جان عالم(مانسہرہ)
سرمئی شام کی اک خنک یاد نے رات آنکھوں سے ابرق چنی
وقت چلتا ہوا ایک دم سے پلٹ جاتا ہے
اندھے کنوؤں میں گرتی ہوئی سیڑھیوں سے پھسلتا ہوا،
اپنے ماضی کے پاتا ل میں جا اُتراہوں میں
زندگی اپنی شکنیں اٹھا کر گلابوں کا بستر لگا دیتی ہے
تتلیاں ،،پھول ،جگنو ،ستارے نکل آتے ہیں
پھر اچانک پرانے گلی کوچے تعمیر ہو جاتے ہیں
بام پر اجلے چہرے چمکتے ہیں اور
کھڑکیاں آنکھیں بن جاتی ہیں
میں مسرت سے خوشبو میں ڈھلتا ہوا رنگ بن جاتا ہوں ،آٹھواں رنگ
آٹھواں رنگ․․․خوشبوئیں جس کی خاطر چمن چھوڑ دیں
اور دھنک آسمانوں سے منہ پھیر لے
(پھر یہ منظر بدل جاتا ہے)
زندگی ایک دم سے گلابوں کا بستر اٹھا دیتی ہے
خوشبوئیں بھک سے اُڑ جاتی ہیں
تتلیوں کے پَروں سے اچانک سبھی رنگ گر جاتے ہیں
جگنوؤں سے کوئی مشعلیں چھین کر اُن کے ہاتھوں میں ،
بے نور تاروں کی بجھتی ہوئی راکھ رکھ دیتا ہے
اُڑتے اُڑتے پَروں سے اچانک اُڑانیں نکل جاتی ہیں
اور ہوا کاٹتے طائرِ جاں کی پرواز تھم جاتی ہے
رات کی بے اماں ساعتوں میں گرفتار ،
سانسوں کو کوئی چھڑائے
کون ہے
کون ہے جو یہاں سے نکلتی ،
کسی ساتویں سمت کا آکے رستہ بتائے