نئی نئی امیدیں آکر
چھیڑ رہی ہیں
زخم پرانے۔۔
اسے لگتا تھا بے چینی وہ ہے جو اسے زہرہ بی سے بات کرنے سے پہلے تک تھی۔ مگراصل بے چینی تو اب شروع ہوئی تھی۔ابھی اجر کے کمرے سے آنے کی بعداسے ادراک ہوا تھا اصل بے چینی میں اب گھرا تھا ۔وہ آوازاب بھی اس کے کانوں میں گونجتی تھی۔ شائد اس لڑکی نے شعوری کوشش سے دوبارہ نہ گایا ہو کہ اس رات وہ شرمندہ نظر آرہی تھی۔
اس کا دل کیا وہ ایک بار پھر سب کے درمیان بیٹھ جائے جا کر اور سب سے گانے کو کہے۔ اسی بہانے ہی سہی ، وہ آواز تو سننے کو ملے گی۔ وہ تو اس کے سامنے بولتی بھی نہیں تھی۔
وہ جو اپنے کمرے میں آچکا تھا، اب پھر سے شال لپیٹ کر باہر کو نکلا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سب ناشتے کی میز پر بیٹھے تھے۔ جبل اور حبل کا تو موڈ ہی الگ اور نرالا تھا۔ جبکہ زہرہ بی پچھلے کچھ دن کی طرح آج بھی سوچوں میں مگن تھیں ۔
فخر زمان رات گئے دیر سے گھر آئے تھے سو وہ اس وقت ناشتے کی میز پر موجود نہ تھے جبکہ حیدر زمان ہمیشہ کی طرح فریش اور ہنستے مسکراتے ہی ملے تھے۔
کشور بیگم کچن میں اجر کے ساتھ ناشتہ بناتے ہوئے چپ چپ تھیں جبکہ آمنہ بیگم زہرہ بی کے لیے یخنی بنا رہی تھیں۔قدسیہ بیگم ہمیشہ کی طرح لسی پر دھیان دئیے ہوئے تھیں کہ گھر کی نوجون نسل سردیوں میں لسی پیے مگر گھر کے بڑے سب لسی کے شوقین تھے۔
“اور لسی کے بعد چائے بھی۔۔۔ یہ بات اس گھرانے کی آج تک میری عقل میں نہیں آسکی چاچو” حبل کے سامنے جب غنویٰ نے خستہ پراٹھے کے ساتھ لسی کا گلاس رکھا تو وہ چڑ کر بولا۔
غنویٰ نے اس کے سر پر چپت لگائی۔
“بیٹا جی آپ کو کوئی مجبور نہیں کر رہا ۔ مجھے دے دو ۔ آیا بڑا لسی کا دشمن۔ اور خبردار اگر چائے کے بارے میں بھی ایک لفظ منہ سے نکالا ” حیدر زمان مصنوعی غصے سے گویا ہوئے۔
“میں چائے کے خلاف بات نہیں کر رہا چاچو۔ میں لسی کے بعد چائے کے خلاف ہوں “اس نے احتجاج کیا۔
“وہ کم از کم تم لوگوں کی جھاگ سے تو بہتر ہی ہے پتر” شیر زمان جانے کب میز پر آئے تھے، وہ ان کی آواز سن کر سیدھا ہوا۔ جو بھی تھا، مگر جبل اور حبل ان کے غصے سے دبتے تھے۔
“چاچو اسے کافی کہتے ہیں جھاگ نہیں” منال نے اپنی عینک صاف کرتےہوئے اپنی دانائی جھاڑی تو وہ ہنس دئیے۔منال چونکہ جبل اور حبل کے درمیان بیٹھی تھی ۔ اس سے صاف اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ ان کی جاب کی خوشی جو تھی سو تھی ، مگر اصل خوشی ان کے باہر لے جانے کی تھی کہ ان دونوں نے سب کو باہر کہیں گھمانے کا پلان بنا رکھا تھا۔
“ویسے میں اکثر سوچتا ہوں چشمش لوگوں کی آدھی زندگی تو عینک صاف کرنے میں گزر جاتی ہے۔ نہیں؟” جبل نے اپنا لقمہ توڑتے ہوئے آہستہ سے کہا تو منال مسکرا دی۔ آج تو جنگ کا کوئی موڈ نہیں تھا اس کا۔ جبل سب سمجھتا تھا۔
“فخر زمان کو بتا دیاتھا تم نے قدسیہ؟”قدسیہ بیگم نے آکر اپنی کرسی سنبھالی تو زہرہ بی بولیں۔
“نہیں زہرہ بی وہ لیٹ آئے تھے آرام کر رہے ہیں ۔ موقع ہی نہیں ملا” وہ بھی تھکی ہوئی سی لگتی تھیں ۔
“زہرہ بی آپ آج شہناز آپا سے بات کر لیجیے گا۔ ہم انہی کی طرف رکیں گے۔ مہناز آپا کی طرف تو سانول ہوگا سو اجر کے ساتھ ہمارا وہاں رکنا مناسب نہیں ہے۔ باقی جیسا آپ کہیں” شیرزمان ناشتے سے ہاتھ روکے ہوئے بولے۔
“ہاں میں بات کر لوں گی”شیر زمان کو جواب دینے کے بعد وہ غنویٰ کی طرف دیکھنے لگیں جو سب کے سامنے بیسن کی چوٹی چھوٹی ٹکڑیاں رکھ رہی تھی۔
“یہ کیا چیز ہے بھئی؟” حیدر زمان حیرت سے ایک ٹکڑی کا جائزہ لیتے ہوئے بولے۔
“یہ بیسن کی برفی ہے چاچو۔ ہماری غنویٰ نے بنائی ہے اپنے بھائیوں کی جاب لگ جانے کی خوشی میں” جواب اجر کی طرف سے آیا تھا۔ سب ایک دم کھانے سے ہاتھ ہٹا کر انہیں دیکھنے لگے۔
“بتایا کیوں نہیں ہمیں ؟” شیر زمان ماتھے پر تیوریاں لے کر بولے ۔
“ارے چاچو غصہ کیوں کرتے ہیں۔ سرپرائز دینا تھا ہم نے” اب کی بار نمل بولی تو جبل تو جبل، حبل بھی منہ کھولے دیکھنے لگا۔
” تبھی میں کہوں مایوں بیٹھی لڑی کی طرح کیوں شرما رہے ہیں” زہرہ بی خوشگوار موڈ میں بولیں تو ایک قہقہہ پڑا۔
“زہرہ بی پھر کیوں نا فجر اور نمل کا بھی سوچ لیاجائے؟” آمنہ بیگم نے نمل اور فجر کو اندر جانے کا اشارہ کرکے اپنے مطلب کی بات کی۔
“ابھی تو جاب لگی ہے بہو۔ جب کما کر کچھ لائیں گے تب سوچیں گے۔ ابھی سے کیوں اپنی بیٹیوں کو کُھو(کنویں) میں پھینکیں ہم” وہ اب بھی دام میں نہ آئی تھیں اور یہی چیز جبل کے لیےجتنی خوش کن تھی اتنی ہی حبل کے لیے بری۔
“زہرہ بی! چچی ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں۔ “حبل اچانک سے بولا۔
“میاں یہ بات ہمارے سوچنے اور کرنے کی ہے ۔ ” زہرہ بی نے پلیٹ کھسکائی اور اسے گھورنے لگیں۔
“آپ نے سجاول کی بھی تو مانی ہے نا ۔ میری بھی مان لیں۔ اور میں تو زیادہ کچھ مانگ بھی نہیں رہا اس کی طرح” اس نے بھی کھانے سےہاتھ اٹھا لیا۔ شیر زمان اور حیدر زمان ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے تھے۔
“اسے درمیان میں مت لاؤ۔ وہ اگر کیچڑ میں گرنے کی خواہش کر بیٹھا ہے اور سب سمجھنے کے باوجود بھی سنبھلنا نہیں چاہتا تو میں اس معاملے میں کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ باقی اگر سب نے اپنی مرضیاں ہی کرنی ہیں تو میں آج سے اپنے کمرے تک محدود رہوں گی۔ وہیں کھانا پہچا دیا کرنا میرا۔ ” انہوں نے اپنا عصا اٹھایا اور کرسی سے اٹھ کر عصا کو زمین پر ٹکاتی آگے بڑھ گئی تھیں۔
میز پر اس وقت ایک بھی ذی روح معلوم نہ ہوتا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“کب آرہے ہو؟” صبح جاگتے ہی اس کا ہی میسج موصول ہوا تھاجس کا خیال اسے رات کوفت میں مبتلا کر رہا تھا۔
اس نے موبائل دیکھ کر بنا ریپلائی کیے ایک طرف ڈال دیا۔
ابھی وہ کمبل ہٹا کر کھڑا ہوا ہی تھا کہ دروازہ کھول کر قدسیہ بیگم داخل ہوئیں۔ اسے خوشگوار سی حیرت ہوئی ۔ عرصے بعد وہ اس کے کمرے میں آئی تھیں۔
“آج آپکو کیسے بیٹے کا کمرہ نظر آگیا؟” وہ شرارت سے گویا ہوا۔ مگر وہ حد درجہ سنجیدہ تھیں۔
“مجھے تصویر دکھاؤ اس لڑکی کی” اس کی بیڈ پر بیٹھتی ہوئی وہ بولیں۔
“امی صبح ہی صبح؟” وہ اب بھی مسکرا رہا تھا۔
“سجاول زمان مجھے اس لڑکی کی تصویر دکھاؤ” ماتھے پر ایک بھی تیوری نہ تھی البتہ لہجہ انتہائی سرد تھا۔اس نے موبائل اٹھایا ایک تصویر نکال کر سامنے کر دی۔
وہ ایک گرین ٹاپ پہنے بلیو جینز کی پینٹ میں ملبوس تھی۔ پینٹ بھی ٹخنوں سے قدرے اوپر تھی ۔ آنکھوں پر گرین ہی چمکیلا سا آئی لائینر لگائے اور پلکوں کو خم دیئے ، ایک تیکھی سی لپ اسٹک لگائے بے شک بہت پیاری لگ رہی تھی مگر سامنے سجاول زمان کی سادہ لوح ماں تھی۔
“نام؟” وہ تصویر کو غور سے دیکھتے ہوئے بولیں۔
“زوئنہ” اس کا دل اوہام کا شکار تھا۔
“غنویٰ میں کیا برائی ہے؟” موبائل بیڈ پر ڈال کر انہوں نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا تو وہ الجھا۔
“میں غنویٰ کا پوچھ رہی ہوں۔ جبل اور حبل کی بہن غنویٰ ” انہوں نے وضاحت دی۔ وہ ہونٹوں کو ‘اوہ’ کے انداز میں بنا کر رہ گیا۔ اسے سمجھ نہ آئی آگے کیا بولے۔نام ہی آج ٹھیک سے پتہ چلا تھا باقی باتیں تو بعد کی تھیں۔
“سجاول زمان میں کچھ پوچھ رہی ہوں” وہ سخت لہجے میں بولیں۔
“اس کا یہاں کیا ذکر ہے؟” وہ سب سمجھتے ہوئے بھی الجھا۔
“اسی کا ذکر ضروری ہے۔ زہرہ بی نے تمہارے لیے اس کو چن رکھا تھا۔ یہ اچانک تمہیں اتنے سال بعد اس کا خیال کہاں سے آگیا”
“آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مجھے کئی سال سے وہ پسند ہے۔ جبکہ آپ کی غنویٰ اب آئی ہے ۔ جہاں تک زہرہ بی کی بات ہے تو مجھے بتا کر یا مجھ سے پوچھ کر کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا تھا امی کہ میں اس فیصلے کا پابند ہو جاؤں۔ ” وہ جو ان کے سامنے بیٹھا تھا جھٹکےسے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
“ہم زبان دے چکے تھے زہرہ بی کو۔”
“اور میں بھی زوئنہ کو زبان دے چکا ہوں “اس کی آنکھیں ضبط سے سرخ ہو رہی تھیں۔
“اتنے بڑے کب ہوئے سجاول کہ ہمیں ہی ہرا جاؤدلیلوں میں “وہ بیڈپر ڈھے سی گئیں ۔
“امی آپ سمجھنے کی کوشش کریں۔ میں اتنے سال سے زوئنہ کے لیے اس طرح سوچ رہا ہوں۔ اس کی جگہ کیسے کسی اور کو دے سکتا ہوں میں”
“تو اب غنویٰ کے لیے سوچ کر دیکھ لو۔ سب ٹھیک ہو جائیگا۔ یاد بھی نہیں آئیگی وہ لڑکی تمہیں “انہوں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو اس نے نظریں چرائیں۔
“میں کچھ کہہ رہی ہوں۔ ” وہ اٹھ کر اس کے پاس آئیں۔
“امی آپ کیوں نہیں سمجھ رہیں۔ میں کیسے ایک لڑکی جسے زبان دے چکا ہوں اتنے وعدے کیے ہیں ۔۔۔کیسے امی” اس نے ان کو کندھوں سے پکڑ کر تقریباً جھنجھوڑ ہی دیا تھا۔
“اچھا جاؤ اللہ ہی سمجھے تمہیں ” وہ روتی ہوئی کہہ کر کمرے سے نکل گئیں تو وہ ساکت سا جیسے کھڑا تھا ویسے ہی بیٹھتا چلا گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج دھوپ بہت سنہری تھی۔ ناشتے کے بعد کام نپٹا کر سب باہر لان میں جمع تھے۔ البتہ زہرہ بی اپنے کمرے میں بند تھیں اور کسی بہو کو بھی کمرے میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ فخر زمان بھی آج گھر ہی پر تھے ۔ کشور بیگم نے آمنہ بیگم سمیت حبل کو بھی اچھی خاصی سنائی تھیں۔ آمنہ بیگم نہ بات منہ سے نکالتیں اور نہ وہ زہرہ بی کے سامنے یوں حد سے بڑھتا۔
“مجھے زہرہ بی کا عتراض سمجھ نہیں آرہا۔ سب کی ایک ساتھ شادی کر کے فارغ ہوں ۔ اس میں ایسا کیا ہے جس سے وہ ہرٹ ہو گئی ہیں” حبل اب بھی اپنی ضد پر اڑا بیٹھا تھا۔
“تمہارے رویے سے ہرٹ ہوئی ہیں وہ ” غنویٰ جو کب سےاس کی اسی قسم کی باتیں سن رہی تھی، بول ہی پڑی۔
“میں نے غلط بات نہیں کہی تھی غنویٰ۔سجاول کی مان سکتی ہیں ۔ میری بات میں تو پھر کچھ اضافی شرطیں بھی نہیں تھیں” وہ چڑ گیا۔
“یہ کیا ہر بات میں’ سجاول سجاول ‘لگے رہتے ہو سب لوگ۔ تم لوگوں کی اپنی زندگی ہے اپنے انداز سے گزارو۔ کسی ایک نے غلط قدم اٹھانا چاہا ہے تو اس کا مطلب یہ کب ہوا کہ تم لوگ اسے Followکرو۔ زہرہ بی کو کتنا ہرٹ کرتا ہو گا تم لوگوں کا رویہ ۔ ساری زندگی انہوں نے تم لوگوں کی بھلائی سوچی اور ان کو کیا صلہ ملا آخر میں؟ بہت افسوس ہوا کہ میرا بھائی بھی ایساکر سکتا ہے۔ “وہ کہتی ہوئی اٹھی اور ان لوگوں سے ذرا فاصلہ بنا کر بیٹھ گئی جبکہ باقی سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگ گئے تھے۔
“میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو۔ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے غنویٰ ۔ جا کر سوری کرو زہرہ بی سے”حبل جو نمل کی طرف دیکھنے لگا تھا اس کے اس طرح بولنے پر فوراً اٹھا اور اندرونی حصے کی طرف بڑھ گیا۔
دل کو جانے کیا بے چینی سی ہوئی تھی۔۔۔
“غنویٰ آجاؤ بہن وہ چلا گیا ہے۔ آجاؤ کھٹے کھٹے مالٹے کھاؤ گلا خراب کرواؤ “اس کے اندر جاتے ہی جبل بولا۔ وہ بھی ہنستی ہوئی واپس آکر بیٹھ گئی۔ اسے اچھا لگا تھا کہ حبل نے واقعی اس کی بات سمجھ لی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کون جیتا ہے زندگی اپنی
ہر کسی پہ کوئی مسلط ہے
“ہوا کیا تھا؟” کسی عورت نے اس کے کندھے کو ہلایا جو کب سے دروازے کے درمیان میں اجڑی ہوئی حالت میں بیٹھی تھی۔ آنسو تھے کہ نکلتے ہی نہ تھے اور آنکھیں تھیں کہ ایک ہی نقطے پر چکی تھیں۔
پچاس سالہ اور بڑی حویلی کی پرانی ملازم ہاجرہ نے اس عورت کو اشارہ کر کے اپنی طرف بلایا۔
“تجھے نظر نہیں آتا وہ کیسے اپنا آپ بھلائے بیٹھی ہیں۔ میں نہیں نظر آئی تھی جو ادھر پوچھنے چل پڑی؟” عورت کو قالین پر بیٹھنے کا اشارہ کر کے وہ پانی کا گلاس بھر کر اس کے پاس لے گئی۔
“بی بی یہ پانی پی لیں تھوڑا سا ۔ میں فجر پتر کو بھی بلا کر لاتی ہوں”اس کا کندھا ہلاتے ہوئے ہاجرہ نے کہا مگر اس نے پل تک نہ جھپکی۔ ہاجرہ افسوس میں سر ہلاتی اٹھ کر واپس اس عورت کی طرف آئی جو منہ پرچادر اور ٹھوڑی پر ہاتھ رکھے اس لڑکی کی طرف دیکھ رہی تھی جسے گاؤں کی ہر عورت نے آتے جاتے بہت غور سے دیکھا تھا۔
“نی ہاجرہ! ہوا کیا تھا؟” اس عورت نے راز دارانہ انداز میں پوچھا تو ہاجرہ نے ماتھے پر آنکھیں رکھیں۔
“دِسدا نئیں پیا؟ زہرہ بی نو اٹیک آیا وا ہسپتال لے گئے نے۔ بس؟ کہ ہور کج؟”
(نظر نہیں آرہا؟ زہرہ بی کو ہاسپٹل لے کر گئے ہیں۔ بس؟ یا اور کچھ؟)
“اللہ معاف کرے اک تے تیرا دماغ وی۔ میں چلتی ہوں ۔ مریم کے ابا آگئے ہوں گے۔ تو پیغام بھیج دینا جب زہرہ بی آجائیں۔ میں خبر لینے آؤں گی” وہ عورت چادرٹھیک کرتی آگے بڑھ گئی تو ہاجرہ اٹھ کر فجر کے پاس گئی جو کب سےہاتھ میں موبائل پکڑے کسی اچھی خبر کی منتظر تھی ۔ کپڑے ملگجے تھے اور آنکھیں سوج چکی تھیں۔
“فجر بی بی کوئی خبر آئی؟” اس نے انتہائی عاجزی سے پوچھا تھا۔
“نہیں ہاجرہ چاچی۔ دعا کرو سب ٹھیک ہو۔ کوئی کال نہیں اٹھا رہا”
وہ کاؤچ پر گر کر ایک بار پھر رونے لگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“رانی پتر یہ چائے دے آؤ سب کے کمروں میں ” ہاجرہ نے ٹرے میں کپ رکھے اور سب لڑکیوں کے لیے چائے بنا کر ان میں ڈالی۔ کچھ بسکٹس رکھ کر ٹرے اسے پکڑا دی۔
“غنویٰ بی بی کو بھی کچھ کھلا دیں چاچی۔ ان کے پاس تو کوئی آیا ہی نہیں ۔ سبھی اپنے کمروں میں چھپ گئی ہیں جا کر” رانی انتہائی افسردگی سے بولی۔
“نہیں وہاں اجر بی بی ہیں ۔ میں ان دونوں کو کھلا دیتی ہوں کچھ۔ تم فجر بی بی اور نمل بی بی کے لیے لے جاؤ۔ یہ ایک کپ عبادت کے لیئے رکھ دیا ہے وہ وچاری بھی سویر سے شام ہوگئی ادھر ہی بیٹھی ہے” ہاجرہ نے ایک ٹرے خود بھی پکڑی اور باہر نکل گئیں تو رانی بھی کچھ سوچتی پہلے فجر کو چائے پکڑا کر آئی پھر نمل کے کمرے میں آئی جہاں منال، عباد ت اور نمل اکٹھی بیٹھی تھیں مگر کسی ایک کے بھی بولنے کی آواز کان میں نہیں پڑتی تھی۔
“نمل باجی! کچھ کھا لیں اور یہ چائے پی لیں۔ ” اس نے سب سے پہلے نمل ہی طرف کپ بڑھایا۔نمل نے ایک نظر اسے دیکھا پھر کپ کو ، اس کے ہاتھ سے پکڑ کر بیڈ کے ساتھ نیچے رکھ دیا۔
“باجی وہ غنویٰ بی بی باہر جمی ہوئی ہیں صبح سے۔ آپ سب کمروں میں آگئے ہیں ان کے پاس بھی کوئی بیٹھ جاتا۔ کتنا کرتی ہیں وہ ہم سب کا۔ آُپیہ چائے پی کر ان کو کچھ کھلا دیں۔ وہ تو رو بھی نہیں رہیں ۔ سکتہ نہ ہو جائے باجی انہیں” ہمیشہ کی طرح رانی بولنا شروع ہوئی تھی اور بس بولتی چلی گئی۔
نمل نے سرہلا کر اپنا کپ اٹھایا پلیٹ سے کچھ بسکٹ اٹھائے اور باہر کی جانب بڑھ گئی جبکہ منال نے ایک بار پھر رونا شروع کر دیا تھا۔ کبھی عینک اتارتی کبھی لگاتی اور کبھی صاف کرنے لگ جاتی۔
“منال بتا بھی دو ہوا کیا ہے۔ میں صبح سے تمہارے پاس ہوں ایک بھی بار منہ سے نہیں پھوٹیں تم۔ کیا بول دیا کسی نے؟ زہرہ بی تو ٹھیک ٹھاک تھیں کل تک” عبادت اسے دیکھ کر خود بھی رونا شروع ہو چکی تھی۔
“سجاول پاجی کو کوئی کڑی پسند ہے عبادت۔ زہرہ بی مان گئی تھیں اس کے لیے۔ پر پھر آج صبح حبل پا جی کہتے میرا بھی نکاح کردو سجاول کی مان لی ہے میری بھی مانو۔” رانی ،منال کے ہاتھ سے عینک لے کر خود صاف کرتی ہوئی بولی۔
“یہ تو اس نے بھی بتا دیا ہےرانی۔ جاکام کر لے اپنا۔ تنگ نہ کرنے بیٹھ جائیں اب” عبادت نے چڑ کر کہا۔
“پوری بات تو سن لیا کر ۔ ٹرین ہی بھگادوں کیا اب؟”رانی غصے سے اسے دیکھنے لگی تو منال نے اس سے عینک چھینی۔
“تم دونوں باہر دفع ہو جاؤ اگر لڑنا ہے تو۔ اور اگر چپ کر کے بات سننی ہے تو میں بتا دیتی ہوں” سوں سوں کرتی منال انہیں گھورتی ہوئی بولی تو وہ دونوں سیدھی ہو بیٹھیں۔
“سب ٹھیک تھا یار ۔ حبل بھائی زہرہ بی سے سوری کہنے گئے تھے۔ ابھی کمرے میں داخل ہوئے تھے کہ زہرہ بی۔۔۔” وہ پھر سے رونا شروع ہو گئی تو عبادت اور رانی ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگیں۔
“زہرہ بی واش روم سے نکل رہی تھیں عبادت۔ شکر ہے بھائی ٹائم پر چلےگئےکمرے میں ، ورنہ زہرہ بی نے فرش پر گر جانا تھا۔ فخر تایا کو ابھی کسی بات کا نہیں پتہ ۔ شاید تائی امی نے بتا دیا ہو اب مگر اللہ ہی بچائے گا اب سجاول بھیا کو۔ شیر چاچو تو سجاول بھائی کو اشارے سے روک گئے ہیں کہ تم ہمارے پیچھے مت آنا۔ اگر زہرہ بی نے دیکھا تو پھر سے دل برا کریں گی۔ وہ بھی کمرے میں بند ہیں صبح سے ” اب عبادت بھی رونے لگی تھی ۔
“کمیل کو کال کر لو اسی سے پوچھ لو اب کیسی ہیں منال۔ میرے دل کو کچھ ہو رہا ہے انہیں کال کرو” عبادت کو جوحل سوجھا وہی بول دیا۔ منال فوراً اٹھ کر باہر کی جانب بڑھی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آدمی کو مرتے دم تک زندہ رہنا چاہیے۔۔۔
ڈاکٹرسبین آئی سی یو سے باہر نکلیں تو سب ان کی طرف بے چینی سے لپکے ۔ کسی کا چہرہ متوحش تھا تو کسی کا آنسوؤں سے بھیگا ہوا۔ سبھی کی حالت دیکھنے کے لائق تھی۔
“زمان صاحب آپ ذرا میرے ساتھ آفس میں آئیے”ڈاکٹر سبین نے کسی کی طرف دیکھے بغیر اور صرف ‘زمان صاحب’کا قافیہ استعمال کیا۔ مراد کوئی بھی ہوتا، جانا تو فخر صاحب ہی کو تھا۔ ان کی آنکھیں مسلسل گریہ سے سرخ ہو چکی تھیں۔ کندھوں پر شال درست کرتے وہ ڈاکٹر سبین کے پیچھے چل پڑے۔
آفس میں اپنی چئیر پر بیٹھتے ہوئے ڈاکٹر صاحبہ نے ایک طنزیہ نظر سامنے بیٹھے فکر زمان پر ڈالنی ضروری سمجھی۔
“آپ کے گھر میں میرا نہیں خیال کہ کسی کو زہرہ بی کے ہارٹ پیشنٹ ہونے کا علم نہ ہو۔۔۔”
“اب کیسی ہیں؟” وہ ان کی بات کاٹتے ہوئے بولے۔
“میری بات مکمل نہیں ہوئی تھی زمان صاحب۔ ” وہ ماتھے پر تیوری ڈال کر بولیں تو ایک دم چپ ہوگئے۔
“زہرہ بی اچھی وِل پاور رکھتی ہیں تبھی وہ اس اسٹروک سے نکل آئی ہیں ۔ ورنہ آپ جانتے نہیں ہیں کہ یہ اٹیک کتنا برا تھا ان کے لیے۔ مجھے آپ لوگوں سے اس قسم کی امید نہیں تھی زمان صاحب۔ کوشش کیجیے گا کہ اب ان کے پیرالائسز پیریڈ(فالج کا دورانیہ) میں ان کی رکوری کو آپ ممکن بنائیں”وہ ایک چٹ پر کچھ لکیرین کھینچتے ہوئے سختی سے ہدایات دے رہی تھیں۔
“کیا مطلب؟ کیا کہنا چاہ رہی ہیں آپ؟” وہ ایک دم سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ دماغ بھک سے اڑا تھا ۔
“وہی جو آپ سن چکے ہیں۔ باقی اگر ڈیٹیلز(Details) کی بات ہے تو زمان صاحب ان کو فیشل پیلسی یعنی لقوہ اور بائیں حصے پر فالج کا حملہ ہوا ہے۔ یہ جان لیوا بھی ہو سکتا تھا۔ میں شکر کرتی ہوں کہ وہ ایک خطرناک حد سے نکل آئی ہیں۔ اب مہربانی کیجیے گا کہ ان کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے کوئی بھی اچھی یابری بات جو ان کے لیے دھچکے کا باعث ہو ،ان کے سامنے مت کیجیے گا۔ آئی مین یو ہیو ٹو اوائڈ فیملی آلٹرکیشنز(میرا مطلب ہے کہ گھریلو جھگڑوں سے احتیاط کیجیے گا)” وہ ترش لہجے میں بول رہی تھیں اور فخر زمان تھےکہ مٹھیاں بھینچے پچھلے دنوں کی باتوں کو ذہن میں دہراتے جا رہے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اک چپ میں ہزار سکھ پائے
تھک گیا تھا میں شور کر کر کے
وقت کی رفتار ایسی تیز ہوتی ہے کہ سب سے قریبی رشتے بھی ایک دم سے اجنبی لگنے لگتے ہیں۔ یہ صرف ہماری ہی سوچ نہیں ہوتی۔ یہ ان رشتوں کی بھی سوچ ہوتی ہے۔ زمانہ ایسا چل پڑا ہے کہ اگر اس اجنبیت کی دیوار کو پاٹا نہ گیا تو وہ وقت دور نہیں جب ماں بیٹی کی نہ ہوگی اور بیٹا باپ کو نہ پہچانے گا۔
بڑی حویلی میں بھی اس وقت ایسی ہی ہوا چل پڑی تھی کہ رشتے ایک دوسرے سے کترائے اور آنکھیں چرائے پھرتے تھے۔ فخر زمان کا بی پی تھا کہ شام سے اب تک شوٹ کیا ہوا تھا۔ قدسیہ بیگم کو جانے کیا غم چمٹ پڑے تھے کہ ساس جن کے لیے وہ بیٹی سے بڑھ کر تھیں ، وہ موت کے منہ سے واپس آئی تھیں ۔ بیٹا تھا تو باغی ہو چلا تھا اور شوہر تھےکہ اپنے غم وغصے کو قابو کرتے کرتے بھی اب بیڈ پر پہنچ گئے تھے۔ کوئی ایک بھی زہرہ بی کے ہسپتال رہنے پر راضی نہ تھا سو ڈاکٹر نے زہرہ بی کو گھر لے جانے کی اجازت اس شرط پر دی تھی کی روز کی رپورٹ انہیں پہنچائی جایا کرے گی اور زہرہ بی کی ایکسر سائز بھی کروائی جائیگی۔
“قدسیہ بھابی! آپ آرام کر لیں جا کر ۔ صبح سے یوں ہی بیٹھی ہیں۔ میں اور کشور بھابی ادھر ہی ہیں” آمنہ بیگم نے زہرہ بی کے پاؤں کی طرف بیٹھی قدسیہ بیگم سے کہا۔وہ جھکی گردن اٹھا کر خالی خالی آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگیں تو آمنہ بیگم نے دہل کر انہیں اپنے ساتھ لگایا تھا۔
“اٹھیں بھابی! غنویٰ کی حالت بھی خراب ہے ۔ اب آپ بھی بیمار پڑ گئیں تو زہرہ بی کا دل کون لگائے گا” انہوں نے سہارا دے کر قدسیہ بیگم کو اٹھایا اور کمرے سے باہر چلی گئیں۔ ایک طرف لگی بیٹھیں کشور بیگم نے اٹھ کر سامنے کرسی پر بیٹھی اور لگاتار زہرہ بی کو تکتی غنویٰ کو کندھے سے ہلایا تھا۔
“بیٹا کچھ کھا لو غنویٰ۔ ایسے کیسے چلے گا۔ ” ان کی اپنی آنکھیں بھیگ رہی تھیں مگر غنویٰ تھی کہ صبح سے اب تک صرف دروازے سے کرسی تک کی حرکت کر پائی تھی۔ آنکھیں جانے کیوں سوکھی ہی تھیں مگر جسم یوں تپ رہا تھا کہ دانے بھی بھوننا چاہو تو بھن جائیں۔
“غنویٰ بیٹا یوں تنگ نہیں کرو مجھے۔ اٹھو ۔ چلو آؤ” انہوں نے اسے ساتھ لگایا مگر نہ تو اس کی نظریں ہٹی تھیں نہ ہی جمود ٹوتا تھا۔
“میری بات سنو بیٹا۔ ایسے رہو گی تو زہرہ بی کیسے اچھا محسوس کریں گی۔ ابھی سو رہی ہیں مگر جب جاگیں گی تمہیں اس حالت میں دیکھیں گی تو کیسا محسوس کریں گی۔ اٹھو شاباش!” انہوں نے سہارا دے کر اٹھایا ۔ غنویٰ پلکیں جھپکنے لگی تھی۔
“میری بات سمجھ رہی ہو نا؟” انہیں لگا وہ انہیں سن بھی پا رہی۔
ٹپ،ٹپ،ٹپ۔۔۔
آنسوایک دم روانہ ہوتےپیلے ہوتے چہرے کو بھگونے لگے تھے۔وہ ایک دم ان کے ساتھ لگی ہچکیوں سے رونے لگی تو اسے ساتھ لگائے ہی وہ اسے لیے کمرے کے دروازے کی جانب بڑھی تھیں جب کمرے میں داخل ہوتا سجاول ایک دم ٹھٹھک کر رکا تھا۔
“کیا ہوا چچی؟” وہ بلاشعور بولا تو خود بھی حیران ہوا۔
کشور بیگم نے سے گھورا اور چپ رہنے کا اشارہ کیا۔ ان کے ساتھ لگی غنویٰ اب بھی ہچکیوں سے رو رہی تھی اسنے نہ تو آج اپنا دوپٹہ ٹھیک کیا تھا نہ ہی ہچکیاں روکی تھیں۔
کشور بیگم اسے لیے لاؤنج کی جانب بڑھ گئیں مگر دروازے میں کھڑے سجاول پر ایک جمود طاری ہو چلا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی منظر سدا نہیں رہتا
ہر تعلق ــ مسافرانہ ہے
جہاں سورج نے چھب دکھائی تھی وہیں آسمان پر بادل ٹکڑیوں میں بٹنا شروع ہو چکے تھے۔سورج ایک دم سے ان ٹکڑیوں میں منہ چھپانے لگا ۔ دھواں سا ہر طرف بڑھنے لگاتھا۔ کام دھندے اس طرح کیے جا رہے تھے کہ جیسے سب کو اندر سے دیمک چاٹ رہی ہو۔ فخر زمان بھی کل سے اب تک اپنے کمرے میں بند تھے۔ جب ناشتے سے فارغ ہو کر زہرہ بی کو ڈرپ کے بعد انہیں جوس وغیرہ پلا دیا گیا تو وہ بھی اپنے کمرے سے نکل کر ایک بار انہیں دیکھ آئے تھے۔ اپنی ہمیشہ رعب میں رہنے والی ماں کو اس حالت میں دیکھنا ان کے لیے انتہائی دکھ کا باعث تھا۔
اپنے کمرے میں آئے تو ان کے پیچھے سجاول بھی چلا آیا تھا۔
“ابو!” وہ شال درست کرتے اپنی آرام کرسی پر بیٹھے تھے اور سجاول کی طرف پشت تھی سو اس کی موجودگی محسوس نہ کر پائے تھے، سو چونک کر مڑے ۔
“بولو” لہجہ انتہائی سرد تھا۔
“کچھ بات کرنی تھی آپ سے” وہ ان کے سامنے بچھے قالین پر دو زانو بیٹھتے ہوئےبولاتو انہوں نے آنکھیں بند کر کے کرسی کی پشت سے ٹکائی تھیں۔اشارہ تھا کہ بات جاری رکھو۔
“ابو میں بالکل ویسے کرنے کو تیار ہوں جیسے آپ لو گ کہیں گے۔ میں زہرہ بی کی خواہش پوری کرنے کو تیار ہوں ”
“اب کیا چاہتے ہو؟ میری ماں کو اس حالت میں پہنچا دیا ہے ۔ اب کیا چاہیے تمہیں” وہ کرب سے بولے تھے۔
“غنویٰ” اس کے منہ سے ایک دم نکلا تھا۔
“باس س س۔۔۔” وہ ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولے سیدھے ہو بیٹھے۔
“ایک زندگی تباہ کر دی ہے یہی بہت ہے۔ فالتو نہیں ہیں یہ زندگیاں۔ ایک بار دھتکار چکے ہو یہی بہت ہے۔ہمارے ہر تعلق سے تم آزاد سمجھو خود کو۔ مجھے اس لڑکی کے باپ کا نمبر دو۔ آج ہی بات کرتا ہوں اس سے۔” انہوں نے اتنا کہا اور اٹھ کر کمرے سے نکل گئے۔ شال ان کے کندھوں سے پھسلتی فرش پر آگری تھی بالکل سجاول کی خواہش کی طرح۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عرش سے فرش تک کا سفر۔۔۔
کرب ناک ہوتا ہے مگر جھیلنے والے جھیل جایا کرتے ہیں۔ ایک زمانہ ہوتا ہے ہماری جوانی کا۔ الہڑ جوانی جب کسی کی حکمرانی ہم پر چل ہی نہیں سکتی۔ اور ایک وہ زمانہ بھی ہوتا ہے جب ہم کسی پر اپنی حکمرانی جتا بھی نہیں سکتے۔
“زہرہ بی یہ دیکھیں کون آیا ہے” اجر نے اپنا دوپٹہ سر پر ٹھیک کرتے ہوئے زہرہ بی کے پاس بیٹھ کر کہا ۔ وہ چونکہ بائیں طرف سے حرکت کرنے سے معذور تھیں سو اجر ان کی بائیں طرف جا بیٹھی تا کہ سہارا دے سکے۔زہرہ بی انتہائی مشکل سے آنکھیں پھیرتے ہوئے اس طرف دیکھنے لگیں جہان ان کی بیٹیاں کھڑی تھیں۔لقوہ ہونے کے باعث وہ مسکرا بھی نہ سکتی تھیں۔ کیسی بے بسی تھی۔
“زہرہ بی! ایسے بھی کرتا ہے کوئی۔ کان پر لگایا کریں سب کے۔ دیکھو تو میری ماں کو بیمار کر دیا۔ میں خبر لوں گی سب کی” شہناز بیگم بنا سوچے سمجھے بولی تھیں ۔
“باجی آپ تو ایک طرف ہوں۔ زہرہ بی یہ دیکھیں آپ کا نواسا کتنا کوجا ہو گیا ہے۔ میں تو کہتی ہوں اس کے کان کھینچیں آپ ۔ ذرا بھی میری بات نہیں مانتا کوئی” مہناز بیگم نے بڑی بہن کی بات کا اثر زائل کرنے کو سانول کو کان سے پکڑ کر آگے کیا۔ سانول جو پہلے اجر کی طرف دیکھ رہا تھا فوراً سے جھک کر اس نے زہرہ بی کے ماتھے پر بوسہ لیا۔
“اب جلدی سے ٹھیک ہو جائیں میں نےتو گھوڑی چڑھنے کے خواب بھی دیکھنے شروع کر دئیے تھے زہرہ بی” سفید سوٹ میں چمچماتے سانول نے اجر کو آنکھوں میں قید کرتے ہوئے زہرہ بی سے کہا ۔
“لو جی اب تو ڈبل ایس اکٹھے ہی گھوڑی چڑھیں گے پھر”حبل جانے کب نازل ہوا تھا۔ بیڈ پر چھلانگ لگا کر بیٹھتے ہوئے وہ بولا۔
“ایسی اطلاعیں مجھے کیوں نہیں ملتی کہیں سے”سانول بھی ماں یا خالہ کی پرواہ کیے بغیر وہیں کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
“زہرہ بی ان کی باتوں کی پرواہ نہ کریں۔ آرام کریں آپ” اجر نے زہرہ بی کا کمبل ٹھیک کرتے ہوئے کہا تو حبل نے فوراً اس کا بازو پکڑ کر اسے بیڈ سے نیچے اتارا۔وہ منہ کھولے کھڑی تھی۔
“شرم کریں اجی آپی۔ زہرہ بی نے کتنی بار سمجھایا ہے کہ شکل چھپا کر رکھنی چاہیے شادی سے پہلے۔ ذرا روپ نہیں آئیگا۔ چلیں جا کر باقی کام ختم کریں” وہ بڑے بھائیوں والا رعب جمانے لگا۔ حالانکہ جانتا تھا سب ہنسنے ہی والے ہیں ۔ اور ہوا بھی ۔وہی شہناز بھی ہنسنے لگی تھیں اور مہناز بھی۔ جبکہ اجر دوپٹہ ٹھیک کرتی اسے گھورتی باہر نکل گئی تھی۔ سانول نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کھینچ کر ایک چپت حبل کی گردن پر لگائی تھی۔
زہرہ بی کی نظریں حبل کو جانچ رہی تھیں۔ کل والی کسی بات کا اس کے چہرے پر شائبہ تک نہ تھا۔
“زہرہ بی میں اب یہیں ہوں ۔ اور جب تک آپ ٹھیک نہیں ہو جاتیں میں نہیں یہاں سے جانے والی”مہناز بیگم اجر کی جگہ بیٹھتی ہوئی بولیں۔
“ارے تم کیوں مونگ دلنا چاہتی ہو میرے بھائیوں کے سینوں پر۔ اپنی بہو لے جاؤ۔ جب وہ گھر سنبھالنے والی ہو گی تب آنا۔ میں تو دیکھو بہو کے سر پر چھوڑ کر آئی ہوں گھر۔ میں تو اطمینان سے رہ بھی سکتی ہوں” دونوں بہنیں ایک دوسرے کو گھورنے لگی تھیں۔
“ارے پھوپھو آپ لوگ بھی ہماری طرح لڑتی ہیں۔ واہ مزہ آرہا ہے ۔ کیری آن” حبل بڑے مزے سے تالی پر تالی مارتے ہوئے بولا۔
“ابھی تو تمہیں لاہور میں واقع ہونے والی جنگ کا نہیں علم چھوٹے بھائی” سانول بھی ہنسا تھا۔
“سانول ، حبل تم لوگ باہر آجاؤ۔ شہناز آپا لوگ اتنے عرصے بعد ملی ہیں ان کو بیٹھنے دو زہرہ بی کے پاس۔ تم لوگ تنگ نہیں کرو۔ کوئی احساس نامی چیز بھی ہونی چاہیے” کشور بیگم باہر سے آکر ان دونوں کے درمیان جھک کر بولیں۔
“ہم تو ان کا دھیان بٹانا چاہ رہے تھے امی۔ ” حبل نے توجیہہ پیش کی۔
“ابھی کل وہ ٹراما سے گزری ہیں اور تم لوگ اتنا اونچا بول رہے ہو کہ باہر تک آواز آرہی ہے۔ نکلو باہر” وہ گھورتی ہوئی سیدھی ہوئیں اور آگے ہو کر زہرہ بی کا کمبل ٹھیک کرنے لگیں۔
“مالش میں کروں گا زہرہ بی کی” حبل آہستہ سے بولا تو کشور بیگم نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ وہ دونوں باہر نکل گئے تو کشور بیگم نے زہرہ بی کو کچھ اشارہ کیا جو شہناز اور مہناز بیگم نے بھی واضح دیکھا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کب کسے کہاں راستہ بدلنا پڑ جائے کوئی نہیں جانتا۔ یہ کھیل ابد سے ازل تک کا ہے۔کوئی دل کی خواہش ہی کیوں نہ بن گیا ہو۔ لیکن جب احکام اس خواہش کو خلش بنانے کے ہوں تو اجسام تعمیل کرنے خود بخود چل پڑتے ہیں۔
“ایکسکیوز می! ایک ریپوٹیشن ہے میرے فادر کی ۔ میں بھاگ کر نہیں آرہی تمہارے ساتھ۔ سمجھے تم” وہ کب سے فون پر اسے سمجھانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا مگر وہ تھی کہ ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھی۔
فخر زمان زوئنہ کے والد سے بات کر چکے تھے اور ان کی طرف سے کوئی خاص جواب نہ ملنے پر وہ سجاول پر پل پڑے تھے۔ جیسی امید سجاول لگائے بیٹھا تھا کہ اس کے والد کے ایک بار بات کرنے پر ہی فخر زمان پگھل جائیں گے ویسا کچھ نہ ہوا تھا۔ سو فخر زمان نے اسے اور قدسیہ بیگم کو کمرے میں بلاکرایک بات واضح کر دی تھی کہ اس کی شادی کر دی جائے گی مگر زوئنہ کو حویلی میں زہرہ بی کی حالت کے پیشِ نظر ـــــ نہیں لایا جائیگا۔
“زوئنہ میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا تھا کہ میرے گھر والے ان معاملات میں کتنے اسٹرکٹ(سخت) ہیں۔ اب تمہارے یہ اعتراضات میری سمجھ سے باہر ہیں۔ “وہ الجھنے لگا تھا۔
“یہ شادی ہے یا جنازہ کہ اتنی سادگی چاہ رہے ہیں تمہارے پیرنٹس۔ میری سمجھ سے باہر ہیں یہ باتیں۔ مجھے بس جو چاہیے وہ چاہیےورنہ میری بلا سے تم اور تمہارے گھر والے بھاڑ میں جائیں۔”وہ چلائی تھی۔
“ہاں بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو۔ تمہاری طرف سے کوئی بھی بھاڑ میں جا سکتا ہے” اس کی کنپٹی کی رگیں تن چکی تھیں۔ دل نے الگ اودھم مچا رکھا تھا۔
“تم میری بات کیوں نہیں سمجھ جاتے۔ سجیّ! کتنے خواب دیکھے تھے ہم نے اس دن کے لیے۔”سجاول کے سخت لہجے نے اسے بہت کچھ باور کروایا تھا تبھی وہ فوراً دھیمی ہوئی۔
“زوئنہ ! کلئیر کٹ بات ابو کر چکے ہیں اور میں اس بات سے ایک حرف بھی ادھر کا ادھر نہیں کر سکتا۔ تمہیں اگر کوئی اعتراض ہے تو میری طرف سے ابھی سب ختم ہے” سجاول نے کہا، کال بند کی ، موبائل سوئچ آف کیا اور جیب میں ڈال کر گھر کی جانب چل پڑا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محبت۔۔۔
یہ لفظ اپنے اندر کئی معنی اور مفاہیم مقید کیے ہوئے ہے۔ صرف روحانی ہی نہیں بلکہ جسمانی بھی۔ اب یہاں جسمانی سے مراد صرف مخالف جنس ہی کے لیے محبت نہیں ہے۔ محبت مخالف انواع کے لیے بھی ہوا کرتی ہے۔جیسے اگر اپنی ہی نوع میں محبت کو دیکھا جائے تو جیسے ماں کو اپنے پیٹ سے جنے بچے سے محبت ہوا کرتی ہے۔ جیسے باپ کو اپنے بچے کی قلقلاریوں سے محبت ہوتی ہے۔اگر نوع مختلف ہو تو جیسے کچھ لوگ جانور پالتے ہیں۔ کیوں ؟ کیونکہ وہ ان سے محبت کرتے ہیں۔ مگر اس محبت میں اور ایک انسان سے محبت میں ایک فرق ہے۔
آپ اگر محبت کا ہاتھ کسی جانور کی طرف بڑھائیں گے تو وہ کبھی آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔ یہ خاصیت یہ وصف ہم بنی نوع انسان میں ہی پایا جاتا ہے کہ کوئی اگر محبت کا ہاتھ بڑھا دے وہ جھٹک دے۔حضرتِ انسان کو اشرف المخلوقات کہا ہا جاتا ہے۔ مگر بہ نسبت جانور ہم انسان اتنے خود غرض ہیں کہ کسی کی دی گئی محبت کو خاک میں ملا دیتے ہیں۔
یہی قصہ تھا اس حویلی کا۔ جو در ودیوار ایک صدی سے پیار اور محبت کی آوازوں سے گونجتے تھے ا ب یوں پرائے لگنے لگے تھے کہ جیسے اس کا ان سب سے کبھی تعلق رہا ہی نہ ہو۔ وہ بے چین ہوا کبھی دل پہ ہاتھ رکھتا تو کبھی بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرتا۔
“سجاول! ابو بلا رہے ہیں تمہیں اپنے کمرے میں” وہ یوں ہی بے زار سا بیٹھا تھا جب اجر نے آکر اسے فخر زمان کا پیغام دیا۔
“ہوں” اس نے سر اٹھائے بغیر جواب دیاتو اجر واپس جاتی ہوئی دوبارہ مڑ کر اس کے پاس آئی۔
“کیا ہوا ہے لڑکے اتنا اداس کیوں ہو؟ زہرہ بی ٹھیک ہو جائیں گی۔ تم سوری کر لوجا کر ۔ جلد ری کور کر لیں گی۔بس ان کے سامنے رہا کرو ان کو اچھا لگے گا”اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے اجر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ ایک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا۔
“اجی میں نےاب ابو کو کہا ہے میں زہرہ بی کی مان لیتا ہوں ۔ مگر انہوں نے زوئنہ کے بابا سے بھی بات کر لی ہے۔ یار ابوکیوں نہیں سمجھ رہے میں اب مان تو گیا ہوں” وہ سسک رہا تھا اور اجر ہکا بکا بیٹھی تھی۔
“اجی تم کہو ابو سے۔ مان جائیں گے تمہاری بات۔ میں کر لیتا ہوں غنویٰ سے نکاح” اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ منت کرنے کے انداز میں بولا۔
“دیکھو سجاول! تم اچھی طرح جانتے ہو کہ ایسی ضدیں نہ تو زہرہ بی کو پسند تھیں اور نہ ہی ابو کو پسند ہیں۔ ابھی کل تک تم زہرہ بی کو اپنی بات پر منا کر اتنے خوش تھے۔ اب تم بات سے پھر رہے ہو۔ چاہتے کیا ہو تم” وہ حتی المقدور لہجہ دھیما نارمل رکھتے ہوئی بولی۔
“میں ۔۔ پتہ نہیں کیا چاہتا ہوں۔ ” وہ فرش پر بچھے قالین کو گھورنے لگا ۔آنسورک چکے تھے۔
“سجاول تمہاری بچپن سے اب تک ایک یہی عادت خراب رہی ہے۔ اس پتہ نہ پتہ میں تم جانے کتنے لوگوں کو ہرٹ کر جاؤ گے”
“اجی تم بات تو کرو ابو سے” وہ بضد ہوا۔
“میں اس طرح کی Foolishحرکت ہرگز نہیں کروں گی سجاول۔ پہلے ہی زہرہ بی اس حالت میں پہنچ گئی ہیں۔ اب ابو کی طبیعت بھی خراب کرواؤ گے تم۔اور غنویٰ کی حالت بھی کل سے تمہارے سامنے ہے۔ ایسی بات اس کے لیے بھی شاک ہوگی۔ بہتر ہے اپنے ذہن کو ٹھیک رکھو تم۔ ” اجرنے کہا اور اسے اسی اجڑی حالت میں چھوڑکر کمرے سے نکل گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دوپہر کا وقت تھااوور سورج اب سورج اب بدلیوں سے بھی دور کہیں چھپ چکا تھا۔ دھند نے ہر چیز کو لپیٹا ہوا ۔ یوں ہی جیسے وحشت نے گھر کے ہر فرد کو۔
سب لونگ روم میں ہیٹر لگائے بیٹھے تھے ۔ بڑے چھوٹے سب خاموشی سے بیٹھے اپنی ہی سوچوں میں مگن تھے ۔
” جبل تم زہرہ بی کو شام میں ایکسرسائز کروایا کرو گے اور اس سے پہلے میں ان کی اچھی طرف مالش کروں گا” حبل نے ایک نوٹ پیڈ پکڑ رکھا تھا اور اور اس پر کچھ لکیریں کھینچ کر اس نے ایک صفحہ پھاڑا اور جبل کی طرف بڑھایا۔ جبل نے غور سے دیکھا تو اس پر ٹائم کے ساتھ ایک تیر بنا کر آگے ‘ایکسرسائز’ لکھا ہوا تھا۔
“منال تم رات کو زہرہ بی کو کوئی بھی کتاب جو ان کو اچھی لگتی ہو، پڑھ کر سنایا کرو گی” اس نے ایک اور صفحہ پھاڑا اور منال کی طرف بڑھایا۔
“نمل تم زہرہ بی کو سوپ بنا کر پیار محبت سے پلایا کرو گی۔ تمہارے ہاتھ کا سوپ ان کو پسند ہے ۔ “ایک چٹ اس نے نمل کو پکڑائی اور اسی کے قریب نیچے قالین پر بیٹھ گیا۔
“فجرتم زہرہ بی کی ٹانگیں اور پاؤں دبایا کرو گی اور ان کی میڈیسنز کتنی رہ گئی ہیں کب لینی ہیں سب کا خیال تم رکھو گی۔” حبل نے ایک چٹ اسے بھی پکڑائی۔
“امی!” اس نے کشور بیگم کو بلایا۔ کل والے واقعے کے بعد کشور بیگم نےا سے صرف زہرہ بی کی کمرے میں ہی بلایا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک خاموشی سے بس غنویٰ ہی کے ساتھ مصروف رہی تھیں کہ وہ پچھلے دن سے تیز بخار میں پھنک رہی تھی۔
“امی!” وہ اٹھ کر ان کے پاس آیا۔ وہ صوفے پر آمنہ بیگم کے ساتھ بیٹھی تھیں اور ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑے اسے گھورے جا رہی تھیں۔
“حبل مجھے تنگ نہیں کرو۔ جب دل کرے گا میں خود بلا لوں گی ۔ تم میری فکر مت کرو” انہوں نے اپنے گھٹنے پر رکھے اس کے ہاتھ جھٹکے۔
“امی مجھےنہیں پتہ تھا وہ اتنا سیریس لے جائیں گی” وہ غمگین سا ہو چلا تھا۔
“آمنہ اسے کہو ابھی اٹھ جائے یہاں سے” انہوں نے ساتھ بیٹھی آمنہ بیگم سے کہا تو حبل بے بسی سے انہیں دیکھنے لگا۔
“حبل یوں کرو غنویٰ کو ڈاکٹر کے پاس لے چلو فجر یا نمل میں سے کسی کو ساتھ لے جاؤ۔ ” انہوں نے اس کے کندھوں پر ہاتھ دھرتے ہوئے ہمت دلائی۔
” چچی میں لے جاتا ہوں اسے۔ فجر اٹھو دیکھو اگر جاگ رہی ہے تو اسے سہارا دے کر لاؤ میں گاڑی نکالتا ہوں پھر” جبل نے حبل کے اٹھنے سے پہلے کہا تو حبل اسے گھورنے لگا۔جبل نے آنکھوں سے چپ رہنے کا اشارہ دیا۔فجر ، نمل اور منال کمرے کی طرف بڑھی تھیں جہاں اجر غنویٰ کے پاس بیٹھی تھی۔
“میری بات سنو قدسیہ! ہم نے صرف نکاح ہی کرنا ہے نا۔ زہرہ بی کچھ صحت پکڑ لیں تو نکاح انجام دے لیتے ہیں۔ تب تک سجاول کا بھی فخر زمان دیکھ لے کہ کیا کرنا ہے” شہناز بیگم نے چپ بیٹھی قدسیہ بیگم سے کہا تو وہ سوچوں سے چونکیں۔
“جی بہتر۔ میں سجاول کا بھی پوچھ لیتی ہوں ان سے آج کہ کب تک کا پروگرام ہے” ان کے کہنے پر جبل اور حبل نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔
“سجاول والا معاملہ ٹھنڈا نہیں ہو سکتا کیا؟ “جبل بولا۔تو سب خواتین اسے گھورنے لگی تھیں۔
“میرا مطلب ہے کچھ دیرانتطار کرلیں ۔ وہ بھی ٹھنڈے دماغ سے سوچ لے کہ کیا چاہتا ہے وہ” اس نے گڑبڑا کر تصحیح کی۔
“کل صبح میں نے بات کی ہے اس سے۔ تب وہ اس منحوس کا نام جپ رہا تھا۔ آج جا کر اپنے باپ سے کہتا ہے غنویٰ سے کروادیں۔ یہ کیا بے ہودگی ہے؟کیا چاہتا ہے آخر وہ ہم سے؟ ساری زندگیاں اپنی من مانی میں تباہ کرے گا کیا یہ لڑکا؟ یہ صلہ دے رہا ہے میری تربیت کا؟ میں نے تو کوئی کھوٹ نہیں ملایا تھا اس میں یا اس کی تربیت میں۔ کیوں مجھے میرے ہی گھر میں دفنا رہا ہے یہ” قدسیہ بیگم پھٹ ہی پڑی تھیں۔ یوں زاروقطار رونے لگی تھیں کہ جبل کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔ اسے علم نہیں تھا کہ وہ اس حد تک بھری بیٹھی ہیں۔
“قدسیہ کیا ہو گیا ہے۔ دیکھو سب ٹھیک ہو جائیگا ۔ چپ کرو شاباش ” مہنازبیگم نے بھی بوکھلا کر انہیں فوراً ساتھ لگایا تھا۔
“آپ بتائیں کیا گناہ کیا تھا میں کہ یہ سزا دے رہا ہے مجھے۔ میں نے کیا گناہ کر دیا تھا۔ کیوں ذلیل کر رہا ہے ہمیں۔ یہ بچوں کا کھیل ہے کوئی؟ جب دل کیا کسی لڑکی کا بول دیا جب دل کیا کسی اور کا کہہ دیا۔ مذاق بنا کر رکھ دیا ہے اس نے۔ یوں بھی زندگی گزرتی ہے کیا ؟” وہ جانے کب کا جمع ہوا غبار نکال رہی تھیں۔
“تائ امی! غنویٰ آرہی ہے اس کے سامنے مت روئیے گا۔ ہر کسی کو دیکھ کر رونے لگتی ہے۔ تھوڑا حوصلہ کریں”حبل اٹھ کر فوراً ان کے پاس آیا اور انہیں خود سے لگا کر آہستہ آہستہ سمجھانے لگا۔ جبل اٹھ کر گاڑی نکالنے چل پڑا۔
“کوئی جرسی پہنائی اسے؟” کشور بیگم اٹھ کر ، فجر اور نمل کے سہارے چلتی غنویٰ کی طرف آئیں اور نمل سے پوچھا۔ اس نے سر ہلا کر ان کی تسلی کروائی اور قدم قدم اٹھاتی غنویٰ کے ساتھ باہر بڑھ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مداوا ـــــ اب نہیں ممکن
ضرورت بس دعا کی ہے
وہ کبھی ادھر سے ادھر چکر کاٹتاتو کبھی بیڈ پر بالوں کو انگلیوں میں جکڑ کر بیٹھ جاتا۔ آخر کرے تو کرے کیا۔ جس طرف دل ہمک رہا تھا وہاں دماغ کی تاویلیں کہ جسے زبان دی ہے اتناعرصہ ساتھ باندھ کر رکھا ،اس کا کیا۔ جہاں دماغ کی ان تاویلوں پر سر دھنتا وہاں دل باغی ہو جاتا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اچھا بھلا کل تک ٹھیک ٹھاک بیٹھا ہوا سجاول اب کہاں گم گیا تھا۔
فخر زمان اب کسی صورت اس کی پچھلی بات سے مکرنے نہیں دینے والے تھے اور گھر میں دیکھا جاتا تو جبل اور حبل سمیت سبھی اس کے خلاف تھے۔ اگر وہ جبل یا حبل سے بات کر بھی لیتا تو وہ دونوں کس گواہی پر مان جاتے کہ ان کی بہن کا معاملہ آڑے آتا تھا۔ جو شخص اتنے دن اپنی زندگی کی سب سے عظیم ہستی سے ایک انتہائی فضول بحث پر ناراض رہ سکتا ہے تو وہ ان کی بہن کی خوشیوں کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے۔ جس شخص نے اتنے سال اپنی من مانی کی تھی وہ کہاں ایک ہلکی سی کوتاہی پر کسی کو معاف کر دیتا۔ کہاں وہ کسی کی من مانی برداشت کر پاتا۔
عرصہ ہو چلا تھا ۔اسے بھی نہ یاد پڑتا تھا کہ کب اس نے ان سب میں بیٹھ کر سکون سے ایک دن بھی گزارا ہو۔ ماں باپ تو بچے کے اٹھتے بیٹھتے ڈھنگ سے ہی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ اسے کن رنگوں نے رنگین کر رکھا ہے۔ قدسیہ بیگم کے ہزار بار پوچھنے پر بھی جب وہ نہ بتاتا تھا تب وہ بھی تھک کر اسے سنایا کرتی تھیں کہ میں فجر اور اجر کی شادی کے بعد ہی کسی کا سوچوں گی۔ ان کا صاف اور کھرا جواب سجاول کی سمجھ میں سمیت معنی اور مطالب کے آجایا کرتا تھا۔ جانے کس بناء پر اس نے زوئنہ سے اتنے وعدے اور دعوے کیے تھے۔اب انہی وعدوں نے اس کی جان جوکھم میں ڈال رکھی تھی۔ وہ کرتا بھی تو کیا۔
تھک ہار کر اس نے کھڑکیوں پر بلائینڈزگرائے اور بیڈ پر اوندھے منہ گر کرسوگیا۔
اور کر بھی کیا سکتا تھا وہ۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فقط اک لفظ لکھنے سے، محبت ہو نہیں جاتی
فقط ایک درد سہنے سےکوئی مجنوں نہیں بنتا
آج صبح ہی جانے کیسی ہوئی تھی۔ سورج تو چڑھا پر سورج میں تپش کھو چکی تھی۔ اتنی یخ دھوپ۔ ہوا تو یوں تھی جیسے آنسوؤں کو کھینچتی لائی ہو۔ دل کو جکڑن سی محسوس ہوئی تو وہ بھی اٹھ بیٹھا۔ فوراً جا کر کھڑکیوں سے بلائینڈز ہٹائے اور دونوں پٹ کھسکا کر گہری سانس لینے لگا۔ٹھنڈی ہوا ناک کے راستےپھیپھڑوں تک گئی ۔ اندر کا غبار ہوا کے سپرد کر کے اس نے ایک اور سانس اندر کھینچی اور ہواکی ٹھنڈک دماغ کی رگوں کو سکون دینے لگی۔ رات کا ایک بھی لمحہ ذہن میں تازہ نہ ہوتا تھا۔ یوں لگتا کوئی خواب تھا۔ دھواں سا۔ جو ابھی اس نے ہوا کے سپرد کر دیا تھا۔
“سجاول ! تایا ابو باہر ٹیبل پر ویٹ کر ہے ہیں” جبل نے کمرے کا دروازہ کھول کر اسے اطلاع دی اور باہر نکل گیا۔ سجاول کے دل کو ٹھیس پہنچی۔ ایسا بھی کیا بیگانہ پن کہ سب اسے پرایا ہی کر بیٹھے تھے۔ خود کی ایک بات ،لہجے کی تلخی اب بھی یاد نہ پڑتی تھی اسے۔ فوراً منہ پر پانی کے چند چھینٹے مارے خود کو نارمل پوز کرتا وہ کمرے سے نکل گیا۔
ٹیبل پر اس وقت سوائے غنویٰ اور زہرہ بی کے سبھی موجود تھے اور ناشتے سے ہاتھ روکے بیٹھے تھے۔
“آؤ! بیٹھو۔ بات کرنی تھی تم سے” فخر زمان نے لٹھے مار انداز میں اسے دعوت دی۔قدسیہ بیگم اپنی کرسی سے اٹھ کر کچن کی طرف بڑھ گئی تھیں ۔ فخر زمان نے اس کو انہی کی کرسی پر بیٹھنے کا شارہ کیا تو وہ اس طرف چلا آیا۔
“بات ہوئی تمہاری اس لڑکی سے؟” انہوں نے ناشتہ شروع کرنے سے پہلے اس سے پوچھنا لازمی سمجھا۔ سجاول کا حلق تک کڑوا ہو گیا۔
“ابو میں۔۔”
“میں جو پوچھ رہا ہوں اس کا جواب دو” انہوں نے اس کی بات کاٹی۔
“جی ہوئی تھی”
“ٹھیک ہے ۔ ہم کل لاہور کے لیے نکلیں گے ۔ تمہاری ماں اور کشور یہیں رہیں گی۔ میں ، تم ، سانول اور شیر زمان پہلے نکلیں گے۔ ہمیں جا کر ہال بک کروانا ہے۔ جبل اور حبل بعد میں حیدر زمان، آمنہ اور بچیوں کے ساتھ نکلیں گے۔ شہناز آپا اور مہناز آپا !میرا نہیں خیال آپ جانا چاہیں گی۔ اور چاہتی بھی ہیں تو بھول جائیں اس خیال کو۔”جہاں سجاول کی سانس اٹکی تھی وہیں شہناز اور مہناز بیگم نے افسردگی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔لڑکیوں نے بھی آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارہ کیاتھا۔
” فخریہ ہمارا پہلا بھتیجا ہے۔ اب اتنا تو حق بنتا ہے ہمارا یا نہیں؟” شہناز بیگم نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
“جبل اور حبل کی شادی آئیگی آپا۔ بہت انجوائے کریں گی آپ۔ ” وہ مسکرائے۔ صاف ظاہر تھا کہ سجاول کو اپنی فیورٹ لسٹ سے نکال چکے ہیں۔
“ابو !”سجاول نے ہمت کر کے آواز کالی تو وہ اسے دیکھنے لگے۔
“میں بات ختم کر چکا ہوں۔ اب اگر کوئی اعتراض اٹھانا چاہ بھی رہے ہو تو اپنے نکاح تک ادھار رکھو۔ “انہوں نے مسکراتے ہوئے اس کے کندھے پر تھپکی دی اور کھانا کھسکا کر اٹھ گئے۔مسکراہٹ اور لہجہ سرد تھے۔ شیرزمان بھی ان کے پیچھے گئے تھے۔ ان کے اٹھ کر جانے سے میز پر موت کی خاموشی طاری ہوگئی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...