ناصر نظامی
ہر صدمہ جھیلیں گے
خوشیاں دے کے ہم
غم تیرے لے لیں گے
دل میرا روتا ہے
میری یادوں میں
وہ بھی کہاں سوتا ہے
کس رنگ میں رہتے ہو
میری سنتے ہو
نہ ا پنی کہتے ہو
وہ بھولا نہ کہلائے
شام کو بھولا ہوا
گر واپس آجائے
کب ایسے جانے ہیں
خون کیا دل کا
تب جاکے مانے ہیں
لوہا منوانا ہے
ایڑی چوٹی کا
ہمیں زور لگانا ہے
دکھ ہم نے جھیلا ہے
خوشیوں سے لیکن
کوئی دوسرا کھیلا ہے
ہم گر گئے نظروں سے
عظمتِ آدم کی
اخلاقی قدروں سے
احسان جتائے گا
زخم مرے دل پر
رُک رُک کے لگائے گا
احساس کی بات ہے یہ
دور کے رشتے کی
نہ پاس کی بات ہے یہ
دل چیرے ہمالوں کا
سلسلہ رُکتا نہین
سوچوں کا ، خیالوں کا
اپنی بھی سناؤ کچھ
بات تعارف سے
کچھ آگے بڑھاؤ تم
اک تھالی پیتل کی
میں اک چھایا ہوں
ترے جسم کے پیپل کی
پھولوں سا رنگ ترا
تتلی جیسا ہے
کومل ہر انگ ترا
نوخیز کلی ہے وہ
ریشمی تن اس کا
کرنوں کی پلی ہے وہ
خوشبو میں ڈھلی ہے وہ
دھرتی پر اتری
جنت کی گلی ہے وہ
اُں بانہوں کے گھیرے ہوں
پیار کی گلیوں کے
پھیرے پر پھیرے ہوں
یہ شان بھی جاتی ہے
پیار میں دل ہی نہیں
یہ جان بھی جاتی ہے