ناصرؔ کاظمی ۸ دسمبر ۱۹۲۵ء کو پیدا ہوئے اور ۲ مارچ ۱۹۷۲ء کو انتقال کر گئے۔
لیجیے۔۔۔ پوری داستان حیات مختصر ہو گئی، لیکن سچ مانیے تو ایک شاعر کی داستان اتنی مختصر نہیں ہو سکتی اور وہ بھی ناصرؔ کاظمی کی۔۔۔ جدید ذہن کی چادر پر پھر ایک قطرہ خون ٹپکا اور پھر ایک دیوار لرز گئی۔۔۔
ناصرؔ کاظمی کی آواز اب تک گونج رہی ہے اس آواز میں کیسی بھینی بھینی خوشبو ہے کیسی گل بداماں شاعری ہے۔ میر کی آواز کا یہ نقیب اشارات کی دنیا کا یہ سفینہ چلتے چلتے درمیان راہ ہی سو گیا اور ایک بڑھتا ہوا برگد اس پر موت کا سایہ ڈال کر کتنا مطمئن ہے۔ موت کیوں ہوتی ہے؟ یہ سوال بے معنی ہے! لیکن بعض اوقات ہم بے معنی سوال بھی کر بیٹھتے ہیں شاید ہماری رگوں میں بھٹکا سا لگتا ہے۔
جب ناصرؔ نے غزل کہنی شروع کی تو نظم والے اندر کا اکھاڑہ دیکھ رہے تھے جوشؔ انقلاب کے دھماکے میں شباب کا سوانگ رچا رہے تھے۔ اخترؔ شیرانی فنا فی العشق ہو چکے تھے اور وہیں پر کچھ نئے پرندے اقبال کی نظموں کا غزلوں میں ترجمہ کر رہے تھے۔ ناصرؔ کاظمی اور ایسے کئی تازہ ذہن والوں نے یکایک خوبصورت غزلیں سنانی شروع کر دیں لیکن ان غزلوں میں اردو تھی، اسی کا انداز تھا، اسی کی لچک تھی۔ ناصر کاظمی کی غزلوں میں فنی رچاؤ بھی ہے نادر تصور بھی ہے سوز و گداز بھی ہے۔
ناصرؔ کاظمی پاکستان کے رہنے والے تھے لیکن اُردو کے شاعر تھے یعنی ہمارے شاعر۔۔۔ سرحدیں بڑی گہری ہو گئی ہیں۔ خبریں جلدی پار ہو کر نہیں آتیں لیکن جب کوئی ایسی خبر آ جاتی ہے تو سوچنا پڑتا ہے کہ کیا ہماری زبان بولنے والے اتنے بے حس ہیں کہ اس خبر کو شائع بھی نہیں کر سکتے۔۔۔ (سلیقہ سے)؟
ناصرؔ کاظمی کی شاعری سے کون واقف نہیں:
پھر کسی گل کا اشارہ پا کر
چاند نکلا سر میخانہ گل
…
کل ترا دور تھا اے باد صبا
ہم ہیں اب سرخیِ افسانہ گل
…
تجھ کو ہر پھول میں عریاں سوتے
چاندنی رات نے دیکھا ہو گا
…
شام سے سوچ رہا ہوں ناصرؔ
چاند کس شہر میں اُترا ہو گا
…
شعلے میں ہے ایک رنگ تیرا
باقی ہیں تمام رنگ میرے
…
کچھ پھول برس پڑے زمیں پر
کچھ گیت ہوا میں لہلہائے
…
کم فرصتیِ خوابِ طرب یاد رہے گی
گزری جو ترے ساتھ وہ شب یاد رہے گی
٭٭٭