Don’t lay broken glass on my path
I will crush it into dust. (Rumi)
ایک نئی صبح کا آغاز ہوا تھا ۔ ستاروں کو سورج کی روشنی نے ڈھانپ دیا تھا ۔ارج نے یہ رات روتے ہوئے گزاری تھی ۔ اس بات سے بے خبر کے یہ پہلی رات تھی جو اتنے سالوں میں اس نے ڈر و خوف کے سائے کے نیچے نا گزاری تھی ۔
دروازے پر ہونے والی دستک اسے ہوش کی دنیا میں لے آئی ۔
"آرزو آنٹی ؟” رونے سے آواز کافی بھاری ہو چکی تھی ۔
"بیٹا ! کیسے ہو آپ ۔ ” وہ مدہم مدہم قدم اٹھاتیں اس کے پاس آئیں ۔
"ٹھیک ہوں ۔” وہ واپس کراؤن کے ساتھ سر ٹیک چکی تھی
"میں معافی مانگنا چاہتی ہوں بچے ۔ لیکن اپنے کئے پر میں خاص شرمندہ بھی نہیں ہو سکتی کے اس دنیا میں ایک لڑکی کے لئے اکیلا رہنا بہت مشکل ہے ۔” آرزو صاحبہ سامنے دیکھتے ہوئے بولیں
"تم اس بات سے بے خبر تو نہیں ہو کے اپنی فیملی کو کھونا کس قدر مشکل ہے ۔ اس حادثے نے ہر خوشی چھین لی ۔ آج بھی سوچتی ہوں کے اگر ہم اس دن گلزار (آرزو صاحبہ کی بہن ) کی طرف نا جاتے تو شائد ہیزل (آرزو صاحبہ کی بیٹی ) زندہ ہوتی۔ پر سوچ تو سوچ ہی ہوتی ہے جو ہونا ہوتا ہے ہو کر رہتا ہے ۔تم مجھے بلکل اس جیسی لگتی ہو ۔ ڈری سی ۔ ضد میں آ جائے تو کسی کی بھی نا سنے ۔ "انہوں نے کرب سے آنکھیں بند کرتے ہوئے ۔
"میں تمھیں اپنی بیٹی جیسا سمجھتی ہوں ۔ کبھی یہ نا سمجھنا کے تم سے جان چھڑانا چاہتی تھی ۔ میں بڑی ہوں تم سے اس دنیا کے طور طریقوں سے زیادہ واقف ۔” آرزو صاحبہ آنسو صاف کیے
جبکہ ارج کے ذہن میں کسی کی یاد ہوا کے جھونکے کی مانند گزری ۔
"ارج پتر ! ! ! یہ آجکل کی دنیا بوت ظالم ہے ۔ اکیلی عورت نو آرام سے جینے نہیں دیتے ۔” اس کی ماں نے بھی تو یہی کہا تھا ۔
"بے بے ! رہنے دے ۔ تجے کیا پتا آج کل کی ماڈرن دنیا کا” ۔ وہ اماں کو سنا کر چل دی تھی ۔
آرزو صاحبہ کی آواز پر وہ چونکی ۔
بیٹا! !! میں اب چلتی ہوں ۔ ہو سکے تو اپنی آنٹی کو معاف کر دینا ۔” آرزو صاحبہ کہ کر باہر چلیں گئیں
جبکہ ارج پیچھے دروازے کو دیکھتی رہ گئی ۔
پامیر کی زندگی کو یہ پہلی رات تھی۔ جس میں اس نے خون ، درد، خوف ناک آہٹوں کے بارے میں نہیں سوچا تھا ۔
اب لائبریری میں بیٹھا وہ بار بار اپنا فون ہی تک رہا تھا ۔
"شائد کے آرزو صاحبہ کا فون آ ہی جائے اور ارج صاحبہ کا کچھ پتا لگ سکے ۔ ”
” سر !!! "عامر کی آواز نے اس کی سوچوں کے تسلسل کو توڑا ۔
"ہممم !!!” پامیر اس کی طرف دیکھ کر بولا
"کسٹمر !!” اس کے کہنے پر اس نے سامنے دیکھا تو ایک سولہ سالہ بچی تھی جو شائد ڈر کی وجہ سے بول نہیں پا رہی تھی ۔
"اب میں اتنا بھوت بھی دکھائی نہیں دیتا ۔” اس نے سوچتے ہوئے سر جھٹکا ۔ پتا نہیں ارج میرے بارے میں کیا سوچتی ہو گی ۔
اس نے بچی کے جانے کے بعد انٹرنیٹ کھول کر ہلک لکھا تو جو سبز رنگ کے مونسٹر کو دیکھ کر اس کے چودہ طبق روشن ہو گئے ۔
"توبہ ! میں ایسا تو بلکل نہیں دیکھتا ۔مطلب حد ہی ہو گئی ۔ میں ادھر ہجر گھڑیاں کاٹ رہا ہوں اور وہ اس عجیب و غریب چیز سے تشبہ دیتی ہیں "۔ اس نے تپتے ہوئے سوچا ۔
"عامر تم یہاں کا کام سمبھال لو گے مجھے کچھ ضروری کام کے لئے جانا ہے ۔ نہیں تو اگر ھایال آ جائے تو اس سے کہ دینا ۔” اس نے کچھ فائلز سمٹتے ہوئے کہا ۔
"جی سر ! !” وہ مسکراتے ہوئے بولا
پامیر اس کی مسکراہٹ پر کچھ بولا نہیں ۔ بلکے خود بھی چہرے پر ہلکی مسکان لئے باہر چلا گیا ۔
پامیر نے آرزو صاحبہ کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ پوچھنے کے بعد دروازہ کھلا ۔
"ہان پامیر بولو مجھے کچھ ضروری کام سے جانا ہے ۔” اپنے بیگ میں چابیاں تلاش کرتے ہوئے وہ پامیر سے بولیں
"وہ ۔۔۔ میں ارج صاحبہ کو دیکھنے آیا تھا ”۔ پامیر نرواس سے انداز میں بولا ۔
"واہ ۔۔ صاحبہ ۔” آرزو صاحبہ مسکرائیں جبکہ پامیر خجھل ہوا
"وہ مجھے ارج سے ۔۔”۔پامیر دوبارہ وہی بات دوہرانے لگا ۔
"ہاں ! ہاں! پتا لگ گیا ہے کے آپ کو ارج سے ملنا ہے پر ارج گھر پر نہیں ہیں وہ بیکری گئی ہیں ۔”
"وہ بیکری چلی گئی؟” وہ کچھ حیرانی لئے بولا
"ہان چلی گئی اتنی کمزور نا سمجھو اس کو جو روگ لگا کر بیٹھ جاتی”۔انہوں نے ارج کا دفاع کرتے ہوئے کہا
"اور ہاں فلحال یہ مت بتانا اسکو کے تمھیں یہ پہلے سے ہی معلوم تھا کے وہ طلاق یافتہ ہے ۔ ورنہ پھر تو کبھی بات نہیں کرے گی مجھ سے ۔حالات کو تھوڑا سازگار ہونے دو ۔ ” آرزو صاحبہ بولیں
"جی ٹھیک ہے نہیں بتاؤں گا اور نہیں میں بلکل بھی ایسا نہیں سمجھتا ۔کہ وہ ایسی نہیں کے حالات کا مقابلہ نا کر سکے ۔ وہ غصّے میں تو نہیں تھی ویسے ۔ طبیعت ٹھیک تھی اس کی ۔ اسنے کچھ کھایا ۔ یا بھوکی گئی ہے؟ "پامیر نے سارے سوال ایک ہی سانس میں کر ڈالے ۔
"یہ سارے سوال تم خود جا کے اس سے پوچھ لو ۔” وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گئیں
"بس اتنا بتا دیں وہ اپنے ساتھ تو پ ، چھری کانٹے تو نہیں لے گئی یہ نا ہو بیکر ی میں داخل ہی نا ہو سکوں "۔ پامیر نے آرزو صاحبہ سے پوچھا ۔
"تو پ تو نہیں لے کر جا سکتی لیکن ہان چھری کانٹے اسے وہاں آسانی سے میسر ہوں گے ۔ "وہ مزے سےکہتیں چل دیں
اور پامیر دعائیں کرتا ہوا بیکری کی طرف چل پڑا ۔
آرزو صاحبہ نے جمال صاحب کے گھر کی رہ لی تھی تاکہ کل وقو ع پذیر ہونے والی داستان بیان کی جا سکے ۔ اچھی خاصی ڈانٹ کے لئے وہ پہلے سی ہی خود کو تیار کر کے آئیں تھیں لیکن کھبرا ہٹ تو ابھی بھی ہو رہی تھی
وہ جمال صاحب کے گھر میں داخل ہوئیں ۔ جمال صاحب کی بیوی فاطمہ صاحبہ ان کو ڈرائنگ روم میں بیٹھا کر خود جمال صاحب کو لینے چل دیں
"السلام علیکم ! جمال بھائی کیسے ہیں ؟ ا”نہوں نے اندر داخل ہوتے ہوئے جمال صاحب کو کہا ۔
” وعلیکم السلام ! میں ٹھیک ہوں ۔ پر آرزو مجھے لگتا ہے تم کوئی کارنامہ سر انجام دے کر آ رہی ہو ۔” وہ صوفے پر جا کر بیٹھے ۔
"آپ کو کیسے پتا بھائی صاحب ! !!! "شاک کی حالت میں ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں
"پچپن کا ساتھ ہے ہم لوگوں کا ۔ بہن بھائی شکل سے ہی جان لیتے ہیں کے کچھ گر بڑ ہو چکی ہے ۔جس کی ڈانٹ سب سننے والے ہیں ۔ "وہ مسکراتے ہوئے پچپن کے دن یاد کر کے بولے
"اب آرزو صاحبہ کیا گوش گزار کرتیں کے کتنا بڑا کارنامہ سر انجام دے چکیں ہیں ۔ پر چار و نا چار بول پڑیں ۔
"بھائی صاحب وہ ارج کا نکاح ہو گیا ہے ۔ "اور جمال صاحب کو لگا جیسے ان کی بہن کسی دوسرے سیا رے کی زبان بول رہیں ہوں ۔
"کیا کہہ رہیں اتنی جلدی نکاح کیسے ہو سکتا ہے ؟ اور گواہ کہاں سے آئے؟ ” جمال صاحب کے پوچھنے پر تمام داستان انہوں نے بیان کر دی کے کس طرح پلان بنا کر ارج سے پامیر کی شادی کروائی۔اور گواہ نیلو فر صاحبہ کے شوہر اور عامر تھے ۔
"مجھے تم سے ہمیشہ ہی بیوقوفی کی امید رہی ہے ۔ مگر اس حد تک نہیں تھی ۔” جمال صاحب غصے سے سرخ ہو چکے تھے ۔
"ہان آپ بھی اب الزام مجھ پر دھر دیں ۔ لیکن میں نے بلکل سہی قدم اٹھایا ہے ۔ کبھی نا کبھی تو زندگی میں اسے آگے بڑھنا ہی تھا ۔ اور اسے اتنی سمجھ ہوتی تو اس حالت پر ہی نا پہنچتی ۔”
"اس کا فصیلہ تمہارا نہیں اس کا اپنا ہونا چاہیے تھا ۔ "انہوں نے نفی میں سر ہلا یا ۔
"آپ کو جو بھی لگتا ہے بھائی صاحب میں مانتی ہوں کے آپ اس کو میرے پاس لے کر آئے تھے لیکن وہ پچھلے پانچ سال سے میرے پاس ہی رہ رہی ہے ۔اور جمال بھائی آپ مجھ سے بہتر نہیں جان سکتے کے وہ کس مزاج کی۔ ہے ۔ شروع شروع میں تو وہ سو بھی نہیں پاتی تھی ۔ اب کچھ بہتر ہوئی ہیں لیکن ابھی بھی رش والی جگہ پر نہیں جا پاتی کیا ساری زندگی وہ یوں ہی گزار دے گی ۔ میں چلتی ہوں” وہ کہتے ہوئے باہر کی طرف بڑھیں
” اللہ تم دونوں کو خوش رکھے ۔ "جمال صاحب کے الفاظ ان کے کان میں گونجے ۔
ارج بیکری میں کام کرنے میں مصروف تھی ۔ جب پامیر کو ۔ اندر داخل ہوتا دیکھ منہ حلق تک کڑوا ہو گیا ۔
"لگتا ہے ان کو یہاں کی پسٹریز کچھ زیادہ ہی بھا گئیں ہیں”۔ عفت کی آواز اس کے کانوں میں گونجی ۔
"تم دھیان سے اپنا کام کرو اور دوسروں کو گھورنا بند کرو۔” وہ غصے میں بولی ۔
عفت منہ بناتی اپنے کام میں مصروف ہو گئی ۔
"جی بولئے کیا کام۔ ہے آپ کو یہاں "۔ پامیر کی طرف متوجہ ہو کر بولی
"بیکر ی میں انسان کیا کرنے آتا ہے ۔ ظاہری سی بات ہے کیک پسٹریز کے لئے آتا ہے” پامیر نے اس کو چڑھاتے ہوئے کہا
"آپ کو اللہ ہدایت دے "۔ وہ تپ کر بولی
"آمین ۔” پامیر نے دونو ں ہاتھوں کو دعا کرتے ہوئے منہ پر پھیرا
جبکہ وہ بس تپ کر ایک گھوری سے ہی نواز سکی ۔
"آپ یہاں سے چلے کیوں نہیں جاتے "۔ وہ غصے سے بولی
"کہاں جایئں تمام راستے ہی یہاں آ رکتے ہیں ۔ "پامیر نے مسکرا کر کہا
"پامیر !!! ”
"جی ۔”۔ اس نے اور تپانے کے لئے کہا ۔
"ٹھیک ہے ٹھیک ہے ایک کافی کا کپ دے دیں میں چلا جاتا ہوں ۔ "اس کے کہنے پر ارج نے جلدی جلدی کافی بنا کر دی کے موباداہ ان کا ارادہ پھر نا بدل جائے ۔اور پامیر پیسے دیتا مسکراتا چل دیا اس بات سے بے خبرکے وہشت ناک تاریکیوں میں بھٹکتے سا ئے ان دونو ں کے تعقب میں نکل پڑے ہیں ۔