میرے والد گاؤں میں امامت کے فرائض انجام دیتے تھے ہم لوگ مسجد سے متصل حجرے میں رہتے تھے۔ سارا گاؤں میرے والد کا معتقد تھا لوگ اپنے گوناگوں مسائل کے لئے ان سے رجوع کرتے تھے۔ کوئی عبادات کے بارے میں ان سے پوچھتا کوئی معاملات کے سلسلے میں ان سے رہنمائی طلب کرتا، کوئی اپنے خاندانی مسائل کا تصفیہ کرنے کے لئے ان کے پاس آتا تو کوئی اپنے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ وہ ان میں دلچسپی لیتے اور انہیں حل کرنے کی حتی المقدورسعی کرتے۔ کسی کے گھر میں خوشی یا غم کا کوئی موقع ہوتا تو سب سے پہلے امام صاحب کو اطلاع دی جاتی اور سب سے پہلے وہ حاضر بھی ہو جاتے۔ ہمارا چھوٹا ساگاؤں ایک بڑے سے خاندان کی طرح تھا جس کے سربراہ میرے والد صاحب تھے۔
والد صاحب کے طفیل ہم بھائی بہنوں کی گاؤں میں بڑی عزت تھی وقت اچھا گزر رہا تھا مگر گردشِ ایام کے الٹ پھیر سے گھر کے بچے جوانی کی دہلیز میں داخل ہو گئے اور والد صاحب ضعیف ہو گئے۔ ایک دن انہوں نے جمعہ کی نماز کے بعد گاؤں والوں کو رکنے کے لئے کہا۔ سب لوگ بیٹھے رہے۔ اس کے بعد انہوں گاؤں سے اپنی قریبی تعلق کا اظہار کیا انہیں یاد دلایا کہ کس طرح وہ نوعمری میں مدرسہ سے فارغ ہو کر یہاں آئے تھے اس وقت مسجد کا کیا حال تھا۔ مدرسہ کس حالت میں تھا اور وہ خود کیسے تھے؟ پھر دھیرے دھیرے کیسی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور وہ وقت بھی آ گیا کہ جب وہ بوڑھے ہو چکے ہیں۔
والد صاحب اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے بولے انہیں لگتا ہے کہ اب وہ امامت کے فرائض بحسن و خوبی ادا نہیں کر سکتے۔ نائب امام کافی عرصہ سے اپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ انہیں ترقی دے کر امامت کی ذمہ داری پر فائز کر دیا جانا چاہئے۔ انہوں نے اپنی سبکدوشی کی خواہش کا اظہار بڑے آرام سے کر دیا مگر گاؤں والوں پر یہ خبر بم کی طرح گری ان لوگوں نے کبھی اس زاویہ سے سوچا ہی نہیں تھا۔ ان کے ذہن میں مختلف خدشات کلبلانے لگے تھے کوئی سوچ رہا تھا
اس عمر میں امام صاحب کہاں جائیں گے؟
ان بچوں کا کیا ہو گا؟
دو بیٹے ہیں وہ بھی بے روزگار؟
تین بیٹیاں ہیں جو شادی کے لائق ہونے والی ہیں؟
اور پھر امامت سے سبکدوش ہونے کے بعد ان کا گزر بسر کیسے ہو گا؟
ان کے نہ کھیت ہیں اور نہ کاروبار؟ گاؤں والے پنشن نام کے کسی چیز سے واقف نہیں تھے جس میں لوگوں کو بغیر کام کے تنخواہ ملتی ہے۔
مسجد میں قبرستان کی سی خاموشی چھا گئی سب لوگ سوگوار تھے کچھ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ گاؤں کے سرپنچ شرف یاب خان کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا میں امام صاحب کی اپنے باپ سے زیادہ عزت کرتا ہوں انہوں نے میرے کان میں اذان دی انہوں نے مجھے الف ب سکھایا اور اس قابل بنایا کہ میں ان کے اور آپ سامنے کھڑا ہوا ہوں۔ آج تک میں تو کیا گاؤں والوں میں سے شاید ہی کسی نے امام صاحب سے کبھی اختلاف کیا ہو؟ ہم سب نے ہمیشہ ہی ان کے ہر فیصلہ کو سر آنکھوں پر رکھا لیکن آج میں ذاتی طور اس حکم کی تعمیل میں تامل محسوس کر رہا ہوں۔
امام صاحب بولے شرف یاب بیٹے میں ان جذبات کی قدر کرتا ہوں لیکن دنیا جذبات سے نہیں چلتی ہر ایک کو اپنے وقت پر یہاں آنا ہوتا ہے یہاں سے جانا ہوتا ہے۔ ہر کوئی صحیح وقت پر اپنا کام شروع کرتا ہے اورمناسب موقع پر سبکدوش ہو جاتا ہے۔
مجمع میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے پوچھا میرا سوال یہ ہے کہ صحیح اور مناسب وقت کا تعین کیسے کیا جانا چاہئے؟
امام صاحب مسکرائے اور انہوں نے کہا شاباش اسی طرح کے معقول سوالات انسان کو حقیقت کی معرفت کرواتے ہیں صحیح وقت وہ ہوتا ہے جب انسان ذمہ داری کو سنبھالنے کے قابل ہو جائے اور مناسب وقت وہ ہوتا ہے جب وہ انہیں ادا کرنے سے معذور ہو جائے۔
دوسرا بولا کون کہتا ہے کہ آپ معذور ہیں؟
کسی کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے آپ لوگ نہیں کہتے اس لئے کہ آپ کی آنکھوں پر عقیدت کی عینک چڑھی ہوئی ہے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ کہنے کی نوبت آنے سے قبل میں از خود سبکدوش ہو جاؤں۔
لیکن آپ سبکدوش ہو کر کہاں جائیں گے؟
میں وہیں جاؤں گا جہاں سے آیا تھا۔ میں اپنے گاؤں چلا جاؤں گا۔
آپ کا گاؤں؟
آپ کا؟ ۔۔۔۔۔ اس گاؤں کے سوا کوئی اور گاؤں بھی ہے؟ ۔۔۔۔۔ یہ ہم نہیں جانتے؟
۔۔۔۔۔۔ ہم نے کبھی آپ کو وہاں جاتے آتے نہیں دیکھا! ۔۔۔۔
ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح یہ ہمارا گاؤں ہے اسی طرح آپ کا بھی یہی گاؤں ہے؟ ۔۔۔۔۔
کس گاؤں میں جانے کی بات آپ کر رہے ہیں؟ سوالات کا سیلاب امڈ پڑا تھا۔
ہاں تمہاری بات درست ہے۔ میں نے بھی اس گاؤں کو کبھی پرایا نہیں اپنا ہی سمجھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں یہاں ایک کام کرنے کے لئے آیا تھا جو اب ختم ہو چکا ہے اس لئے مجھے واپس جانا چاہئے۔
لیکن آبائی گاؤں میں آپ کا کون ہے؟
میں نہیں جانتا کہ کون ہے اور کون نہیں ہے۔ کچھ لوگ کبھی کبھار یہاں سے گزرتے ہوئے ملنے آ جاتے تھے تو ان سے خیر خبر مل جاتی تھی لیکن وہ سب لوگ میری طرح بوڑھے ہو چکے ہیں۔ انہوں نے آنا جانا چھوڑ دیا ہے نئی نسل کو میں نہیں جانتا اس لئے وہ بھی مجھے نہ جانتی ہے اور نہ ملنے آتی ہے۔ اس لئے میں اپنے گاؤں والوں کے بارے میں فی الحال بہت کم جانتا ہوں۔
ٍ کیا آپ کی وہاں کھیتی باڑی ہے؟
کھیتی باڑی جو وراثت میں ملی تھی وہ تو میں نے کاشت کاری کرنے والوں کو حبہ کر دی اس لئے کہ امامت کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد زراعت کا خیال میں نے اپنے دل سے نکال دیا تھا۔
سوالات کا لامتناہی سلسلہ لحظہ بہ لحظہ امام صاحب کو گاؤں کے سرحدوں کے قریب ڈھکیلتا جاتا تھا۔ شرف یاب نے اس بات کو محسوس کر لیا اور وہ کھڑا ہو گیا سب لوگ خاموش ہو گئے۔ شرف یاب نے کہا باتیں بہت ہو چکی ہیں آپ لوگوں کو گھر جانا ہے کھانا کھانا ہے۔ آپ جائیں نماز عصر کے بعد گاؤں کی پنچایت میں امام صاحب کی تجویز پر فیصلہ ہو گا اور بعد نماز مغرب آپ سب کو بتلا دیا جائے گا۔ لوگ بوجھل قدموں سے اٹھے اور بغیر کچھ کہے سنے اپنے اپنے گھروں کی جانب چل پڑے۔ امام صاحب کو ایسامحسوس ہوا گویا یہ لوگ ان کی تدفین سے لوٹ رہے ہیں۔ اس روز گاؤں میں سوائے امام صاحب اور ان کے اہل خانہ کے کسی نے کھانا نہیں کھایا۔ جب مردوں نے خواتین کو امام صاحب کا فیصلہ بتلایا تو وہ بھی غم زدہ ہو گئیں اور بغیر کھائے لیٹ گئیں۔ ہر کسی کو مغرب کی نماز کا انتظار تھا۔
نماز جمعہ کو مسجد میں جس قدر بھیڑ ہوتی تھی نماز مغرب میں عام طور پر اس کے مقابلے بہت کم نمازی ہوتے تھے لیکن اس روز تعداد بڑھ گئی تھی۔ ایسے لوگ جنھوں نے جمعہ کی نماز کسی وجہ سے دوسرے علاقہ میں پڑھی تھی اور شام میں گھر لوٹے تھے وہ بھی نماز مغرب میں حاضر ہو گئے۔ ایسا عجیب و غریب ماحول پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ بعد نماز مغرب شرف یاب خان اٹھ کر مائک پر آئے انہوں نے کہا گاؤں والو میرے ہوش سنبھالنے کے بعد آج پہلی مرتبہ گاؤں کی پنچایت اس طرح سے ہوئی کہ اس میں امام صاحب شریک نہیں تھے۔ ہم سب نے امام صاحب کے فیصلے پر غور کیا چونکہ ہم نے آج تک امام صاحب کے کسی فیصلہ سے روگردانی نہیں کی اسی روایت کو قائم رکھتے ہوئے ہم نے ان کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کر دیا۔ یہ فیصلہ مجمع پر بجلی بن کر گرا۔
شرف یاب نے بات جاری رکھی۔ امام صاحب کی حیثیت ہمارے اس خاندان کی سربراہ کی سی ہے اس لئے ہم ان سے کچھ گذارشات کرنے کا حق رکھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ غور فرمائیں گے نیز جن کو مناسب سمجھیں گے شرف قبولیت عطا فرمائیں گے۔ ہماری پہلی گذارش تو یہ ہے کہ امام صاحب اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے باوجود اسی گاؤں میں قیام فرمائیں۔ آپ کی موجودگی ہم گاؤں والوں کے لئے سایۂ رحمت ہے۔ نئے امام مکرم خان صاحب مکان تبدیل کرنے کے بجائے اپنے اسی گھر میں رہیں گے جہاں پہلے سے رہائش پذیر ہیں اس صورت میں امام صاحب کی رہائش اسی مکان میں ہو گی جس میں وہ رہتے ہیں۔ پنچایت کی یہ تجویز بھی ہے کہ امام صاحب کے دونوں عالم دین بیٹے گاؤں کے مدرسے میں مدرسین کے فرائض انجام دیں تاکہ ان کے علم و فضل سے گاؤں والے استفادہ کر سکیں۔ ہماری امام صاحب سے گذارش ہے کہ ہماری ان تجاویز کو قبول فرمائیں۔
امام صاحب کھڑے ہوئے اور پر وقار انداز میں بولے گاؤں والو! جس عقیدت و محبت کا مظاہرہ آپ لوگوں نے کیا ہے اس کی توقع میں نے کبھی نہیں کی تھی۔ پنچایت کے تمام فیصلے میں قبول کرتا ہوں سوائے ایک کے۔ حاضرین محفل کی سانس اس ایک پر جا کر اٹک گئی۔ امام صاحب بولے میری سبکدوشی سے مدرسہ میں ایک مدرس کی جگہ خالی ہوئی ہے اس پر اگر پنچایت اور نئے صدر مدرس مولانا مکرم خان صاحب مناسب سمجھیں تو میرے بیٹے اعظم کو رکھ لیں۔ غلام اعظم اسے قبول کر لے تو مجھے خوشی ہو گی لیکن جہاں تک غلام رسول کا سوال ہے نہ تو اس کے لئے جگہ ہے اور نہ ہی وہ اس قابل ہوا ہے۔ وہ تو ابھی بچہ ہے بچوں کو کیا پڑھائے گا اس لئے فی الحال میں اسے مدرس بننے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ امام صاحب کی یہ شرط گاؤں والوں کے لئے کسی خاص اہمیت کی حامل نہیں تھی ان کے لئے توبس یہی کافی تھا کہ امام صاحب گاؤں میں رکنے کیلئے راضی ہو گئے تھے۔
شرف یاب پھر مائک پر آئے اور انہوں نے نے کہا امام صاحب کا ہر حکم سر آنکھوں پر ہمیں خوشی ہے کہ انہوں نے ہماری استدعاکو قبول فرمایا اور اس گاؤں میں رہنا پسند کیا۔ اب ایک ذاتی گذارش میں امام صاحب سے کرنا چاہتا ہوں اگر وہ مناسب سمجھیں تو اپنی بڑی بیٹی نیک زاد بانو کا نکاح میرے بیٹے ظفر یاب سے کرنے پر اپنی رضامندی بتلائیں تاکہ امام صاحب کے ساتھ اس گاؤں کا مزید ایک رشتہ قائم ہو جائے۔
امام صاحب مسکرائے مائک پر آئے انہوں نے کہا مجھے یہ رشتہ منظور ہے لیکن میں اپنی بیٹی کی رضامندی معلوم کر کے شرف یاب کو بتلا دوں گا اس کے بعد وہ مولانا مکرم خان کی جانب بڑھے جو سرجھکائے بیٹھے تھے امام صاحب کو اپنے سے قریب آتا محسوس کر کے وہ کھڑے ہو گئے امام صاحب نے ان کے سر کی دستار کو اتار کر قریب منبر پر رکھا اور پھر اپنے سر کی دستار ان کے سرپر رکھ دی مجمع پکار اٹھا نعرہ تکبیر اللہ اکبر، نعرہ تکبیر اللہ اکبر۔ لوگ امام صاحب سے اس طرح گلے مل رہے تھے جیسے دلہن کو میکے سے سسرال روانہ کرتے وقت ملا جاتا ہے۔
اس تقریب کے بعد غلام رسول کا ایک بھائی برسر روزگار ہو گیا ایک بہن کا نکاح طے ہو گیا لیکن دو بہنیں ابھی باقی تھیں اور خود اسے روزگار تلاش کرنا تھا۔ یہ کام آسان نہیں تھا گاؤں میں کوئی کام اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ کاشتکاری کے لئے زمین درکار تھی۔ امام صاحب کے لڑ کے کو اپنے کھیت پر مزدور کے طور پر رکھنا گاؤں والوں کو گراں گزرتا تھا۔ دوکانیں اس قدر چھوٹی تھیں کہ ان پر نوکر چا کر کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔ مالک اور اہل خانہ ہی اسے چلانے کے لئے کافی ہو جاتے تھے بلکہ ان میں سے بھی کچھ مزدوری کرتے تو کچھ ملازمت کے لئے دوسرے شہروں کی جانب نکل جاتے تھے۔ ان مہاجرین میں ایک غلام رسول کا دوست محمود خان تھا جو شارجہ میں ٹیکسی چلاتا تھا اور اس وقت گاؤں میں چھٹی گذار رہا تھا۔ محمود خان کے پاس کوئی کام نہ تھا دن بھر خالی خولی وقت گذارتا، کھاتا پیتا اور سوجاتا تھا۔ لیکن کھانے سونے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ گاؤں کے بے روزگار دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا جن میں سے ایک امام صاحب کا چھوٹا بیٹا غلام رسول خان بھی تھا۔ ایک دن غلام رسول نے محمود سے پوچھا یار تمہارے منہ سے متحدہ عرب امارات کی اس قدر تعریف سننے کے بعد ایک بار وہاں جانے کو دل کرتا ہے۔
محمود خان نے زوردار قہقہہ لگایا اور بولا وہاں جانے کے لئے صرف دل کافی نہیں بل کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ بل کیا سانپ کا بل ہے؟
ا رے سانپ کے بل سے بھی خطرناک ہے یہ بل۔ انگریزی میں روپئے اور رسید دونوں کو بل کہتے ہیں۔
انگریزی میں روپئے کو بل کہتے ہیں تو یہ سانپ سے خطرناک کیسے ہو گیا؟
اوہو اتنے بڑے عالم دین کے بیٹے ہو کر اتنی معمولی بات نہیں جانتے سانپ کے زہر کا تریاق موجود ہے اور اگر بروقت علاج ہو جائے تو زہر کا اثر زائل بھی ہو جاتا ہے۔ اگر علاج نہ ہو پائے تب بھی آدمی مر جاتا ہے اور کھیل ختم۔ ایک بار کی موت اور ہمیشہ کی چھٹی لیکن روپیوں کے زہر سے آدمی نہ مرتا ہے نہ زندہ رہتا ہے وہ بدستور کرب میں گرفتار رہتا ہے اور سب سے خاص بات، یہ زہر بے تریاق اگر ایک بار چڑھ جائے تو بس موت کے ساتھ ہی اترتا ہے۔
غلام رسول بولا یار محمود امارات میں جا کر تو تم فلسفی ہو گئے ہو۔
یہی سمجھ لو وہاں کے انسان چلتی پھرتی کتابیں ہیں ہم ٹیکسی ڈرائیور دن بھر نت نئی کتابوں کو پڑھتے رہتے ہیں اسی لئے ہمارے علم کی وسعت لائبریری کے اندر محصور رہنے والے بڑے بڑے دانشوروں سے زیادہ ہوتی ہے۔
لیکن اس علم کا کیا فائدہ جو ایک قریبی دوست کی وہاں تک نہ پہنچا سکے غلام رسول نے لوہا گرم دیکھ کر ضرب لگائی۔
میں نے کب کہا کہ تم وہاں نہیں آ سکتے؟ اور میں اس کے لئے کوشش نہیں کروں گا؟ میں تو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ تیاری کرو مگر جلد بازی نہ کرنا۔
دوسری بات تو سمجھ میں آتی ہے پہلی بات سمجھ میں نہیں آئی۔
لگتا ہے تم امارات آنے کے لئے سنجیدہ ہو؟
غلام رسول نے جواب دیا تو اور کیا تم مذاق سمجھ رہے تھے؟
اچھا تو دیکھو ابھی پندرہ دن بعد میری چھٹیاں ختم ہو جائیں گی میں یہاں سے پاورش جاؤں گا تو تم ایسا کرنا کہ میرے ساتھ چلنا وہاں میرا ایک رشتہ دار ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرتا ہے اس میں تم کام شروع کر دینا اور ساتھ میں گاڑی چلانا بھی سیکھ لینا۔ لائسنس بنانا اس سے تمہارا شہر میں گزارہ بھی ہو جائے گا، رہائش بھی مل جائے گی اور گاڑی پر ہاتھ بھی صاف ہو جائے گا۔ تب تک میں تمہارے لئے ویزا کا بندوبست کرتا ہوں اور پھر ٹکٹ اور ویزا بھیج کر تمہیں بلا لوں گا یہ ہے تیاری۔
بہت خوب لیکن پاورش جانے سے پہلے تم ان پندرہ دنوں میں مجھے گاؤں کے اندر بھی تو گاڑی چلانا سکھا سکتے ہو۔
ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے سرپنچ شرف یاب کی گاڑی اکثر کھڑی رہتی ہے تم اپنے والد صاحب سے کہہ کر اسے چلانے کی اجازت حاصل کر لو میں تمہیں گاڑی چلانا سکھادوں گا۔
اس میں والد صاحب کی کیا ضرورت کیا شرف یاب مجھے نہیں پہچانتے جو سفارش کی ضرورت لاحق ہو۔
محمود خان کو غلام رسول کی خود اعتمادی پسند آئی وہ بولا یہ ہوئی نا مردوں والی بات۔ شام میں ہم دونوں شرف یاب کی حویلی پر چلیں گے اور میں اس سے تمہارے بارے میں بات کروں گا مجھے یقین ہے یہ کام ہو جائے گا۔۔۔۔۔ ان شاء اللہ
دو ہفتے کے اندر غلام رسول گاڑی چلانا سیکھ گیا اور محمود خان کے ساتھ پاورش جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ والد صاحب نے اسے بڑی محبت اور شفقت سے روانہ کیا ماں اور بہنوں کے آنکھوں میں آنسو تھے لیکن بھائی غلام اعظم اس کے ساتھ تھا وہ بس اڈے تک چھوڑنے کے لئے آیا اور راستہ میں بڑے بھائی کی حیثیت سے نصیحت کی غلام رسول تم شہر جا رہے ہو۔ شہروں کو مایا نگری کہا جاتا ہے وہاں جا کر لوگ کھو جاتے ہیں تم اپنا خیال رکھنا۔
مایا نگری میں اپنا خیال کیسے رکھا جاتا ہے؟ غلام رسول نے معصومیت سے پوچھا
غلام اعظم نے جواب دیا ’’زہد‘‘ مومن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ مادہ پرستی کے زہر پر تریاق ہے ’’زہر اور تریاق‘‘ ان الفاظ نے غلام رسول کے دل میں محمود کی گفتگو تازہ کر دی۔ اس نے سوچا محمود نہیں جانتا کہ تریاق موجود ہے۔ نا فہم ہے بے چارہ۔
پاورش میں اسے پتہ چلا کہ اس شہر کا اصلی نام ’پیشہ ور‘ ہے۔ وہاں بڑی سخت زندگی تھی وہاں کے لوگ اس کے والد صاحب کو نہیں جانتے تھے۔ وہ ان کے لئے امام صاحب کا بیٹا اور ایک معزز عالم دین نہیں بلکہ ٹرک پر کام کرنے والا ایک مزدور تھا۔ انہوں اس سے خوب دبا کر کام لیا۔ اور وہی زمانہ تھا جب اس نے جفا کشی کی تعلیم حاصل کی۔ یہ ایک ایسی عملی تربیت تھی جو اس کے والد صاحب اور ان کا مدرسہ اسے نہ دے سکا تھا۔ لیکن اس دوران وہ ساری باتیں جو اس نے برسوں کی محنت سے سیکھی تھیں ایک ایک کر کے بھولتا گیا۔ قرآن مجید کی تلاوت کا شغف سب سے پہلے ختم ہوا اور بالآخر نمازوں کا سلسلہ بھی ٹوٹ گیا۔
جمعہ کے جمعہ نماز پڑھنا وہ اپنے لئے کافی سمجھنے لگا اس لئے کہ اس کے ساتھ رہنے اور کام کرنے والے کچھ لوگ صرف عیدین کی نمازوں پر اکتفاء کئے ہوئے تھے۔ ان کے پاس گپ شپ کے لئے، سیر و تفریح کے لئے، ٹی وی کے لئے، فلموں کے لئے، غرض کہ ہر شئے کے لئے وقت تھا لیکن نماز کے لئے نہیں تھا۔ جس وقت محمود خان اسے پاورش میں چھوڑ کر گیا تھا تو گویا وہ لمبے تختہ والے (سی سا) جھولے پر اوپر بیٹھا ہوا تھا۔ نیکیوں کی بلندی پر تھا اور دوسری جانب بدی زمین کو چھو رہی تھی لیکن آہستہ آہستہ توازن بدلنے لگا۔ یہاں تک کہ چھ ماہ بعد جب محمود یار خان نے ویزا اور ٹکٹ روانہ کیا تو غلام رسول خان جھولے کی دوسرے سرے پر تھا۔ بدی کا پلہ آسمان کو چھو رہا تھا اور نیکی زمین بوس تھی۔
غلام رسول کو اس کی مطلق پرواہ نہیں تھی وہ خوش تھا کہ گاڑی پر ہاتھ صاف ہو گیا ہے، لائسنس بن گیا ہے، پاسپورٹ تیار ہے، مالک اس پردوسرے ملازمین کی بہ نسبت زیادہ اعتماد کرتا ہے۔ اس نے تنخواہ میں بھی معمولی سا اضافہ کر دیا ہے۔ ان کامیابیوں پر نازاں و فرحاں غلام رسول خان شارجہ پہنچ گیا۔ محمود یار خان نے ائیر پورٹ پر اس سے ملاقات کی اور اپنے ڈیرے پر لے آیا۔ اس کے ڈیرے میں چار آدمی رہتے تھے ایک ٹیلی ویژن تھا جس میں ہندی فلم چل رہی تھی چاروں لوگ مزہ لے رہے تھے کہ اچانک عشاء کی اذان ہوئی۔ محمود یار خان اٹھا اور اس نے ٹیلی ویژن بند کر دیا۔ غلام رسول نے پوچھا یہ کیا کیا تم نے؟
محمود بولا تم نے سنا نہیں اذان ہوئی۔ کمرے میں موجود ایک آدمی حمام کی جانب چل پڑا اور وضو بنا نے لگا۔ غلام رسول کی طبیعت پر فلم کا منقطع ہونا گراں گزر رہا تھا۔ لیکن آگے بڑھ کر دوبارہ ٹیلی ویژن چلانے کی جرأت اس کے اندر نہیں تھی ایک ایک کر سب لوگ مسجد کی جانب روانہ ہو گئے۔ غلام رسول نے آگے بڑھ کر ٹیلی ویژن چلا دیا اور پھر فلم دیکھنے لگا پانچ منٹ بعد مسجد سے اقامت کی آواز آئی اور ایک دھماکے کے ساتھ روشنی چلی گئی۔ ٹیلی ویژن بند ہو گیا اس نے سوچا ارے یہ تو پاکستان والی بات ہے یہاں بھی بجلی جاتی ہے۔ اب کیا کرے فلم بند ہو چکی تھی کمرے میں اندھیرا تھا کوئی اور موجود نہیں تھا وہ سوچتا رہا اس اندھیرے میں کیا کرے اسے خیال آیا چلو نماز ہی پڑھ لیں وہ وضو کے لئے حمام میں داخل ہوا تو ہاتھ کو ہاتھ نہ سوجھتا تھا، کرے تو کیا کرے؟ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا اس نے سوچا چلو مسجد میں وضو کرتے ہیں وہاں جا کر وضو سے فارغ ہوا ور باہر نکلا تو لوگ مسجد سے واپس آ رہے تھے محمود یار خان نے اسے دیکھا تو سمجھا کہ وہ بھی نماز سے واپس آ رہا ہے۔ غلام رسول بولا یہ تو پاکستان والی بات ہو گئی۔
محمود یار خان نے کہا نہیں وہاں بجلی وقتاً فوقتاً جاتی رہتی ہے یہاں منصوبہ بند طریقہ پر بجلی بند کی جاتی ہے تاکہ مرمت وغیرہ کا کام کیا جا سکے۔ یہاں یہ حادثاتی معاملہ لگتا ہے کوئی ٹرانسفارمر وغیرہ جل گیا ہو گا، لیکن چند منٹوں میں بجلی بحال کر دی جائے گی۔ محمود کی بات حرف بحرف سچ ثابت ہوئی کمرے پر آنے تک بجلی آ چکی تھی محمود نے آگے بڑھ کر ٹیلی ویژن شروع کیا تو وہ بند ہی رہا۔
ارے اسے کیا ہو گیا؟ اس کمرے میں موجود بجلی کا کام کرنے والے خیر دین نے پوچھا۔
غلام رسول بولا شاید بجلی چلے جانے سے خراب ہو گیا ہو۔
خیر دین ہنسا اور بولا یار محمود تمہارا دوست تو بجلی کی ابجد بھی نہیں جانتا۔ بجلی کا آنا جانا تو انہیں آلات کو خراب کر سکتا ہے جو چل رہی ہوں کسی بند مشین پر بھلا وہ کیسے اثر انداز ہو سکتا ہے؟ بات معقول تھی لیکن ٹی وی بند کب تھا؟
محمود بولا ٹھیک ہے الکٹرکل انجنیئر صاحب لیکن پھر یہ ٹی وی کیوں بند ہو گیا؟ اذان کے وقت تک تو اچھا بھلا چل رہا تھا، میں نے خود اسے بند کیا تھا۔
ہاں تمہاری بات صحیح ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ ٹی وی بجلی کے آنے جانے سے خراب نہیں ہوا ہے اس کی وجہ کچھ اور ہے۔ خیر دین بولا
غلام رسول جانتا تھا کہ ٹی وی بجلی کے آنے جانے ہی سے خراب ہوا ہے۔ لیکن وہ اس بات کا اعتراف کرنا نہیں چاہتا تھا کہ ان کے جانے کے بعد اس نے ٹی وی چلا دیا تھا وہ اپنی حرکت پر نادم و شرمندہ تھا۔ اسے احساس ہو رہا تھا کہ وہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا اس کے ایمان کا ٹرانسفارمر نہ جانے کب کا بند ہو چکا ہے اوراس کا تقویٰ جل کر خاک ہو چکا ہے۔ خیر دین نے ٹی وی کو کھولا۔ اس کے اندر سے فیوز کو نکالا جو جل چکا تھا اور اس میں آدھے درہم کا نیا فیوز لگایا۔ ٹیلی ویژن پھر سے چل پڑا فلم جاری ہو گئی سب کچھ پہلے جیسا ہو گیا۔ غلام رسول کے اندرون کا فیوز کسی کے پاس نہیں تھا اسے تو صرف وہی بدل سکتا ہے بشرطیکہ دلچسپی ہوتی لیکن اس کے آثار نہیں تھے۔ اس نے پردے پر چلنے والی فلم کے اندر اپنی زندگی کی حقیقت کو بھلا دیا تھا۔
دو دن بعد محمود اسے ٹرافک کے محکمے میں لے گیا اور بہت جلد وہ لائسنس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اب سوال گاڑی کا تھا۔ ایک پٹھان چھٹی پر جا رہا تھا غلام رسول کو اس کی ٹیکسی دو مہینے کے لئے مل گئی۔ یہ اس کے لئے یہ نعمتِ غیر مترقبہ تھی اس کے واپس آنے تک دو مہینہ کے عرصہ میں دوسری ٹیکسی تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ اس دوران اسے ایک گاؤں والے نے بتایا کی شارجہ کی چھوٹی ٹیکسی کے بجائے ابو ظنی دبئی کے بیچ بڑی دس سیٹوں والی ٹیکسی چلائے اس میں مشکل بھی کم ہے اور آمدنی بھی زیادہ۔ اس نے اس موقع کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور شارجہ سے ابو ظبی آ گیا۔
کاروبار چل پڑا اور دن دونی رات چوگنی ترقی کرنے لگا۔ وہ پابندی سے رقم گاؤں بھیجنے لگا دوسری بہن کی شادی بھی طے ہو گئی۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، وہ بہت خوش تھا کہ اس کی محنت سے گھر کی معاشی حالت سدھر گئی تھی، گھر والے اس کے لئے بھی لڑکی تلاش کرنے لگے تھے کہ اس نے اپنے والدین کے لئے حج کا ٹکٹ بھیج دیا اور خود ابو ظبی سے مکہ جانے کی تیاری کرنے لگا لیکن اس کی محرومیت کہ یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی فلائٹ سے ایک ہفتہ قبل والد صاحب کا انتقال ہو گیا والدہ عدت میں بیٹھ گئیں سارا منصوبہ دھر اکا دھرا رہ گیا وہ مکہ جانے کے بجائے گاؤں چلا گیا اور تینوں میں سے کسی نے حج نہیں کیا۔ خیر گھر پر دو ہفتوں کی چھٹی گذار کر وہ واپس آ گیا اور سب بھول بھال کر اپنے کام میں لگ گیا بالکل کولہو کے بیل کی طرح صبح صبح ٹیکسی لے کر بس اڈے پہنچ جاتا اور واپسی میں حکومت کی جانب سے لگائی گئی پابندی کے باوجود سواریاں بھر کر لے آتا۔ دن میں کئی چکر ہوتے اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی۔ ایک دن کمرے میں اس کے ساتھ والے ایک ڈرائیور نے اسے آگاہ کیا دیکھ غلام رسول تو احتیاط کیا کر آج کل تین ہزار درہم جرمانہ ہے۔
وہ بولا میں نہیں ڈرتا۔
دوست نے متنبہ کیا ایک مرتبہ جیل جائے گا تو تیری عقل درست ہو جائے گی۔
بات بڑھ گئی اور دونوں میں لڑائی ہو گئی۔ کمرے کے سارے لوگ غلام رسول کے مخالف ہو گئے اوراسے نکال باہر کیا گیا۔ وہ غصہ میں اپنا سامان لے کر نکل آیا لیکن اب جائے تو کہاں جائے؟ دو گھنٹہ بلاوجہ ابو ظبی کی سڑک ناپنے کے بعد بالآخر نیند سے بوجھل ہو کر گاڑی ہی میں سو گیا۔ صبح کی نماز کے ساتھ آنکھ کھلی اب نئی مصیبت تھی کہ ضروریات سے فارغ ہونے کے لئے کہاں جایا جائے؟ گھر تو تھا نہیں پھر اذان کا خیال مسجد لے گیا وہاں استنجاء وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد اس نے وضو کیا۔
نماز کے لئے خاصہ وقت تھا سوچا کیوں نہ اس بیچ گاڑی کو بھی غسل دے دیا جائے بعد میں وضو خانہ بند ہو جائے گا اور دن کے وقت یہ ممکن نہ ہو گا اس لئے گاڑی دھونے لگا یہ کام ادھورا ہی تھا کہ اقامت کی آواز آئی اس نے سوچا کہ اسے پورا کر لوں پھر نماز میں شامل ہو جاؤں گا لیکن کام ختم ہونے سے قبل نماز ختم ہو گئی لوگ واپس آنے لگے اسے ڈر لگا کوئی ڈانٹ نہ دے اپنا کام ادھورا چھوڑ کر وہ ناشتہ کر کے بس اڈے پہنچ گیا۔
اس روز گاڑی بہت جلد سواریوں سے بھر گئی اور پھر دو گھنٹہ بعد وہ دبئی سے مسافر اٹھا رہا تھا۔ یہ اس کے لئے نیا تجربہ تھا۔ وہ سوچ رہا تھا اگر اپنے پاس گاڑی ہو تو انسان کسی اور کے گھر میں کیوں رہے؟ اپنی گاڑی اپنا گھر دیگر ضروریات کے لئے مسجد کا حمام۔ کسی دن نہانے کا جی چاہتا تو اذان کے فوراً بعد نہا لیتا اس وقت وضو گاہ بالکل خالی ہوتی تھی۔ جمعہ کے دن ویسے ہی آسانی ہوتی لوگ ویک اینڈ کے باعث فجر کی نماز میں کم آتے اور آتے بھی تو آخر میں۔ اس کا فائدہ اٹھا کر وہ خوب اچھی طرح نہا لیتا۔ زندگی ایک نئے انداز میں چل پڑی تھی مسجد کی سہولیات کو استعمال کرنے کا ابتدائی احساس جرم وقت کے ساتھ کافور ہو گیا تھا۔ کچھ نمازیوں کو وہ کھٹکنے لگا تھا مگر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔
ایک روزاس کا ستارہ اچانک گردش میں آ گیا وہ دبئی بس اڈے سے سواریاں اٹھا رہا تھا کہ پولس کا چھاپا پڑا، اور اس سے پہلے کہ فرار ہوتا دھر لیا گیا۔ پولس نے تین ہزار درہم کے جرمانے کی رسید بنا کر اس کے ہاتھ میں تھما دی۔ تین ہزار درہم پورے مہینے کی کمائی ایک جھٹکے میں نکل گئی۔ ان تین ہزار کے لئے اس نے کیا کیا جتن کئے تھے گاڑی میں سونا، دن بھر شدید گرمی میں سڑکوں کی دھول چاٹنا۔ نہ آرام نہ چین اور سب کچھ ایک منٹ میں نکل گیا۔ اسے بہت غصہ آیا لیکن مجبور تھا۔ اپنے کمرے کے ساتھی کی طرح پولس حوالدار سے نہیں لڑ سکتا تھا اس لئے کہ ایسا کرنے کی صورت میں گھر جانے کی بجائے ملک بدر ہونے کی نوبت آ سکتی تھی۔ وہ غصہ کا گھونٹ پی کر خاموش ہو گیا۔
دوسرے دن خدا کا کرنا ایسا کہ وہ مسجد کے وضو خانے سے گاڑی دھو رہا تھا کہ ایک آدمی اس پر برس پڑا وہ بولا یہ کیا مذاق ہے میں تمہیں گزشتہ کئی دنوں سے دیکھتا ہوں تم مسجد کے حمام میں منہ ہاتھ دھوتے ہو گاڑی بھی دھوتے ہو اور نماز تک کو نہیں آتے تمہیں شرم آنی چاہئے۔
اس پر بھی اسے صبر کرنا پڑا اس لئے کہ الجھنے کے نتیجہ میں بات آگے بڑھ سکتی تھی دیگر لوگوں کو بھی پتہ چل سکتا تھا۔ وہ دل مسوس کر رہ گیا اور اس کو دل ہی دل میں برا بھلا کہنے لگا۔ وہ اپنے آپ سے کہہ رہا تھا۰۰۰ان کو ہم ہی ملتے ہیں، غریب لوگ، ان پولیس والوں کو کوئی نہیں بولتا جو دن دہاڑے ہماری جیب کاٹ لیتے ہیں۔ ۰۰۰۰۰۰ ہماری محنت کی کمائی لوٹ لیتے ہیں۔ ۰۰۰۰۰۰ مسجد کی سہولت استعمال کی ہے تو کیا؟ مسجد ان کے باپ کی ہے؟ ۰۰۰۰یہ تو اللہ کا گھر ہے؟ کیا خدا میرا نہیں ہے؟ صرف انہیں کا ہے؟ ۰۰۰۰۰۰۰میں نے اس کی جو بھی چیز استعمال کی ہے اس کا حساب میں دوں گا، یہ کون ہوتے ہیں مجھ سے پوچھنے والے؟ ۰۰۰۰۰۰۰یہ کیا جانیں میری مجبوریاں کیا ہیں؟ ۰۰۰۰۰۰۰۰میرا باپ مر گیا، مجھے گھر سے بے گھر کر دیا گیا، میری محنت کی کمائی مجھ سے چھن گئی۔ ۰۰۰۰۰۰۰ اس وقت یہ سارے ناصح کہاں مر گئے تھے؟ ۰۰۰۰۰۰۰کسی نے جھوٹے منہ بھی نہیں پوچھا کہ کیا تم نے کھانا کھایا؟ چائے پی؟ اور کیسے گذارا کرو گے؟ گھر کیا بھیجو گے؟
وہ علیٰ طول ان منفی خطوط پر سوچتا رہا اور اس شخص کو کوستا رہا جس نے اسے سارے لوگوں کے سامنے رسوا کیا تھا۔ اس کے اندر نفرت کے شعلے اٹھ رہے تھے۔ وہ سیدھے گاڑی لے کر بس اڈہ پہنچ گیا۔ اس روز عجیب صورتحال تھی۔ اس کے بعد والی گاڑیاں سواریوں کے ساتھ روانہ ہو چکی تھیں لیکن اس کی گاڑی تھی کہ بھرنے کا نام نہ لیتی تھی۔ دیکھتے دیکھتے بیٹھی ہوئی اکّا دکّا سواریاں اس کی گاڑی سے اترتیں اور دوسروں کی ٹیکسی میں سوار ہو جاتیں اور وہ دیکھتا رہ جاتا۔ اب وہ اس شخص کے بجائے اپنی قسمت کو کوسنے لگا کہ ایک سواری آ کر اس کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ اس مسافر نے نماز فجر کے بعد اسے مسجد کے باہر دیکھ رکھا تھا۔ اس نے بڑی حلاوت سے پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟
غلام رسول!
بڑا اچھا نام ہے۔ بھلا رسول سے اچھی غلامی اور کس کی ہو سکتی ہے؟
اس نے تائید میں صرف اپنے سر کو جنبش دینے پر اکتفا کیا۔
مسافر نے کہا بھئی واہ تم فجر کے بعد دبئی جا کر بڑی جلدی واپس آ گئے۔
غلام رسول نے جواب دیا جی نہیں ایسی بات نہیں میں صبح سے یہیں کھڑا ہوا ہوں آج نہ جانے کیا بات ہے؟
مسافر بولا دیکھو غلام رسول نماز کیلئے صرف پانچ منٹ لگتے ہیں۔ تم نے پانچ منٹ بچائے اور گزشتہ ایک گھنٹہ پچاس منٹ سے یہاں کھڑے ہوئے ہو۔ اس شخص کے لب و لہجہ میں بلا کا درد تھا وہ کہہ رہا تھا اچھا ہوتا جوتم نماز پڑھ لیتے۔ تم نے مسجد کے حمام سے نہایت معمولی فائدہ حاصل کیا اپنے جسم اور اپنی روزی کو پاک کرنے کا فائدہ! لیکن تمہاری روح کی پاکی کا انتظام بھی مسجد میں موجود تھا تم نے اپنے آپ کو اس سے محروم رکھا۔ اس آدمی کا ایک ایک لفظ دل میں اتر رہا تھا۔ اس نے بے حد دلسوزی کے ساتھ غلام رسول کواس کی محرومیت کا احساس دلا دیا۔
غلام رسول اس کا شکریہ ادا کر کے بولا وہ سامنے والی ٹیکسی تقریباً بھر چکی ہے۔ آپ اس میں جا کر بیٹھ جائیں۔ اب وہ اپنی ٹیکسی کے ساتھ مسجد کی جانب لوٹ رہا تھا۔ اس مسجد کی طرف جس کے پاس تو وہ ہر روز جاتا تھا لیکن اندر قدم رکھنے سے رک جاتا تھا۔ لیکن آج مسجد اس کے اندر اتر گئی تھی اس کے قلب کا دروازہ اللہ کے گھر کیلئے کھل گیا تھا۔ غلام رسول کی نظر سامنے سڑک پر تھی۔ سگنل کا رنگ سبزسے نارنگی ہو چکا تھا چونکہ غلام رسول بالکل قریب تھا اس نے سوچا کیوں نہ رفتار بڑھا کر اس کے سرخ ہونے سے قبل نکل جائے۔ اس پر نہ جانے کون سی جلدی سوار ہو گئی جو اس نے گاڑی کی رفتار بڑھائی اور پھر ایک زوردار دھماکے کے ساتھ سب کچھ تھم گیا۔ زمین، آسمان، چاند، تارے سارے کے سارے منجمد ہو گئے۔
غلام رسول کی سمجھ میں پہلے تو کچھ بھی نہیں آیا لیکن جب اس نے اپنے حواس مجتمع کئے تو اس کے اس کے آس پاس ایک ہجوم جمع تھا۔ اس کی اپنی گاڑی بری طرح ٹوٹ چکی تھی مگر اس کے کندھے اور ہاتھوں پر معمولی خراشوں کے علاوہ کوئی اور زخم نہیں تھا۔ اس کے سامنے ایک اور گاڑی تھی جس کو درمیان میں غلام رسول نے ٹکر ماری تھی۔ اس کے اندر ایک نوجوان موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا تھا۔ اس کا خون گاڑی سے نیچے سڑک پر پھیل رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ غلام رسول اپنے آپ کو سنبھالتا پولس آ گئی اور اسے حراست میں لے لیا گیا۔ اب زخمی نوجوان ایمبولنس کے اندر ہسپتال اور غلام رسول پولس تھانے کی جانب رواں دواں تھا۔
غلام رسول کی آنکھوں کے سامنے سے خون کے دھبے ہٹے تو اندھیر چھا گیا۔ اسے تو بس یہ یاد تھا کہ ابھی اشارہ لال نہیں ہوا تھا پھر یہ خون کی سرخی کہاں سے آ گئی؟ وہ نوجوان کس سمت سے اور کیسے آیا اور پھر کیا ہو گیا؟ ان سوالات کا کوئی جواب غلام رسول کے پاس نہیں تھا لیکن یہ سولات اہم نہیں تھے بلکہ اب کیا ہو گا؟ یہ سب سے اہم سوال تھا جس نے غلام رسول کو اپنے خونی پنجے میں جکڑ لیا؟ وہ نوجوان جو بھی تھا؟ جہاں سے بھی آیا تھا؟ لیکن اب اس زخمی کا کیا ہو گا؟
اس کے کانوں میں لوگوں کی سرگوشیاں زندہ ہو گئیں!
یہ تو مرگیا! یہ نہیں بچ سکتا!
اس پٹھان نے اس نوجوان کو مار ڈالا!
بلا وجہ ایک نوجوان موت کی آغوش میں چلا گیا!
لیکن یہ پٹھان بھی نہیں بچے گا!
اس نے ایک وطنی کو مارا ہے! اسے تو مرنا ہی پڑے گا!
اسے تو مرنا ہی پڑے گا! یہ پھانسی چڑھے گا!
پھانسی! پھانسی! ! پھانسی! ! ! پھانسی! ! ! !
پولس تھانے سے متصل کوٹھری میں بیٹھا غلام رسول سوچ رہا تھا۔ اگر یہ حادثہ مسجد سے واپسی میں بھی رونما ہوا ہوتا تب بھی ٹھیک تھا۔ وہ اپنا بے داغ دامن لے کر رب کائنات سے کہتا کہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ میں نے قانون کی پاسداری کی ہے۔ سگنل ابھی سرخ نہیں ہوا تھا۔ وہ نوجوان خود اپنی ہلاکت کیلئے ذمہ دار ہے۔ میں اس کا قاتل نہیں ہوں۔ قصوروار میں نہیں بلکہ وہ نوجوان ہے اور وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے نادانستہ مجھے پھانسی چڑھا دیا۔ اس لئے کہ میرے پاس کوئی گواہ نہیں تھا لیکن تو گواہ ہے کہ میری کوئی غلطی نہیں ہے۔ میں بے قصور ہوں۔ لیکن اپنے گناہوں کے بوجھ سے لدا پھندا غلام رسول کس منھ سے اپنی فریاد رکھے گا اور وہ اس کے کس کام آئے گی۔ اب تو موت اس کے سامنے ہے اور توبہ و استغفار کا دروازہ بھی بند ہو چکا ہے۔
کوٹھری کا دروازہ کھلا اسی کے ساتھ غلام رسول کی سوچ کا تار ٹوٹ گیا اور ایک آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ چلو تمھارا بیان لکھنا ہے۔
غلام رسول نے اپنے سامنے کھڑے پولس افسر سے سوال کیا۔ اس نوجوان کا کیا حال ہے؟
افسر بولاکسی بھی وقت اس کے موت کی خبر آ سکتی ہے؟
کیا وہ اپنا بیان لکھوا چکا ہے؟
جی نہیں۔ وہ تو ہوش میں آیا ہی نہیں تو بیان کیسے درج کراتا۔
غلام رسول بولا تب پھر میرے بیان کا کیا فائدہ؟
میں سمجھا نہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔
غلام رسول نے پوچھا لیکن اس کے بعد پھر کیا ہو گا؟
ہم تمھیں عدالت میں پیش کر دیں گے۔
غلام رسول نے ایک اور سوال کیا اور پھر اس کے بعد؟
پولس افسر چڑ کر بولا اس کے بعد مجھے کیا معلوم۔ قاضی جو چاہے گا فیصلہ کرے گا۔ ہمارا کام تو بس احکامات کی تعمیل ہے۔
غلام رسول بولا لیکن مجھے معلوم ہے۔ قاضی سزائے موت سنا دے گا اور تم اس پر عمل در آمد کرو گے۔
پولس بولا یہ سب میں نہیں جانتا تم جلدی جلدی بتاؤ کہ کیا ہوا؟
غلام رسول بولا صاحب آپ کیوں اپنا اور عدالت کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ مجھے پھانسی دے دیجئے اور قصہ تمام کیجئے۔
پولس افسر کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ ایک عجیب و غریب ملزم سے اس کا پالا پڑا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس آدمی کا دماغی توازن بگڑا ہوا ہے۔ اسی لئے وہ نوجوان اسے نظر نہیں آیا اور بے موت مارا گیا لیکن اگر یہ پا گل ہے تو اسے سزا کیسے ہو سکتی ہے؟ اور اگر اسے نہیں تو سزاکسے ہو گی؟ کیونکہ ایک نوجوان کو ہلاک کرنے کی سزا کسی نہ کسی کو تو ہونی ہی تھی؟
پولس افسر کے خیالات کا تانتا ایک بلند آواز سلام نے توڑ دیا۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو ایک بزرگ شیخ اپنے بیٹے کے ساتھ اس کے سامنے کھڑے تھے۔ پولس افسر فوراً اپنی کرسی سے کھڑا ہو گیا۔ اس نے خاص اماراتی انداز میں ناک سے ناک ملا کر شیخ کا استقبال کیا اور مصافحہ کرنے کے بعد بیٹھنے کی گزارش کی۔ ایک کونے میں بیٹھا غلام رسول یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ اس نے سوچا ہو نہ ہو یہ اس نوجوان کا باپ اور بھائی ہے۔ اگر انہیں پتہ چل جائے کہ وہی ان کے بیٹے کا قاتل ہے تو مبادا ابھی اسی وقت اس کا قتل ہو جائے لیکن پھر اسے خیال آیا یہ برصغیر نہیں امارات ہے۔ یہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ اس لئے کوئی شہری اس کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔
پولس افسر نے بزرگ شیخ سے پوچھا کہیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟
شیخ نے غلام رسول کی جانب اشارہ کر کے کہا ہم لوگ اس کی گواہی دینے کیلئے حاضر ہوئے ہیں۔
غلام رسول نے سوچا یہ لو عدالت کا کام یہیں تمام ہو گیا۔ اب تو بن بلائے گواہ خود چل کر پولس تھانے پہنچ گئے۔
پولس افسر نے پوچھا کیا آپ اسے جانتے ہیں؟
شیخ بولے جی نہیں۔ نہ اس کو اور نہ زخمی ہونے والے نوجوان کو، ہم ان میں سے کسی کو نہیں جانتے لیکن جس وقت یہ حادثہ وقوع پذیر ہوا ہم لوگ وہاں موجود تھے اس لئے اب یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ جو کچھ دیکھا ہے اسے بے کم و کاست آپ سے بیان کر دیں۔
پولس افسر بولا ویسے تو ہم نے ابھی تک اس کا بیان بھی درج نہیں کیا لیکن خیر آپ بتائیے کہ آپ نے کیا دیکھا؟
بزرگ نے نوجوان کی جانب استفہامیہ انداز میں دیکھا۔ نوجوان بولا میرا نام فیصل تمیمی ہے۔ جس وقت یہ مدینہ زائد کے اشارے پر پہنچا میری گاڑی اس کے برابر میں تھی۔ سگنل کا رنگ سبز سے نارنگی ہو گیا تھا میں نے سوچا کہ سرخ ہونے سے قبل نکل جاؤں لیکن اس سے پہلے کہ میں رفتار بڑھاتا میرے والد نے مجھے منع کر دیا اور میں نے اپنا پیر بریک پر رکھ دیا مگر یہ اپنی گاڑی بڑھاتا چلا گیا اور پھر ہم نے دیکھا کہ وہ نوجوان اچانک دوسری جانب سے اشارہ توڑتا ہوا نمودار ہو گیا۔ اگر میں نے اپنی گاڑی نہیں روکی ہوتی تو وہ اس کے بجائے میری گاڑی سے ٹکرا جاتا اور اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ ہو سکتا وہ خود زخمی ہو جاتا یا ہم میں سے ایک یا دونوں اس دنیا سے سدھار جاتے اس لئے کہ اس کی رفتار بہت زیادہ تھی۔
پولس افسر نے پوچھا کیاجس وقت یہ حادثہ ہوا اشارے کا رنگ سرخ نہیں ہوا تھا؟
بزرگ نے کہا جی نہیں۔ اگر وہ گاڑی اچانک نہیں آتی تو یہ بڑے آرام سے نکل سکتا تھا لیکن میں نے احتیاط کے طور پر اپنے بیٹے کو منع کیا۔
پولس افسر نے پوچھا کیا آپ اور کوئی بات کہنا چاہتے ہیں؟
بزرگ بولے جی نہیں۔
افسر نے ٹیپ ریکارڈر بند کر کے محرر کے حوالے کیا۔ جب تک کہ وہ اسے ٹائپ کر کے لاتا وہ لوگ قہوہ اور کھجور سے شغل کرتے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے بیان پر دستخط ثبت کئے۔ اپنا پتہ اور شناختی کارڈ کا نمبر لکھ کر روانہ ہو گئے۔ غلام رسول کا جی چاہا کہ ان کا منھ چوم لے مگر اس کو ایسا محسوس ہوا گویا اس کے پیروں میں زنجیر پڑی ہوئی ہے۔ ان لوگوں کے نکل جانے کے بعد غلام رسول نے بھی اسی بیان کو دوہرا دیا اور جیل میں فیصلے کا انتظار کرنے لگا۔ اس کے اندر زندگی کی رمق پیدا ہو چکی تھی۔ غلام رسول اس نوجوان کیلئے دعا کر رہا تھا۔ غلام رسول کو ایک سرکاری وکیل فراہم کر دیا گیا تھا جس نے اس سے ساری معلومات حاصل کر لی تھیں۔ ایک ہفتہ کے اندر عدالت سے غلام رسول کی رہائی ہو گئی اس لئے کہ عدالت میں مدعی کی جانب سے کوئی پیش ہی نہیں ہوا۔ رہائی کے بعد غلام رسول نے وکیل کا شکریہ ادا کیا اور پوچھا اس نوجوان کا کیا حال ہے؟
وکیل بولا اس کا تو دو روز قبل انتقال ہو گیا۔
اس خبر نے غلام رسول کو سوگوار کر دیا۔ اس نے وکیل سے پوچھا کیا وہ اس نوجوان کے اہل خانہ سے ملاقات کر سکتا ہے؟
وکیل نے پوچھا تم اس جھنجھٹ میں کیوں پڑنا چاہتے ہو جاؤ اپنی خیر مناؤ۔
غلام رسول بولا میں ان سے مل کر تعزیت کرنا چاہتا ہوں۔ اس لئے کہ آخر وہ میرے ہاتھوں حادثہ کا شکار ہوا تھا۔
وکیل بولا اگر تمھارا اصرار ہے تو میں ان سے معلوم کرتا ہوں۔ اگر وہ لوگ تیار ہوں گے تو تم ان سے مل سکتے ہو۔
غلام رسول بولا آپ وقت اور پتہ بھی پوچھ لیں تو مہربانی۔
وکیل نے بتایا کہ ابھی ان کے گھر پر زیارت کی نشست ہے مہمان آ جا رہے ہیں۔ تم بھی چاہو تو جا کر ملاقات کر سکتے ہو۔
غلام رسول نے پوچھا لیکن ان کا گھر کہاں ہے؟
وکیل نے کہا قریب ہے میں ان کے گھر پر تمھیں چھوڑ سکتا ہوں۔
غلام رسول نے کہا مہربانی۔
اب وکیل کو بھی دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ اسے حیرت تھی کہ ان لوگوں نے عدالت میں پیروی کیوں نہیں کی۔ ایک مضبوط وکیل کھڑا کر کے غلام رسول کیلئے مشکلات پیدا کر سکتے تھے۔ وکیل مہلوک کے لواحقین سے مل کر اس کی وجہ معلوم کرنا چاہتا تھا۔ اس نے غلام رسول سے کہا اگر تم ان کو یہ نہ بتانے کا وعدہ کرو کہ میں تمھارا وکیل تھا تو میں بھی تمھارے ساتھ اندر چل سکتا ہوں۔ ان کی گاڑی ایک محل نما کوٹھی ’’قصر القبیسی‘‘کے سامنے کھڑی تھی۔ غلام رسول نے سر ہلا کر تائید کی اور وکیل نے اندر گاڑی لگا دی۔ وکیل کے ساتھ غلام رسول بھی دیوان خانے میں پہنچ گیا جہاں شیخ القبیسی چند مہمانوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ وکیل نے بڑی مکاری سے اپنے بجائے غلام رسول کا تعارف کروایا۔ شیخ نے غلام رسول کو دیکھا تو ان کی آنکھوں میں اپنے بیٹے سیف کی لاش کا منظر آ گیا۔
غلام رسول بولا میں آپ کے غم میں شریک ہوں۔ اس کی آنکھیں پر نم تھیں۔ وہ بولا میں نے واقعی ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
شیخ درمیان میں بول پڑے۔ مجھے سب پتہ ہے۔ شیخ تمیمی سے میں بات کر چکا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ تمھیں چوٹ نہیں آئی۔
غلام رسول بولا مجھے افسوس ہے کہ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
شیخ القبیسی بولے مشیت کے فیصلوں کو کون ٹال سکتا ہے؟ میں سیف کو سمجھاتا تھا کہ گاڑی اس طرح نہ چلایا کرو۔ کاش کہ میں اس روز اس کے ساتھ ہوتا۔
غلام رسول یہ جواب سن کر چونک پڑا اور اپنے آپ کو سنبھال کر بولا جی ہاں اور سیف اس بے وقت کی موت سے بچ جاتا۔
شیخ القبیسی نے کہا جی نہیں اس کی موت کا وقت کوئی بھی بدل نہیں سکتا تھا۔ نہ تم اور نہ میں لیکن ممکن ہے وہ حادثہ ٹل جاتا لیکن شاید وہ حادثہ بھی اٹل تھا۔ تمھاری ٹیکسی کا کیا حال ہے؟ سنا ہے وہ بھی تباہ ہو چکی ہے؟
غلام رسول بولا جی ہاں میں نے بھی یہی سنا ہے۔ جب اس نے اجازت لی تو شیخ القبیسی نے اپنے بیٹے سالم سے کہا کہ وہ غلام رسول کا فون نمبر نوٹ کر لے۔
محل سے باہر نکلنے کے بعد وکیل نے پوچھا اب کہاں جاؤ گے۔ غلام رسول نے کچھ سوچ کر اسی مسجد کا پتہ بتا دیا جس کی جانب جاتے ہوئے وہ حادثہ کا شکار ہو گیا تھا۔
ظہر کی نماز میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے مسجد کا وضو خانہ مقفل تھا۔ وہ قریب کے ہوٹل میں واش بیسن کے پاس گیا مگر وہاں لکھا تھا پیر دھونا منع ہے۔ غلام رسول نے سوچا اگر وہ وضو کرے گا تو کہیں بیرا نہ ڈانٹ دے اس لئے گلے پر بیٹھے شخص سے پوچھا کیا میں وضو کر سکتا ہوں!
اس شخص نے منہ بگاڑ کر کہا وضو! یہ کون سی نماز کا وقت ہے!
غلام رسول کو غصہ آ گیا، وہ بگڑ کر بولا میں جنازے کی نماز پڑھنا چاہتا ہوں۔ جس کا کوئی وقت نہیں ہوتا۔
جنازہ کس کا جنازہ!
میرا اپنا جنازہ میں کئی سال پہلے پاورش میں مرگیا تھا اور پھر اپنی لاش کندھوں پر لئے شارجہ اور پھر ابو ظنی آ گیا۔ میں تھک گیا ہوں اسے ڈھوتے ڈھوتے اب میں اسے دفن کر دینا چاہتا ہوں ہمیشہ ہمیش کے لئے۔
ہوٹل والے کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ اس نے کہا کر لو لیکن پانی ادھر ادھر نہ گرانا۔
غلام رسول شکریہ ادا کر کے وضو کرنے لگا لیکن مسجد میں آیا تو وہاں بھی قفل پڑا ہوا تھا۔ وہ صحن میں نماز کے لئے کھڑا ہو گیا اور نیت باندھ لی۔ وہ خود نہیں جانتا تھا کہ کون سی نماز پڑھ رہا ہے۔ سلام پھیرنے کے بعد وہ توبہ و استغفار میں مشغول ہو گیا۔ دنیا ما فیہا سے بے خبر ہو کر دیر تک تسبیح تحلیل میں لگا رہا یہاں تک کہ اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ سو گیا تو خواب میں اپنے والد صاحب کے سامنے کھڑا پایا۔ سفید لباس وہی پر نور چہرہ جسے دوسال پہلے وہ اپنے گاؤں میں چھوڑ آیا تھا اور پھر مٹی بھی اسے نصیب نہیں ہو سکی تھی۔ اس کے گھر پہنچنے تک ان کی تدفین ہو چکی تھی
وہی ہنستا مسکراتا چہرہ اس کے سامنے کھڑا تھا وہ کہہ رہے تھے بیٹے کیسے ہو! ۰۰۰۰۰۰۰۰مست ہو اپنی دنیا میں! اسی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے تم نے! ۰۰۰۰۰۰۰۰اور ایسا کرنے کے باوجود تم نے کیا حاصل کر لیا! کیا حاصل کر لیا تم نے دنیا میں! ۰۰۰۰۰۰۰۰وہ شرمندہ سرجھکائے کھڑا تھا والد صاحب بولے دیکھو بیٹے اس دنیا سے بہت بڑے بڑے فائدے حاصل کئے جا سکتے تھے لیکن تم تو بہت کم پر راضی ہو گئے تم تو اس کے ذریعہ ابدی جنت اور وہاں کی بیش بہا نعمتیں حاصل کر سکتے تھے لیکن تم نے اسی دنیا کو جنت بنانے کے چکر میں پڑ گئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا تمہارے لئے جہنم زار بن گئی۰۰۰۰۰سوچو کیا تم اسی لئے ابو ظبی آئے تھے! ۰۰۰۰۰۰۰کیا اس دنیا میں تمہارے آنے کا یہی مقصد تھا! جس کے پیچھے تم بگ ٹٹ دوڑے چلے جا رہے ہو۔
یہ کہہ کر والد صاحب اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئے، لیکن اس کی آنکھیں کھل چکی تھیں۔ اس نے پھر ایک بار استغفارکیا، سچی توبہ اور پکا ارادہ کیا کہ اب کسی حال میں نہ خدا سے غافل ہو گا اور نہ اپنے آپ سے غفلت برتے گا، اپنی نمازوں کی محافظت کرے گا۔ غلام رسول پلٹ کر اپنی پرانی زندگی کی جانب نہیں جانا چاہتا تھا لیکن اس کی سمجھ میں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ اس بیچ اس کے فون کی گھنٹی بجی یہ کسی اجنبی کا نمبر تھا۔ غلام رسول نے سلام کر کے پوچھا کون صاحب؟
سامنے سے عربی میں جواب ملا میں سالم القبیسی بول رہا ہوں۔ میرے والد نے پوچھا ہے کہ اب تم کیا کرو گے؟
غلام رسول بولا میں اب وہ دبئی اور ابو ظبی کے درمیان ٹیکسی نہیں چلانا چاہتا۔
سالم نے کہا تو کیا تم واپس جانا چاہتے ہو؟
غلام رسول بولا جی نہیں ایسا نہیں ہے۔
سالم نے کہا میں نے یہ نہیں پوچھا کہ تم کیا کرنا نہیں چاہتے ہو۔ کیا تم شہر کے اندر ٹیکسی چلانا چاہتے ہو؟
غلام رسول نے کہا جی ہاں۔ وہی بہتر ہے میں پہلے شارجہ میں یہ کام کر چکا ہوں اب ابو ظبی میں کروں گا۔
سالم بولا ٹھیک ہے میں تم کو سلمان خطیب کا نمبر بھیجوں گا تم اس سے مل لینا۔
سلمان خطیب کی کئی ٹیکسیاں تھیں جنھیں پٹھان ڈرائیور شہر میں چلایا کرتے تھے۔ سالم القبیسی کی ضمانت پر اس نے ایک ٹیکسی غلام رسول کو بھی دے دی۔ اور اس طرح وہ ابو ظنی شہر کے اندر ٹیکسی چلانے لگا اب اس کا معمول یہ تھا کہ اذان کے بعد وہ کوئی سواری نہیں لیتا۔ فجر کے بعد گاڑی لے کر نکلتا دوپہر میں کھانا کھانے کیلئے اپنے گھر میں پہنچ جاتا پہلے نماز پھر کھانا، شام کو عصر کی نماز کے بعد دوسرے شریک کار کو ٹیکسی دے دیتا اور پھر مغرب تک کھانا بناتا، مغرب کے بعد کھانا کھاتا اور چہل قدمی کر کے عشاء کے بعد سوجاتا اور صبح تہجد کیلئے اٹھ کر فجر تک تلاوت اور فجر کے بعد گاڑی لے کر چل پڑتا اس کے کاروبار میں برکت تھی اور وہ نہایت پرسکون زندگی گزار نے لگا تھا۔
غلام رسول ظہر، مغرب اور عشاء کی سنتیں امام کی جگہ کھڑے ہو کر پڑھتا تھا! وہ اکثر مسجد میں سب سے پہلے آنے والوں میں ہوتا۔ امام کے پیچھے نماز پڑھتا اسے مسجد سے واپس جانے کی کوئی جلدی نہیں ہوتی اس لئے وہ اطمینان سے تسبیح و تحلیل میں مصروف رہتا اور امام صاحب کے نکل جانے کا انتظار کرتا۔ ان کے جانے کے بعد میں انہیں کے مصلیٰ پر اپنی باقی نمازیں پوری کرتا تو اسے اچھا لگتا تھا۔
ایک روز ایسا ہوا کہ نماز مغرب میں امام صاحب کسی وجہ سے نہیں آئے۔ نماز کے لئے چند لمحے انتظار کیا گیا پھر ایک آدمی نے اٹھ کر اقامت کہنا شروع کر دی۔ اقامت کے ختم ہو جانے کے بعد وہ پیچھے آ گیا اور سب لوگ ایک دوسرے کو آگے بڑھنے کے لئے کہتے رہے یہاں تک کہ لوگوں نے اسے آگے بڑھا دیا وہ ہر روز سنتیں اس محراب میں پڑھتا تھا جس میں ابھی فرض ادا کرنے کے لئے کھڑا تھا لیکن دیگر ایام میں اور اس دن میں ایک خاص فرق تھا۔ ہر روز انفرادی نماز ادا ہوتی تھی آج وہ نمازِ جماعت کے لئے کھڑا تھا ہر روز وہ صرف اپنی نماز پڑھتا تھا اس روز وہ نماز پڑھا رہا تھا۔
اس کی نگاہ سامنے لگے شیشے پر پڑی تو اس میں اسے اپنا عکس نظر آیا۔ اس نے دائیں جانب دیکھا یہاں بھی وہی عکس تھا اس نے نظروں کو گھما کر بائیں طرف نگاہ ڈالی تو وہاں بھی وہی کچھ نظر آیا وہ گھبرا گیا وہ چاروں طرف سے اپنے آپ کو دیکھ رہا تھا وہ اپنے آپ سے ڈر رہا تھا۔ اس نے تکبیر تحریمہ کے بعد ہاتھ باندھ لئے اور پھر اس کے بعد سامنے دیکھا اسے لگا یہ وہ نہیں ہے۔ یہ اس کے والد صاحب ہیں امام صاحب، وہ اپنے بجائے امام صاحب کا عکس دیکھ رہا تھا وہ گویا اس کے سامنے کھڑے تھے وہ ان کا خیال ذہن سے جھٹکنے لگا لیکن بار بار وہ اس کے تخیل پر چھا جاتے۔ ایک رکعت پوری ہو گئی دوسری رکعت میں سوچا والد صاحب اسے کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ ہاں اللہ میاں ضرور دیکھ سکتے ہیں اس خیال کے آتے ہی اسے ایسا لگا کہ وہ اللہ میاں کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہوں وہ اسے دیکھ رہے ہیں۔
وہ اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر شرمسار زمین پر نظر گاڑ کر نماز پڑھ رہا ہے اس نے بہت لمبی تلاوت کی اور پھر رکوع میں چلا گیا قاعدے کے بعد تیسری رکعت کیلئے کھڑا ہوا تو اس کے دل کی دنیا بدل چکی تھی اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اللہ میاں کے سامنے کھڑا ہے وہ اسے دیکھ رہا ہے وہ اس کے آگے جھکا ہوا ہوں وہ اللہ میاں کے قدموں میں سربسجود ہے اس کی پیشانی اللہ رب العزت کے قدموں میں ہے اور پھر وہ کیا محسوس کرتا ہے کہ وہ اللہ میاں سے سرگوشی کر رہا ہے سر جوڑ کر کچھ کہہ رہا ہے اللہ میاں سے۔ جی ہاں اللہ میاں سے، یہ ایک عجیب احساس تھا عجیب و غریب احساس وہ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے اس قدر قریب نہیں ہوا تھاجس قدر اس دن تھا بالکل اتنا قریب کہ بس ہاتھ بڑھا کر چھولے۔
اس دن نماز ختم کرنے کے بعد وہ اپنی جگہ بیٹھا رہا دیر تک سکتہ کے عالم میں روتا رہا بس روتا رہا یہاں تک کہ سارے نمازی مسجد سے چلے گئے طویل انتظار کے بعد مسجد کے خادم نے بتیاں بجھا دیں اے سی بند کر دیا۔ اسے پتہ تک نہیں چلا یہاں تک کہ اس نے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر پوچھا کیا میں چلا جاؤں اس نے سر ہلا کر حامی بھری موذن چلا گیا غلام رسول بیٹھا رہا یہاں تک کہ عشاء کی اذان ہو گئی۔ اب وہ اپنی جگہ سے اٹھا اب وہ جگہ کسی اور کی تھی اس کی نہیں تھی اس نے وضو خانہ کا رخ کیا روتے روتے اس کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں اس کی داڑھی گیلی ہو چکی تھی، وہ وضو کر کے دو بارہ مسجد میں آیا اور صف کے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔
اس روز اس نے بڑے خشوع اور خضوع کے ساتھ کونے میں نماز پڑھی۔ فرض کے بعد سنتیں اور نوافل بھی وہیں ادا کئے۔ اب وہ جگہ اسے اچھی لگنے لگی تھی اس نے اسی کو اپنے لئے خاص کر لیا تھا۔
٭٭٭