” جی سائیں سوہنا کام ہوگیا ہے۔ جیسا آپ نے کہا تھا بس ،آپ کا انتظار ہے ۔” بخشو موبائل پہ بات کرتے ہوئے بولا۔
” ارے بابا کرنے دو انتظار۔ آخر ہم نے بھی تو بہت کیا ہے انتظار تو کچھ بدلہ ہم بھی اتاریں گے بلکہ سود سمیت ۔اس سے آرہا ہوں ملنے ۔” خرم شاہ کے ایک ایک لفظ میں تنفر تھا ۔رابطہ منقطع کر کے وہ اپنی بلیک پراڈو کی جانب بڑھ چکاتھا کسی کی نصیب کی سیاہی بڑھانے۔
٭٭٭٭٭
“کیا بات ہے داد شاہ ‘کیوں اس وقت آئے ہو؟” پیر اذلان شاہ گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے بولے۔
” سوہنا سائیں! مجھے معلوم ہے آپ ابھی جاگیر سے لوٹے ہو مگر کیا کروں بات ہی کچھ ایسی ہے۔” داد شاہ ادب سے بولا۔
” ہاں! ہاں کہو۔”اذلان نے اس کی ہمت بڑھائی۔
” شاہ جی! وہ جو فیکٹری کیلئے خام مال جاتا ہے ۔اس کی فراہمی اب تک نہیں ہوئی۔”
“کیوں جاگیر سے تو کب کی لوڈنگ آچکی ہے فصل کی پھر ؟” اذلان شاہ سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔
” شاہ جی آ تو گئی ہے مگر آپ کی اجازت نہیں لی تھی ۔اب اگر انہیں فوری سپلائی نہ ملی تو بے چارے مزدوروں کا کیا ہوگا ؟چار دن سے کام بند ہے ان کی تو روزی روٹی پہ لات لگ گئی ہے۔” داد شاہ ساری تفصیل سناتے ہوئے بولا۔
” گھاس تو نہیں کھا گئے ہو بابا جب فصل مل گئی تھی تو سپلائی کیوں نہ کی۔ اب چلو اسی وقت سپلائی کروائیں ہم ۔تھوڑا مزدوروں کا بھی سوچا کرو۔بتا دو ان لوگوں کو مال پہنچنے والا ہے وہ کام کی تیاری کریں۔” اذلان شاہ بولتے بولتے باہر کی جانب قدم بڑھا چکا تھا۔
وہ اصولوں پہ مٹنے والا آدمی اتنی بڑی کوتاہی کیسے نظر انداز کر دیتا اس کی ایک اجازت ،نظر کرم کے طفیل نہ جانے کتنے گھروں کے چولہے جلنے کا وسیلہ تھی۔ خدا نے اسے وسیلہ بنایا تھا رکاوٹ نہیں۔
” شاہ سائیں! آپ آرام کرو ہم ہیں نا۔” داد شاہ کو اس کی تھکن کا احساس بھی تھا۔
” ارے تم لوگوں سے اگر کچھ ہونا ہوتا تو پہلے ہی کرلیتے ۔چلو اب جلدی اس سے پہلے کے گنے کی فصل زہر ہوجائے۔” اذلان شاہ نے اسے جھاڑاتو داد شاہ تیزی سے اس کے ہم قدم ہوکے گاڑی میں جا بیٹھا۔
آخر کو سوال مزدوروں کا تھا۔
اور!
شاید ایک مزدور کی بیٹی کا بھی۔
٭٭٭٭٭
“ویلکم !ویلکم مائی سویٹ بٹر فلائی۔ آخر کو تم ہم تک پہنچ ہی گئیں ۔گو کہ جگہ کچھ شایان شان نہیں ہمارے مگر تمہارے لائق یہ یقینا ہے ۔تمہیں کیا لگا تھا پیر خرم شاہ سے پنگا لینا اتنا آسان ہے؟” اس اجنبی آواز پہ ایلاف نے جھٹکے سے سر اٹھا کے حیرانگی سے دیکھا تھا۔
کون تھا وہ؟جسے اس نے آج تک دیکھا ہی نہ تھا اور وہ شناسائی کے دعوے کر رہا تھا۔
اور پیر خرم شاہ کے قدم بھی جھٹکے سے تھمے۔
” کون ہو تم؟ ” وہ حیرانی سے بولا ۔
” یہ سوال تو مجھے تم سے کرنا چاہئے کون ہو تم؟ کیا چاہتے ہو تم’ کیوں لائے ہو تم مجھے یہاں؟ آخر میرا قصور کیا ہے؟ ” ایلاف چٹخ کے بولی۔
” بخشو!” خرم نے دھاڑتے ہوئے اپنے وفادار کو آواز دی۔
” جی شاہ جی!”
” کون ہے یہ ،کس کو اٹھا کے لے آئے ہو؟ یہ راضیہ تو نہیں ہے۔ ” خرم شاہ غصے سے پاگل ہورہا تھا۔
ایلاف سن ہو کے رہ گئی تھی تو یہ سارا فساد راضیہ کا لایا ہوا تھا اور یہ تو ہمیشہ ہوتا آیا تھا راضیہ کا پھیلایا ہوا گند اسے ہی صاف کرنا پڑتا تھا۔
” سائیں آپ نے جو نشانیاں بتائیں تھیں اور پھر اس کے گتے پہ بھی راضیہ لکھا ہوا تھا اب نقاب میں کون ہے کیا پتا لگتا ہے؟” بخشو منمنایا۔
ایلاف کو سارا چکر اب سمجھ آرہا تھا راضیہ کا اس کا بیگ عبایا یوں پانی میں ڈال دینا کالج سے غائب ہوجانا۔ اپنا فولڈر جو وہ ہمیشہ کالج لے کے جاتی تھی۔ ایلاف کو دینا کیا پلاننگ کی تھی راضیہ نے ایلاف کو اچھی طرح معلوم تھا راضیہ کی سرگرمیوں کے بارے میں اور جب سے اس کے پاس موبائل آیا تھا تب سے تو اس کے اورپر نکل آئے تھے۔ لڑکوں سے دوستی اور اپنے گروپ کے ساتھ بنک مار کے شالامار باغ جا کے فلرٹ کرنا راضیہ کو بے حد مرغوب تھا۔ ایلاف دبے لفظوں میں اگر کچھ کہتی بھی تو راضیہ ناک پہ سے مکھی اڑا دیتی تھی اور مامی جو ایلاف کو آوارگی کے شاہانہ خطابات دیتیں تھیں ان پہ اگر کوئی پورا اترتا تھا تو بلاشبہ راضیہ ہی تھی مولوی طفیل کی پوتی کیا خوب ان کا نام روشن کررہی تھی ایلاف کو ساری خبریں تھیں اور پھر بھی وہ بے خبر رہ گئی اپنی آگ سےراضیہ نے ایلاف کا وجود بھسم کردیا تھا۔
” جاہل ہو تم سب وہ دوٹکے کی لڑکی پیر خرم شاہ کو ایک بار پھر دھول چٹا گئی ۔میں اسے چھوڑوں گا نہیں مگر اس کا کیا کروں؟ ” انگلی سے خرم نے ایلاف کی طرف اشارہ کیا۔
” دیکھو مجھے جانے دو بلکہ گھر چھوڑ آؤ ۔پلیز تمہیں نہیں معلوم ایک طوفان آجائے گا پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے۔ تم انہیں سب سچ بتا دینا خدا کیلئے میں نہیں جانتی راضیہ اور تمہارے بیچ کیا معاملہ ہے مگر خدا کیلئے مجھ پہ رحم کرو اگر یہ رات گزر گئی تو میرا جینا مشکل ہوجائے گا۔” ایلاف منت بھرے لہجے میں بولی۔
” شاہ جی کرنا کیا ہے’ وہ چھوکری نہ سہی تو یہی سہی ۔یہ تو اس سے بھی زیادہ توپ شے لگ رہی ہے ۔اسے بھی دیکھ لینا ابھی کیوں کفران نعمت کرتے ہو۔” بخشو کے الفاظ تھے یا بچھو کا ڈنگ ایلاف بے اختیار پیچھے ہوئی ۔
وہ جب ہوش میں آئی تھی تو نہ اس کا عبایا تھا نہ کالج بیگ یہاں تک کے وہ منحوس فولڈر بھی نہ تھا ۔اپنے کالج یونیفارم کے دوپٹے کو اس نے کچھ اور مضبوطی سے کسا تھا۔
” دیکھو پلیز! اس کی بکواس پہ دھیان نہ دو۔ یہ اچھی بات نہیں ہے ایسی باتیں شریف آدمیوں کو زیب نہیں دیتیں اور پھر میں تو تمہیں جانتی بھی نہیں میں نے کچھ بھی نہیں بگاڑا تمہارا۔” ایلاف روہانسی ہوتے ہوئے اسے بہلا رہی تھی۔
خرم شاہ اس کے انداز پہ ہنس پڑا کمینگی سے اور بے باکی سے ایلاف کا جائزہ لینے لگا ہاتھ کے اشارے سے بخشو کو جانے کا اشارہ کیا۔
” بگاڑا نہیں مگر تمہاری بات میرا ایمان ضرور بگاڑ رہی ہیں ۔جانتی نہیں ہو! تو آج رات جان جاؤ گی ۔تمہارا ٹھکانہ ہمارا دل ہوگا اب اور پھر راضیہ نہ سہی اس کی بہن ہی سہی بربادی کی داستان تو اس کے گھرانے کے مقدر میں ہے اب سو شروعات تم سے ہی۔” خرم اس کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔
“نہیں ایسا نہیں کرو تمہیں خدا کا واسطہ، مرد ہی رہو شیطان نہ بنو۔” ایلاف کی تو جان پہ ہی بن آئی تھی ۔وہ تو جیتے جیتے ہی مرجائے گی آج تو لگتا تھا مامی کے سارے الزام سود سمیت سچے ہوجائیں گے۔
” ہاں! ہاں کرو منت ۔چیخو، گڑگڑاؤ۔یہاں’ یہاں کچھ تو ٹھنڈک پہنچے گی ۔” خرم نے انگلی سے اپنے سینے کی سمت اشارہ کیا۔
لگتا تھا کچھ زیادہ ہی حساب کتاب نکلتے تھے راضیہ کی طرف خرم کے۔
وہ اونچے شملے والوں کا بے تحاشہ دولت پہ میں پلنے والا وہ نوجوان تھا ۔جس کی ابھی مسیں بھیگ رہیں تھیں مگر بدعادات نے اس کے اونچے شملے پہ سیاہ داغ لگا دئیے تھے۔ راضیہ کے ساتھ بات جب تک تحفے تحائف اور زبانی کلامی تک تھی تو سب ٹھیک رہا مگر خرم شاہ کی فرمائش نے راضیہ کے ہاتھوں کے طوطے اڑا دئیے تھے۔ فلرٹ کرنا اور بات تھی اور اپنی عزت اپنے ہاتھوں سے لوٹانا اور بات تھی۔ ابھی مولوی طفیل کے خون کا اثر کچھ باقی تھا راضیہ میں اس نے جواب میں خرم شاہ کو کرارے تھپڑ اور لاتعداد باتوں سے نوازا تھا جو خرم شاہ کہ گرم خون اور جوانی پہ کھولتے ہوئے لاوے کا کام کرگیا تھا۔ راضیہ کو اس نے دھمکی دی تھی کہ تین دن میں اگر وہ اسے نہ ملی تو چوتھے دن وہ اسے اٹھا کے لے جائے گا ۔یہ اس کیلئے کچھ مشکل نہ تھا اس کے پاس ایسے بہت سے پالتو تھے حقیقتا انہی کی وجہ سے وہ غلط صحبت میں پڑا تھا۔ راضیہ جانتی تھی کہ خرم شاہ وہی کرے گا جو اس نے ٹھانی ہے اس لئے اس نے ایلاف کا انتخاب کیا تھا۔ ایلاف اس کی کزن تھی اپنی ذہانت اور حسن کی وجہ سے ہر میدان میں اس سے بہت آگے، اماں اکثر اس کی حرکتوں پہ کہتی تھی کہ وہ ایک دن افسرنی بن جائے گی اور راضیہ یوں ہی بھاٹی گیٹ کی گلیوں میں گھومتی پھرے گی یہاں تک کہ ثاقب جو اس کی خالہ کا بیٹا تھا وہ بھی ایلاف سے متاثر تھا ۔راضیہ دل سے ثاقب کو پسند کرتی تھی اس کا باپ فوج میں کوارٹر ماسٹر تھا تعلیم اس کی فری تھی ۔ثاقب ذہین تھا اس کا مستقبل روشن تھا ۔راضیہ کی آنکھوں میں اماں نے ثاقب کے خواب بڑے شوق سے سجائے تھے مگر ایلاف نے اس کے خواب توڑ دئیے تھے جب ثاقب نے اس سے کہا تھا۔
” راضی! تمہاری یہ کزن اتنی اچھی اور ذہین ہے میرا دل کرتا ہے اس سے شادی کر کے گھر لے جاؤں تب تو یہ مجھ سے بات کرے گی نا۔”
اور راضیہ کے تو تلوے پہ لگی اور سر پہ بجھی تھی یہ سب سن کے، اب ایلاف اس کیلئے آنے والے رشتے بھی ہتھیائے گی۔ جب بھی کوئی رشتے والی آتی تو ان کی نظروں میں ایلاف ہی آتی تھی۔ گوری رنگت سبز آنکھیں سیاہ بال تیکھے نین نقش وہ مجسم خوبصورتی تھی اوپر سے اخلاق بھی اعلی،محلے بھر کے بچے اس سے ٹیوشن پڑھتے تھے اور ان کی مائیں بھی ایلاف کی مداح تھیں جھٹ سے ہر رشتہ ایلاف کیلئے مامی کے گوش گزار کردیتیں تھیں۔
راضیہ کو قطعا پروا نہہیں ہوتی تھی مگر یہ ثاقب کا معاملہ تھا اور راضیہ کے اندر پلتا لاوا پھٹ چکا تھا ۔اس نے مہارت سے سارے پتے سجائے تھے اسے یقین تھا کہ پیر خرم شاہ جیسا بھونرا ایلاف جیسی خوبصورت تتلی کو مسلنے میں وقت نہیں لگائے گا اور ایلاف وہ تو اس صدمے سے مر ہی جائے گی مرے گی نہیں تو کم ازکم اس در پہ واپس تو نہیں لوٹے گی۔
” ڈئیر پہلے ہی بہت سا وقت برباد ہوچکا ہے ۔آؤ اس وقت کو روک لیں ۔مجھے کھوجنے دو اپنا آپ تمہاری ان سبز جھیل جیسی آنکھوں میں۔” خرم شاہ اس کی طرف قدم قدم آتا ہوا بول رہا تھا۔
“الّله رحم! اپنے حبیب کے صدقے اس حوا کی بیٹی پہ رحم کر۔” ایلاف دل کی گہرائیوں سے گڑگڑائی۔
اور جب کوئی اسے اتنی شدت اتنی چاہت سے پکارتا ہے تو اسے جواب ضرور ملتا ہے ۔خدا بےنیاز ہے لیکن وہ سنتا ہے مظلوموں کی بےشک۔
” سائیں غضب ہوگیا۔ جلدی کچھ کریں پیر اذلان شاہ آگئے ہیں۔” بخشو دھاڑ سے دروازہ کھولتا ہوا بولا۔
” کیا بک رہے ہو ماما سائیں اور یہاں، وہ تو جاگیر میں تھے اور اس وقت گودام میں ۔” خرم شاہ کی ساری فرعونیت رخصت ہوچکی تھی۔
ماتھے پہ پسینے کی بوندیں پھوٹ آئیں تھیں اور ایلاف کو لگا خدا نے اسے مایوس نہیں کیا۔
کوئی تو تھا!
جو اس کا نجات دہندہ بن کے آیا تھا۔
مگر کیاواقعی ایسا تھا؟
٭٭٭٭٭
” کیا بکواس ہے ماما سائیں اور یہاں اس وقت، وہ تو ایک ہفتے سے جاگیر میں تھے۔” خرم شاہ پریشانی سے بولا۔
” پتا نہیں چھوٹے سائیں ابھی’ ابھی وہ اور ان کے لوگ مجھے دکھے ہیں میں تو فورا ادھر آگیا ۔اب کیا کریں؟” بخشو بوکھلایا ہوا تھا۔
” چلو یہاں سے بعد میں دیکھتے ہیں اس تتلی کو پہلے جا کے ماما سائیں سے نپٹیں۔” خرم شاہ ماتھے پہ آیا پسینا پونچھتے ہوئے بولا۔
اور جو پیر اذلان شاہ کو پتہ چل گیا کہ اس نے ایک لڑکی کو محبوس کر رکھا ہے تو اذلان شاہ نے یقینا اس کی گردن اڑا دینی تھی۔ اپنی عیاشیاں وہ صرف شہر تک ہی محدود رکھتا تھا۔ جاگیر اور گھر میں اس کے کارناموں کی خبر کسی کو نہ تھی اور آج اگر یہ پول کھل گیا تو وہ خاندانی گدی سے تو جائے گا ہی ساتھ میں پیر اذلان شاہ کی نظروں میں وہ ہمیشہ کیلئے جھک جائے گا۔ وہ جانتا تھا اذلان شاہ اس کی یہ خطا کبھی نہیں معاف کرے گا۔
اذلان شاہ اپنی مخصوص با وقار چال چلتے ہوئے یقینا گودام کی طرف آرہا تھا ساتھ میں ہاتھ باندھے مودب سا داد شاہ بھی تھا ۔گودام سے پہلے ایک کمرہ تھا جس میں مال اٹھانے والے سستا لیا کرتے تھے ۔تین چارپائیوں اور ایک میز پہ مشتمل سامان تھا اس میں اذلان شاہ اور داد شاہ وہیں تھے جب خرم شاہ اور بخشو وہاں پہنچے۔
” پیر خرم شاہ !تم اور یہاں کیا بات ہے؟” اذلان شاہ حیرانگی سے بولا۔
” وہ سائیں !چھوٹے سرکار تو اکثر آتے رہتے ہیں مال کی صورت حال دیکھنے آج بھی اس لئے آئے ہیں۔” بخشو دانت نکالتے ہوئے بولا۔
” ہمیں تو آج تک معلوم نہ ہوسکا کہ ہمارا بھانجا بھی ان امور میں کچھ دلچسپی رکھتا ہے۔” اذلان شاہ بغور اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے بولا۔
” کمال ہے ماما جی آخر کو یہ معاملات ہمیں ہی تو سنبھالنے ہیں ۔مانا کہ ہم لاپروا ہیں پر اپنی ذمہ داریاں جانتے ہیں۔آپ یہاں کیسے اس وقت؟” خرم شاہ کے منہ سے وہ سوال نکل ہی آیا جس کی کھد بد اسے لگی تھی۔
” یہ سوال تو ہم بھی تم سے پوچھ سکتے ہیں ۔اس وقت کونسی ذمہ داری یاد آگئی کہ تم یہاں چلے آئے ۔ہم تو یہاں اپنے کام کیلئے آتے ہی رہتے ہیں ۔ظاہر ہے ہماری اجازت کے بغیر کسی کو مال کیسے مل سکتا ہے؟” وہ پیر اذلان شاہ تھا ۔کوئی دودھ پیتا بچہ نہیں تھا ۔اسے مطمئن کرنا آسان نہ تھا اور خرم شاہ کو تو دانتوں تلے پسینہ ہی آگیا تھا۔
” بس یوں ہی آج لیٹ یونی سے فارغ ہوا تھا بس سوچامال کی صورت حال دیکھ لوں ۔ماما سائیں آپ جائیں میں کروا دوں گا سارا کام۔” خرم شاہ اٹک’ اٹک کے بولا۔
” ہوں !یہ بھی ٹھیک ہے۔ ” اذلان شاہ کے جواب نے خرم شاہ کی سانسیں بحال کی تھیں۔
“یہ عبایا کس کا ہے؟ اس زنانہ پہناوے کا یہاں کیا کام۔” وہ اذلان شاہ تھا اس کی عمیق نظروں نے عبایا دیکھ لیا تھا جو ایک چارپائی کے کونے میں پڑا ہوا تھا اور خرم شاہ کو لگا آج تو اس کی خیر نہیں۔
” مم۔۔۔میں کیا جانوں!” وہ منمنایا اور اسی وقت دھپ دھپ اور ہلکی ہلکی چیخوں کی آواز پہ اذلان شاہ کے کان اور کھڑے ہوگئے تھے۔
“پیر خرم شاہ !تم اس وقت اذلان شاہ کے سامنے کھڑے ہو۔ سیدھی طرح پورا قصہ سناؤ۔ کونسا گل کھلانے آئے ہو یہاں؟” اذلان شاہ کڑے تیوروں سے اس سے مخاطب ہوا تھا۔
” سائیں مجھے لگتا ہے گودام میں کوئی ہے؟ میں دیکھوں جا کے پتانہیں کیا ماجرا ہے؟” داد شاہ کی آواز نے جلتی پہ تیل کا کام کیا تھا خرم شاہ نے اس کو گھور کے دیکھا تھا۔
” ماما سائیں !سیریئسلی مجھے نہیں خبر، یہاں کون لڑکی ہے کہاں سے آئی ہے؟” خرم شاہ کی تو جان ہی نکل رہی تھی آج اس کی رسی کس دی گئی تھی۔
” پر ہم نے تو کسی لڑکی کا ذکر نہیں کیا۔ اس کا مطلب ہے کسی لڑکی کے چکر میں ہو تم یہاں۔داد شاہ جا کے دیکھو کون ہے وہ ؟” اذلان شاہ نے اسے حکم دیا۔
” نالائق !نفس کے غلام شرم تو نہیں آتی پیروں کے خاندان کا نام ڈبوتے ہوئے۔ کب سے عیاشی کا اڈا بنا رکھا ہے یہاں؟” اذلان شاہ کا خون کھول کے رہ گیا تھا۔ اس نے زناٹے دار تھپڑ خرم کو لگایا تھا اور خود گودام کی طرف اسے دھکیلتے ہوئے آگے بڑھ گیا تھا۔
ایلاف اسے دیکھ کے کھڑی ہوگئی تھی اور خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی ا۔ن آنکھوں میں کیا تھا۔
شکر گزاری!
امید یا پھر بے یقینی!
اذلان شاہ سمجھ نہیں پایا۔ درحقیقت اس نے ایلاف پہ نگاہ غلط بھی نہ ڈالی ،اس کیلئے وہ صرف اس کے بھانجے کی غلطی تھی جسے اس نے سدھارنا تھا۔
اور!
کبھی’ کبھی ہمیں دوسروں کی غلطیوں کے تاوان خوددا کرنے پڑتے ہیں۔
” کون ہیں آپ اور خرم کو کیسے جانتی ہیں؟” اذلان شاہ سراپا سوال تھا ۔
” میں نہیں جانتی یہ کون ہے، آپ کون ہیں ؟آج سے پہلے میں نے کبھی ان کا نام بھی نہیں سنا مگر آپ کو خدا کا واسطہ مجھے گھر چھوڑ آئیں ورنہ میں جیتے جی مرجاؤں گی پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے۔” ایلاف منت بھرے لہجے میں بولی۔
” خرم شاہ تم اتنا گر جاؤگے ہم نے سوچا بھی نہ تھا ۔ہمارا خون اتنا نیچ کام کیسے کرسکتا ہے؟ کہاں سے لائے ہو اس لڑکی کو؟” اذلان نے جرح کرتے ہوئے کہا۔
جواب میں خرم شاہ کے پاس حقیقت بتانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا ۔اذلان شاہ کو اس کا اصلی چہرہ معلوم ہوچکا تھا ۔
” لعنت ہے تم پر ایک عورت کیلئے اپنا اونچا شملہ داغدار کردیا ۔تمہارا فیصلہ تو بعد میں کریں گے، پہلے اس لڑکی کو داد شاہ گھر چھوڑ آؤ اور تم میرے ساتھ جاگیر چلو۔ تمہارے ماں باپ کو بھی تو پتاچلیں تمہارے کرتوت ۔خاندانی دستار کے تو قابل ہی نہیں ہو تم۔ ” اذلان شاہ کف اڑاتے ہوئے بولا
اس کی ملکیت اس کی جاگیر ایک بھیانک حرام کام کیلئے استعمال ہونے چلی تھی یہ احساس ہی سوہان روح تھا۔
” نہیں پلیز !خدا کیلئے میری بات پہ کوئی یقین نہیں کرے گا۔ انسانیت کے ناطے میری عزت کو برقرار رکھنے کیلئے آپ مجھے چھوڑ آئیں ۔آپ ایک ذمہ دار آدمی ہیں ،حقیقت حال سے واقف ہیں جو ہوا انجانے میں ہوا مگر میری زندگی مشکل میں پڑ جائے گی۔” ایلاف ایسے جاتی تو مامی نے اسے گھر میں گھسنے ہی نہ دینا تھا ۔ماموں پہ اسے یقین تھا کہ وہ اس کی بات سن لیں گے اس کا یقین کرلیں گے۔
” اپنے چھوٹوں کا گند بڑوں کو کبھی صاف کرنا پڑتا ہے۔ تم فکر نہ کرو بی بی داد شاہ عزت سے تمہیں چھوڑ آئے گا۔” اذلان شاہ اسے تسلی دیتےہوا بولا۔
” آپ سمجھ نہیں رہے ۔کوئی میرا یقین نہیں کرے گا۔ مجھے یہاں آئے شام ہوچلی ہے میرے تو ماں باپ بھی نہیں ہیں، ماموں کا گھر میرا آخری ٹھکانہ ہے ۔کوئی میرا یقین نہیں کرے گا۔” ایلاف رو پڑی تھی۔
” اوہ!رونا بند کرو بی بی ۔ایک تو یہ سسٹم ہمارا، حادثہ تو کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے ۔چلو داد شاہ لے چلتے ہیں اسے۔” اذلان شاہ بادل نخواستہ بولا۔
ایلاف تشکر بھری نگاہوں سے اسے دیکھ کے رہ گئی ۔ماموں سے وہ بات کرے گا تو اس کیلئے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
اذلان شاہ کی گاڑی میں پچھلی سیٹ کی طرف بیٹھتے ہوئے اس نے سوچا۔
٭٭٭٭٭
” گاڑی یہاں سے آگے نہیں جائے گی سائیں۔ اب کیا کرنا ہے ؟” ڈرائیور نے پوچھا۔
لاہور کا تنگ علاقہ شروع ہوچکا تھا اب ان چھوٹی گلیوں میں اذلان شاہ کی بڑی گاڑی ٹرک کی مانند لگ رہی تھی۔
“کتنا راستہ اور ہے بی بی ؟” اذلان شاہ نے گم صم بیٹھی ایلاف کو مخاطب کیا۔
” بس یہاں سے پانچ منٹ پیدل چلنا ہوگا۔” ہولے سے ایلاف بولی۔
” سائیں آپ کیسے چلیں گے؟ ہم چھوڑ آتے ہیں بی بی کو آپ کو مسئلہ ہوگا ۔” داد شاہ کو ہمیشہ اس کی فکر رہتی تھی۔
” داد شاہ مسئلہ ہے تو حل کرنا ہی پڑے گا ۔چلو بی بی !” جواب دیتے ہوئے ایلاف کو اترنے کا اشارہ کیا۔
ایلاف اتنا تو جان گئی تھی کہ مقابل کوئی معمولی آدمی نہیں ہے۔ اس کی شخصیت جس کے سامنے خرم شاہ بھی پانی پانی ہوگیا تھا اور پھر یہ شاندار سی گاڑی جس کا نام بھی ایلاف نہ جانتی تھی ۔ایسے شخص کے تو خوابوں سے بھی یہ علاقہ نہ گزرا ہوگا مگر اب وہ بنفس نفیس یہاں تھا ۔ایلاف کو اپنا پندار اپنی عزت بہت پیاری تھی۔ اسے اگر اس شخص کی منت بھی کرنی پڑتی تو وہ کرتی ۔وہی ایک واقف حال تھا اس کی بے گناہی کا۔
چھوٹے چھوٹے مضبوط قدم اٹھاتے وہ اس کے ساتھ احتیاط سے ناک کی سیدھ میں چل رہا تھا پیچھے اس کے ملازم تھے جن کے ہاتھ میں سرچ لائٹ تھی ۔رات کے وقت اس علاقے میں روشنی نہ ہونے کے برابر تھی ۔ایلاف مرے مرے قدموں سے چل رہی تھی اسے اندازہ تھا مامی نے کوئی ڈرامہ تیار کر رکھا ہوگا مگر مامی تو اس کی سوچ سے بھی بڑھ کے نکلیں تھیں آخر کو آج کے ڈرامے کی ساری کہانی اور ہدایتکاری راضیہ کے سر تھی ۔گھر پہنچنے سے پہلے ہی دروازے کے باہر بھیڑ لگی ہوئی تھی ۔کاموں سے آئے ہوئے تھکے ہارے مردوں کیلئے آج کی رات مامی نے خوب اہتمام کیا تھا ۔عورتیں بغل میں اپنے بچے دبائے کبھی دروازے سے جھانک کے یا پھر اپنے گھر کی دیوار سے ہی جھانک کے پوچھ لیتیں۔
” ہائے ایلاف اب تک نہ آئی ۔توبہ! توبہ کیا زمانہ آگیا ہے۔” یہ فقرہ تو سب ہی بولتی تھیں۔
” ماموں !” ایلاف تیزی سے آگے منظور کی طرف بڑھی تھی ۔اس پورے مجمعے میں وہ ہی اس کی ڈھال تھا۔
” آگئی منحوس ماری!منہ کالا کر کے ۔واہ لوگو! ڈھٹائی دیکھو اس بے غیرت کی، یار کو بھی ساتھ لائی ہے ۔ہائے !ہائے میرے جنت مکانی سسر مولوی طفیل کی عزت کو کیا بٹہ لگا ہے۔ ” نازو مامی کو تو آج موقعہ مل گیا تھا ۔
” مامی خدا کیلئے آپ کیسی باتیں کررہی ہیں۔ ایک حادثہ ہوگیا تھا یہ گواہ ہیں اس کے۔” انگلی سے اذلان شاہ کی طرف اشارہ کیا۔
” حادثہ !خوب خوب اری یہ چونڈا میں نے دھوپ میں سفید نہیں کیا۔ زرینہ کی اولاد اس پہ نہ جائے ہو ہی نہیں سکتا اپنی ماں کی طرح تونے بھی راستے میں کھڑا مرد پسند کرلیا۔ بس تیری ماں مزدور پہ ریجھ گئی اور تو اس سے دو قدم آگے ہی نکلی۔ ” مامی نے اس دھکا دیتا ہوے صحن میں پھینک دیا تھا۔
” خاتون! برائے مہربانی فالتو الزام تراشی نہ کریں ۔ان بی بی کے ماموں کہاں ہیں ان سے بات کرنی ہے مجھے۔” اذلان شاہ ناگواری سے بولا۔
” کیا بات کرنی ہے ؟ابھی دل نہیں بھرا تھا تو مت لاتے اسے ،جب بھر جاتا تو چھوڑ جاتے ۔حادثہ کونسا حادثہ نہ تیرا بیگ ہے نہ برقعہ ۔خیر اب اس تکلف کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ دفعہ ہوجا یہاں سے تیری وجہ سے میری بچی پہ بھی نحوست پڑے گی۔” مامی نے پھر اس دو تھپڑ لگائے تھے۔
” خدا کیلئے مامی! یہ سارا عذاب راضیہ کا ہی لایا ہوا ہے۔ میں اس کی وجہ سے پھنسی ہوں ماموں آپ کو خدا کا واسطہ، ایک بار سچ سن لیں۔ میں نے کچھ نہیں کیا یہ سب جھوٹ ہے۔” ایلاف نے منظور کا شانہ ہلایا جو کسی مجسمے کی طرح سر جھکائے بیٹھا تھا۔ بالکل اسی طرح جب زرینہ نے اپنی من مانی کرتے ہوئے اپنا فیصلہ سنایا تھا۔
” حد ہوتی ہے ایلاف !میں بیچ میں کہاں سے آگئی میں تو تمہیں سمجھا ‘سمجھا کے تھک گئی تھی پر پتانہیں کونسا بھوت چڑھا ہوا تھا اسے منع بھی کیا تھا ۔آج کالج نہ جاؤ، خالہ آرہی ہیں تمہیں انگوٹھی پہنانے مگر نہیں ان لمبی گاڑیوں والے کے سامنے اسے بے چارہ ثاقب نظر ہی نہ آیا اور وہ سمجھتا رہا ایلاف شرماتی ہے اس سے ہوں۔” راضیہ تو دھڑلے سے آج جھوٹ کے ریکارڈ قائم کررہی تھی۔
ایلاف نے جھٹکے سے سر اٹھایا تو ثاقب بھی تھا یہاں ،جس کی آنکھیں ایلاف کو دیکھ کے اور روشن ہوجاتیں تھیں ۔ایلاف جبکہ ادھر ادھر ہوجاتی تھی ۔وہ ان باتوں کی متحمل ہی نہیں ہوسکتی تھی اور آج رسوائیوں سے دامن بھر گیا تھا۔
سب اسے ہی دیکھ رہے تھے۔
” توبہ! توبہ ہم اپنی بچیاں اس کے پاس بھیجتے رہے۔ کیا سکھا دیا ہوگا ہماری معصوم بچیوں کو اس نے ؟”
” اری بہن! اتنی معصوم شکل والی اور کارنامے تو دیکھو۔”
” چلو بھئی !آج تو پول کھل گئی اس کی نہ جانے کب سے چل رہا تھا یہ سب۔”
وہ سب سنگ باری کر رہے تھے لفظوں کی گندے بدبو دار سڑے ہوئے لفظوں کی جنہوں نے کبھی ایلاف کو سر آنکھوں پہ بٹھایا تھا۔ ایلاف مرنے لگی تھی یہ سب سن کے اس کا واحد اثاثہ اس کی عزت ،اس کی خودداری سب ختم ہورہا تھا ،ڈوب رہا تھا لفظوں کی سنگ باری سے۔
میں وہ کس طرح سے کروں بیاں
جو کئے گئے ہیں ستم یہاں
سنے کون میری یہ داستان
کوئی ہم نشین ہے نہ راز داں
جو تھا جھوٹ وہ بنا سچ یہاں
ایلاف نے سب کو دیکھا جو چپ تھے۔ انکی نظریں چھلنی کررہی تھیں اور جو بول رہے تھے وہ مار رہے تھے۔ گھائل کر رہے تھے ثاقب کی آنکھوں میں بھی بے اعتباری تھی ایلاف کو چنداں پروا نہ تھی مگر ماموں کی خاموشی اسے مار رہی تھی۔
” ماموں !آپ بولتے کیوں نہیں خدا کیلئے کچھ تو بولیں ۔بتائیں انہیں ایلاف ایسی نہیں پلیز آپ بتائیں نہ اصل بات۔” وہ بیک وقت دونوں سے مخاطب ہوئی۔
” کیا کہوں ایلاف جب میں جانتا ہی نہیں تجھے، تو جب چلی گئی تھی تو واپس کیوں آئی؟ میں صبر کرلیتا ۔اب کیا کروں تو لوٹ آئی ہے تو اب بتا کیا کروں؟” ماموں منظور کے الفاظ تھے یا صور ایلاف پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھ کے رہ گئی۔
” ماموں آپ بھی۔” ایلاف کے منہ سے یہی نکلا تھا۔
” ایلاف تجھ پہ بھروسہ کیا تھا۔ راضیہ سے بڑھ کے چاہا تجھے ،تو نے کیا کیا ۔” منظور کے ایک ایک لفظ میں دکھ تھا۔
” ماموں راضیہ ہی۔۔۔” ابھی بات لبوں میں ہی تھی کہ مامی نے جھٹکے سے اسے ماموں کے پاس سے بالوں سے پکڑ کے گھسیٹا تھا۔
” نی مرجانیے !اب تو اپنا گند میری دھی کے سر تھوپے گی ۔نی منظور کر اس کا فیصلہ مجھے اب یہ برداشت نہیں ۔چوری کے باوجود کتنی ڈھٹائی سے نام لے رہی ہے میری بچی کا۔” مامی کا بس ہی نہ چل رہا تھا اسے کچا چبا جائے۔
” بس کریں آپ لوگ ۔بات یہ نہیں ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں ۔” اذلان شاہ ابھی بولنا شروع ہوا تھا کہ اس کی بات منظور نے کاٹ دی تھی
” ہم تنگ اور چھوٹی گلیوں میں رہنے والوں کی سوچ بھی چھوٹی ہوتی ہے مائی باپ۔ یہ لڑکی تمہارے ساتھ تھی کیا کررہی تھی اور کس حادثے کی بات کر رہے ہو تم لوگ جب کہ یہ بالکل ٹھیک دکھ رہی ہے ۔فیصلہ صاف ہے راضی کی ماں اب اس کو نکاح کرنا پڑے گا ایلاف سے۔” منظور ماموں فیصلہ کن لہجے میں بولا۔
” کیا!” اذلان شاہ کا دماغ بھک سے اڑ گیا تھا ۔وہ اتنی دیر سے یہ ساری صورتحال دیکھ رہا تھا ۔ایلاف نے ٹھیک ہی کہا تھا وہ اس کی بات نہیں سنیں گے مگر وہ تو اذلان شاہ کی بھی نہیں سن رہے تھے اس کا بھی یقین نہیں کر رہے تھے۔
” ہوں نکاح !نکاح ہی کرنا ہوتا تو یوں ہمارے منہ پہ کالک کیوں ملتے یہ دونوں ،ارے یہ نہیں بسانے والا ۔بسانے والے یوں منہ چھپا کے نہیں آتے رات کی تاریکی میں۔” مامی کو آگ ہی لگ گئی تھی ۔
” نکاح تو کرنا ہی پڑے گا کیوں کہ اب ایلاف یہاں نہیں رہ سکتی۔ ایلاف کا نکاح ہوگا چاہے کوئی بھی کرے۔” منظور دھیرے سے بولا۔
” ارے گھر کا گند گھر والے ہی صاف کرتے ہیں۔ قادر ماموں ہیں نا بیچارہ وہ کرلے گا اس سے شادی۔ ڈھانپ دے گا اپنے نام سے اس کے بے عزت وجود کو۔” راضیہ اسے زندہ قبر میں اتارنے کا تہیہ کر چکی تھی۔ دل میں ڈر بھی تھا کہیں ثاقب کو ہی جوش نہ آجائے اس لئے ماں کو خیال دلایا۔
” کیوں کروں میں کسی سے بھی نکاح ؟کیا قصور ہے میرا ہاں جب میں نے کچھ کیا نہیں تو سزا کیوں مل رہی ہے؟ خدا جانتا ہے کہ میں بے گناہ ہوں۔ مجھے نہیں چاہئے کسی کی گواہی، نہیں رہنا مجھے یہاں چلی جاؤں گی کہیں بھی ۔پیر صاحب آپ کی گواہی بھی کسی کام کی نہیں، جائیں آپ یہاں سے آپ کے عزیز کی غلطی کی سزا مجھے بھگتنی ہے ۔جائیں آپ !” ایلاف پھٹ ہی پڑی تھی۔
کیا سمجھ رہے تھے وہ لوگ اسے بھیڑ بکری کی طرح اسے اس کھونٹے سے باندھ رہے تھے جو ایلاف کی ماں نے بھی ٹھکرادیا تھا ۔قادر بخش کی تو لاٹری ہی لگ گئی تھی زرینہ نہ سہی اس کی بیٹی، آج تک زرینہ پھانس بن کے اس کے سینے میں چبھتی تھی ۔کیا مداوا ہوگا زرینہ کی بیٹی سے اس کی شادی۔
” ہاں !ہاں لگتا ہے کوئی اور بھی ہے نظر میں ،ہماری شرافت دیکھو اب بھی اسے اپنی عزت بنانا چاہتے ہیں اور یہ لگتا ہے اور بھی ہیں بتا بے شرم کتنوں سے یاری ہے تیری ؟جا دفع ہوجا۔” مامی نے اس بے نقط سنائی تھیں۔
ایلاف کا دوپٹہ نہ جانے کہاں گر چکاتھا۔ بال بکھر چکے تھے، اس کی ایک جھلک نہ دیکھنے والے آج اسے یوں دیکھ رہے تھے۔ بولی لگ رہی تھی اس کی، ایلاف کو لگا زندگی اس سے بھیانک ہو نہیں سکتی۔
” نہیں پیر صاحب آپ یوں نہیں جا سکتے۔ اپنا فیصلہ سناؤ ہاں کرو یا ناں ،مرد بن کے اس کے وکیل بن کے آئے ہو تو فیصلہ لے کے ہی جاؤ۔ میں بھی دیکھوں پیروں کا دم خم۔” منظور کے دماغ میں خدا معلوم کیا چل رہا تھا ۔
اذلان شاہ کا خون کھول اٹھا تھا ۔اس کی نفاست پسند طبیعت پہ یہ تماشہ یوں بھی گراں گزر رہا تھا مگر وہ اس قصے کو چھوڑ بھی نہیں سکتا تھا ۔ بہرحال ذیادتی اس کے گھرانے کی طرف سے ہوئی تھی۔
” خرم شاہ کو فون لگاؤ۔” ایک فیصلے پہ پہنچ کے اذلان شاہ نے داد شاہ کو حکم دیا۔
” سائیں نمبر نہیں مل رہا ۔لوکیشن بھی نہیں مل رہی۔” داد شاہ کافی دیر سے نمبر ملا رہا تھا۔
” مجھے بخش دیں آپ لوگ، میں نے اپنا معاملہ خدا پہ چھوڑ۔ا ماموں مجھے معلوم ہوتا کہ آپ بھی مجھے نہیں سمجھیں گے تو میں لوٹ کے ہی نہ آتی ۔مرجاتی کہیں میرے لئے کسی کے نام کی بھیک نہ مانگیں۔ میرا ضمیر مطمئن ہے ۔” ایلاف رو رو کے تھک چکی تھی یہ لوگ اسے کبھی نہیں بخشیں گے وہ کیوں ایسے کام کا انجام بھگتے جو اس نے کیا ہی نہیں۔
” چل نی دفع ہو اندر دس منٹ میں بتا مجھے منظور کہاں دفعہ کروں اسے ورنہ گیارہواں منٹ اچھا نہیں ہوگا تیرے باپ کی روح کیلئے۔ ” مامی نے طیش میں آکے اسے ایک بار پھر دھکا دیا ،سب تماشہ دیکھ رہے تھے کوئی آگے نا بڑھا تھا اسے بچانے۔
اذلان شاہ نے یہ منظر دیکھا اور کسی فیصلے پہ پہنچ گیا۔
” میں تیار ہوں ایلاف سے نکاح کرنے کیلئے ۔” اپنی سیاہ چادر سے اس کا وجود ڈھانپتے ہوئے اذلان شاہ نے اسے اپنی نام کی پناہ دینے کا اعلان کیا تھا۔
” کبھی نہیں آج جو ہو اس میں آپ بھی شریک ہیں ۔کبھی نہیں کروں گی میں یہ نکاح، کیوں کروں؟ ساری زندگی میری برباد کردی آپ لوگوں نے۔” ایلاف انکاری ہوئی۔
کیوں کرےوہ ایسے شخص سے شادی، ساری زندگی سر جھکا رہے گا اس کا سر اٹھا کے چلنے والی ایلاف کیلئے یہ جھٹکے بہت شدید تھے۔
” پاگل نہ بنو ایلاف ۔یہ لوگ تمہیں ہر قیمت پہ سولی چڑھائیں گے۔ اس سے نہیں کروگی تو پھر قادر بخش کے ہتھے ہی چڑھوگی ۔روز روز مرنے سے بہتر ہے ایک بار ہی مر جاؤ۔یہ آدمی قادر سے بہتر ہی ہے۔ ایلاف ہوش کرو ،تمہیں اب کوئی یہاں کا قبول نہیں کرے گا ۔” رابعہ باجی نہ جانے کب وہاں آئیں تھیں ان سے اکثر ایلاف پڑھائی میں مدد لیتی تھی ۔
” رابعہ باجی!” ایلاف کےحلق میں آنسوؤں کا گولہ اٹکا۔
” میری جان! خدا کی آزمائشیں ہیں واویلا نہ مچاؤ۔ کیا پتایہ آدمی تمہارا درد گر ہوجائے۔ ” رابعہ باجی واحد تھیں جو اسے تسلی دے رہیں تھیں اس کا یقین کررہی تھیں۔
مامی اور راضیہ شاکڈ تھیں۔ اذلان شاہ کے اقرار کے بعد سے قادر بخش بل کھا کے رہ گیا تھا وہ اب بے بس تھے ۔اذلان شاہ اکیلا نہ تھا ساتھ اس کے باڈی مین اور پھر وہ کیا بساط رکھتا تھا ان کے آگے
نکاح خواں کب آیا ،کب نکاح ہوا ،اسے پتا ہی نہ چلا مولوی اس کی رضا مندی معلوم کررہا تھا۔
” ایلاف محبوب ولد محبوب خان آپ کو پیر اذلان شاہ ولد پیر سلطان شاہ کے نکاح میں پانچ لاکھ حق مہر دیا جاتا ہے۔ قبول ہے؟”
” قبول ہے!یہ نکاح میری عزت نفس کے عوض ہوا۔”قبول ہے!یہ نکاح میرے اپنوں کے مان ٹوٹنے کی امید پہ ہوا۔قبول ہے !یہ نکاح میری عزت کے جنازے کے عوض ہوا۔” ایلاف اقرار کرتے ہوئے سوچ رہی تھی۔
٭٭٭٭٭
صرف کچھ پل لگے اور ایلاف محبوب کی زندگی کا نقشہ ہی بدل گیا ۔وہ ایلاف جسے خوب پڑھنا تھا، اسے زندگی نے کیا سبق دیا تھا۔
وہ ایلاف جس کے خواب تھے۔ پڑھ لکھ کے معاشرے میں ایک نام بنانے کے، اپنی پہچان کا جنون اکنامکس،معیشت کا دھارا بدلنے کا جنون تھا ۔اس کی اپنی زندگی کا دھارا بدل گیا تھا۔
کیا سوچا تھا؟
اور
ہوا کیا تھا۔
اب وہ ایلاف اذلان شاہ تھی۔ بظاہر ایک مضبوط رشتے سے مگر یہ کتنا کچا تھا دونوں فریقین جانتے تھے۔
اس نے صرف مدد کرنی چاہی تھی اور ہوا کیا تھا کیا صلہ ملا ایلاف کو اس کی نیکی کا۔
کیسی دلہن تھی وہ!
نہ آنکھ میں کجلا
نہ کلائی میں گجرا
نہ لبوں پہ مسی
نہ کان میں کوئی میٹھی سی سرگوشی
نہ سکھیوں کی چھیڑ چھاڑ
نہ بڑوں کی دعا
بس
اذلان شاہ کے نام کی ردا لپیٹے وہ یہ آنگن پار کر گئی تھی۔
ہاں سرگوشی ہوئی ضرور تھی اس کے بہت پاس آکے!
” گو کہ انجام وہ نہیں ہوا جو میں نے لکھا تھا ایلاف بیگم مگر کیا ہوا میرے ماموں کی نہ سہی میرے عاشق کے ماموں کی بیوی تو تم بن ہی گئیں ۔چلو ان کا دل بہلانا خوب ۔جب بھر جائے تو لوٹ آنا،آخر ہم بھی منتظر ہیں۔” وہ راضیہ تھی ،اس کی آنکھوں سے شرارے پھوٹ رہے تھے۔
اور!
ایلاف اس نے ایک نظر راضیہ پہ ڈالی اس ایک نظر میں کیا تھا۔
ایک دیدہ ور ہی دیکھ سکتا تھا۔
بے بسی ،شکوہ ایک موہوم سی آہ کرتے ہوئے ایلاف نے وہ آنگن پار کیا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...