(Last Updated On: )
انسانی ذہن میں جذب و تاثر کا اتنا مادہ ہوتا ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی غیر محسوس Impulses کو بھی محفوظ کر لیتا ہے۔ انسان کے ذہن کی سب سے کچی شکل شعور کی ہوتی ہے۔ شعور اس میں حسیاتی لذت کا امتیاز پیدا کرتا ہے۔ شعور سے ترقی کر کے اس متوازن ذہن میں چند افادی طاقتیں جنم لیتی ہیں جن سے توازن پر اثر تو آتا ہے لیکن ذہانت میں خاص چمک پیدا ہوتی ہے اور یہی چمک عبقریت، دانش وری، یا ہنرمندی جیسی اضافی لیکن خصوصی قوتوں کی علامت ہوتی ہے۔ گویا جب ایک شخص ماحول اور اس کے کرب یا ایک حادثہ اور اس کے ردِ عمل سے گزرتا ہے تو اس کاذہن ان باتوں کا ایک خاص واسطے میں انعکاس کرتا ہے۔ یہی واسطے فن، مہارت اور ہنر کی صورتوں میں ہم سے شناسا ہیں۔ یہاں پر ایک بات مان لینے کی ہے کہ فن ہو یا دانشوری یا ہنر مندی ان سب میں کسی کو کسی پر ترجیح حاصل نہیں۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ انفرادی طور پر ایک قسم کا فن کار دوسرے قسم کے فن کار سے اہم تر یا بہتر ہو۔
شاعری کو دانش وری میں اور ہنر مندی میں ملا دینے کی کوشش قند در قند بھی ہو سکتی ہے اور زہر در قند بھی کیوں کہ شاعری بہ ذاتِ خود ایک فن ہے اور عقلی قوت ہے اس کا دوسری عقلی قوتوں یا قوت سے متاثر ہونا اس کے خلوص پر اضافی نقش ہی پیدا کر سکتا ہے۔ یہ اضافی نقش منفی یا مثبت دونوں ہی جہتوں میں وارد ہو سکتا ہے۔
شاعری کی سب سے صحیح شکل وہ نظم ہو سکتی ہے جو حادثاتی طور پر ایک عبقری صلاحیت والے ذہن پر الہام ہو جائے۔ لیکن نظم سے ذرا تصنع کی طرف آئیے تو تصنع کی پہلی شکل غزل ہے، غزل کی ایک خاص شکل و صورت اور سیرت ہوتی ہے۔ ہیئتی تجربوں نے غزل کے فارم پر بھی اثر ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ اس کے باوجود ہم غزل کے تصنع سے انکار نہیں کر سکتے۔
(۲)
غزل شاعری کی ایک مہذب شکل ہے۔ وہ پل پر گزرنے والی اس بھیڑ سے مشابہ ہے جس پر مختلف یونی فارم پہنے ہوئے منظم گروہ گزر رہے ہوں۔ غزل کی ہیئت کے بارے میں حسبِ ذیل باتیں یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہیں۔
(۱) غزل مختلف نظموں کا مجموعہ ہے اور ہر نظم کو شعر کہتے ہیں۔
(۲) ہر ایسی نظم کی ایک ہیئت مقرر ہے کہ دو مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے اور ہر مصرع کا ایک آہنگ اور پیش دریافتہ وزن ہوتا ہے۔ جو ایک خاص مقدار کا ہوتا ہے۔
(۳) عموماً مصرعوں کی ہیئتی تکرار سے ایک غزل بنتی ہے۔
(۴) غزل میں دو اشعار سے لامتناہی اشعار تک کسی بھی تعداد میں شعر ہو سکتے ہیں۔ (پہلے لوگ ۵ شعر کو کم ترین رقم مانتے تھے۔ لیکن میری نگاہ میں دو شعر بھی غزل کے لیے کہے جا سکتے ہیں۔)
(۵) آزاد غزل، مختلف البحور غزل، ساقط الوزن غزل، غزل کی کم زور مثالیں ہیں۔ اس لیے کہ وہ مروجہ ہیئت میں کوئی بہتری پیدا نہیں کرتیں۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ شاعرانہ نقطۂ نظر سے وہ قابلِ قدر ہوں۔
(۶) غزل کی لغوی تعریف بے معنی اور Obsolete ہے اور اب غزل صرف ایک خاص فارم و لب و لہجہ کی نمائندہ ہے۔
(۷) اس بات کا اعتراف بھی کرنا ضروری ہے کہ غزل کا غزل ہونا یا کسی با وزن نظم کا نظم ہونا اس کے خالق کے اعلان پر مبنی ہے ورنہ اقبالؔ اور جوشؔ کی بیش تر نظموں کو غزل کہنے سے اور غزلوں کو نظم کہنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
(۸) غزل کی لفظیات کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کا سڈول اور غیر کرخت ہونا لازمی ہے قطعاً بے معنی اور فضول ہے۔ اس لیے کہ زبان کا مزاج استعمال کرنے والے کے ذہنی جھکاؤ کا عکاس ہوتا ہے۔ ذوقؔ، انشاءؔ ، بشیر بدر، عتیق اللہ کی اکثر غزلوں میں کرخت اور بے ڈول الفاظ ملتے ہیں۔
(۳)
غزل کی ہیئت کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں کہا جا سکتا۔ اصنافِ سخن کی درجہ بندی اور ان کی شکلوں کا یقین بہت حد تک بقراطی عمل ہے۔ جس کی بنیاد ہی موجودہ ذہنی انتشار اور اختراع کی وجہ سے متزلزل ہو گئی ہیں۔ فن کے کسی بھی شعبے کو موسوم کرنا بھی قابلِ اعتبار بات نہیں۔ مثلاً کمار پاشی کا افسانہ نظم سے قریب تر ہوتا ہے اور نظم افسانہ سے قریب تر۔ محمد حسین آزاد کی انشائیہ نگاری نظم کو چھوتے ہوئے گزر جاتی ہے۔ سریندر پرکاش، اسرار عظمت اور اکثر جدید افسانہ نگاروں کی تخلیقات کو ’’افسانہ‘‘ کہتے ہوئے گھٹن سی محسوس ہوتی ہے کہ یہ افسانے مروجہ ساخت سے ہٹ کر احساسیے ہو گئے ہیں۔ ان میں Design کی جگہ Construction آ گیا ہے۔ یہی احساس اعجاز احمد، احمد ہمیش اور اختر یوسف کی نثری نظموں کو پڑھ کر پیدا ہوتا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود غزل کی ہیئت اور اس کا نظام سیال در ظرف کی حیثیت رکھتا ہے۔ غزل کا پہلا شعر ہی غزل کے تمام اشعار کی ساخت کے بارے میں اطلاع دیتا ہے اور اگر ایک ہی غزل کے اشعار میں کوئی ساختی فرق پایا جائے تو اسے لغزش کہا جاتا ہے۔
(۴)
غزل کی رشتہ ایک کلچر سے ہے۔ یہ کلچر ایک خاص دست بستہ زندگی کا داعی رہا ہے اور اس میں نوک پلک کی درستی پر جان دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ کلچر Variety کا قائل بھی رہا ہے۔ کوئی انسان اس وقت تک کامل نہیں مانا جاتا جب تک کہ وہ ہر میدان کا مرد نہ ہوتا (میں نے ’’رہا ہے‘‘ کی ردیف اس لیے استعمال کی ہے کہ ’’ابھی اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں‘‘) یہی کلچرل شرائط غزل کی صراحی دار گردن پر بھی تھیں۔ موصوف نے خمریات پر کتنے شعر کہے ہیں معرفت اور تصوف پر کیا لکھا ہے، زندگی کے بارے میں ان کا رویہ انقلابی ہے یا رجعت پسندانہ، شوکتِ الفاظ کب کب دکھائی ہے۔ عقدۂ مشکل قسم کے اشعار کتنے کہے ہیں، عشق پر کتنے گل کھلائے ہیں۔ یہ سوالات قدیم تنقیدوں اور قدیم نظریۂ غزل سے متعلق ہیں۔
نئی غزل نے بہت سارا بوجھ اتار دیا ہے۔ لیکن ہیئت اور مضامین کی Variety باقی رہ گئی ہے۔ اس کی وضاحت یوں ہے کہ غزل کا ہر شعر آزاد اور بہ ذاتِ خود مکمل ہوتا ہے۔ غزل کو عوامی پسندیدگی کی سند اس لیے ملتی ہے کہ اس کا انداز اور اس کی ہیئت مانوس، جانے پہچانے اور عوامی ذہن سے قریب تر ہوتے ہیں۔ غالبؔ کی غزل کو علم چھاننے والوں، دانش وروں وار مشکل پرستوں نے مشہور کیا اس کے باوجود غالب کی وہی غزلیں عوام کو ہضم ہوتی ہیں جو ان کی شاعری میں نمک کے طور پر مشاعرے والی تھیں۔ ان کی معماتی اور فکر انگیز غزلیں صرف مختصر حلقوں میں پسند کی گئیں۔ جدیدشاعروں میں مشاعرے والے شاعر مثلاً زبیر رضوی، شاذ تمکنت، شہاب جعفری، اور حسن نعیم اگر مقبول ہیں تو اس کا بڑا سبب ان کی غزلوں کے ناموں، گھسے ہوئے چکنے اور خوب صورت الفاظ ہیں۔ اکثر جدید شاعر جلسوں اور مشاعروں میں غزل کا سہارا لے کر داد سمیٹتے ہیں اس کے پیچھے چالاکی یہ ہے کہ اردو کے سامع ردیف اور قافیہ پر ہی نقدِ جاں نذر کر دیتے ہیں۔ اردو غزل کی پہلی کم زوریا س کے لہجے کی عمومیت اور روندی ہوئی تراکیب کا کثیر الاستعمال ہے۔
(۵)
غزل کی ایک اور کم زوری اس کے اشعار کا بیان ہونا ہے۔ بیان سے میری مراد Statement ہے۔ بہتر ہے کہ میں اس کے لیے ’’مکمل جملہ‘‘ کی ترکیب استعمال کروں۔ مکمل جملہ ہمارے غزل کے پورے ماحول پر حاوی ہے اور اس نے غزل میں کافی فساد پیدا کیا ہے۔
اگر آپ معمولی طور پر یہ باتیں کہیں کہ:
(۱) شبِ وصال کے بعد تو تم اور ہی حسین لگ رہی ہو۔
(۲) جب سے اس مکان میں یہ صاحب آئے ہیں بڑا خوب صورت ہو گیا ہے۔
(۳) اب اتنا اندھیرا بھی نہیں کہ کچھ دکھائی ہی نہ دے اور نہ ہی ایسی خاموشی کہ تم کچھ سن سکو۔
(۴) جو لوگ مر جاتے ہیں ان کی صرف یاد آتی ہے وہ تو آ نہیں سکتے۔
تو میں کہوں گا کہ یہ بے کار اور غیر شاعرانہ باتیں ہیں۔ لیکن ان کو بالکل اسی شکل میں شاعر کہہ کر سمجھتا ہے کہ اس نے بڑا اچھا شعر کہہ لیا۔ کیا ناقدانہ نگاہ ان اشعار میں کوئی حسن پا سکتی ہے؟ یہ شعر ہیں۔
شبِ وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست
ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی
فراقؔ
آیا ہے ایک شخص عجب آن بان کا
نقشہ بدل گیا ہے پرانے مکان کا
محمد علوی
اندھیرا ایسا نہیں ہے کہ کچھ دکھائی نہ دے
سکوت ایسا نہیں ہے کہ کچھ سنائی نہ دے
وحید اختر
جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے
سکندر علی وجدؔ
یہ اشعار بہ زبانِ دیگر یہ جملے نہ کسی گرمیِ خیال کے آئینہ دار ہیں اور نہ ان میں کوئی پیاس ہی ہے۔ علامات، استعارات اور تشبیہات کے سہارے غزل پر غزلیں خلق Manufacture کی جاتی ہیں اور ان میں شاعری نام کو نہیں ہوتی۔ پانچ مکمل جملوں کو با وزن انداز سے اگل کر تو ہلکی پھلکی عبقریت والا شاعر بھی کچھ لکھ سکتا ہے۔
غزل اور گیت میں جو فرق ہے اس کے بارے میں قدیم نظریہ یہ تھا کہ غزل مرد کی شاعری تھی عورت کی فراق و وصل میں۔ اور گیت عورت کی شاعری تھی مرد کی یاد میں۔ (میں عوامی نغموں کو گیت سے مختلف سمجھتا ہوں) غزل چوں کہ مردانہ صنف تھی اس لیے فکر، ہیئت اور فارم کی پابندی تھی اور گیت چوں کہ زنانہ آواز تھی اس لیے لحن کی پابندی اور غنائی انداز کی آئینہ دار۔
غنائی ترکیب گیت کے لیے مناسب ترین اس لیے ہے کہ درد کے اظہار کے لیے لَے اور راگ الفاظ سے زیادہ کارگر اور سرور انگیز ہوتے ہیں۔ اسی لیے گیتوں میں بے معنی الفاظ اکثر و بیش تر ملتے ہیں۔
جدید غزل جدید گیت سے بہت حد تک مختلف ہے۔ جدید گیت پرانے ہی رویے کی نئی شکل ہے اور اس میں ارتقا کے امکانات بے حد کم ہیں۔ اس کے برخلاف جدید غزل مواد کی تبدیلی کے سبب بالکل نئی ہے اور ابھی اس میں بہت ترقی اور تبدیلی کے امکانات ہیں۔
غزل میں ہندی کی آمیزش اس کو گیت نہیں کر سکتی لیکن چوں کہ گیت کے سینے میں ہندی کا دل ہے ہم ظاہری طور پر ہندی زدہ غزلوں کو گیت نما محسوس کرتے ہیں۔ اگر زبان کو مناسب اور صحیح انداز میں استعمال کیا جائے تو وہ:
تج کر سبھی قسمیں، سبھی وعدوں سے مکر جانا
چاہت کا یہی انت ہے ماں باپ سے ڈر جانا
ناصر شہزاد
جیسا خوب صورت شعر پیدا کرتی ہیں ورنہ:
ہم سب اسی باد گرد میں عریاں ہیں
چندر بدن، خوش لباس خوف ہیں کچھ
شمس الرحمن فاروقی
جیسا بھدا شعر ہوتا ہے۔
غزل کی زبان ایسی ہے کہ اگر ریشم کی ڈور سے پتھر لٹکایا جائے یا پہاڑوں میں شہد کی نہر بہائی جائے تو وہ خراب ہو جاتی ہے۔ زبان ماحول، لہجہ، شعری روشن کی تابع اور درونی احساسات سے ہم آہنگ ہوتی ہے۔ غزل کی جسامت پر بے انتہا تشبیہوں اور علامتوں کی انجمن بارِ گراں ہوتی ہے۔ اسی لیے ہم سوداؔ کے مقابلے میں میرؔ ، ذوقؔ کے مقابلے میں غالبؔ کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ سوداؔ ، ذوقؔ اور انشاءؔ نے تشبہیات کی وہ بھرمار کی کہ نفسِ ادب عنقا ہو گیا۔ نئے شاعروں میں بشیر بدر جو کہ جراتؔ کے انداز کی غزلیں کہتے ہیں۔ تشبیہات کے سیل میں بہتے چلے جا رہے ہیں۔
(۶)
غزلوں کی دنیا اردو ادب کی سب سے آباد دنیا ہے۔ غزل گو شعرا کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی۔ لیکن اچھے غزل گو صرف گنتی کے ہیں۔ شہنشاہی دور میں میرؔ، دردؔ، مومنؔ اور غالبؔ ہی کامیاب رہے۔ برطانیہ کے استعماری دور میں جگرؔ، جوشؔ، صفیؔ اور اقبال ہی زندہ محسوس ہوتے ہیں۔ آزادی کے اطراف کے دور میں فراقؔ، فیضؔ، احمد ندیم قاسمی اور ناصرؔ کاظمی کا نام لیا جاتا ہے۔
آخر اچھے شاعروں کی تعداد اتنی کم کیوں ہے۔ میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ بیش تر شعرا نقارۂ خلقِ خدا بن کر مروجہ روایات سے ہم کنار اور اپنے واقعی جذبات کے اظہار سے تہی دامن رہے۔
غزلوں کا اسلوب حقیقی لب و لہجہ کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ شاعر کے تحت الشعور میں جو مثبت سچ موجود ہے وہ اس کے اوڑھے ہوئے لہجے سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتا۔ لیکن مثبت سچ اگر مثبت زبان میں منقوش ہو جائے تو ہم اس کی غزل کو غزل کہہ سکتے ہیں۔ میرؔ کی غزل ہو یا دردؔ کی وہ ان کے لہجے، ان کے اندازِ بیان اور بے پناہ شاعرانہ صلاحیت کی نمائندگی کرے گی۔ ان کی غزلوں میں ان کا ذاتی کرب ہے، ذاتی لہجہ ہے، صناعی مر جاتی ہے لیکن سینے میں چھپا ہوا سچ اس کی چمک کو زندہ رکھتا ہے۔
غزل کے سینے میں بے اندازہ شعلے ہیں کیوں کہ ان کے اندر لمحاتی اظہار ہے۔ غزل زندگی کی داستان یا طویل واقعہ سے نہیں بلکہ حادثات و لمحات سے پیدا ہوتی ہے۔ غزل کا شعر کئی سو سال تک اس لیے زندہ رہتا ہے کہ انسان زندگی کے لمحات اور تجربات اکثر ہم شکل و شناخت ہوتے ہیں۔
عجمی شاعر کے سینے سے ایک جذبہ نکلتا ہے کہ:
بوئے جوئے مولیاں آید ہمی
یاد یارِ مہرباں آید ہمی!
اور شہنشاہ بے پناہ ہو کر پکارتا ہے کہ ’’میرے اشہب کو تازہ کرو‘‘ وہ مضطرب ہو جاتا ہے۔ راوی شبلی اس شعر پر محدب عدسہ رکھ کر کہتا ہے کہ ’’شعر میں نہ کوئی صنعت ہے نہ کوئی خاص خیال، شہنشاہ ایسے سادہ شعر پر کیوں بے قرار ہو گیا یہ سمجھ میں نہیں آتا’’ راوی شبلی کو نہیں معلوم کہ ان لفظوں میں جذبۂ دروں کی مہک تھی جو شہنشاہ کے درونی جذبے سے ہم کنار تھی۔ یہیں پر شفیق جونپوری کہتا ہے۔
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
شعر کے اندر شاعر کا شعور ہے جو الفاظ و تراکیب کی خفتہ ترتیب میں زندہ و تازہ ہے۔
غزل کے بارے میں آزادیِ خیال کا اعلان نیم بحث ہے۔ اس لیے کہ غزل کی پوری ترکیب فی الحقیقت ایک خاص ماحول میں جنم لیتی ہے۔ اس کا انفرادی Tone ہوتا ہے۔ غالبؔ کی غزل ’’دہر میں نقشِ وفا وجہِ تسلی نہ ہوا‘‘ ہو یا ’’شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا‘‘ دونوں دو مختلف لہجوں کی ہوتے ہوئے بھی بہ ذاتِ خود ایک خالص لہجے کی آئینہ دار ہیں۔ پہلی غزل کا عکس ایک مصرعہ ’’کس سے محرومی کلفت کی شکایت کیجیے‘‘ میں کھلتا ہے اور دوسری غزل تجرباتی زبان پیش کرتی ہے۔
غزل کا شعر طویل و فصیل لمحوں کو منظوم کرنے کے بجائے کلیدی نکتہ اور کلیدی واقعہ کی ترسیل کرتا ہے۔ مثلاً:
تمھارے پیامی نے سب راز کھولے
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
اقبالؔ
یہ تمنا نہیں اب دادِ ہنر دے کوئی
آ کے مجھ کو مرے ہونے کی خبر دے کوئی
خلیل الرحمن اعظمی
اب مجھے ڈھونڈ نہ آغوش گریزاں ہر سو
لے اڑی خاک بہا لے گیا سیلاب مجھے
شہاب جعفری
اچھا شعر ہمیشہ نیا ہوتا ہے۔ نیا اپنے لہجے میں، مواد میں، اضافے میں اور لفظیات میں۔ اس کی مثال یوں ہے:
’’Vesuvius” سو رہا ہے۔ اس کے دامن میں شہر آباد ہیں، مدرسے ہیں، تہذیب ہے، شان دار مکانات ہیں کارخانے ہیں اور مسافر خانے، شہر میں چہل پہل ہے۔ Vesuvius سو رہا ہے اس کے سینے میں لاوا جمع ہو رہا ہے۔ لاوے کا تیز دھارا شہر کے مکانات، مقامات، محکمات، جامعات، دکانات اور تہذیب کو ہمیشہ کے لیے چھپا لیتا ہے کہ پھر نئی تہذیب، نیا تمدن نیا Pompeii پیدا ہو۔‘‘
٭٭٭