خیال سارے گمان سارے
گئے دنوں کے عذاب سارے
وہ جو ہم نے دیکھے تھے
نئے دنوں کے وہ خواب سارے
میرے ذہن میں اکثر گھومتے ہیں
یہ اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں
پیار والے قرار والے
کہاں گئے تیرے وہ اپنے سارے
جنہیں وفاؤں پہ مان سا تھا
وہ جن کی اداؤں پر تم کو ناز سا تھا
وہ جن کی ہنسی پر تم نے وار دیئے تھے
اپنی خوشی کے اسباب سارے
کہاں گئے تیرے وہ اپنے سارے
ہنسی خوشی بس جیئے جانا
دکھوں کو نہ تم گلے لگانا
تجھے دان میں جو نصیحت تھے دیتے
دکھ رکھ کر پاس اپنے
تجھے تھے تیری خوشی وہ دیتے
رکھ لیتے خود عذاب سارے
کہاں گئے تیرے وہ اپنے سارے
تیری ہستی کی وجہ تھے جو
تیرے جینے کی وجہ تھے جو
تیرے اپنوں سے بڑھ کر اپنے تھے جو
تیرے چہرے پر سجتے تھے جو
روشنی بن کر وہ اُجالے سارے
کہاں گئے تیرے وہ اپنے سارے
پھولوں کی سی مہک بن کر مہکتے رہنا
چاند کی مانند تیرا یوں چمکتے رہنا
وہ رات چاندنی ساحل پے اکثر
باتوں باتوں پہ گھنٹوں ٹہلتے رہنا
بن کے روشن سے وہ جگنو سارے
کہاں گئے تیرے وہ اپنے سارے
میرے ذہن میں گھومنے والے
جو خواب مجھ سے
میرے اپنوں کا پوچھتے ہیں
میں ان کو دیتی جواب سارے
گر ہوتے پاس میرے وہ اپنے سارے
بس اچانک مجھ سے وہ کھو گئے ہیں
وہ دور آسمان پر ستارے سے ہو گئے ہیں
میں کرتی ہوں اکثر ان سے باتیں
کیوں خفا ہو گئے ہیں مجھ سے سارے
ہاں چلے گئے ہیں میرے اپنے سارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...