یہ چھوٹی سی سزا رات کو کمرے میں نہ آنے کی ۔جانتا ہوں یار تم بہت بزی تھی رات کو اتنا کام جو کرنا پڑتا ہے لیکن یہ سارے کام کرنے کے لئے گھر میں اور بھی لوگ موجود ہیں تم فی الحال اپنے شوہر کی خدمت کرو جو تم سے بہت کچھ کہنا چاہتا ہے ۔
آرزو میں اپنے کیے کیلئے بہت شرمندہ ہوں میں تم سے معافی مانگنا چاہتا ہوں ۔
جو کچھ بھی ہو اسے بھول جاؤ ہم ایک نئی زندگی کی شروعات کریں گے اور میرا اس لڑکی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔
باقی باتیں رات کو کمرے میں آنے کے بعد اور آج رات کمرے میں ضرور آنا
تمہارے لیے سرپرائز ہے ۔
وہ مسکراتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا جب کہ آرزو کو اس کی ایک ایک بات جھوٹ لگی تھی وہ کیسے اس کی اس رات کی وہ باتیں بھول جاتی۔
جب اس نے اپنی پہلی رات کی بیوی کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ وہ اس کی محبت نہیں مجبوری ہے ۔
وہ صرف اس کی ماں کی بہو ہے اس کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں
وہ کیسے بھول جاتی ان باتوں کو جو اس کمرے میں رہ کر اس نے کسی اور سے کی تھی ۔وہ کسی اور کو اپنی محبت کا یقین دلاتا تھا ۔آج وہ کہتا ہے کہ تا میہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔
جب کہ تا میہ اس کی اور اپنے رشتے کی گہرائی تک اس پر ظاہر کرچکی تھی ۔
وہ صرف اپنی ماں کی ممتا کی قیمت چکانے کے لئے اس کے قریب آ رہا تھا ۔
آرزو کا دل چاہا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دے ۔آخر کیوں وہ ہر انسان کی نفرت کی حصے دار بنتی ہے کیوں اسے کسی کی سچی محبت نہیں ملتی
عون کافی دیر سے اس کے کمرے میں آنے کا انتظار کر رہا تھا لیکن وہ تھی جو کمرے میں آنے کا نام نہیں لے رہی تھی باہر لوگوں کا کافی رش تھا
مہندی کی رسم ادا ہو رہی تھی
تھوڑی دیر کمرے میں بیٹھے رہنے کے بعد وہ بھی اٹھ کر باہر چلا گیا تاکہ آرزو کو خود کمرے میں لے کے آ سکے ۔
آج دوپہر میں وہ آرزو کے اتنے قریب گیا لیکن آرزو نے اسے کچھ نہ کا مطلب یہی تھا کہ وہ بھی یہ رشتہ نبھانا چاہتی ہے شاید وہ بھی اسے پسند کرتی ہو
یہ بات سوچتے ہوئے اس کا دل الگ ہی ترنگ میں دھڑکا
اس نے ایک نظر ہال پر ڈالی جو اسے کچھ خاص پسند نہیں آیا یہ کیا گھرمیں شادی ہے اور یہ ہال سجایا گیا تھا
اس گھر میں سینس نام کی چیز کسی میں ہے ہی نہیں اس نے سامنے کھڑے سمیر اور حارث کو دیکھا جن کی محنت سے یہ ہال جگمگا رہا تھا ۔
اگر میں اس ہال کو سجاتا تو کم از کم ان سے بہتر سجاتا
وہ ایک افسوسناک نظر پورے ہال پر ڈالتا آرزو کو ڈھونڈنے میں مصروف ہوگیا
آرزو بیٹا او رسم کرلو ۔وہ جو کب سے آرزو کو ڈھونڈ رہا تھا زبیدہ کی آواز کی فورا پلٹا
وہ سامنے ہی سبز چوڑیدار کے اوپر پیلی شارٹ فراک پہلے لمبا سادوپٹہ سر پر سجائے اتنی پیاری لگ رہی تھی
کہ عون کو لگا کہ اب اپنے آپ پر کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا ہے ۔
شاید اس سے زیادہ خوبصورت لڑکی عون نے کبھی دیکھی ہی نہیں تھی ۔
عون کا دل چاہا کہ اسے ساری دنیا سے چھپا کر اپنے دل میں رکھ لے۔
اس سے پہلے کہ آرزو اس کے قریب سے گزرکر رسم ادا کرنے اسٹیج پر جاتی عون نے اسکا ہاتھ پکڑا
سب اپنی وائف یا ہسبنڈ کےساتھ رسم اد آ کر رہے ہیں تم اکیلے چل دی مجھے ساتھ لے کر نہیں جاؤگی وہ شرارت سے کہتا اس کے ساتھ چل دیا۔
آرزو نے ایک نظر اسٹیج سے اترتی تامیہ کی طرف دیکھا جو ان دونوں کو دیکھ کر اپنی جلن کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی
عون نے مضبوطی سے اس کا ہاتھ تھاما اور اسٹیج پر چڑآنے لگا ۔
اکسکیوزمیم آپ پلیز اتر جائے اس نے تامیہ سے کہا ۔ جو آرزو کو سخت نظروں سے گھورتی اسٹیج سے نیچے اتر گئی ۔
آرزو کو اس کے ارادے خطرناک لگے جبکہ وہ یہ سمجھ نہیں پائی تھی کہ عون اسے اس طرح سے اگنور کیوں کر رہا ہے
جبکہ کچھ فاصلے پر کھڑی زبیدہ بیگم کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا جو اپنے سامنے اپنی بہو اور بیٹے کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں اسٹیج پر چڑھتے ہوئے دیکھ رہی تھی
وہ خود بہت پریشان تھی عون کو اچانک ہو کیا گیا ہے وہ تامیہ کواگنور کیوں کر رہا ہے
وہ تامیہ سے اس طرح سے بات کر رہا تھا جیسے اسے جانتا تک نہیں ۔
تامیہ جتنی دیر ان کے گھر میں رہی بس اسے گھورتی ہی رہی اسے اب تامیہ سے ڈر لگنے لگا تھا ۔
عون کو وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی ۔
جبکہ پھوپھو بہت خوش تھی
اور سب کے سامنے جس طرح سے عون اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اسٹیج پر ساتھ گیا وہ تو اس پر وار صدقے جا رہی تھی ۔
مجھے پتا تھا تو عون کو اپنی طرف راغب کرلے گی ۔
کیسے پیار سے بات کر رہا تھا تجھ سے ۔کیوں نہیں بتایا مجھے تم دونوں میں سب کچھ ٹھیک ہو چکا ہے
پھوپھو اسے اپنےساتھ کمرے میں لے کر گئی اور باتیں کرنے لگیں ۔
جب کہ عون کو فون آنے کی وجہ سے وہ باہر نکل گیا ۔
سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے نہ تم لوگوں میں کتنی پیار سے دیکھ رہا تھا وہ تجھے ۔میں جانتی تھی کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا تو ہے ہی اتنی خوبصورت
اب وہ انہیں کیا بتاتی کہ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوا ہے عون صرف اپنی ماں سے کیا ہوا وعدہ نبھا رہا ہے اور کچھ نہیں ۔
لیکن پھوپھو کی خوشی دیکھ کر وہ انہیں یہ بات بتا بھی نہیں سکتی تھی ۔
پھو پھو میں آپ کے لئے چائے بنا کے لاتی ہوں۔ آرزو نے ان کے قریب سے اٹھتے ہوئے کہا تو پھوپھو کو لگا شاید وہ عون کے بارے میں بات کرتے ہوئے اسے شرم آ رہی ہے ۔
اسی لئے مسکراتے ہوئے اسے جانے دیا
عون کے گھر واپس آ جانے کے بعد بھی وہ کمرے میں نہ گئی ۔
اس کا ارادہ آج بھی مہرش اور زریش کے کمرے میں ہی سونے کا تھا ۔
جب اچانک پھوپھو ان کے کمرے میں آئی
تم یہاں کیا کر رہی ہو اپنے کمرے میں جاؤ نا انہوں نے دو بارعون کو کمرے سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا وہ یقینا اسی کا انتظار کر رہا تھا ۔
جی پھوپھو مجھے زریش اور مہرش سے باتیں کرنی تھی اس لیے یہاں بیٹھ گئی وہ بہانہ بنانے لگی
بس بیٹا بہت باتیں ہوگئی اب جاؤ شوہر کو اتنی دیر انتظار نہیں کرواتے نہ جانے کتنے چکر لگا چکا ہے باہر کے ۔
وہ تمہارا انتظار کر رہا ہے چلو جاؤ اپنے کمرے میں پھوپھونے سے پیار سے پچکارتے ہوئے کہا ۔
آرزو مجبور ہو کر اٹھی اور کمرے سے باہر جانے لگی جب اچانک اس کا پیرمڑا اور وہ گر گئی
اچانک گرنے کی وجہ سے بے ساختہ ایک چیخ اس کے منہ سے نکلی جو مہمانوں کے ساتھ تو عون کو بھی متوجہ کر گئی جو اپنے کمرے کے باہر ٹہل رہا تھا
وہ تیزی سے بھاگتا ہوا اس کے قریب آیا ۔
آرزو ٹھیک تو ہو نہ تم گر کیسے گئی وہ اسے سہارا دے کر اٹھانے لگا ۔
ذیادہ درد ہو رہا ہے ڈاکٹر کے پاس لے چلوں وہ فکرمندی سے پوچھ رہا تھا ۔جبکہ اس کے لہجے کی نرمی اور فکرمندی پورے گھر والوں کو حیران کر گئی تھی ۔
نہیں میں ٹھیک ہوں اتنی زیادہ نہیں لگی ۔وہ اس کے سہارے سے اٹھ کر کھڑی ہوتی کہنے لگی ۔
بیٹا تم اسے اپنے کمرے میں لے جاؤ ۔اور کوئی مرہم لگا دو
ان شاءاللہ سب ٹھیک ہو جانے کی زبیدہ نے کہا ۔
وہ کہاں ان کی باتوں پہ دھیان دیتا تھا یا کوئی بات مانتا تھا
لیکن آج سوال آرزو کا تھا
وہ اسے اٹھا کر اپنے ساتھ لے گیا جبکہ سب کے سامنے اس طرح سے اٹھانے جانے پر آرزو نظریں تک نہ اٹھا پائی
وہ اسے سیدھا کمرے میں لایا کمرے میں اندھیرا تھا
میں نے تمہارے لیے سرپرائز پلان کیا تھا لیکن تم تو پہلے ہی اپنا پیر تڑوا کے بیٹھ گئی
بہت غلط بات ہےمیں کب سے تمہارا انتظار کر رہا تھا ۔
آگلے چار منٹ کے بعد تمہارا بہت برتھ ڈے اسٹارٹ ہو جائے گا میں تمہارا یہ برتھڈے بہت اسپیشل بنانا چاہتا تھا ۔
لیکن تم نے اپنا پیر زخمی کر لیا وہ اسے آرام سے بیڈ پر لٹاتا اندھیرے میں ہی کوئی مرہم ڈھونڈنے لگا ۔
ایک پیر کا درد اوپر سے عون سے قربت اسے تو جیسے اپنا ہوش بھی نہ رہا تھا ۔
اب کچھ بولو بھی ایسے ہی خاموش بیٹھی رہو گی ۔تو بالکل نہیں چلے گا مجھے باتیں کرنے والی لڑکی چاہیے گونگی بیوی سے میرا گزارہ نہیں ہوتا ۔
وہ اس کے پیرپر مرہم لگاتے ہوئے کہنے لگا ۔
اور پھر اس کے پیروں پر کمبل ڈال کر وہ اٹھ گیا۔
اس کے اچانک دروازہ بند کرنے پر آرزو کو گھبراہٹ ہونے لگی وہ کیا کرنے والا تھا ۔
اس کے اچانک لائٹ آن کرنے پر آرزو نے اپنی آنکھیں بند کر دی ۔
آنکھیں کھولو میری جان کیوں کہ اگر تمہیں دیکھو گی نہیں تو تمہیں پسند نہیں آئے گا اور اگر تمہیں پسند نہیں آیا تو میری محنت برباد ہوجائے گی اور میری محنت برباد ہوگئی تو میرا اسپیشل سرپرائز خراب ہو جائے گا پلیز اسےخراب مت کرو ۔
وہ اس کے کان کے قریب بولا تھا ۔
تو اس نے فورا اپنی آنکھیں کھولیں
ہیپی برتھ ڈے میری اسپیشل بیوی ۔
عون مسکراتے ہوئے اس کے قریب بیٹھا
کمرا لائٹس سے چمک رہا تھا ۔ کہیں کہیں غبارے لگے تھے
آج تک میں نے جو بھی غلطیاں کی ہیں پلیز مجھے سب کیلئے معاف کردو ۔
جاتا ہوں میں نے تمہارے ساتھ بہت زیادتی کی ہے بہت غلط کیا ہے تمہارے خوابوں کی تعبیر اتنی بیانک کی ہے کہ شاید مجھے کبھی معاف نہ کرو ۔
لیکن پھر بھی تم سے ایک موقع مانگتا ہوں آرزو میں تمہارے ہی لئے تمہارے ساتھ یہ سب کچھ کر رہا تھا ۔
میں نہیں چاہتا تھا کہ تم مجھے پسند کرو یا مجھ سے پیار کرنے لگو
لیکن میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں پلیز مجھے معاف کر دو
پلیز معاف کر دو وہ اس کے دونوں ہاتھ تھامیں زمین پر بیٹھا اس سے معافی مانگ رہا تھا ۔
شاید یہ سب ڈرامہ تھا شاید اس کی ماں کے سامنے یہ بات ظاہر کرنے کا کہ وہ دونوں ایک مکمل کپل ہیں ۔
لیکن پھر بھی پھوپھو کے سامنے شرمندہ نہیں ہو سکتی تھی ۔وہ چاہے یا نہ چاہے اسے عون کی محبت قبول کرنی تھی ۔جھوٹی ہی سہی
لیکن اس نے اپنی پھوپھو کو یہ بات بتانی تھی کہ اس نے کوشش ضرور کی اس رشتے کو نبھانے کی
اس نے اپنا ہاتھ اس کے باندھے ہوئے ہاتھوں پر رکھا
مجھے آپ سے کوئی گلہ نہیں ۔میں آپ کو دل سے معاف کرتی ہوں ۔
اور پھر وہ نازک سی لڑکی اس کے سامنے ہار گئی جب اگلے ہی لہحے عون نے اسے اپنے سینے میں بھیج لیا
تھینک یو سو مچ آرزو میں تمہارا یہ احسان مرتے دم تک نہیں بولوں گا اور تمہارا یہ برتھ ڈے بہت اسپیشل بناؤں گا۔
سب سے پہلے ہم کیک کاٹتے ہیں وہ مسکراتے ہوئے اس کے قریب سے اٹھا ۔
اور کیک لاکے سامنے رکھا ۔
چلو کاٹو وہ نائف اپنے ہاتھ میں لئے اس کے ہاتھ میں پکڑا کر کیک کاٹنے لگا ۔
اور ساتھ میں کنگنا نے بھی لگا ۔
چلو اٹھو جلدی سے لانگ ڈرائیو پہ چلتے ہیں وہ کیک کاٹکڑا اپنے ہاتھوں سے کھلاتے ہوئے کہنے لگا ۔
جلدی کرو بارہ بجے سے زیادہ ٹائم ہوچکا ہے ۔
وہ اسے بولنے کا موقع دیئے بغیر ہاتھ پکڑ کر اٹھانے لگا ۔
گھر میں کوئی نہیں پوچھے گا اگر کسی نے پوچھا تو کہہ دینا پیر میں بہت درد ہے ڈاکٹر کے پاس جارہے ہیں ۔
ؓمیں گاڑی نکالتا ہوں آہستہ آہستہ آنادرد نہ ہو پیر میں
وہ کہتے ہوئے باہر نکل گیا جبکہ آرزو آہستہ آہستہ اس کے پیچھے چلنے لگی
وہ آہستہ آہستہ چلتی دروازے کی طرف جا رہی تھی جب اچانک سے پیچھے سے تائی امی نے پوچھا
آرزو کہاں جا رہی ہو وہ بوکھلا کر ادھر ادھر دیکھنے لگی
پھر اچانک ہی اسے عون کی بات یاد آ گئی کہ اگر کسی نے پوچھا تو کہہ دینا کہ پیر میں زیادہ درد ہے اس لیے ڈاکٹر کے پاس جا رہی ہوں
وہ تائی امی پاؤں میں زیادہ درد ہے اسی لیے ڈاکٹر کے پاس جارہے ہیں آرزو کو جھوٹ بولتے بہت عجیب لگ رہا تھا ۔
ہائے میری بچی ایک منٹ میں ابھی حارث کو بلاتی ہوں تائی ا می نے فورا کہا
نہیں میں عون جی کے ساتھ جا رہی ہوں آرزونے جلدی سے کہا تو تائی امی مسکرانے لگی
ماشاءاللہ ماشاءاللہ بیٹا ضرور جاؤ
بہت خوشی ہوئی تم دونوں کو ایک ساتھ ہنسی خوشی دیکھ کر
اللہ تم دونوں کو خوش رکھے وہ انہیں دعا دیتی کمرے کی طرف جانے لگی جب کہ عون اسے تائی امی کے پاس کھڑا دیکھ چکا تھا
خبر پہنچ گئی اب پورے گھر میں پھیل جائیں گی وہ اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا
تائی امی تو پوری نیوز کاسٹر ہے ۔
عون نے کہا تو آرزو کو اچھا نہ لگا
ایسی بات نہیں ہے تائی امی تو بہت اچھی ہیں ۔آرزو منمنائی
ہاں ہاں سب اچھے ہیں بس تمہارا شوہر اچھا نہیں ہے جس کے پاس آتے ہوئے ہزار بار سوچتی ہو ۔
لیکن میرا نام بھی عون سوچ سمجھ کر رکھا گیا تھا وہ مسکراتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھول کر اسے بٹھانے لگا
وہ اسے ہوسپیٹل تو ہرگز نہیں لے کے گیا تھا سب سے پہلے وہ اسے آئسکریم پالر لے کے گیا ۔
تمہارا فیورٹ فلیور کون سا ہے چھوڑو جو بھی ہے آج سے تم میرا فیورٹ کھاو گی وہ کہہ کر پالر کے اندر چلا گیا ۔
آرزو کو کہاں عادت تھی اپنی پسند کی کوئی چیز کھانے یا فرمائش کرنے کی وہ خاموشی سے وہیں بیٹھ گئی ۔
تقریبا پانچ منٹ کے بعد عون اس کے لیے آئسکریم لے کے آیا
یہ لیں جانِ من آپ کی خدمت میں حاضر ہے آپ کے شوہر کا فیورٹ آئسکریم فلیور ۔وہ ایک ادا سے کہتا آئسکریم اس کے سامنے پیش کرنے لگا
تھینک یو عون جی ۔وہ اتنا ہی کہہ سکی
ہائے میں صدقے عون جی ۔لڑکی یہ انداز کہاں سے سیکھا ہے سامنے والے کو قتل کرنے کا ۔وہ شرارتی انداز میں کہتا پوچھنے لگا ۔
آرزو کنفیوز سی بیٹھی اس کے کسی سوال کا ٹھیک سے جواب نہیں دے پا رہی تھی ۔
آئس کریم کھلانے کے بعد وہ اسے اپنے ساتھ لونگ ڈرائیو پر لے گیا ۔سارے راستے گاڑی میں رومینٹک سونگ بچتے رہے ۔
تمہیں پتا ہے آج سے پہلے مجھے رومینٹک سونگ سے چڑ تھی لیکن آج لگ رہا ہے جیسے سب کے سب میرے دل کا حال بیان کر رہے ہوں ۔
تم نے مجھے بدل کر رکھ دیا ہے آرزو ۔تھینک یو سو مچ میری زندگی میں آنے کے لیے میں تمیہں بہت خوش رکھوں گا ۔
عون نے اس کا ہاتھ تھام کر چومتے ہوئے کہا ۔
جبکہ اس کی اس حرکت پر آرزو کا نھنا سا دل کانپ کر رہ گیا
تم اتنی گھبرا کیوں رہی ہو آرزو تمہارا ہاتھ اتنا ٹھنڈا کیوں ہے وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے پوچھ رہا تھا ۔
نہیں تو ہاتھ ٹھنڈا پتا نہیں وہ ہر بات کاادھورا سا جواب دے رہی تھی جب عون بے ساختہ مسکرایا ۔
او تو میری بیوی مجھ سے گھبرا رہی ہے ڈارلنگ میں کوئی غیر تو نہیں تمہارا شوہر ہوں ۔
وہ اس کی گھبراہٹ کو انجوائے کرتے ہوئے بولا ۔
جبکہ آرزو بس اسے دیکھ کر رہ گئی ۔
کیا سب کچھ ڈراما تھا کیا وہ صرف اپنا مطلب پورا کرنے کے لئے اسے دھوکہ دے رہا تھا۔
وہ جو اس کے ساتھ خود کو محفوظ محسوس کر رہی تھی وہ تو اس کا مخالف تھا ۔ اس کا شوہر تھا ۔
بیشک وہ اس کی محبت نہ سہی لیکن بیوی تو ہے ۔یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ ایک حال میں اس سے اپنا بنانے میں کامیاب ہوجائے ۔
آخر پھوپھو نے اسی طرح تو اس کی زندگی داؤ پر نہ لگائی ہوگی ۔پھوپھو کو اس پر یقین تھا تو وہ اپنے آپ پر یقین کیوں نہیں کر پا رہی تھی ۔
بے شک عون صرف دکھاوا کر رہا تھا اس سے محبت کا لیکن وہ تو دکھاوا نہیں کر رہی تھی وہ تو اس کی بیوی تھی ۔
اور اسے تو اسی شخص کی بیوی بن کر رہنا تھا اسے تامیہ کو عون کی زندگی سے نکالنا تھا نہ کہ خود عون کی زندگی سے نکلنا تھا ۔
اسے پھوپھو کی امیدوں پر پورا اترنا تھا انہیں ان کا بیٹا واپس کرنا تھا ۔
میں عون کو خود سے محبت کرنے پر مجبور کروں گی میں تامیہ کو انکی زندگی سے نکال کر رہوں گی ساری زندگی اپنا حق دوسروں کو چھینے نہیں دوں گی عون میرے شوہر ہیں اور میرے ہی رہیں گے وہ مجھے اپنی بیوی مانے یا نہ مانے لیکن وہ میرے شوہر ہیں اور میں پھوپھو کا بیٹا انہیں واپس ضرور کروں گی میں عون کو کسی دوسری راہ پرنہیں جانے دوں گی وہ خود سے عہد کرتی عون کو دیکھ رہی تھی
ہائے مار ڈالو گی کیا عون نے اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر کہا تو بےساختہ نظر چُورا گئی اور عون قہقہ لگاکر ہنس دیا
گھرآنے تک آرزو نے اپنے آپ کو اس رشتے کو نبھانے کے لیے مکمل تیار کر لیا تھا
اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ عون کے ساتھ ایک نیا رشتہ بنائی گئی اور پھر اسے کبھی اس رشتے سے آزاد نہیں ہونے دے گی ۔
وہ گاڑی روکنے گیا تو آرزو کمرے میں آ کر اس کا انتظار کرنے لگی ۔
گھبراہٹ حد سے سوار تھی ۔لیکن آج اسے گھبرانا نہیں تھا
اسے عون کو پانا تھا ہمیشہ کے لئے لیکن کیا وہ تامیہ کا مقابلہ کر پائے گی کیا اپنے ہی شوہر کو ایک غیر عورت سے چھین لے گی وہ انہی سوچوں میں گم تھی
جب اچانک پیچھے سے کسی نے اسے اپنی باہوں میں لے لیا ۔
گہری سوچوں میں کیا سوچ رہی ہو مجھے جلن ہو رہی ہے تمہارے عون جی کو بالکل اچھا نہیں لگے گا تم اسے چھوڑ کر کسی اور کی سوچوں میں گم رہو وہ شرارت سے بولا
میں آپ ہی کو سوچ رہی تھی ۔آرزو بے ساختہ بولی تو وہ کھل کر مسکرایا
لڑکی تمہیں تو دل خوش کرنا آتاہے تم نے مجھے اتنی بڑی غلطی کے لیے معاف کر دیا میں تمہارا یہ احسان ساری زندگی نہیں بھولوں گا
تم سوچ بھی نہیں سکتی میں کتنا پریشان تھا یہ سوچ کے کیا میری آرزو مجھے معاف کرے گی میں تمہارا گناہگار ہوں میں نے تمہارے خواب توڑ دیے ۔
تمہارے ساتھ اتنا برا رویہ رکھا اس کے باوجود تم نے مجھے معاف کر دیا
تھینک یو سو مچ ۔۔۔وہ اس کے دونوں ہاتھ چوم کر بولا ۔کافی تھک گئی ہو سو جاؤ وہ اسے کہتا واش روم جانے لگا ۔
کیا مطلب ۔۔۔۔آرزو پریشان ہو کر بولی ۔
اس کے اس طرح سے پریشان ہونے پر وہ مسکرا دیا ۔
ہائے اس سادگی پہ کون نہ مر مٹے ۔میرا مطلب یہ ہے جان آپ تھک گئی ہیں سو جائیں ۔
آرزو میں نے تم سے محبت کی ہے میں جانتا ہوں تم فی الحال اس رشتے کو دل سے قبول نہیں کر پا رہی ۔اور جب تک تم اس رشتے کو دل سے قبول نہیں کرتی میں تمہارے قریب نہیں آؤں گا ۔۔
جب تک تم خود مجھے اپنے پاس نہیں بلاتی لیکن میں زیادہ دیر انتظار نہیں کروں گا میں تمہیں ہمارے رشتے کو سمجھنے کا تھوڑا سا وقت دے رہا ہوں اور تھوڑے سے وقت کا مطلب بس تھوڑا سا وقت ہے ۔
زیادہ دیر انتظار نہیں کر سکتا میں لیکن تمہاری اجازت کے بغیر چھوٹی موٹی گستاخی ہوتی رہیں گی اب جاؤ آرام کرو
وہ شرارت سے آنکھ دبا کر کہتا ہوا واش روم چلا گیا ۔
جبکہ آرزو سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ یہ عون کو کیا ہوگیا ہے ۔
وہ اسی لیے تو اس سے اتنی نرمی سے بات کر رہا تھا کہ وہ اس کے قریب آکر اپنا مطلب پورا کر سکے ۔اپنی ماں پے یہ ظاہر کر سکے کہ وہ اس شرط کو نبھا رہا ہے ۔
تو کیا اب سچ میں عون اس سے پیار کرتا ہے ۔
تو پھر تامیہ۔۔۔ سوچتے سوچتے اس کا سر دکھنے لگا ۔
تامیہ ساری رات پریشانی سے ادھر سے ادھر ٹہلتی رہی کیا کیا نہ سوچا تھا اس نے اس طرح سے آرزو کی زندگی برباد ہو جائے گی اور پھر سے وہ سے اسی مقام پر لاپٹکے گی جہاں سے عون اسے نکال کر لے کے گیا ہے
وہ ہمیشہ سے اسے جلتی آئی تھی اس کی خوبصورتی سے اس کی معصومیت سے یہاں تک کہ وہ اس کی سادہ سی زندگی سے بھی جلنے لگی تھی
وہ اس سے اتنی نفرت کرنے لگی تھی کہ اسے برباد کرنے کے لئے کوئی بھی انتہا پار کرنے کو تیار تھی
وہ ساری رات عون کو فون کرتی رہی جبکہ عون کا فون سائلینٹ پر تھا اور وہ آرام سے سو رہا تھا ۔