نسیم انجم کے دوناول
’’کائنات‘‘ اور’’آہٹ‘‘
نسیم انجم کی نئی کتاب ’’دو ناول‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔اس میں ان کا سب سے پہلا ناول ’’کائنات‘‘ اوربعد کا لکھا ہواایک اورناول’’ آہٹ‘‘ دو ناول شامل ہیں۔کتاب میں شامل پہلا ناول ’’کائنات ‘‘ہے۔چونکہ یہ نسیم انجم کا پہلا ناول تھا اس لیے عمرکے حساب سے بھی اور کچھ کرداروں کے حساب سے بھی اس میں جذباتیت راہ پا گئی ہے۔اس میں بیلا اور سحر دو لڑکیاں مرکزی کردارہیں۔کہانی کے باقی سارے کردار انہیں کے گرد گھومتے ہیں۔ دونوں لڑکیوں کی الگ الگ دکھ بھری کہانیاں ہیں۔ زندگی کے متعددنشیب و فراز سے گزرتے ہوئے ،بالآخر معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں سہیلیوں کا باپ ایک ہی ہے،گویا دونوں صرف سہیلیاں ہی نہیں بہنیں بھی ہیں۔بیلا کی موت کے المیہ پر یہ ناول اختتام پذیر ہوتا ہے۔محبت اور اس کے دکھ کی کیفیات کے بیان میں دونوں لڑکیوں کا اظہارکچی عمروں والا جذباتی قسم کا رہتا ہے۔ایک عمر اور تجربے کے بعد بھی اس جذباتیت میں کوئی فرق نہیںآتا۔ہو سکتا ہے یہ جذباتی کیفیت زندگی کے دکھوں کے طویل تجربے کی زائیدہ ہو۔تاہم بعض مقامات پر یہ جذباتی آنسو اتنے زیادہ ہو جاتے ہیں کہ لگتا ہے اچھی بھلی گندھی ہوئی کہانی میں ضرورت سے زیادہ پانی ڈال دیا گیا ہے۔ان اقتباسات سے جذباتی کیفیات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے:
’’میک اپ کی گلابی تہہ نے اس کے چہرے پر نکھار اور جاذبیت پیدا کردی تھی۔ دل کی نازک کلیاں پھول بننے کے لئے ہولے ہولے اپنے لب کھول رہی تھیں۔ حیانے اس کے عارضِ سیمیں پر سرخی کی چھاپ کو مستقل کردیا تھا۔ شرم کے بوجھ سے اس کی گھنیری پلکیں جھکی جارہی تھیں۔ سپنوں کے خوش رنگ پھول اس کی اطراف میں رقص کررہے تھے۔ تمناؤں کی خوابیدہ کلیاں جاگ اٹھی تھیں۔ ‘‘ (کائنات)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’وہ ہنستی ہوئی ہوا کے جھونکے کی طرح کمرے سے نکل گئی۔ سونی آنکھوں میں اب پریم کے سپنوں کا ڈیرہ تھا۔ بدن کے ظلمت کدہ میں اب روشنی کی جھلمل کرنیں تھیں۔ دھنک کے رنگوں کو چھونے کے لئے وہ آکاش کی سمت ہولے ہولے پرواز کررہی تھی۔ چاہنے والے کی چاہت پاکر مسرتوں کا پیکر بن گئی تھی۔ماتم زدہ چہرے پر باہر اور تازگی آگئی تھی۔ ملگجے لباس نے اب اجلے اور صاف ستھرے کپڑوں کی جگہ لے لی تھی۔
دل کی خوشیاں اس کے چہرے پر رقصاں تھیں۔ ‘‘ (کائنات)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سفید پاجامے، براؤن رنگ کی شیروانی اور سلیم شاہی جوتے میں کسی شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ وہ دھیرے دھیرے چلتا اس کے پاس آگیا۔
ہم سفر کو ہم سفر کا آداب۔
آداب۔ اس نے حنائی ہاتھوں کو ماتھے پر لے جا کر جواباََکہا۔
نیناں ۔۔۔ آپ تصویر سے کہیں زیادہ حسین ہیں۔
شکریہ۔ وہ آہستہ سے گویا ہوئی۔ (آہٹ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ناول کے کردار اپنے اپنے دکھوں کے ساتھ مربوط طور پر سامنے آتے ہیں۔ناول میں جب کہانی ایک نئے موڑ پر آجاتی ہے وہاںقاری کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔عورت کی مظلومیت کے ساتھ ساتھ مثبت اور مثالی مردانہ کردار بھی موجود ہیں۔یاسرفرشتہ صفت ہے لیکن اس کا یہ کرداربہت مختصر ہے۔
’’آہٹ‘‘ کی کہانی ۲۰۰۵ء کے ہولناک زلزلہ کے آس پاس کے زمانے سے تعلق رکھتی ہے۔نیناں اور یاسر کی محبت کی کہانی ہے۔اس کا ہیرو یاسر بہت محبت کرنے والا اورانسانیت پر یقین رکھنے والا انسان ہے۔’’آہٹ‘‘ بھی دکھوں سے بھری ہوئی کہانی ہے۔دکھوں کے ایک طویل دور سے گزرنے کے بعدنیناں کی یاسر سے شادی ہوتی ہے تو اس کی زندگی میں بہار آجاتی ہے لیکن پھر یاسر کشمیر میں تھا جب ۲۰۰۵ء کا زلزلہ آتا ہے۔بے شمار لاوارث لاشیں دفنا دی جاتی ہیں۔یاسر کا کچھ پتہ نہیں چلتااور نیناں کی زندگی میں پھر دکھ شروع ہو جاتے ہیں۔کہانی کے آخر میں طویل عرصہ کے بعد یاسربیساکھیوں کے ساتھ اچانک نیناں کی زندگی میں پہنچ جاتا ہے اور پھر وہ دونوں ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگتے ہیں۔
ہر تخلیق کاراپنی فکری ساخت کے مطابق اپنے افکار وخیالات کوتخلیقی انداز میں اپنی تخلیقات میں پیش کرتا ہے۔ایسے خیالات سے اختلاف کے باوجود ان تخلیقات کی قدروقیمت میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔تاہم جب اپنے خیالات کو تبلیغی انداز میں بیان کیا جانے لگے تو ان خیالات سے اتفاق کرنے کے باوجود اس تخلیق کی تخلیقیت متاثرہو جاتی ہے۔ کہیں کہیں ایسے لگتا ہے کہ نسیم انجم ان ناولوں میں تبلیغی انداز کی طرف جا نے لگی ہیں۔
’’آہٹ‘‘ مختصر ناول ہے۔شاید اسے ناولٹ بھی کہا جا سکتا ہے،بلکہ اس پڑھتے ہوئے مجھے افسانہ نگار رام لال یاد آئے ۔ان کے بعض طویل افسانے اس ناول کے سائز کے رہے ہیں۔
دونوں ناول کچی عمر کی لڑکیوں کے جذباتی خیالات سے لبریزمعاشرتی طرز کے ناول ہیں۔ان پر اگر کوئی ڈرامہ سیریل بنائی جائے تو خاصی مقبول ہو سکتی ہے۔ تاہم ادبی طورپر یہ دونوں ناول نسیم انجم کے اپنے ناول نرک معیارتک نہیں پہنچ سکے، اس کے باوجود انہیں بڑی عوامی سطح پر اور خصوصا خواتین میں بھر پور پذیرائی مل سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد۔شمارہ نمبر ۲۶۔مئی ۲۰۱۷ء