‘، ’’فضا کے پیچ و خم‘‘،’’مہر و ماہ و مشتری‘‘، ’’ہم عناں‘۔ ’’عشق کی اک جست‘‘، ’’راز محبت‘‘،’’پدہ دار ہائے شوق‘‘،’’اور صبط فغاں کی تاباںو درخشاں تصویر وں نے دس مصرعوں میں کہکشاں کا ایک سلسلہ نجوم مرتب کر دیا تھا کہ گیارہویں اور بارہویں مصرعوںنے گویا ایک لمحے کے لیے اس روشن لکیر کو اس طرح بجھا دیا تھا کہ جس طرح شہاب ثاقب چمک کر بجھ جاتا ہے اب یہ دوسری بات ہے کہ اس برقی صدمے کے بعد پڑھنے والے کے چودہ طبق روشن ہو جائیں اور وہ شدت سے محسوس کرنے لگے کہ اس نے کیا پا لیا تھا اور کیا کھو دیا تھا اور اسے کیا پانا تھا اور ابھی بھ وہ ایک بار پھر کیا کچھ یا سکتا ہے۔ اور اس بازیائی منزل کے لیے اسے کیا کرنا چاہیے‘ تصویروں کے ساتھ مصرعوں کا ترنم اتنا تیز ہے جیسے ایک روشن راستے پر کوئی قافلہ نغمہ سارباں کی لہروں پروادی حیات میں دوڑ رہا ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ غزل کے اشعار ساز حیات کے زیر وبم پر رقص کناں ہیں ۔
غزل نمبر 40 بھی ایک نغمہ ارتقا ہے:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقامات آہ و فغاںاور بھی ہیں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان ومکاں اور بھی ہیں
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں
یہ غزل عصر حاضڑ کے ارتقا اور تصور ارتقاء پر ایک تنقیدہ تبصرہ اور ارتقاء کے بلند تر مدارج کی طرف زبردست اشارہ ہے۔ خلائی سفر اور چاند تاروں میںنئی دنیائوں کی تلاش آج کی سائنس کا محبوب مشغلہ ہے۔ جسے گویا ترقی کی معراج سمجھا جا رہا یہ مگر تقریباً پون صدی پیشتر جب خلائی سفر کی راہوں اور وسائل کا صرف تجسس کیا جا رہا تھا تو اقبال کی نگاہ بصیرت نے نہ صرف اس کی آنے والی عملی شکلوں کو دیکھ لیا بلکہ ان کی خامی و کوتاہیکو سمجھ کر مستقبل کی انسانیت کو ارتقا کی اگلی اورآخری منزلوں کا پیام دیا وہ یہ کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں جو انسان کے جذبہ عشق کا امتحان لینا چاہتے ہیں۔ فضائیں اور خلائیں سب کی سب زندگی سے بھری ہوئی ہیں اور حیات کے سینکڑوں کارواں ان فضائوںمیں سرگرم سفر ہیں۔ لہٰذا آدمی کو صرف عالم رنگ و بو پر قناعت نہ کرنی چاہیے بہار زندگی کے جاں فزا چمن اور بھی ہیں جن کے سرسبز وشاداب درکتوں کی شاخوں میں آشیانے تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔ انسان کی حیثیت کائنات میں شاہیں کی ہے جو برابر اونچی سے اونچی پروازیں کرتا رہتا ہے۔ لہٰذا اس کے سامنے بلند سے بلند تر پرواز کے لیے ایک سے ایک اور سے ور آسماں موجود ہیں چنانچہ اسے اسی دنیا کے شب و روز میں الجھ کر نہ رہ جانا چاہیے۔ اس کے زمان و مکاں دنیائے دنی کے وقت و مقام کے علاوہ بھی ہیں یہ سارے اسرار حقیقت جن کا انکشاف شاعر نے کیا ہے اس صرف اس کے سینے کے راز نہیں ہیں‘ بلکہ اس نے انہیں اس طرح افشا کر دیا ہے کہ دوسرے متعدد رازداں بھی پیدا ہو گئے ہیں اور ایک پوری انجمن بن گئی ہے۔ جس سے توقع کی اجتی ہے کہ وہ شارعر کے پیام کی اشاعت اور تعمیل کر کے کاروان انسانیت کو ارتقا کی راہوں پر آگے اور بلند تر منزلوں کی طرف بڑھائے گی۔
یہ سرود زندگی ہے اور نغمہ راز بھی۔ اس میں صرف دو ترکیبیں اسعتمال کی گئی ہیں۔ عالم رنگ و بو او رمقامات آہ و فغاں جن میں آخری بہت ہی تازہ و شاداب او ر معنی خیز و فکر انگیز ہے ۔ اس ایک ترکیب نے اپنے سیاق و سباق میں منازل حیات کے تمام سفروں کی ایک حسین و جمیل اور عاشقانہ و شاعرانہ تعبیر کر دی ہے ۔ وہ یہ کہ انسن کتنا ہی ترقی کر جائے اور کائنات کی بے کراں وسعتوں میں عروج کے جس نقطے پر بھی پہنچ جائے اسے قرار و اطمینان نصیب نہ ہو گا۔ اس لیے کہ اس کی ساری مساعی اپنے محبوب حقیقی کے فراق میں اور اس کے ساتھ وصال کے لیے ہیں اور جب تک کہ یہ وصال میسر نہیں آ جاتا‘ اس کی کوشش و کامیابی کا ہر مقام آہ و فغاں ہو گا جو وہ محبوب کی جدائی میں مسلسل بلند کر رہا ہے اور سعی ارتقاء میں اس کی حرکت گویا ایک نالہ فراق اور تمنائے وصال ہے یہ غزل فارسی تراکیب کی بجائے مفرد الفاظ ہی کی ترکیب سے ایک وجد اور نغمہ تخلیق کرتی ہے۔ اس سے اردو الفاظ کے سرود آفریں آہنگ کا اندازہ ہوتا ہے لیکن یہ سرود صر ف الفاظ کی ترتیب کا نہیں ہے اس میں جو روح نغمہ ہے وہ معانی کی ترکیب سے ابھرتی ہے۔ یہ لفظ و معنی کا بہترین آہنگ ہے جو زبان شعر پیدا کر سکتی ہے۔
تغزل اقبال کی معنی آفریں دل نواز اور ولولہ انگیز نغمگی و رنگینی سے لب ریز حسب ذل غزلیںبھی ہیں:
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے
(مطلع)
٭٭٭
پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن
(مطلع)
٭٭٭
خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ
(مطلع)
٭٭٭
افلاک سے آتا ہے نالوںکا جواب آخر
کرتے ہیںخطاب آخر اٹھتے ہیں حجاب آخر
(مطلع)
٭٭٭
یہ بالعموم سات اشعار کی متوسط بحروں میں ہیں چھوٹی بحر کی مختصر غزلیں اقبال نے کم کہی ہیں۔ اس طرح خیالات کے مانند ان کے نغمات کا بھی ایک خاص حجم ہے جس کی خصوصیت توازن ہے ‘ کہہ سکتے ہیں کہ اقبال نے ایک ہی لہجے میں‘ ایک آہنگ سے اپنے احساسات و ادراکات کا اظہار یکسوئی ویکسانی کے ساتھ کیا ہے اور گویا غزلیات بال جبریل ‘زبو ر عجم کی طرح‘ ایک ہی نغمے کے سر اور تال از اول تا آخر ہیں یہ ذہن کی استواری اور فن کی ہمواری کے ساتھ جذبہ شعری کے تسلسل کی دلیل ہے۔ اقبال کی فکر کا ایک چشمہ خیال کی طرح بہتی ہے اور ان کا فن ایک شاہراہ کی طرح چلتا ہے۔ یہ ایک عظیم ارتکاز کا حسن ہے جس کی نمود کے لیے وہب و کسب اور ریاض و الہام کے ساتھ روایت و تجربہ ایک دوسرے میںمل کر شیر و شکر ہو گئے ہیں یہ قند مکرر جمال مرکب اور مجموعہ خوبی ہے شعر اور زندگی کا عطرمجموعہ ہے۔
٭٭٭
ضرب کلیم
ضرب کلیم نظموں کامجموعہ ہے۔ لیکن اس کی پانچ غزلوںمیں سے ایک یہ ہے:
دل مردہ دل نہیں ہے‘ اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کاچارہ
ترا بحر پرسکوں ہے یہ سکوں ہے یا فسوں ہے
نہ نہنگ ہے نہ طوفان نہ خرابی کنارہ
تو ضمیر آسماں سے بھی آشنا نہیں ہے
نہیں بے قرار کرتا تجھے غمزہ ستارہ
ترے نیستاں میں ڈالا مرے نغمہ سحر نے
مری خاک پے سپر میں جو نہاں تھا اک شرارہ
نظر آئے گا اسی کو یہ جہان دوش و فردا
جسے آ گئی میسر مری شوخی نظارہ
٭٭٭
اگر پانچ اشعار کی ایسی غزلیں ضرب کلیم میں بال جبریل کی غزلوں کی تعداد کانصف بھی ہوتیں تو ہم اول الذکر مجموعہ کلام کو تغزل میں ثانی الذکر سے کسی طرح نہیںسمجھتے محولہ بالا غزل کا ایک ایک مصرعہ اقبال کے فکر وفن کا آب مقطر شعریت کا عطر اور جان سخن ہے۔ پہلے شعر میں دل مردہ کو دوبارہ زندہ کرنے کا پیام بالکل سادہ الفاظ میں مگر پرزور ترنم کے ساتھ دیاگیا ہے۔ لیکن دوسرا شعرایک رنگین آفاقی تصویر پیش کرتا ہے جو حیات کی تمثیل بن جاتی ہے اور علامتی طورپر اس میں پیام شاعر کے سارے اشارات آ جاتے ہیں۔ دریائے حیا ت عصر حاضر جہاں تک مشرق اور ملت اسلامیہ کا تعلق ہے۔ اتنا بے جان اور پر سکون نظر آتاہے گویا اس کی لہروں پر کوئی فسوں پھونک کر انہیں ساکت کر دیا گیا ہے اور جب زندگی کے سمندرمیں موج ہی نہیں تو وہ خطرات کہاں جن سے تحریک عمل ہوتی ہو چنانچہ ا س خاموش سطح آب کے دھاروں میں نہ تو کوئی نہنگ ابھرتا ہے‘ نہ طوفان اٹھتا ہے۔ نہ لہریں کناروں کوکاٹتی ہیں یہ جمود بڑی بے بصری اوربے خبری کا نتیجہ ہے۔ ایک مردہ دل بے عمل ملت کو فکر ہی نہیں علم ہی نہیںکہ قدرت الٰہی زندگی کو کس برق رفتاری سے ایک منزل سے دوسری طرف لے جا رہی ہے۔ اور مشیت کی نگاہیں ستاروں کی چشمکوں سے کیا اشارہ کر رہی ہیں۔ اس صورت حال میں شاعر اپنے پامال حوادث میں بچے ہوئے ایک شرارے کو نغمہ سحر بنا کر نیستان مشرق وملت میںڈال دیتا ہے۔ تاکہ وہ شعلہ بن کر پورے ماحول کو روشن و رمتحرک کر دے لیکن حال کی تعمیر و ترقی کے لیے درکار ماضی کی آگاہی اور مستقبل کی بصیرت کوئی آسان چیز نہیں یہ متاع دین و دانش صرف ان آزاد و جریاہل نظر کو میسر آئے گی جنہیں اقبال کا پھیلا ہوا نور بصیرت حاصل ہو گیا ہو۔ حال ہرلمحہ ماضی ومستقبل بن رہا ہے لہٰذا دونوں پر گرفت ضروری ہے۔
اس غزل میں ’خرابی کناارہ‘‘ ’’ضمیر آسمان‘‘ ’’غمزہ ستارہ‘‘،اور ’’خاک پے سپر‘‘ تازہ بہ تازہ ترکیبیں ہیں ان ک علاوہ نغمہ سحر جہان دوش و فردا اور شوخی نظارہ کی شاداب ترکیب ہیں۔ ان تراکیب کے علاوہ بحر فسوں ’’نہنگ‘‘ ’’طوفان‘‘ ’’نیستاں‘‘ اور ’’شرارہ ‘‘ کے نقوش و علائم ہیں۔ صرف دس مصرعوں میں اتنے سارے نگینے ۔ جہاں کثرت سے فارسی تراکیب کا استعمال تخیل کے زیادہ سے زیادہ ارتکاز پر دلالت کرتا ہے وہیں مفرد الفاظ کا اسعتمال بہت زیادہ سوچے سمجھے انتخاب کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ ارتکاز و انتخاب گویا ضرب کلیم کے تغزل کا معیار ہے۔ اس سے نغمہ آفرینی کی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ مگر معنی آفرینی میں اضافہ ہوتاہے‘ اس غزل کو بال جبریل کی بہترین غزلوںمیں شمار کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کی اپنی خصوصیت بھی تراکیب و الفاظ کے انتخاب و استعمال سے نمایاں ہے۔ اس کو پڑھ کر دلوں میں ویساہی سرور‘ ولولہ اور حوصلہ پیداہوتا ہے جیسا با ل جبریل کی کسی اچھی سے اچھی غزل کو پڑھ کر اس کا مطلب یہ کہ اقبال کا آہنگ تغزل اب بھی جاری ہے یہ دوسری بات ہے کہ وہ خود تغز ل کی طرف کسی وجہ سے زیادہ مائل نہیں:
شاعر کے جذبہ دل اور دست ہنر کا ثبوت دوسری غزل سے بھی ملتاہے:
ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
میسرآتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندہ حر کے لیے جہاں میں چراغ
فروغ مغر بیاں خیرہ کر رہا ہے تجھے
تری نظر کا نگہباں ہو صاحب ازاغ
وہ بزم عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس
چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ
کیا ہے تجھ کو کتابوں نے کورذوق اتنا
صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ
٭٭٭
ان غزلوں کی ردیف اور قافیہ بھی پچھلی غزلوں کی طرح نازک ہیں۔ اور ان کے استعمال سے ارتکاز و اختصار میں مدد ملتی ہے ایک ایک لفظ اپنی جگہ چنا ہوا ہے گرچہ بعض تصویر جیسے اندھیری شب میں چیتے کی آنکھ نامانوس ہے ۔ مگر اس کی اجنیبت ہی اس کی معنویت پر تاکیدی نشا ن لگانے والی ہے ۔ ممکن ہے کہ بعض لوگوں کو اس تصویر سے ہول آئے لیکن خاص سیاق و سباق میں مخصوص ترسیل خیال کے لیے یہ ایک موزوں وموثر علامت ہے منزل کا سراغ اہل مشرق کو اس لیے نہیںمل رہا ہے کہ نہ صرف اہل مغرب کی پھیلائی ہوئی تاریکی بلکہ اس تاریکی میں پوشیدہ درندوں کا خوف بھی ان پر مسلط ہے ۔ لہٰذا چیتے کی آنکھ روشنی کے ساتھ ساتھ جرا ت و قوت کی علامت ہے جو تارکی اور خوفناک سے خوفناک جنگل میں اپنا راستہ آپ نکالتی ہے اور بناتی ہے۔ دوسرا شعر بالکل سادہ ے صرف اس کا تخیل نادر ہے۔ وہ یہ کہ بندہ حر کے لیے انتظام دنیا سے فراغت نہیں جبکہ غلاموں کو اقدام و عمل کے لائق نہ ہونے کے سبب فرصت نصیب ہے تیسرے شعر میں بھی مشرق و مغرب اور غلامی وا ٓزادی کے تضا د و تصادم سے ایک نغمہ خیال پیداکیا گیا ہے مگر اس میں ایک معنی آفریں تلمیح تصور کے دریچے کو اپنی تیزروشنی سے رنگین کر رہی ہے یہ تلمیح قرآن حکیم کی سورہ نجم کی آیت ماز اغ البصر وما طغیٰ سے ماخوذ ہے جس میں واقعہ معراج کا ولولہ خیز ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ کے قریب رسول اللہؐ نے کھلی آنکھوں سے انوار الٰہی کی تجلی جمال کامشاہد ہ کیا اوراس طر ح ہمیشہ کے لیے انسانیت کے سامنے ترقی و ارتقاء اور فروغ و عروج کا آخری سنگ میل نصب کر دیا‘ لہٰذا جو لوگ اس رسولؐ کو ماننے والے ہیں ان کی نگاہوں کو مغرب کے محدود ناقص مادی فروغ سے خیرہ نہ ہونا چاہیے۔ وہ اپنے رسول ؐ کے نقش قدم رپ چلیں تو اس چرخ نیلی فام سے پرے جا سکتے ہیں جو یورپی سائنس اور صنعت کے برق و بخارات کی حد ہے چنانچہ اہل مشرق کو معلوم ہونا چاہیے کہ اہل مغرب کے مادی عیش کی جو بزم عیش عصر حاضر میںسجی ہوئی ہے وہ بالکل عارضی اور کھوکھلی ہے۔ اور بہت جلد فنا ہو جانے والی ہے ایک جلوہ پا بہ رکاب ہے اس لیے کہ اس کی ظاہری چمک دمک کی کوئی ٹھوس بنیادنہیں وہ آبگینے کی طرح کمزور ہے۔ مغربی تہذیب اپنے خنجر سے اپ ہی خود کشی کرے گی‘ اس کا آشیانہ ایک شاخ نازک پر تعمیر ہوا ہے ۔ جو بہت جلد ٹوٹ جانے والی ہے۔ چوتھے شعرمیں اس طرح جدید تمدن و تہذیب کی کردار نگاری کے بعد شاعر افسوس ظاہر کرتاہے کہ مروجہ نصاب تعلیم کی کتابوں نے لوگوں کو اتنا کو ر ذوق بنا دیا ہے کہ آفاق میں پھیلے ہوئے تمام آثار و مظاہر کا روز مشاہدہ کرنے کے باوجو دانہیں حقیقت کا سراغ نہیںملتا۔ جس طرح چوتھے شعر میں مثال ستارہ کی ترکیب سے ایک سامنے کے خیال کو مزین کیا گیا تھا اسی طرح پانچویں اور آخری شعر میں بوئے گل کی ترکیب کو حقیقت و صداقت کی علامت بنا دیا گیا غزل منزل مقصود کا سراغ لگانے سے شروع ہوئی تھی اور بوئے گل کا سراغ پر ختم ہوتی ہے ۔پہلے شعر میں چیتے کی آنکھ جیس ثقیل تصویر کا استعمال کیا گیا تھا جبکہ آخری شعر میں صبا جیسی لطیف چیز کو ذریعہ ادراک بنایا گیا ہے اور اس کے مقابلے میں کتاب تک کے نقش کو رزوقی کا سرچشمہ قرار دیا یگا ہے۔ لیکن اس متضاد کے پیچھے ایک آہنگ ہے جو پہلے اور آخری دونوں شعروں اور ان میںمستعمل پیکروں میں یکساں ہے۔ یہ فطرت کا آہنگ ہے چیتے کی آنکھ بھی ایک مظہر فطرت ہے‘ جس طرح اندھیری شب میں اور صبا بھی مظہر فطرتہے جس طرح بوئے گل ہے اس طرح پوری غزل میںمشرق و مغرب کے تقابل کے متوازی صنعت و فطرت اور مصنوعی و حقیقی موازنہ بھی جاری و ساری ہے۔معلوم و معروف خیالات کی پیش کش کے لیے ایک غیرمعمولی فن کاری ہے۔
باقی تین غزلوں کے چند منتخب اشعار یہ ہیں؛
تیری متاع حیات علم و ہنر کا سرور
میری متاع حیات‘ ایک دل ناصبور
معجزہ اہل فکر‘ فلسفہ پیچ پیچ
معجزہ اہل ذکر موسیٰؑ و فرعوں و طور
٭٭٭
نہ میں اعجمی ‘ نہ ہندی نہ عراقی نہ حجازی
کہ خودی سے میںنے سیکھی روجہاںسے بے نیازی
تو مری نظر میں کافر میں تری نظرمیں کافر
ترا دیں نفس شماری مرا دیں نفس گدازی
ترے دشت و در میں مجھ کو وہ جنوں نظر نہ آیا
کہ سکھا سکھے خرد کو رہ و رسم کارسازی
٭٭٭
دریا میں موتی ! اے موج بیباک!
ساحل کی سوغات ؟ خارو خس و خاک!
میرے شرر میں تجلی کے جوہر!
لیکن نیستاں تیرا ہے نمناک!
ایسا جنوں بھی دیکھا ہے میں نے
جس نے سیے ہیں تقدیر کے چاک!
٭٭٭
ان اشعار کی نمایاں خصوصیت دقیقہ سنجی ہے ۔ ان میں چند چنے ہوئے معنی خیز الفاظ کو حسین و درخشاںپیکروں کی شکل میںہیرے کی طرح سیاق و سباق میں جڑ دیا گیاہے چنانچہ ایک ایک لفظ نے پورے پورے مصرعے اور شعر کومنور کر دیا ہے ۔ ’’دل ناصبور‘‘ ، ’’موسیٰ و فرعون و طور‘‘،’’نفس گدازی‘‘،’’دشت و در‘‘،’’رہ و رسم کارسازی‘‘،’’موج بیباک‘‘،’’شرر‘‘،’’نیستاں‘‘،اور ’’تقدیر کے چاک‘‘ ایسے ہی الفاظ و فقرات ہیں۔
٭٭٭
’’ضرب کلیم‘ ‘ کی غزلوں کو ہم اقبال کے تغزل کا درد تہ جام کہہ سکتے ہیں۔ جس کو چکھ کر اس مئے تغزل کا احساس شدید ہو جاتا ہے جوشاعر نے بال جبریل میں بڑے والہانہ انداز سے بڑی فراوانی کے ساتھ چھلکائی ہے۔ اور جس کے رنگین بلبلے بانگ درا میں بھی چشمکیں کرتے نظر آتے ہیں۔ آخری مجموعے کی چند غزلیات پر یقینا اس فکر و تخیل کا دبائو شدید ترین ہے جس کی آہٹیں پہلے ہی مجموعے سے ملنے لگتی ہیں اور جس کی زور دار آواز دوسرے مجموعے میں گونجتی سنائی دیتی ہے۔ لیکن آخری مجموعے تک اس فن کی استواری و ہمواری قائم رہتی ہے اور اس اسلو ب کی محکمی باقی رہتی ہے۔ جس کی قومیں پہلے ہی مجموے میں زیادہ رونما ہوئیں اور دوسرے لفظ میں نقطہ کمال کی حد تک رو بہ عمل آئیں۔ اس طرح اقبال کی غزل گوئی کا بھی ایک بسیط نظام فن اسی معیار کا ہے جو ان کی نظم نگاری نے قائم کیا ہے۔ یہ نظام اردو غزل میں اتنا ہی منفرد ہے جتنا اردو نظم میں ا س لیے کہ یہ اسی شاعری کا ایک حصہ ہے جس کا دوسرا حصہ نظم ہے۔ اقبال کافنی ارتقا تمام ان اصناف سخن میں مربوط ہے جن میں انہوںنے طبع آزمائی کی ہے۔
بہرحال اقبال کی غزلوں کے بارے میں تنقیدہ نقطہ نظر سے یہ خیال صحیح نہیں کہ وہ نظموں کی طرح مربوط ہیںمیرا خیال ہے کہ اقبال کی غزلوں میں جو ربط خیال نظر آتا ہے وہ درحقیقت ایک چشمہ خیال ہے تسلسل تو دونوں صورتوںمیں ہوتا ہے مگر آخر الذکر میں بندھا ٹکا نہیں ہوتا۔ کچھ سیال قسم کاہوتاہے۔ اور سطح پر بہت زیادہ توجہ ہونے کے بجائے زیریں دھارے کے طورپر چلتا ہے۔ یہ بات تغزل کی بہترین روایت کے مطابق ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ شاعر ی میں اگر کسی صنف کی ہئیت کا چشمہ خیال کی روادار اور آئینہ دار ہو سکتی ہے تو وہ غزل ہی ہے اور اردو غزل نے اس آئینہ داری کا بہترین ثبوت دیا ہے۔ اقبال کی غزل اس ثبوت کا بہترین نمونہ ہے۔ چشمہ خیال کی کیفیت حافظ کے یہاں بھی ہے اور غالب کے یہاں بھی بلکہ فارسی و اردو کے دوسرے متعدد عظیم شعرا کے کلام میں بھی یہ وصف پایا جاتا ہے لیکن اندرونی تسلسل روانی خیال اور روانی بیان دونوں کے لحاظ صے جتنا محکم اور مکمل اقبال کی غزلوں میں ہے دوسرے کسی شاعر کی غزلیات میں نہیں ہے۔ چنانچہ غزل کے اشعار میں ربط کو ضروری نہ سمجھتے ہوئے بھی اگر ایک حسن سمجھا جائے تو اس کا مفہوم یہی اندرونی اور سیال قسم کا ربط ہے جو اس معنے میں اقبال کا طرہ امتیاز ہے ۔ کہ ان کے کلام میں مستقل طور پر پایا جاتا ہے اور کسی فن کا ری کا مرہون منت نہیں۔ ایک اندرونی جذبے کا نتیجہ ہے۔ ذہن و قلب کی گہرائیو ں سے پھوٹا ہوا ایک فطری چشمہ ہے ۔ جس کے اجزاء و عناصر جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ افکار و خیالات اور تصورات و ادراکات بھی ہیں۔
عشق اقبا ل کے تغزل کی بنیاد اسی طرح ہے کہ جس طرح دوسرے غزل گو شعراء کے تغزل کی۔ عشق حقیقی کا تصور بھی جو تغزل اقبال کی خصوصیت ہے دوسرے بہتیرے غزل گو شعراء کے یہاں بلکہ تقریباً تمام ہی غزل گویوں کے اشعار ایک معتدبہ حصے میں پایا جاتا ہے ۔ پھر رومی کا دیوان شمس تبریز تو اسی حقیقی عشق پر پور ا کا پورا مبنی ہے لیکن اقبال کا عشق دوسرے وہ آفاقی عناصر بھ رکھتاہے جو پیش و غزل گویوں کے یہاں تقریباً مفقود ہیں یہ عناصر مشاہدہ کائنات اور مطالعہ حیات پر مبنی ایک مستقل فلسفہ زندیگ نطریے اور نظام فکر کے اجزاء ہیں جن کا مقصود تجدید معاشرہ اصلاح انسانیت اور انقلاب عالم ہے‘ اتنی منظم فکر عشق کے شاعرانہ گداز میں کیسے تحلیل ہوئی یقینا یہ ایک حیرت کی بات ہے اتنی منظم فکر عشق کے شاعرانہ گداز میں کیسے تحلیل ہوئی یقینا یہ ایک حیرت کی بات ہے لیکن واقعہ یہی ہے کہ سکتے ہیں کہ اس جذبہ دل اور آہ سحر کا فیض ہے جو اقبال کے عشق او رشعر دونوں کی قوت محرکہ ہے لہٰذا شاعر نے فلسفہ و تجربہ کے ذریعے جو کچھ آگہی حیات و کائناات کے متعلق حاصل کی اور انسانی معاشرے کی زمین کے لیے جو کچھ تفکر اس نے کیا وہ سب ایک درد دل کے تیزاب میں گھل کر عشق و غزل کے ذریں ذرات میں تبدیل ہو گیا۔ اب یہ بات بطور سوال اپنی جگیہ ہے کہ اتنے وسیع و پیچیدہ ذہن کو جس دست ہنر نے فن بنایا وہ کتنا زبردست ہے؟ دماغ تنقید ہمیشہ اس سوال پر غور اور تعجب کرتا رہے گا اورنتیجتہ نقد فن اور اصول فن دونوں کے کچھ قیمتی سبق سیکھتا رہے گا۔ اس سبق کے بنیادی نکات ہوں گے خلوص فکر اور رسوخ فن جن سے فن اور نقد فن دونوں کا خمیر اٹھتا اور معیار بنتا ہے۔
اقبال کی زبان غزل گرچہ زیادہ متداول نہیںہے مگر بالکل نئی بھی نہیںہے۔ غالب کے تین اسالیب میں ایک اور غالب اسلوب اسی زبان کا ہے جو مثال کے طور پر ا س قسم کے اشعار سے ظاہر ہوتا ہے:
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے
یا:
اے تازہ وار دان بساط ہو اے دل
زنہار اگر تمہیں ہوس نائو نوش ہے
لیکن غالب کے اسلوب میں ہمورای نہیں ہے اور بہت کچھ مغلق اور بہت متبذل اسالیب بھی ان کے اشعار میں پائے جاتے ہیں۔ جبکہ اقبال کی شاعری میں اغلاق تو بالکل نہیں اور ابتذال مستثنیٰ ہے۔ پھر غالب کے متوسط اسلوب میں بھی مکمل یکسانی نہیں ہے۔ بعض وقت توالی اضافات کی کثرت ہوتی ہے جیسا کہ دوسرے شعر کے پہلے مصرعے اور متعلقہ غزل کے متعدد اشعار میں ہے۔ اس کے برخلاف اقبال کی زبان بالکل استوار و ہموار ہے۔ اس میں پیچیدگی کے باوجود کہیں ژولیدگی نہیں اور صراحت کے باوصف سادگی نہیں یہ ایک مکمل متین زبان ہے مگر خشک نہیں‘ اس میں وقار کے ساتھ ساتھ نشاط ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ربودگی اور رقت نہ ہونے کے باوجود اس طرز بیان میں سو ز و گداز خاص طور پر سوز بدرجہ اتم موجود ہے ۔ اس طرح اقبال کے متغزلانہ اشعار کی تاثیر شوکت بیان سے پیدا ہوتی ہے۔ جو عام روایت تغزل کے پیش نظر ایک غیر معمولی کارنامہ اور کہا جاتا ہے کہ غالب کے اسلوب سخن کے امکانات اقبال کے طرز بیان میں نہ صرف بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ بلکہ نقطہ کمال تک پہنچ گئے ہیں اس لیے کہ اردو غزلیات میں بھی اقبال کا سرمایہ فن غالب سے بہت زیادہ ہے۔