(Last Updated On: )
ما بعد جدید رجحان نے جہاں ایک جانب اردو کے تمام اصناف کو متاثر کیا، وہیں اردو افسانہ بھی اس کے زد سے نہ بچ سکا بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہو گا کہ اصنافِ شعر میں نظم اور اصنافِ نثر میں افسانہ، اس لحاظ سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں جن میں جدیدیت نے اپنا نقش ثبت کیا اور مابعد جدیدیت نے بھی انہی اصناف کو نشان زد کیا۔ جس طرح سے جدیدیت کو ترقی پسند تحریک کی ضد کہہ بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی، ٹھیک اسی طرح مابعد جدیدیت کو جدیدیت کے روبرو رکھ سکتے ہیں۔ جدید دور کے جو امتیازات فن پاروں پر اثر انداز ہوئے تھے، انہی خیالات کو ردّ و بدل کے ساتھ مابعد جدید فن کاروں اور ناقدین نے روا رکھا مثلاً علامت کا عنصر جدید دور کا نشانِ امتیاز تھا تو نئی تخلیقات میں بھی علامت کو برتا گیا لیکن ہلکی سی ترمیم کے ساتھ۔ دوسرے خصائص کا بھی اسی طور پر اطلاق کر سکتے ہیں۔ مابعد جدید دور میں دو طرح کے افسانہ نگار ایک ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتے ہیں۔ پہلی نسل کے وہ افسانہ نگار ہیں جو ایک زمانے سے افسانے لکھ رہے تھے اور دبیز علامات برتتے تھے لیکن بعد میں انہوں نے اہمال اور اشکال سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے نئی علامات وضع کیں اور قاری کا خاص خیال رکھا۔ دوسری نسل کے افسانہ نگاروں کے سامنے ایک واضح تصور سامنے آ چکا تھا لہٰذا انھیں ذہنی کشمکش سے نہیں گزرنا پڑا۔ ان کے سامنے دبیز علامات کا تصور ختم ہو چکا تھا۔ اسی لیے بعد کے افسانہ نگاروں نے فرسودہ علامات کو ترک کر کے نئی علامات کے رجحان کو عام کیا۔ انہی افسانہ نگاروں کی فہرست میں احمد رشید (علیگ) کا بھی شمار ہوتا ہے۔ احمد رشید کی کہانیاں اِدھر چند متعدد رسائل میں یکے بعد دیگرے پڑھنے کو ملیں تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔ ان کی کہانیوں سے حصار سے نکلا ہی تھا کہ ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ نے آ دبوچا۔ یہ افسانہ نگار کا دوسرا مجموعہ ہے جو ۲۰۱۴ء میں شائع ہوا۔ واضح رہے کہ اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’وہ اور پرندہ‘‘ کے عنوان سے ۲۰۰۲ء میں اشاعت سے ہمکنار ہو کر ادبی دنیا میں داد تحسین وصول کر چکا تھا۔ عام خیال ہے کہ احمد رشید کے قارئین کا حلقہ وسیع تو ہے لیکن ان کے افسانوی فن پر لوگوں نے بہت کم توجہ دی ہے یا کم کم ہی خامہ فرسائی کی ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ احمد رشید کے افسانوں کے علائم و استعارات کی تفہیم کے لیے جس باریک بینی، وسیع القلبی اور مطالعۂ کائنات کی ضرورت ہے، اس سے آج کا قاری تقریباً عاری ہے۔ احمد رشید نے بلا ضرورت یا علمیت بگھارنے کے لیے علائم کا استعمال نہیں کیا ہے اور نہ ہی انہوں نے اندھیرے میں استعارات کی تیر چلائی ہے بلکہ مناسب و موزوں علائم کا استعمال کر کے فن پارے کو تہہ دار بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قاری کی نظر دونوں مجموعوں کے افسانوں پر جاتی ہے تو علائم کی گرہ کھولنے کی نا کام کوشش کرتا ہے اور تھوڑی بہت کام یابی ہاتھ لگتی ہے تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتا۔ اسی خوش فہمی کو ظاہر کرنے کے لیے اس موضوع کا انتخاب کیا گیا ہے تاکہ ان کے علامتی افسانوں کی حتیٰ المقدور تفہیم ممکن ہو سکے۔ اس مضمون کا با قاعدہ آغاز سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پروفیسر شافع قدوائی کے مضمون’’ احمد رشید کے افسانے‘‘ سے ایک اقتباس نقل کیا جائے۔ ان کے خیال میں:
’’زندگی کے مختلف مظاہر، اس کی رنگا رنگی، بو قلمونی اور ارتقا و افزونی کے مختلف مراحل کو تخلیق کائنات کے قدیم آرکی ٹائپ سے مربوط کرنا اور تخلیق کے ازلی متھ کی معنویت عصری تناظر میں واضح کرنا ایک تازہ کار افسانہ نگار احمد رشید کے جن بعض افسانے بر صغیر کے مقتدر جرائد مثلاً ’’جواز‘‘ ، ’’شاعر‘‘ اور ’’آہنگ‘‘ میں شائع ہو کر خراجِ تحسین وصول کر چکے ہیں، فن کار کا بنیادی رمز ہے۔‘‘
احمد رشید کے دونوں افسانوی مجموعوں کو مد نظر رکھا جائے تو کئی کہانیاں ایسی مل جائیں گی جن میں علامت کا بہترین استعمال ہوا ہے۔ سب سے پہلے ان کے پہلے مجموعے کی کہانیوں پر نظر ڈالتے ہیں۔ اس ضمن کی پہلی کہانی ’’کہانی کہتی ہے‘‘ اس لیے اہم ہے کہ اِس کہانی میں بہ ظاہر کہانی کے ارتقائی سفر کو بیان کیا گیا ہے ساتھ ہی یہ کہانی انسان کے تمدنی و تہذیبی سفر کی جانب بھی نشاندہی کرتی ہے۔ کہانی کا بہ تدریجی سفر اور انسان کے معاشرتی عمل کو فنکارانہ چابک دستی سے ایک ساتھ پرونا کہ کہانی پن شروع سے آخر تک برقرار رہے، یہ خود افسانہ نگار کا کمال ہے۔ یہاں یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ لفظوں سے کھیلنا اور نئی علامات تراشنا احمد رشید کا پسندیدہ عمل ہے۔ وہ عام سی بات کو علامت کے پیرائے میں اس طرح ڈھالتے ہیں کہ قاری بھی سوچنے پر مجبور ہر جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پہلے مجموعے کی پہلی کہانی ’’کہانی کہتی ہے‘‘ کو لیں۔ اس کہانی کا آغاز اس طرح ہوتا ہے ’’اس نے سمندر میں جھانکا، وہ کنارے پر مجسمہ بن گئی۔ سوچتی ہے کہ سمندر کے شفاف اور گہرے پانی میں سورج طلوع سے غروب تک ڈوبا رہتا ہے۔‘‘ اس جملے میں ’’سمندر‘‘ ماضی کی علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے اور ’’پانی‘‘ وقت کی علامت کے طور پر۔ سمندر کا کنارا ’’زمانۂ حال‘‘ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ’’ماضی‘‘ کی طرف پلٹا اور حیرت و استعجاب کا مجسمہ بن جانا ایک فطری انسانی عمل ہے۔ صدیوں پر پھیلے انسان کے تہذیبی سفر اور خود انسان کے وجود میں آنے سے پہلے ’’کہانی‘‘ کا وجود ہو چکا تھا۔ صدیوں پر مشتمل کہانی کے ارتقائی سفیر کا طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک افسانہ کا اختتام پر پہنچنا اس طرح معنی خیز بن جاتا ہے کہ تخلیقِ کائنات ہویا تخلیقِ انسان، دونوں سورج کے طلوع ہونے کی علامت ہیں اور غروبِ آفتاب، انسان اور کائنات کے فنا ہونے کی جانب اشارہ ہے۔ کیوں کہ اسلامی فلسفہ کے مطابق قیامت کے آنے کا وقت ’’رات‘‘ ہی کو بتایا گیا ہے جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ گہرے پانی میں سورج کا ڈوبنا انسانی غرور کی نفی بھی کرتا ہے۔ ساتھ ہی سمندر میں ’’کہانی‘‘ کا وجود نظر آنا اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ افسانے سے کہانی کے جوہر کا ختم ہونا اور اینٹی کیرکٹر ہونا بھلے ہی نیک فال نہیں لیکن یہ سمجھنا کہ ’’کہانی‘‘ ختم ہو گئی، غلط ہے۔ ادھر انسان جس کی جبلت میں حیوانیت داخل ہونے کے باوجود وہ انسانیت کے اعلا مقام سے گر ضرور جاتا ہے لیکن گناہ ارتقائے انسانی کا لازمی عنصر ہے، اس لیے اس کا گرنا اور سنبھلنا اس کے متحرک اور زندہ ہونے کی علامت بھی ہے۔ حضرت آدم ؑ سے لے کر آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ بالکل اسی طرح افسانہ کا کہانی کے جوہر کی طرف مراجعت اُس کی فطرت کا تقاضا ہے۔ چوں کہ ادب کے اندر ٹھہراؤ پیدا ہونا یا اس پر جمود طاری ہونا، ادب کی بقا اور زندگی کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ صنفِ افسانہ ہو یا دوسری ادبی اصناف، ان میں تجربات ہوتے رہنا ادب کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔ اس کہانی کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ صنف افسانہ کے عناصر ترکیبی کو اس طرح پرویا گیا ہے کہ کہانی پڑھنے کا تجسس شروع سے آخر تک برقرار رہتا ہے اور خود کسی نہ کسی انداز میں افسانہ کے اجزائے ترکیبی ساتھ ہی انسانی تہذیب کے ضروری عناصر اور اس کے ارتقائی سفر کا یہ افسانہ بہت ہی خوبصورت اظہار بن گیا ہے۔
اردو افسانہ کے ارتقائی سفر میں کارل مارکس کے فلسفہ کو احمد رشید نے سر کے بال سے شروع ہو کر ناف تک کے سفر اور فرائڈ کے فلسفہ کو ’’کہ ناف سے پیر کے ناخن تک ایک پناہ گاہ ہے‘‘ کہا ہے اور کہانی کا وہ زمانہ جب افسانے سے کہانی کا عنصر غائب ہو گیا تھا اور کہانی بے کردار ہو گئی تھی ’’کہانی کہتی ہے‘‘ کا نقطۂ آغاز ہے۔ کہانی کا باقی سفر فلیش بیک میں چلا گیا ہے۔ اس طرح افسانہ نگار کے بیان میں شعور کی روکی تکنیک کا استعمال کر کے کہانی کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ افسانہ کا انجام خوش آئند ہے۔ افسانہ نگار کہانی کی بدحالی پر مایوس نہیں ہے بلکہ پُر امید ہے کہ افسانہ کہانی پن کی طرف لوٹ رہا ہے۔ یہاں یہ امر بھی وضاحت طلب ہے کہ اس جدید دور میں انسان ترقی کے سرپٹ دوڑ میں کتنا ہی آگے نکل گیا ہو مگر اس کے تہذیبی انحطاط کا دور اس دائروی سفر میں اپنے بے شعوری کی طرف لوٹ رہا ہے جہاں آغاز و انتہا گُم ہو گئے ہیں، انسانی رشتے ٹوٹ گئے ہیں اور قیامت خیز منظر ہے جس کو افسانہ نگار سے بیان کیا ہے۔
دوسرے مجموعے کی پہلی کہانی ’’کہانی بن گئی‘‘ بھی اسی نوعیت کی کہانی ہے جس کا بنیادی موضوع افسانے کا فن ہے۔ اس کہانی میں بتایا گیا ہے کہ انسان کا ہر عمل اصل میں رد عمل ہوتا ہے اور رد عمل کی بنیاد کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہوتا ہے۔ احمد رشید اس کہانی کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کہانی اگر انسان کی حرکات و سکنات پر لکھی جائے گی تو وہ کہانی نہیں بن پائے گی لہٰذا کہانی کو بیان کرتے وقت منظر کے ساتھ، پس منظر کو بھی بیان کیا جاتا ہے تاکہ حقیقی صورت حال کی عکاسی ہو سکے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ افسانے میں کہانی کے جوہر کا ہونا نہایت ضروری ہے کیوں کہ وہی اصل روح ہے اور اسے بامعنی بنانے کے لیے ’’بیانیہ‘‘ کا بھی عمل دخل ضروری ہے۔ اسی لیے کہانیوں میں جملوں کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہوتی ہے کہ اس کے اندر تہہ داری پیدا ہو جائے۔ ’’کہانی بن گئی‘‘ کی تکنیک کی سطح پر بحث کی جائے تو انٹرویو کے طرز پر لکھی گئی گئی یہ کہانی ہے۔ ایک عورت جس نے آئینہ دیکھنا اس لیے چھوڑ دیا ہے کہ وہ سچ بولتا ہے اور عورت خوش شکل نہیں ہے لہٰذا وہ اس سفاکی کو قبول نہیں کرتی۔ عورت کے خمیر میں نرگسیت اور جمالیاتی حس زیادہ ہوتی ہے، اگر اُسے احساس ہو جائے کہ وہ بد صورت ہے یا کوئی راہ چلتا مسافر غیر شعوری طور پر کسی عورت کے سامنے تھوک دے تو اس عورت کے اندر شبہ پیدا ہو جاتا ہے کہ اس راہ گیر نے اسی کو نیچا دکھانے کے لیے ایسا کام انجام دیا ہے۔ ایسی صورت میں وہ احساس کمتری کا شکار ہو جائے گی۔ اسی احساس کمتری کا ازالہ کرنے کے لیے اس کہانی کی عورت، مرد کے فرضی نام سے کہانیاں لکھنا شروع کرتی ہے۔ اپنا قلمی نام روی کمار رکھتی ہے اور ملک کے مشہور افسانہ نگار کا انٹر ویو کرنے جاتی ہے۔ کہانی میں اسٹیشن، سفر کی روداد، منظر نگاری پس منظر میں بیان ہوتے چلے جاتے ہیں۔ افسانے کے کلائمکس پر یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ ’روی کمار‘ مرد ناول نگار نہیں بلکہ کوئی عورت ہے جو مرد بن کر کہانیاں لکھ رہی ہے لیکن مرد افسانہ نگار پر یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ وہی افسانہ نگار ہے۔ یہاں عورت کا احساس کام کرتا ہے اور وہ یہ سوچ کر خوش ہوتی ہے کہ کوئی تو ہے جو اُس کی خوبصورتی کا قائل ہے لیکن اُسے یہ احساس نہیں ہے کہ وہ مرد عمر کے ایسے مرحلے میں ملا ہے جہاں وہ فطری طور پر مرد ہے نہ عورت۔ یہیں پر کہانی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ افسانہ نگار نے اس صورت حال کو نہایت خوبی سے برتا ہے اور عورت کی نفسیات کا گہرا مشاہدہ کیا ہے۔
احمد رشید نے مختصر کہانیاں رقم کی ہیں لیکن چند کہانیاں طویل بھی لکھی ہیں جن میں ’’وہ اور پرندہ‘‘ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ افسانہ ’’وہ اور پرندہ‘‘ تخلیق کائنات اور تخلیق انسان سے متعلق اساطیری اور مذہبی کرداروں کی معنویت کو عصری تناظر میں واضح کرتے ہوئے کہانی کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے:
’’یہ کہانی ’’وہ‘‘ کی ہے۔ ’’وہ‘‘ کی تخلیق ایک قطرے میں پوشیدہ تھی۔ جس نے قطرے سے سمندر تک کے سفر میں نہ جانے کتنے سورجوں کو چڑھتے دیکھا اور پھر اُن کو اُترتے دیکھا۔ یہ سفر جو یگوں پر مشتمل ہے، آج بھی جاری ہے۔ اس سورج کو پانے کی جستجو میں جو اس تنگ و تاریک مقام سے شروع ہوا تھا، جہاں اس کی خوراک گندہ خون تھی اور برہنگی اس کا لباس۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘
حضرت آدمؑ کی پسلی سے حوّاؑ کی تخلیق کے بعد انسانیت اور کائنات کا یہ سلسلہ آگے بڑھا۔ تہذیب و تمدن کا یہ ارتقائی سفر بہ تدریج جاری ہے۔ ’’وہ‘‘ کی تخلیق قطرے سے سمندر تک سفر میں اس نے قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ دیکھی اورانسان کے رحم مادر سے ولادت کے عمل تک کی داستان کا ذکر کرتے ہوئے تہذیبی ارتقا کی طرف رمز ہے۔ ساتھ ہی تہذیبی ارتقا دائروی شکل میں اس طرح کہ انسان کا یہ سفر جو بے لباسی اور بے شعوری سے شروع ہوا تھا جو اَب اپنی ابتدا کی جانب لوٹ رہا ہے اور اس بے منزل سفر کو اندھے سفر کا استعارہ کہا ہے۔ یہاں بھی دیگر کہانیوں جیسے ’’کہانی کہتی ہے‘‘ ، ’’صدیوں پر پھیلی کہانی‘‘ کی طرح سمندر وقت کی علامت ہے۔ کہانی کا متذکرہ اقتباس ایجاز و اختصار کی بہترین مثال ہے۔ تمام یگوں کی تاریخ اس میں سمٹ گئی ہے۔ حیات و کائنات کے وسیع و عریض حدود اربعہ میں ’’وہ‘‘ زندگی کا سفر طے کرتے ہوئے تھک گیا ہے۔ جس طرح سورج پورے آب و تاب کے ساتھ دن کی مسافت طے کر کے تھکا ماندہ پرند کی مانند اپنے پر سمیٹ لیتا ہے۔ سورج وقت کا پیمانہ، روز و شب، عمر کا حساب و کتاب، سمندر وقت کی علامت__ان سب ہی علائم کا با معنی امتزاج افسانہ کو گہرائی اور گیرائی بخشتا ہے۔ اس کہانی کی علامتیں ’’سورج‘‘ ، ’’پرند‘‘ ، ’’ست رنگی‘‘ اور ’’یک رنگی‘‘ ایک دوسرے میں اس طرح مدغم گئی ہیں کہ معنی خیزی میں شعریت کی کیفیت تخلیق ہو گئی ہے۔ ایسی مثالیں افسانہ کی تمہید سے ہی نظر آتی ہیں۔ جیسے ’’ابھی بے لباسی، بے شعوری سے اس کا رشتہ نہیں ٹوٹا ہے بلکہ دائروں کی طرح یہ سفر، مسلسل سفر، قطرے سے سمندر کا سفر، بے کراں لہروں کا سفر، بے پایاں طوفانوں کا سفر، یگوں کا سفر، قرنوں کا سفر، ابھی مسلسل جاری ہے۔
انسان کا بہ وقت ولادت بے لباس اور بے شعور ہونا انسان کے تہذیبی ارتقا کی بنیاد، بے لباسی اور بے شعوری اور آج کے جدید دور میں انسان کا جسمانی اور تہذیبی طور پر ننگا ہونا، اس کا اخلاقی اور معاشرتی اعتبار سے زوال پذیر ہونا، وقت کے سمندر میں دائروی صورت اختیار کرنے کی علامت ہے۔ یہ انسانی تہذیب کا اندھا سفر مسلسل جاری ہے ___ ’’وہ‘‘ یعنی انسان کی زندگی ایک قطرہ میں پوشیدہ ہے۔ اسے سمندر ہونے تک ایک عمر درکار ہوتی ہے۔ انسانی کی تہذیب کا عہد طفل سے پیران سال تک یگوں اور قرنوں کا سفر جھیلنا پڑا۔ جس میں اس نے نہ جانے کتنے طوفانوں اور پریشانیوں کو برداشت کیا۔ رنگ بدلتے اس آسمان کے نیچے اس کا اندھا سفراب بھی جاری ہے۔ آسمان کا رنگ بدلنا، ستاروں کا گردش میں آنا، خود تقدیر کے خوش رنگ اور بد رنگ ہونے کا استعارہ ہے۔ انسان کے اس تہذیبی سفر سے گریز کرتے ہوئے افسانہ نگار نے کردار کے ظاہری عوامل سے اس چلنے کو جوڑ دیا ہے ___ ’’وہ چل رہا۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ یہیں سے افسانہ کا بنیادی کردار فلمی اسکرین کے فارم پر متحرک اور فعال نظر آنے لگتا ہے۔
کہانی کا عنوان ’’وہ اور پرندہ‘‘ ایک بامعنی عنوان ہے۔ ’’وہ‘‘ اور ’’پرندہ‘‘ در اصل ایک ہی کردار ہے۔ وہ کی تکمیل پرندہ کے بغیر نامکمل ہے۔ پرندہ انسان کے ضمیر اور اس کے نفس کا موتیف ہے جو انسان کی رہ نمائی بھی کرتا ہے اور اس کو برائی کی طرف بھی لے جاتا ہے۔ پرندہ آزادی کا Symbol بھی ہے۔ کہانی تکنیکی سطح سے بھی عجیب و غریب ہے۔ اردو افسانہ کی تاریخ میں پہلی بار یہ تکنیک متعارف ہوئی، جو مصنف نے اختیار کی ہے۔ مذکورہ کہانی میں زماں و مکاں کی قیود ٹوٹ گئی ہیں۔ جس طرح ’’شعور کی رو‘‘ میں وقت کی تقسیم اور حدود بکھرتی نظر آتی ہیں۔ ایک نئی تکنیک کے حوالے سے کہانی کہنے کا یہ انداز نرالا اور انوکھا ہے۔ اردو ادب میں ایسی کہانیاں بہت کم لکھی گئی ہیں جو کردار کے مختلف پہلوؤں کو ایک ساتھ مجموعی طور پر اُجاگر کرے۔ فنِ افسانہ میں اس کی گنجائش بھی کم ہے، حیات و کائنات اور زماں و مکاں کے متعدد گوشوں کو پیش کرنے کے لیے ناول درکار ہے۔ عام طور پر زندگی کے کسی ایک پہلو یا ایک احساس کو موضوع بنا کر افسانہ تخلیق ہوتا ہے اور افسانہ نگار کو کردار کے اسی پہلو کو پیش کرنے میں ہمدردی اور دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر وہی جذبہ یا احساس افسانہ کے دوسرے کردار میں بھی موجود ہو تو اُسے قطعاً ہمدردی نہیں ہوتی۔ اس کے جذباتی پہلوؤں کو نظر انداز کرنا افسانہ کے فن کا تقاضا بھی ہے لیکن ’’وہ اور پرندہ‘‘ میں افسانہ کے کردار کے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے اس انوکھی تکنیک کا استعمال آخر تک کامیابی سے برتا گیا ہے کہ افسانہ نگار کے کمالِ فن کی داد دینی پڑتی ہے۔ فنی اعتبار سے یہ کہانی اس قدر چست اور مکمل ہے کہ افسانہ نگار نے دوسری کوئی کہانی نہ لکھی ہوتی تو افسانہ نگار کو زندہ رکھنے کے لیے یہ کہانی کافی تھی۔
جیسا کہ مذکور ہوا کہ ’’پرندہ‘‘ آزادی کی علامت بھی ہے۔ افسانہ میں بنیادی کردار مذہبی پابندیوں، رسم و رواج کے ڈھکوسلوں، تہذیبی سختیوں اور دیگر سماجی ممانعتوں کے خلاف صدائے احتجاج زیرِ لب بلند کرتا ہوا نظر آتا ہے جو انسان کی فطری آزادی میں مخل ہیں۔ خود انسان باہری یا بیرونی دباؤ سے انکار کر بھی دے تب بھی اس کا باطن اور اندرون تہذیبی، سماجی اور مذہبی اقدار کا اسیر ہے۔ اس سے رہائی کس طرح حاصل کرے۔ ان بیرونی اور اندرونی دباؤ سے آزادی حاصل کرنے کے لیے وہ کوشاں نظر آتا ہے۔
انسان کی شخصیت کی تشکیل و تعمیر میں جو تہذیبی، مذہبی، جغرافیائی اور سماجی عناصر کام کر رہے ہوتے ہیں، انسان چاہتے ہوئے بھی ان سے نجات حاصل نہیں کر پاتا۔ بہ قول روسو ’’آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے۔‘‘ فلسفۂ وجودیت کے سب سے بڑے حامی سارتر کے مقلد البرٹ کامو کے ناول ’’بیگانہ‘‘ کا کردار مرسال Reasoning کا قائل ہے اور زندگی کے حوالے سے ہر جگہ بے حس نظر آتا ہے۔ جذباتیت کا قطعاً منکر ہے مگر ناول کے آخری حصہ میں قتل کے جرم میں جب وہ جیل پہنچ جاتا ہے تو اس کی تمام معشوقائیں اس کے خواب و خیال میں آتی ہیں اور ان کی اس کو یادیں ستاتی ہیں۔ باوجود اس کو سزائے موت کا حکم ہو جاتا ہے۔ انسانی کردار کا یہ پہلو جذبہ و احساس سے تعلق رکھتا ہے۔ مجموعی طور پر انسان کی شخصیت کی تکمیل عقلیت اور جذباتیت کی آمیزش سے ہوئی ہے نہ تو وہ نرا Reasoning ہو سکتا ہے اور نہ ہی Sentimental۔
اس افسانہ میں کردار کے ساتھ زندگی کے مختلف واقعات جڑے ہیں۔ جہاں ’’وہ‘‘ کے ساتھ پلنے والا پرندہ ’’وہ‘‘ کی رہ نمائی بھی کرتا ہے۔ کبھی کبھی صدائے احتجاج بلند کرتا ہے۔ کہیں سفاک اور بے رحم، کہیں نرم طبیعت اور رحم دل نظر آتا ہے۔ بعض مواقع پر Reasonable اور کبھی کبھی Sentimental دکھائی دیتا ہے۔ اس کہانی کا بنیادی موضوع بہ قول پروفیسر شافع قدوائی ’’وہ اور پرندہ ایک گہرے مذہبی احساس اور روحانی تجربے کی کہانی ہے جس میں مذہب یا عقیدہ اپنے آخری تجزیے میں ایک عافیت کوش تجربے میں متقلب ہو جاتا ہے۔‘‘ مطلب ظاہر ہوا کہ ’’وہ اور پرندہ‘‘ گہرے مذہبی احساس اور روحانی کرب پر مبنی افسانہ ہے۔ انسان کی ذہنی نشو و نما اور اس کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں مذہبی تعلیمات، سیاسی رجحانات، سماجی اقدار، معاشرتی بود و باش، معاشی فراوانی، تنگیِ معاش اور تعلیمی اثرات کا مکمل دخل ہوتا ہے جو زندگی کرنے کے مخصوص انداز میں اور گزارنے میں ہر پل شعوری اور غیر شعوری طور سے انسان کے قول و عمل اور افعال و کردار میں نمایاں نقوش چھوڑتے ہیں، جہاں انسان کہیں بے بس اور مجبور نظر آتا ہے، جو اس کی جبلی خواہشات اور فطری آزادی پر دباؤ بنائے رکھتی ہیں اور احساسِ محرومی کو شدید تر کر دیتی ہیں اور اس افسانہ میں ہمیں لمحہ بہ لمحہ نظر آتی ہیں۔
نشہ کی حالت میں بار کے اندھیرے میں تنگ و تاریک گڑھا ہونے کا احساس، مرنے کے بعد زمین کو زبان مل جانا، زمین پر اکڑ کر نہ چلنے کا حکم، قبر میں منکر نکیر کے سوالات، قبر کے عذاب کا خیال اور وہ تمام کیفیات جو مذہب کے حوالے سے ہمیں ملی ہیں، اس کے احساس و ادراک میں عود کر آ جاتی ہیں مگر یہی پرندہ نفس امّارہ کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور ’’وہ‘‘ کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ’’اگر بھاگتی ہوئی زندگی سے چند لمحات مسرتوں کے چرا لیے جائیں تو پوری زندگی پر بھاری ہوتے ہیں۔۔ ۔۔ ۔ اور۔۔ ۔۔ ۔ پھر تم۔۔ ۔۔ ۔ تم تھکے ہوئے بھی تو ہو۔۔ ۔۔ ۔ آخراس کا علاج کیا ہے؟‘‘ جب کہ یہی پرندہ تھوڑی دیر پہلے ضمیر کی متشکل میں شراب کی ممانعت پر زور دیتا ہے اور قبر کے عذاب کا احساس کراتا ہے۔ یہاں فطرتِ انسانی کے اس گوشہ کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ہے کہ ارتکابِ گناہ سے پہلے ضمیر صراطِ مستقیم کے لیے رہ نمائی کرتا ہے لیکن اگر اس لمحہ اس کو نظر انداز کر دیا جائے تو وہی ضمیر نفس امارہ کی شکل اختیار کر کے احساس گناہ کو دبا دیتا ہے۔
شراب پینے کے بعد جب ’’وہ‘‘ سڑک پر ڈگمگاتے قدموں کے سہارے چلتا ہے تو اس منظر کو افسانہ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ ’’جیسے سڑک بال سے زیادہ باریک ہو اور تلوار سے زیادہ تیز دھار رکھتی ہو۔‘‘ آگے افسانہ نگار اس طرح پیش کرتا ہے ___ ’’اور سڑک پر اس طرح چلنے لگا جیسے نٹ تار پر چل رہا ہو۔ ہر قدم کو ناپ تول کر رکھ رہا ہو کہ غلط قدم رکھا اور نیچے گرا۔‘‘ ___ا س بیانیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ شراب پینے کے بعد سڑک پر احتیاط سے چلنے کے پیچھے دنیا کی نظروں سے اپنے آپ کو چھپانا مقصد ہے کیوں کہ پتا چلنے پر بدنامی اور بے عزتی ہو جائے گی۔
افسانہ کی شروعات شام کے جھٹ پٹے کے وقت سے ہوتی ہے۔ پوری رات کہانی چلتی ہے۔ کردار کی پوری زندگی ایک رات میں سمٹ گئی ہے۔ اسی لیے رات روزِ محشر کی طرح سخت اور طویل ہو گئی ہے۔ روزِ محشر کو تمام ہی پیدا ہونے والے انسان اللہ کے دربار میں حاضر ہوں گے۔ وہ یوم دین ہو گا۔ اس کو یومِ میزان بھی کہا جاتا ہے۔ ہر شخص کے اعمال کا حساب و کتاب ہو گا۔ ہر شخص اللہ کی پکڑ سے ہراساں اور پریشان حال ہو گا۔ تمام رشتے ناطے بکھر جائیں گے۔ کوئی کسی کا پرسانِ حال نہیں ہو گا۔ ایک عجیب و غریب منظر ہو گا۔ __ ’’ذرا سا غور کرو، یہ کائنات کی تخلیق بھی ارتکابِ جرم کا سبب ہے۔ جس میں مشیت ایزدی بھی شامل تھی اور پھر یہ گناہ و سزا کا نہ ختم ہونے کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے۔‘‘ افسانہ کا فن غزل کی طرح نازک فن ہے۔ زائد الفاظ کا بوجھ برداشت نہیں کرتا۔ ایجاز و اختصار، کفایت لفظی، علائم نگاری، زبان و بیان، میں استعارات و تمثیلات کے ذریعہ افسانہ کی ساخت میں معنی خیزی پیدا کی جاتی ہے۔ مابعد جدید تصور ادب میں جہاں کہانی، کہانی کے جوہر کی طرف لوٹی ہے وہیں پیچیدہ علامت نگاری، خود فراریت ’’میں‘‘ کی پاسراریت اور اندرون میں اپنے وجود کی تلاش سے بھی نجات ملی اور سماجی سروکاروں سے ربط و ضبط ہموار ہوا۔ افسانہ نگار objects سے جوڑ کر ذہنی کیفیات اور دلی جذبات کو بیان کرنے میں کمال کا درجہ رکھتا ہے۔
افسانہ ’’وہ اور پرندہ‘‘ مجموعہ کا نمائندہ افسانہ ہے۔ یہ ایک ایسے کردار کہانی ہے جو مذہب کا گہرا احساس رکھنے کے ساتھ ساتھ روحانی کرب، نفسیاتی اذیت اور ذہنی انتشار سے اس قدر دوچار ہے کہ اسے ہر قدم پر روحانی محرومی اور جذباتی تشنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ اپنی توقعات و خواہشات کو جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہے لیکن سماجی و مذہبی بندشیں اس کی آسودگی کا ہر اقدام ناکارہ بنا دیتی ہیں۔ رنج و فرحت کے ممزوج پرچھائیاں، حیات و موت کی تلخ ترین سچائیاں مہیب سایوں کی طرح ہر آن اس کا تعاقب کرتی ہیں۔ پرندہ در اصل اس کا ضمیر یا نفس ہے جو اس کی زندگی میں ’’دخل در معقولات‘‘ کا مرتکب ہو کر طرح طرح سے دِق کرتا ہے۔ کہیں تو اعمال ممنوعہ کو مزین و آراستہ کر کے نفس امارہ (گناہ کا حکم کرنے والا نفس) کا مصداق ہے۔ پرندہ کا ’’وہ‘‘ کی زندگی میں داخلہ ایک الگ کردار کی حیثیت سے ہوتا ہے جب کہ وہ ’’وہ‘‘ کی شخصیت کا ایک عنصر ہے۔ یہ افسانہ کی تکنیک میں خود ایک نیا اور کام یاب تجربہ ہے۔ افسانہ نگار اس کی موجودگی اور توانائی کا احساس علامتی انداز میں اس طرح کراتا ہے:
’’اور اس پرندے کی اڑان کا مجھے اس وقت احساس ہوا جب میں نے عذرا کو فطری حالت میں اچانک نہاتے ہوئے دیکھا تو میرے جسم میں چیونٹیوں نے اپنے ڈنک گاڑ دیے پھر تو میں نے اس کے مکان اور اپنے مکان کا فاصلہ اس قدر تیزی سے طے کیا کہ گھر آتے آتے ہانپ گیا۔‘‘
افسانہ کے اختتام تک پرندہ اپنی شمولیت کا احساس کراتا ہے۔ افسانہ نگار نے ایک غیر مرئی تصور کو پرندے کے حوالے سے کہانی کو بیان کرتا ہے۔ افسانہ کے آخر میں پرند کی تمثیل، حقیقی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اچانک پرندہ اس طرح نمودار ہوتا ہے کہ جیسے وہ ایک تصور یا خیال نہ ہو بلکہ حقیقت ہو۔ یہاں موتیف کو حقیقی شکل دینے سے افسانہ فطرت اور حقیقت کے قریب ہو گیا ہے۔ مذکورہ افسانہ فنی نقطۂ نظر سے کامیاب اور اہم افسانہ ہے۔ افسانہ کی منظر کشی اور فضا بندی کو علامتی زبان و بیان دے کر واقعیت سے جوڑنے میں افسانہ نگار کے کمالِ فن کی داد دینی پڑتی ہے۔ مکالمہ نگاری میں برجستگی اور موزونیت، قاری کو چونکاتی ہے۔ معنی آفرینی، گہرائی اور گیرائی مکالموں کی جان ہے۔ اندازِ گفتگو میں طنز اور نشتر کی کاٹ ملتی ہے۔ کرداروں کے ناموں کو معنی خیز بنانے میں پورا اہتمام کیا گیا ہے اور ان ناموں کو موضوع سے ہم آہنگ کر کے افسانہ کی ساخت کا ایک ناقابل تقسیم جز بنایا ہے۔ مذکورہ افسانہ میں ’’سمن‘‘ پھول کے معنی میں ’’نکہت‘‘ خوشبو کے معنی میں ’’رضیہ‘‘ تسلیم و رضا کے معنی میں اپنی مخصوص معنویت کے ساتھ وارد ہوئے ہیں۔ افسانہ نگار نے کرداروں کے ناموں کے مفاہیم سے نہ صرف فائدہ اٹھا یا بلکہ اپنے علامتی لب و لہجہ اور زبان و بیان کے وسیلے سے افسانہ نگار میں معنی خیزی پیدا کی ہے لیکن افسانہ کی واقعیت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ مندرجہ اقتباس میں نکہت کا ورود ملاحظہ ہو:
’’تم نے نکہت کو مشت میں قید کرنا چاہا لیکن باد صبا کا جھونکا اُسے اڑا کر لے گیا۔۔ ۔۔ یکایک دروازہ کی کنڈی کی آواز ہوئی۔ وہ چونک گئی۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔ کہہ کر نکہت پیچھے ہٹ گئی۔۔ ۔۔ ۔ اور پھر وہ اپنے ہی خول میں قید ہو گئی۔ میز درمیان میں رکھی تھی۔ اس پر کتابوں کا بوجھ تھا۔۔ ۔۔ رضیہ کی معصومیت تم نے نکہت کے اندر تلاش کرنی چاہی۔۔ ۔۔ اور نکہت تمہیں کتابوں میں تلاش کرتی رہی۔۔ ۔۔ ۔۔ حقیقت ’’زندگی‘‘ میں ملتی ہے، کتابوں میں نہیں۔۔ ۔۔‘‘ پرندہ نے یاد دلایا۔ ‘‘
طویل افسانہ ’’وہ اور پرندہ‘‘ میں مختلف واقعاتی تأثرات کو منطقی ربط اور شعوری طور سے وحدت قائم کرنے کی کوشش ملتی ہے۔ اس کہانی میں خارجی کردار نگاری اور ان کے افعال و اعمال کے ساتھ داخلی کرب اور باطنی عمل پر زیادہ زور ملتا ہے۔ افسانہ نگار نے اندرون میں داخل ہو کر ہمیں اس کے ذہنی رویوں اور روحانی کوائف کی سیر کرائی ہے۔ عمومی طور پر موضوع کی مناسبت سے مرکزی کردار کے رویے ظاہر کیے جاتے ہیں لیکن کردار کے کسی فعل و عمل کا ضمنی کرداروں کا کیا ردّ عمل ہوا، اس پہلو پر افسانہ نگاروں کی کم ہی توجہ جاتی ہے چوں کہ فنِ افسانہ کا موضوعی احاطہ اور افسانہ نگار کے دائرۂ اختیار کے بس سے باہر ہے۔ چوں کہ کہانی کار کو کردار کے مخصوص رویہ اور جذبہ سے غرض ہوتی ہے۔ اس جذبہ اور رویہ کا ضمنی کردار پر کیا تأثر قائم ہے، اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ یہاں اس گوشہ کو اجاگر کرنے میں افسانہ نگار نے ایک نئی تکنیکی، ہیئتی اور اسلوبیاتی تجربہ کے حوالے سے بہت ہی کام یاب افسانہ تخلیق کیا ہے۔
افسانہ حیات و ممات کا تخلیقی استعارہ ہے۔ یہ استعارہ انسانی نفسیات، جنسیات کے پیچ و خم کا، پیکار حیات کے نکات و رموز جاننے کا، حیات و کائنات کے مسلسل تصادم کی فتح و شکست کی روداد سنانے کا، انسان کے افعال و اعمال کے پس پشت جو عوامل کام کر رہے ہوتے ہیں، ان کی تلاش کا، فرد اور اجتماع کے ذہنی اور جذباتی رشتوں کی کہانی سنانے کا، انسان کی اجتماعی اور انفرادی زندگی کی تعمیر و تشکیل میں جو سماجی، نفسیاتی، تاریخی و جغرافیائی اور مذہبی عناصر کام کر رہے ہوتے ہیں، ان پر غور و فکر کرنے کا رول افسانہ ادا کرتا ہے اوراسی روشنی میں احمد رشید (علیگ) نے افسانے لکھے ہیں۔
افسانہ نگار کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اس کا ادب کے کسی رجحان، انفرادی یا اجتماعی نقطۂ نظر سے جڑنا نا گزیر ہو۔ اس طور پر احمد رشید کی کہانیاں زمانی قیود سے آزاد ہیں۔ اس لیے انہیں کسی مخصوص نقطۂ نظر سے جوڑ کر سمجھنا مناسب نہیں ہو گا۔ ان کے افسانوں میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ سامنے نظر آنے والے واقعات کو اس طرح سے پیش کرتے ہیں کہ اس میں تخلیق مکرّر جیسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور ان میں معنی کی نئی سطح ابھر کر سامنے آتی ہے کہ سامنے کے دیکھے بھالے واقعات بھی انوکھے اور نئے نظر آنے لگتے ہیں۔ زیریں سطح پر ایک اور کہانی غور و فکر کے بعد دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح ان کی کہانیاں مابعد جدید تصور ادب ’’بین المتونیت‘‘ سے تخلیقی سطح پر استفادے کی خبر دیتی ہیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ مابعد جدیدیت تخلیقی آزادی کا کھلا رویّہ ہے، ادبی جبر توڑنے کا، معنی کے چھپے ہوئے رخ کو دیکھنے اور دکھانے کا، ثقافتی صداقت اور تہذیبی حقیقت کو تلاش کرنے کا۔ ادب کو انسانی کلچر سے جوڑنے کا رجحان ان کہانیوں میں ملتا ہے۔ احمد رشید نے بھی اپنے افسانوں کو ماورائی تصورات و ثقافت کی ابتدا اور ارتقا کو عوامی مسائل سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے ہاں ایک طرف ماورائیت، دوسری طرف زمینی مسائل سے ارتباط فنی چابک دستی کی نشان دہی کرتا ہے۔ ان کی کہانیاں پس ساختیات، ایک متن پر دوسرے متن کی تخلیقی سطح پر پتا دیتی ہیں۔ افسانہ نگار نے انسان اور کائنات کے رشتے کو تخلیقی سطح پر جوڑ کر کہانیاں لکھی ہیں، ان کے افسانوں میں تہذیب و شعور کی جڑوں کی تلاش، اس تلاش کی لا محدودیت ہمیں نظر آتی ہیں۔ انہوں نے معنی کی مرکزیت سے انحراف کرتے ہوئے معنی کی تہہ داری موضوعاتی سطح کے علاوہ مکالموں اور جملوں کی ساخت تک میں نظر آتی ہے۔ انہوں نے اسلوب و زبان، تکنیک، موضوع اور کرداروں کو فنی وحدت میں اس طرح مدغم کیا ہے کہ ان کی کہانیاں پڑھتے ہوئے نئے ذائقے کا احساس ہوتا ہے اور افسانہ ’’وہ اور پرندہ‘‘ ان کی تخلیقیت کی عمدہ مثال ہے۔
احمد رشید کے افسانوں میں مذہبی احساس بار بار مختلف حوالوں سے ہمارے سامنے آتا ہے۔ اسی ضمن میں افسانہ ’’سراب‘‘ کو بھی رکھا جا سکتا ہے۔ یہ افسانہ گہرے مذہبی احساس پر مبنی ہے۔ تخلیق کائنات اور تخلیق انسان کے موضوع پر اسلامی نظریہ کو بڑے سلیقے کے ساتھ اس افسانہ میں نبھایا گیا ہے۔ یہ کائنات وسیع و عریض اور اپنے حسن و جمال کی وجہ سے دلفریب ہونے کے باوجود ایک فریب اور دھوکا ہے جسے ہم سراب سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔ خداوند قدوس کی نظر میں اس کی حیثیت ایک مچھر کے پر کے برابر کی بھی نہیں ہے اور انسان اس کی خوبصورتی اور رعنائی میں اس قدر ڈوب گیا ہے کہ نہ تو اپنی موت اور نہ ہی اس کائنات کے فنا ہونے کا احساس یاد ہے۔ دنیائے آب و گل میں انسان کو اتارنے سے پہلے خدا اور انسان کے درمیان ہونے والے مکالمہ سے کہانی کا آغاز ہوتا ہے لیکن دنیا میں آنے کے بعد انسان اپنے وعدہ سے پھر جاتا ہے اور اس کائنات کی رنگینی اور خوبصورتی میں کھو جاتا ہے اور خدا سے کیے ہوئے قول و قرار کو بھول کر تعیش پسندی اور لہو و لعب میں مبتلا ہو کر وہ اپنے نفس کا غلام ہو جاتا ہے جب کہ غلامی کا وعدہ وہ خدائے برتر سے کرتا رہتا ہے۔ یہاں بھی انسان کے ارتکاب جرم کی فطرت کا واضح اظہار ملتا ہے۔ جب انسان اس کائنات میں آتا ہے تو سب سے پہلے اس کے کان میں ایک شبد ’’شکتی‘‘ بولا جاتا ہے اور اسے اس کی کمزوری اور کمتری کا احساس کرایا جاتا ہے کیونکہ انسان کی تخلیق ایک غلیظ بوند سے ہوئی ہے اور جب تک وہ مادر رحم میں ہوتا ہے، اس کا کھانا پینا بھی گندا خون ہوتا ہے باوجود اس کے انسان سرکش اور مغرور ہو جاتا ہے جہاں اس کی یہ احسان فراموشی ہے وہیں اس کے غرور کے منھ پر ایک طمانچہ بھی ہے۔ گناہ کرنا انسان کی فطرت ہے مگر اس کو فطرت کے خلاف مذہبی پابندیوں کے ساتھ زندگی گزارنی ہوتی ہے اور وہ کہنے لگتا ہے ’’مگر میں قید ہوں ایک خوبصورت قید خانہ میں حکم یہ کہ خوبصورتی کی کالونچ سے بچو یوں کہ تمہیں سفید کُرتا پہنایا گیا ہے‘‘ ۔ لیکن جب انسان نے رومیں کو تلاش کرایا اور اسے اپنے وجود کی اہمیت کا احساس ہوا تو شکتی اور انسان کے درمیان مفارقت پیدا ہو گئی لیکن جب انسان خدا کے سامنے اقبال جرم کر لیتا ہے اور وہ تو بہ و استغفار کرتا ہے تب ہی مفارقت، رفاقت میں تبدیل ہوتی ہے۔
افسانہ ’’سراب‘‘ میں اسلامی اساطیرکو عصری تقاضوں سے مربوط کرنے کی فنکارانہ کوشش کی گئی ہے کہ یہ دنیا اور اس کی حشر سامانیاں قیامت کے خوفناک منظر سے کچھ کم نہیں ہیں جہاں انسان نے اپنی پہچان اور شناخت کو کھو دیا ہے اور وہ اپنی شرافت اور انسانیت کا ڈھونگ کرتا ہوا ’’پاداش کا صراط مستقیم‘‘ کی تلاش میں بھاگ رہا ہے۔ اچانک اس کی ملاقات ایک بزرگ سے ہو جاتی ہے جو اپنے سر کی ٹوپی اس کے سرپر رکھ کر اس خوبصورت کائنات اور شریف انسان کی پوشیدہ صورت اور حقیقت دکھاتا ہے اور وہ انسانی صورتیں اچانک جانوروں کی شکل میں بدل جاتی ہیں اور ان کی بری خصلتیں ظاہر ہو جاتی ہیں۔ وہ بزرگ احساس کراتا ہے کہ بے شک انسان کی تخلیق اسفل ترین شے سے ہوئی ہے لیکن اس خاکی مخلوق کو اشرف المخلوقات کا منصب خالق کائنات نے عطا کیا ہے۔ اسی کے لیے یہ خوبصورت کائنات سجائی گئی ہے اور عمر کے مختصر عرصہ کے بعد انسان موت کے ہمکنار ہو جائے گا اور ایک دن قیامت کی ہولناکی اس خوبصورت کائنات کو نیست و نابود کر دے گی۔ افسانے کا اختتام پر قیامت کے خوفناک منظر کا بیان ہے جس کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے۔ بزرگ کی زبانی قیامت کے ہولناکی منظر کا ذکر سن کر حیوانِ ناطق چیخ پڑتا ہے اور خوف زدہ ہو کر انسانوں کے جم غفیر میں شامل ہو جاتا ہے۔
ہمارے کہانی نگار نے مذہب پر قدغن لگانے اور مذہب میں پنپنے والی برائیوں کے ساتھ سیاست کے موضوع کے ساتھ کھل کر بحث کی ہے۔ یہ موضوع اس بات کی جانب دلالت کرتا ہے کہ افسانہ نگار نئے تقاضوں اور نئی سیاست سے پوری طرح واقف ہے۔ اسی حوالے کی ایک کہانی ’’پیشین گوئی‘‘ ہے۔ ’’پیشین گوئی‘‘ تمثیلی انداز میں سیاسی مکاریوں کا منظر نامہ پیش کرتی ہے۔ یہ کہانی بہ ظاہر مذہبی تاریخ کا افسانہ ہے جس میں اقلیتی، اکثریتی فرقوں کے درمیان سیاسی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی کشمکش کا فنّی اظہار ہے۔ موجودہ کائنات میں اقلیتی فرقہ کی تہذیبی شناخت اور سیاسی تشخص کے مسائل کرۂ ارض کے ہر خطہ میں پیچیدگی اختیار کر چکے ہیں۔ افسانہ اسلامک سائکلوجی اور ہندو متھالوجی کو عصری تقاضوں سے جوڑ کر تخلیق ہوا ہے۔ بہ ظاہر ’’پیشین گوئی‘‘ میں موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے واقعہ کو بیان کیا ہے لیکن بین السطور جمہوری نظام پر سوالیہ نشان قائم کیا گیا ہے۔ آج جدید دور میں جمہوریت کو سب سے اعلا نظام حکومت خیال کیا جاتا ہے لیکن کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں اس نظام حکومت کا استحصال نہیں ہوا ہو اور اس کا ناجائز استعمال نہ ہو رہا ہو۔ اس نظام حکومت میں عوام کو ووٹوں کی سیاست میں مصروف ایک مہرہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ سیکولرزم، سوشلزم جو جمہوریت کے بنیادی عناصر ہیں جو ایک ڈھونگ بن کر رہ گئے ہیں۔
افسانہ ’’پیشگوئی‘‘ کی کہانی اس طرح ہے کہ نجومی اطلاع دیتا ہے کہ غلام گروہ میں فلاں دن فلاں تاریخ کو ایک بچہ پیدا ہو گا جو بڑا ہو کر قابوس (فرعون)کی شاہی زوال کاسبب بنے گا۔ اس خوف سے بادشاہ تخلیقی عمل پر سختی سے پابندی عائد کرنے حکم جاری کر دیتا ہے۔ اس سال پیدا ہونے والے بچوں کو قتل کرا دیا جائے۔ یہاں تک کہ مباشرت کے عمل کو بھی شجر ممنوعہ قرار دیتا ہے لیکن قدرت کا نظام برحق ہے وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ اس کے فیصلے کسی کے پابند نہیں۔ فنا و بقا اسی کے اختیار میں ہے۔ اسی لیے قینان (حضرت موسیٰ علیہ السلام) کو پیدا ہونا تھا، وہ ہو کر رہے۔ یہاں حیرت و استعجاب کی گنجائش نہیں کہ یہ قدرت الٰہی کا کرشمہ ہے کہ خود قابوس کے بستر پر ہی قینان کا حمل ٹھہرا۔ خوف کی وجہ سے عمران (موسیٰ علیہ السلام کے والد) نے اس نو زائیدہ کو ایک دریا میں چھوڑ دیا۔ وہ بچہ تیرتا ہوا قینان کی سرحد پر پہنچا، جہاں قابوس اور اس کی بے اولاد بیوی سیر و تفریح میں مصروف تھے کہ اچانک بچہ پر نظر گئی۔ ممتا و محبت سے مملو ماں نے اس کو گود میں اٹھا لیا اور اس کی پرورش کرنے کا دل میں ٹھان لیا۔ نتیجتاً بچہ قابوس کے محل میں پلنے لگا۔ جوں جوں وہ بڑا ہوا اور اس کا ادراک و شعور بالغ ہوا، اس نے پیغام حق عام کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ جوق در جوق لوگ اس کے دست حق پر بیعت کرنے لگے۔ جگہ جگہ اس نے ہدایت کی شمع روشن کرنا شروع کر دیا۔ قابوس کے سرپر خطرے کی گھنٹی بجنے لگی۔ یہاں تک کہ حق گویوں کا ایک طاقتور گروہ تیار ہو گیا اور اس نے انقلاب کا نعرہ لگا دیا۔ قابوس کی مکمل مزاحمت کے باوجود وہ اس طوفان کو نہیں روک سکا اور ایک دن محل کے درو دیوار ہلنے لگے۔ آخر کار وہ طوفان اس کی حکومت پر قابض ہو گیا اور قابوس کو قید کر لیا گیا۔ منصف نے فیصلہ دیا ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ قابوس نے کبھی کسی کو قتل نہیں کیا لیکن اس نے ہمیشہ لوگوں کو قتل کرنے کے لیے اُکسایا ہے۔ اس لیے اس کو سزائے موت کا حکم سنایا جاتا ہے‘‘ ۔
بین السطور میں اندرا گاندھی کے دور حکومت کی کہانی کا گمان ہوتا ہے کہ ۱۹۷۱ء میں خاندانی منصوبہ بندی کی غرض سے محافظان ملک (پولس) نے نس بندی کے قانون کو نافذ کرنے کے لیے بہت ہی وحشت ناک کردار ادا کیا تھا۔ اکثریت میں ایک مخصوص طبقہ اقلیتی فرقہ کو غلام بنانا چاہتا ہے۔ وہ اقلیتی فرقہ کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی مسلسل کوشش میں لگا ہوا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی ایک وجہ ان کی معیشت کو تباہ کرنا بھی ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ان کو تعلیمی اعتبار سے بس ماندہ کرنا بھی ان کی پالیسی میں شامل ہوتا ہے۔ اگر ہم دنیا کے سیاسی منظر نامہ پر نظر ڈالیں تو اقلیتی طبقہ تعلیمی اعتبار سے پس ماندہ ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی مسائل سے بھی جھوجھ رہے ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کی تہذیب اور معاشرت کو کچلنے کی سازشیں بھی ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں۔
کہانی کا عنوان ’’پیشگوئی‘‘ پوشیدہ طوفان کی طرف کنایہ ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں پڑھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ظالم اور مغرور شہنشاہوں کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر عوام کا غصہ ایک طوفان کی شکل اختیار کر لیتا ہے جو ملک و قوم کی تقدیر بدلنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ آج دنیا کے بیشتر ممالک میں جمہوری نظام رائج ہے لیکن اس کی ناکامیاں اور خرابیاں بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ جمہوری نظام کی تعریف ’’عوام کی حکومت، عوام کے ذریعہ عوام کے لیے‘‘ نے اپنے نفی و مفاہیم کو کھو دیا ہے یا یوں کہہ لیجئے اس کی اصل شکل و صورت کو بگاڑ دیا ہے۔ داعیان قوم اور سیاسی رہنماؤں نے اپنے نجی مفادات کے حصول کے لیے اس نظام حکومت کا اس قدر استحصال کیا ہے کہ اس کی قدرو قیمت گھٹتی جا رہی ہے۔ ذاتی اغراض و مقاصد حاصل کرنے کے لیے جمہوریت اور سیکولرزم کو ڈھونگ بنا کے رکھ دیا گیا ہے جو یقیناً خوش آئند ہیں۔ مصنف نے افسانہ میں یہی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ آج جدید دور میں ابراہم لنکن کی تعریف فرسودہ ہو گئی ہے اور نئی معنویت کے ساتھ ہمارے ساتھ وارد ہوئی ہے۔ ’’اکثریت کی حکومت اکثریت کے ذریعہ اکثریت کے لیے‘‘ ۔ مصنف نے افسانہ کو عصری صورت حال کو مذہبی روایت سے جوڑ کر ایک نئے معنی و مفاہیم سے آشنا کیا ہے۔ تمثیلی انداز میں جدید معنی دے کر کہانی کو تہہ داری عطا کی ہے۔ ہندو دیو مالا اور اسلامی فکر کی آمیزش سے افسانہ ملی جلی تہذیب کا عکاسی کہنے کے بجائے کثرت میں وحدت کا نمونہ نظر آنے لگتا ہے۔
کہانی ’’بن باس کے بعد‘‘ فرسودہ مذہبی روایتوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی ہے۔ اس میں ماورائی اساطیری فضا بندی کی گئی ہے، ساتھ ہی افسانہ میں اسلامی اساطیراور ہندو متھ کی معنویت کو عصری صورت حال کے تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فساد کے بعد جو اثرات انسان کی زندگی پر نمایاں ہوتے ہیں ان کا اظہار افسانہ نگار نے بڑی چابکدستی سے پیش کیا ہے۔ فنّی نقطۂ نظر سے بھی یہ کہانی بڑی موثر اور منفرد ہے۔
علائم نگاری اور استعاراتی اسلوب سے فساد کے منظر کو تخلیقی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ افسانہ میں جانکی بنیادی کردار ہے جو چودہ دنوں تک فساد میں گھری رہتی ہے اور جب وہ اپنے گھر واپس ہوتی ہے تواس کو اپنی پاکیزگی ثابت کرنے کے لیے اگنی پریکشا سے گزرنا ہوتا ہے، باوجود اس کے کہ وہ اگنی پریکشا میں کامیاب ہو جاتی ہے پھر بھی مرد کے طنز و تعریض کا نشانہ بنتی ہے۔ وہ اپنوں کے نازیبا سلوک سے تنگ آ جاتی ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہوتی ہے کہ وہ جہاں تھی، وہ اس کے لیے معقول جگہ تھی۔ اس افسانے کو پڑھتے ہوئے راجندر سنگھ بیدی کے افسانے ’’لاجونتی‘‘ کی یاد آتی ہے جہاں ’لاجو‘ کے ساتھ بھی یہی واقعہ رونما ہوتا ہے۔ بیدی کے افسانے کے ماسوا احمد رشید کے افسانے میں نسائی حسیت کی مختلف جہتوں کو فن کارانہ شعور کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی عورت کی جذباتی کیفیات اور اس کے اندرونی کوائف کو بڑی چابک دستی سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کہانی میں ’’طوطا‘‘ ان فرسودہ روایتوں پر جن پر انسان عقل و خرد کی آنکھیں بند کر کے سختی سے پابند رہتا ہے، کی علامت کے طور پر وارد ہوتا ہے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مردوں نے عورت کے لیے عرصۂ حیات تنگ کر دیا ہے حالاں کہ وہ اس کائنات کے آدھے کی حصہ دار ہے۔ اس جدید اور ترقی یافتہ دور میں بھی عورت مرد کے آگے مجبور اور بے بس نظر آتی ہے۔ مرد ہی اسے اپنی شہوت اور ہوس کا شکار بناتا ہے، مرد ہی اس کی اگنی پریکشا لیتا ہے، مرد ہی قاتل ہے اور منصف بھی وہی ہے۔ انصاف ملنے کے باوجود بھی اس کی زندگی طنز و تعریض کا تازیانہ بن جاتی ہے۔ ’’جانکی‘‘ کی عصمت بھلے ہی محفوظ رہی ہو جو اگنی پریکشا سے بھی ثابت ہو چکی ہے لیکن پھر بھی بدنامی کا طوق اس کے گلے میں ڈال دیا گیا ہے۔ افسانہ کی معنویت اس امر میں پوشیدہ ہے کہ بہ ظاہر کہانی جانکی اور رگھویندر کے ارد گرد گھومتی ہے لیکن بین السطور میں رام اور سیتا کی کہانی (جو چودہ سال کا بن باس کاٹ کر ایودھیا واپس آتے ہیں) معلوم ہوتی ہے۔ چوں کہ اس درمیان میں راون سیتا کا ہرن کرتا ہے اور سیتا کو اگنی پریکشا سے گزرنا پڑتا ہے۔ کامیابی کے بعد بھی کہانی ختم نہیں ہوتی بلکہ اگنی پریکشا کا یہ سلسلہ آگے بھی چلتا رہتا ہے۔ جب ایک دھوبی گھر سے غائب ہونے پر اپنی بیوی کو مار پیٹ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’میں رام تھوڑی ہوں جو انہوں نے سیتا کو گھر میں رکھ لیا تھا۔‘‘ رام کے کانوں میں جب یہ آواز آتی ہے تو وہ سیتا جی کو لکشمی کے ہاتھوں جنگل میں چھڑواتا ہے۔ اس طرح کہانی کا عنوان ’’بن باس کے بعد‘‘ بڑا معنی خیز ہو جاتا ہے۔ یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ سیتا کو ’’جانکی‘‘ اور رام کو ’’رگھویندر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
رام چند ایک دیوتا تھے۔ اس کے باوجود انسانوں کے اس سماج میں وہ بھی مجبور نظر آتے ہیں اور سیتا کے حق میں وہ ایک مذاہب فیصلہ نہیں لے سکے لیکن ’’بن باس کے بعد‘‘ کا راگھویندر پنجڑے سے طوطے کو آزاد کر دیتا ہے۔ راگھویندر، جانکی کو گلے سے لگا لیتا ہے۔ افسانہ کا انجام طربیہ اور پُر امید ہے اور معنی خیز جملوں پر ختم ہوتا ہے۔ اس طرح یہ کہانی روایت، مذہبی اجارہ داری کے خلاف صدائے احتجاج کی طرف نشاندہی بھی کرتی ہے۔
جنس ایک ایسی جبلت ہے جس کا توانا اظہار عالمی ادب کے مختلف زبانوں میں الگ الگ زاویوں سے ہوتا رہا ہے۔ یونانی ادب، عربی ادب، انگریزی اور دوسرے ادبیات میں جنسی استعارے کی پوری روایت موجود ہے۔ ہندوستان میں سنسکرت کے حوالے سے بات کریں تو یہاں بھی جنسی اظہار کی پوری روایت موجود ہے۔ اردو افسانہ، چوں کہ مغربی صنف سے مستعار ہے اس لیے یہ اپنے کمزور و ناتواں کاندھے پر ہر تحریکات و رجحانات کا بوجھ برداشت کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ اردو افسانے میں اس حوالے سے ابتدائی کاوشیں کی جاتی رہی ہیں۔ یلدرم کے ترکی تراجم اس حوالے سے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ یلدرم کے بعد نیاز، مجنوں وغیرہ کی چند تخلیقات میں اشارۃً جنسی مسائل کو دبے لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔ معتوب زدہ افسانوی مجموعہ اس حوالے کی پہلی کوشش تھی۔ ’’انگارے‘‘ میں شامل افسانہ ’’جنت کی بشارت‘‘ کے کردار مولانا داؤد پر قاری کی نظر جاتی ہے تو قاری کے ذہن میں مذہب سے متعلق فرسودہ روایات، قول و فعل میں تضادات کا جواز، جنت الفردوس کی ابدی خواہش، نیک عمل کے پس منظر میں جنتی عورتوں (حوروں) کی تمنا اور نہ جانے کن کن نکات کی جانب قاری کا ذہن بھٹک جاتا ہے۔ ترقی پسندی کے دور میں منٹو، عصمت پر لگے الزامات،ش مظفر پوری اور سید محمد محسن کے افسانوں میں جنس کی عکاسی اور بعد کے افسانہ نگاروں کی نثری کاوشیں جنس کے اظہار میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔ ہم عصروں افسانہ نگاروں میں شموئل احمد، عارف خورشید،م ناگ، مشرف عالم ذوقی، شاہد اختر، اشتیاق سعید، صغیر رحمانی، شبیر احمد، اختر آزاد اور دوسرے افسانہ نگاروں میں اس روایت کی توسیع ہوئی ہے۔ احمد رشید کا شمار بھی انہی افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے بھی جنس کو موضوع بنا کر کئی اہم کہانیاں رقم کی ہیں لیکن ان متون میں انھوں نے اپنی بات کو ڈھکے چھپے انداز میں بیان کیا ہے۔ ’’تیسری شخصیت‘‘ ، ’’لال تکون‘‘ ، ’’فول۔۔ ۔۔ پھول‘‘ ، ’’برف تلے‘‘ ، ایک خوبصورت عورت‘‘ ، ’’نیلم‘‘ ، ’’چھت اڑ گئی‘‘ اور ’’ہاف بوٹل بلڈ‘‘ جیسے افسانوں کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اس ضمن میں ان کے افسانے ’’دوسال بعد‘‘ کو کافی اہمیت حاصل ہے۔ اس افسانہ میں تانیثیت اور نسوانیت کے فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ خواتین کے حقوق کی تحریکات مختلف ادوار میں مختلف سطحوں پر چلتی رہی ہیں البتہ ان میں زیادہ تیزی انیسویں صدی عیسوی میں آئی اور بیسویں صدی عیسوی میں نسائی تحریک Feminism کو زیادہ کامیابی ملی۔ حالیہ برسوں میں ایک مستقل تحریک کی صورت اختیار کر لی ہے۔ جملہ معاملات زندگی میں عورت ہر قید کو توڑ کر آزادی کی خواہاں نظر آتی ہے۔ حالاں کہ عورت کی اہمیت اور وجود سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے۔ وجودِ زن سے اس کائنات کی خوبصورتی قائم ہے۔ عورت کے بنا یہ کائنات ادھوری رہتی۔ اس کائنات میں وہ برابری کی حقدار ہے۔ آدھے آسمان، آدھی زمین کی وہ مالک ہے مگر پھر بھی وہ ہمیشہ اپنے حقوق سے محروم رہی ہمیشہ مردوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ سماج میں اس کی حیثیت دوئم درجہ کی رہی ہے۔ یہی وہ اسباب ہیں جن کی بنیاد پر Feminism نے تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ زندگی کے ہر معاملہ میں عورت آزادی کے حصول کے لیے کوشاں دکھائی دیتی ہے۔ ہندوستانی تہذیب میں عورت کو مرد کی شکتی کہا گیا ہے کہیں کہیں مرد کی ترقی میں عورت کا دخل ہونے کا بار بار ہمیں ذکر سننے کو ملتا ہے۔ کہانی کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:
’’سورج جو نیزوں کی نوکوں پر کھڑا ہو کر اعلان کرتا ہے کہ پوری کائنات کو جلا کر ہی دم لوں گا۔‘‘
کہانی کے شروع میں Ring-o-Bell ہوٹل کی منظر کشی کی گئی ہے۔ ہوٹل روشن میں نہایا ہوا ہے۔ نِیتا نام کی رقاصہ اسٹرپ ڈانس سے ہوٹل کو گرما رہی ہے۔ لوگوں کی آنکھیں‘‘ کولہو اور پستالوں پر جمی ہوئی ہیں اور وہ ان سب کا بوجھ اٹھائے بڑی مستی میں ادھر ادھر ہال کی گیلریوں میں رقص کرتی ہوئی داد نظارہ دے رہی ہیں۔ اچانک دیکھنے والوں کو رقص میں شامل ہونے کی دعوت ملتی ہے اور ہال میں اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اس درمیان ایک نوجوان کے ڈرنک میں شامل ہونے کے لیے اس لڑکی نے اجازت چاہی۔ دونوں نے شراب پی اور اسموکنگ Smokingکی۔ لڑکی سے باتیں کرنے کے لیے نوجوان نے لان میں جانے کے لیے اصرار کیا۔ وہ دونوں بے تکلفی سے زندگی کے مختلف موضوعات اپنی پسندو ناپسند پر گفتگو کرتے رہے۔ لڑکی کے اظہار خیال سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ Liberal Minded عورت ہے۔ آزادی کی دلدادہ اشوک سکندر، اکبر سے اسے اس لیے نفرت ہے کہ یہ سب ڈکٹیٹر تھے۔ اس کے خیال میں:
’’مجھے بزرگوں سے کوئی دلچسپی نہیں اس لیے کہ زندگی بھر طوائفوں جیسی زندگی گزارتے ہیں اور بڑھاپے میں رامائن کا پاٹھ کرتے ہیں‘‘ لڑکی نے کہا۔
یہ انسانی تہذیب کی روایتوں اور ثقافتی قدروں کے خلاف ایک صدائے احتجاج ہے۔ ساتھ ہی شرافت اور انسانیت کے اصولوں کو وہ ڈھونگ قرار دیتی ہے کیوں کہ ان میں ظاہرداری نظر آتی ہے۔ چغلی کرنا، حسد، تعصب، نفرت یہ ان لوگوں کی ذہنی بیماریاں ہیں جو شرافت کا لبادہ پہنے ہوتے ہیں۔ کہانی کے دوسرے حصہ میں نوجوان جرمنی میں بھر پور زندگی جیتا ہے۔ عشق و محبت میں ڈوبی ہوئی زندگی گزارتا ہے۔ وہ ایسی عیش و عشرت کی اس زندگی کو یاد کرتے ہوئے وہ سوچتا ہے ’’میں نے دو سال کے عرصہ میں ہندوستان کی تیس سالہ زندگی سے کہیں زیادہ عشق کیے ہیں‘‘ ۔ یہاں یہ پتا چلتا ہے کہ معاملات عشق میں مرد قطعاًسنجیدہ نہیں ہے بلکہ اس کی طبیعت میں لا اُبالی پن ہے۔ افسانہ کا آخری حصہ اس لیے معنی خیز ہو جاتا ہے کہ اس میں پہلا حصہ نظریۂ لبرل ہیومن ازمLiberal Humanism کی نفی ہو جاتی ہے۔ خصوصی طور سے free Sex کی، کیوں کہ عورت کی جبلت سے یہ نظریہ میل نہیں کھاتا۔ عورت کی بنیادی فطرت اس کی شرم و حیا، نزاکت اور نسوانیت میں پوشیدہ ہے۔ عورت کی فطرت اور طاقت اور مرد کی فطرت اور طاقت دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مرد اس لیے مرد ہے کہ اس کے پیچھے عورت کی طاقت مستترہے اور عورت اس لیے عورت ہے کہ اس کے پس پشت مرد کی شکتی پوشیدہ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔
یہاں یہ امر وضاحت طلب ہے کہ وہ لڑکی جب ایئر پورٹ پر لڑکے کو چھوڑنے آتی ہے تو رخصت کرتے وقت اس کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں اور جاتے وقت اپنے ہاتھ سے بُنا ہوا سوئٹر اس کو تحفہ دیتے وقت ایک وعدہ لیتی ہے ’’وہاں کا وہیں چھوڑ کر آنا‘‘ یہاں یہ محسوس ہوتا ہے جنس Sex سے شروع محبت Love سے سنجیدگی اور Devotion میں بدل چکا ہے کیوں کہ صدیوں کی تہذیب میں شخصیت کی نشو و نما میں ایسی طاقت توانائی ہوتی ہے کہ تانیثیت کا جذبہ میں ادراک و شعور آنے تک موم کی طرح پگھل جاتا ہے۔ ہندوستانی تہذیب میں عورت کو مرد کی شکتی کہا گیا ہے لیکن افسانہ کے اختتامیہ جملوں میں اس کا اظہار دوسرے انداز میں ہوا ہے کہ عورت کے پاس شکتی مرد کی مستعار ہوتی ہے۔ اپنی ذات میں عورت نسوانی کمزوریوں کی حامل ہوتی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو احمد رشید کا یہ افسانہ عورت و مرد کی یکساں صورت حال اور مساوات کی جانب بھی اشارے دیتا ہے ساتھ ہی یہ کہ دونوں جنس ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔
احمد رشید کے افسانوں میں ’’عورت‘‘ مختلف انداز سے بر آمد ہوتی رہی ہے۔ عورت ذات کی شخصیت کی تفہیم ان کے افسانوں میں مختلف حوالوں کے ساتھ ظاہر ہوتا رہا ہے۔ مثلاً ’’چھت اڑ گئی‘‘ میں اس کائنات کو ایک خوب صورت عورت سے تشبیہ دی گئی ہے کہ ایک شخص دنیا کو حاصل کرنے کے لیے دیوانہ وار اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ وہ نشے کی حالت میں ہے اور دنیا اُسے بہت خوبصورت نظر آ رہی ہے۔ نشے کے عالم میں وہ اپنی نو بیاہتا دلہن کا بستر سمجھ کر قبر میں لیٹی ایک مردہ عورت سے لپٹ جاتا ہے لیکن جب اس کا نشہ ہرن ہو جاتا ہے تو وہ چونک پڑتا ہے اور اس پر یہ منکشف ہوتا ہے کہ نشے کی حالت میں دنیا خوبصورت دکھائی دیتی ہے اور جیسے ہی نشہ کافور ہو جاتا ہے تو اس کی حیثیت بے معنی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح کہانی کار ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ میں عورت کے استحصال کی داستان تاریخی شواہد کی روشنی میں پیش کرتا ہے۔ اس کہانی کی عورت کردار، جو کہ ماڈرن ہے، خود مختار ہے اور اپنی مرضی کی مالک بھی ہے پھر بھی وہ اپنی زندگی سے غیر مطمئن ہے۔ نوکری اور زندگی کی دوسری مصروفیات سے اکتا کر جب وہ تنہا ہوتی ہے تو عورت کے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں سوچتی ہے اور اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ کل بھی عورت اپنا وقار، اپنی عظمت ڈھونڈ رہی تھی اور آج بھی اس کے لیے کوشاں ہے۔ عورت کو آج بھی وہ مقام حاصل نہیں ہوا ہے جس کے لیے وہ ایک زمانے سے بیتاب ہے۔ اسی تسلسل کی کہانی ’’فیصلے کے بعد‘‘ ہے جہاں عورت ایک مزاحمتی انداز میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ اس کہانی میں اہم بات یہ ہے کہ عورت آزادیِ نسواں کی قائل ہے، ساتھ ہی اس کا شوہر بھی آزاد طبیعت اور کھلے ذہن کا مالک ہے، پھر بھی زندگی میں ایک ایسا موڑ آتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہوئے علاحدگی اختیار کر لیتے ہیں اور دونوں میں طلاق ہو جاتی ہے۔
ہندوستان کی تاریخ میں فسادات کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ فساد کی یلغار یوں تو پوری دنیا جھیل رہی ہے اور ہر ملک اس مسئلے کے تئیں ہراساں ہے۔ فسادات میں انسانوں کی ایسی جذباتی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ ہر شخص اس کو صاف طور پر محسوس کر سکتا ہے۔ فن کار چوں کہ زمانے کا نباض ہوتا ہے، اس لیے فن کار کا متاثر ہونا کوئی عجیب بات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ادب میں بھی فسادات کا ادب وافر مقدار میں رقم کیا گیا ہے۔ احمد رشید کی بھی چند کہانیاں اس ضمن میں حوالے کے طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ افسانہ ’’سہما ہوا آدمی‘‘ میں فساد کو ہی براہ راست موضوع بنایا گیا ہے جس میں مذہب کی بنیاد پر انسانیت کا قتل کیا جاتا ہے۔ اس کہانی کا کردار فساد سے بچنے کے لیے اپنے ٹانگوں کے درمیان کا مذہب چھپا کر بھاگنے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ اس کی شہادت کے بعد جب اس کی لاش ملتی ہے تو اس کا عضو تناسل غائب ہوتا ہے۔ اس افسانے میں کہانی کار نے فساد کی اس نفسیات کی جانب اشارہ کیا ہے جہاں مذہب اندھی تقلید کے نتیجے میں جنم لیتا ہے اور وحشیانہ عمل اختیار کر لیتا ہے۔ فساد کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ ایک عورت کا استحصال کرتے ہوئے انسانیت شرمسار بھی نہیں ہوتی ہے۔ افسانہ ’’بی بی بولی‘‘ کا موضوع فساد میں گھری عورت کے ساتھ ہوئے استحصال کی جانب اشارہ کرتا ہے، عورت کے ساتھ ہوئے ظلم و ستم کو سنتے ہوئے لوگوں کے جسم کانپ اٹھتے ہیں لیکن اس عمل کو انجام دیتے ہوئے لوگوں کی حس مر جاتی ہے اور وہ اس کام کو فرض سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔ اسی ضمن کی ایک کہانی ’’ایک خوبصورت عورت‘‘ بھی ہے جہاں عورت ہی ہوس کا شکار بنی ہے۔ یہ کہانی یوں تو گجرات میں ہوئے فساد کی یاد دلاتی ہے جہاں انسانیت کے ساتھ کھلواڑ کا ناٹک کیا گیا اور عورت کو استعمال کیا گیا۔ فساد میں گھری عورت کو لوگ نعمت غیر مترقبہ تصور کرتے ہیں اور گھناؤنی حرکت کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں۔
احمد رشید کے موضوعات کی بات کریں تو پتا چلتا ہے کہ انھوں نے تمام بڑے موضوعات کا اپنے افسانوں میں احاطہ کیا ہے، خواہ وہ انسانیت کی بے مروتی کا بیان ہو یا دنیا سے ختم ہوتی تہذیب کا المیہ، عدم مساوات کا رونا ہو یا سیاسی رسہ کشی کا عالمی منظر نامہ، عورتوں کا استحصال ہو یا مفلسی و دنیا کی بے ثباتی کا ذکر، الغرض ہر موضوع پر ان کے افسانے ہمیں پڑھنے کو مل جائیں گے۔ سیاسی رسہ کشی پر ان کی کئی کہانیاں ہیں جن میں ’’ناخدا‘‘ ، ’’مداری‘‘ ، ’’حاشیہ پر‘‘ اور اندھا قانون‘‘ قابل ذکر ہیں۔ افسانہ ’’ناخدا‘‘ کا موضوع امریکہ کی چودھراہٹ ہے۔ آج پوری دنیا میں جو افراتفری نظر آتی ہے اس کا وہی ذمے دار ہے۔ اس پس منظر میں احمد رشید نے کھلے طور پر یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ امریکا کی چودھراہٹ کا زوال ہونے والا ہے کیوں کہ ہر عروج کے بعد زوال کا آنا ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح ’’مداری‘‘ اور ’’حاشیہ پر‘‘ جیسے افسانے بھی سیاسی موضوعات پر مبنی کہانیاں ہیں جہاں پر اقلیتی اور اکثریتی طبقے میں کشمکش جاری ہے اور ان کے تصادم سے طرح طرح کے مسائل پنپنے لگتے ہیں۔ ساتھ ہی اس افسانے میں مسلمانوں کی تہذیبی شناخت پر بھی راوی سوالیہ نشان قائم کرتا ہے کہ اپنی شناخت کا مسئلہ بہت باریک اور نا قابل برداشت ہے۔ افسانہ ’’مداری‘‘ میں تو سیاسی رہنماؤں کو مداری کی تمثیل کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے۔ بہ ظاہر یہ کہانی مداری کے تماشے اور اس کی چرب زبانی کے ذریعہ پیش ہوا ہے لیکن اس کے پس منظر میں گنگا جمنی تہذیب کو پیش کرنے کی عمدہ کوشش ہے۔ مجموعی طور پر یہ بات صاف طور پر کہی جا سکتی ہے کہ احمد رشید کے فکشن کا ایک خاص ڈکشن ہے اور موضوع کے ساتھ ٹریٹمنٹ کا اپنا ایک خاص انداز ہے جسے وہ علامات، استعارات اور تشبیہات کے ذریعے بیان کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں اور بہت حد تک کامیاب بھی ہیں۔ ان کی کہانی ایک ہی قرأت میں ختم کرنے کا تقاضا کرتی ہے، ورنہ کہانی کا سرا ذہن سے پھسل جاتا ہے اور قاری، کہانی میں استعمال شدہ علائم سے پوری طرح واقف نہیں ہو سکتا۔ یہی ان کے افسانوں کا فنی اختصاص ہے۔
٭٭٭