’’صبح نماز پڑھتا ہوں، تلاوت، پھر مکروہاتِ دنیا‘‘۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد کلیم ملک نے میسج ٹائپ کیا۔
لمحہ موجود میں موجود صفیہ نے ریپلائی میں سبز دل بھیجتے ہوئے سوچا۔ ’’تو مکروہاتِ دنیا کی ابتدا مجھ سے ہوتی ہے‘‘۔
ورجنیا کی ایک صبح کی آنکھ روزانہ پاکستان کے ایک پر رونق پر شور شہر کی جگمگاتی رات میں کھلتی۔
کلیم ملک شاندار کیرئیر کے حامل ریٹائرڈ پروفیسر تھے۔ زندگی طالب علموں میں گھرے گزری۔ سیمینار، ٹاک شو، ٹی ہاؤس، کافی شاپ، لَپ لپّاتی تعریفیں، حسد میں سلگتی تنقید، لاحاصل مباحثے۔ ریٹائرمنٹ۔ کشش ثقل کی طرح کھینچتا ہوا امریکہ 60×25 اسکوائر فٹ کا بُک نما اپارٹمنٹ، جہاں ہر دوسرا قدم اٹھاتے ہی سامنے دیوار آ جاتی تھی۔
بلند و بالا عمارت کے چھوٹے سے اپارٹمنٹ کی وسیع کھڑکیوں سے باہر جھانکتے ہوئے پروفیسر کو ہمیشہ پاکستان میں سڑک کے کنارے پھٹے پر رکھی ہوئی قصاب کی دکان یاد آ جاتی۔ جہاں اوپر نیچے رکھے ہوئے جالی کے ڈبوں میں سے مضمحل مرغیاں اپنی باری کے انتظار میں جھانکتی تھیں۔
درمیانی عمر کی خوش رو صفیہ کے دو بچے خوشحال گھرانہ۔ صفیہ کا شوہر ثاقب مرنجاں مرنج سیلف میڈ آدمی تھا۔ جو ہر دم معیار زندگی بلند کرنے کے لیے کوشاں رہتا۔
شفاف چمکتا ہوا گھر جیسے شیشے کا بنا ہو۔ گھر کے افراد کل والے کھلونوں کی طرح متعین دائرے میں گھومتے رہتے۔
’’شاید میری کسی ’’گل‘‘ ہی میں خرابی ہو گئی ہے!‘‘ صفیہ نے سوچا۔ اچھی بھلی زندگی جاری تھی۔ بظاہر تو اب بھی اچھی بھلی ہے۔ لیکن جانے کیا روگ لگ گیا! گھُلتی جاری ہوں۔ ’’مایوسی، بے دلی، بیزاری۔‘‘ صفیہ نے قدِ آدم آئینہ کو ڈبڈبائی آنکھوں سے دیکھا۔ آئینے کا فریم دیدہ زیب تھا۔ خوش رنگ پھول پتیاں بنی ہوئیں۔ لیکن عکس ایسے لہرایا ہو رہا تھا، جیسے سطحِ آب پر ہو۔
صفیہ نے سوچا۔ ’’قدرت کے ہاتھ کوئی غلیل آ گئی ہے۔ میری خوشی مسرت کے رنگ برنگے غبارے پٹاخ چٹاخ پھاڑے جا رہی‘‘۔
زندگی بنا کسی جواز کے بغیر کسی سبب کے اداس تھی۔ صفیہ اپنی بے دلی کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک اپنا سفر جاری رکھتی۔ بتدریج تنگ ہوتے ہوئے دائروں کا سفر۔ نہ قدم رکتے نہ خیالات۔ واہمے بھی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چلے آتے۔ ’’اف! اِن آنسوؤں کا کیا کروں؟ یہ خواہ مخواہ ہی بہے جاتے ہیں۔‘‘‘ صفیہ نے ہاتھ سے گال پر آئے آنسو صاف کیے۔
صفیہ تو سر سبز درخت کی طرح پھل پھول لیے ہوئے تھی۔ جڑوں کو کیسے دیمک لگ گئی؟
’’کیا کی ہے؟ کیا بات رلاتی ہے؟‘‘ صفیہ نے اپنے آپ سے پوچھا۔ ’’ماں نے تو میری زندگی کا مقصد شادی ہے، بچپن ہی سے طے کر لیا تھا‘‘۔ ابھی تو زندگی کالج میں چوکڑیاں بھرتی تھی۔ ہوا اٹھکھیلیاں کرتے گزرتی تھی۔ بات بے بات ہنسی کے جلترنگ بجتے تھے۔ نک سک سے درست، ٹی وی ڈراموں سے اخذ کردہ فیش سینس کے ساتھ وہ روغنی کاغذ میں لپٹا گرم کیک تھی۔ شادی کی مارکیٹ میں اس کے چرچے تھے۔ زمانے سے طراریاں سیکھی ہوئی ماں نے خوشحال کاروباری تعلیم یافتہ لڑکے کا رشتہ کٹی پتنگ کی طرح اچک لیا۔ شادی طے کر دی گئی۔ وہ جو ایک جوتا خریدنے کے لیے سود کانوں کا چکر لگاتی تھی۔ خریدنے سے قبل کئی بار نیا جوتا اتار پہن کر دیکھتی کہ کہیں تنگ تو نہیں ہے؟ آرام دہ ہے؟ دِکھنے میں دلکش لگتا ہے؟ اُسی صفیہ نے ماں کی پسند پر اچھی مشرقی لڑکیوں کی طرح بغیر جانچے پرکھے شادی کے لیے اظہار رضا مندی کر دیا۔ تعلیم ادھوری رہ گئی۔ خیر ڈگری کا کرنا بھی کیا تھا!۔
پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا۔ لیکن زندگی سٹل لائف پینٹنگ کی مانند ایک ہی منظر دکھا رہی تھی۔
جیسے سٹوریج کیے گئے اناج میں سے خود بخود سنڈیاں نمودار ہونے لگتی ہیں۔ ایسے ہی صفیہ کے ذہن میں بھی کیڑے کلبلا نے لگے۔ اُسے اپنا آپ استعمال شدہ ٹشو پیپر جیسا لگتا۔ بے مصرف۔ بے معنی۔ ٹریش بن میں پڑا ہوا۔ ہواؤں میں ھکتا ہوا۔ اندر باہر بوکھلائی پھرتی رہتی۔ شوہر سے گفتگو کی کوشش کرتی۔ تو سگنل اے لیول، او لیول سے نبرد آزما اولاد سے کچھ پوچھنا چاہا تو ان کی آنکھوں کی سکرین پر بھی ایک ہی جواب دکھائی دیتا ’’Invalid question‘‘۔
جس گھر دستک دیتی بزی ٹون ہی سنائی دیتی۔ چیونٹیوں نے اپنے حجم سے بڑا گندم کا دانہ سر پر اٹھایا ہوا تھا۔ کوئی بھی تعلق ضرورت کی بات اور ضروری بات سے آگے نہ بڑھ پاتا۔
زندگی میں جیون ڈھونڈتی صفیہ کچن میں آئی۔ فریز کی ہوئی مچھلی کو سلیب پر رکھا۔ تھوڑی ہی دیر میں مچھلی پر جمی برف تڑخ گئی۔ صفیہ نے ہمدردی سے سوچا۔ ’’مچھلی اور میں ایک جیسے۔ محفوظ، منجمد‘‘ بچپن میں سنی ہوئی ایک مُنی سی نظم کے بول لبوں پر آ کر مچل گئے۔
مچھلی جل کی رانی ہے
جیون اس کا پانی ہے
ایک قہقہہ بے اختیار کھکھلاتا ہوا حلق سے نکلا اور کمرے میں گونجا۔ قہقہے کی باز گشت نے صفیہ کو چونکا دیا پھر خود کو تسلی دے ڈالی۔ ’’کون سنتا ہے گوں گی بری دیواریں ہی تو ہیں‘‘۔
شاید یہ وہ ہی لمحہ ہے جب نروان ملا کرتا ہے۔
مچھلی کپکپائی برف جھاڑی۔ غڑاپ سے نیلگوں پانی میں ڈبکی لگا گئی۔
صفیہ سیل فون ہاتھوں میں لیے دریچہ کے سامنے آرام کرسی پر بیٹھ کر فیس بک پر اکاؤنٹ بنانے لگی۔
آنکھیں ترچھی، پاؤٹ دہن، پرفیکٹ ہیئر سٹائل کے ساتھ تصویر بنا کر پروفائل پر لگائی۔ پھر سر کاٹ کر دھڑ رہنے دیا۔ پر کشش زاویے۔ لبھاتے قوس۔ ایکوسٹ کی بھرمار۔
ریٹائرڈ آفیسرز جو اپنے گھروں میں سنبھالی ہوئی، پر اَن دیکھی فائلوں کی طرح پڑے تھے۔ شاعر جنہیں ہمیشہ سامع کی تلاش رہتی۔ لفظوں کے کھلاڑی لکھاری، گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے دانشور اور دانش کے نیلام گھر اور متوقع پتنگ باز سجنا۔ آرٹی فی شل ادیب کی چمک دمک کے ساتھ سُچے موتی بھی لو دیتے تھے۔ کھوٹے کے ساتھ کھرا بھی دھرا تھا۔ صفیہ نے سوچا۔ ’’بات تو ذوق انتخاب کی ہے جس کو جو چاہے۔‘‘
لیپ ٹاپ کے سامنے نیم دراز وہ اب سچ مچ کی صفیہ نہیں بلکہ موم کا مجسمہ تھی۔ مادام تساد کے سجے سجائے میوزیم میں مختلف پوز دیتے ہوئے مجسموں میں ایک مجسمہ۔
کرشن گوپیوں سنگ ناچتا ہے۔ صفیہ نے بھی ہولی کے رنگ خود پر انڈیلے اور چپکے سے سنگت میں شامل ہو گئی۔
گاتے گنگناتے دن بھی تالیاں بجاتے سنگت دینے لگے۔
صفیہ قطرہ قطرہ پگھلتے ٹپکتے لیپ ٹاپ کی سکرین ہی میں جذب ہو گئی۔ جب صفیہ غائب ہو گئی، تو ڈھنڈیا پڑی۔ ’’کہاں گئی بھئی؟‘‘
اب تو صفیہ ضرورت پڑنے پر بھی نہیں ملتی تھی۔ ثاقب نے چنتا کی۔ کاٹھ کباڑ سکروں کیا۔ صفیہ کو نکال کر ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔ ڈاکٹر نے ڈیپریشن تشخیص کی۔ لاتعداد ٹیبلٹ، کیپسول کے نام نسخہ پر لکھتے ہوئے ثاقب کو تسلی دی ’’آج کل ہر دوسرا آدمی ڈیپریشن میں مبتلا ہے‘‘۔
واپسی پر کار ڈرائیو کرتے ہوئے ثاقب مسلسل بولتا رہا۔ ’’آپ کو کیا تکلیف ہے؟ میں نے ہر چیز مہیا کی ہے۔ لائق فائق اولاد خوبصورت قیمتی اشیا سے سجا گھر۔ لوگ ترستے ہیں ان چیزوں کو‘‘ ذرا دم لینے کو رکا پھر گویا ہوا۔ ’’یہ ڈیپریشن نہیں نا شکرا پن ہے‘‘
صفیہ نے تائید میں سر کو ہلکا سا ہلایا۔ اور ونڈ سکرین پر گرتے بارش کے قطروں کو خاموشی سے دیکھتی رہی۔ ’’آپ بولتی کیوں نہیں؟‘‘۔
ثاقب کے لہجے میں اب تھکاوٹ اتر آئی تھی۔
مینہ موسلا دھار برس رہا تھا۔ سڑک پر بنتے پانی کے بلبلوں پر سڑک کنارے لگے برقی قمقموں کی روشنی منعکس ہوتی تو ایسے لگتا جیسے تاروں بھرا آسمان زمین پر بچھ گیا ہے۔
گاڑی کی ہیڈ لائٹس گھر کے گیٹ پر پڑیں۔
ثاقب نے بریک پر ذرا دیر کے لیے پاؤں کا دباؤ بڑھ دیا۔ گاڑی کی ہلکی سی پیپ گیٹ کھلتا چلا گیا۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...