مقصود الٰہی شیخ(بریڈ فورڈ)
۷ ۲ستمبر۱۹۹۹ء
محمد حنیف ناصر چوہان،المتخلص ناصر نظامی صاحب
السلام علیکم
میرا نام مقصود الٰہی شیخ ہے۔میں بریڈ فورڈ میں رہتا ہوں۔میں انشاء اللہ تعالیٰ ۳۰ستمبر کو اسلام آباد پرواز کر رہا ہوں۔’’راوی‘‘ سے فارغ اور ریٹائر ہونے کے بعداپنی بیوی فریدہ کے ساتھ انڈوپاک کی سیر و سیاحت پر جا رہا ہوں۔سر پر سفر سوار ہے۔سفر کم کیے ہیں،اس لیے ہر مرتبہ پہلے سفر کی سی کیفیت ہوتی ہے۔آج رات جلدی سو گیا تھا،رات ساڑھے بارہ بجے آنکھ کھل گئی،نیند کو بلایا،کروٹیں لیں،پھر سرہانے پڑی کتابوں،رسالوں کو اُلٹنے پلٹنے لگا،آخر اپنے ایک کرم فرماڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کا ’’کوہسار جرنل‘‘دیکھنے لگا۔تازہ شمارہ جستہ جستہ دیکھا،پھر سابقہ شمارہ(۱۵بابت مارچ ۱۹۹۹ء)دیکھنے لگا۔چار بج گئے۔اُٹھ کر بیٹھ گیا۔اب آپ سے مخاطب ہوں۔ملنا جلنا بہت ہے مگر حقیقت میں (طبعاََ)کم آمیز ہوں۔دھیرے دھیرے دل ملتا ہے۔سلطانہ مہر جو کبھی کراچی میں مہرو آفتابِ صحافت رہی ہیں ،ان سے اب جا کر مراسلت سیدھی ہوئی ہے۔میرے دل میں ان کے لیے اچھے جذبات اور عزت و تکریم موجزن ہے۔ بڑی سلجھی ہوئی خاتون ہیں۔ سب سے پہلے ان کا مضمون ’’ناصر نظامی اور ہالینڈ‘‘پڑھا۔مضمون پسند آیا،دلچسپی بڑھی۔آپ کی تحریر’’کچھ اپنے بارے میں‘‘پڑھی۔نینا جوگن کا تعارف پڑھا اور پڑھتا گیا۔بہت سی باتیں دل کو بھائیں۔شخصیاتی ماہیوں میں کہیں غلو اور مبالغہ بھی نظر آیالیکن مجموعی پسندیدگی کا یہ عالم ہے کہ بے تکلفی معاف،آپ سے خطاب کیے بغیر نہ رہا۔حیدر قریشی نے جس طرح آپ کے ماہیوں سے آپ کی نقش گری کی ہے،میں موسیقی سے بے بہرہ(یہاں ’’بے‘‘اضافی بھی سمجھا جا سکتا ہے)آواز کے رس کا متوالا،کن رسیا دیر تک کانوں میں بینجو کی آاواز سنتا رہا۔اردو میں قصیدہ مقبول رہا ہے۔اسے قصیدہ نہیں داد سمجھئے۔
اردو میں complimentsکے صحیح معنی معلوم نہیں کیا ہیں،اگر میں شاعر ہوتا تو اسی طرز کی غزل لکھتا۔
گرچہ ٹوٹے ہیں پر، پر جھکے تو نہیں۔۔۔رُکے تو نہیں۔۔۔خوابوں کے سورج ڈھلے تو نہیں۔۔۔مڑے تو نہیں۔ ۔۔بکے تو نہیں۔۔طوالت سے بچنے کے لیے غزل نقل کرنے سے قاصر ہوں۔ایک بار خود پڑھ لیجیے۔
جتنا چاہو کھبتے چلے جاؤ!خوب۔۔ بہت خوب۔۔زمانہ آپ پر مہربان رہا ہے!!
مجھے جو پسند آیا وہ یوں ہے کہ:
ململ کا سوٹ لیا
پہلی نظر میں ہی
تم نے مجھے لوٹ لیا یہ لُوٹنے کی بات بھی خوب ہے۔
جنموں سے جیتے ہیں
دور تغیر کے
ہم پر کئی بیتے ہیں
(ویسے) ہم(بھی)لکھتے لکھاتے ہیں۔حیدر قریشی نے سبھی ماہیوں کا جیتا جاگتا انتخاب کیا ہے،پر:
حالات نے مار دیا تقدیر کی کتھنائی
ہم کو غریبی کی میں نے بھائی کی
بہتات نے مار دیا دولت ہی نہیں پائی
میں چھپی محرومی کے ساتھ ساتھ یہ مخفی رجائیت اچھی لگی کہ:
گھر واپس مڑنے میں
دیر تو لگتی ہے
دل ٹوٹ کے جڑنے میں
کیا میرا یہ تاثردرست ہے کہ ’’کوہسار جرنل‘‘میں طبع شدہ آپ کی لکھی ہوئی حمد عدنان سمیع نے اپنی فلم میں گائی ہے۔اسی شمارے میں آپ کا گیت اور گیت کے یہ شعر بہت اچھے لگے:
اب تو چاہت کے نام کو سن کر جاں لرزتی ہے، جی دہلتا ہے
شب کی تِیرہ شبی یہ کہتی ہے شب کے پہلو سے دن نکلتا ہی
پھر: یہ چاہت کا اظہار تھا یا گماں تھا اگر آگ نہ تھی تو کیسا دھواں تھا
دَم گھٹنے سے بہتر ہے دَم اُڑ کے نکل جائے
میری واپسی دسمبر کے پہلے ہفتہ کے بعد بعد ہو گی۔انڈوپاک کی سیر کیا اور سیاحت کیا۔اپنوں سے میل ملاقات ہو جائے گی۔کیا خبر پھر ادھر جانا ہی نہ ہو۔اس ملک میں ۳۷برس ہو گئے۔سوائے ایک بار (روم)کے کہیں آئے گئے نہیں۔اخبار کی وجہ سے ہم میں سے ایک نہ ایک کو ادھر ہی رہنا ہوتا تھا۔انشاء اللہ واپسی پر رابطہ ہو گا۔آپ نے بھی گیت سنایا تو۔۔۔ویسے میں اس خط کی نقل ڈاکٹر ہرگانوی کو بھی (انہیں کی یاد میں) ارسال کر رہا ہوں۔
والسلام مقصود الٰہی شیخ(بریڈفورڈ،انگلینڈ)