نہ جانے یہ منظر دیکھ کر میں بے ہوش کیوں نہ ہوا۔ حالانکہ کبڑا اور چاروں ملاح چیخیں مار کر بےہوش ہو چکے تھے! کچھ دیر بعد مجھے محسوس ہوا کہ ہمارا جہاز کسی کے بہت بڑے ہاتھ میں ہے۔ میں نے کھڑکی میں سے جھانک کر باہر دیکھا تو خوف کے مارے چکر آ گیا۔ سطح سمندر سے کم از کم سو فٹ کی بلندی پر ہمارا جہاز کسی دیوزاد کی صرف تین انگلیوں والے ہاتھ میں تھا۔ غور سے دیکھنے پر ایک عجیب قسم کا سبز پردہ مجھے کھڑکی کے آگے ہلتا ہوا نظر آیا اور جب یہ پردہ ذرا دور ہٹا تو معلوم ہوا کہ بغیر بالوں کا ایک لمبوترا سر ہے جس میں اندر کو دھنسی ہوئی دو آنکھیں ہیں۔ میں جسے سبز پردہ سمجھا تھا دراصل وہ اس دیو نما انسان کی آنکھ تھی۔ ہری آنکھ!
سچ بات تو یہ ہے کہ اپنی یہ کہانی لکھتے ہوئے وہ ڈر اور خوف میں اپنی تحریر میں پیدا نہیں کر سکتا جو درحقیقت اس وقت میرے دل میں پیدا ہوا تھا۔ صدمے برداشت کرنے کی دل کو اب عادت سی ہو گئی تھی، اس لئے یہ نئی قسم کا صدمہ بھی جھیل گیا۔ میں نے جو کچھ باہر دیکھا تھا وہ جان کو بتا ہی رہا تھا کہ ہمارے کمرے کی چھت ایک زوردار آواز سے اڑ گئی اور پھر ہاتھی کی ٹانگ سے بھی کئی گنی موٹی دو انگلیوں نے جیک کو کمر سے پکڑ کر اوپر اٹھا لیا۔ اس غریب نے بہت چیخیں ماریں، بہت مدد کے لئے چلایا۔ مگر سب بے کار۔ ہم میں سے کوئی بھی اسے بچا نہ سکا۔ بندوقیں اور پستول تو ایسے دیو کو مارنے کے لئے بالکل بے کار سی چیز تھے اور پھر ہمیں معلوم بھی نہ تھا کہ وہ ہمارا کیا حشر کرے گا۔ اس لئے وقت سے پہلے کوئی حماقت کرنا اپنی موت کو آپ دعوت دینے کے برابر تھا۔ ابھی ہم دونوں اپنے بچاؤ کی ترکیب سوچ ہی رہے تھے کہ وہی دو انگلیاں پھر نمودار ہوئیں اور اس بار بےہوش کبڑے کو اٹھا لے گئیں۔ ہم دونوں نے سمجھ لیا کہ بس اس کے بعد اب ہماری باری ہے۔ جہاز میں سے نیچے کودنا بھی بیکار تھا، کیوں کہ اتنی بلندی سے جزیرے پر گرنے سے ہم کسی بھی طرح زندہ نہیں رہ سکتے تھے۔ جہاز میں اور کوئی جگہ بھی چھپنے کی نہیں تھی اس لئے مجبوراً خود کو تقدیر کے سپرد کر کے ہم خاموش کھڑے رہے۔ کچھ منٹ بعد وہی انگلیاں پھر اندر آئیں اور توقع کے مطابق جان کو اٹھا کر لے گئیں۔ میں نے سوچ لیا کہ اب میری باری ہے۔ چاروں ملاح چونکہ باہر تھے، اس لئے وہ یقیناً پہلے ہی اٹھا لئے گئے ہوں گے۔ اچانک مجھے ایک خیال آیا۔ بارود کا ایک چھوٹا سا ڈبہ اور ٹارچ اٹھا کر میں نے اپنے سفری تھیلے میں ڈال لی اور پھر تھیلا اپنے کندھے سے لٹکا لیا۔ جب ان انگلیوں نے مجھے پکڑ کر اٹھایا تو میں نے محسوس کیا کہ انہوں نے اس بات کا خیال ضرور رکھا کہ مجھے ہلکے سے پکڑیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں دب کر مر جاؤں!
صبح ہونے والی تھی اور ہلکی سی روشنی اب جزیرے پر پھیلنے لگی تھی۔ ڈر کے مارے میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں کیوں کہ میں نے محسوس کیا کہ وہ انگلیاں مجھے پکڑ کر کسی سمت میں لے جا رہی تھیں۔ اگر میں پھسل کر نیچے گر جاتا تو میری ہڈی پسلی کا بھی پتہ نہ چلتا۔ جب میں نے آنکھیں کھولیں تو میرے پاؤں زمین سے لگ چکے تھے۔ فوراً ہی ان انگلیوں نے مجھے چھوڑ دیا۔ جان، جیک، بےہوش کبڑا اور چاروں ملاح مجھے اپنے سامنے کھڑے نظر آئے، میں نے دیکھا کہ بڑے بڑے پہاڑ کے پتھروں کو اوپر تلے رکھ کر ان دیو نما انسانوں نے ایک پیالہ سا بنا دیا ہے اور ہمیں اس پیالے میں چھوڑ دیا ہے۔ پتھروں کا پیالہ اس لئے بنایا گیا تھا کہ ہم کہیں نکل کر بھاگ نہ سکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم بھاگ نہیں سکتے تھے کیوں کہ اگر ہم پتھروں پر چڑھ کر بھاگنا بھی چاہتے یا کسی سوراخ سے نکلنے کی کوشش بھی کرتے تو پتھروں کے اپنی جگہ سے ہل کر نیچے لڑھکنے کا خطرہ تھا۔ اور تب نتیجہ ظاہر تھا۔ ہم پتھروں سے کچلے جا سکتے تھے!
ایک بڑے سوراخ میں سے جھانکنے کے بعد معلوم ہوا کہ سورج آہستہ آہستہ بلند ہو رہا ہے۔ اس روشنی میں ہم نے ایک دوسرے کی شکل دیکھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے ہمارا سارا خون کسی نے نچوڑ لیا ہے! سب کے چہرے پیلے پڑے ہوئے تھے۔ جیک جیسے طاقت ور آدمی کا کالا چہرہ بھی اس وقت سفید تھا۔ سب ہی کے کپڑے بری طرح پھٹ چکے تھے۔ جیک کو کالے کپڑے پہننے کی عادت تھی مگر کومورن کے نزدیک والی بستی سے بڑی مشکل سے اسے اپنی ناپ کی عجیب سی قمیض اور پتلون منگوا کر پہننی پڑی تھی۔ یہ کپڑا مٹیالے رنگ کا تھا اور تب کپڑے کے رنگ میں اور جیک کے چہرے کے رنگ میں کوئی فرق نہیں تھا! ہم پر مصیبت ہی ایسی پڑی تھی کہ اب ہر ایک کو اپنی ہی فکر تھی۔ جان کے یہ پوچھنے پر کہ میرے تھیلے میں کیا ہے، جب میں نے اسے بارود اور ٹارچ کے بارے میں بتایا تو وہ بہت خوش ہوا اور کہنے لگا۔
“تمہاری زیادہ تعریف تمہیں مغرور نہ بنا دے، اس لئے اب میں تعریف نہ کروں گا۔ صرف اتنا کہوں گا کہ یہ کام تم نے بہت عقل مندی کا کیا ہے۔ اس عجیب و غریب مخلوق سے ٹکر لینے کے لئے بارود بہت ضروری چیز ہے۔ اب میں تم سب سے ایک بات اور کہہ دوں۔ یہ دیو جو کچھ کہے اسے ضرور ماننا۔ ہم اس کی خوشامد کر کے ہی بچ سکتے ہیں ورنہ اور کوئی طریقہ اس مصیبت سے نجات پانے کا نہیں ہے۔”
“مگر۔ مسٹر جان یہ ہے کون؟” جیک نے پوچھا۔
“اس کا جواب میں پہلے ہی دے چکا ہوں۔” جان نے کہنا شروع کیا۔
“سائنس اور اس کے ماننے والوں کا ہماری دنیا نے ہمیشہ مذاق اڑایا، ہم کہتے رہے کہ اڑن طشتریوں کا وجود ہے، مگر لوگوں نے نہیں مانا۔ ہم نے یہ بھی کہا کہ زمین کی طرح دوسرے بہت سے سیاروں میں زندگی ہے مگر بہت کم لوگوں نے یقین کیا۔ ہم چاند پر بھی پہنچ گئے۔ وہاں کی مٹی اپنے ساتھ لائے، پھر ہم نے مریخ پر کمند ڈالی۔ اس کی تصویریں حاصل کیں اور دنیا کو بتایا کہ مریخ پر زندگی نہیں ہے۔ مگر لاتعداد سیارے ابھی باقی رہ گئے ہیں۔ زہرہ، نیپچون، مشتری، زحل وغیرہ۔ ان کے بارے ہم کچھ نہ جان سکے۔ میرے خیال میں یہ مخلوق بھی کسی ایسے ہی سیارے کی ہے۔ یہ میں ابھی نہیں بتا سکتا کہ یہ قوم اس جزیرے میں آباد ہے یا کچھ عرصہ کے لئے عارضی طور پر یہاں آئی ہے! ویسے اندازہ یہ ہے کہ یہ دیو نما انسان اس جزیرے میں نہیں رہتے۔ کیوں کہ اگر رہتے ہوتے تو ان کے کئی کئی سو فٹ اونچے مکان میرے اور دوسرے جہاز رانوں کی نگاہوں سے ہرگز نہیں چھپ سکتے تھے۔”
جان کچھ اور کہنا ہی چاہتا تھا کہ یکایک ہاتھی کی چنگھاڑ سے ملتی جلتی ایک آواز آئی۔ آواز میں اتنی گونج تھی کہ ہمارے پیالے نما قید خانے کا ایک پتھر اس گونج سے نیچے گر گیا۔ مگر شکر ہے کہ اندر نہیں گرا۔ اس کے بعد کسی کے دبے دبے پاؤں رکھ کر آگے آنے کی چاپ سنائی دی اور پھر پیالے میں اندھیرا ہو گیا۔ میں نے اوپر دیکھا تو یہ ان دونوں عجیب انسانوں کے سر تھے، جن کی وجہ سے روشنی اندر آنی بند ہو گئی تھی۔ میں بڑی دیر تک ان دونوں کو دیکھتا رہا۔
سچ، بڑی خوف ناک اور ہیبت ناک شکلیں تھیں۔ سر لمبوترا تھا۔ پیشانی کے نیچے ہی دو بڑی بڑی لیکن بغیر پتلی کی سبز آنکھیں تھیں، ناک سرے سے ندارد تھی۔ ناک کی جگہ صرف چوہے جیسی تھوتھنی سی تھی اور اس تھوتھنی کے نیچے مونہہ، بالکل مچھلی کے مونہہ جیسا۔ چہرہ بالکل سرخ تھا، سر اور کندھوں کے درمیان گردن کا نام و نشان تک نہ تھا۔ جب وہ مونہہ کھول کر حیرت سے ہمیں دیکھ رہے تھے تو میں نے اندازہ لگایا کہ ان کے مونہہ میں ایک بھی دانت نہیں تھا۔ ہاتھوں میں صرف تین تین انگلیاں تھیں اور بازوؤں کی مچھلیاں بہت زیادہ تنی ہوئی تھیں۔ جسم بالکل ننگا تھا اور کپڑوں کی بجائے ایک کھال سی ان کے نچلے جسم پر منڈھی ہوئی تھی۔ یہ تھے وہ عجیب انسان!
ہمیں دیکھ کر انہوں نے خوشی کی چنگھاڑیں ماریں اور پھر ایک نے اپنا ہاتھ اندر ڈال کر دو بےہوش ملاحوں کو ایک ساتھ اٹھا لیا۔ ملاحوں کو اپنی ہتھیلی پر لٹا کر انہوں نے ہلا جلا کر دیکھا اور پھر یہ سوچ کر کہ یہ “کھلونے” تو خراب ہو گئے ہیں، انہوں نے دونوں ملاحوں کی ٹانگیں پکڑ کر انہیں دور پھینک دیا بالکل اس طرح جیسے ہم چوہے کی دم پکڑ کو انہیں دور پھینک دیتے ہیں۔ خوف کے مارے میری چیخیں نکل گئیں۔ جان اور جیک نے جلدی سے پتھروں کا سہارا لے لیا۔ دونوں ملاحوں کی اس عبرت ناک موت سے ہمیں بہت رنج پہنچا۔ مگر کر بھی کیا سکتے تھے؟
وہ دوںوں اب پھر اندر جھانک رہے تھے۔ میں سمجھ گیا کہ اب شاید دونوں بےہوش ملاحوں اور کبڑے چتین کی باری ہے۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کروں؟ خدا کی ذات پر مجھے پورا بھروسہ تھا۔۔ مجھے یہ بھی معلوم تھا وہ مصیبت کے وقت اپنے بندوں کی ضرور مدد کرتا ہے، اور پھر سچ بات تو یہ ہے کہ خدا نے ہی میرے دل میں وہ خیال پیدا کیا، جس نے بعد میں ہم سب کی زندگیاں بچا لیں، میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر اپنی چھاگل میں سے پانی نکال کر دونوں ملاحوں اور کبڑے کے چہرے پر چھڑکا ایسا کرنے سے وہ فوراً ہوش میں آ گئے اور ان کے ہوش میں آتے ہی میں نے آہستہ سے کہا۔
“خبردار دوبارہ بےہوش ہونے کی کوشش مت کرنا، ورنہ برا حشر ہوگا، ڈرو مت اور ہمت سے کام لو۔”
ملاح پھٹی پھٹی خوفزدہ نظروں سے اس مخلوق کو دیکھنے لگے۔ کبڑا بھی لرزتا کانپتا جان کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ دونوں دیو اب حیرت سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ آخر ان میں سے ایک نے جھک کر باہر سے کوئی چیز اٹھا کر اپنی ہتھیلی پر رکھ لی۔ میں نے غور سے دیکھا تو وہ ایک مردہ ملاح تھا۔ اپنے ساتھی کا یہ حشر دیکھ کر ملاحوں نے چیخیں مارنی چاہیں مگر جان نے انہیں ڈانٹ دیا اور وہ خاموش کھڑے لرزتے رہے۔
ہتھیلی پر ملاح کو لٹانے کے بعد ان میں سے ایک نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور اشارے سے مجھ سے میری چھاگل مانگی۔ میں نے فوراً دے دی۔ چھاگل کی ڈاٹ اپنے ناخن سے کھول کر اس نے پانی مردہ ملاح پر چھڑکا۔ مگر پانی آب حیات ہوتا تو مردہ زندہ ہو جاتا۔ وہ غریب تو مر چکا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ اس طرح ملاح زندہ نہیں ہوا تو اس نے پھر اسے پہلے کی طرح ٹانگ پکڑ کر ایک طرف پھینک دیا۔ ملاحوں نے پھر بری طرح چیخیں ماریں۔ چیخوں کی آواز سن کر اس دیو نے پلٹ کر ہمیں دیکھا اور پھر وہ دونوں آپس میں اسی ہاتھی جیسی چنگھاڑ والی آواز سے باتیں کرنے لگے۔ میں اسے باتیں ہی کہوں گا کیوں کہ شاید یہی ان کی زبان تھی! مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائیں۔ اس لئے میں نے جلدی سے نٹوں کے سے کرتب دکھانے شروع کر دئے۔ کبھی اچھلتا، کبھی ہاتھوں کے بل چھلانگیں لگاتا اور کبھی قلابازیاں کھاتا۔ میری ان حرکتوں سے وہ اتنے خوش ہوئے کہ تالیاں بجا بجا کر قہقہے لگانے لگے۔ میں بیان نہیں کر سکتا کہ کیسی ہیبت ناک آوازیں تھیں اور کتنی خوفزدہ کرنے والی ہنسی تھی! اب تو چوں کہ ہم ان کے رحم و کرم پر تھے اس لئے خاموش کھڑے رہے۔
خوب دل کھول کر ہنس لینے کے بعد ان میں سے ایک نے اپنا ہاتھ ہمارے قید خانے میں ڈال کر ہتھیلی پھیلا دی اور اشارے سے مجھ سے کہا کہ میں ہتھیلی پر چڑھ جاؤں۔ اس کی دیکھا دیکھی دوسرے نے بھی اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا اور جان کو اشارہ کیا کہ وہ بھی اس کی ہتھیلی پر آ جائے۔ جان نے گھبرا کر مجھے دیکھا اور میں نے مسکرا کر آہستہ سے جواب دیا :
“انہیں خوش کرنے کا اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں، جو یہ کہیں وہ مان لیجئے۔ یہ آپ کے ہی الفاظ ہیں اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے کیوں کہ اگر ہم نے ان کا کہنا نہ مانا تو یہ ہمارا وہی حشر کر سکتے ہیں جو پہلے ملاحوں کا ہوا ہے۔”
“ٹھیک کہتے ہو۔” جان نے اتنا کہا اور ہتھیلی پر چڑھ گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کو اوپر چڑھنے میں کبڑے نے مدد دی اور جیک مجھے اپنے کندھوں پر کھڑا کر کے ہتھیلی تک لے آیا، تب میں کود کر ہتھیلی پر چڑھا۔
ہتھیلی کی اونچائی کا اندازہ آپ خود لگا لیجئے۔ اب وہ وقت یاد کرتا ہوں تو ہنسی آ جاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اسکول میں گلیور کی کہانی پڑھا کرتے تھے کہ وہ کس طرح بونوں کے ملک میں پہنچا اور پھر اس کے بعد دیوؤں کے دیش میں۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ ایک دن میں خود بھی جیتے جاگتے دیوؤں کے جزیرے میں پہنچ جاؤں گا۔
خیر، تو اپنی ہتھیلیوں پر اٹھا کر وہ دونوں مجھے اور جان کو پیالے سے باہر لے گئے۔ میں یقیناً اس وقت ڈیڑھ سو فٹ کی بلندی پر تھا۔ سب سے پہلے میں نے ملاحوں کو دیکھا کہ وہ کس حالت میں ہیں؟ اور ان کی حالت وہی تھی جس کی مجھے توقع تھی۔ ان کی ہڈی پسلی ایک ہو گئی تھی۔ جان نے انہیں دیکھ کر جلدی سے اپنے سینے پر صلیب کا نشان بنایا اور پھر دوبارہ ہتھیلی سے چپک گیا۔
ہمیں ہاتھوں پر اٹھائے ہوئے وہ دونوں دیوزاد نیچے زمین پر بیٹھ گئے۔ پھر ایک نے قریب ہی پڑا ہوا اپنا ایک بکس کھول کر تقریباً بیس فٹ لمبا ایک راکٹ نکالا۔ راکٹ کا دروازہ کھول کر انہوں نے ہم دونوں کو باری باری اس کے اندر چھوڑ دیا اور پھر راکٹ انہوں نے زمین پر سیدھا کھڑا کر دیا۔ کھڑکی میں سے جھانک کر میں نے دیکھا کہ وہ اب بجلی کے چند تار بکس کے کسی خانے میں سے نکالنے میں مصروف تھے، ان کے ہاتھوں میں ایک چھوٹا سا ڈبہ تھا جس میں کچھ ہینڈل اور بٹن سے لگے ہوئے تھے۔ یکایک ان میں سے ایک نے ہمیں دیکھ کر ایک ہینڈل گھما کر کوئی بٹن دبایا اور تب فوراً ہی ہمارے راکٹ کو ایک زوردار جھٹکا محسوس ہوا اور پھر میں نے دیکھا کہ وہ آہستہ آہستہ زمین سے اوپر اٹھنے لگا!
میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں کہ اپنی اس وقت کی پریشانی کے بارے میں کچھ لکھ سکوں۔ جان تو دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر بیٹھ گیا مگر میں برابر کھڑکی سے لگا ہوا باہر جھانکتا رہا۔ راکٹ بہت ہی تیزی سے آسمان کی طرف جا رہا تھا۔ جزیرہ مجھے اب بالکل چھوٹا سا نظر آنے لگا تھا۔ کچھ ہی سیکنڈ بعد راکٹ بادلوں میں چھپ گیا لیکن رفتار وہی رہی۔ ٹھیک تو میں بتا نہیں سکتا لیکن میرا خیال ہے کہ ہم دونوں اس راکٹ میں تقریباً بیس ہزار فٹ کی بلندی پر گئے۔ ہمارے سانس اب گھٹنے لگے تھے۔ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے سانس لینے کے لئے ہمیں پورا مونہہ کھولنا پڑتا تھا سردی اتنی ہو گئی تھی کہ جسم کپکپانے لگا تھا اور دانت آپس میں بجنے لگے تھے۔
پہلے تو میرا خیال تھا کہ شاید ہم دونوں اسی عجیب سی مخلوق کی دنیا میں جا رہے ہیں۔ اپنی بےبسی کا خیال کر کے دل رو رہا تھا کہ جانا کہاں تھا اور جا کہاں رہا ہوں۔ مگر پھر اچانک راکٹ کی رفتار گھٹنے لگی اور وہ اوپر جانے کی بجائے اب آہستہ آہستہ نیچے اترنے لگا۔ مجھے یقین تھا کہ راکٹ لازمی طور پر جزیرے کی کسی چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے گا۔ مگر ایسا نہ ہوا، آہستہ آہستہ وہ راکٹ پھر اسی جگہ آ کر ٹک گیا جہاں سے وہ اڑا تھا۔
“تم کچھ سمجھے۔؟” جان نے مجھ سے کہا :
“یہ راکٹ اس قسم کا ہے جو ریڈیو کی لہروں سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور جہاں تک میں سمجھ سکتا ہوں یہ کھلونا راکٹ ہے یا پھر ان لوگوں کے کسی بہت بڑے راکٹ کا نمونہ۔ بہرحال یہ تو اب نیچے اترنے پر ہی پتہ چلے گا۔”
فوراً ہی ہمارے راکٹ کا دروازہ کھلا اور پھر ایک چھوٹا سا زینہ۔ ان دیوؤں میں سے ایک نے اپنی دو انگلیوں سے پکڑ کر دروازے سے لگا دیا۔ ہم جب اس زینے سے نیچے اتر رہے تھے تو وہ دونوں خوشی سے تالیاں بجا رہے تھے اور ان تالیوں کی آواز سے ہمارے کانوں کے پردے پھٹے جا رہے تھے نیچے اترتے ہی ہم نے دیکھا کہ جیک، کبڑا اور دونوں ملاح بھی پیالے نما قید خانے سے باہر کھڑے ہمیں حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ ان دیوؤں کے چہروں پر اس وقت بہت زیادہ خوشی تھی۔ بار بار وہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملا کر ویسی ہی ہاتھی کی آواز جیسی چنگھاڑیں مار رہے تھے۔
دو بجے تک ان دونوں نے ہماری خوب گت بنائی ہمیں چلا پھرا کر دیکھا ملاحوں کو اشارے سے پانی میں تیرنے کے لئے کہا۔ ہمیں خوب دوڑایا ہم سب سے کرتب دیکھے اور آخر میں ہمیں باری باری اٹھا کر اسی قید خانے میں پہنچا دیا وہ تو غنیمت ہوا انہوں نے ہمیں ہمارے جہاز تک جانے کی اجازت دے دی تھی اور ہم نے اس میں سے کھانے پینے کا بہت سا سامان نکال لیا تھا بعد میں یہی سامان انہوں نے اٹھا کر ہمارے قید خانے میں رکھ دیا تھا۔ ان کے اچھے برتاؤ سے ہماری ڈھارس بندھی اور ہمیں یقین ہو گیا کہ وہ ہمیں نقصان پہنچانا نہیں چاہتے۔ ہم نے آرام سے بیٹھ کر کھانا کھایا اور پھر پتھروں سے کمر لگا کر باتیں کرنے لگے۔ سب سے پہلے جیک نے کہا۔
“مسٹر جان، میرے خیال میں وہ دونوں کہیں دور چلے گئے ہیں، کیوں نہ ہم یہاں سے بھاگ چلیں؟”