تاریخ کے ہر دور میں ادبی تحریکیں فکر و نظر کو مہمیز کرتی چلی آ رہی ہیں۔ان میں نئی تنقید،مارکسی تنقید،وجودیت،مظہریات،جدیدیت ما بعد جدیدیت، ساختیات ،پس ساختیات،علامتی ابلاغ اور رد تشکیل نے جمود کا خاتمہ کر کے تنقید ،تحقیق اور تخلیق ادب کے شعبوں پر دُوررس اثرات مرتب کیے ۔ ادب کے تجزیاتی مطالعہ کے متعدد طریقے ہیں،ان میںنئی تنقید کو بھی ایک معتبر طریقے کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ بیسویں صدی میںزندگی کی برق رفتاریوں کے جو مظاہر دیکھنے میں آئے وہ تاریخ ِادب کے اوراق میںانمٹ نقوش ثبت کر گئے۔لفظ نئی تنقید (New Criticism)کو سب سے پہلے جول الیس سپنگرن (Joel Elias Spingran,B:17-5-1875,D:25-7-1939) نے اپنے ایک لیکچر میں استعمال کیا جو اس نے نو مارچ 1910کوکو لمبیا یو نیورسٹی میں دیا۔ یہ لیکچر سال 1911میں کتابی صورت میں شائع ہوا۔ جول الیس سپنگرن نے قدیم تنقیدی دبستانوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ تنقید کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر نا ضروری ہے۔ سال 1920سے سال1930کے عرصے میں نئی تنقید کے ابتدائی دھندلے نقوش بحر اوقیانوس کے پار کے ممالک اور امریکی ادبیات پر دکھائی دیتے ہیں۔نئی تنقید کے علم برداروں کا تعلق شعبہ تدریس سے تھا اور ان میں سے اکثر کالج اور جامعات میں تدریسی خدمات پر مامور تھے ۔ انھوں نے امریکی ادبیات میں مروّج تنقیدی اسالیب کے خلاف ایسا ماحول پیدا کیا جس نے قارئین کے فکر و خیال میں ہلچل مچا دی ۔بیسویں صدی کے وسط میںامریکی ادبیات میں اسلوب اور ہئیت کے جو متنوع تجربات کیے گئے ان میں نئی تنقید نمایاں ہے۔ بیسویں صدی کے وسط کے بعدنئی تنقید کو اس عہد کے ادب میں ایک انتہائی مؤثر تحر یک کی حیثیت حاصل تھی ۔نئی تنقید کے علم بردار اس امر پر اصرار کرتے تھے کہ تخلیق فن کا مقصدمحض تخلیق فن ہی ہے اور تخلیقی فن پارے میں نہاں متن اس قدر جامع ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف آپ اپنے مفاہیم کی گرہ کشائی کرتا ہے بل کہ اس کو ہر اعتبار سے ہئیت کے ہم پلہ سمجھنا چاہیے۔ نئی تنقید نے تخلیقی فعالیت کی درجہ بندی،مختلف اصناف میںاس کے شمار اور خاص زمروںمیںاس کی ترتیب کے سلسلے میں وہ معیار اپنانے پر زور دیا جو ادب پارے کی ہئیتی صفات سے مطابقت رکھتا ہو۔نئی تنقید کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ نئی تنقید نے ادب کے بالعموم اور بالخصوص شاعری کے عمیق مطالعہ پر اپنی توجہ مرکوز کی۔نئی تنقیدنے اس جانب متوجہ کیا کہ قارئین کو ادب پاروں کے تجزیاتی مطالعہ کے دوران تخلیق کار کے بجائے محض تخلیق پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے ۔مطالعہ کے دوران تخلیق کار کے پس منظر یا خود اپنے رد عمل سے قاری کو کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہیے ۔قاری کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ صر ف متن کے عمیق مطالعہ پر مکمل انحصار کرتے ہوئے اس کے محاسن یا معائب کے بارے میں اپنی غیر جانب دارانہ رائے پیش کرے ۔نئی تنقید کے علم برداروں کا استدلا ل یہ تھا کہ ہر متن مجموعی اعتبار سے اس قدر خود کفیل ہوتا ہے کہ اس کی خود انحصاری ،جمالیاتی موضوع اور اپنے وجود اور ذات کے معتبر حوالے کی حیثیت سے اس کی جاذبیت قاری کو اپنی گرفت میںلے لیتی ہے۔متن میں صنائع،بدائع اور اظہار و ابلاغ کے متنوع ذرائع کو مرکز نگاہ بنانے کی نئی سوچ نے رفتہ رفتہ نئی تنقید کی راہ ہموار کر دی۔ نئی تنقید نے واضح کر دیا کہ متن کا عمیق مطالعہ متن کے موضوع ،پلاٹ،ترتیب اورساخت سے متعلق جملہ اسرار و رموز کی گرہ کشائی کرتا ہے۔نئی تنقید سے پہلے ادبی تنقید کاجھکائو تاریخ کی جانب تھا۔متن کی تفہیم کے سلسلے میںادبی نقاد بالعموم زبان کے ارتقا اور تخلیق کے تاریخی پس منظر کو بنیادی اہمیت کا حامل قرار دیتے تھے۔ اس تحریک کا نام’’نئی تنقید‘‘ ممتازامریکی ادیب جان کرو و رینسم(John Crowe Ransom,B:30-04-1888,D:03-07-1974) کی سال 1941میںشائع ہونے والی تنقید کی اہم کتاب “The New Criticism” میں بھی موجود ہے۔ شعبہ تنقید میں گراں قدر خدمات اور مقبولیت کی بنا پر جان کرو رینسم کو نئی تنقید کے فلاسفر جنرل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ابتدا میں فیوجیٹوز(Fugitives)کے نام سے ایک ادبی تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے زیر اہتمام اسی نام سے ایک ادبی مجلہ بھی شائع ہوتاتھا۔اس تنظیم نے نئی تنقید کو پروان چڑھانے میں گہری دلچسپی لی اور اس کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ادبی تھیوری میں ہئیت کے متنوع تجربات کو زادِ راہ بنانے والی اس تحریک نے گزشتہ صدی کے وسط میں امریکی ادبیات پر گہرے اثرات مرتب کیے۔اس کے زیر اثر جلد ہی ادبی تنقید پر گہری نظر رکھنے والے نقادوں کو اس حقیقت کا ادراک ہو گیا کہ تخلیق فن کے لمحوں اگرتخلیق کار خون دل میں انگلیاں ڈبو کر پرورش لوح و قلم میں مصروف رہتا ہے تو اس کی تخلیق پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے ۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ بعض ادب پارے جو قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے متمتع ہوتے ہیںدلوں کو مسخر کر لیتے ہیںاورقاری یہ جانے بغیر کہ ان کا تخلیق کار کون ہے ان کے سحر میںکھو جاتا ہے ۔ان تخلیقات کی دل کشی اور جاذبیت ہی ان کی مقبولیت کی دلیل ہے ۔جن ممتازنقادوں نے تاریخی تنقید ،سوانحی تنقید، رومانویت کی مظہرقدیم تنقید اور تاثراتی تنقید کے خلاف رد عمل کے طور پر نئی تنقید کے تصور کو آگے بڑھایا ان کے نام درج ذیل ہیں:
1. I.A(Ivor Armstrong) Richards(B:26-02-1893,D:07-9-1979) :Pactical Criticism,1929
2.William Empson (B:27-9-1906,D:15-04-1984) :Seven Types Of Ambiguity ,1930
3.T.S(Thomas Stearns) Eliot (B:26-9-1906,D:04-01-1965) (“The Function of Criticism” [1933])
4.Cleanth Brooks (B:16-10-1906,D:10-05-1994)
5.Robert Penn Warren(B:24-04-1905,D:15-09-1989)
6.John Crowe Ransom (B:30-04-1988,D:03-07-1974)
7.Allen Tate (B:19-11-1899,D: 09-02-1979)
8.R.P Blackmur (B:01-01-1904,D:02-02-1965)
نئی تنقید نے اس امر پر زور دیا کہ ہر متن میں رعنائی، دل کشی اور اثر آفرینی کے سوتے موضوعات ہی سے پُھوٹتے ہیں۔متن کی قدر و قیمت کا اندازہ لگاتے وقت کئی امور کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے ۔ یہ حقیقت ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ عمدہ متن روّیوں کی ثروت ،موضوعات کے تجسس ، پیچیدگی اور واقعات کے توازن کی اساس پر استوار ہوتا ہے ۔نئی تنقید کے پیروکاروں نے واضح کیا کہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے متن کسی بیان کرنے والے کے کلام پر مبنی ہوتا ہے ۔یوں سمجھنا چاہیے کہ متن بولنے والے کے روّیے کا آئینہ دار ہوتا ہے اس لیے اس روّیے کی مناسب وضاحت نا گزیر ہے ۔ متکلم جس لہجے میں تکلم کا سلسلہ جاری رکھتا ہے وہی اس روّیے کی تہہ تک پہنچنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔اس طرح قاری کو اس حقیقت کا ادراک ہو جاتا ہے کہ تکلم کے اس سلسلے میں طنز،ابہام،مبالغہ،ہجو،خلوص،سادگی اور براہ راست ہمدردی میں سے کون سا روّیہ جھلکتا ہے۔ واقعات کازیر و بم،متضاد جذبات کاتلاطم،تنائو ،لاگ اور لگائو ،طنز اور متناقض باتوں کا بر محل استعمال متن کے حسن و دل کشی کو چار چاند لگا دیتا ہے ۔یہ سوال توجہ طلب ہے کہ متن کے قریبی اور عمیق مطالعہ کے لیے قاری کون سا طریقہ ختیارکرنا چاہیے ۔اس کا جواب نہایت واضح ہے کہ قاری کو متن کے الفاط پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔اسے چاہیے کے جملوں کی ساخت اورصرف و نحو جیسے اہم پہلوؤں کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھے۔جملوں میں رنگ ،رعنائی ،مہک اور خوبی کے سوتے الفاظ کے عکس ،آواز ،سائے اورساخت سے پُھوٹتے ہیں۔الفاظ کے بارے میں یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں کہ ہر لفظ کئی طرفیں رکھتا ہے ۔اسی بنا پر متن کے ہر لفظ کو گنجینۂ معانی کا طلسم سمجھا جاتا ہے ۔قاری کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ الفاظ کی طرفیں کون سی ہیں اور مفاہیم کا رخ کس طر ف ہے۔نئی تنقید نے استعارے اور تمثیلی زبان کی تفہیم پر بہت توجہ دی۔
متن پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے نئی تنقید نے ارادی طور پرمصنف اور قاری کو لائق اعتنا نہ سمجھا۔بیسویں صدی کے آغاز میںارادی مغالطہ اندازی (Intentional Fallacy)کی اصطلاح مستعمل تھی۔اس کے مطابق تنقیدی پیرائے میں تخلیق کار کے اس موروثی مسئلے کو موضوع بنایا جاتا تھاجو تخلیق کی جانچ پرکھ کے سلسلے میں درپیش ہوتا۔ہر وہ اقدام جس کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ مصنف کاتخلیقی کام کے ساتھ کیا تعلق ہے وہ ارادی مغالطہ اندازی ہے۔نقاد تخلیق کار کے اس موروثی مسئلے کا سوز ِدروں کوسامنے لانے کے متمنی تھے تا کہ تخلیقی فعالیت کے پسِ پردہ کار فرماجملہ عوامل کاجائزہ لیاجا سکے۔ تخلیق فن کے سلسلے میںتخلیق کار کے مقاصد اورارادوں سے آگاہی کی خاطر نقادکئی مفرضوں کا سہار الیتے تھے تا کہ یہ جان سکیں کہ تخلیقی عمل کے دوران تخلیق کار کی منشا کیا تھی ۔ جہاں تک مؤثرمغالطہ اندازی کا تعلق ہے اس سے مراد کوئی بھی ایسا اقدام ہے جس کے ذریعے یہ جاننے کی سعی کی جائے کہ تخلیق کے بارے میں قاری کا انفرادی رد عمل کس صورت میں وقو ع پذیر ہوا۔ تاثراتی تنقید کا استدلال یہ تھا کہ نظم کے بارے میں قاری کا رد عمل ہی اس نظم کی حقیقی قدر و منزلت کے تعین کے بارے میںکسی حتمی نتیجے تک پہنچنے کا مؤثر ترین وسیلہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تاثراتی تنقید نے نظم کے مطالعہ کے دوران قاری کے تاثرات کو اہم قرار دیا۔ اسی طرح موثر مغالطہ اندازی(Affective fallacy)کے حوالے سے نئی تنقید کے پیروکاروں نے واضح کیا کہ اس نوعیت کی غلط فہمی نظم کے تجزیاتی مطالعہ کے دوران پیش آتی ہے جب اس بات پر غور و فکر کو شعاربنا لیا جاتا ہے کہ اس نظم کے مطالعہ کے دوران قاری کے جذبات و احساسات کیا تھے۔نظم کے مطالعہ کے دوران قاری کے جذبات و احساسات کی جو کیفیت تھی اسے پیش نظر رکھنا ارادی مغالطہ اندازی کی مثال ہے ۔ اس طرح نئی تنقید نے تاثراتی تنقید پر یہ براہ راست سخت وارکیا۔نئی تنقید نے اپنے اس مفروضے پر شدت سے اصرار کیاکہ ہر متن کو خود مختار حیثیت حاصل ہے۔متن کی یہ خودمختاری کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لاتی۔متن کی خود مختاری کو سمجھنے والے تاریخ،سوانح عمری،عمرانیات،نفسیات،مصنف کی نیّت اور قاری کے نجی تجربات کو غیر متعلقہ قرار دیتے ہیں۔
نئی تنقید نے قلزم متن کی گہرائی میںغواصی کر کے معانی کے گہر ہائے تاب دار بر آمد کرنے پر اصرار کیا۔نئی تنقید کے پیروکاروں کی یہ رائے تھی کہ قارئین متن کا تجزیاتی مطالعہ کرتے وقت موضوعات کا باریک بینی سے معائنہ کرتے ہیں۔ان کا یہ عمل مفاہیم کی گرہ کشائی میں کلیدی اہمیت کا حامل ثابت ہوتا ہے ۔ کسی تخلیقی کام کے حسن وقبح کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے متعدد امور کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔یہ جاننا از بس ضروری ہے کہ تخلیق کار نے اپنے دلِ لخت لخت کے احساسات کو ورق ورق بیان کرتے وقت موضوعات کے پیچ در پیچ سلسلے کو کس مہارت سے زیبِ قرطاس کیا ہے۔ زبان و بیان پر اپنی خلاقانہ دسترس کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی تحریرکو وحدت ِ تاثر سے متمتع کرنے والے مرکزی نوعیت کے موضوعات کومؤثر بنانے میں یہ سلسلے معاون رہے ہیں یا نہیں۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ان عوامل نے متن کی تر تیب میں کس طرح اپنا حصہ ڈالا۔ نئی تنقید نے ان اہم اقدامات پر غور کرنے کی جانب متوجہ کیاجنھیں ادبیات کی سائنس سے تعبیر کیا جاتاہے ۔ یہ سائنس ایسے خاص نمونوں کو رو بہ عمل لانے کی راہ دکھاتی ہے جو آوازوں ،عکس،بیانیہ،ساخت ،زاویہ ٔ نگاہ اور متنوع تکنیک کے مظہر ہوں۔متن کا عمیق مطالعہ ید بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے اور کئی حقائق چشمِ بینا پر واضح ہوتے چلے جاتے ہیں۔ نئی تنقید کے علم برداروں کا خیال تھا کہ سائنس کے مانند ادب اور تنقید کے لیے بھی اپنی مخصوص زبان اور ذخیرۂ الفاظ نا گزیر ہے ۔ نئی تنقیدنے قدیم تصور تاریخ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جس کے مطابق سوانحی اور سماجی ومعاشرتی عوامل کو موقر و معتبر سمجھا جاتا تھا ۔اس قدیم تصور نے محض بیرونی اور سطحی نوعیت کے مسائل پر توجہ دی۔نئی تنقید اورہئیت پسندی میں یہ قدر مشترک ہے کہ ان میں متن اور بین السطور میں نہاں خیالات اور ہئیت میں پائے جانے والے گہرے تعلق کا بہ نظر غائر جائزہ لینے کی مساعی پر توجہ مرکوز رہتی ہے ۔نئی تنقید کے علم برداروں کو اس بات کا شدت سے احساس تھاکہ آئینِ نو کو دیکھ کر یاس و ہراس کا شکار ہونا طرز کہن پر اڑنے والوں کا وتیرہ ہوتا ہے ۔اس کے باو جود نئی تنقید کے علم برداروں نے مستعمل معائر تنقید کو تسلیم کرنے میں تامل کیا اوراپنی نئی راہ تلاش کرنے کی کوشش جاری رکھی ۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیاہے کہ ان کا واسطہ الٹی باتوں ،مہمل خیالات بے معنی اندازوں سے پڑا جس نے خلط مبحث کو ہوا دی۔اس کے باوجود نئی تنقید کے علم بردار اپنی کوششوں میں منہمک رہے اور متن کے مفاہیم کی الجھی ہوئی گتھی کو سلجھانے اور معانی کی یک جہتی اور ربط کی جستجو میں بڑی حد تک کا م یاب ہو گئے۔نئی تنقید نے مظہریت کی حامل حقیقت نگاری کو لائق اعتنا نہ سمجھا ۔
ایک فعال تخلیق کار جب قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتا ہے تو وہ اپنے جذبات ،احساسات ،تجربات اور مشاہدات کی اساس پر اپنے افکار کی تعمیر کرتاہے ۔اس کا تخلیقی کام جب منصۂ شہود پرآتا ہے توقارئین اس کے حسن و قبح کے بارے میں اپنی آزادانہ رائے دے کر اس کے استحسان کی سعی کرتے ہیں۔ تخلیق کا موضوع پیچ در پیچ سلسلے کا مظہر ہوتا ہے جس کی تفہیم میں متعدد امور کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے۔یہ دیکھنا ضروری ہے کہ موضوع کا تجسس ،تسلسل اور پیچیدگی کس نوعیت کی حامل ہے ۔تخلیق کار نے کس قدر باریک بینی سے کام لیتے ہوئے موضوع کو قریب سے دیکھا ہے اور تجسس کے سلسلوں کے اعجاز سے موضوعات کو اپنی تاثیر کے اعتبار سے ایک وحدت کی شکل دی ہے ۔اگر موضوعات میں تجسس اور ہر لحظہ نیا طُور نئی برقِ تجلی کی کیفیت ہو گی اور وہ مرکزیت کے حامل موضوع کے جس قدر قریب ہوں گے ،اسی قدر تخلیقی کام کو مائل بہ ترفع خیال کیا جائے گا۔نئی تنقید کے پیروکاروں کے تنقیدی اسلوب کا جائزہ لینے کے بعد یہ تاثر قوی ہو جاتا ہے انھوں نے اپنے موضوعات میں متضاد کیفیات کو پیش کر کے متن کی تفہیم کی جستجوکو شعار بنایا۔اس کی کئی مثالیں ان کے اسلوب میں ملتی ہیں مثال کے طور پر متن کی تفہیم میں درج ذیل متضاد کیفیات کی جلو ہ گری قاری کو مسحور کر دیتی ہے :
صبح و شام ،ظلمت و ضیا، نشیب و فراز،زندگی اور موت،نیک اور بد ،محبت اور نفرت،ہم آہنگی اور اختلافات،اتحاد و انتشار،محدود و لا محدود،بقا اور فنا،ظاہر اور باطن،صدق اور کذب،نہاں و عیاں،جذبات اور دلائل،ظاہر اور باطن،فطرت اور فن،ساختہ اور بے ساختہ،سہل اور دشوار،سنجیدہ اور غیر سنجیدہ۔
یہ متضاد کیفیات متن میں نہاں مفاہیم کی صورت گری میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔متن کا تجزیہ ایک ایسی فعالیت ہے جو یہ حقیقت سامنے لاتی ہے کہ متن کے تمام اجزا کس انداز میںتخلیقی عمل میںاپنا کردار ادا کرتے ہیں۔انسانیت کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے کے سلسلے میںتخلیق کار کس طرح اپنے جذبات کو پیرایۂ اظہار عطا کرتا ہے۔ پرورش لوح و قلم کرتے وقت متن کو پیچیدہ مگر واحد بیانیہ کی صورت میںپیش کرنا تخلیق کار کی ذمہ داری ہے ۔اس طرح قاری کو زندگی کی حقیقی معنویت اور انسانیت کے مسائل کا ادراک ہوتا ہے ۔قاری کو اپنے ذہن و ذکاوت کر رو بہ عمل لاتے ہوئے س امر کی جستجو کرنی چاہیے کہ تخلیق کار کی فنی مہارت کے معجز نما اثر سے کسی متن میںطنز،ابہام اور متضاد معانی کے کرشمے کس طرح مستور ہیں۔یہ کھوج لگانا بھی قاری کی ذمہ داری ہے کہ معاشرتی زندگی کے تضادات اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کو دیکھ کر تخلیق کار جس کرب سے گزراور اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چھپا کر تخلیقی عمل میں مصرو ف رہا اس کے متن پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ اس موضوع پر قاری صرف متن ہی پر انحصار کرے مصنف کے نجی احوال اور اس کی ذات کے سرابوں سے اپنا دامن بچائے رکھے۔تخلیقی فعالیت کے دوران تخلیق کار کو جس اعصابی تنائو کا سامنا کرنا پڑا اس کی تہہ تک پہنچنے میں صرف متن مدد گار ثابت ہو سکتاہے ۔سوز و ساز رومی اور پیچ و تاب رازی کی یہ مِلی جُلی کیفیات اور اسلوب میںمتضاد اور متناقض الفاظ کے استعمال نے کیا رنگ دکھایا ہے۔یہ سب کچھ متن کی عطا ثابت ہو سکتا ہے ،اس کے لیے کسی اور ماخذ کی ضرورت نہیں۔
نئی تنقید نے سیاق و سباق(Context) کو غیر اہم قرار دے کر متن(Text)کو خود کفیل قرار دیتے ہوئے اس کے عمیق مطالعہ پر اپنی توجہ مرکوز کر دی۔نئی تنقیدکے پیروکاروں نے اس امر کی طر ف توجہ دلائی کہ ہر متن کی مرکزی وحدت ہوتی ہے ۔اب یہ قاری کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اس وحدت کی جستجو میں انہما ک کا مظاہرہ کرتے ہوئے متعلقہ حقائق تک رسائی حاصل کرے ۔قاری کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ متن کی پوری دیانت داری سے ترجمانی کرے اور اس امر کی صراحت کرے کہ کون سے موزوں طریقے اختیار کرتے ہوئے متن کے ہر حصے نے مرکزی وحدت کی تشکیل میں اعانت کی ہے ۔نئی تنقید نے اندیشہ ہائے دُور دراز کو ہمیشہ لائق استرداد ٹھہرایا اور ہر قسم کے وسوسوں سے نجات حاصل کرنے کی راہ دکھائی۔نئی تنقید کے پیرو کاروں نے واضح کیا کہ خزاں یا بہار کے آنے یا جانے کا دکھ یا سکھ سے کوئی تعلق نہیں ۔سب موسموں کا تعلق دِل کی کلی کے کھلنے اور مر جھانے سے ہوتا ہے ۔جب کسی کا دل اداس ہوتا ہے تو پھر اسے سار اشہر سائیں سائیں کرتا محسوس ہوتاہے ۔اگر متن میں خزاں کے ذکر سے مراد رنج و الم کا بیان ہے تو ایسی صورت میں قاری کا متن کا مطالعہ کرتے وقت ملول ہونا قابل فہم ہے۔ متن میں گھر کے بام و در اور دیواریں اگر دائمی مفارقت دینے والوں کی یاد میں نوحہ کنا ں ہوں توقاری کی آنکھیں بھی اس ہجومِ یاس کو دیکھ کر پُرنم ہو سکتی ہیں۔اگر دل میں تازہ ہوا کے جھونکے نہ آئیں تو طلوع صبح بہاراں کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا ۔جبر کے ماحول میں جب بستیاں خوں میں تر، اُمنگیں زیر و زبر، انسانیت خاک بہ سر ، روشن مستقبل کی راہ دیکھنے والی آنکھیں بے بصر،رُتیں بے ثمر، راہیں پُر خطر،کلیاں شرر،زندگیاں مختصراور آہیں بے اثر کر دی جائیں تو اُجالا داغ داغ اور سحر بھی شب گزیدہ ہو جاتی ہے ۔راہِ رفتگاں پر چلنے والے آبلہ پا مسافروں کو راہ کو پُر خار دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہونے کے بجائے مطمئن ہو جانا چاہیے کہ اب پائوں کے یہ آبلے نہیں رہیں گے اور زینۂ ہستی سے اُترنے کا مرحلہ آسانی سے طے ہو جائے گا۔
نئی تنقید کے پیروکاروں کے تنقیدی خیالات کے بارے میںرین ویلک (Rene Wellek ,B:22-8-1903,D:11-11-1995)نے اپنے تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے نئی تنقید کو جنوبی نقادوں(Southern Critics)کے ایسے فرد فرد مجموعۂ خیا ل سے تعبیر کیاجس میں بیسویں صدی کے اوائل میںجمود کے خاتمے کی سعی تو کی لیکن وہ سب کسی ایک امر پر کامل اتفاق رائے کا مظاہرہ نہ کر سکے۔آسٹر یا سے تعلق رکھنے والے نقاد رین ویلک نے نئی تنقید کے علم بردار جن اہم نقادوںکی منتشر خیالی کو موضوع بناتے ہوئے ان کے خیالات پر تنقید کی ان کے نام درج ذیل ہیں:
1.Allen Tate( ,B:19-11-1899,D:09-02-1979 )
2.Cleanth Brooks(,B:16-10-1906,D:10-05-1994 )
3.Robert Penn Warren (,B:24-04-1905,D:15-09-1989)
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئی تنقید کی آب و تاب ماند پڑنے لگی اور اس کا پر چار کرنے والوں پر شدید تنقید ہونے لگی ۔اس موضوع پر رین ویلک نے لکھا ہے :
“In England some of the followers of I.A.Richards have paid close attention to the textof poetry and also in this country a group of critics have made a study of the work or art the centre of their interest.”(1)
اپنے جرأت مندانہ موقف کو اپنے تنقیدی اسلوب میں رو بہ عمل لاتے ہوئے ہرمن نار تھروپ فرائی(Herman Northrop Frye,B:14-7-1912,D:23-01-1991) نے تنقید کو ایک منفرد روپ اور نئے آہنگ سے آشنا کیا۔ سال 1957میں شائع ہونے والی اپنی معرکہ آرا تصنیف(Anatomy of Criticism) میںہرمن نارتھروپ فرائی نے نئی تنقید کی تخلیقی بالادستی، اسلوبیاتی غلبے اور فکر ی تسلط کومدلل انداز میں چیلنج کر کے فکر و نظر کی کایا پلٹ دی ۔ اس نے نئی تنقید کے علم برداروں کی فکری قیادت اور سرداری کے ادعا کو لائق اعتنا نہ سمجھا اور نئے زمانے نئی صبح و شام کی تخلیق میں گہرے انہماک کا مظاہرہ کرتے ہوئے جمود کے خاتمے کی مقدور بھر سعی کی ۔اس کا خیال تھا کہ جس طرح نئی تنقید نے انفرادی تخلیقی کام میں زبان و بیان کی تفہیم اور تجزیاتی مطالعہ پر توجہ مرکوز رکھی ہے وہ متن کی تفہیم کے سلسلے میں سعیٔ لا حاصل ہے ۔ اس نے متن کی انواع و اقسام کے عمیق مطالعہ پر اصرار کیا جن کے سیکڑوں مناظر پیہم فکر وخیال کی انجمن میں سج کر اذہان کی تطہیر و تنویر کا وسیلہ ثابت ہوتے ہیں ۔اس نے تنقید کو جو معیار ،وقار ،سانچہ ،ڈھنگ ،پیمانہ ، اسلوب ،رنگ اورنمونہ عطا کیا وہ اس کی ذات قرار دیاجا سکتا ہے ۔ ہرمن نار تھروپ فرائی نے وسیع ،بے کراں اور زیادہ گہرے تخیلاتی نمونوں پر زور دیا کیوں کہ یہی وہ اساس ہے جس پر تخلیقی کام کا قصرِ عالی شان استوار ہو تا ہے ۔اس نے تنقید کے لیے جس طرزِ فغاں کی اختراع کی اسی کو مستقبل کے لیے طرزِ ادا کا درجہ ملا۔تنقید کے اس خاص نمونے کو ہرمن نار تھروپ فرائی کے مجوزہ تنقیدی سانچے (Archetype)سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کے آثار ہر عہد کی تنقید میں ملیں گے۔مختلف اصناف ادب میں خاص طور پر ڈراما اور شاعری میں نئی تنقید نے گہری دلچسپی لی۔اس کے بعد روسی ہئیت پسندوں نے ان تمام محرکات پر غور کیا جو تخلیق فن اور اس سے وابستہ عوامل کے تجزیاتی مطالعہ کی اساس بنتے ہیں۔جلد ہی متن کے مشمولا ت اور ہئیت کی دو الگ الگ اجزا میں تقسیم پر روسی ہئیت پسندوں نے شدید گرفت کی۔
سیلِ زمان کے تھپیڑے حالات و واقعات اور نظریات و تصورات کے سب سلسلوں کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیںاور پرِ زمانہ جو کہ پروازِ نُور سے کہیں بڑھ کر بر ق رفتار ہے اپنے ساتھ کئی یادیں بھی اُڑا لے جاتا ہے۔گردش حالات کی اس ستم ظریفی کو کیا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب نئی تنقید کو ناقابل عمل،فرسودہ،متروک،منسوخ ،بے جان،غلط اور راہ گم کردہ سوچ کی مظہر سمجھا جانے لگا۔ نئی تنقید کے معترضین کا خیال تھا کہ یہ ادب پاروں میں نہاں جمال پرستی پر فریفتہ ہے ۔یہ فن برائے فن کے خیال کو سکہ رائج الوقت بنانے کی داعی ہے اور اسے معاشرتی حالات ،سماجی زندگی اور انسانیت کو درپیش مسائل سے کوئی غرض نہیں۔ادبی تفاعل ہو یا انسانی زندگی کے ارتعاشات ،شقاوت آمیز نا انصافیاں ہوں یا زندگی کے تضادات و مناقشات یہ سب سے بے تعلق رہتی ہے ۔نئی تنقید کے علم برداروں کو بالعموم ہئیت پسند قرار دیا جاتاہے جو ایک ملامت آمیز اصطلاح ہے جو سب سے پہلے مارکسسٹوں نے بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں روس کے ان فطین سکالرز اور حریت فکر کے علم برداروں کے لیے استعمال کی تھی جنھوں نے اسلوب اور ہئیت کے متنوع تجربات کو شعار بنایا۔نئی تنقید کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ اس نے غیر تاریخی نوعیت کے انداز فکر کی ترویج و اشاعت کو اپنا نصب العین بنایا ۔تخلیقی عمل کے دورانیہ تخلیق فن کے اغراض و مقاصد کو ایام گزشتہ کی کتاب کے سیاق و سباق سے مکمل طور پر الگ تھلگ کر کے پیش کرنے پر اصرار کرتی ہے ۔تنقید کو تخلیقی عمل سمجھنے کے بجائے نئی تنقید نے ا سے سائنسی طریقِ کار کی حامل ایک سائنسی تکنیک سے تعبیر کیا۔ اپنے معلمانہ طریق کار سے نئی تنقید نے ادب کے طالب علموں کے لیے متن کی تفہیم کی آسان راہ تلاش کرنے کی جو سعی کی اس کے باعث تخلیقی عمل کئی پیچیدگیوں کا شکار ہو گیا ۔نئی تنقید پر گرفت کرنے والوں نے اس کی خامیوں کو سامنے لانے کی کوشش کی۔ نئی تنقیدنے ادب کے تجزیاتی و تنقیدی مطالعات کے سلسلے میں جو سخت پابندیاں عائد کیںوہ ادب کے عام قاری کے لیے الجھن کا باعث بن گئیں۔ نئی تنقید نے مطالعہ ادب کے سلسلے میں قاری سے جو تقاضے کیے اور جو توقعات وابستہ کیںان میں جبر و استبداد اور آمرانہ اندازِ فکر نمایاں ہے،جن کے سامنے سرتسلیم خم کرنا بعید ازقیاس تھا۔نئی تنقید کے معترضین کا خیال تھا کہ نئی تنقید میں تجربات و مشاہدات کی کمی شدت سے کھٹکتی ہے یہ تصنع کاشکار اور اس کا دامن گہرے تفکر سے تہی ہے اور طریق کار کے اعتبار سے بے ثمر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سال 1970 کے بعدنئی تنقید کی پذیرائی میں کمی آنے لگی برطانوی ناول نگار فورڈ میڈاکس فورڈ(ٖFord Madox Ford,B:17-12-1873,D:26-06-1939 )نے انگریزی ادبیات کے ممتاز نقادوںکو تنقیدی معائر کے استحکام کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ربط باہمی کا مشورہ دیا ۔اس کا خیال تھا کہ قاری کا ذوق ِسلیم تخلیق عمل کو مہمیز کرتا ہے اور اس طرح تخلیق کار ایک نئے ولولے سے تخلیقی فعالیت میں منہمک رہتا ہے ۔ اسے ممتاز امریکی شاعر اور نقاد ایذرا پونڈ (Ezra Pound,B:30-10-1885,D:01-11-1972)اور ٹی ۔ایس ایلیٹ کی طرح اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ تنقیدی معائر کے استحکام کی طرف توجہ دینا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ تصویر کا ایک دوسرا رخ پیش کرتے ہوئے اس اہم موضو ع پر جیسن ہارڈنگ (Jason Harding)نے اس حوالے سے ذکر کیاہے :
“But, whereas Eliot and Pound are concerned with the relation of the tradition to the poet ,Ford,s emphasis is on its relation to the reader.He stresses the axiom on which his practical advice to writers was always founded:,Literature exists for the reader and by the reader.”(2)
اردو میں نئی تنقید کی پیروی کرنے والوںنے نظم کا تجزیاتی مطالعہ کرتے وقت تخلیق کا ر کے اسلوب کا جائزہ اس طرح لیا کہ زبان کے صوتی نظام پر توجہ مرکوز کردی ۔ اس کے ساتھ ساتھ اسماو افعال ، تشبیہہ ، استعارے اور صنائع بدائع کی اثر آفرینی کو بھی واضح کیا۔ نئی تنقید کے پیرو کاروں نے اس اہم سوال پر توجہ مرکوز رکھی کہ تخلیق کار نے کیا کہا ہے اور کس انداز میں کہا ہے ۔ تنقید میں فلسفے کی بالا دستی کو نئی تنقید نے تسلیم نہ کیااور اپنی ایک منفرد روش برقرار رکھی ۔ انیسویں صدی میں تخلیق کار کو فوق البشر کی حیثیت سے بلند مقام حاصل تھا ۔ اس کے بعد ٹی ۔ایس ایلیٹ نے تخلیقی عمل کو آزادانہ حیثیت سے متعارف کرایااور تخلیقی فن پارے کو بنیادی اہمیت کا حامل قرار دیا ۔ اس طرح تخلیق کو شخصیت کے طلسم سے نکالنے کی کو ششوں کا آغاز ہوا۔ روایت کے حصار سے نکلنے اور شخصیت کے مدار سے نجات حاصل کر نے کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ نئی تنقید کا مطمح نظر ہی یہ ہے کہ تخلیق کا جائزہ لیتے وقت تخلیق کارکے بارے میں جاننا کوئی وقعت نہیں رکھتا ۔سال 1960کے بعد نئی تنقید کواردو میںامتزاجی روّیے سے متعارف کرایا گیا۔یوں عصری آ گہی اور جمالیاتی احساس سے متمتع امتزاجی تنقید نے گلشن ادب کو مہکا دیا۔جدید دور میں اردو تنقیدنے اقتضائے وقت کے مطابق افکارِ تازہ کی مشعل فروزاں کر کے جہانِ تازہ کی جانب روشنی کا سفر جاری
رکھنے کا قصدکر رکھا ہے ۔ اردو تنقید نے بدلتے ہوئے رجحانات سے گہرا اثرقبول کیا ۔ یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ نئی تنقید سے محض حلقہ ٔارباب ذوق ہی نے استفادہ کیا۔ تخلیقی عمل کی حقیقی معنویت اور افادیت کو محسوس کرتے ہوئے متعد د نقادوں نے اس جانب توجہ دی ۔ ان کا خیال تھا کہ قلب اور روح میں اتر جانے والی اثر آفرینی ہی تخلیق کو تاب و تواں عطا کر سکتی ہے۔ ادب کے مقصدی اور افادی پہلوئوں کو اجاگر کرکے اسے زندگی کی حقیقی معنویت سے آشنا کرنے کے سلسلے میں جن نقادوں نے واضح انداز فکر اختیار کیا ان میں نیاز فتح پوری ، مولانا صلاح الدین ، مجنوں گورکھپوری ، سید عابد علی عابد اور پروفیسر سید وقار عظیم کے نام شامل ہیں ۔ نئی تنقید کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ کسی خاص قاعدے یا قانون کی تابع نہیں تھی بلکہ تنوع اور تکثیریت کی کیفیت اس میں جلوہ گر نظر آتی ہے ۔ نئی تنقید میں تخلیقات کا عمیق مطالعہ کرنے پر اصرار کیا گیا ۔ ادب پارے کی لسانی خوبیوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے نئی تنقید نے تخلیق کے نفسیاتی ، جمالیاتی اور عمرانی پہلوؤںکو بھی مد نظر رکھا ۔ نئی تنقید کے پیروکاروںکا یہ خیال تھا کہ تخلیق فن کے لمحوں میں جب کوئی تخلیق کا ر اپنے فکر و خیال کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتا ہے تو یہ متن اپنی ساخت کے اعتبارسے اپنا آزادانہ وجود رکھتا ہے۔ اس کی خود مختا ر اور خود کفیل حالت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسی میں سے معانی اخذ کیے جاتے ہیں۔جو ل الیس سپینگرن نے تخلیقی فعالیت ،تخلیق کار کے ذہن و ذکاوت اور ذوق سلیم کے حوالے سے لکھا ہے :
“Taste must reproduce the work of art within itself in order to understand and judge it;and at that moment aesthetic judgement becomes nothing more nor less than creative art itself.”(3)
ماضی میں فکر و نظر کا المیہ یہ رہا ہے کہ ذوق ِ سلیم اور ذہن و ذکاوت کے مابین ارتباط کا فقدان رہا ۔بنیادی طور پر تخلیق اور تنقیدی جبلتیں یکساں اور ایک ہی نوعیت کی حامل ہیں۔ اگر ان کا باہمی تعلق ٹوٹ جائے تو تخلیقی عمل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے ۔فن کے موضوع پر ذہانت اور ذوق سلیم کی پہچان پر دسترس حاصل کرنا یہ جدید انداز فکر کی معراج سمجھا جاتا ہے۔ نئی تنقید نے ادب پاروں کی جانچ پرکھ کے سلسلے میںاس امر کی صراحت کر دی کہ یہ عمل مصنف کے پس منظر یا قارئین سے قطعی بے تعلق رہنا چاہیے۔مصنف کی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرناوقت اور محنت کا کوئی صحیح مصرف نہیں۔مصنف کی نجی زندگی کے نشیب و فراز ،معیار زندگی ،رہن سہن ،حسن و رومان کی داستان اور عشرت و عسرت کے تذکرے سب کے سب غیر متعلقہ ہیںجن کے بارے میں ٹوہ لگاناتضیع اوقات کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہ صرف متن ہی ہے جو کسی ادب پارے کے بارے میںتمام حقائق کا امین ہے ۔متن کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل کے مناظر دیکھ کر متن سے وابستہ تمام صداقتوں کا ادراک ہو جاتا ہے ۔جب تک متن کا عمیق مطالعہ نہ کیا جائے اس میں پنہاں معانی اور صداقتوں تک رسائی خارج از امکان ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نئی تنقید نے مصنف اور قاری کو ارادتاً نظر انداز کرتے ہوئے متن کے عمیق مطالعہ کو مطمح نظر قرار دیا۔ نئی تنقید نے اس بات پر بھی اصرار کیا کہ ادب پارے کا تاریخی اور ثقافتی عوامل کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ۔ نئی تنقید نے واشگاف الفاظ میں یہ بات واضح کی کہ اگر شاعری میں ساحری کی دل کشی ہے ،تصنیف میں متن کی جاذبیت کاکرشمہ دامنِ دل کھینچتا ہے اور اسلوب قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُترجانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہے تو یہ سونے پر سہاگے کے مترادف ہے ۔نئی تنقید نے اس بات پر زور دیا کہ متن کا ذمہ دارانہ عمیق مطالعہ تخلیقی ادب کی احتیاج اور استحقاق ہے اور اس کاقابل مطالعہ رد عمل فروغ ادب کے نئے امکانات کو یقینی بنانے میںبے حد معاون ثابت ہو سکتا ہے ۔
ادبی تاریخ سے وابستہ حقائق کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ادبی تحریکیں تاریخ کے مسلسل عمل کی امین ہوتی ہیں۔یہ عمل پیہم جاری رہتاہے اور خوب سے خوب تر کی جستجو کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ہر ادبی تحریک ہر دور میں اپنے وجود کا اثبات کرتی چلی آئی ہے ۔نئی تنقید نے اپنے عروج کے زمانے میں قارئین ادب کی صلاحیتوں کو صیقل کرنے اور انھیں افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر مہیب سناٹوں سے نکل کر سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے اور جہانِ تازہ کی جانب سر گرم سفر رہنے کا جو ولولہ عطا کیا وہ تاریخ ادب کا اہم حوالہ سمجھا جاتا ہے ۔حریت فکر اور حریت ضمیر سے جینے والوں نے ہر دور میںتقلید کی روش سے بچتے ہوئے اپنے لیے نئی راہوں کی جستجو کو اپنا شعار بنایا ہے ۔جب تک ذوقِ سلیم سے متمتع لوگ ،تخلیقی فعالیت کی نو عیت ،شعر و ادب کے تخلیقی مراحل،ادب کے مقاصد ، اشعار کے مطالب اور اس تخلیقی عمل میں نہاں گنجینۂ معانی کے طلسم کے بارے میں غور و فکر کرتے رہیں گے،نئی تنقید کی باز گشت سنائی دیتی رہے گی۔فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کے دل کش موسم دیکھنے والے عہدِ خزاں کے مسموم ماحول کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں۔نئی تنقید نے فکر و خیال کی وادی میں ایسا سازگا ر ماحول پیدا کیا جس میں جہانِ تازہ کی جانب پیش قدمی کرکے روشنی کا سفر جاری رکھنے والوں کے دلوں کو ایک ولوۂ تازہ نصیب ہوا۔ جس مقام پر نئی تنقید کی سانس اکھڑ گئی وہاںا ہلِ نظر نے زبان و بیان اور اظہار و ابلاغ کی متعدد نئی راہیں تلاش کیں۔ نقد و نظر کی نئی راہیں سامنے آئیں جن پر چلتے وقت ساختیات،پسِ ساختیات اوررد تشکیل نے نئی تنقید سے ترک و انتخاب کے بعد ایک بالکل نئی انجمنِ خیال آراستہ کی اور اس کی چھوڑی ہوئی منزل سے کہیں آگے بڑھ کر ستاروں پر کمند ڈالنے اور بلندیوں کی ہوا کے ساتھ سفر کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ۔ تا ہم طلوعِ صبحِ بہاراں کا اعتبار کرنے سے پہلے خزاں کے سیکڑوں مناظر کے اندیشے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ کہیں یہ سب کچھ سراب نہ ہو ۔
مآخذ
1.Rene Wellek:Theory Of Literature,Harcourt,Brace and Company,New York,1948,Page 140-
2.Jason Harding: T.S Eliot And The Concept Of Tradition,Cambridge University Press,U.K,2007,Page194-
3.J.E.Spingran:The New Criticism,Columbia University Press ,New York ,1911,Page 34-
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...