اپنے ساتھی بچّوں کو ڈراتے ڈراتے اس کی عادت سی بن گئی تھی، وہ ہر روز جنگل سے گاؤں کی طرف یہ کہتا ہوا دوڑا چلا آتا تھا:
’’شیر آیا ․․․․․ شیر آیا‘‘
وہ گڈریے کا لڑکا تھا اور اس نے گڈریے کے لڑکے کی کہانی سُن رکھی تھی، جو برسوں سے سینہ بہ سینہ چلی آ رہی تھی۔ وہ اپنی بکریوں کے ساتھ دن بھر جنگل میں رہتا تھا، جنگلی جانوروں کا خوف اُس کے دل سے محو ہو چکا تھا۔ اُسے معلوم تھا کہ اب شیر کبھی نہیں آئے گا، سارے شیر بوڑھے ہو چکے ہیں یا چڑیا گھروں میں قید ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ سب کو ڈرانا چاہتا تھا۔ اس کی آواز سن کر اکثر لوگ اس کا مذاق بناتے تھے، وہ پھر بھی پر اُمید تھا کہ ایک نہ ایک دن ضرور کامیاب ہو گا۔ ایک مرتبہ اس کی آواز سن کر احمد حسین نے اپنے بچّوں سے کہا:
’’یہ لڑکا بھی پاگل ہو گیا۔ ایسے چلّاتا ہے جیسے شیر اس کے پیچھے چلا آ رہا ہے۔ اب کہاں شیر؟ اب تو شیر کا بچّہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ شیر تو انگریز بہادر کے زمانے میں تھے۔‘‘
’’کیسے ہوتے تھے شیر؟‘‘ احمد حسین کا پوتا پوچھتا:
’’ہوتے کیسے؟ جیسے ہوتے ہیں۔ ایک بار خبر ملی کہ پاس کے جنگل میں شیر آ گیا ہے، انگریز بہادر نے ہمارے دادا کو بلایا۔ ہمارے دادا کو شکار کا بڑا شوق تھا۔ اپنی تلوار لے کر پہنچ گئے۔ تلوار سے مارتے تھے شیر کو؟‘‘
’’آپ کے دادا کیا شیر شاہ سوری تھے؟‘‘ دوسرا لڑکا سوال کرتا۔
’’ہاں ہمارے دادا تلوار ہی سے شیر کا شکار کرتے تھے۔ انگریز بہادر کے پاس بندوق بھی تھی۔ آٹھ دس آدمی گئے شیر کو مار لائے پھر اس کے پاس کھڑے ہو کر تصویر کھینچوائی۔‘‘
’’مردہ شیر کے ساتھ کیا تصویر کھنچوانا، زندہ کے ساتھ کھنچواتے تو بات تھی۔‘‘ لڑکا طنز کرتا۔
’’ابے زندہ ہوتا تو کھا نہیں جاتا۔ آج کل کے شیروں کی طرح تھوڑے ہی تھے وہ شیر، جو آدمی سے ڈرتے ہیں۔‘‘
’’آدمی سے تو سبھی جانور ڈرتے ہیں ․․․․ سرکس میں دیکھا نہیں، کس طرح شیر، چیتے، بھالو، ہاتھی آدمی کے سامنے گھگھیاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔‘‘ لڑکا دادا کی بات کو آگے بڑھاتا ہے۔
دادا اس کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہتے:
’’ہاں! یہ بات تو ہے، پہلے لوگ جنگل میں جاتے ہوئے ڈرتے تھے۔ آج کل شہر میں جاتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں۔‘‘
گڈریے کا لڑکا کبھی کسی پہاڑی پر چڑھ کر چلّاتا اور کبھی کسی پیڑ پر بیٹھ کر چیختا:
’’بھیڑیا آ گیا․․․․․ بھیڑیا آ گیا․․․․ بچاؤ․․․․․ بچاؤ․․․․․‘‘
گڈریے کے لڑکے کی آواز سن کر کوئی گھر کے اندر نہیں بھاگتا، دروازے کھلے رہتے، کھڑکیاں بند نہیں ہوتیں، دوکانیں کھلی رہتیں، لوگ معمول کے مطابق سڑکوں پر گھومتے رہتے۔
عبد اللہ کی دادی کہتی:
’’یہ لڑکا بھی پگلا گیا ہے۔ اگر کسی دن سچ مچ شیر یا بھیڑیا آ گیا تو چلّانا بھول جائے گا۔ کہانی والا حال ہو گا۔‘‘
’’دادی ماں آپ نے کبھی بھیڑیا دیکھا ہے؟‘‘ عبد اللہ پوچھتا۔
’’ہاں کئی بار․․․․ لیکن بچپن میں ․․․․ جب ہم چھوٹے تھے، تمہاری طرح․․․․ گاؤں میں اکثر بھیڑیا آ جایا کرتا تھا۔ کبھی کبھی بچّوں کو اٹھا کر لے جایا کرتا تھا۔‘‘
’’لوگ اسے مارتے نہیں تھے؟‘‘ عبد اللہ دریافت کرتا۔
’’ہاں مارتے کیوں نہیں تھے۔ ہمارے گاؤں میں اس وقت کسی کے پاس بندوق نہیں تھی۔ ․․․ لاٹھی اور بلّم ہی سے مارتے تھے۔‘‘
’’لوگوں کو ڈر نہیں لگتا تھا؟‘‘ عبد اللہ پھر کہتا۔
’’ڈر بھی لگتا تھا لیکن اپنی حفاظت بھی تو ضروری تھی۔‘‘
’’دادی ماں اب بھیڑیا کیوں نہیں آتا؟‘‘
دادی ماں ہنس کر کہتیں:
’’اب تم سے ڈرتا ہے ․․․ اور اب تو ہر طرف بھیڑیے موجود ہیں۔ اس لیے اب اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ عبد اللہ حیرانی ظاہر کرتا۔
’’آہستہ آہستہ تم سب سمجھ جاؤ گے۔ خدا تمہیں اُن بھیڑیوں سے سلامت رکھے۔‘‘ دادی بڑی پُردرد آواز میں کہتیں، عبد اللہ دادی کی بات سمجھنے کی کوشش کرتے کرتے سو جاتا۔
’’گڈریے کا لڑکا گھاس کے میدان میں بکریوں کو چھوڑ کر کھیت کی منڈ یر پر چلّاتا ہوا دوڑ رہا تھا۔
’’بھاگو․․․ بھاگو․․․ لکڑ بگھا آ گیا․․ بھاگو۔‘‘
اس نے سوچا تھا شاید لکڑ بگھے کا نام سن کر لوگ بھاگیں گے لیکن کوئی نہیں بھاگا۔ سب یونہی کام کرتے رہے۔ لکڑ بگھے کا خوف دل سے دور ہو چکا تھا۔ سب جانتے تھے کہ لکڑ بگھا آدم خور خطرناک جانور ہے لیکن اب ڈرتا کوئی نہیں تھا۔ لوگ اس کتّے نما جانور کو محض کتّا سمجھنے لگے تھے۔ عمر نے اپنی ماں سے کہا:
’’ماں لکڑ بگھے کے تو بہت سے قصّے مشہور ہیں۔‘‘
’’ہاں یہ جانور بڑی خاموشی سے حملہ کرتا ہے۔ آدمی کے پیچھے پیچھے آہستہ آہستہ چلتا رہتا ہے، لیکن آدمی سے بھلا کون جیت پایا ہے۔ کچھ دن پہلے ایک لکڑ بگھا غلطی سے گاؤں میں آ گیا تھا۔ یہاں آ کر اپنی سب حیوانیت بھُول گیا اور اپنی دُم دبا کر بھاگ لیا۔‘‘
گڈریے کا لڑکا چلّاتے چلّاتے اکثر سوچتا تھا کہ کیا بات ہے جو شیر، بھیڑیے اور لکڑ بگھے کے نام سے بھی لوگ خوفزدہ نہیں ہوتے۔ کہانیوں میں تو بتایا جاتا ہے، اور یہ حقیقت بھی ہے کہ یہ جانور بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ لوگوں کے دلوں سے ان کا ڈر نکل گیا ہے۔ وہ روزانہ گاؤں والوں کو ڈرانے کی کوشش کرتا تھا لیکن لوگ اس کے چیخنے کو اس کا پاگل پن سمجھتے تھے ․․․․ پھر ایک دن یوں ہوا کہ بکریاں چراتے چراتے وہ بہت تیزی سے چلّاتا ہوا گاؤں کی طرف بھاگا:
’’بھاگو․․․ بھاگو․․․․ بلوائی آ گئے ․․․ دنگائی آ گئے ․․․․ بھاگو‘‘
اُس کی یہ آواز جیسے ہی لوگوں کے کانوں سے ٹکرائی پورے گاؤں میں ہلچل مچ گئی۔ لوگ بے تحاشہ اپنے گھروں کی طرف بھاگنے لگے۔ پلک جھپکتے ہی گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے بند ہو گئے۔ لوگ اپنی بہو، بیٹیوں اور بچّوں کو محفوظ جگہوں پر چھُپانے لگے۔ بازار بند ہو گئے۔ ذرا سی دیر میں چاروں طرف سنّاٹا ہو گیا۔ دہشت اور وحشت سڑکوں پر منڈلانے لگی۔ گڈریے کا لڑکا ایک گوشے میں خاموش کھڑا مسکرا رہا تھا۔
٭٭٭
امریکہ کی خانہ جنگی سول وار کے آخری سپاہی مینیسوٹن البرٹ ہنری وولسن
::: امریکہ کی خانہ جنگی {سول وار} کے آخری سپاہی : مینیسوٹن البرٹ ہنری وولسن۔ { کچھ تاریخی یادیں} :::...