حویلی میں سناٹا معمول سے کچھ زیادہ ہی تھا۔فضا میں وہی خوف سے بھری ہوئی فرماں برداری کا تاثر گھُلا ہوا تھا۔یوں لگ رہا تھا کہ حویلی بھی روایت میں جکڑی ہوئی لرز رہی ہے کہ اگر یہ خاموشی ٹوٹ گئی تو نجانے کون سا طوفان آجائے گا۔خاموشی دم سادھے ہوئے تھی۔حویلی کے صاف ستھرے دروبام پہ خاموشی خوف سے یوں چپکی ہوئی تھی جیسے سانس بھی لے گی تو مر جائے گی۔انہی حبس زدہ لمحات میں نادیؔ بہت گھٹن محسوس کر رہی تھی ۔ہرآتی جاتی سانس میں نفرتوں ،محرومیوں اور اداسیوں کی خراشیں اسے بے چین کئے دے رہی تھیں۔یہ ایسے ہی کھردرے لمحات ہوا کرتے تھے کہ جب زندگی بارے نہ چاہتے ہوئے بھی جمع تفریق کرنے لگتی۔ کیا کھویا،کیاپایا کا حساب توچلتاہی تھا۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ لا شعوری طور پر حویلی کے اندر موجود دنیا اور حویلی سے باہر کی دنیا کے بارے میں تجزیہ کرنے لگتی ۔جو اس سے کبھی ہو ہی نہیں سکا تھا۔تجزیہ یا موازنہ تو اسی وقت ہوپاتاہے نا جب ان ساری چیزوں کے بارے میں اچھی طرح معلوم ہو جن کا تجزیہ یا موازنہ کیا جانا ہو۔۔اسے توباہرکی دنیا کے بارے میں تجربہ ہی نہیں تھا۔وہ اپنی پوری زندگی میں حویلی کی ان اونچی اونچی دیواروں کے پار محض چند بار ہی جا سکی تھی۔یہ آزادی اسے بچپن اور لڑکپن کے درمیانی دور ہی میں کبھی ملی تھی۔جس کی یادیں بہت دھندلی سی تھیں۔پھر جیسے ہی اس نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھاتھا،روایت کی ان دیکھی زنجیروں سے اسے یوں باندھ دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کر پاتی تھی۔اس کے اردگرد حصار یوں تن گیا کہ باہر کی خوشگوار فضا بھی اس کے کمرے میں آنے سے گبھراتی تھی۔وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ہوئی حویلی کی دیواروں کے درمیان چند مخصوص جگہیں تھیں،جہاں وہ آ جا سکتی تھیں۔مردان خانے کی طرف تو وہ رخ بھی نہیں کر سکتی تھی۔زنان خانہ ،جو نچلی منزل کے کمروں ،دالانوں اور پائیں باغ پر مشتمل تھا۔یا پھر اوپری منزل پر موجود چند کمرے ۔ جن کی چھت پر جانے کی قطعاً اجازت نہیں تھی کہ جہاں تک جا کر وہ کھلے آسمان کو محسوس کر سکتی۔ان ساری جگہوں پر حویلی کی دوسری خواتین بھی ہوتی تھیں۔ مگراس کی جائے پناہ تو محض ایک کمرہ تھا، اوپری منزل پر جو کبھی اس کے والدین کا ہوا کرتاتھا۔اس کا زیادہ وقت اپنے ہی کمرے میں گذرتا۔یا پھر کمرے کی وہ واحد کھڑکی جہاں سے کچھ منظر اسے دکھائی دیتا تھا۔
اس دن بھی اس کے اندر حبس بہت بڑھ گیا تھا۔شاید اس کی آنکھوں میں ساون بھادوں اتر آیا مگر ایسے موسم کو خود اس نے آپ روکا ہوا تھا۔وہ نادیؔ کی سالگرہ کا دن تھا۔ہر برس وہ خود اپنی سالگرہ کا اہتمام خود ہی بڑے چاؤ سے کیا کرتی تھی۔لیکن اس بار تو نادیؔ نے خود ہی دلچسپی نہیں لی تھی۔کیونکہ اس بار اس کے اندر ان باغیانہ خیالات نے سر اٹھا لیا تھا۔جس سے وہ کبھی کبھی خود ڈر جایا کرتی تھی۔اس دن سے ہی نہیں پچھلے کئی دنوں سے وہ انہی باغیانہ خیالات سے لڑتی چلی آ رہی تھی۔اسے یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر اس نے اپنے ان خیالات کا اظہار کر دیا تو وہ ہار جائے گی۔یہ اس کا اپناآپ بھی ہو سکتا ہے یا زندگی کی بازی ہو سکتی ہے۔روایت کی ان دیکھی زنجیروں میں مزید اضافہ بھی ممکن تھا۔سو وہ اپنے آپ کو یہی دلیلیں دے کر مطمئن کرتی رہی کہ دیکھوں تو سہی کہ حویلی کے ددسرے مکین اس کی سالگرہ کا دن یاد بھی رکھتے ہیں یا نہیں ؟ اِس حویلی میں اُس کی اہمیت کس قدر ہے؟ یہ تقریب بھی کیا ہوا کرتی تھی، محض گنتی کے چند لوگ،کیونکہ حویلی کی روایات میں سالگرہ جیسی تقریب منانا کبھی شامل ہی نہیں تھا۔یہ تو اس کے مرحوم والدین نے ایک بار اس کی سالگرہ منائی تھی۔ممکن ہے اپنی خوشی کی خاطر یا پھر خدا جانے کیوں؟وہ بھی حویلی کے محدود افراد کے ساتھ۔پھر وہ تو نہ رہے ، اس کی دادی ہر برس اس کی سالگرہ مناتی رہی ۔لیکن اس قوت جب اسے شعور نہیں تھا اور شعوری طور پر وہ اپنی دادی اماں کے باعث ہی سالگرہ مناتی آئی تھی۔اتنی سی اجازت بھی اسے کیوں کر مل گئی؟ اس کی سمجھ میں تو یہی وجہ آئی تھی کہ وہ بن ماں باپ کے ان کے ساتھ پرورش پا رہی تھی۔اس کی دادی ہی اس کا سب کچھ تھی۔یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے باغیانہ خیالات کا اظہار نہیں کر پا رہی تھی کہ اس کے سامنے اپنی دادی کا معتبر چہرہ تھا۔اس سے تو کسی نے نہیں پوچھنا تھا مگر جوابدہ تو اس کی دادی اماں تھی۔اس کے ذہن میں بے شمار سوال تھے۔جو اس کی باغی سوچوں کی بنیاد بن گئے ہوئے تھے۔دھیرے دھیرے ان پر شکوک و شبہات سے مزین الجھنوں کا محل تعمیر ہوتا چلا جا رہا تھا۔شاید یہ تعمیر رک جاتی اگر اسے ان سوالوں کا جواب کہیں سے مل جاتا۔اس الجھے ہوئے دن میں وہ خود پر قابو پائے ہوئے اپنے کمرے کی اکلوتی کھڑکی سے لگی کھڑی تھی اور مسلسل یہی سوچے چلی جا رہی تھی کہ یہ دن کیسے گذرے گا۔یہ اتنا طویل کیوں ہو گیا ہے؟
نادیؔ کے کمرے سے باہر کے سارے منظر سہ پہر کی ڈھلتی ہوئی دھوپ میں ڈوبے ہوئے تھے۔حویلی سے پار،اونچی دیوار سے کافی حد تک ہٹ کر کھیت تھے۔ان سے کچھ آگے کافی فاصلے پر بستی تھی جس کے کچے پکے گھروں کی چھتیں ہی وہ دیکھ سکتی تھی۔نیلا آسمان ،ہوا میں اڑتے ہوئے پرندے اور درخت ہی اسے دکھائی دیتے۔بعض درخت تو اس کے ساتھ ساتھ بڑھ کر تنا ور ہو گئے تھے اور کئی سوکھ کر ختم ہوگئے تھے۔ وہ ان مناظر کو اس قدر دیکھ چکی تھی کہ ان میں کوئی نیا پن محسوس ہی نہیں ہوتا تھا۔ہاں اگر کوئی تبدیلی ہوا کرتی تھی تو یہ کہ کھیتوں میں فصلیں بدل جایا کرتی تھیں۔اگتی ،کٹتی فصلوں کو دیکھتی رہ جاتی یا پھر طلوع آفتاب کا منظر ، جو کبھی ایک جیسا نہیں ہوتا تھا۔ ہر روز سورج ایک نئے منظر کے ساتھ اُگتا۔یہ اس نے تجربہ کر لیا تھا مگر یہ الجھن ضرور تھی کہ کیا سورج غروب بھی ایک نئے منظر کے ساتھ ہوتاہے؟ کیونکہ وہ ڈوبتے ہوئے سورج کو اپنی کھڑکی سے دیکھ نہیں سکتی تھی۔وہ باہر کی دنیا اس کھڑکی سے دیکھ سکتی تھی یا پھر دادی اماں سے ہونے والی گفتگومیں،جس میں ہمیشہ خوف ہی ہوتا۔ڈرا دینے والی نصیحتیں ہوتیں۔اسے تو لفظوں سے دیکھے جانے والی دنیا ہی پیاری لگتی تھی ۔لفظ اسے خود میں جذب کر لیتے ،ایک ہی منظر کو وہ خود ہی کئی بار دیکھ لیتی جو لفظوں سے بنائے گئے ہوتے تھے۔کتابوں اور رسالوں کے جھروکوں سے وہ ایک نیا جہاں دریافت کر چکی تھی۔جو کچھ ان کتابوں اور رسالوں میں سے دنیا اسے سمجھ میں آئی،وہ اس کے لیے کسی بھی ونڈرلینڈ یا گم گشتہ جنت سے کم نہیں ہوتی تھی۔شاید یہی وجہ تھی کہ اس کا ذہن حویلی کی روایت بھری زندگی کو قبول نہیں کر پا رہا تھا ۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ مجبورمحض ہے،ابھی وقت اس کے ہاتھوں میں نہیں تھا۔
’’اے نادیؔ ۔!‘‘
فرح کی آواز پر وہ بے ساختہ چونک گئی ۔پھر اس کے چہرے پر حیرت دیکھتے ہوئے بولی
’’ہاں ،کیا بات ہے ؟‘‘
وہ اس قدر اپنے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی کہ فرح کے آنے کا احساس ہی نہیں وہ سکا۔
’’لو۔! مجھ سے پوچھ رہی ہو۔جیسے خود نواب زادی کو پتہ ہی نہ ہو ۔‘‘فرح نے حیرت سے پوچھا،پھر اس کی طرف دیکھ کر حیرت ناک انداز میں بولی ’’ہائے۔! تم ابھی تیار بھی نہیں ہو؟‘‘ تب وہ اس کے سوال پر خیالوں نے نکلتے ہوئے چونک گئی ۔پھر جیسے ہی فرح کے پوچھے گئے سوال پر غور کیا تو وہ خوشگوار حیرت میں ڈوب گئی۔اس لیے نہ سمجھ آنے والے انداز میں پوچھا۔
’’کیوں،میں نے کیوں تیار ہونا تھا؟‘‘
’’ارے واہ۔! کیا شانِ بے نیازی ہے ،حور شمائل کو جیسے معلوم ہی نہیں کہ آج تمہاری سالگرہ کا دن ہے۔تم چاہے بھول جاؤ،مگر میں نے سارا اہتمام کر لیا ہے۔‘‘
وہ یوں چہکتے ہوئے بولی جیسے یہ اہتمام اس نے اپنے لیے کیا ہو۔ تب اس نے حیرانگی سے پوچھا
’’تم ،فرح تمہیں میری سالگرہ کا دن یاد تھا؟‘‘
’’اچھی طرح یاد تھا۔بلکہ میں تو دعائیں مانگ رہی تھی کہ تمہیں اپنی سالگرہ کا دن یاد نہ آ جائے،اس لیے میں نے چپکے چپکے یہ سارا اہتمام کر لیا۔؟‘‘
وہ خوشی سے لہکتے ہوئے بولی تو نادیؔ نے اس کامان رکھتے ہوئے جھوٹ بول دیا
’’ہاں ۔!مجھے یاد نہیں تھا۔‘‘
’’ہاں نادیؔ ۔! یہی تو ایک دن ہوتا ہے ،جس میں ہماری اپنی خوشی ہوتی ہے۔ مجھے تو خیر اجازت نہیں،تمہاری وجہ ہی سے میں خوش ہو لیتی ہوں۔‘‘فرح کہتے کہتے ایک دم سے اداس ہو گئی۔پھر تیزی سے اپنا سر جھٹک کر بولی۔’’بس تم جلدی سے تیار ہو جاؤ،امی اور دادی اماں دونوں ہی تمہارا نیچے انتظار کر رہی ہیں۔جلدی سے تیارہو کر نیچے آ جا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ مسکرا دی۔فرح کی دھوپ چھاؤں جیسی کیفیت دیکھ کر اس کے من میں خوشی در آئی۔
’’تم چلو ،میں ابھی آتی ہوں۔‘‘
نادیؔ نے ایک جذب سے کہا تو فرح پلٹ گئی۔پھر رک کر جاتے جاتے وہ کہتی چلی گئی ۔
’’میں نے باباسائیں سے بھی عرض کر دیا تھا۔وہ بھی آنے والے ہوں گے۔جلدی سے آ جا۔‘‘
’’ آجاتی ہوں۔‘‘
نادیؔ نے بڑبڑاتے ہوئے کہا اور اسے جاتا ہوا دیکھتی رہی۔پھر اچانک ہی اس نے فیصلہ کرلیا ۔وہ تو نہیں چاہتی تھی کہ اس بار اپنے خیالات اور سوچوں کا اظہار کرے،مگر قدرت شاید ایسا چاہتی ہے۔ورنہ اگر اس نے اہتمام نہیں کیا تھا تو فرح یوں نہ کرتی ۔اب تو چاہے بھونچال آ جائے یا طوفان،وہ اپنا مطالبہ ضرورکہے گی۔ یہ جو نہ چاہتے ہوئے بھی اہتمام ہو گیا ہے تو یہ اشارہ ہے۔تا کہ وہ اپنے دل کی بات کہہ دے ۔فیصلہ کرتے ہی وہ کھڑکی سے پلٹ گئی کیونکہ اسے تیارہو کر پیر سائیں کے آنے سے پہلے پہنچنا تھا۔
پورے برس کے دورانیے میں نادیؔ کے لیے مختص یہی ایک چھوٹی سے تقریب ہوا کرتی تھی،جس میں اس کے چاچا دلاور شاہ المعروف پیر سائیں خصوصی طور پر شرکت کیا کرتے تھے۔ورنہ تو کئی مہینے گذر جاتے اوروہ ان کی صورت نہیں دیکھ پاتی تھی۔نادیؔ کا تعلق ایک ایسے پیر گھرانے سے تھا جو اپنی ان روایات پر سختی سے پابند تھا جو انہیں اپنے پرکھوں سے ورثے میں ملیں تھیں۔یہ روایات کچھ ایسی تھیں کہ جن کے باعث حویلی کی خواتین نہ تو اپنی کوئی حیثیت رکھتی تھیں اور نہ انہیں کسی قسم کا کوئی اختیار تھا۔حویلی کی چار دیواری کے حصار میں ہی وہ پابند رہتی تھیں۔پردہ داری کی اس قدر پابندی تھی کہ سورج کی کرنیں بھی انہیں نہ دیکھ سکیں۔وہ اگر سانس بھی لیتیں تھیں تو گھرانے کے اس سربراہ کی اجازت سے جو ایک روحانی پیشوا ہوتا تھا۔وہ دربار شریف کا گدی نشین ہونے کے باعث تمام تر فیصلوں کا مجاز تھا۔وہ فیصلے حویلی کے ہوں ،دربار شریف کے ہوں یا کسی کی زندگی موت کے۔سارے معاملات کا محور یہی پیر سائیں ہی ہوتے تھے۔مریدین کا ایک وسیع حلقہ تھا ۔جن سے وہ ہمیشہ رابطے میں رہتے تھے۔کون ان کے پاس آ رہا ہے تو کسی کے ہاں یہ جا رہے ہیں۔ایک نیٹ ورک تھا جیسے وہ بخوبی چلا رہے تھے۔نادیؔ کے دادا کے بعد اس کے باپ نے گدی نشین ہونا تھا ۔مگر ایک دن قریبی شہر سے واپس آتے ہوئے وہ اپنی بیوی سمیت کار حادثے میں انتقال کر گئے تھے۔نادیؔ کے ذہن میں ہمیشہ یہ سوال رہا تھا کہ اس کی والدہ کس کی اجازت سے اور کیوں اس کے باپ کے ساتھ حویلی سے باہر تھی کہ حادثے کا شکار ہو گئی۔آج تک وہ یہی معمہ حل نہیں کر پائی تھی۔سوال تو ڈھیروں تھے،جیسے ایک یہ سوال کہ حویلی کی خواتین کبھی جب چاہے دربار شریف پر حاضری کے لیے چلی جایا کرتی تھیں۔پھر انہیں روک کیوں دیا گیا ؟یہ واحد آزادی بھی ان سے کیوں چھین لی گئی تھی؟ ایسا کیوں ہوا؟ اس کی وجہ کیا تھی ؟اسے آج تک سمجھ نہیں آیا تھا اور نہ ہی معلوم ہو سکا تھا۔شاید وہ بھی زندہ نہ رہتی اگر وہ کار حادثے والے دن اپنی دادی اماں کے پاس نہ ہوتی۔ورنہ وہ بھی اپنے والدین کے ساتھ زندگی ہار جاتی۔کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ وہ بھی انہی کے ساتھ اس دنیا سے چلی جاتی۔ایسے وقت میں کہ جب اسے کسی شے کا بھی شعور نہیں تھا۔قدرت کو اس کی زندگی منظور تھی۔دادی اماں نے اسے سنبھالا اورجہاں تک ہو سکا،اسے لاڈ پیار سے پالا ۔دادا کے بعد جب اس کے چاچا دلاور شاہ گدی نشین ہوئے تو ان کی بیوی زہرہ بیگم پر پابندیاں کچھ زیادہ ہی ہو گئیں۔حالانکہ اس وقت وہ ایک بیٹے ظہیر شاہ اور بیٹی فرح کی ماں تھی۔یوں وہ چاروں خواتین حویلی کی چاردیواری تک محدود تھیں۔ وہ ایک دوسری کے بارے میں جانتے بوجھتے ہوئے بھی خٓموش تھیں ، کیونکہ اسی میں ان کی بقا اور اسی میں ہی ان کی پناہ تھی۔
ظہیر شاہ کی تربیت پیر سائیں اپنی نگرانی میں کر رہا تھا۔اسے خوب تعلیم دلوائی جا رہی تھی ۔یہاں تک کہ اسے پڑھنے کے لئے لندن بھیج دیا گیا تھا۔مگر نادیؔ اور فرح کی تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دی گئی،یہ تو نادیؔ جب ذرا باشعور ہوئی تو اس نے اپنی دادی سے مطالبہ کر دیا کہ اسے بھی ظہیر شاہ کی مانند تعلیم دلوائی جائے۔دادی اماں کے لئے یہ مطالبہ کسی امتحان سے کم نہیں تھا۔وہ اسے باقاعدہ کسی ادارے میں پڑھنے کے لیے تو نہ بھجوا سکی لیکن بہت ساری بحث و تمحیص کے بعد حویلی ہی میں ایک خاتون ٹیچر کا انتظام کر دیا گیا۔جو انہی کے مریدین میں سے ایک تھی۔اس نے نہایت سعادت مندی سے او رثواب سمجھتے ہوئے، ان دونوں کو پڑھایا ۔یوں فرح اور نادیؔ نے حویلی کی ہی چاردیواری میں میٹرک تک تعلیم حاصل کرلی ۔ پیر سائیں اتنی طاقت اور تعلقات رکھتا تھا کہ بورڈ کے پرچے حویلی ہی میں حل کر لیے گئے تھے۔ایک پورا گاؤں پیر سائیں کی جاگیر تھا۔نادیؔ نے جتنی دلچسپی سے اپنی کورس کی کتابیں پڑھی تھیں،اتنی ہی پسندیدگی سے دیگر کتابیں اور رسالے بھی پڑھے تھے۔جن کے پڑھتے رہنے سے اب اسے ’’ہوکا‘‘ لگ چکا تھا۔اس نے حویلی ہی میں موجود ایک خاتون ملازمہ تاجاں مائی کے ذریعے ایسا راستہ پیدا کر لیا تھاکہ جہاں سے وہ باہرکی دنیا سے جو چاہتی منگوا لیا کرتی تھی۔اس کی اس جرات کا علم اس کی دادی کو تھا جسے وہ نظر انداز کرتی چلی آ رہی تھی۔حویلی کی ان چاروں خواتین کی اپنی اپنی دنیا تھی۔جس میں وہ سمجھوتے کے ساتھ زندگی گذارتی چلی جا رہی تھیں۔کوئی کسی کے معاملے میں مداخلت نہیں کرتی تھی۔
***
مردان خانے کے صحن میں چند مرد اور خواتین بیٹھی ہوئی تھیں۔ان کے چہروں پر عقیدت کے چراغ روشن تھے۔وہ سب پیر سائیں سے دعا کروانے آئے ہوئے تھے۔کسی کی کچھ حاجت تھی،کسی کی کوئی خواہش ۔کسے کوئی مجبوری اس در تک کھینچ لائی تھی اور کوئی اپنے حالات پھر جانے کی تمنا لے کر وہاں آیا ہوا تھا۔صحن کے آگے بڑا سارا دالان تھا۔جہاں وہ مریدینِ خاص موجودتھے جو آئے ہوئے عقیدت مندوں کو ایک ایک کر کے اس کمرے میں بھیج رہے تھے ۔جس میں پیر سائیں بیٹھے ہوئے تھے۔مردان خانے میں اگرچہ بہت سارے کمرے تھے۔جہاں دور سے آئے مہمانوں کو ٹھہرایا جاتا تھا۔باقاعدہ ایک طعام خانہ بھی تھا ، جہاں ہر وقت لنگر چلتا رہتا تھا۔لیکن پیر سائیں کا کمرہ ان سب میں خاص کمرہ تھا۔اس میں کسی کو اجازت کے بغیرداخلے کی اجازت نہیں تھی۔پیر سائیں جب بھی باہر سیمردان خانے میں آتے تو وہیں ٹھہرتے اور پھر وہیں سے چلے جاتے تھے۔یہ ان کی مرضی پر منحصر ہوتا تھا کہ وہ وہاں کتنی دیرتک قیام کرتے ہیں۔ہاں مگر،ظہر سے عصر تک کے درمیانی وقت میں وہ وہاں پر ضرور ہوتے تھے۔جب وہ شہر میں نہ ہوں تب مجبوری ہوا کرتی تھی ۔ اس کمرہ خاص میں پیر سائیں موجود تھے۔دھیمی روشنی میں بیٹھا دلاور شاہ کوئی ماورائی مخلوق لگ رہا تھا۔اس کا دراز قد ،بھاری جثہ ،سفید رنگ کا مخصوص کرتا اور چادر ،سر پر نسواری رنگ کی بڑی سی پگڑی ،گلے میں قیمتی موتیوں کی مالا، خشخشی داڑھی ،بھاری مونچھیں، لمبی زلفیں اوردائیں کلائی میں سونے کا کڑا تھا۔گورے رنگ پر نقوش کافی حد تک تیکھے تھے۔اس کی موٹی موٹی آنکھوں میں شربتی سرخی خمار آلود دکھائی دیتی تھی۔چندلمحے پہلے ایک خاتون اپنے دکھڑے رو کر اور دعا کی درخواست کر کے گئی تھی۔پیر سائیں نے نہ صرف دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تھے ،بلکہ تعویذ بھی دیئے تھے۔دفعتاً اس کی نگاہ سامنے لگے وال کلاک پر پڑی، تبھی اس نے پاس پڑی ہوئی گھنٹی بجائی۔ ایک مرید خاص، پیراں دتہ فوراً ہی کسی چھلاوے کی طرح حاضر ہو گیا۔وہ تقریباً جھکتے ہوئے بڑی عاجزی سے بولا۔
’’جی حکم پیر سائیں۔‘‘
’’باہر کتنے لوگ ہیں؟‘‘پیر سائیں نے دھیمے سے بارعب لہجے میں پوچھا۔
’’تھوڑے سے ہیں سرکار۔‘‘ پیراں دتہ نے عاجزی ہی سے بتایا۔
’’انہیں جلدی جلدی سے بھیج دو،آج مجھے زنان خانے جانا ہے۔‘‘اس نے کہا اور آنکھیں موند لیں۔
’’سرکار،وہ دیوان جی بھی آپ سے ملنا چاہتے تھے۔کہہ گئے ہیں کہ اگر آپ اجازت دیں تو وہ آ جائیں۔‘‘وہ اسی عاجزی سے بولا تو پیر سائیں نے تیزی سے کہا۔
’’نہیں،انہیں کہنا کہ مغرب کے بعد آ جائیں۔اب جاؤ،جلدی جلدی لوگوں کو بھیجو۔‘‘
پیراں دتہ یہ سنتے ہی انہی پیروں پر واپس مڑ گیا۔اس نے باہر آ کر لوگوں کو سمجھایا کہ وہ بہت کم وقت لیں۔پیر سائیں نے کسی ضروری کام سے جانا ہے۔پھرزیادہ وقت نہیں گذرا،ایک کے بعد ایک کر کے لوگ اندر جاتے اور پھر فوراً ہی واپس پلٹ آتے۔یہاں تک کہ مردان خانے کے صحن میں کوئی عقیدت مندنہیں رہا۔تب پیر سائیں اپنے خاص کمرے سے نکلے اور مردان خانے کے صحن میں آ گئے۔تازہ ہوا میں تھوڑی دیر سانس لینے کے بعد وہ زنان خانے کی طرف چل دیئے۔
***
نادیؔ تیارہو کر نیچے آئی تو دادی اماں،زہرہ بی اور فرح کو اپنا منتظر پایا۔وہی اس تقریب کے منتظم تھے اور وہی مہمان تھے۔اور کس نے وہاں نہیں آنا تھا۔ ڈرائینگ روم میں ایک جانب پڑا ڈرائینگ ٹیبل انواع واقسام کے کھانوں سے سجا دیا گیا ہوا تھا۔کمرے کے درمیان میں پڑے صوفوں اور قیمتی فانوس کے نیچے میز پر بڑا سا کیک دھرا ہوا تھا۔وہ خاموشی سے چلتی ہوئی اپنی دادی اماں کے پاس آ بیٹھی۔چہرہ میک اپ سے بے نیاز تھا۔گہرے نیلے رنگ کا سوٹ اور بڑی ساری سفید چادر اوڑھے ہوئے تھی۔وہ سبھی خاموش تھیں۔ اب فقط پیر سائیں کا انتظار تھا جو مردان خانے سے آنے والے ہی تھے۔اس دوران نادیؔ اپنے مطالبے کا اظہار کرنے کے لیے ہمتیں جمع کر تی رہی۔اسے معلوم تھا کہ ہمیشہ کی طرح کیک کاٹنے سے پہلے پیر سائیں اس سے اسی کی پسند کے کسی تحفے کے بارے میں پوچھیں گے۔اور وہ ان سے ہمیشہ دعاؤں کی ہی طلب گار رہی تھی۔مگر اس بار وہ کچھ اور ہی چاہ رہی تھی پہلے تو اسے دعاؤں کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی قیمتی تحفہ مل جایا کرتا تھا۔لیکن اس بار اسے کسی بھی قسم کے تحفے کی اُمید نہیں تھی۔اسے یہ احساس بھی تھا۔اس کا مطالبہ ہی کچھ ایسا تھا کہ جیسے کہنے کے بعد ممکن ہے آئندہ کبھی اُسے سالگرہ منانے کی اجازت ہی نہ ملے۔
مغرب سے ذرا پہلے پیر سائیں حویلی میں آ گئے۔سلام و دعا کے بعد وہ آ کر ایک صوفے پر بیٹھ گئے۔وہ چاروں اردگرد بیٹھ گئیں۔وہ کچھ دیر تک حال احوال پوچھتے رہے یونہی ادھر ادھر کی باتیں چلتی رہیں۔تب انہوں نے کیک کی طرف دیکھا اور نادی ؔ سے پوچھا۔
’’نادیہ بیٹی۔!بتاؤ۔کیسا تحفہ پسند کرو گی۔‘‘یہ سنتے ہی نادیؔ چند لمحوں کے لیے تو پوری جان سے لرز گئی۔وہ لمحہ آ گیا تھا جس کے لیے وہ اپنے اندر کی ساری ہمتیں جمع کرتی رہی تھی۔اس کا دروانِ خون ایک دم سے تیز ہو گیا۔
’’بتاؤ بیٹی۔!بولو ۔کیا کہہ رہے ہیں شاہ جی۔‘‘ زہرہ بی نے دھیمے سے لہجے میں کہا تو نادیؔ چند لمحوں تک خاموش رہی۔پھر پوری جان سے حوصلہ کرتے ہوئے دھیرے سے بولی۔
’’پیر سائیں ۔!مجھے کالج میں پڑھنے کی اجازت دی جائے۔آپ کا یہ تحفہ میرے لئے اب تک کے تمام تحفوں سے بھاری اور قیمتی ہو گا۔‘‘
اس کا یہ کہنا تھا کہ اچانک گہرا سناٹا چھا گیا۔یہاں تک کہ سانسیں بھی گم ہوتی ہوئیں محسوس ہوئیں۔دادی اماں سمیت سبھی نے اس کی جانب یوں حیرت سے دیکھاجیسے سب کو اس کی دماغی حالت پر شبہ ہو گیا ہو۔کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ایسا مطالبہ کر دے گی۔پیر سائیں نے چونک کر حیرت بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا ان کے دیکھنے میں انتہائی درجے کی بے یویقینی تھی۔وہ کتنی ہی دیر تک ایسے یوں تکتے رہے جیسے انہونی ہونے جا رہی ہو۔خلا کے جیسے کتنے ہی لمحے گذر گئے۔جیسے وقت کوئی مالا ہو اور اس کے درمیان سے موتی غائب ہو گئے ہوں۔تبھی پیر سائیں نے خود پر قابو پایا اور خلاف توقع انتہائی نرم لہجے میں گویا ہوا۔
’’تم جانتی ہو نادیہ بیٹی۔!تم نے کیا کہا ہے ؟حویلی کی روایات میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ یہاں کی خواتین باہر قدم نکال کر سکول ،کالج یا کسی ادارے میں جا کر پڑھتی پھریں۔‘‘
’’پیر سائیں۔!میری یہ خواہش ایسی نہیں ہے کہ جس سے حویلی کی شان میں خدانخواستہ کمی ہوجائے گی۔‘‘نادیؔ نے جی کڑا کر کے کہہ دیا۔وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ اگر وہ یہاں کمزور پڑ گئی تو پھر ساری زندگی وہ اپنی کوئی بات نہیں منوا پائے گی۔پیر سائیں خاموش تھے۔وہ ایک جہاں دیدہ اور تجربے کارشخص تھا۔اس نے نادیؔ کے مطالبے میں موجود بغاوت کی ہلکی سی رمق محسوس کر لی تھی۔وہ ایک روحانی شخصیت ہی نہیں تھا بلکہ دربارشریف سے ملحقہ زمینوں اور جاگیر کے باعث زمینداروں میں بھی ایک خاص حیثیت رکھتا تھا ۔ دوسرے زمینداوں کی مانند سیاست میں دلچسپی لینا ان کی مجبوری تھا۔مریدین اور زائرین کی نفسیات سے واقف پیر سائیں نے وقت اور حالات کی نزاکت کو محسوس کر لیا تھا، اس لیے بڑے اطمینان سے بولا۔
’’ابھی تم یہ اپنی سالگرہ کا کیک کاٹو،چند دن بعد سوچ کو تمہیں بتاتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔‘‘
’’میں انتظار کرو گی پیر سائیں۔‘‘اس نے دل پر جبر کر تے ہوئے مودبانہ انداز میں کہا۔پھر کیک کاٹنے کے بعد انہوں نے کیک چکھا،اسے دعائیں دیں اورکھانا کھائے بغیر اٹھتے ہوئے بولے۔
’’اس بار میں دس تولے سونے کا زیور تمہیں تحفے میں دیتا ہوں۔زہرہ بی تمہیں وہ زیور دے دے گی۔‘‘انہوں نے کہا اوراٹھ کر جانے لگے تو نادیؔ نے جلدی سے کہا
’’ آپ مجھے پڑھنے کی اجازت دے دیں، آپ کا یہی تحفہ میرے لئے بہٹ ہی قیمتی ہوگا۔‘‘
پیر سائیں نے اس کی بات تحمل اور خاموشی سے سنی اور کچھ کہے بغیر چلے گئے۔ تب دادی اماں نے اس کی جانب دیکھ کر انتہائی حیرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’یہ تم نے کس امتحان میں ڈال دیا ہے نادی ؔ ۔یہ تو مجھے یقین ہے کہ وہ تجھے کبھی کسی کالج میں جانے کی اجازت نہیں دے گا۔مگر تمہاری اس خواہش کے ردعمل میں ہو گا کیا،اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔مجھ سے تو بس یہی سوال ہو گا کہ تمہارے اندر ایسی خواہش پیدا کیسے ہوئی۔‘‘
’’انہوں نے اگر انکار کرنا ہوتا نا،تو ابھی کر دیتے۔انہوں نے کچھ سوچ کر ہی۔۔۔‘‘نادی ؔ نے کہنا چاہا،مگر دادی اماں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’اسی خاموشی ہی سے تو مجھے خوف آ رہا ہے۔وہ کہیں کوئی ایسا فیصلہ نہ کر دے ،جس سے تم ساری عمر پچھتاتی رہو۔‘‘اس کا لہجہ بھیگ چکا تھا۔جیسے وہ ابھی رو دیں گی۔
’’ایسا کیا ہو سکتا ہے۔‘‘اس نے حیرت سے پوچھا
’’یہ تو میں نہیں جانتی۔لیکن یہ ممکن ہے کہ اب تمہاری شادی بہت جلد کر دی جائے۔‘‘انہوں نے کہا ۔
’’میری شادی ۔اتنی جلدی۔‘‘اس نے چونکتے ہوئے کہا۔
’’وہ ظہیر شاہ سے تمہاری شادی بھی کر سکتا ہے۔یہ مت بھولو کہ وہ لندن سے چند دنوں کے لیے یہاں آ بھی سکتا ہے۔‘‘دادی نے یوں کہاجیسے اسے دکھ محسوس ہو رہا ہو۔
’’کیا،وہ میری شادی ظہیر سے کر دیں گے۔؟‘‘نادیؔ کے لئے یہ انکشاف حیرت زدہ کر دینے والا تھا۔
’’ہاں۔! اس کا یہی خیال ہے ۔بلکہ وہ اس معاملے پر مجھ سے بات بھی کر چکا ہے۔پہلے تو یہی طے تھا کہ جیسے ہی ظہیر شاہ اپنی تعلیم مکمل کر کے واپس آئے گا۔تمہاری شادی اس سے کر دی جائے گیا۔لیکن اب۔۔‘‘ دادی نے حتمی انداز میں کہا تو وہ ایک دم سے خاموش ہو گئی۔
ظہیر شاہ سے شادی کا مطلب تھا کہ باقی زندگی حویلی کی انہی اونچی اونچی دیواروں میں دفن ہو جائے گی۔وہ کبھی کبھی سوچا کرتی تھی کہ شاید ایسے ہی کسی تعلق کے باعث اس کی رہائی ممکن ہو جائے گی۔لیکن نہیں یہ اس کا وہم تھا۔پیر سائیں تو اس کے بارے میں کوئی اور ہی فیصلہ کر چکے تھے۔زہرہ بی اور فرح تو پہلے ہی مہر بلب تھیں۔ان کی تو یہ بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ ان کی کسی بات پر کوئی تبصرہ ہی کر دیتیں۔تبھی نادیؔ نے عجیب سے لہجے میں ایک دم سے کہا۔
’’اوکے۔!میں ان کے فیصلے کا انتظار کروں گی۔فی الحال تو اس وقت کو انجوائے کریں ۔لیں یہ کیک کھائیں۔‘‘ اس نے یوں پوز کیا جیسے کچھ بھی نہ ہوا ہو۔لیکن وہ جتنی دیر بھی ان کے درمیان رہی،بہت ہی بدل اور بے چین رہی۔پھر کسی نے بھی اس موضوع پر بات نہیں کی ۔یہاں تک کہ وہ جلد ہی اپنے کمرے میں آ گئی۔
شادی کے لفظ کے ساتھ جو ریشمی تاثرات بندھے ہوتے ہیں۔اس سے ہر لڑکی کے من میں ہلچل ضرور ہوتی ہے۔وہ اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھی مسلسل یہی سوچے چلے جا رہی تھی۔کالج جانے کا مطالبہ پس منظر میں چلا گیا تھا۔وہ اپنی شادی ہی کے بارے سوچتی چلی جا رہی تھی۔جو اس کے لئے ذرا بھی خوشگوار نہیں تھا۔اسے سب سے بڑا گلہ یہی تھا کہ پیر سائیں کے بعد ظہیر شاہ نے گدی نشین ہو جانا تھااور اس کی زندگی زہرہ بی کی مانند ہو جانے والی تھی۔ایک بے جان وجود کی مانند جس کامقصدفقط حکم کی بجاآوری تھا۔ان کا خاندان کو ئی اتنا بڑا نہیں تھا۔رشتے داروں میں فقط زہرہ بی کا ایک بھائی تھا،جس کی اولاد ان سے چھوٹی تھی۔ظاہر ہے اگر اس کی شادی ظہیر شاہ سے نہ ہوتی تو پھر ساری زندگی یونہی گذارنا تھی۔بن بیاہی قیدی ،جیسے فرح تھی۔اس کے بارے میں بھی یہی گمان تھا کہ اس کی شادی نہیں ہونے والی تھی ۔وہ کسی دوسرے خاندان کی لڑکی بیاہ کر لا سکتے تھے مگر اپنی لڑکی کسی کو نہیں دیتے تھے۔یہ بھی حویلی کی روایت میں سے ایک روایت تھی۔وہ گبھرا کر بیڈ سے اُٹھ گئی ۔کیونکہ نادیؔ ایسی زندگی جینا نہیں چاہتی تھی۔وہ آئینے کے سامنے آن کھڑی ہوئی تھی۔اس نے پہلی بار اپنے آپ کو یوں دیکھا،جیسے کوئی اجنبی کسی کو دیکھ رہا ہو۔وہ آئینے میں اپنا عکس دیکھ رہی تھی۔جس میں بھرے بھرے بدن والی بوٹے سے قد کی ایک لڑکی کھڑی ہوئی تھی۔گداز بدن، سفید شہدملا رنگ،سیاہ گھنگھریالے گھنے گیسو،جو اس کی کمر تک جھول رہے تھے۔مناسب سی گردن پر گول چہرہ ،بڑی بڑی آنکھیں ،رس ٹپکاتے ہوئے سرخ لب،مناسب ناک اور بھاری بھاری گداز گال،جس کے دائیں جانب گہرا ڈمپل پڑتا تھا۔اس نے اپنے دونوں گداز ہاتھوں کی مخروطی انگلیوں سے اپنے گھنے گیسوؤں کو باندھا تو عکس نے اس کا پورا سراپا نمایاں کر دیا۔اس نے اپنا آنچل درست کیااور خود کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگی کہ کالج یونیفارم میں وہ کیسی لگے گی یا پھر دلہن کا لباس اس پر کیسا سجے گا۔وہ سوچوں ہی سوچوں میں ان ہیولوں کو دیکھتی رہی۔پھر اپنے بیڈ پر آکر سوچنے لگی کہ پتہ نہیں آئندہ دنوں میں اس کی قسمت کا فیصلہ کیا ہو گا۔وہ کالج جا بھی پائے گی یا نہیں۔یا پھر اسی چاردیواری میں وہ نئے رشتوں کی زنجیریں پہن کر سسکتے رہنے پر مجبورہو جائے گی۔اس رات نادیؔ نے بڑی شدت سے اپنے والدین کو یاد کیا تھا۔جن کا چہرہ بھی اسے یاد نہیں تھا۔چند تصویریں تھیں،جن سے وہ اپنے والدین کے خال وخد یاد رکھے ہوئے تھی۔اگر وہ ہوتے تو شاید اسے یوں مطالبہ کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔زندگی نجانے اس کے ساتھ کیا کھیل کھیلنا چاہتی ہے۔ یہی سوچتے ہوئے ہو نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...