اردو میں نشانیات(Semiotics) کے موضوع پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ اردو کے بعض نقادوں کی تحریروں میں نشانیات کا ذکر ضرور مل جاتا ہے لیکن محض خال خال۔ اردو میں پروفیسر آل احمد سرور غالباً پہلے بزرگ نقاد ہیں جنھوں نے اپنے ایک تنقیدی مضمون میں نشانیات کا ذکر کیا ہے۔ (۱) جدید نقادوں میں شمس الرحمٰن فاروقی، وزیر آغا، گوپی چند نارنگ، قمر جمیل، محمد علی صدیقی اور نجم اعظمی وغیرہ کی بعض تحریروں میں نشانیات کے حوالے ملتے ہیں۔ ان میں سے ہندوستان میں پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنی کتاب ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات (۲) میں اور پاکستان میں قمر جمیل نے اپنے رسالے دریافت میں نشان(Sign) اور نشانیات(Semiotics) سے متعلق معلومات افزا بحثیں اٹھائی ہیں۔ علاوہ ازیں شب خون (الہ آباد) اور صریر (کراچی) جیسے ادبی جرائد میں بھی بیسویں صدی کے آخری دو دہوں کے دوران ساختیات(Structuralism) ، مابعد ساختیات(Post -Structuralism) کے ساتھ ساتھ نشانیاتی فکر پر بھی اکثر بحثیں ہوتی رہی ہیں۔ نشانیات کا ساختیات کے ساتھ بہت گہرا رشتہ ہے۔ لہٰذا جن نقادوں نے ساختیاتی نظریے پر غور و فکر سے کام لیا ہے انھوں نے نشان اور نشانیات کے تصورات سے بھی بحث کی ہے، کیوں کہ ماہرِ ساختیات کے لیے نشانیاتی نظریے سے واقفیت از بس ضروری ہے۔
اردو میں اگرچہ نشانیات کے حوالے گذشتہ پندرہ بیس برسوں سے وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے ہیں، تاہم نشانیاتی نظریے پر، بالخصوص ادب اور نشانیات کے رشتے پر اردو میں اب تک کوئی باقاعدہ اور ٹھوس کام نہیں ہوا ہے۔ ان سطور میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ نشانیات کا ایک مختصر سا خاکہ پیش کیا جائے اور ادب کے ساتھ اس کے رشتے پر روشنی ڈالی جائے۔
’نشانیات‘ انگریزی کے لفظSemiotics کا ترجمہ ہے۔ اگر اس کی تعریف بیان کی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ نشانات(Signs) کا علم ہے، یعنیScience of Signs ہے۔ یہ وہ علم ہے جس میں ہر طرح کے نشانات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس علم کوSemiologyبھی کہتے ہیں۔ اردو میں سیمیالوجی کے لیے بھی ’نشانیات‘ کی ہی اصطلاح مستعمل ہے۔
علمِ نشانیات(Semiotics) میں نشانات(Signs) کے استعمال اور اس کے دائرہ عمل سے بحث کی جاتی ہے۔ دراصل ہماری زندگی اور معاشرے نیز ہمارے گردو پیش کی دنیا میں نشانات کا مکمل نظام پایا جاتا ہے جس کا مطالعہ نشانیات کا اصل مقصد ہے۔ نشانات کا استعمال صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں، بلکہ حیوانات کے یہاں بھی اس کے استعمال کی واضح شکلیں ملتی ہیں۔ شہد کی مکھیوں کا رقص کرتے ہوئے یہ بتانا کہ پودوں اور پھولوں کا میٹھا رس جس سے شہد بنتا ہے کہاں دستیاب ہے، حیوانی نظامِ نشانات(System of Signs) کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس کا مطالعہ نشانیات کا موضوع قرارپاتا ہے۔ بعض دوسری طرح کے نشانات مثلاً جسمانی حرکات، پہننے اوڑھنے کے طریقے اور بعض فنون کے اظہاری طریقے(Expressive Systems) بھی نشانیات کے دائرے میں تے ہیں۔ زبان بھی ایک طرح کا نظامِ نشانات(Sign-System) ہے جو بیحد پیچیدہ اور ہمہ گیر ہے۔ زبان میں وہ تمام خوبیاں بدرجۂاتم موجود ہیں جو اسے دوسرے نظامِ نشانات سے ممیّز کرتی ہیں اور اسے ایک انوکھا اور دلچسپ نظامِ نشانات بناتی ہیں۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ نشانات کے تمام تر امکانات کا استعمال ترسیلی مقاصد اور اطلاع رسانی(Communication) کے لیے کیا جاتا ہے اور نشانیات کا علم ہمارے لیے ایک ایسا دائرۂ کار فراہم کرتا ہے جسے بروئے عمل لا کر ہم انسانی ذرائع، ترسیل کے تمام پہلوؤں کا پتا لگا سکتے ہیں، خواہ وہ جسمانی حرکات ہوں یا قوتِ سماعت سے محروم لوگوں کے لیے استعمال کی جانے والی نشانات پر مبنی زبان(Sign Language) یا محض تکلمی طریقۂ ترسیل یعنی لسان(Language) ۔
نشانیات ایک قدیم علم ہے جس کاسراغ تیسری صدی قبل، مسیح کے دوران یونان کے اسٹوئل فلسفیوں(Stoic Philosophers) کے یہاں ملتا ہے، لیکن نشانیات کو نشانات کی سائنس(Science of Signs) کے طور پر برتنے کا کام سب سے پہلے سترھویں صدی کے نصفِ آخر میں جان لاک نے انجام دیا۔ بیسویں صدی کے آغاز سے یورپ اور امریکہ میں جدید نشانیات(Modern Semiotics) کا فروغ ہوتا ہے۔
بیسویں صدی میں سب سے پہلے یورپ میں فرڈی نینڈی سسیور نے جدید نشانیات کو فروغ دیا۔ سسیور کو ’’جدید لسانیات کا باوا آدم‘‘ کہا گیا ہے کیوں کہ یہی زمانہ لسانیاتِ جدید(Modern Linguistics) کے فروغ کا بھی ہے جس کا سہرافرڈی نینڈی سسیور کے سر ہے۔ زبان سے متعلق سسیور کے نئے نظریات اور چونکا دینے والے افکار سے مغرب میں جدید لسانیات کی بنیاد پڑتی ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ نشانیات کا لسانیات کے ساتھ بہت گہرا رشتہ ہے۔ فرڈی نینڈی سسیور کی کتابCourse in General Linguistics جو اس کی وفات کے تین سال بعد ۱۹۱۶ء میں شائع ہوئی جدید لسانیات کی کلید کا درجہ رکھتی ہے، اور یہی کلیدی کتاب جدید نشانیات کا بھی نقطۂ آغاز تسلیم کی گئی ہے۔ (۲)
فرڈی نینڈی سسیور سوٹزرلینڈ کے ایک فرانسیسی خانوادے میں ۱۷ نومبر ۱۸۵۷ء کو پیدا ہوا۔ اس نے اپنی ابتدائی تعلیم جنیوا میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ ۱۸۷۲ء میں جرمنی گیا جہاں اس نے لپزگ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ اس زمانے میں یہ دانش گاہ نئے مکتبِ فکر کے نوجوان ماہرینِ لسانیات کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی جنھیں ’نو قواعد داں‘ (Neo-Grammarians) کہا جاتا تھا۔ تاریخی لسانیات کے ضمن میں ان نوجوانوں کے افکار و انکشافات چونکا دینے والے تھے۔ سسیور ان کے خیالات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ چنانچہ اس نے محض ۲۱ سال کی عمر میں ۱۸۷۸ء میں ایک کتاب لکھی جس میں ہند یورپی کے مصوتی نظام کے ارتقاء پر بالکل نئے انداز سے روشنی ڈالی گئی تھی۔ اس کتاب کوMemoire کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر استناد کا درجہ رکھتی ہے۔ سسیور سنسکرت زبان سے بھی واقف تھا۔ اس نے ’’سنسکرت میں حالتِ اضافی کا استعمال‘‘ پر تحقیقی مقالہ لکھ کر لپزگ یونیورسٹی (جرمنی) سے ۱۸۸۱ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ سسیورMemoire کے علاوہ کوئی اور کتاب نہ لکھ سکا اور ۱۹۱۳ء میں اس کا انتقال ہو گیا۔
فرڈی نینڈی سسیور کی بے پناہ ذہانت اور لسانی بصیرت کا اندازہ لوگوں کو اس وقت ہوا جب اس کی وفات کے تین سال بعد ۱۹۱۶ء میں اس کی عہد آفریں کتابCourse in General Linguisticsشائع ہوئی۔ یہ کتاب سسیور کے شاگردوں کے کلاس نوٹس(Class Notes) اور کاغذ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں اور پرزوں پر خود سسیور کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریروں کی مدد سے پس از مرگ ترتیب دی گئی ہے۔ یہ کتاب جدید لسانیات یا ساختیات لسانیات(Structural Linguistics) کا اولین نقش ہے۔ اسی کتاب سے مغرب میں لسانیاتِ جدید کا آغاز ہوتا ہے۔ سسیور کے نشانیاتی نظریے کی بنیاد بھی یہی کتاب فراہم کرتی ہے۔
فرڈی نینڈی سسیور نے زبان سے متعلق بہت سے نئے اور انوکھے تصورات پیش کیے جو اس سے قبل کسی نے پیش نہیں کیے تھے۔ اس کے لیے اس نے بعض نئی اصطلاحیں وضع کیں اور بعض پرانی اصطلاحوں کو نئے مفاہیم عطا کیے۔ اس طرح اس نے زبان سے متعلق اپنا ایک منفرد نظریہ پیش کیا جو سسیور کا نظریۂ لسان یا فلسفۂ لسان کہلایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سسیور کا نظریۂ لسان(Theory of Language) اس کے نظریۂ نشان(Theory of Sign) سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔
سسیور زبان کو ایک ’نام‘ (System) تسلیم کرتا ہے۔ وہ یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ اس نظام کی بنیاد ’نشانات‘ (Signs) پر قائم ہے۔ اس لیے زبان کی تعریف اس کے نزدیک ’نظامِ نشانات‘ ہے۔ سسیور کے تصورِ نشان کے مطابق ہر لفظ ایک ’نشان‘ (Sign) ہے جسے ’لسانی نشان‘ (Linguistics Sign) بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہر نشان میں صوت و معنی کا دوہرا رشتہ پایا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر نشان دو طرفہ یادو رخا(Dyadic) ہوتا ہے۔ نشان کا ایک رخ تکلم یا اظہار(Expression) ہے جسے صوتی امیج(Sound-Image) کہتے ہیں۔ سسیور اسےSignifier کے نام سے یاد کرتا ہے جس کے لیے اردو میں ’معنی نما‘ کی اصطلاح وضع کی گئی ہے۔ نشان کا دوسرا رخ معنی ہے۔ صوتی امیج کے ذریعے ذہن پر جو تصویر ابھرتی ہے یا جو تصور قائم ہوتا ہے اسے ’معنی‘ (Meaning) یا ’تصور معنی‘ کا نام دیا گیا ہے۔ سسیور اس کے لیےSignified کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ صوتی امیج اور معنی یاتصورِ معنی کے باہم اتصال کو سیور ’نشان‘ (Sign) کہتا ہے دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ نشان وہ اجزا پر مشتمل ہوتا ہے: صوتی امیج(Signifier) اور معنی تصورِ معنی(Signified) ۔ یہ دونوں اجزا باہم مربوط و متصل ہوتے ہیں۔ نشان کے دونوں رخوں کو یوں ظاہر کیا جا سکتا ہے۔
معنی نما
(Signifier)
نشان(Sign) = ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
معنی /تصورِ معنی
(Signified)
سسیور کے فلسفۂ لسان سے متعلق یہاں ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ سسیور لفظ کو محض نشان تصور کرتا ہے۔ اسے وہ شے تصور نہیں کرتا اور نہ ہی اسے وہ شے کا نام دیتا ہے۔ اس کے نزدیک لفظ یعنی نشان صوت و معنی کا اتصال ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سسیور نے لفظ کے اس روایتی تصور کو باطل قرار دے دیا ہے جس کے تحت بقولِ گوپی چند نارنگ ’’زبان لفظوں کے ایسے مجموعے کا نام ہے جس کا بنیادی مقصد اشیاء کو نام دیتا ہے‘‘۔ (۴) نشان کی ایک خصوصیت سسیور نے یہ بتائی ہے کہ یہ خود اختیاری(Arbitrary) ہوتا ہے، یعنی کسی بھی نشان کی صوتی امیج(Signifier) اور اس کے معنی(Signified) کے درمیان رشتہ فطری نہیں ہوتا بلکہ من مانا یا خود اختیاری ہوتا ہے۔ نشان کی دوسری خصوصیت اس کا خطی(Linear) ہوتا ہے۔ تکلم کے دوران نشانات یکے بعد دیگرے تواتر کے ساتھ وقوع پذیر ہوتے ہیں اور ایک سلسلہ یا زنجیر بناتے ہیں۔ اسی لیے ان کی تقطیع یا اجزا کاری(Segmentation) کی جا سکتی ہے۔
سسیور نے ’نشان‘ کو ایک عام اصطلاح کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس کے نزدیک الفاظ، مرکبات، فقرے اور جملے سبھی نشانات کا درجہ رکھتے ہیں۔ جنھیں مزید نشانات کے ٹکڑوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ نشان کی دو بنیادی قسمیں بیان کی گئی ہیں، ’سادہ نشان‘ (Simple Sign) اور ’منظمہ‘ (Syntagm) ۔ اگر کسی نشان کے مزید ٹکڑے نہ کیے جا سکیں تو وہ سادہ نشان کہلائے گا، اور اگر یہ دو یا دو سے زیادہ نشانات پر مشتمل ہو تو اسے ’منظمہ‘۔ جملے کی نحوی ترکیب میں ایک نشان دوسرے نشان کے ساتھ اور ایک منظمہ دوسرے منظمہ کے ساتھ افقی طور پر(Syntagmatically) مربوط ہوتا ہے۔ نشانات کے درمیان یہی ارتباط نظامِ نشانات(Sign-System) کہلاتا ہے۔ زبان بھی ایک نظامِ نشانات ہے جس میں ہر نشان ایک دوسرے نشان کے ساتھ باہمی رشتے میں پرویا یا گندھا ہوتا ہے۔ نشانات کے درمیان انھیں رشتوں کی وجہ سے معنی پیدا ہوتے ہیں اور زبان کی افہام و تفہیم ممکن ہوتی ہے، ورنہ نظام سے ہٹ کر نشان کے کوئی معنی نہیں ہوتے۔ نشانات کے معنی، نشانات کے رشتوں کا وہ نظام طے کرتا ہے جس میں یہ پروئے ہوتے ہیں۔ نشانات اور معنی کے درمیان یہ رشتہ خود اختیاری اور من مانا ہوتا ہے۔
فرڈی نینڈی سسیور کے پیش کردہ تصورِ نشان سے ہم نہ صرف زبان کے نظامِ نشانات کا گہرا مطالعہ کر سکتے ہیں، بلکہ انسانی زندگی کے نظام اور اس سے تعلق رکھنے والے تمام تر سماجی اور تہذیبی مظاہر کے نظام کو بھی سمجھ سکتے ہیں جس میں ادب بھی شامل ہے۔
(۳)
علمِ نشانیات کا ارتقا یورپ کے علاوہ امریکہ میں بھی ہوا۔ فرڈی نینڈی سسیور کے انتقال (۱۹۱۳ء) کے تقریباً ۱۵ سال بعد امریکہ کے ایک دانشور اور فلسفی چارلز سینڈرز پیپرس نے تصورِ نشان کے نظریے پر کام کرنا شروع کیا اور اس علم میں اس نے اتنا کمال حاصل کر لیا کہ نشانیات کے بنیاد گزاروں میں سسیور کے ساتھ پیپرس کا نام بھی لیا جانے لگا۔ (۵) اس طرح جدید نشانیات کا ارتقا بنیادی طور پر دو مقامات یعنی یورپ اور امریکہ میں ہوا۔ یورپ میں یہ علمSemiology کہلایا، جب کہ امریکہ میں دانشوروں نے اسےSemiotics کہنا پسند کیا۔
سسیور کے علی الرغم جو نشان کو دو رخا(Dyadic) ماننا تھا، پیپرس نے اسے سہ رخا(Triadic) تسلیم کیا ہے۔ پیپرس کے متعین کردہ نشان کے تینوں رخ یا اجزاء یہ ہیں:
۱۔ Representament(سسیور کےSignifierسے قریب تر)
۲۔ Object(شے)
۳۔ Interpretant (سسیور کےSignifiedسے قریب تر)
ان میں سے پہلی اصطلاحRepresentamer سسیور کےSignifierسے تقریباً ملتی جلتی چیز ہے۔ یہ نشان کا وہ رخ یا عنصر ہے جو نشان کی صوتی نمائندگی کرتا ہے، جب کہObjectسے کوئی بھی شے حقیقی یا خیالی مراد لی جا سکتی ہے۔ اسی طرحInterpretant کا مقابلہ موٹے طور پر سسیور کےSignifiedسے کیا جا سکتا ہے۔ اس سے نشان کا تشریحی عنصر یا معنیٰ مراد لئے جا سکتے ہیں۔ نشان کے یہ تینوں اجزاء ایک دوسرے کے ساتھ گہرا رشتہ رکھتے ہیں۔
پیرس کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے نشان کی تنوع پذیری کا پتا لگایا ہے اور اس کی اقسام بیان کی ہیں۔ سسیور کے یہاں چیز نہیں پائی جاتی۔ اس نے نشان کی اقسام سے کہیں بحث نہیں کی ہے۔ پییرس اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ نشان کس کس طرح سے اپنا ترسیلی فریضہ انجام دے سکتا ہے۔ کسی شے(Object) اور اس شے کی نمائندگی کرنے والے نشان(Representamen) کے درمیان جو رشتہ پایا جاتا ہے اس کی پییرس نے تین قسمیں بیان کی ہیں:
۱۔ شبیہ(Icon) : جب کسی شے اور اس (شے) کی نمائندگی کرنے والے نشان کے درمیان مادی مماثلت یا مشابہت(Physical Resemblance) پائی جاتی ہو، مثلاً کوئی شے اور اس (شے) کی تصویر یا کوئی جگہ اور اس (جگہ) اور اس(جگہ) کا نقشہ، تو اس نشان (تصویر، نقشہ) کو ’شبیہ‘ (Icon) کہیں گے اور دونوں کے درمیان پائے جانے والے رشتے کو ’شبیہی رشتہ‘ (Iconic Relationship) کہیں گے۔
۲۔ اشاریہ(Index) : جب کسی شے اور اس (شے) کی نمائندگی کرنے والے نشان کے درمیان زمانی و مکان یا مادی قربت و نزدیکی(Physical Proximity) پائی جاتی ہو، مثلاً دھواں اور آگ یا گرج اور بجلی، تو اس نشان (دھواں، گرج) کو ’اشاریہ‘ (Index) اور دونوں کے درمیان پائے جانے والے رشتے کو ’اشاریتی رشتہ‘ (Indexical Relationship) کہیں گے۔
۳۔ علامت(Symbol) : جب کسی شے اور اس (شے) کی نمائندگی کرنے والے نشان کے درمیان روایت(Convention) کی کارفرمائی ہو، یعنی وہ نشان تہذیبی اور روایتی طور پر سیکھا اور برتا جائے، مثلاً بازو پر بندھی سیاہ پٹی اور سوگ یا گریہ و ماتم، تو اس نشان (سیاہ پٹی) کو ’علامت‘ (Symbol) کہیں گے۔
(۴(
ادب کا نشانیاتی مطالعہ، ادب کے جمالیاتی، نفسیاتی، اسلوبیاتی، تاریخی و سماجی نیز تاثراتی اور مارکسی مطالعے سے بالکل مختلف ہے۔ اس مطالعے میں ادبی فن پارے کے خارجی موثرات، نیز خارجی عوامل اور عناصر سے بحث نہیں کی جاتی اور نہ ہی مطالعے کا معیار تاثر، حسن اور جمالیاتی کیف ہوتا ہے۔ اس مطالعے میں وجدان، جمالیاتی اقدار اور داخلی کیفیات کو بھی کوئی جگہ نہیں دی جاتی۔ ادیب کی ذہنی کیفیات یا کرداروں کی نفسیاتی الجھنوں سے بھی اس مطالعے کو کوئی سروکار نہیں ہوتا اور نہ ہی اس مطالعے میں اسلوبیاتی خصائص کو نشان زد کیا جاتا ہے۔ اس مطالعۂادب میں انسان کے سماجی شعور سے بھی کوئی بحث کی جاتی اور نہ ہی ادب کو تاریخی اور سماجی حالات کا پروردہ سمجھا جاتا ہے۔
ادب کے نشانیاتی مطالعے کی خصوصیات اور طریقۂ کار کا اجمالی جائزہ ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں:
۱۔ ادب کے نشانیاتی مطالعے میں ادب کو ایک ایسا ذریعۂترسیل(Mode of Communication) تصور کیا جاتا ہے جو نشانات(Signs) پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ نشاناتSignifier اورSignified سے مل کر تشکیل پاتے ہیں۔
۲۔ اس مطالعے میں ضروری نہیں کہSignifier یاRepresentamen کوئی لفظ، فقرہ یا جملہ ہی ہو، بلکہ یہ کوئی متن(Text) یا کلامیہ(Discourse) بھی ہو سکتا ہے جو اپنے لغوی، ظاہری اور ابتدائی معنی سے قطع نظر استعاراتی، علامتی اور ثانوی معنی رکھتا ہے۔ ادب کے نشانیاتی مطالعے میں انتقالِ معنی(Transference of Meaning) کے بے حد امکانات پائے جاتے ہیں۔
۳۔ اس مطالعے میں ادبی کلامیہ(Literary Discourse) جو ایک نشان کی حیثیت رکھتا ہے افقی ترتیب(Syntagmatic Order) میں پرویا یا گندھا ہوتا ہے جسے نشانیاتی ترتیب(Semiotic Order) بھی کہتے ہیں۔ درحقیقت نشانات کا انتخاب پہلے عمودی(Paradigmatic) سطح پر ہوتا ہے پھر افقی(Syntagmatio) سطح پر یہ ایک دوسرے کے ساتھ پروئے اور ترتیب دیے جاتے ہیں۔
۴۔ اس مطالعے میں کسی شے اور اس (شے) کی نمائندگی کرنے والے نشان کے درمیان رشتہ علامتی(Symbolic) ہوتا ہے۔
۵۔ نشانیاتی مطالعہ ادبی متن یا کلامیہ کے فوق لغوی(Supra-literal) معنی کو برآمد کرتا ہے۔ ادیب بعض اوقات ایسی علامتیں استعمال کرتا ہے جن کی معنیاتی گتھی نشانیاتی مطالعے کے دوران سلجھائی جاتی ہے اور انھیں تعبیر و تشریح کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔
۶۔ اس مطالعے میں متن کو ایک نشان تسلیم کیا جاتا ہے اور متنیت (Textuality) ، بین المتن(Intertex) اور بین المتونیت(Intertextuality) جیسے تصورات سے بحث کی جاتی ہے۔
ادب کے نشانیاتی مطالعے میں ترسیلی امکانات کا بھر پور پتا لگایا جاتا ہے اور اندورنِ متن ایک ایسے جہانِ معنی کی تخلیق کی جاتی ہے جو اس متن کی بالائی معنیاتی پرت سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ چیز اسی وقت ممکن ہو سکتی ہے جب ادیب کے علامت سازی کے عمل کو بخوبی سمجھ لیا جائے۔ ادیب بالعموم روایتی علامات استعمال کرتے ہیں، لیکن بعض ادیبوں کے یہاں کلیتہً ذاتی علامات بھی ملتی ہیں جو ان کے ذاتی اور انفرادی تجربات و مشاہدات کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ ایسی علامات کا سمجھنا قاری کے لیے قدرے مشکل ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض ادیبوں نے دیومالائی یا اساطیری علامات سے بھی کام لیا ہے اور مذہبی روایات سے بھی ماخوذ علامات استعمال کی ہیں۔
روایتی علامات جنھیں آفاقی(Universal) علامات بھی کہتے ہیں۔ ادیب کے تاریخی اور تہذیبی شعور کا نتیجہ ہوتی ہیں اور ادب و شعر میں ایک زمانے سے استعمال ہوتی چلی آتی ہیں، مثلاً ہم میں سے غالباً ہر شخص واقف ہو گا کہ ’سیاہ رنگ‘ سوگ اور ماتم کی علامت ہے، ’آگ‘ تشدد اور قہر کی علامت ہے، ’پانی‘ زندگی کی علامات ہے اور ’رات‘ بدی کی علامت ہے۔ مثلاً پروفیسر شہریار کا یہ شعر دیکھئے:
اب رات کی دیوار کو ڈھانا ہے ضروری
یہ کام مگر مجھ سے اکیلے نہیں ہو گا۔
اس سادہ سے شعر(۶) کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ بدی کو دنیا سے ختم کرنا ضروری ہے۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب سب مل کر اس کام کو انجام دیں۔ نشانیاتی نظریے کے مطابق اس شعر میں ’رات‘ محض ایک نشان(Sign) یاRepresentamen ہے جس کی حیثیت ایک علامت(Symbol) کی ہے۔ یہ نشان بدی کی نمائندگی کرتا ہے جو ایک شے ہے۔ لہٰذا اس نشان (رات) اور شے (بدی) میں جو رشتہ پایا جاتا ہے اسے علامتی رشتہ(Symbolic Relationship) کہا جائے گا۔ یہ نظریہ پیرس کا ہے۔ سسیور کے نشانیاتی نظریے کے مطابق رات کوSignifier (معنی نما) اور بدی کوSignified (تصورِ معنی) قرار دیا جائے گا۔ ہرSignifier اپناSignified دکھاتا ہے۔ ادب میںSignified کے امکانات کافی وسیع ہوتے ہیں۔
فکشن میں علامت سازی کا عمل کافی وسیع پیمانے پر ہوتا ہے۔ فکشن چوں کہ ایک بیانیہ(Narrative) ہے اس لیے ادیب کہانی کو آگے بڑھانے، اسے ایک نیا موڑ دینے اور انجام تک پہنچانے کے لیے علامتوں کا استعمال کرتا ہے۔ اس طرح فکشن میں علامات کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔ پروفیسر ہر جید سنگھ گل (۷) نے قرونِ وسطیٰ کے پنجاب کی مشہورِ عام کہانیوں(Folktales) ، مثلاً ’’مرزا صاحباں‘‘، ’’ہیر رانجھا‘‘، ’’سوہنی مہینوال‘‘ وغیرہ کا نشانیاتی نقطۂ نظر سے مطالعہ کرتے وقت اس امر پر خاص توجہ دی ہے کہ کس طرح علامت سازی کا عمل ان کہانیوں کو اختتام تک پہنچانے میں معاون ہوتا ہے۔ ’’سوہنی مہینوال میں علامتی رنگ کافی چوکھا نظر آتا ہے۔
ایک شہزادہ (مہینوال) ایک کمہار کی بیٹی (سوہنی) دامِ عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ لڑکی (سوہنی) کے والدین اس کی شادی کسی اور سے کر دیتے ہیں۔ لڑکا (مہینوال) اس غم میں پہلے تو چرواہا بن جاتا ہے پھر فقیر کا بھیس بدل لیتا ہے اور اپنا سب کچھ تج کر دریا کی دوسری جانب سکونت اختیار کر لیتا ہے۔ رات کی تاریکی میں لڑکی مٹی کے گھڑے کی مدد سے دریا کو پارکر کے لڑکے سے ملنے آیا کرتی ہے۔ لڑکی کی نند کو اس بات کا پتا چل جاتا ہے۔ ایک دن وہ پکے گھڑے کو کچے گھڑے سے بدل دیتی ہے۔ لڑکی اپنی نند کی اس چال سے لاعلم رہتی ہے۔ جب وہ حسبِ معمول دریا میں گھڑے کی مدد سے اترتی ہے۔ تو کچا گھڑا پانی میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ دریا کی تیز و تند لہریں اسے بہا لے جاتی ہیں۔ لڑکی کے چیخنے کی آواز سن کر لڑکا بھی دریا میں کود پڑتا ہے۔ دونوں موت کی آغوش میں پہنچ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک ہو جاتے ہیں۔
یہ ہے اس کہانی کی نشانیاتی ترتیب(Semiotic Order) جو اس کی افقی ترتیب(Syntagmatic Order) بھی ہے۔ نشانیاتی سطح پر یہ کہانی دو انسانوں کے روحانی ملاپ پر ختم ہو جاتی ہے۔ دریا کے ایک طرف شادی، بندھن اور سماجی ضابطے ہیں تو دوسری طرف سچّا پیار۔ دریا کے ایک طرف اگر مگر فریب اور دغا ہے تو دوسری طرف صداقت، ایثار اور ماورائی سکھ۔ دریا ایک ایسی روحانی قوت کا استعارہ ہے جو تمام ارضی اور مادّی حقیقوں کو فنا کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ جو لوگ رات کی پر اسرایت اور اس کی تاریکی کا پردہ چاک کر کے اور دریا کی تیز و تند لہروں کے تھپیڑوں کو برداست کر کے دریا کی دوسری جانب پہنچتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں اور سچّا پیار اور ماورائی سکھ پاتی ہیں۔ کہانی کے متن کی افقی ترتیب میں ایک نشان دوسرے نشان کے ساتھ باہم متصل ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک علامت دوسری علامت کے ساتھ اس طرح مربوط اور جکڑی ہوئی ہے کہ پورا متن ایک علامتی سلسلہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ پوری کہانی میں خارج کی دنیا باطن کی دنیا کی علامت بن گئی ہے۔ اس کہانی کے متن میں افقی ترتیب کے علاوہ عمودی ترتیب(Paradigmatic Order) بھی صاف نظر تی ہے۔ دریا کے دونوں سمت تضاد(Contrast) ہے۔ کچّا گھڑا اور پکا گھڑا بھی دو متضاد علامتیں ہیں۔ ایک طرف رات کی پراسراریت، تاریکی اور دریا کی تیز و تند لہریں ہیں تو دوسری طرف ملاپ کا سکھ۔ اگر شہزادگی ہے تو فقیرانہ زندگی بھی ہے۔ مکر و فریب ہے تو صداقت، خلوص اور ایثار بھی ہے۔ یہ تمام چیزیں کہانی میں عمودی حیثیت کی حامل ہیں۔ مجموعی طور پر ’’سوہنی مہینوال‘‘ ایک ایسی عوامی کہانی ہے جس میں علامت سازی کا عمل حد درجہ وسیع اور متنوع ہے، اس لیے اس کا نشانیاتی مطالعہ بیحد دلچسپی کا حامل ہے۔
اردو فکشن میں بھی ایسی بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں جن میں کہانی کا تانا بانا علامات کی مدد سے تیار کیا گیا ہے اور جو نشانیاتی اہمیت کی حامل ہیں اور جن کا مطالعہ نشانیاتی نقطۂ نظر سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ ایسی کہانیوں میں ’’سیتا ہرن‘‘ (قرة العین حیدر) ، آخری آدمی‘‘ انتظار حسین) ’’نہ مرنے والا‘‘ (انور سجاد) ، ’’لیمپ پوسٹ‘‘ (رشید امجد) ، ’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ (سریندر پرکاش) ، ’’سایہ‘‘ (بلراج کومل) ، ’’آخری کمپوزیشن‘‘ (بلراج مینرا) ، ’’ایک خوں آشام صبح‘‘ (غیاث احمد گدی) ، ’’گاڑی‘‘ (خالدہ اصغر) ، ’’زردکشکول‘‘ (سمیع آہو جہ) ، ’’کھنڈر‘‘ (افسر آذر) اور ’’نیاپل‘‘ (اعجاز راہی) خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔
حواشی اور حوالے:
1۔ دیکھیے آل احمد سرور کا مضمون ’’اردو تنقید: ایک جائزہ‘‘ مشمولہ کچھ خطبے کچھ مقالے (آل احمد سرور) ، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، ، 1996ء۔ ص: 20۔
2۔ گوپی چند نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، (1993ء)
3۔ فرڈی نینڈی سسیور(Ferdinand de Saussure) کی یہ کتاب سب سے پہلے فرانسیسی زبان میںCourse de Linguistique General کے نام سے 1916ء میں شائع ہوئی۔ بعد ازاں اس کتاب کا انگریزی زبان میں ترجمہ ویڈبیسکنWade Baskin) نےCourse in General Linguistics کے نام سے کیا جو 1959ء میں نیویارک سے شائع ہوا۔
4۔ گوپی چند نارنگ، محولہ بالا کتاب، ص 46۔
5۔ چارلز سینڈ رز پیپرسCharles Sanders Peirce کے نشانیاتی نظریے کے لیے دیکیے اس کی کتابCollected Papers، جلد دوم (کیمبرج، میساچوسٹس، ہارورڈ یونیورسٹی پریس، 1931ء) ۔
6۔ شہریار، میرے حصّے کی زمین (حصّہ اوّل) ، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1999ء۔ ص 251۔
7۔ ہرجیت سنگھ گل (Structuralism and Literary Criticism ) نئی دہلی: باہری پبلی کیشنز،1986ء) ص 44 تا49۔ (2001)