لائبہ۔ رباغہ محترمہ نے آواز دی۔ جی امی۔ وہ ان کے پاس آئی۔ تیار ہو جاؤ جلدی مہندی کے مہمان آتے ہی ہوں گے۔ انہوں نے بتایا۔ تانیہ خود تیار نہیں ہوئی میں ابھی سے ہوجاؤ۔ اس نے کہا۔ وہ ہونے لگ گئی ہے ہو جاؤ تم بھی۔ انہوں نے بتایا۔ امی اچھا ہوتی ہوں کہتے ساتھ جانے لگی۔ حد ہو گئی کبھی تو سن لیا کروں میری پتہ نہیں کب میں اس دنیا سے چلی جاؤ۔ رباغہ محترمہ افسردگی سے کہنے لگی لائبہ کے پاؤں رکیں۔کیوں ایسے باتیں کرتی ہیں ہورہی ہوں۔ لائبہ نے خفگی سے کہا وہ مسکرائی
۔دوا لی آپ نے ۔لائبہ نے پوچھا لینے کا کیا فائدہ۔انہوں نے لاپرواہی سے کہا۔ امی آپ اتنی لاپرواہی کرتی ہیں حد ہوتی ہے کہتے ساتھ دراز کھولی اور اس سے میڈیسن نکالی۔ جلدی کھائیں۔ اس نے ان کو دوا دی اور جگ سے پانی بھرا تم پتہ نہیں کیوں اتنی ضد کرتی ہو۔ رباغہ کو مجبوراً کھانی پڑی۔ضد میں نہیں ضد آپ کرتی ہیں۔ لائبہ کہتے ساتھ کپڑے لیتی باتھروم بڑھ گئی۔ گھر کو بہت خوبصورتی سے سجایا آج اسکی کزن تانیہ کی مہندی تھی
۔ اورنج کلر کی چھوٹی قمیض جاماوار کا پچامہ پہنے اپنے کالے لمبے گھنے بالوں کی چٹیا کرنے لگی لائٹ سے میک میں بڑی بڑی آنکھیں پتلی ناک گلابی لب دیکھنے میں بہت خوبصورت تھی وہ چٹیا کرتی مڑی۔ماشاءاللہ کتنی پیاری لگ رہی ہے رباغہ نے اسکی نظر اتاری وہ مسکرائی۔ باجی چلیں تانیہ آپ کو بلارہی ہے ۔ ایک چھوٹی بچی آتی کہنے لگی۔امی آپ بھی تیار ہو جائیں ٹھیک ہے میں آرہی وہ رباغہ محترمہ کو کہتی کمرے سے باہر آئی۔
وہ شاور کے کر باہر آیا ٹراؤزر پہنے شرٹ کے بغیر بالوں کو تولیے کی مدد سے سکھا رہا تھا ۔ بھائی۔ تبھی مہد اندر آیا ۔او ایم جی ابھی یہاں کوئی لڑکی ہوتی آپ کو دیکھ کر بے ہوش ہو جاتی۔ اسنے بتایا۔بات بتاؤں کیا کرنی ہے۔ سمیر نے کہتے ساتھ شرٹ پہنی۔ ڈیڈ کا بلاوا آیا ہے۔ مہد نے۔بات بتائی۔ کیوں اب تو میں نے کچھ نہیں کیا۔ اس نے کہتے ساتھ کنگی کی مدد سے بال سیٹ کیے۔آپ جانتے ہو انہیں ہر وقت غصہ رہتا ہے مام ان پر غصہ کرتی ہے ان کا بی پی ہائے ہوتا پھر وہ آپ پر اور مجھ پر غصہ نکالتے ہیں۔مہد نے ہنستے ہوئے کہا ۔اب دیکھ میں کیا کرتا ہوں
۔لمبا قد چوڑی جسامت دیکھنے میں کافی ہینڈسم اور ڈیشنگ تھا وہ مسکراتے ہوئے۔ نیچے آیا مہد بھی پیچھے گیا۔کہاں تھے تم۔ قیصر چوہدری نے پوچھا۔ڈیڈ ریلیکس نہا رہا تھا۔ اس نے بتایا۔ تم کب تک میرے پیسوں پر عیاشی کروں گے کب سے آفس جوائن کروں گے۔ انہوں نے سخت لہجے میں پوچھا۔ویسے ڈیڈ آپ کے پیسے ہیں تو میرے اور مہد کے مگر میں سوچ رہا ہوں کیوں نہ کل سے آفس آجاؤ۔ سمیر نے معصوم شکل بنا کر کہا کیا واقع تم پھر تو مجھ سے مذاق نہیں کررہے۔انہوں نے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔بلکل نہیں ابھی میں اور مہد ہاٹل میں جارہے ہیں پھر صبح پکا آفس جاؤں گا۔ کہتے ساتھ گاڑی کی چابی اٹھاتا مہد کو کھینچتا چلا گیا
۔سیم۔انہوں نے پکارا مگر وہ سنی ان سنی کرگیا تمہیں پھر الو بنا گیا ہے ۔ ندا نے اسے کہا نہیں امی وہ کہ رہا تھا تو جائیں گا۔ انہوں نے خود کو تسلی دی۔ کیا واقع آپ صبح آفس جاؤں گے۔ مہد پریشانی سے پوچھنے لگا تمہیں لگتا ہے۔ اس نے اسے مسکراتے ہوئے دیکھا۔ نہیں ۔ مہد کہتے ساتھ ہنسا تو نہیں جاؤں گا بس اپنے ڈیڈ کو الو بناکر آیا یوں۔کہتے ساتھ ہاٹل کے باہر گاڑی روکی وہ بھی اترا۔
مہندی کا فنکشن بہت اچھے سے ہو گیا تھا مگر اس فنکشن سے رباغہ کی طبیعت اور بگڑ گئی تھی۔ لائبہ ادھر آؤ۔انہوں نے اسے بلایا ۔جی امی۔ وہ ان کے پاس آئی دیکھو جب میں چلی جاؤں نہ تو تم ادھر سے چلی جانا ورنہ تمہاری مامی تمہارا جینا حرام کردے گی ۔ انہوں نے بتایا۔امی آپ ایسا کیوں بول رہی ہیں آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔ اس نے اداسی سے بتایا بیٹا تمہارے کہنے سے کیا ہو گا دیکھوں یہ تمہارے باپ کا اڈریس ہے تم یہاں سے چلی جانا انکے پاس۔ انہوں نے بتایا۔ میں نہیں جاؤ گی ان کے پاس۔ لائبہ نے منع کیا۔ بیٹا یہ دنیا بہت ظالم ہے تمہیں جانا ہی ہوگا سمجھ رہی ہوں نا میری بات۔ رباغہ محترمہ نے سمجھایا۔آپ کو جب کچھ ہوگاکہ نہیں تو میں کیوں جاؤں گی کہیں۔ اس نے بولا۔ تم کیوں نہیں سمجھ رہی یہ رکھ لوں سنبھال کر۔ رباغہ نے اسے پرچی دی اسنے تھام لی۔لائبہ کچن میں برتن پڑے ہیں جلدی دھو آکر۔ روبینہ کی آواز سے وہ کمرے سے باہر آئی اور کچن میں گئی۔
سیم اٹھا تمہارے ڈیڈ ویٹ کررہے ہیں تمہارا۔ سمائیا بیگم نے اسے اٹھایا۔۔مام میں رات کو لیٹ سویا تھا میں نہیں جارہا۔ سمیر نے منع کیا۔ اس نے منع کردیا ہے۔ وہ نیچے آتی بتانے لگی
۔کب سدھرے گا۔انہیں غصہ آیا۔ ابھی چھوٹا ہے اور آپ اس پر اتنا غصہ کرتے ہیں کہاں سنے گا وہ کسی کی آرام سے رہا کریں اسکے ساتھ میں سمجھاؤں دیکھیے گا پھر کیسے سمجھتا ہے۔ سمائیا کا لہجہ سخت تھا وہ خاموشی سے چلے گئی۔ روعب دیکھوں کیسے میرے بیٹے پر رکھتے ہیں اتنی سی جان رہ گئے ہیں بیچارے کی۔ ندا منہ بناکر کہتی چائے پینے لگی جی جی رہے آپ کے بیٹے اتنے بھولے۔ سمائیا بیگم کو غصہ آیا۔ کھیلتا کودتا تھا جب سے شادی ہوئی ہے لگتا ہے زبان ہی کٹ گئی۔ ہلکی آواز میں بڑائی سمائیا نہ سن سکی۔
بارات آ چکی تھی سارے مہمان بھی آ چکے تھے نکاح تو پہلے ہی ہو گیا تھا سب لوگ خوش تھے سب سے زیادہ روبینہ خوش تھی کہ انکی بیٹی کی شادی ہو گئی ہے ۔لائبہ اور رباغہ باجی ایک سائیڈ پر کھڑے تھے آج وہ ایک سکینڈ کے لیے اپنی ماں سے دور نہیں ہورہی
۔ جا کر تم شادی دیکھوں میں ٹھیک ہوں یہاں۔ رباغہ محترمہ نے اسے کہا۔مجھے شادی یہاں سے بھی نظر آرہی ہے آپ فکر نہ کریں۔ اس نے مسکراتے ہوئے بتایا وہ خاموش ہو گئی رخصتی کا وقت آگیا تھا روبینہ تانیہ کے گلے لگ کر بہت روئی حد سے زیادہ تانیہ لائبہ سے ملی لائبہ کو بھی رونا چھ سال سے وہ ساتھ تھے ۔رباغہ نے اسے دعائیں اور گاڑی میں بیٹھتی گھر چلی گئی
۔ شکر ہے میری بیٹی کی شادی ہو گئی روبینہ گھر آکر کہنے لگی۔ممانی پانی۔لائبہ نے اسے پانی کا گلاس اسنے تھام کر پی لیا۔ اللہ اسے خوش رکھے۔رباغہ نے دل سے کہا۔ بس سب جانتے ہوں مجھے دیکھانے کے لیے دل سے تم بہت اداس ہوں اتنا اچھا لڑکا تمہاری بیٹی کو کیوں مل گیا۔ روبینہ منہ بنا کر کہنے لگی رباغہ خاموش ہو گئی۔ ممانی یہ سب نصیب کی باتیں ہوتی ہیں ۔لائبہ کہتے ساتھ رباغہ کو لیتی کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ اور روبینہ غصے سے اسے دیکھنے لگی۔
تم پھر جارہے ہو پہلے بھی لیٹ اٹھے ہو تمہارے ڈیڈ آکر مجھ پر بولیں گے۔ سمائیا بیگم نے سمیر سے کہا۔ دادوو ۔ سمیر نے آہستگی سے پکارا ۔ کہ تو ایسے رہی ہو جیسےبہت ڈرتے ہو کچھ کہتا ہے وہ تمہیں۔ ندا نے غصے میں کہا۔ اگر اتنی ہی تکلیف ہے مجھ سے تو بہو بنا کر لائی ہی کیوں۔ سمائیا کو بھی غصہ چڑھا۔
چل مہد۔ وہ مہد کو کھینچتا چلاگیا۔ کیا کرتی بیٹی کی بات ماننی پڑی مجھے کیا پتہ تھا تم جیسی چڑیل پسند کر لی ہے اسنے۔منہ بنا کر کہنے لگی۔ امی مجھے آپ سے بات ہی نہیں کرنی ۔ کہتے ساتھ مڑی وہ دونوں نہیں تھے۔ امی آپ کیوں کرتی ہیں ایسے۔ اسنے غصے سے کہا۔میں تم سے بات نہیں کررہی ابھی تم نے یہی کہا۔ندا کہتے ساتھ کرسی پر بیٹھ گئی۔ افففف ایک دن پاگل کردیں گے مجھے یہ سب مل کر۔ غصے سے کہتے ساتھ سیڑھیاں چڑھ گئی۔ تم پاگل ہونے والی چیز ہو۔ ندا کہتے ساتھ مسکرائی ساتھ کھڑی میڈ بھی ہنسی۔ تم کیا ہنس رہی کو میری دوائی لاؤ۔ انہوں نے اسے دیکھ کر کہا۔ یس میم۔وہ ہنسی کنٹرول کرتی وہاں سے چلی گئی۔
وہ کپڑے دھو رہی تھی رباغہ کمرے میں تھی۔لائبہ لائبہ۔ وہ اسے پکار رہی۔ تھی مگر اسے آواز نہیں آئی۔کیا ہے۔روبینہ کمرے میں آئی اور دے کر چیخ ماری لائبہ کے ہاتھ سے بالٹی گری بھاگتی ہوئی کمرے کی طرف آئی۔ کیا ہوا ممانی۔ وہ پریشانی سے پوچھنے لگی اور اچانک نظر سامنے گئی
۔ امی امی کیا ہوا ہے آپ کو۔ وہ پریشانی سے انکی طرف بڑھی۔ جلدی اسے ہسپتال لے کر جاؤ ۔ انہوں نے کہا۔ ممانی دو منٹ سنبھالے آپ امی کو میں رکشہ لے کر آتی ہوں۔ کہتے ساتھ ڈوپٹہ سر پر ڈالتی باہر آئی۔ رکشہ۔ رشکہ کو دیکھ کر آواز دی۔بھائی یہاں کسی قریب ہسپتال لے چلیں پلیز میں بس ابھی آئی۔ لائبہ اس رکشے والے کو کہتی اندر آئی اور رباغہ محترمہ کو کندھے کا سہارا دیتی باہر رکشے تک لائے۔ بھائی ذرا جلدی کیجیے گا۔اس نے کہا تو رکشے والے رکشہ چلانا اسٹارٹ کیا۔ امی اٹھو۔ وہ انہیں ہوش میں لانے کی کوشش کررہی۔
بھائی وہ لڑکی لائن ماررہی کے آپ پر۔ مہد نے سمیر کے کان میں کہا۔ چل اسے خوش کردیتے ہیں۔ کہتے ساتھ اسے ہاتھ ہلایا۔ اس لڑکی نے ہاتھ کی مدد سے فون بنا کر کال کرنے کا اشارہ کیا۔ بھائی کہ رہی ہے نمبر دو۔مہد حیرانگی سے کہنے لگا۔اگنور کر اگنور۔ سمیر کہتے ساتھ دوسری طرف دیکھنے لگا ۔بھائی میں اسے لائن مارو۔مہد نے دوسری لڑکی کو دیکھ کر کہا۔ ہاں جا مار۔ سمیر کہتے ساتھ سگریٹ پینے لگا۔ ہائے بیوٹیفل ۔ مہد نے اس کا ہاتھ پکڑا لڑکی نے غصے سے اپنا ہاتھ مہد کے ہاتھ سے نکالا اور اسکے منہ پر دے کر تھپڑ مارا سمیر کا قہقہ چھوٹا وہ منہ بنا کر واپس آگیا
۔ مجھے کیوں ہر کوئی مارتا ہے۔ معصومیت سے کہنے لگا۔رونا نہیں ہے ۔ سمیر نے اسے گلے لگایا۔نہیں رو رہا۔ مہد کہتے ساتھ اسکے ہاتھ سے سگریٹ کھینچا۔کہاں ہیں مہد اور سیم۔وہ گھر آتے ساتھ پوچھنے لگے۔وہ لوگ گھر نہیں ہے۔ندا نے بتایا۔ مطلب اسنے کوئی دلچسپی نہیں لینے بزنس میں۔قیصر صاحب نے کورٹ اتارا۔میں نے نہیں آپ کی امی نے بھیجا ہے۔ سمائیا بتانے لگی۔ ہاں سارا الزام مجھ پر لگادو اب تم اتنی شےدے چکی کو وہ کسی کی سنتا ہے۔ ندا نے کہا۔ افففف اب آپ لوگ مت لڑیں۔ انہوں نے کہا تو وہ چپ ہو گئے۔
ڈاکٹر میری امی کیسی ہیں۔ ڈاکٹر کو آتا دیکھ کر وہ پریشانی سے پوچھنے لگی۔پیشنٹ کی حالت بہت خراب ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کررہے ہیں بس آپ دعا کریں۔ڈاکٹر کہتے ساتھ چلا گیا اور وہ پریشانی سے بیٹھ گئی اسے ہسپتال آئے تین گھنٹے ہو گئے تھے اور وہ بس بیٹھ کر دعا کررہی تھی۔ پیشنٹ شاید آپ کو بلا رہی ہیں۔ نرس آتی بتانے لگی۔ وہ فورا روم کی طرف بڑھی اور اپنی ماں کی حالت دیکھ کر اسکے دل کو کچھ ہوا آنکھوں سے آنسو گرنے لگے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی انکے پاس۔
لائبہ میری جان ۔انہوں نے کانپتی آواز سے پکارا۔ جی۔ وہ فوراً انکے پاس آئی۔ بیٹا ۔۔۔۔۔۔میرے ۔۔۔۔۔۔جانے۔۔۔۔۔۔کے۔۔۔۔۔۔بعد ۔۔۔۔۔۔۔تم وعدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کروں تم۔۔۔۔۔۔۔اپنے باپ ۔۔۔۔۔۔کے پاس ۔۔۔۔۔ی جاؤں گی۔۔۔۔۔اگر تمہارے۔۔۔۔۔۔ماموں زندہ۔۔۔۔۔۔۔ہوتے میں کبھی یہ ۔۔۔۔۔۔۔نہ کہتی ۔۔۔۔۔۔مگر روبینہ۔۔۔۔۔تمہیں زندہ نہیں۔۔۔۔۔چھوڑے گی۔انہوں نے بتایا۔ امی آپ کو کچھ بھی نہیں ہو گا ڈاکٹر ابھی دیکھ رہے ہیں آپ کو آپ جلدی ٹھیک ہو کر گھر آجاؤ گی۔وہ ان کے سینے سے لگی۔ نہیں بیٹا میں اب نہیں بچ سکوں گی بس تم وعدہ کروں۔ انہوں نے اس کا سر پر ہاتھ رکھا لائبہ رونے لگی۔ وعدہ میں کراچی چلی جاؤں گی۔ اس نے روتے ہوئے کہا۔شاباش میری جان۔ انہوں نےکہا تبھی انکے سانس کا مسئلہ ہوا آکسیجن ماسک لگائیں آپ۔ لائبہ نے پریشانی سے آکسیجن ماسک لگایا۔ ڈاکٹر ڈاکٹر۔ وہ باہر آکر پکارنے لگی پریشانی سے ۔ جی۔ڈاکٹر انکی طرف بڑھا ۔ دیکھیں امی کی حالت حد سے زیادہ خراب ہورہی ہے۔ اسنے روتے ہوئے بتایا ڈاکٹر فوراً اندر بڑھ گیا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...