ناصر زیدی(اسلام آباد)
برتراز مرحلہء سودو زیاں رہتی ہے
دل جواں ہو تو محبت بھی جواں رہتی ہے
ایک مدت سے میں بھولا ہوں ادھر کا رستہ
جس گلی میں وہ مری دشمن جاں رہتی ہے
ان کے ملنے سے بھی کب بجھی ہے سینے کی جلن
ماورائے تپش وہم و گماں رہتی ہے
آپ نے حال جو پوچھا ہے تو اب سوچ میں ہوں
اس قدر اپنی خبر مجھ کو کہاں رہتی ہے؟
ایک ہستی ہے جو دیتی ہے سہارا پیہم
وہ جو ہر دم مرے نزد رگ جاں رہتی ہے
اس سے انسان کی فطرت کا کریں اندازہ
یہ کسی حال میں ہو حرص جواں رہتی ہے
کون کرتا ہے غم عشق کو ظاہر ناصر؟
یہ کسک خانہ دل میں ہی نہاں رہتی ہے
***
اس سراپا شباب کی آنکھیں
جیسے ہوں محوخواب کی آنکھیں
ایسا نشہ ہے ان کی انکھوں میں
جیسے مست شراب کی آنکھیں
اک تو دل ہے ہمارا بے قابو
اس پہ آفت جناب کی آنکھیں
حال پر ہیں ہمارے مدت سے
اک مسلسل عتاب کی آنکھیں
میری آنکھیں ہیں آئینہ دل کا
ان کی آنکھیں حجاب کی آنکھیں
غیر تو غیر ہی ہیں کیا شکوہ
ہاں مگر آں جناب کی آنکھیں
کب کوئی شخص دیکھ سکتا ہے؟
کسی عزت مآب کی آنکھیں
کس نے دیکھی ہیں کون دیکھے گا
محتسب کے عذاب کی آنکھیں
ہم نے محسوس کی ہیں اے ناصر!ؔ
کرم بے حساب کی آنکھیں
***
مجھ کو اپنی طرح کا لگتا ہے
ویسے تو آدمی وہ اچھا ہے
گویا تم بے قصور ہو بالکل
پوچھتے ہو مزاج کیسا ہے؟
لوگ جو بھی کہیں مگر یارو!
میں ہوں اس کا وہ صرف میرا ہے
دل کو ہر دم جوان رکھتا ہوں
یہ مری عمر کا تقاضا ہے
مجھ کو تسخیر کر نہیں سکتا
میرا دشمن بہت توانا ہے
ہوکبھی سر بلند، ناممکن
دل میں اپنے حسد جو رکھتا ہے
داد ناصرؔ کو دے کوئی کہ نہ دے
شعر گوئی میں تو وہ یکتا ہے
***
کرونہ بات مگر نامہ و پیام تو لو
کبھی کبھی نگہہ شوق کا سلام تو لو
ہے کون میری طرح تم کو چاہنے والا
مثال کے لئے بس ایک آدھ نام تو لو
اگرچہ پینا پلانا ہے ناروا پھر بھی
مئے خلوص و محبت کا ایک جام تو لو
خراب حال ہوں ہو جائے اک نگاہ کرم
تم اپنی چشم فسوں گر سے کوئی کام تو لو
مجھے تعلق خاطر میں ہر سزا ہے قبول
تم اپنے آپ پہ تہمت بہ رنگ عام تو لو
بلندیوں پہ تھا جب تک تمہارا ساتھ رہا
میں گر رہا ہوں مجھے آکے پھر سے تھام تو لو
ہے شاعری میں نہاں شخصیت بھی ناصرؔ کی
دو گو نہ لطف کو مجموعہ کلام تو لو!
***
چین پڑتا نہیں مجھ کو تجھ بن
رات کٹتی ہے تو تارے گن گن
آنسوؤں کی ہے جھڑی اور میں ہوں
اچھی لگتی نہیں کن من کن من
ایک ہی شکل تصور میں رہے
صبح ہو شام ہو یا رات کہ دن
مجھ سے ہے ایک زمانہ مرعوب
ترے انداز کا پر تو تراسن
دیو قامت بھی ہیں بونے یکسر
شعر گوئی میں ہے ناصرؔ کوئی جن