ملک سخاوت بات یہ ہے کہ مونا بیٹی تو اب ہماری ہو چکی ہے لیکن یہ میری خواہش ہے کہ میں اس کے اوپر لگا بدنامی کا وہ داغ ختم کروں تاکہ کوئی اسے پھر کبھی اس جرم کا طعنہ نہ دے سکے جس کا اس نے ارتکاب ہی نہیں کیا
میں علی سے کہہ کے مونا کے کیس کی دوبارہ نئے سرے سے تفتیش کرواتا ہوں
“اور یہ میری خواہش ہے کہ میری بہو جب ہمارے گھر اپنی نئی زندگی کا آغاز کرے تو ماضی کی سب تکلیف دہ یادوں سے نجات حاصل کر چکی ہو ”
چوہدری راشد نے ملک سے اپنے دل کی بات کہی _____
“چوہدری صاحب مونا اب آپ لوگوں کی امانت ہے ہمارے پاس میری تو بس اتنی سی خواہش ہے کہ اسے اب زندگی میں کوئی نیا زخم نہ ملے
اور جو دکھ اس نے برداشت کیے ہیں وہ سب اسے بھول جائیں ”
ملک سخاوت نے مونا کا معصوم چہرہ سوچتے ہوئے کہا
_____________
“وہ آپ سو رہی تھیں کیا؟”
رات کے دو بجے مونا کو علی نے کال کر کے پوچھا
مونا نے ٹائم دیکھا
“نہیں میں ڈانس کر رہی تھی ”
وہ غصے سے بولی _____
“اکیلی میرے بغیر مجھے بلا لیتی دونوں مل کے کر تے ڈانس
بلکہ بریک ڈانس جس میں شوہر رات کے دو بجے کمرے کا دروازہ کھول کے اندر آتا ہے اور کمرے میں پہلے سے موجود اس کی مونا جیسی خونخو ار بیوی ڈنڈا اٹھا کے دے مارتی ہے جس سے اس کی دائیں ٹانگ بریک ہو جاتی ہے اور پھر بیوی پیچھے پیچھے شوہر آگے آگے بریک ڈانس کر رہا ہوتا ہے”
علی کونسا کم ڈھیٹ تھا مسلسل اسے تنگ کر رہا تھا___
“یار اب میں اتنی بری اور ظالم بیوی بھی نہیں ہوں آپ تجربے سے پہلے ہی کیسے یہ سب کچھ کہہ سکتے ہیں ؟”
مونا نے اپنے لہجے پہ شرمندہ ہوتے ہوئے کہا_____
“اچھا سچی تو کب تک آپ کا اس شعبے میں عملی تجربہ کروانے کا ارادہ بن رہا ہے تاکہ میں گھر والوں کو بتاؤں اور وہ ہماری حالت پہ رحم کھا کے اکلوتی بیوی کو رخصتی کا انتظام کریں ”
“ممم مجھے کیا پتہ یہ تو خاندان کے بڑوں کا فیصلہ ہے جب انھیں مناسب لگے گا ہو جائے گی رخصتی”
مونا نے شرماتے ہوئے کہا
“اچھا صبح پولیس کے محکمے سے چند آدمی تمھارے پاس آ رہے ہیں اس اغوا والے کیس کی تفتیش کے لیے تم ان کے ساتھ مکمل تعاون کرنا یہ بابا جانی کی نہیں میری بھی خواہش ہے کہ اس اغوا کے پیچھے چھپی حقیقت سب کے سامنے آ سکے اور تم اس الزام سے بری ہو سکو ”
علی نے مونا کو ہدایت دیتے ہوئے کہا
______________________________
نہیں مطلب وہ چھٹانک بھر کی چھوکری تمھارے سامنے علی کو اڑا لے گئی اور تم ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے آرام سے بیٹھی بس تماشہ دیکھتی رہی
عالیہ کی ماں نے ساری بات سن کے غصے سے ڈانٹتے ہوئے کہا
“ممی آپ مجھے کیوں الزام دے رہی ہیں سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ کسی کو کچھ کہنے سننے کا موقع ہی نہ ملا ”
عالیہ نے صفائی پیش کی
“ارے اس کی مار مار کے شکل بگاڑ دیتی وہیں کسی پہاڑ کی چوٹی سے نیچے دھکا دے دیتی کچھ بھی کرتی لیکن علی کو اس کے حوالے نہ کرتی ”
“ماں کچھ خدا کا خوف کریں پہلے بھی آپ نے ماریہ آپی کے ساتھ مل کے اس بیچاری کے ساتھ اتنے ظلم کیے اور نتیجہ آپ نے دیکھ لیا بددعائیں لگ گئیں اس کی ایک سال میں قبر میں پہنچ گئی آپ کی لاڈلی بیٹی اور اب مجھے بھی یہی الٹے سیدھے مشورے دے رہی ہیں”
عالیہ نے تنگ آ کر جواب دیا
عالیہ کی ماں کا غصہ مزید بڑھ گیا ارے وہ کوئی ولی اللہ نہیں ہے جس کی بددعا لگ گئی ہیں ماریہ کی موت ایک حادثے میں ہوئی تھی
نہ کہ اس حاجن مونا کی بددعاؤں سے اور تم بھی ماریہ جیسا کوئی اچھا سا پلان سوچ کے اس بلا سے چھٹکارا پانے کا سوچو
ایسے موقع تقدیر بار بار نہیں دیتی ایک بار وہ لڑکی رخصتی کروا کے اس گھر میں پہنچ گئی تو پھر تمھاری وہاں سے ہمیشہ کے لیے چھٹی
عالیہ کی ممی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
__________________
دیکھیے میڈیم یاد کرنے کی کوشش کریں کوئی ایسی بات کوئی چہرہ کچھ بھی جس سے ہمیں آپ کو اغوا کرنے والوں کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو سکیں
پولیس انسپکٹر نے دوران تفتیش مونا سے پوچھا
ان کے چہروں پہ ہمیشہ نقاب ہوتا تھا میں صرف ان کی آنکھیں ہی دیکھ سکی تھی
یا وہ تھوڑی بہت باتیں جو وہ آپس میں کرتے تھے
مونا نے یاداشت پہ زور دیتے ہوئے کہا
زیادہ تر تو وہ خاموش ہی رہتے تھے لیکن آخری بار جب میں نیم بے ہوشی میں تھی تو ایک لڑکے نے گھبرا کے کہا تھا کہ
یہ لڑکی تو مر گئی
“اب شازیہ بی انھیں چھوڑے گی نہیں اور بی بی ماریہ ہو سکتا ہے کچھ بھی نہ دے ”
مونا نے بڑی مشکل سے یاد کرتے ہوئے کہا
کیا آپ اس نام کی کسی عورت کو جانتی ہیں انسپکٹر نے مونا سے پوچھا
نہیں مجھے ان دونوں کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے
مونا نے مایوسی سے کہا
چلیں ٹھیک ہے میڈیم کچھ اور اس بارے میں یاد آئے تو ہمیں ضرور بتائے گا
انسپکٹر اجازت لے کے وہاں سے رخصت ہو گیا
________________________
“عالیہ میری بات دھیان سے سنو تم علی کے ساتھ اکیلی گھر سے باہر جاؤ اور واپس آ کر تم گھر والوں کو یہ بتانا کہ علی نے آج اس کی محبت میں ساری حدیں پار کر لیں اور وہ اب کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہی ہے اس لیے بہتر ہے علی سے کہیں کہ وہ اس کے ساتھ شادی کر لے ”
عالیہ کی ماں نے اسے علی کو جال میں پھنسانے کا طریقہ سمجھاتے ہوئے کہا
“مگر ممی علی کبھی اس بات کو مانے گا نہیں اور اس کے گھر والے بھی اپنے بیٹے کا اعتبار کریں گے اس طرح تو میں سب کی نظروں میں گر جاؤ ں گی ؟”
عالیہ نے خدشہ ظاہر کیا
“ارے بیٹا ایسے موقعوں پہ لڑکوں کی بات سنتا ہی کون ہے؟
تم ذرا اچھی طرح ٹسوے بہا کے رو پیٹ کے ڈرامہ کرنا تاکہ سب کی ہمدردیاں تمھاری طرف ہو جائیں اور علی کے سچ کا کسی کو یقین ہی نہ آئے ”
عالیہ کی ممی نے کہا
موقع دیکھتے ہی عالیہ نے اپنی ممی کے بتائے ہوئے طریقے کو آخری داؤ کے طور پہ آزمانے کی کوشش کی
علی صبح ہی صبح خود ڈرائیو کرتے ہوئے کہیں جانے کی تیاری کر رہا تھا
جب عالیہ نے علی سے مارکیٹ تک کی لفٹ مانگی
عالیہ تم گاڑی میں بیٹھو مجھے قبرستان جانا ہے دس پندرہ منٹ کے بعد آتا ہوں پھر اس کے بعد تمھیں مارکیٹ چھوڑ آؤ ں گا
علی نے گاڑی قبرستان کے آگے روکتے ہوئے کہا____
“کس کی قبر پہ جانا ہے آپ کو ؟”
عالیہ نے حیرت سے پوچھا
اپنی بیگم ماریہ کی قبر پہ ان سے ملنے جانا ہے پتہ ہے میں ہر ماہ جتنی بھی مصروفیت ہو پوری کوشش کرتا ہوں کہ ایک بار ضرور اس سے مل لوں
آخر اس کی وفات کے بعد اس کی محبت کا اتنا تو حق بنتا ہے نہ میرے اوپر
علی نے سر پہ رومال باندھتے ہوئے دروازہ کھول کے کہا
مم میں بھی چلتی ہوں آپ کے ساتھ آپی کی قبر پہ
عالیہ دروازہ کھول کے علی کے پیچھے بھاگی
علی ایک طرف کھڑے ہو کے کافی دیر تک آنکھیں بند کیے روتے ہوئے ماریہ کے لیے دعا مانگتے رہے
عالیہ دوسری طرف حیران پریشان کھڑی اسے دیکھتی رہی
اس نے مرد کی محبت کا یہ روپ پہلی بار دیکھا تھا کہ کوئی اپنی بیوی کے مرنے کے بعد بھی اس کی قبر پہ کھڑا ہو کے اسے یاد کر کے رو رہا تھا
ورنہ اس نے تو آج کل بس خود غرض لوگ ہی دیکھے تھے ادھر بیوی کی آنکھیں بند ہوئیں ادھر انھوں نے دوسری شادی رچا لی
اور پھر انھیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ بیوی کی قبرستان میں قبر کہاں ہے؟
علی سچ میں ایک بے حد اچھا اور مخلص انسان ہے سچی محبت کرنے والا اور ماریہ تم بے حد بد قسمت ہو جس نے ایسے محبت کرنے والے انسان کو اتنے بڑے دھوکے سے حاصل کیا
عالیہ نے وہاں کھڑے کھڑے اپنی بہن کی قبر دیکھ کے اسے پیغام دیا
“کونسی مارکیٹ جانا ہے؟ علی نے راستے میں عالیہ سے پوچھا”
یہ جو سب سے پہلی ہے وہاں اتار دیں
مونا نے جواب دیا جبکہ وہ تو علی کے ساتھ کسی اور ہی ارادے سے سوار ہوئی تھی
علی کیا ماریہ آپی آپ کو اب بھی یاد آتی ہے؟
عالیہ نے علی سے سوال پوچھا_______
کیا مطلب یہ کیسا سوال ہے عالیہ _______
محبت کا تعلق صرف جسم کے ساتھ تو نہیں ہوتا یہ تو انسان کی روح میں سرایت کر جاتی ہے
اور جسم کے فنا ہونے کے باوجود یہ ہمارے دلوں میں زندہ رہتی ہے جانتی ہو کیوں؟
کیوں؟
عالیہ نے حیرت سے پوچھا_______
“کیونکہ ہماری روح ہمیشہ زندہ رہتی ہے کبھی فنا نہیں ہوتی اور کسی کے مر جانے سے اس کی محبت دل سے نہیں نکل جاتی اس کی محبت نہیں مرتی -محبت کی موت اس وقت ہوتی ہے جب وہ انسان ہمارے دل سے نکل جاتا ہے ”
علی نے مختصر لفظوں میں محبت کا فلسفہ بیان کیا
ان چند لفظوں نے عالیہ کے دل کی دنیا ہی بدل دی
میں اب ماریہ کی طرح کوئی غلط کام کر کے محبت حاصل نہیں کروں گی
بلکہ اپنے نصیب میں لکھے اس شخص کو تلاش کروں گی جس کے دل میں میری محبت ہمیشہ زندہ رہے
اس زندگی میں بھی اور میرے مرنے کے بعد بھی
عالیہ نے مصمم ارادہ کیا اور اپنا ہینڈ بیگ اٹھا کے مارکیٹ چل دی ________
___________________________
ایک منٹ انسپکٹر مونا کے بیان کے مطابق یہ جس لڑکی کا اس نے نام لیا ہے وہ میری بہو تھی
اور شازیہ بی اس کے گھر میں ملازمہ تھی
چوہدری راشد نے پولیس انسپکٹر سے کل والی مونا کے بیان پہ بات کرتے ہوئے خیال آیا
اور مونا بھی پہلے لاہور میں رہتی تھی ماریہ بھی لاہور میں تھی اور علی بھی اپنی پھپھو کے پاس وہیں رہ کے پڑھتا تھا
چوہدری راشد نے اس اندھے کیس کے گتھیاں سلجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا
بالکل کڑیاں آپس میں مل رہی ہیں لیکن اس سلسلے میں ہمیں اس شازیہ بی تک پہنچنا ہو گا تاکہ اصل حقیقت سامنے آ سکے
انسپکٹر نے کہا
ٹھیک ہے میں تمھیں ماریہ کے گھر کا ایڈریس دیتا ہوں تم وہاں پہنچ کے ماریہ کی ماں سے اس کی ملازمہ شازیہ بی کا پتہ معلوم کر لینا
مجھے سو فیصد یقین ہے کہ کوئی نہ کوئی سراغ مل ہی جائے گا
چوہدری راشد نے پر امید نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
________________
عالیہ میں تم سے کہہ رہی ہوں کہ تم اب لندن واپس نہیں جاؤ گی علی نہ صیح کہیں اور اچھی جگہ میں تمھاری شادی کر دوں گی لیکن تم اس چھوٹا سا ڈربے نما ہوٹل کھول کے بیٹھے انس سے ہر گز شادی کرنے وہاں نہیں جاؤ گی ساری عمر اسی کے دو گز کے کیفے میں برتن دھوتے گزر جائے گی تمھاری______کیوں اس کی خاطر اپنی زندگی برباد کر رہی ہو؟
عالیہ کی ماں اسے مسلسل باز رکھنے کے لیے قائل کر رہی تھی
ممی ڈونٹ وری یہ میری زندگی ہے برباد ہو یا آباد اب مجھے اس کی زیادہ فکر نہیں ہے
لیکن انس ہمیشہ سے میرے ساتھ بہت مخلص رہا اور کبھی مجھے دھوکہ نہیں دے گا اتنا مجھے اس پہ یقین ہے اور باقی رہی بات اس کے دو گز کے فلیٹ میں رہنے کی تو
ممی یہ جائداد مکان بنگلے کوٹھیاں کچھ معنی نہیں رکھتی
آج مر گئے کل کوئی اور ان کا مالک ہو گا لوگوں کو یاد بھی نہیں رہتا کہ اس کا پہلے وارث کون تھا ادھر مر گئے ادھر لوگ ہمارا نام بھی بھول جاتے ہیں مگر جو لوگ اپنی محبت اور اپنی نیک سیرت سے دوسروں کے دلوں میں بس جاتے ہیں نہ وہ کبھی نہیں مرتے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں
اور میں انس کے بنگلوں میں نہیں اس کے دل میں رہنا چاہتی ہوں
اس لیے سوری اب میں آپ کے کسی فلسفے پہ عمل نہیں کروں گی شام کو میری فلائٹ ہے اس لیے پلیز آپ بھی مجھے بار بار روک کے گہنگار مت کریں کہ میں ہر بار اپنی ماں کو انکار کرتی اچھی نہیں لگتی
عالیہ نے جواب دیا اور باقی کی پیکنگ کرنے لگ گئی
عالیہ کی ماں بے بسی سے خاموش ہو گئی
_______________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...