اکتوبر 2017کا دوسرا دِن تھاجب نواز ایمن کے نہ ہونے کی ہونی دیکھ کر اہلِ شہر تڑپ اُٹھے اور ہر درد آ شنا شخص دل مسوس کر رہ گیا۔ معرفت الٰہی سے سرشار ایک سچا عاشق رسول ﷺ ،با کما ل نعت گو،عالمی ادبیات کا پارکھ،پاکستان کی علاقائی زبانوں کے ادب کا محقق،پس نو آبادیاتی دور کے ادب کا زیرک نقاد،آثار قدیمہ کا ماہر اور پنجابی شاعری اور نثرکا جری تخلیق کار دیکھتے ہی دیکھتے ہماری بزم ادب سے اُٹھ گیا اور دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی ۔نواز ایمن کی نعتیہ شاعری کا مجموعہ ’’ کونین ثنا تیری ‘‘ اور پنجابی شاعری کا مجموعہ بہت مقبول ہوا ۔ جن دنوں نواز ایمن کی نعتیہ شاعری کی دھوم تھی امیر اختر بھٹی کی نعتیہ شاعری کا مجموعہ ’’ توشۂ آخرت ‘‘ بھی اسی زمانے میں شائع ہوا تھا۔جھنگ کے ان نعت گو شعرا کے اعزاز میں کئی ادب نشستیں منعقد ہوئی جن میں اپنے عہدکے ان فعال ، مستعداور ممتاز شعراکے اسلوب پر مقالے پڑھے گئے اور انھیں خراج ِ تحسین پیش کیا گیا ۔جن ادیبوں نے ان نعت گو شعرا کے فکر و فن پر مقالے پڑھے ان میں بشارت خان ،عاشق حسین فائق،ظہور احمد شائق ،محمد بخش گھمنانہ ،فیض محمد خان ارسلان،مرتضیٰ شاکر ترک ،اقتدار واجد ،نو ر احمد ثاقب ،اکمل بخاری،حاجی حافظ محمد حیات ،اسحاق مظہر، عمر حیات بالی اور غفار بابر شامل ہیں ۔ جھنگ اور اس کے نواحی شہروں میںمنعقد ہونے والے نعتیہ مشاعروں میں ان دونوں شاعروں کو دعوت دی جاتی تھی ۔وہ سب محفلیں اب خیال و خواب بن گئی ہیں اور صرف رفتگاں کی یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں ۔جھنگ کے ادبی افق پر جو آفتا ب و ماہتاب نصف صدی تک ضو فشاں رہے ان میں آغا نو بہار علی خان ،احمد تنویر،احمد الیاس نصیب ، ادریس بخاری ، امیر اختر بھٹی ،بلا ل زبیری،بیدل پانی پتی، جعفر طاہر ، مجید امجد ،معین تابش،رام ریاض ،رفعت سلطان،سمیع اللہ قریشی، مظفر علی ظفر،خادم مگھیانوی،غلا م علی خا ن چین،نواز ایمن اور کبیر انور شامل ہیں ۔ زندگی کی اقدار عالیہ اوردرخشاں روایات کو پروان چڑھانے میں ان ادیبوں نے بڑ ھ چڑھ کر حصہ لیا اب تو جھنگ کا دبستان ِ شاعری ماضی کا قصہ بن چکا ہے ۔سات ستمبر 2015کی شام پنجابی زبان کے اس ضعیف ادیب کے لیے صبح اُمید سے نا آ شنا ایسی شام الم ثابت ہوئی جس نے اس کی امیدوں کی فصل کو غارت کر دیا اور اس کی زندگی بھر کی محنت اکارت چلی گئی۔اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اس شام نواز ایمن کے گلشنِ امید کی واحد کلی کو مسل ڈالا۔اس کا اکلوتا نوجوان بیٹا نعیم مسعود صادق ردائے خا ک اوڑھ کر ابدی نیند سو گیا۔فہمیدہ ریاض، خالدہ حسین، افضل احسن ، ریاض الحق ،روحی بانو ،متین ہاشمی،جمیل فخری ،محمد حنیف ،محمد یوسف ،محمداکرم ،قمر زمان کائرہ ،شہلارضا ،روبینہ قائم خانی اور شبیر رانا کی طرح نواز ایمن کو بھی نو جوان بیٹے کی دائمی مفارقت کے اعصاب شکن صدمے نے جیتے جی مار ڈالا۔ نو جوان بیٹے کی وفات کے صدمے نے اسے بے حد حساس بنا دیاتھااور اس کی آ نکھیں ہر وقت پر نم رہتی تھیں ۔یہ غم اس کی زندگی میں اہم موڑ ثابت ہوا اور اس نے گوشہ نشینی اختیارکر لی اور وہ حسرت و یاس کا پیکر بن گیا ۔ نو جوان بیٹے کی دائمی مفارقت کے بعد نواز ایمن نے صبر و ضبط سے کام لیا اس عرصے میں وہ روز جیتا اور روز مرتا تھا ۔نعیم مسعود صادق کی وفات نے نواز ایمن کی زندگی کوسرابوں کے عذابوں کی بھینٹ چڑھا دیا ۔ اجل کے ہاتھوں وراثت چھن جانے کا دکھ اورسمے کے سم کا یہ ثمر بالآخر جا ن لیوا ثابت ہوا اور نواز ایمن کوہِ ندا کی صدا سنتے ہی ساتواں در کھول کر راہِ فنا پر گام زن ہو گیا ۔نواز ایمن گلو گیر لہجے میں کہا کرتا تھاکہ مقدر نے اس کے ساتھ عجب کھیل کھیلا۔نعیم مسعود صادق کی صورت میں قدرت کاملہ نے جو خوب صور ت پھول عطا کیا اس نے تیس برس قریۂ جاں کو معطر رکھا اور گھر کے آ نگن میںہر طرف مسرت و شادمانی کی لہر دوڑ گئی۔اجل کے بے رحم ہاتھوںنے یہ حسین ترین پھول توڑ لیا اورگردش ِایام نے مجھے زندگی کے باقی ماندہ ایام ان چند روزہ خوشیوں کا خمیازہ اُٹھانے پر مجبور کردیا۔
جھنگ کے نواح میں واقع ایک چھوٹے سے گاؤں میں جنم لینے والے اس عظیم انسان نے اپنی عملی زندگی کاآغاز شعبہ تدریس سے کیا ۔ ضلع جھنگ کے پرائمری ،وسطانی اور ثانوی مدارس میں ایک محنتی اور شفیق استاد کی حیثیت سے نواز ایمن نے جوگرا ںقدر خدمات انجا م دیں انھیں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔محکمہ تعلیم سے ریٹائر ہونے کے بعد نواز ایمن نے ضلع کچہری میں ڈیرے ڈال دئیے اور عرضی نویس بن کر اپنے لیے ایک مصروفیت تلاش کر لی ۔ اس کا شیوہ تھا کہ عرضی وہ اپنی مرضی سے لکھتا اور کسی مصلحت کی پروا نہ کرتا ۔ اللہ کی رضا کی خاطر وہ ہر مظلوم کے پاس مر ہم بہ دست پہنچتااور پھر دستِ دعا بلند کر کے خالق ارض و سما کے حضور گڑ گڑا کر مظلوم کی داد رسی کی التجا کرتا ۔ غریب اور مظلوم سائل کے لیے وہ دیدہ و دِ فرشِ راہ کر دیتا مگرظالم کی بات سننا بھی گو ار انہ کرتا۔ وہ علی الصبح ضلع کچہری میںشیشم کے ایک قدیم سایہ دار درخت کے نیچے چٹائی بچھا کر بیٹھ جاتا اور عرضی لکھوانے کے لیے آنے والے سائل بھی وہیںاس کے پہلو میں بیٹھ جاتے ۔ شیشم کے اس بہت بڑ ے اور قدیم درخت کے بارے میں یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ یہ سکندر اعظم کے دور میں اس جگہ لگایا گیا تھا۔ ایک ملاقات میں نواز ایمن نے بتایا کہ سکندر اعظم کی فوج نے 326قبل مسیح میں پنجاب کی تسخیر کا عزم کیا ۔ طویل مہم جوئی اور سفر کی صعوبت سے عاجز آ کر ہڑپہ کے قریب سکندر اعظم کی فوج نے بغاوت کر دی اور دریائے بیاس کو عبور کرنے سے انکار کر دیا۔دریائے بیاس کو سب سے پہلے آریاؤں نے عبور کیا اس کے بعد یونانیوں نے اسے عبور کرنے کاارادہ تو کیا مگر اس ارادے کو پایۂ تکمیل تک نہ پہنچاسکے ۔اس مہم جوئی سے دل برداشتہ ہو کر سکندر اعظم کی فوج کے کچھ دستے جھنگ پہنچے اوریہاں قیام کا فیصلہ کیا ۔جھنگ میں قیام کے دوران میں سکندر کی فوج میںشامل کچھ سپاہیوں نے یونان میں دیوتاؤں کی ملکہ ہیرا ( Hera) کا مندر تعمیر کیا ۔یونان میں نسوانی حسن کی دیوی ہیرا کی پرستش کی جاتی ہے اور خاندان ،شادی ،اولاد اور روشن مستقبل کی سب امیدیں ہیرا دیوی سے وابستہ کر لی جاتی ہیں ۔ یونان میں ہر عمر کی عورتیں جن میں بیاہی ، کنواری ،بیوہ اور مطلقہ شامل ہیںسب ہیرا دیوی کی پوجا کرتی ہیں۔اس مندر کے نواح میں ایک مویشی خانہ تھا جس میں گائے ،مور اور شیر پالے جاتے تھے۔ہیرا دیوی کی پرستار الہڑ مٹیاریں اپنے دونوں ہاتھوں میں پکے ہوئے سرخ انار تھامے اپنے خوابوں کے شہزادے کی تلاش میں مندر میں داخل ہوتی تھیں۔ اسی طر ح اُٹھتی جوانیوں سے مست نوجوان لڑکے بھی اپنے دل میں محبت کی امنگ ،وفا کی ترنگ اور رومان کے ارمان لیے ہیرا دیوی کے مندر کا رخ کرتے تھے ۔حسن اتفاق سے ان دوشیزاؤں کے دل کی امید بر آ تی اور وہ اپنا جیون ساتھی تلاش کر لیتی تھیں۔ سیل زماں کے مہیب تھپیڑے جہاں اس قدیم تاریخی مندر کوبہا لے گئے وہاں ہیرا دیوی کی یادیں بھی ابلق ِایام کے سموںکی گرد میں اوجھل ہو گئیں۔ہیرا دیوی کے مندر کے کھنڈر کے ٹیلے کی بلندچوٹی پر ایک قبر بن گئی جسے پنجاب کی المیہ لوک داستان کے دوکرداروں رانجھے اور ہیر کی مشترکہ قبر قرار دیا جاتاہے ۔چھے سو سال قبل بہلول لودھی(B:1406,D:1489) کے زمانے میں رانجھے اور ہیر کی مشترکہ قبر پر پختہ مزار کی تعمیر کا آغاز ہوا۔جب چھت کی تعمیر کا مرحلہ آیا تو دفعتاًمقبرے کی چھت زمیں بوس ہو گئی ۔اس کے بعد مختلف ادوار میں زرِ کثیر خرچ کر کے ماہر معماروں کی نگرانی میںمتعدد بارمقبرے پر مضبوط چھت ڈالنے کی کوشش کی گئی مگر کامیابی نہ ہوئی ۔ تقدیر کے فیصلوں کے سامنے معمار ہار گئے اور ناچارمزار پر چھت ڈالنے کی کوششیں تر ک کر دی گئیں ۔اب رانجھے اور ہیر کی مشترکہ قبر اور گنبد آبگینہ رنگ کی فضا میں کچھ حائل نہیں ۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ موسلا دھار بارش کی بوچھاڑ اور ژالہ باری میں بھی یہ مقبرہ محفوظ رہتا ہے اور اس مقبرے کے اندر بارش کے پانی کی بوند بھی نہیں پڑتی ۔
رانجھے اور ہیر کی پنجاب اور دنیا میں بے حد مقبول داستانِ محبت پر نواز ایمن نے خوب دادِ تحقیق دی۔اس نے ممتاز ماہر تعلیم رانا عبدالحمید خا ن اور حاجی احمد بخش کی روایت سے بتایا کہ لودھی خاندان ،مغلیہ خاندان اور نو آبادیاتی دور میں رانجھے اور ہیر کا مقبرہ مرجع خلائق رہا ۔دنیا بھر سے ہر مکتبہ ٔ فکر کے لوگ جن میں مسلمان،ہندو ،سکھ،عیسائی ، یہودی ، مجوسی ،آتش پرست اور بدھ مت کے پیروکار شامل ہیں یہاں حاضری دیتے اور منتیں مانتے تھے۔سب یہی کہتے کہ مراد بخش رانجھا تو سب کا سانجھا ہے۔خواتین کا یہ تاثر تھا کہ ہیر سب کی دل گیر ہے اور یہاں پہنچ کر دلی مراد مل جاتی ہے اور ہرامید بر آتی ہے ۔سال 1930تک اس مقبرے کا خود ساختہ مجاور سنت جو گندر ناتھ تھا ۔یہ حال مست مجذوب اور پر اسرار مجاور ہمہ وقت مقبرے میں موجود رہتا ۔اس کے ہاتھ میں کاغذ اور کان پر قلم دھرا ہوتا تھا۔ عہد ِشباب کی رومان انگیز زندگی سے وابستہ اس مجذوب کی یادوں نے ایسی لرزہ خیز خود نوشت کا رُوپ دھار لیا تھا جسے وہ ہمہ وقت اپنے سینے سے لگائے رکھتا تھا۔شبِ تاریک کے سناٹے میں اس الم نصیب مجذوب کے خزاں رسیدہ نخلِ حیات سے زندگی کے باقی ماندہ ایام کے پتے جھڑنے کی سر سراہٹ سن کر دل دہل جاتا۔ واقف حال لوگوں کا کہنا تھا کہ محبت میں ناکامی کے باعث وہ اپنی یادداشت کھو چکا تھا۔اس کے باوجود وہ کاغذ کے ان پرزوں جنھیں وہ’ سنتری کی جنتری‘ کا نام دیتا تھا پر اپنی بُھولی بسری یادیں لکھتا رہتاتھا۔ اس کے ساتھ ہی یہ مجاور مزار پر حاضری دینے والوں کے سامنے بھی ’’ سنتری کی جنتری ‘‘ اور قلم رکھ دیتا تا کہ وہ بھی ان اوراق پر اپنے تاثرات لکھ دیں۔اکثر لوگ محض اس مجاور کا دل رکھنے کی خاطر کاغذوں کے اس پلندے پر اپنے تاثرات لکھ دیتے ۔نواز ایمن نے رانجھے اور ہیر کے مقبرے کے نواح میں قائم ایک قدیم تعلیمی ادارے کے سر براہ سید مظفر علی ظفر کی روایت سے بتایا کہ نو آبادیاتی دور میں ’’ سنتری کی جنتری ‘‘میں اس عہدکے ممتاز ادیبوں ،فن کاروں ،سیاحوں ،محققین اور مورخین کے تاثرات موجود تھے۔حیف صد حیف کہ سنتری ، ’’ سنتری کی جنتری ‘‘منتری اور مہا منتری سب کچھ سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔
نواز ایمن کے بارے میں یہ بات کسی کو معلوم نہ تھی کہ بادی النظر میں ضلع کچہری جھنگ میں خاک پر بیٹھا زیریں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا یہ قناعت پسند انسان کردار، اخلاق اور وقار کے اعتبار سے افلاک کی بلندی پر فائز ہے ۔ سائل بھی اس کے ساتھ فرشِ زمین پر بیٹھ جاتے اور اسے بلا تامل اپنے مسائل سے آ گا ہ کرتے تھے۔وہ آلام روزگار کے پاٹوں میں پسنے والے مصیبت زدہ انسانوں کی غم گساری بھی کرتا اور اپنی مرضی سے عرضی لکھ کر متعلقہ دفتر تک ان کی رہنمائی بھی کرتا تھا۔ وہ چاہتاتھا کہ کینہ پرور اور حاسد لوگوں کی خود غرضی اور جھوٹی گواہیوں سے فرضی مقدمات میں الجھائے گئے ان ساد ہ لوح انسانوں کی گلو خلاصی کی کوئی صورت تلاش کی جا سکے ۔ اتفاق سے نواز ایمن کی لکھی ہوئی ہر عرضی منظور ہو جاتی تھی یہی وجہ ہے کہ سائل اسے اپنا پیر و مرشد قرار دیتے ۔ عرضی نویسی کے اس کام میں اگر کوئی شخص معمولی رقم کی صورت میں اس کی خدمت کرتا تو وہ رقم قبول کر کے اس کے لیے دعا کرتا ۔ اس کام سے ملنے والی کچھ رقم وہ نہایت راز اداری سے دردمندو ں،ضعیفوں،بیماروں اور فاقہ کش انسانوں کی نذر کر دیتا تھا۔ اگر کوئی مجبور شخص درخواست لکھوا کر کوئی معاوضہ دئیے بغیر رخصت ہو جاتاتو بھی دِل برا نہ کرتا بل کہ اس کے لیے بھی صدق دل سے دعا کرتا تھا۔
نواز ایمن کی گل افشانی ٔ گفتار سنگلاخ چٹانوں ،جامد و ساکت پتھروں،حنوط شدہ لاشوں،بے حس مجسموں اور چلتے پھرتے ہوئے مُردوں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی تھی اپنی شگفتہ بیانی سے وہ سامعین کے دلوں کو مسخر کرنے کا فن جانتا تھا۔شہر میں استحصالی عناصر اور ڈرگ مافیا کا پروردہ آ سُو بلّا نامی ایک متفنی نو دولتیا سدامظلوم و محروم طبقے کے در پئے آزاررہتا ۔ سادیت کے مرض میں مبتلا اس بزِ اخفش کاجس طرف سے بھی گزر ہوتا دو طرفہ ندامت اور اس کے زخم خوردہ الم نصیبوں کی لعنت ملامت سدا اس کا تعاقب کرتی ۔مشکوک نسب کے اس عیاش درندے کے کبر و نخوت کو دیکھ کر نواز ایمن نے ایک دن بر ملا کہا :
’’ نا ہنجار آ سو بِلّا ہر روز اپنے چنڈو خانے سے اِس طر ح اِٹھلاتا ،لٹکتا اور مٹکتا بر آمد ہوتا ہے جس طر ح کسی عفونت زدہ اصطبل سے کوئی مریل خچر لید سے لتھڑی اپنی دُم سے پیٹھ کے زخموں پر بھنکتی مکھیاں اُڑاتا اور غلیظ سُموں سے خاک اُڑاتا باہر نکلتا ہے ۔ یہ ننگ ِ انسانیت ابلہ تو زمین کا بوجھ بن چکا ہے ۔‘‘
مرزا معین تابش کا تعلق بر صغیر میںچار سو سال تک حکومت کرنے والے مغلیہ خاندان سے تھا۔ وہ اس بات پر ہمیشہ فخر کرتے تھے کہ وہ بابر ،ہمایوں اکبر ، جہاں گیر، شاہ جہاں،اورنگ زیب اور بہادر شاہ ظفر کی اولاد میں سے ہیں ۔ آزادی کی صبح درخشاں طلوع ہوئی تومرزا معین تابش بھار ت سے ہجرت کرکے پاکستا ن پہنچے۔ہجرت کے اس سفر میں وہ اور ان کے اہل ِخانہ آگ اور خون کا دریا عبور کر کے بڑی مشکل سے جان بچا کر خالی ہاتھ جھنگ پہنچے ۔اس خاندان کے مصائب و آلام کے بارے میںرام ریاض نے کہا تھا:
ہاتھ خالی ہیں تو دانائی کا اظہار نہ کر
ایسی باتوں کا بڑے لوگ برا مانتے ہیں
مرزا معین تابش کی قناعت اور استغنا کا یہ حال تھاکہ بھارت میں رہ جانے والی اپنی املاک کی الاٹمنٹ کے لیے محکمہ آبادکاری کے دفتر میںکوئی کلیم داخل نہ کیا۔ سر چھپانے کے لیے ایک بوسیدہ اور خستہ حال مکان خریدا جسے مقامی لوگ طوفان نوح ؑ کی باقیات قرار دیتے تھے۔ نواز ایمن ان دنوں ضلع کچہری میں عرضی نویس کی حیثیت سے کا م کرتے تھے اور ناخواندہ مہاجرین کے کلیم کے فارم پُر کرنے میںان کی مدد کرتے تھے۔ایک دن دیوان احمد الیاس نصیب نے اپنے دوست مرزا معین تابش کو مہاجرین کی آبادکاری کے محکمے میں بھارت میںاپنی جائیداد کا کلیم داخل کرنے پر مائل کرنے کی کوشش کی اور کہا:
’’ جعلی کلیم داخل کرنے کے بعد الاٹمنٹ کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو کر لوکل مہاجرین کا نکھار دیکھو ،رُلدو بھٹیارا موٹر پہ اُڑ رہا ہے، گھونسہ کنجڑا گل چھر ے اڑا رہا ہے ،نتھو تیلی نے جب سے تیل اور تیل کی دھار دیکھ کر زر و مال سمیٹنا شروع کیا ہے وہ ارب پتی بن چکا ہے ،رنگو رذیل کی پانچوں گھی میں ہیں ،اکرو پانڈی نے بڑی جاگیر پر قبضہ کر رکھا ہے،زد خورو لُدھڑ نے لاہور اور کراچی میں جائیداد کا وسیع کاروبار شروع کر دیا اور ادھر تم ہو کہ اپنی ضد پر اُڑ ے ہو۔ یہاں شیخ چلی قماش کے مسخرے جعل سازی سے شیخ الجامعہ بن بیٹھے ہیں اور تم جیسے قابل انسان کے لیے محض کلرکی ۔چربہ ساز اور سارق تو علم وادب کی ترویج و اشاعت کے اداروں پر قابض ہیں مگر تم جیسے دائرۃ المعارف کے لیے صرف معمولی ملازمت ۔‘‘
مرزا معین تابش نے یہ باتیں سن کر ناگواری سے کہا ’’ میں نے سر چھپانے کے لیے شہر کے مضافات میں ایک کمرے پر مشتمل چھوٹا سا مکان خرید لیا ہے اور محکمہ خوراک میں مجھے کلرک بھرتی کر لیا گیا ہے ۔ میں تغیر ِ حالات سے مجبور نہیں بل کہ ہر حال میں مطمٔن و مسرور ہوں۔آزاد وطن کی یہ متاع بے بہا میرے خالق کی عطا ہے وہ جس حال میں رکھے اس پر راضی رہنا چاہیے۔ مقتدر حلقوں کو میرے حال کی سب خبر ہے میں کسی صورت میں کلیم داخل نہیں کروں گا۔بوسیدہ کھنڈرات میں دفن حنوط شدہ لاشوں کے سامنے اپنے کرب کی داستان سنانے سے میں قاصر ہوں۔پریشاں حالی ،درماندگی ، مصیبت اور ابتلا و آزمائش کی گھڑی میں ہر کسی کے سامنے اپنے حال ِ زبوں کی روداد سنانا بہ جائے خود ایک بہت بڑی مصیبت ہے ۔‘‘
نواز ایمن کو اچھی طرح معلوم تھاکہ مرزا معین تابش کا تعلق بر صغیرکے اس مطلق العنان بادشاہ خاندان سے ہے جس نے چار سو سال تک دہلی کے قصر شاہی میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالے رکھی۔کٹھن حالات میں درِ کسریٰ پر صدا کرنا معین تابش کے مسلک کے خلاف ہے ۔ نواز ایمن نے دیوان احمد الیاس نصیب سے مخاطب ہو کر کہا :
’’ آپ سب لوگ اچھی طر ح جانتے ہیں کہ مرزا معین تابش ایک خوددار اور انا پرست انسان ہیں ۔اپنی خودی کی نیلامی کے بجائے یہ درویش غریبی میں نام پیدا کرنے کا متمنی ہے۔ مغلیہ خاندان کے اس قناعت پسند چشم و چراغ نے بھارت میں اپنی جو خاندانی میراث چھوڑی ہے وہ اسے کون دے سکتا ہے ؟
’’ بھارت میں مغلیہ خاندان کی جائیداد میں لال قلعہ ،تاج محل ،ہمایو ں کا مقبرہ اورفتح پور سیکری کے محلات شامل ہیں ‘‘ مرزا معین تابش نے آہ بھر کر کہا’’ سال 1857کی ناکام جنگ آزادی کے بعد جب غاصب برطانوی تاجر تاج ور بن بیٹھے تو قتل عام سے بچ جانے والے مغل خاندان کے افراد کی زندگی میں کئی سخت مقام آئے مگرحریت ضمیر سے جینے والے مغلوں نے غاصب بر طانوی استعمارکے مسلط کردہ فسطائی جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا ۔ہمارے اسلاف کا پابند سلاسل کیا گیا ،جلا وطن کیا گیا ،دار و رسن کی سزائیں دی گئیں ،وہ در بہ در اور خاک بہ سر ہو گئے مگر مصیبت کی اس گھڑی میں کوئی ان کا پرسان ِ حال نہ تھا ۔ مغلیہ خاندان کی میراث پر جن مغلوں کا حق ہے ان میں میرا نام بھی شامل ہے ۔ اگرآپ اصرار کرتے ہیں تو میںاپنی مذکورہ وراثت کے کلیم کے کاغذات آج ہی متعلقہ شعبے کے دفتر میں جمع کرا دیتا ہوں۔میری خاندانی میراث کا حقیقی کلیم مجھے الاٹ کرنے کی سکت کس میں ہے ؟آزادی کے اس سفر کے بعد مجھے یہ معلوم ہوا کہ منزل پر وہ موقع پرست اور مہم جُو قابض ہو گئے ہیں جو شریکِ سفر ہی نہ تھے۔یہاں تو حشرات الارض نے حشر بپا کر رکھا ہے اور بونے اپنے تئیں باون گزے سمجھنے لگے ہیں ۔زندگی کے ان تضادات کو دیکھ کر میں نے کہا تھا:
مسافت کٹ گئی تو میں نے جانا
سفر کی دُھول میرا پیرہن تھا
اس میں کوئی شک نہیں کہ میں اپنی بہت بڑی خاندانی میراث بھارت میں چھوڑ آیا ہوں مگر بڑے بڑے مناصب پر براجمان چھوٹے لوگوں میں اتنا ظرف کہا ں کہ وہ حق دار کو اس کا حق دے سکیں ۔وقت کے اس لرزہ خیز اور اعصاب شکن سانحہ کو کس نام سے تعبیر کیا جائے کہ جب معاشرے میں جاہل اپنی جہالت کا انعام ہتھیانے میں کام یاب ہوجائے۔ ‘‘
نواز ایمن نے مرزا معین تابش کی مدلل گفتگو سن کر گلو گیر لہجے میں کہا :
’’ تمھارے بزرگ بہادر شاہ ظفر نے سچ کہا تھاکہ اس عالم ِ نا پائیدار میں کسی کی بن نہیں پاتی ۔اس اجڑے دیار میں دل لگانا زیاں کار بننے کے مترادف ہے ۔آج ہم آمریت اور ملوکیت کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں ۔سلطانی ٔ جمہور کا دور آ نے والا ہے ۔اب پرانی اور خوار سیاست گری کی سب نشانیاں مٹا دی جائیں گی۔ آسیب زدہ قصرِ فریدوں کے سامنے حلقہ زن ہو کے صدا کر کے دیکھ لو ہر طرف سکوتِ مرگ طاری ہے اورمہیب سناٹوں کا راج ہے ۔‘‘
گدا حسین افضل نے کہا: ’’ پدرم سلطان بود کی بات مرزا معین تابش پر صادق آتی ہے ۔‘‘
قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد جب مرزا معین تابش کا خاندان شدید مالی مشکلات سے د وچا ر تھا۔ ایک دن زد خور و لدھڑ جو ایک رشوت دلال تھا اپنے ایک بھڑوے ساتھی رنگو اور مسخرے ٹھگ ناصف بقال کو لے کر مرزا معین تابش سے ملنے آ یا ۔اس موقع پر کچھ مفلوک الحال مہاجر خاندانوں کے پریشاں حال اور درماندہ افراد کے علاوہ شہر کے ادیب شفیع بلوچ،احمد بخش ناصر ؔ،شفیع ہمدم، رام ریاض ،مظفر علی ظفر،خادم مگھیانوی،رفعت سلطان ،حاجی محمد یوسف ،رانا سلطان خان، محمد کبیر خان، بختاور خان ،حاجی محمد وریام، محمد رمضان، ارشاد گرامی ،فیروز شاہ ،شیرخان،امیر اختر بھٹی اور غلام علی خان چینؔ بھی موجود تھے۔ کینہ پرور ،چرب زبان اور عادی دروغ گو زد خورو لُدھڑنے کفن پھاڑ کر کہا:
’’ برف اس وقت پگھلتی ہے جب افسروں کی مٹھی گرم کی جائے۔ طمع اور لالچ سے حریص اہل کاروں کی طبیعت نرم کی جا سکتی ہے اور پتھر میںجونک لگائی جا سکتی ہے ۔فائل کو جب تک کرنسی نوٹ کا پہیہ نہ لگایا جا ئے یہ اپنی جگہ سے حرکت کر ہی نہیں سکتی۔‘‘
ان عیار ٹھگوں نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے مرزا معین تابش کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کی اور ان سے الاٹمنٹ کی درخواست کے ساتھ کچھ رقم کا بھی تقاضا کیا ۔اچکوں اور ٹھگوں کے اس رسوائے زمانہ ٹولے کی بے سروپا باتیں سن کر مرزا معین تابش کی آ نکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگیں اوران جہلا کی باتیں سن کر انھوں نے لبِ اظہا رپر تالے لگا لیے۔
نواز ایمن نے ان بن بلائے مہمانوں کو ترکی بہ ترکی جواب دیا ’’تمھیں اٹکھیلیاں سُوجھی ہیں مگر فقر کے کُوچے کے یہ درویش اپنے حال میں مست ہیں ۔تم جیسے جو فروش گندم نما ،فصلی بٹیرے اور مرغانِ باد نما سے ہم پناہ مانگتے ہیں ۔آئندہ کبھی اس طرف کا رخ نہ کرنا ۔‘‘نواز ایمن نے جب ف۔س۔اعجاز ؔ کے یہ شعر سنا ئے توسب کرگس، بوم و شپر اور زاغ و زغن وہاں سے تتر بتر ہو گئے۔
اب اگر برف گرے تب آنا
شاخ سے حرف گِرے تب آ نا
لوٹ کر پھر نہیں آنا ہرگز
کوئی کم ظرف گرے تب آنا
پنجابی زبان کے کلاسیکی شعرا کا کلام نواز ایمن کو بہت پسند تھا ۔ اس نے بلھے شاہ ، سلطان باہو،شاہ حسین ،علی حیدر ملتانی ،بابا فرید گنج شکر ،خواجہ غلا م فرید اوروارث شاہ کے پنجابی کلام کا وسیع مطالعہ کیا۔ جب وہ پنجابی زبان کے کلاسیکی شعرا کا کلام پڑھتا تو سامعین وجد میں آ جاتے تھے۔ اس کے مداح اسے جھنگ کا حال مست درویش ،مقرب بارگاہ فقیر اور معرفتِ الٰہی سے متمتع پیر قرار دیتے تھے۔نواز ایمن نے ہر صنف ادب میںاپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔اس با کمال ادیب نے حمد ،نعت ،مرثیہ، قصیدہ ،نظم ،غزل ،آزاد نظم ،دوہڑا، ماہیا،رباعی اور ثلاثی میں اپنے اشہبِ قلم کی خوب جولانیاں دکھائیں ۔ پامال راہوں سے بچ کر چلنے والے اس جری تخلیق کار نے اپنے منفرد اسلوب میں روایت سے انحراف کرتے ہوئے حریتِ فکر و عمل کو اپنا شعار بنایا۔استحصالی طبقے کے مکر کی چالوں کے خلاف اس نے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا ۔تیشۂ حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے کے سلسلے میں نواز ایمن کا جرأت مندانہ کردار تاریخ ِ ادب میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔مظلوم اور بے بس و لاچار انسانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والے فراعنہ کے خلاف نواز ایمن کا دبنگ لہجہ اس کی پہچان بن گیا۔اس کی نگاہ فقر میں شان سکندری بھی ہیچ تھی ۔اس کی قناعت پسندی،صبر و تحمل اور شان استغنا کی بنا پر تاریخ ہر دور میں اس نابغہ ٔ روزگار خادم ِ خلق کے نام کی تعظیم کرے گی ۔اپنے اکلوتے بیٹے نعیم مسعود صادق کی الم ناک وفات کے بعد اس کا رجحان معرفت الٰہی کی طرف ہو گیا ۔ اس کے گھر سے نوجوان بیٹے نعیم مسعود صادق کا جنازہ اُٹھا تو شہر کی نوحہ خوان پارٹی نے جب میاں محمد بخش کے یہ اشعار پڑھے تو ہر آ نکھ اشک بار تھی اور جنازے میںشریک لوگ دھاڑیں مار مار کر ر و رہے تھے۔
لے او یار حوالے رب دے اج مِل لے جاندی واری
اس ملنے نوں توں یاد کریسیں تے روسیں عمراں سار ی
توں بیلی تے سب جگ بیلی ان بیلی وی بیلی
سجناں باہجھ محمد بخشا سُنجی پئی اے حویلی
سرو اُداس حیران کھلوتے پیر زمیں وِچ گڈ ے
اُچے ہو ہو جھاتیاں مارن متاں یار کِدوں سر کڈے
کلا چھڈ کے ٹُر گئے تے سجن کر گئے بے پروائیاں
مدتاں ہوئیاں سُکھ دیاں گھڑیا ں فیر نہ مُڑ کے آئیاں
ٹُر گیو ںسجنا ں چھڈ کے سانوںتے پا گیوں وِچ فکراں
پاٹی لِیر پرانی وانگوں ٹنگ گیوں وِچ کِکراں
دُکھیے دا دُکھ دُکھیا جانے سُکھیے نوں کیہہ خبراں
ٹُر جاندے نیں سجن جنہاندے اوہ روون تک تک قبراں
سئے سئے جوڑ سنگت دے ویکھے آخر وِتھاں پئیاں
جنھاں بناں اِک پل سی نہ لنگھدا اوہ شکلا ں وی بُھل گئیاں
علمی و ادبی محفلوں میں شرکت کرنا نواز ایمن کا معمول تھا۔ نصف صدی قبل مرزا معین تابش نے جھنگ میں حلقۂ ارباب ِ ذوق کی بنیاد رکھی تو معاصرانہ چشمک کے نتیجے میں’ حلقہ ٔ ارباب ِ غالب‘ کے نام سے ایک اور ادبی دھڑا سامنے آ گیا۔ یملا بدھو نامی ایک جاہل ضعیف متشاعر جو جھنگ کے ایک دور افتادہ گاؤں بدھوآنہ کا رہائشی تھا سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہو جاتا اور مشاعروں میں اپنا بے وزن کلام سنا کر داد و تحسین کا طالب بن جاتامگر حاضرین کی تنقید اور سنگِ ملامت ہی ہمیشہ اس کے حصے میں آ تی ۔ اس کا دعویٰ تھا کہ لاہور میں1641 عیسوی میں تعمیر ہونے والا اس کے خاندان کے مورث اعلا سدھو کے بیٹے بدھو کا مزار جو ’ بدھو کا آوا ‘ کے نام سے مشہور ہے اس کی خاندانی میراث ہے ۔ یملا بدھو جس کے گھر کا مطبخ آب دار خانے کا رشک تھا، پیشے کے اعتبار سے دہقان تھا وہ بھی اندر سے دہکتا ہوا خم ٹھونک کر ادبی اکھاڑے میں کو د پڑا ۔اس نے نواز ایمن کوبتایا کہ اس نے ادب میں جمود کے خاتمے کا حل تلاش کر لیاہے ۔ ادب میں ہل چل پیدا کرنے کی غرض سے اس نے ’’ ہل کا عتاب قالب‘‘ کے نام سے اپنی ایک الگ ادبی انجمن بنا لی ہے ۔ یملا بدھو کی ہرزہ سرائی سن کر نواز ایمن نے کہا:
’’ یہ شہر بھی عجیب ہو رہا ہے جو تم جیسے پیمان شکن لوگوں کی وجہ سے کوفے کے قریب ہو رہا ہے ۔سخت محنت سے فاقہ کش انسانوں کی غربت اورناداری کے بیشے تو کٹ سکتے ہیں مگر ذہنی افلاس کا مداوا کسی طورممکن ہی نہیں ۔تم جیسے چربہ ساز ،سارق اور کفن دُزد لفاظ حشراتِ سخن گلشن ادب میں ہل چلا کر دم لیں گے۔ اے بے ادب تم نے ادب کا ذکر کیا مگر تم تو ادب کی ابجد سے بھی واقف نہیں۔اس کے باوجود نامعلوم کیوں تم ادب کے لیے ہلکان ہو رہے ہو تمھارے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے :
ہو گئے لوگ کیا سے کیا بُدھو
تُو وہیں کا وہیں رہا بُدھو
یہ سنتے ہی یملا بدھو وہاں سے ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
دیہی اور پس ماندہ علاقوںکی خواتین کے حقوق کے لیے جد و جہد کرنے والی جھنگ کی معمر شاعرہ فضیلت بی بی اکثر نواز ایمن سے ملنے ضلع کچہری کے احاطے میں پہنچ جاتی۔فضیلت بی بی نے سال 1995میں ایک سو پانچ سال کی عمر میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ امیر اختر بھٹی نے بتایا کہ فضیلت بی بی ،نواز ایمن ،گدا حسین افضل،مرزا معین تابش اور غلام علی خان چین نے نصف صدی پہلے تانیثیت کے موضوع پرایک مرتبہ نہایت خیال افروز بحث کی ۔ اس موقع پر فضیلت بی بی نے معاشرے میں عورت کی مظلومیت پر اپنے رنج و کرب کا اظہار کیا ۔مرزا معین تابش نے کہا:
’’ بر صغیر میں مغلیہ خاندان کی حکومت کے دوران میں خواتین کے حقوق کا خیال رکھا جاتا تھا۔‘‘
نواز ایمن نے فوراً جواب دیا ’’ خواتین کے حقوق کی پاس داری کے سلسلے میںمغل بادشاہوں کے دامن کی پاکیزگی کی حکایت کو مبالغہ آمیز انداز میں پیش کرتے وقت دامن اور بندِ قبا پر نظر ڈالنا مناسب ہو گا ۔ یہ مطلق العنان مغل بادشا ہ ہی تھے جن کی شقاوت آمیز نا انصافیوں نے انار کلی ،نور جہاں،لاڈھی،مغل بادشاہ اور نگ زیب کی شاعرہ بیٹی زیب النسا مخفی جسے سلیم گڑھ قلعے میں خوداس کے باپ نے بیس برس قید رکھا ۔ اس نے اسی زندان میں 26۔مئی 1702کو چونسٹھ سال کی عمر میں قید ِ حیات و بندِ غم سے نجات حاصل کی یوں شاہی جبر نے اس مجبور شہزادی کی زندگی کو غم کے فسانے میں بدل کرخود کو تماشا بنا دیا۔ مغلیہ دور میں اس خطے میںخواتین کی تعلیم ،روزگار، علاج ،غذا اور رہائشی سہولیات پر کبھی توجہ نہ دی گئی ۔ مغل بادشاہوں کی عیاشی اور بے بصری کا ثبوت لال کنور ،جہاں دار شاہ اور محمد شاہ رنگیلا کا دور ہے جو تاریخ کے اوراق میں سیاہ حرفوں میںمرقوم ہے ۔جس ملک میں مطلق العنان آمر شاہ جہان کی محبوب بیوی ممتاز محل اس کے سترہویں بچے کو جنم دیتے وقت لقمہ ٔ اجل بن جائے وہاں رعایا کے پس ماندہ طبقے کی مفلوک الحال عورتوں کی صحت اور معیار زندگی کے بارے میں کسی خوش فہمی کی کوئی گنجائش نہیں ۔ ‘ ‘
مرزا معین تابش نے اپنے خاندان پر لگائے گئے الزامات کے جواب میں کہا ’’صرف مغل بادشاہوں کے عہد حکومت ہی میں نہیں دنیا بھر میں مختلف ادوار میں خواتین پر مظالم ہوتے رہے ہیں۔آپ نے ان کا کبھی ذکر نہیں کیا ۔‘‘
’’ تاریخی تناظر میں کہی گئی تمھاری باتوں سے میں اتفاق کرتا ہوں ‘‘ نواز ایمن نے آ ہ بھر کر کہا ’’دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کوئی معاشرہ اپنے جرائم پر ٹس سے مس نہیں ہوتا تو یہ اس کی بے حسی علامت ہے ۔مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیںکہ بد قسمتی سے ماضی میں دنیا کے بیش تر ممالک میںخواتین کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ر ہا ہے ۔یہ بات تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے کہ ہارون الرشید کی بہن عباسہ ، ایرانی شاعرہ فروغ فرخ زاد( 1934-1967)، شمس الدین التتمش کی بیٹی اور ملکہ ٔہند رضیہ سلطانہ (1205-1240)،ایرانی شاعرہ قرۃ العین طاہرہ (1817-1852)،امریکی شاعرہ سلویا پلاتھ ( Sylvia Plath: 1932-1963)،فرانس سے تعلق رکھنے والی جون آف ٓٓآرک (Joan Of Arc:1412-1431)اورمیری کوئن آ ف سکاٹس (Mary Queen Of Scots)سب مظلوم خواتین ہیں۔‘‘
فضیلت بی بی نے کہا’’ مجھے ضعیف سمجھ کر نظر انداز نہ کرو پرانے زمانے کے مشاق مو سیقار کہا کرتے تھے کہ سارنگی جس قدر کہنہ ہو جائے اس سے نکلنے والی دھنیں اسی قدر موثر ہونے لگتی ہیں۔ عورتوں کی شان و شوکت اور جاہ و جلا ل تاریخ کے ہر دور میں مسلمہ رہی ہے ۔ان کی خاموشی کو تکلم کے سلسلے اور بے زبانی کو بھی زبان کا درجہ حاصل رہا ہے ۔یہ سن کر اطمینان ہوا کہ ہمارے معاشرے میں اب مرد بھی عورت کی مظلومیت کی واقعات سناتے ہیں ۔عورتوں پر ظلم ڈھانے والوں کے خلاف رائے عامہ کی بیدار ی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔میں نے اپنی طویل زندگی میں پس ماندہ طبقے کی خواتین کے ساتھ انصاف ہوتے نہیں دیکھا ۔اب تو میں چراغ سحری ہوں شاید آنے والی نسلیں بہتر حالات دیکھ سکیں ۔ مجھے یقین ہے مستقبل میںمعاشرے میں قابل رحم حالت کے باوجود خواتین کی استقامت ،ایثار اور صبر و تحمل ثمر بار ہوگا ‘‘
نوازایمن نے ضعیف خاتون کی بات سن کر کہا ’’ فضیلت بی بی مہ و سال کی گردش بھی تمھارے عزم میںکمی نہیں لاسکی۔ ہم اہل قلم کے لیے یہ امر لائق صد افتخار ہے کہ ہمارے ادیبوں نے ہمیشہ ظلم کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ کاروانِ حسینؑ میں شامل حریت ِ ضمیر سے زندگی بسر کرنے و الے پر عزم اور باہمت آبلہ پا رہرو یہ بات اچھی طر ح جانتے ہیں کہ صعوبتوں کا یہ سفر بالآخر ختم ہو جائے گا اور ظلم کا پھریرا سر نگوں ہو جائے گا ۔اس بات کی تائید میں اردو زبان کے ممتاز شعرا کے صرف دو شعر پیش کرتا ہوں :
جو ظلم پہ لعنت نہ کرے آپ لعیں ہے
جو جبر کا منکر نہیں وہ منکر ِ دیں ہے ( فیض احمد فیض ؔ)
وہ تیری صف میں ہو یا میری صف میں ہو
میں ہر ظالم پہ لعنت بھیجتا ہوں ( صہبا اختر )
ممتاز ماہرِ نفسیات پروفیسر حاجی حافظ محمد حیات کے ساتھ نواز ایمن کے قریبی تعلقات تھے۔دونوں دوست تحلیل نفسی ،ماورائی نفسیات اور اضافی حقیقت سے متعلق موضوعات میں گہری دلچسپی لیتے تھے۔نوازایمن کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ اُسے دروں بینی،انسان شناسی ،پیش بینی اور ستارہ شناسی میں مہارت حاصل ہے ۔نواز ایمن کو اس بات کا قلق تھا کہ قحط الرجال کے موجودہ دور میں فرد کی بے چہرگی اور عدم شناخت کے مسئلے نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے ۔وہ اکثر کہا کرتا تھاکہ حقیقت اور مجاز کے معاملے بھی اب ناقابل ِ فہم ہو چکے ہیں۔وہ کارِ جہاں کو ہیچ قرا ر دیتا اور اسے مجازی معاملات کے ایسے مجموعی عکس یا نقل کی صورت سے تعبیر کرتا جس سے یا تو تلخ حقائق کی تمسیخ ہوتی ہے یا اس کی رعنائیوں سے ایسے بیان اورعنوان کے منظر عام پر آنے کا عندیہ ملتا ہے ۔ اس کا خیا ل تھا کہ سب نا تمام نقوش دیکھنے کے باوجود اس طرح کے موہوم خیالات کے اظہار سے مسلمہ صداقتیں اور حقائق خیال و خواب اور سراب بن جاتے ہیں ۔ تخلیق ادب کے شعور ی اور لا شعوری محرکات پر نواز ایمن کی گفتگو فکر و نظر کے نئے دریچے وا کرتی تھی۔ذہنی ہم آ ہنگی کے مظہر تعلق اور معتبرربط کے لیے وہ با لعموم اپنے پسندیدہ عمل ٹیلی پیتھی پر انحصار کرتا تھا۔ اس کی دُور بین نگاہوں کے معجز نما اثر سے فاصلے سمٹ جاتے ۔بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اس مردِ خود آگاہ کے پاس کوئی جام جہاں نما ہے جس کی مدد سے وہ دور دراز علاقوں میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی جھلک دیکھ لیتا ہے ۔اس کی پیش بینی اور دُور اندیشی کا ایک عالم معترف تھا۔وہ نہ صرف آئینۂ ایام میں اپنی ہر ادا دیکھنے پر قادر تھا بل کہ زمانہ آ ئندہ اور بعید آ ئندہ میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں بھی قیاس آ رائی کر سکتا تھا۔فکر و خیال کو رو بہ عمل لاتے ہوئے عزیز و اقار ب اور احباب کو درپیش کٹھن مسائل اور ان کی زندگی میں آنے والے سخت مقامات سے نبر د آزما ہونے کے سلسلے میں اس کے مشورے سرابوں میں بھٹکنے والے راہ گم کردہ انسانوں کے لیے سدا خضر راہ ثابت ہوتے ۔نواز ایمن کے نحیف و ناتواں جسم میں عقابی رو ح سماگئی تھی۔ وہ اس جانب متوجہ کرتا کہ زندگی کا بے آواز ساز پیہم بج رہا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ کوئی اس ساز پر کان دھرنے پر آمادہ نہیں۔موت ایک تلخ حقیقت ہے جو زندگی کے تعاقب میں رہتی ہے ۔زندگی کے آخری ایام میں نواز ایمن اکثر فرصتِ زندگی کی کمی ، دنیا کی بے ثباتی ، فنا اور بقا کے موضوع پر گفتگو کرتا رہتا تھا۔اس کا خیا ل تھا کہ موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جو جو مہ و سال
کے تصور سے نا آ شنا ہے ۔اس دنیا میں ہروہ با شعور شخص جو دارا و سکندر کے انجام سے با خبر ہے موت کی آ ہٹ سن کر حیرت و استعجاب اور یاس و ہراس کا شکار نہیں ہوتا ۔ذہنی بیداری اور شعور کی پختگی کا ثبوت یہ ہے کہ انسان موت کو کبھی فراموش نہ کرے بل کہ موت کے لیے چشم بہ را ہ رہے ۔جبر اور نا انصافی کو دیکھ کر کسی مصلحت کے تحت خاموشی اختیار کر لینے کو بھی نواز ایمن موت کی علامت قرار دیتا تھا۔بے بس و لاچار انسانیت پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والے استحصالی مافیا اور قبضہ گروپ کو متنبہ کرتے ہوئے وہ اس جانب متوجہ کرتا کہ وہ دن دُور نہیں جب سب ٹھاٹ پڑا ر ہ جائے گا اور بنجارہ لاد چلے گا۔ ان فراعنہ کا سب کرو فر دو گز زمین میں دب جائے گا اور اس کے ساتھ ہی ان کی زندگی کے سب قرض بھی ادا ہو جائیں گے۔
جھنگ کی تہذیب و ثقافت کی تاریخ میں نواز ایمن نے گہری دلچسپی لی۔اس نے جھنگ کے مقبول کھانوں کی قدامت ،مقبولیت اور لذت کے موضوع پر اپنی یادیں ایک ڈائری میں لکھیں ۔ جھنگ میں پھولوں کے عطر کی تیاری سب سے پہلے شہید روڈ کے معمر عطار اور پنساری حسن عطر فروش کے آبا و اجداد نے1870 میںکی۔حسن عطار کی دکان سے بر صغیر کے سب راجے اور مہاراجے عطر منگواتے تھے۔ آزادی کے بعدحالات کیا بدلے کہ ذوق سلیم بھی رخصت ہو گیا نہ تو حسن عطا ررہا اور نہ ہی کسی کو اس کے پنسار کا اتا پتا معلو م ہے ۔ نواز ایمن اکثر کہا کرتا تھا کہ کئی کھانوں کی تیاری میں جھنگ کو اولیت کا اعزاز حاصل ہے ۔ حیدریہ ٹرانسپورٹ کے اڈے کے سا منے بُوٹا نامی ایک ضعیف لانگری ریڑھی پر تکے اور کباب بنا کر بیچا کرتا تھا ۔ اس نے نواز ایمن کو بتایا کہ وہ خاندانی طباخ ہے اور یہ صدیوں سے ان کا آبائی پیشہ ہے۔ جھنگ میں کوٹ روڈ پر انگیٹھی میں دھونکنی سے لکڑی کے کوئلے دہکا کر لوہے کی سلاخ میں گوشت کی بو ٹیا ں پرو کر بھون کر تکے بنانے اور گوشت کے قیمے سے کباب بناکر فروخت کرنے کا آغاز 1860میں بُوٹا لانگری کے خاندان کے مورث اعلا کسکوٹانے کیا ۔جھنگ کے دیہی علاقوں کے قناعت پسند لوگ کنگ اور ساگ کھا کر اللہ کریم کی نعمتوں اور اس رازق کی عطا کے ر اگ گاتے ہیں ۔دیہی علاقوں میں سادہ زندگی بسر کرنے والے جفاکش لوگ یہ بات زور دے کر کہتے ہیں کہ لذیذ کھانوں اور جواں مردی کی رُت تو بہ ہر حال سردی ہی کی رُت ہے ۔ حسن و رومان کی سر زمین شہر سدا رنگ جھنگ کے باشندے جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے کے رسیا ہیں اور زمین سے اُگنے والی ہر جڑی بوٹی کو دیکھتے ہی ان کے منھ میں پانی بھر آتا ہے اور بے ساختہ اس جڑ ی بُوٹی کے بارے میں یہ بے لاگ رائے دیتے ہیں کہ یہی تو اصل ساگ ہے نہ جانے بڑے شہروں کے مکینوں کو صحرا ؤںمیں قطار اندر قطار اگنے والی خود رو جڑی بُوٹیوں سے کیسی لاگ ہے ۔ گنجان آباد شہروں میں خود رو جڑی بوٹیو ںسے تیار کیے جانے والے پکوان کم کم نظر آتے ہیں۔ جھنگ کے دیہی علاقوں میں بھانت بھانت کے کھانے پکتے ہیںاور گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے بھی ان لذیذ کھانوںکا تنوع دیکھ کر اش اش کر اُٹھتے ہیں۔جدید دور میں بڑ ے شہروں میں پریشر ککر اور مائکروویو اوون میں تیار ہونے والے کھانوں اور فوڈ سٹریٹ کا چلن ہے مگر دیہی علاقوں میں کوری ہانڈی میں پکنے والے کھانوں کا منفرد مزہ ہے ۔ دائی نوراں جھنگ کی ایک ضعیف دائی ہے وہ تنور پر روٹیاں بھی پکاتی تھی اور چتڑی ( بھٹی) پر دانے بھی بھونتی تھی۔ اس نے نواز ایمن کو بتایا کہ نسل در نسل جو ساگ اوربھات جھنگ کے دور دراز علاقوں میں مقبول رہے ہیں اور ہر مطبخ کی شان سمجھے جاتے تھے ان میں اروی کے پتے،ارہر،الونک،اکروڑی،بتھوا،پالک،تاندلہ،توریا،خرفہ،سویا،سبز چنے کے پتے،سبز چنا ،سرسوں، شکر قندی، گاجر، گنار، لال ساگ ،مرسا ، منڈوا،میتھی اورمولی شامل ہیں۔
دائی نوراںخانہ داری کے کاموں میںماہر تھی کھانا پکانے کو وہ ایک فن اور اپنا پسندیدہ مشغلہ سمجھتی تھی ۔ وہ اکثر یہ بات دہراتی کہ طعا م کھانا بلا شبہ انسان کی ضرورت ہے مگر طعام کی تیاری ایک ایسا فن ہے جس کے لیے بہت ریاضت درکار ہے ۔ شہروں کے فائیو سٹار ہو ٹلوں کے کھانے بھی اس دائی کے پکائے ہوئے سادہ کھانوں کا مقابلہ نہ کر سکتے۔نہایت احتیاط سے پکائے ہوئے اس کے کھانوں میں خلوص ،مروّت اور بے لوث محبت کا ذائقہ اپنی مثال آ پ تھا۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں ہوس ِزر سے بے نیاز دائی نوراں گھروں میں کھانا پکانے پہنچ جاتی اس کا مقصد صرف پیار و محبت اور چاہت کے جذبات کو عام کرنا تھا۔ نواز ایمن اس دائی کے پکائے ہوئے کھانوں کی بہت تعریف کرتا تھا۔ اس کے بیٹے نعیم مسعود صادق کی شادی کی تقریب میں دائی نوراں ہی دولھا اور دلہن کا کھانا پکانے پر مامور تھی ۔ نواز ایمن اس دائی کے بارے میں یہ بات زور دے کر کہتا تھا کہ اس ضعیف دائی کی نیک نیتی ،مثبت سوچ اور انسانی ہمدردی کے اعجاز سے اس کے پکائے ہوئے سادہ کھانوں میں من و سلویٰ کی لذت پیدا ہو جاتی ہے ۔اُس کا خیا ل تھا کہ اس دائی کے کمال فن کا راز کھانوں کی سادگی میں پوشیدہ تھا ۔ عید ،شب برات یا کسی تقریب کے موقع پر گلی محلے کے فاقہ کش مکینوں میں زردہ یا پلاؤ پکا کر تقسیم کرنا نواز ایمن کا معمول تھا۔ معاشرے کے محروم
طبقے میں چاہتوں اور بے لوث محبتوں کی تقسیم کے ایسے یادگار مواقع پر دائی نوراں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں ۔شاید جھنگ کی اسی معمر دائی کے بارے میں محمد شیرافضل جعفری نے کہا تھا:
سندر ،کومل، ناز ک دائی
جھلمل جھلمل کرتی آئی
پھاگن کی سرشار فضا میں
لال پری نے لی انگڑائی
نواز ایمن یہ بات اکثر دہراتا کہ ایک جری تخلیق کار کو اپنی زندگی میںمتعدد مسائل سے دو چار ہونا پڑتا ہے ۔معاشرتی زندگی میں انسانیت پر جو صدمے گزرتے ہیں وہ انھیں دیکھ کر ان کے بارے میں سوچتا ہے اور ان تضادات ،ارتعاشات اور شقاوت آمیزنا انصافیوں پر کُڑھتا رہتا ہے ۔ سیکڑوں سوچیں ،ہزاروں یادیں ،لاکھوں جذبات و احساسات ،کروڑوں حسرتیں اور لا تعداد خواہشیں اپنے دل میں لیے نواز ایمن چپکے سے زینۂ ہستی سے اتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھا ر گیا۔اس کی نجی زندگی سے وابستہ یادیں اس کے لاکھوں مداحوں کی ایسی فریادیں بن گئی ہیں جن سے تا ابد افکار تازہ کے سوتے پھوٹتے رہیں گے ۔ اس منکسر المزاج ادیب کا تخلیقی کام سیلِ زماں کے تھپیڑوں کے سا منے سد سکندری ثابت ہوگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کی یادیں عالمِ خواب میں تو رہ سکتی ہیں مگر نظر ِ ثانی کو تحریک دینے والے جذبات کی حامل ان حسین یادوںکی حیات ابدی کے بارے میں کوئی ابہام نہیں۔ موت کسی طر ح بھی طبعی زندگی سے متصادم نہیں بل کہ یہ تو ماندگی کا اک وقفہ اور عملی زندگی کا ایک نا گزیر حصہ ہے۔ نواز ایمن نے اپنی دنیا آ پ پیدا کی اس کی وفات کے بعد اس کی دنیا بھی ماضی کا حصہ بن گئی ۔ اب دنیا میںایسی ہستیاں کہاں پیدا ہو ں گی۔ آنے والی نسلیں ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہنے والے اس خود دار تخلیق کار کے ماضی کے خوابوں کی آئینہ دار ان یادوں کے انتخاب ،تقلید اور ترسیل کے ذریعے اپنے لیے مثبت لائحہ عمل کا انتخاب کریں گی۔نواز ایمن نے نہایت صبر آزما حالات کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا اوربہت کٹھن زندگی گزاری ۔اس صابر و شاکر انسان کے بارے میں بہ قول جو ن ایلیایہی کہا جا سکتا ہے :
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے