دن نکل آیا، مجھے کافی ہلکا ہلکا محسوس ہونے لگا۔ جلدی تیار ہو کر کمپنی میں گیا اور ایک آزاد ذہن سے ‘آدمی’ کی میکنگ کے کام میں اپنے آپ کو جھونک دیا۔ دن بھر شوٹنگ کرنے کے بعد رات میں یا تڑکے اٹھ کر میں سنیریو لکھنے بیٹھا کرتا تھا۔ دن رات مجھ پر تو بس یہی ایک دُھن سوار رہتی کہ کیسے فلم کا ہر سین پُراثر ہو گا، کیسے ہر سین ناظرین کے ذہن پر انمٹ چھاپ چھوڑ جائے گا۔ ہر سین لینے سے پہلے ہی اُس کے کرداروں اور کیمرے کی چھوٹی سے چھوٹی ہلچل کیسی ہو، اس کا مکمل خاکہ میرے من میں تیار رہتا تھا، ایک دم صاف اور واضح۔
چکلہ بستی میں گھومتے پھرتے سمے آخر میں ہماری ملاقات جس ویشیا سے ہوئی تھی اس نے زور دے کر کہا تھا کہ ہم لوگ اگرچہ جسم بیچتے ہیں، ہر دن صبح بھگوان کی پوجا کیے بنا پانی تک نہیں پیتے۔ اس کی بات سن کر تب ہم لوگ کافی دنگ رہ گئے تھے۔ میں چاہتا تھا کہ مہذب سماج کی نظروں میں گری ہوئی اور بدنام ہو چکی ان عورتوں کی جو مذہبی ذہنیت ہے، ناظرین کے سامنے بِنا کہے آ جائے۔ لہٰذا ایک چُھپا ہوا مزاحیہ سین میں نے سکرین پلے میں جوڑ دیا : ہیروئین والی چال میں ہی دو ویشیائیں سویرے پوجا کرتے کرتے بیچ ہی میں اپنے کوٹھوں کے دروازوں پر آ کر کل رات آئے کسی گاہک کے بارے میں زوروں سے جھگڑا کرتی رہتی ہیں۔ ان میں سے ایک کو اتنا طیش آ جاتا ہے کہ پوجا کا خیال بُھلا کر آرتی کا دِیا ہاتھ میں لیے ہی وہ دروازے پر آ کر پتہ نہیں کیا کیا بڑبڑاتی رہتی ہے اور پھر اندر چلی جاتی ہے۔ اس کے جواب میں جھگڑے میں الجھی دوسری ویشیا بھی پوجا کی گھنٹی ہاتھ میں لیے اپنے دروازے پر آ کر پہلی ویشیا کو کافی بھلا برا کہہ کر پھر اندر چلی جاتی ہے اور پوجا کرنے لگ جاتی ہے۔ یہ سلسلہ کچھ دیر یوں ہی میں نے جاری رکھا۔
ویشیاؤں کے کوٹھوں پر مختلف مذاہب اور جاتیوں کے لوگ جایا کرتے ہیں۔ اس ویشیا کے کوٹھے پر گاہکوں کو ہوٹل سے چائے لا کر دینے والے چھوکرے کے منہ سے یوں ہی مذاق میں ایک بے معانی بکواس گیت گوایا تارے۔۔ نا۔۔ نانو۔۔ نانو۔۔
کیسر اپنے کوٹھے پر آئے مختلف صوبوں کے شوقین گاہکوں کے سامنے ‘اب کس لیے کل کی بات’ گانا گاتی ہے۔ سبھی رسیا گاہک خوش ہو کر اس پر پیسوں کی برسات کرتے ہیں۔ وہ سب لوگ کوٹھے پر سے چلے گئے ہیں، یہ سین دِکھتا ہی نہیں۔ دکھائی دیتی ہے صرف ان کی کیسر پر کی گئی پیسوں کی برسات۔ اس سے تو کتنی ہی باتیں بِنا کہے اشارے سے ہی من پرنقش ہو جاتی ہیں؛ جیسے ابھی کچھ ہی لمحے پہلے وہاں جمی محفل میں آئے کیسر کے چہیتے اس کی اپنی نگاہ میں صرف چند چاندی کے سکے ہیں، زندگی چلانے کے محض ذرائع ہیں، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ تھکی ماندی کیسر غیر متغیر من اور چہرے سے دھیرے دھیرے ان سِکّوں کو بٹورتی دکھائی گئی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
گنپت کیسر کو دھندا چھوڑ دینے کے لیے کہتا ہے اور اسے پہلے کے برعکس کچھ مزید مہذب بستی کی ایک چال میں لے آتا ہے۔ گنپت ایک معمولی آدمی ہے۔ اسے لگتا ہے یہ بھی اس نے کوئی بہت بڑا کام کر لیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس کے من میں یہ ڈر بھی سمایا ہوا ہے کہ اس عورت کے ساتھ کسی پہچان والے نے اپنے کو دیکھ لیا تو بہت درگت بن جائے گی۔ اسے نئے کمرے میں پہنچا کر، گنپت یہ کہتا ہوا چلا جاتا ہے کہ ”شام کو اندھیرا ہونے کے بعد آؤں گا۔” یہاں ‘شام’ کے ساتھ ہی ‘اندھیرا ہونے کے بعد’ یہ لفظ رکھنے کے کارن گنپت کے من میں چھپا وہ ڈر بھی اپنے آپ ظاہر ہو گیا کہ وہ چاہتا ہے، اسے وہاں آتے کوئی دیکھ نہ لے۔ کیسر شام ہونے تک اس کی راہ تکتے تکتے اوب جاتی ہے۔ یوں ہی وہ کمرے میں جلائی موم بتی کی موم کی بوندوں سے’ ٢٥٥’ کا ہندسہ زمین پر بناتی ہے۔ یہ گنپت کے پولیس بیج کا نمبر ہوتا ہے۔ اندھیرا ہونے کے بعد گنپت اس کے کمرے کی طرف جانے کی ہمت بٹورتا ہے۔ لیکن پاس ہی کے کمرے میں گنپت کا کوئی دور کا رشتےدار گاؤں سے آ کر ٹھہرا ہوا ہوتا ہے۔ برآمدے میں اپنا بستر بچھانے کی تیاری کر رہے اس رشتےدار کو دیکھتے ہی گنپت کی ساری ہمت پست ہو جاتی ہے۔ وہ اس بوڑھے رشتےدار سے منھ دیکھا حال احوال پوچھ کر کیسر سے ملے بِنا ہی واپس چلا جاتا ہے۔
کئی بار ذہن کی الجھی ہوئی گتھی اشارتاً سین میں ہی زیادہ پُراثر معلوم ہوتی ہے۔ گنپت کو اس طرح لوٹتا دیکھ کر کیسر مایوس ہو کر اپنے پرانے کمرے میں چلی آتی ہے اور مجبور ہو کر اپنا پہلا دھندا پھر شروع کرتی ہے۔ گنپت اس کے کوٹھے پر آتا ہے۔ اس سمے وہاں دو گاہک بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ کیسر کی اُن کے لیے منگوائی گئی چائے میں بڑی اکڑ کے ساتھ روپے کا سکہ ڈالتے ہیں اور کیسر سے کہتے ہیں، اپنے ہاتھوں چائے پلاؤ۔ کیسر ہنستے ہنستے ایک بانہہ ان کے گلے میں ڈال کر انھیں چائے پلاتی ہے اور پیالی میں ڈالا روپیہ نکال لیتی ہے۔ تبھی اس کی نظر دروازے پر کھڑے گنپت کی طرف جاتی ہے۔ وہ اسے بھی پوچھتی ہے، “چائے لو گے؟” گنپت ‘ہاں’ کرتا ہے۔ کیسر چائے کی پیالی اس کے سامنے لے کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ گنپت پیالی میں ایک سکہ ڈال کر وہ گرم چائے غصے میں کیسر کے منھ پر دے مارتا ہے اور تمتما کر وہاں سے لوٹ جاتا ہے۔ اب کیسر کو بھی غصہ آتا ہے۔ وہ تنتناتی ہوئی اس کے پیچھے پیچھے جاتی ہے اور اس کی اس حرکت کا جواب مانگتی ہے۔ گنپت آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور اپنے ڈنڈے میں جو چمڑے کا پٹا لگا ہوتا ہے اس کا ایک کوڑا کیسر کی جانگھ پر جما دیتا ہے۔ کیسر بھی غصے میں سڑک پر پڑا ایک بورڈ اٹھا لیتی ہے اور گنپت کو مارنے کے لیے اٹھاتی ہے لیکن وہ اسے مار نہیں سکتی۔ اور سڑک کے ایک کھمبے پر ہی اپنا غصہ اتارتی ہے۔ اس بورڈ کو وہیں پھینک کر وہ تنکتی ہوئی چلی جاتی ہے۔
گنپت اس کی طرف دیکھتا رہتا ہے اور اپنی ہی جانگھ پر اسی پٹے کا ایک کوڑا کس کر جما لیتا ہے۔ محسوس کرنا چاہتا ہے خود کہ کیسر کو کتنے زور سے لگا ہو گا وہ کوڑا۔ پھر اس سمت کی طرف دیکھتا رہتا ہے جدھر کیسر گئی ہے، اور جانگھ ملتا جاتا ہے۔
دھیرے دھیرے گنپت آگے بڑھتا ہے۔ راہ میں ایک مکان کی دیوار پر اس نے کیسر سے ملاقات کرنے کے بعد ایک ایک لکیر کھینچی ہے۔ ان لکیروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ دونوں کتنی بار ملے تھے۔ وہاں پہنچنے پر گنپت پھر ایک بار کیسر جدھر چلی گئی تھی، ادھر دیکھتا ہے اور اپنے ہاتھ کے ڈنڈے سے اس دیوار پر ایک اور لکیر بنا دیتا ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو اس بار ہوئی ملاقات آپسی جھگڑے والی تھی۔ گنپت کے اس فعل سے اس کے من کی گہرائی میں کیسر کے لیے کتنی محبت ہے یہی بات ابھر کر آتی ہے۔ اس طرح غصہ اور موہ سے پرے نا قابل بیان اعلیٰ جذبات کا ملا جلا احساس واضح ہو جاتا ہے اور علامتی تخیل اپنے کلائمکس تک پہنچ جاتا ہے۔
گنپت اپنے گاؤں میں اپنے کھیت پر جانے کو تیار ہوتا ہے۔ کیسر بھی اس کے پیچھے پیچھے جاتی ہے۔ دونوں ایک جھونپڑی میں رات بھر کے لیے قیام کرتے ہیں۔
فلم ‘آدمی’ کا پوسٹر
وہاں پھیلی خاموش تنہائی کے کارن کیسر سوچتی ہے کہ گنپت اب اسے اپنی بانہوں میں بھر کر پاس سلائے گا۔ وہ جھونپڑی کے اندر سے بے کار ہی کچھ بولنے کی کوشش کرتی ہے۔ جھونپڑی کے اندر اکیلی کو بڑا ڈر لگ رہا ہے، ایسا بہانہ بھی بناتی ہے۔ لیکن کچھ دیر بعد یہ دیکھ کر کہ باہر سے گنپت کا کچھ بھی جواب نہیں آیا، وہ یہ دیکھنے کے لیے کہ آخر گنپت اکیلا باہر کر کیا رہا ہے، جھونپڑی کے دروازے پر آتی ہے۔ دیکھتی ہے، گنپت تو ایک کمبل اوڑھ کر گھوڑے بیچ کر سو گیا ہے۔ اس سیدھے سادے ضدی گنپت کی طرف سراہنا بھری نظر سے دیکھتے دیکھتے کیسر جھونپڑی کی دہلیز پر بیٹھ جاتی ہے۔
ضبط کے سلیقے کا پران ہوتا ہے۔ اس لَو سین کو ٹالنے کے کارن ساری فلم کو ہی ایک غیرمتوقع موڑ مل جاتا ہے۔ گنپت کی بھولی بھالی شخصیت اور بازاری کیسر کو مرد کے بارے میں جیون میں پہلی بار دیکھنے کو ملا یہ ایک دم نرالا پہلو، دونوں نتائج اس لَو سین کے کارن برابر حاصل ہو گئے۔ فلم میں ایک بھی سین مستحکم نہیں رہتا۔ ہر منٹ نوے فٹ یا ہر سیکنڈ چوبیس تصویروں کی رفتار سے ساری پٹی آنکھوں کے سامنے سے گزرتی رہتی ہے۔ اتنے محدود سمے میں کرداروں کے سوبھاؤ کی نزاکت بھری باریکیوں کو پیش کرنے والے سین کی رچنا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
کبھی کبھی تضاد پیدا کر کے بھی ایک دم صحیح نتیجہ حاصل کیا جاتا ہے۔ جیسے: گنپت محسوس کرتا ہے کہ وہ کیسر سے پیار کرنے لگا ہے۔ وہ اپنے دوست بابا صاحب سے پوچھتا ہے، “کیا تم اپنی پتنی سے پیار کرتے ہو؟” وہ دوست بھی پرانے دھرے کا آدمی ہوتا ہے۔ کہہ دیتا ہے، “دھت، میں کیا جانوں پیار وار کیا ہوتا ہے؟” اور فوراً ہی وہ اپنی پتنی کو ڈھونڈھنے لگتا ہے۔ اس کی پتنی پچھواڑے میں کپڑے دھو رہی ہے۔ وہ غصے میں وہاں جاتا ہے اور پتنی کے ہاتھوں سے دھونے کے سارے کپڑے چھین کر پھینک دیتا ہے اور اسے لگ بھگ کھینچتا ہوا زبردستی کمرے میں لے جا کر سلاتا ہے۔ کہتا ہے، “کل سے اسے بخار ہے۔ کہا تھا پڑی رہو، تو جا کر کپڑے دھونے بیٹھ گئی۔ ایسی پتنی سے بھی بھلا کہیں پیار کیا جاتا ہے؟” پتنی کو اچھی طرح سے کھٹیا پر لٹا کر پیار سے کمبل اوڑھا دیتا ہے اور پھر کہتا ہے، “میں تو اس سے پیار ویار قطعی نہیں کرتا!” قول و فعل میں باہمی تضاد دکھا کر مزاح پیدا تو ہوتا ہی ہے، ساتھ ہی ڈائریکٹر جس بات پر زور دینا چاہتا ہے ناظرین کے من میں برابر بیٹھ جاتی ہے۔
کچھ سین اُن کی شوٹنگ کے ڈھنگ کے کارن کمال کے دل چھو لینے والے ہو جاتے ہیں:
کیسر کے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کر گنپت اسے اپنی ماں کے پاس لے آتا ہے۔ ماں بچاری بہت ہی سیدھی سادی، بھولی بھالی ہے۔ دیکھتے ہی اسے کیسر پسند آ جاتی ہے۔ وہ اپنی کلسوامنی بھوانی (دیوی) سے فیصلہ مانگتی ہے۔ بھوانی کی مورت پر دونوں طرف ایک ایک پھول رکھا جاتا ہے۔ دائیں جانب کا پھول گرا تو بھوانی کو بہو پسند اور بائیں جانب کا گرا تو ناپسند۔ پھر گنپت کی ماں اپنا اِکتارا اٹھاتی ہے اور آنکھیں بند کر ‘جگدمب، جگدمب’ نام پکارنا شروع کرتی ہے۔ گنپت اور کیسر آنکھیں پھاڑ کر بےصبری سے دیکھتے ہیں کہ بھوانی کیا فیصلہ دیتی ہے۔ بھوانی کے بائیں جانب کا پھول تھوڑا سا ہلتا ہے۔ گنپت کا دھیرج ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ اپنے من مطابق فیصلہ حاصل کرنے کے لیے دائیں جانب کے پھول کو پھونک مار کر ہوا دیتا ہے۔ زور کی پھونک لگنے کے کارن دائیں جانب کا وہ پھول نیچے گرتا ہے۔ بھوانی نے دایاں پھول گرا کر بہو کو پسند کیا، یہ دیکھ کر گنپت کی ماں کو بہت خوشی ہوتی ہے۔
اس کے بعد گنپت رات کی باری کے لیے کام پر چلا جاتا ہے۔ گنپت کی ماں کیسر کو یہ مان کر کہ وہ جیسے ابھی سے اس کی بہو ہو چکی ہے، گنپت کو کھانے پینے کا کیا کیا اور کن کن باتوں کا شوق ہے بڑی ممتا سے سمجھانے لگتی ہے۔ ماتا جی کو بولتے بولتے نیند آنے لگ جاتی ہے۔ لیکن کیسر سو نہیں پاتی۔ گنپت نے کس طرح زبردستی اور جھوٹے پن سے بھوانی کا دایاں فیصلہ حاصل کیا، اسے کھائے جاتا ہے۔ وہ کروٹ بدلتی ہے تو اس کا ہاتھ اچانک پاس رکھے اِکتارے پر پڑتا ہے۔ اِکتارے کی آواز سے کیسر بےحد چونک جاتی ہے۔ دودھ کے دھوئے، بے داغ ذہن کی اس بڑھیا کو دھوکا دینے کا خیال بھی کیسر کے لیے نا قابل برداشت ہو اٹھتا ہے اور وہ آدھی رات ہی گنپت کے گھر سے اکیلی نکل جاتی ہے۔
بعد میں گنپت باؤلا بنا اسے کھوجتا پھرتا ہے۔ وہ اس کی پرانی چال پہنچ جاتا ہے۔ وہاں ساری چال کی سفیدی کا کام جاری ہے۔ گنپت کیسر کے کمرے میں جاتا ہے۔ وہاں کیسر نے پہلے کبھی اس کی یاد میں اسکا ٢٥٥ نمبر دیوار پر لکھ رکھا تھا، اسے دیکھتا ہے۔ تبھی رنگ ساز کا برش اس ہندسے پر سے پھرتا ہے۔ وہ ٢٥٥ کا ہندسہ مٹ جاتا ہے۔ اس ایک ‘ٹچ’ نے ان کے کارن درد ناک احساسات ظاہر کر دیے۔
گنپت وہاں سے تیزی سے نکل جاتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ جیون میں اس کا پیار ہی جیسے کسی نے مٹا دیا ہے۔ مایوسی اسے خود کشی کے لیے مائل کرتی ہے۔ گنپت کی تیز قدمی، دکھ بھری نظر میں دکھائی دینے والے ارادے، اور پاس ہی تیزی سے بہتی جانے والی ندی کی دھارا کے الگ الگ کونوں سے لیے گئے کلوز اپ تیز رفتار سے پردے پر دکھائی دیتے ہیں۔ نتیجتاً اس سارے سین کی شدت بہت ہی بڑھ جاتی ہے۔ قابل جگہوں پر قابل علامتوں کا استعمال کرنے سے منظر بے حد دل کو چھو جاتا ہے۔ ناظرین بھی یہی مانتے ہیں کہ اب گنپت خود کشی کرے گا۔ وہ اپنے دلوں کو تھام لیتے ہیں۔ تبھی اس کا پولیس والا دوست اسے روکتا ہے اور خود کشی کے وچار سے اسے نکالتا ہے۔ وہاں سے وہ دونوں شراب کے اڈے پر جاتے ہیں۔ اپنا غم ہلکا کرنے کے لیے گنپت ایک بوتل اٹھا لیتا ہے۔
میں جب جرمنی میں تھا، اس سمے کی بات یاد آئی۔ وہاں میں اکیلا تھا اور اسی طرح گہری مایوسی میں ڈوبا تھا۔ تب میں نے بھی اسی طرح شراب کی بوتل منگوائی تھی۔ اس سمے من میں وچاروں کا جو طوفان کھڑا ہوا تھا، وہ جوں کا توں میں نے گنپت کے متر کے مکالمے کے روپ میں دے دیا۔ آخر گنپت شراب کی بوتل زمین پر دے مارتا ہے، توڑ دیتا ہے اور زندگی کا سامنا کرنے کے لیے سچے معنوں میں تیار ہو جاتا ہے۔
اس بیچ کیسر ہمیشہ پیسہ اینٹھنے والے اپنے شرابی ماما کو قتل کر ڈالتی ہے۔ بدقسمتی سے وہ گنپت کے ہاتھوں ہی پکڑی جاتی ہے۔ اس پر قتل کے الزام میں مقدمہ دائر کیا جاتا ہے۔ مقدمے کی کارروائی کا سین، وکیلوں کے دلائل، گواہوں کے بیان، زبان دانی اور مکالموں سے یہ بھرپور تھا۔ اسے ویسا ہی فلمایا جاتا تو بھاشن ہی بھاشن ہو جاتے۔ لہٰذا میں نے اس سین کا شوٹنگ لکیر سے ہٹ کر عدالت کی کانچ کی بند کھڑکیوں کے باہر سے کیا۔ نتیجتاً عدالت کے اندر جاری سبھی کرداروں کی سرگرمیاں تو برابر دکھائی دیں لیکن لفظوں کے جنجال سے فلم بچ گئی۔ بولتی فلم کا دور شروع ہونے کے بعد خاموش فلم سا لگنے والا یہ سین پہلی ہی بار فلمایا گیا تھا۔ چاہتا تو تھا کہ اسے ایسا ہی رہنے دوں۔ لیکن سوچا کہ کہیں ناظرین یہ نہ سوچ لیں کہ سنیما گھر کا ساؤنڈ سسٹم ہی فیل ہو گیا ہے، اور وہ ‘آواز آواز’ کی چیخ و پکار سے واویلا نہ کھڑا کریں، اس سین کو میں نے ماحول کے مطابق آرٹسٹک بیک گراونڈ میوزک سے جوڑ دیا۔
لیکن ابھی فلم کا بنیادی مقصد کامیاب نہیں ہوا تھا۔ محبت کی ناکامی کے کارن مایوس ہو کرغم کو ہلکا کرنے کے لیے شراب کا عادی ہو جانا یا خودکشی کے لیے راضی ہونا آدمی کی بزدلی کی نشانی ہے، یہ بتانے تک تو میرا مقصد کامیاب ہو گیا تھا۔ لیکن اس سے بھی آگے جا کر میں یہ بتانا چاہتا تھا کہ محبت کی ناکامی کے کارن دل ٹوٹ بھی گیا، تو بھی اس محبت کی یاد کو دل کے کسی کونے میں سنجو کر آدمی کو اپنا فرض ادا کرتے رہنا چاہیے اور جیون بِتاتے رہنا چاہیے۔ یہ انمول پیغام میں کسی بھاشن یا لیکچر کے ذریعے نہیں دینا چاہتا تھا، ورنہ سارا گُڑ گوبر ہو جاتا۔ کافی سوچا، لیکن کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ رات رات جاگتا رہا۔ لیکن من میں آیا ایک بھی خیال آخر ٹھیک سے جچا نہیں۔ ایک بار تو ساری رات کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی گزار دی۔ صبح ہوتے ہوتے تھوڑی سی آنکھ جھپکی اور جاگا تو فلم کے آخری سین کا پورا آئیڈیا لے کر ہی:
پولیس پریڈ جاری ہے۔ کیمرے میں دکھائی دے رہا ہے کہ گنپت سخت اور کٹھور چہرے سے دیگر پولیس سپاہیوں کے ساتھ پریڈ کر رہا ہے۔ چلتے چلتے وہ نیچے دیکھتا ہے۔ کیمرا بھی نیچے دیکھتا ہے۔ کیمرے میں گنپت کے ڈسپلن میں تیزی سے پریڈ کرتے جا رہے قدم دکھائی دیتے ہیں، اس کی چپلیں دکھائی دیتی ہیں۔ کسی گذشتہ سین میں یہ چپلیں ٹوٹی ہوئی ہوتی ہیں اور کیسر خود انہیں ٹھیک کر کے لائی ہے، اس کی یاد میں گنپت کے چہرے پر احساسات ابھر آتے ہیں۔ چپلوں پر سے نظر ہٹا کر وہ پھر سامنے دیکھ کر سینہ تان کر پریڈ کرنے لگتا ہے۔ اس کے بعد گنپت کے آگے پیچھے ہلنے والے ہاتھ ہی اہم مقصد دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اس یونیفارم پر کانسٹیبل کے جو فیتے لگے ہوتے ہیں، وہ بدل کر حوالدار کے اور پھر جمعدار کے ہو جاتے ہیں۔ بِنا ایک بھی شبد کے سارا ارادہ صرف اشارے دیتے سین اور علامتوں کی مدد سے بتانے کی میری کوشش ہوتی کامیاب ہو گئی۔ یہ آخری سین اس فلم کا انتہائی نقطہ ہو گیا۔
اس فلم کی ایڈیٹنگ میں بھی نئے طریقے اپنانا طے کیا۔ لمبائی ناپ کر فوٹو کاٹنے کا پرانا طریقہ تیاگ دیا۔ سین میں موجود احساسات اور ان کے مطابق ضروری رفتار کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر ہی میں فلم بھی کاٹنے لگا۔ شاٹ فلم گھر میں جتنی رفتار سے دکھایا جانے والا ہے، اسی رفتار سے میں اسے اپنے ہاتھوں کے اوپر سرکاتا جاتا اور جہاں ایسا لگتا کہ بس یہ شاٹ اتنا ہی ہونا چاہیئے، وہیں اسے کاٹ کر اگلے شاٹ کو جوڑ دیتا۔ اس طریقے کے کارن ایڈیٹ سین پہلے کے مکینیکل طریقہ کار سے ایڈیٹڈ منظروں کے برعکس نتیجہ خیز اور پُراثر معلوم ہوتے تھے۔
ایڈیٹنگ کا کام پوری رفتار سے چل رہا تھا۔ تبھی بمبئی سے بابوراؤ پینڈھارکر جلدی میں پُونا آئے۔ سینٹرل سینما میں اس سمے جاری فلم کی آمدنی یکایک کم ہو گئی تھی۔ وہاں دوسری فلم لگانا ضروری ہو گیا تھا۔ وہاں کسی دوسری کمپنی کی فلم لگاتے تو ہم لوگوں کو تب تک انتظار کرنا پڑتا، جب تک کہ وہ فلم وہاں سے ہٹا نہیں لی جاتی۔ آئندہ فلم ریلیز کرنے کی اعلانیہ تاریخ ابھی پورے تین ہفتے بعد کی تھی۔ ابھی ‘آدمی’ کی ایڈیٹنگ، بیک گراونڈ سنگیت وغیرہ کئی کام باقی تھے۔
میں نے فیصلہ کیا اور بابوراؤ پینڈھارکر سے کہا، “تھئیٹر کو ہاتھ سے جانے مت دیجیے۔ آپ نے جو تاریخ طے کی ہے، اس دن آپ کو نئی فلم ریلیز کرنے کے لیے ضرور مل جائے گی۔”
بابوراؤ میرے فیصلے سے مطمئن ہو کر فوراً ممبئی لوٹ گئے۔
اس رات میں نے ہمیشہ کی طرح دس بجے کام بند نہیں کیا۔ ایڈیٹنگ مشین پر بیٹھا تھا، اٹھتے اٹھتے سویرا ہو گیا۔ اٹھتے سمے اپنے معاون کو ہدایت بھی دے دی کہ ٹھیک ایک گھنٹے بعد کام پھر شروع کرنا ہے۔ تب تک وہ سب کاموں سے فارغ ہو لیں۔ میں خود تو آدھے گھنٹے بعد ہی پھر کام پر آ گیا۔ اس کے بعد سورج کئی بار اُگتا گیا، ڈوبتا گیا۔ راتیں ہوتی گئیں، بیتتی گئیں۔ مجھے دیگر کسی بات کا ہوش ہی نہ تھا۔ بس دُھن ایسی سوار ہو گئی تھی کہ طے سمے پر فلم کے سارے کام پورے کرنے ہیں، دیگر کوئی بات نہ تو سوجھتی، نہ سہاتی تھی۔ بھوک، پیاس، نیند، سب کہیں کھو گئے۔
کہیں میری یہ غنودگی ٹوٹ نہ جائے، یہ سوچ کر میرے سبھی معاون سمے کا دھیان مجھے کبھی نہیں دلاتے تھے اور بھوکھے پیاسے رہ کر میرے ساتھ برابر کام کیے جا رہے تھے۔ کام کی اس مدہوشی میں، اپنے انڈر کام کرنے والے لوگوں کو دو روٹیاں سمے پر کھانے کو ملیں، اس لیے جیون میں پہلی بار میں نے رِسٹ واچ باندھنا شروع کیا۔ فلم کو تیزی سے آگے پیچھے سِرکاتے سمے کبھی کبھار اس پر میری نظر پڑ گئی اور شام کو چار پانچ بجے کے بجائے ان لوگوں کو دوپہر دو ڈھائی بجے بھوجن کی بریک ملنے لگی۔ ایڈیٹنگ کرتے سمے دماغ میں پوری فلم کے فارمولے ہوتے تھے۔ ہر سین کی رچنا، اس کی رفتار وغیرہ کے بارے میں مسلسل وچار جاری رہتا تھا۔ نتیجتاً نیند تو مجھے کبھی نہیں آتی تھی۔ لیکن میرے بیچارے معاون فلم جوڑنے کے لیے ہی دن رات میرے پاس کھڑے رہتے تھے۔ دو تین بار تو ایسا ہوا کہ وہ کھڑے کھڑے ہی نیند آ جانے کے کارن گر پڑے۔ تب سے میں نے ان کی دو شفٹیں کر دیں، اور ان کے لیے آٹھ آٹھ گھنٹوں کی باری باندھ دی۔ ایک کام کرتا تب دوسرا سو لیتا تھا۔ میں دیگر کام دھرم اور کھانے وغیرہ کے لیے آدھا پونا گھنٹہ نکالتا اور باقی سمے اپنے کام میں کھو جاتا تھا۔
پھر بھی سارا کام سمے پر پورا ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ کیلینڈر پر لال کراس لگا رکھی تاریخ ہر روز دیکھ کر ہی میں سارے کاموں کو نبٹاتا جا رہا تھا۔ ایک ہفتہ گیا۔۔۔ ریلیز کی تاریخ چار دن پر آ گئی۔ اس بیچ جاری کی ہوئی دو باریوں کا سسٹم بھی بند کرنا پڑا۔ ہر ڈیپارٹمنٹ کے لوگ اپنے اپنے کام ذرا بھی نہ سستاتے ہوئے دن رات کرنے میں جٹے ہوئے تھے۔ ہرسین کی آخری ایڈیٹنگ ہو چکی تھا۔ بغل کے کمرے میں نگیٹووں کو کاٹ کاٹ کر گراریوں پر چڑھانے کا کام جاری تھا۔ تیار گراریوں پر بیک گراونڈ میوزک کے نقش کرنے کا کام ماسٹر کرشن راؤ اور وسنت دیسائی من لگا کر کر رہے تھے۔ پل میں ایڈیٹنگ روم میں، تو دوسرے ہی لمحے بیک گراونڈ میوزک کے ساوئنڈ ریکارڈنگ ڈیپارٹمنٹ میں میری بھاگ دوڑ جاری تھی۔ آخری چھ سات دنوں میں سبھی کاریگروں اور کام گاروں نے بڑی لگن اور عقیدت سے کام کیا۔ ان کی دلی تعاون کو میں کبھی بُھلا نہیں سکتا۔
‘آدمی’ کو ریلیز کرنے کی تاریخ آ گئی، تب بھی اس کی پوری کاپی تیار نہیں ہو پائی تھی۔ پھر بھی میں نے بمبئی فون کیا اور بابوراؤ پینڈھارکر سے ٹھاٹھ سے کہہ دیا کہ دوسرے دن صبح دس بجے فلم سنسر کے پاس ضرور پہنچ جائے گی۔
پُونا کے ‘پربھات’ تھئیٹر میں رات کا شو ختم ہونے کے بعد میرے سبھی ساتھی مددگار، کلاکار، کاریگر، ‘آدمی’ کی ٹرائل ریلیز دیکھنے کے لیے پُرجوش انتظار کر رہے تھے۔ میں سویرے پانچ بجے ہماری لیب سے فلم کی پہلی پانچ چھ گراریاں لے کر تھئیٹر پہنچا۔ آگے کی گراریوں پر کیمیکل روم میں عمل جاری تھا۔ جیسے جیسے پوری ہو جائیں، انھیں تھئیٹر پر لے آنے کی ہدایت دیے کر میں چلا آیا تھا۔
ٹرائل ریلیز فوراً شروع کی۔ میرا دھیان لگاتار گھومتی جا رہی گھڑی کی سوئیوں پر تھا۔ سمے ہو چلا، تو میں نے آگے کی گراریوں کی راہ دیکھے بنا ہی دیکھ چُکی پہلی پانچ چھ گراریوں کو ساتھ لے کر بمبئی جانا طے کیا۔ میں کار سے بمبئی کو لے روانہ ہوا۔ آگے کی گراریوں کو لے کر فوراً بمبئی چلے آنے کی اطلاع میں نے بھاسکرراؤ کو دے دی۔
کار میں فلم کے ڈبے رکھ دیے، اور میں پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ ڈرائیور کو ہدایت دی کہ کار تیز رفتار سے چلائے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چہرے پر آنے لگی۔ لگاتار تین ہفتے سختی سے روکی گئی نیند کب مجھ پر حاوی ہو گئی، پتہ ہی نہ چلا۔
گاڑی رکی اور میں جاگا۔ گاڑی سینٹرل سینما کے گیٹ پر کھڑی تھی۔ بابوراؤ پہلے تو میری طرف دیکھتے ہی رہ گئے۔ میری داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور مسلسل جاگتے رہنے کے کارن چہرہ تھک کر چور ہو گیا تھا۔ میں نے انہیں فلم کے پانچ چھ ڈبے تھما دیے۔ بابوراؤ انہیں لے کر سیدھے سنسر بورڈ گئے۔
کہیں سنسر نے کچھ شاٹس نکال دینے کے لیے کہا تو؟ سینٹرل سینما میں بیٹھے بیٹھے میں گھبرا رہا تھا۔ پہلا شو ساڑھے تین بجے کا تھا۔ تین پچیس ہو گئے۔ تھئیٹر ناظرین سے کھچا کھچ بھر گیا تھا۔ سینٹرل سینما کے مالک عابد علی اور ان کے ساتھی کے۔ مودی، تھئیٹر کے منیجر اور دیگر سبھی ملازم فلم کے ڈبوں کا پرجوش انتظار کر رہے تھے اور اپنے اپنے کمرے کے دروازے پر ہی کھڑے تھے۔
تبھی انٹرویل تک کی فلم کی گراریاں آ پہنچیں۔ میں پروجیکٹر کمرے میں ایک بے یارومددگار آدمی جیسا بیٹھا تھا۔ عابد علی نے درخواست کی کہ میں تھئیٹر میں بیٹھ کر فلم دیکھوں۔ لیکن ناظرین میں بیٹھ کر یہ فلم دیکھنے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی۔ ڈر لگ رہا تھا۔
فلم کی پہلی گراری شروع ہو گئی۔ پروجیکٹر کے بغل میں ہی ایک اور جھروکا تھا۔ میں اس میں سے جھانک کر دیکھنے لگا۔ پردے پر پربھات’ کا ٹریڈ مارک دکھائی دیا۔ بھیری کے سُر سنائی دیے، اور ساتھ ہی ناظرین کی تالیوں کی گونج بھی سنائی دی۔ ناظرین بڑی امید سے آئے تھے۔
پردے پر ایک عورت اور ایک مرد کے پاؤں چلتے ہوئے دکھائی دیے۔ ان کے نقشِ پا سے کیچڑ پر ابھرے حروف ‘آدمی’ پردے پر دکھائی دیتے ہی کریڈٹ دکھانے کا یہ نیا خیال لوگوں کو پسند آ گیا، انہوں نے پھر تالیوں کی گڑگڑاہٹ کی۔ اب تو میرا دل اور بھی دھڑکنے لگا۔ پردے پر ڈائریکٹر کا نام دکھائی دیتے ہی ناظرین نے تالیوں سے اتنی زوردار داد دی کہ سن کر میرے ہاتھ پاؤں کی ساری طاقت جاتی رہی۔ میں دھرم سے پاس رکھے مونڈھے پر بیٹھ گیا۔ میرے آنسو بہہ نکلے۔ پروجیکٹر آپریٹر نے مجھے آنکھیں پونچھتے دیکھ لیا اور فوراً ہی کولڈ ڈرنک کا گلاس تھما دیا۔ لیکن مجھے تو کولڈ ڈرنک پینے تک کی بھی ہوش نہیں تھی۔ میرے تھکے ماندے من میں ایک ہی سوال الٹا سیدھا ناچ رہا تھا: ‘کیا ناظرین کی امیدوں کو میں پورا کر سکوں گا؟’ نظر زمین پر گڑی تھی۔ کوئی میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ بابوراؤ پینڈھارکر تھے۔ فلم کے آگے کے سارے حصے وہ سنسر کو دکھا کر لے آئے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے فخر سے سینہ تان کر مجھے سلام کیا اور کہنے لگے، “شانتارام بابو، پتہ نہیں کن الفاظ میں آپ کو مبارکیں دوں؟”
میں نے ایک دم معصوم بچے کی طرح ان سے پوچھا، “سچ؟ سچ مچ اتنی پسند آئی آپ کو ‘آدمی’ ؟”
“جی! جی ہاں! جی ہاں!!” انہوں نے زور دے کر کہا۔
ان کی بات پر یقین نہیں ہو رہا تھا مجھے۔ ہو سکتا ہے وہ محض مجھے سمجھا بجھا رہے ہوں۔ غیر یقینی کا یہ احساس میری آنکھوں میں انہوں نے بھی شاید دیکھ لیا اور سمجھاتے ہوئے بولے، “چلیے، اٹھیے۔ اب آپ یہاں نہ بیٹھیے۔” پروجیکٹر کمرے کے پاس ہی ایک کمرا تھا، اس میں وہ مجھے لے گئے۔ میرے سامنے کھانے پینے کی کچھ چیزیں رکھ کر بولے، “لگتا ہے آپ نے کل سے کچھ بھی کھایا پیا نہیں ہے۔ پہلے آپ اطمینان سے کھا لیجیے۔ تب تک فلم کو ناظرین کیسی کیسی داد دے رہے ہیں، میں دیکھ آتا ہوں۔”
کمرے میں میں اکیلا تھا۔ میں نے ان کھانے پینے کی طرف صرف دیکھ لیا۔
فلم ختم ہونے کے بعد بابوراؤ پینڈھارکر میرے پاس آئے۔ انہوں نے مجھے کس کر گلے لگا لیا اور رندھی آواز میں کہنے لگے، “شانتارام بابو، فلم دیکھ کر باہر آئے سارے ایگزیمینرز ایک آواز سے کہہ رہے ہیں کہ اس موضوع پر ایسی فلم کا بنانا صرف اکیلا شانتارام ہی کر سکتا ہے!”
پھر کیا تھا! اب تک بڑی کوشش کر تھام رکھے آنسو پھر بہہ نکلے۔ میرے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر بابوراؤ نے کہا، “اب آپ یہاں اس طرح آنسو بہاتے نہ بیٹھیے، چلیے، میرے ساتھ باہر آئیے۔ کافی لوگ آپ سے ملنے کے لیے باہر انتظار کر رہے ہیں۔”
“اجی، لیکن اس شکل و صورت میں؟ کل سے میں نہایا تک نہیں۔۔۔”
باہر جانے کے لیے میں آنا کانی کر رہا تھا۔ تبھی کیشوراؤ داتے کمرے میں آئے۔
میری پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے بولے، “بھئی واہ! کیا کمال کا فن پارہ بنا یا ہے آپ نے!”
میں نے ان کی طرف بھی اسی سوالیہ نظر سے دیکھا۔
“اجی شانتارام، اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں آپ؟ چلیے، باہر چلیے۔”
وہ دونوں مجھے لگ بھگ کھینچتے ہوئے باہر لے گئے۔ مجھے دیکھتے ہی سامنے ہی کھڑے چندر موہن نے دوڑ کر مجھے عملی طور پر کندھوں پر اٹھا لیا اور نہایت خوشی سے وہ پاگل سا ناچنے لگا : “یہ ہیں ہمارے انّا! میرے گرو! انّاصاحب یہ پِکچر بیس سال آگے کی ہے۔”
اس کے بعد کافی ناظرین اور ناقدین بھی ملے۔ تھوڑے بہت فرق سے سبھی نے یہی رائے ظاہر کی۔ سبھی لوگ کافی پُرجوش ہو گئے تھے۔ لیکن مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں بہت بیمار ہو گیا ہوں، کوئی طاقت نہیں رہی ہے۔ میں نے بابوراؤ کو بتایا، “میرے ہاتھ پاؤں میں کپکپی چھوٹ رہی ہے۔ مجھے گھر پہنچائیے۔۔۔ میں سونا چاہتا ہوں۔۔۔”
میں گھر گیا اور ایسے سو گیا کہ دوسرے دن سویرے گیارہ بجے ہی جاگا۔ بابوراؤ میرے جاگنے کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ بعد کے شو کے سمے ہوئی کئی مزیدار باتیں وہ بتانے لگے : پہلے دن کے آخری شو کے لیے بامبے ٹاکیز کے مالک ہمانشو رائے اور دیوکا رانی آئے تھے۔ انٹرویل کے سمے ہمانشو رائے یہ چِلّاتے ہوئے ہی باہر آئے کہ “کہاں ہے وہ چُنی لال کا بچہ؟” بامبے ٹاکیز کے منیجر سر رائے بہادر چنی لال انٹر ویل ہونے سے پہلے کچھ دیر تک ان کے ساتھ بیٹھ کر ‘آدمی’ دیکھ رہے تھے۔ بعد میں نہ جانے کہاں غائب ہو گئے تھے۔ یہ دیکھ کر کہ ہمانشو رائے چنی لال جی کو اتنی بے چینی سے کھوج رہے ہیں، بابوراؤ پینڈھارکر لپک کر آگے بڑھے اور پوچھا، “کیوں، آخر بات کیا ہے؟” اس پر ہمانشو جھنجھلا کر برس پڑے، ” دیٹ رائے بہادر کا بچہ ہیڈ ٹیلیفونڈ می آفٹر سینگ فرسٹ شو سیئنگ ‘آدمی’ از ہمبگ۔ آئی وانٹ ٹو تھریش دیٹ فیلو فار سیئنگ بکواس ٹو سچ اے ماسٹر پیس !”
(That Rai Bahadur ka Bachha had telephoned me after seeing first show saying ‘Admi’ is humbug. I want to thrash that fellow for saying bakwas to such a masterpiece.)
لیکن ڈر کے مارے کہیں دبکے بیٹھے چنی لال جی ہمانشو رائے کو آخر تک کہیں بھی نہیں ملے! اتنا کہہ کر بابوراؤ قہقہہ مار کر ہنسنے لگے۔ میں بھی ان کی ہنسی میں شامل ہو گیا۔ میرا خیال ہے، شاید پچھلے ایک مہینے میں پہلی بار میں من سے کھل کر ہنس پایا تھا۔
بابوراؤ نے کہا، “اب چلیے، اٹھیے پہلے داڑھی بنا لیجیے۔ ذرا آئینے میں دیکھیے تو سہی، کتنی بڑھ چکی ہے داڑھی۔”
میں نے اپنا عکس دیکھنے کے لیے آئینہ دیکھا۔ آئینے سے کوئی اجنبی سنیاسی ترانٹ اور لال سرخ آنکھوں سے مجھے گھور رہا تھا۔ پل بھر تو میں اپنے آپ کو پہچان بھی نہ سکا۔ پھر تیزی سے داڑھی بنانے میں لگ گیا۔ تھوڑی دیر بعد فون ٹھنکا۔ بابوراؤ نے فون اٹھایا۔ ان کی بات میں نے سن لی۔ کہہ رہے تھے، “ذرا رکیے، شانتارام بابو یہاں ہیں۔ آپ انہی سے بات کر لیجیے۔” رسیور میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے بابوراؤ نے بتایا، “پولیس داروغہ رانے۔”
میں نے فورا رسیور پر ہاتھ رکھ کر چونک کر پوچھا، “پولیس داروغہ؟ کیوں؟” کچھ ڈرتے ڈرتے ہی میں نے فون کان سے لگایا اور ذرا سی ناخوشی سے ہی “ہیلو” کیا۔ اس طرف سے زور سے پُرجوش آواز آئی، “کانگریچلیشنس!” مجھے اپنے کانوں پر بھروسہ نہیں ہو رہا تھا۔ میں نے پھر پوچھا، “جی، کیا فرمایا آپ نے؟”
“اجی، ‘آدمی’ کے لیے آپ کو بدھائیاں! سب لوگ ہم پولیس والوں کو بے حیا اور انسانیت نہ رکھنے والے راکھشس مانتے ہیں۔ لیکن آپ نے اپنے اس ‘آدمی’ کے ذریعے دنیا کو دکھا دیا کہ ہم لوگ بھی آدمی ہی ہیں! ہم سبھی پولیس والوں کی طرف سے دلی شکریہ!” کہتے کہتے ان کا گلا رندھ گیا۔ بھاری آواز میں انہوں نے کہا، “گاڈ بلیس یو!” اور انہوں نے فون بند کر دیا۔ ایسے ایسے غیر متوقع لوگوں سے اتنی دلی مبارکباد پا کر میں تو سُن پڑ گیا۔ کافی دیر تک کرسی پر ویسا ہی بیٹھا رہا۔ داڑھی آدھی بنی تھی اور آدھے حصے پر لگا صابن سوکھتا جا رہا تھا۔
بمبئی کے سبھی اخباروں نے ‘آدمی’ کی تعریف میں اپنے کالم بھر دیے تھے۔ بابوراؤ نے ان سبھی اخباروں کو میرے سامنے پھیلا کر رکھا اور بڑی خوشی سے کہنے لگے، “پڑھ کر دیکھیے بھی، اخباروں نے کیا کیا لکھا ہے؟”
کیا کہہ رہے ہیں اخبار والے؟”
اجی، ایسے ٹھنڈے پن سے کیا پوچھ رہے ہیں آپ؟ ‘آدمی’ کی تعریف کے لیے لفظ نہیں مل رہے ہیں انہیں!”
میری آنکھیں بھر آئیں۔
“کسی نے کچھ تو تنقید کی ہوگی نا؟”
“بالکل نہیں۔ سب نے ایک مت سے رائے ظاہر کی ہے، فیصلہ دیا ہے : بہت ہی ایکسیلنٹ!”
میں نے ان سبھی اخباروں کو ایک طرف ہٹاتے ہوئے کہا، “تب تو کیا پڑھنا!”
“اجی، آپ ذرا صحت مند ہو جانے کے بعد پڑھیے۔ اس تنقید کو پڑھنے کے بعد آپ کو پتہ چلے گا، آپ نے ‘آدمی’ میں کیا کیا، کِیا ہے!”
ان کی بات صحیح تھی۔ ‘آدمی’ میں میں نے کیا کیا کِیا ہے میں بُھلا بیٹھا تھا۔ میرا دماغ سُن سا ہو گیا تھا۔ جسم میں کوئی خوشی، جوش نہیں رہا تھا۔ ‘آدمی’ کے بارے میں کسی نے
دو لفظ کہے نہیں کہ میرے آنسو بہہ نکلتے تھے۔ اتنا جذباتی ہو گیا تھا میں!
آخر میں پُونا آ گیا۔ پُونا کے ڈاکٹر بھڑکمکر نے میری صحت کی جانچ کی اور تشخیص بتائی: ‘نروس بریک ڈاؤن’!