’’مسٹر حیات کے یہاں ایک تقریب ہے انہوں نے انوائٹ کیا ہے تم میرے ساتھ آنا چاہو گی؟‘‘ آئینے میں اس کے عکس کو مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔
’’لیکن میں تو انوائٹڈ نہیں۔‘‘ وہ سرد لہجے میں کہہ کر کائوچ میں دھنس گئی تھی۔ نمرہ نے اسے آئینے میں بغور دیکھا تھا۔
’’تمہاری جاب کا کیا بنا؟ تم ریان حق سے ملنے گئی تھیں؟‘‘
’’ہاں گئی تھی مگر اس نے کہا وہ صرف مقامی لوگوں کو جابز دیتا ہے۔‘‘
نمرہ کو وہ بہت لاچار اور تھکی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ تبھی اسے مسکراتے کر دیکھتے ہوئے بولی تھی۔
’’تم میرے ساتھ چلو ہوسکتا ہے کوئی بات بن جائے؟ میں مسٹر حیات سے بات کروں گی ۔ وہ ایم ڈی کے کافی قریب ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ کچھ مدد کرسکیں؟ ملنے جلنے سے ہی کوئی راہ نکل سکتی ہے نا۔ ہم کوشش تو کرسکتے ہیں۔‘‘ وہ راہ دکھا رہی تھی۔ وہ جانے پر مائل نہیں تھی مگر جانے کیا سوچ کر اس کے ساتھ چل پڑی تھی۔ وہاں آکر اسے اندازہ ہوا تھا۔ اس تقریب کے لیے اس کا حلیہ خاصا غیر مناسب اور نا معقول تھا۔ اس نے خود کو مس فٹ محسوس کیا تھا۔
’’نمرہ میں نے تم سے کہا تھا یہ مناسب نہیں مجھے بہت برا محسوس ہو رہا ہے۔ میرا حلیہ دیکھو کسی ڈرنک سرو کرتی ویٹرس سے زیادہ نا معقول لگ رہی ہوں۔‘‘ اس نے نمرہ کے کان میں سرگوشی کی۔ نمرہ مسکرادی تھی۔
’’دیٹس اوکے اس سب کے بارے میں مت سوچو۔ یہ جو سب ویٹر ویٹریس دکھائی دے رہے ہیں نا یہ بے چارے سبھی اسٹوڈنٹس ہیں جو تقریب میں شریک سبھی لوگوں سے زیادہ پڑھے لکھے اور معقول ہیں۔ مجبوری کیا کیا کرواتی ہے۔ اس کا اندازہ تم سے زیادہ بہتر کون کرسکتا ہے۔ کئی کوالیفائیڈ انجینئر‘ سافٹ ویئر انجینئر‘ میڈیا پرسنز‘ ایم بی ایز ان کی چاکری کر رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو کافی خوش نصیب قوم ہے یہ جو اتنے پڑھے لکھے لوگوں کو اپنے پائوں کے نیچے دبائے ہوئے ہے۔ دیکھو یہ قوم کل بھی راج کر رہی تھی اور آج بھی ہم پر قابض ہے۔‘‘ نمرہ مسکرائی تھی۔ وہ اس کی بات سے انکار نہیں کرسکی تھی۔ مگر ترقی کا راستا یہیں سے ہو کر تو گزرتا تھا۔ یہیں سے سارے خوابوں کی راہ ملتی تھی۔ سبھی پرابلمز کا حل بھی ملتا تھا۔ شاید یہی بات سب کو یہاں باندھے ہوئے تھی ویسے ہی جیسے وہ خود بندھی تھی۔
’’نمرہ مجھے چلنا چاہیے یہ ٹھیک نہیں ہے دیکھو مجھے سب کس طرح اور کیسی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔‘‘ وہ نمرہ کے کان کے قریب بولی تھی مگر نمرہ نے اس پر توجہ نہیں دی تھی۔ وہ اس وقت سامنے کھڑے ایم ڈی کی طرف دیکھ کر مسکرائی تھی۔ اسے ہاتھ ہلایا تھا اور پھر آگے بڑھ گئی تھی۔ ایلیاہ میر نے دیکھا تھا وہ غائب تھی۔ وہ کچھ سوچ کر پلٹی ارادہ اس تقریب سے نکل جانے کا تھا تبھی وہ کسی سے بری طرح ٹکرائی تھی۔
’’اف۔‘‘ ناک پر جیسے کوئی فولاد ٹکرایا تھا۔ اس کی سسکی نکلی تھی۔ شاید وہ لڑکھڑا کر گرنے کو تھی جب کسی نے اسے تھام لیا تھا۔ ایلیاہ میر نے آنکھیں کھول کر بہ مشکل سامنے کھڑے شخص کو دیکھا تھا اور آنکھیں یکدم پوری کھل گئیں۔ اس کے سامنے ریان حق کھڑا تھا۔
’’دیکھ کر نہیں چل سکتے آپ؟ یا آپ صرف مقامی لوگوں کو دیکھ کر چلتے ہیں۔‘‘ ایک زور دار طنز کیا تھا۔ جس کا اثر ریان حق پر قطعاً نہیں ہوا تھا۔
’’یہاں بھی جاب مانگنے آئی ہیں آپ۔‘‘ اس نے رسانیت سے طنز کیا تھا۔
’’اوہ۔‘‘ ایلیاہ میر نے ہونٹ سکوڑے تھے۔ وہ انسان اپنی حیثیت اور نشے میں پوری طرح چور تھا۔ اس کا دماغ ٹھکانے لگانا بہت ضروری تھا۔
’’ہاں جاب مانگنے آئی ہوں کوئی تکلیف ہے آپ کو؟‘‘ وہ سینے پر ہاتھ باندھتی ہوئی پر اعتماد انداز میں بولی۔ ریان حق نے اس کی سمت خاموشی سے دیکھا۔ کیا وہ اس کے کونفیڈنسز سے متاثر ہوا تھا۔ وہ گھورتی ہوئی کوئی اور سخت بات کہنے والی تھی۔ جب نمرہ نے کہیں سے نکل کر اسے کھینچ لیا تھا۔
’’میں نے حیات صاحب سے بات کی ہے تم ان سے مل لو وہاں سامنے کھڑے ہیں وہ۔‘‘ اس کے کان کے قریب منہ کر کے کہا تھا۔ وہ کچھ دیر خاموشی سے اس کی سمت دیکھتی رہی تھی۔ پھر بھٹکتی ہوئی نگاہ ریان حق پر گئی جو اس لمحے کسی پری وش کے ساتھ کھڑا کسی بات پر مسکرا رہا تھا۔ تو کیا مسکرانا بھی جانتا تھا وہ؟ اسے اتنا سینس تھا کہ کسی لڑکی کو کیسے ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ یا کیسے بات کی جاتی ہے؟ تو کیا وہ صرف مقامی لوگوں سے بات کرنے کے لیے پروگرام کیا گیا تھا؟
’’اف‘ یہ نسل پرستی ایک بلی یا کتے کو سڑک سے اٹھا کر اسے شاہانہ زندگی دینے والے کیسے دوغلے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انسانوں کے نام پر اپنی پالیسیز کو سخت کرلیتے ہیں اور مقامی جانوروں کے لیے بھی ان کے اندر انسانیت عود کر آجاتی ہے۔ اپنا جانور بھی خاص ہے اور دوسری کنٹری کا انسان بھی جانور سے بد تر۔‘‘ ایلیاہ میر نے سوچا تھا اور حیات صاحب کی طرف بڑھ آئی تھی۔
’’مجھے نمرہ نے…!‘‘ اس نے ابھی منہ کھولا ہی تھا۔ جب وہ مسکرا کر بولے۔
’’جانتا ہوں آپ ادھر آکر میری بات سنیں۔‘‘ وہ اسے شانے سے تھام کر ایک ویران گوشے میں لے گیا تھا۔ اس کے سامنے کھڑی ایلیاہ میر اسے منتظر نظروں سے دیکھنے لگی تھی۔ مسٹر حیات نے ڈرنک کا سپ لیا تھا اور پھر مسکراتے ہوئے اس کی سمت دیکھا’’مس میر بات اتنی سی ہے کہ آج کل کساد بازاری کا دور ہے اور…!‘‘
جانتی ہوں نئی بات کریں۔‘‘ وہ اکتا کر بولی۔ وہ اس کے تیور دیکھ کر مسکرایا تھا۔
’’خاصا ایٹی ٹیوڈ ہے آپ میں اور خود اعتمادی بھی مگر اپنی کنٹری میں سب چلتا ہے یہاں نہیں۔ یہاں کچھ کو آپریٹ کرنا پڑتا ہے۔‘‘ اس کی مسکراہٹ میں لین دین کا معاملہ تھا وہ چونکی تھی۔
’’مطلب۔‘‘ سوالیہ نظروں سے مسٹر حیات کو دیکھا تھا۔
’’مطلب مس میر میں آپ کی مدد کرسکتا ہوں۔ اگر کچھ مدد آپ میری کردیں تو؟‘‘
اس کی مسکراہٹ معنی خیز تھی۔ ایلیاہ میر کا دل چاہا تھا اس کا منہ نوچ لے۔ یہ شخص اس کارپوریٹ روبوٹ سے زیادہ گھٹیا لگا تھا۔ اس نے اپنے برائون بیلٹ ہونے کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہاتھ کا ایک بھرپور پنج بنا کر اس کے منہ پر مارا تھا۔ مسٹر حیات کو سمجھنے اور سوچنے کا وقت نہیں ملا تھا۔ جب تک وہ سنبھا وہ وہاں سے باہر نکل آئی تھی۔ اسے بے حد غصہ آرہا تھا سامنے پارکنگ میں ریان حق کی گاڑی دیکھ کر وہ رکی تھی۔ غصہ کہیں تو نکالنا تھا۔ اس نے ہیئر پن بالوں سے نکالی تھی اور اس کی گاڑی کے ٹائروں کی ہوا نکال دی تھی اور ایک گہری سانس لے کر اطمینان سے چلتی ہوئی وہاں سے نکل آئی تھی۔ اپنے بیڈ پر خالی پیٹ لیٹے ہوئے اسے ایسا کرنے پر کوئی ملال نہیں تھا۔ نہ کوئی پچھتاوا رات کے کسی پہر نمرہ کی کال آئی تھی۔
’’تم وہاں سے اتنی جلدی کیوں چلی آئیں؟ وہ بھی مجھے بنا بتائے بات ہوئی حیات صاحب سے۔ کیا کہا انہوں نے؟‘‘ نمرہ اس کی سچی پکی خیر خواہ تھی۔ مگر بات فی الحال بن نہیں رہی تھی۔ شاید مسٹر حیات نے اسے پنج والی بات نہیں بتائی تھی۔ تبھی وہ کہہ رہی تھی یہ سب۔
’’کچھ نہیں ہوا نمرہ جاب حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہے تم تو جانتی ہو۔ اینی وے مدد کرنے کے لیے شکریہ تم بہت ساتھ دے رہی ہو میرا۔‘‘
’’تم نے کچھ کھایا بھی ہے کہ نہیں؟ پیسے… اوہ تمہارے پاس پیسے نہیں ہیں نا‘ جانتی ہوں میں‘ میں کل آفس جانے سے پہلے…!‘‘
’’نہیں نمرہ اس کی ضرورت نہیں تھینکس تم پہلے ہی میری کافی مدد کرچکی ہو۔ مجھے خود کوئی راہ ڈھونڈنا ہوگی یہ مناسب نہیں تم فکر مت کرو۔ میں نے کھالیا تھا۔‘‘
’’کھالیا تھا‘ کہاں سے؟‘‘ نمرہ چونکی تھی۔
’’وہ میری لینڈ لیڈی کا آج اکیلے کھانے کا موڈ نہیں تھا تو اس نے بلا لیا۔ کافی لذیذ پکوان بناتی ہے وہ۔‘‘ اس نے صاف جھوٹ بولا تھا۔ وہ خود دار تھی۔ انا پرست تھی یوں نہیں جھک سکتی تھی۔ فون کا سلسلہ منقطع کرنے کے بعد اس نے کروٹ بدلی تھی اور سونے کی کوشش کرنے لگی تھی۔ صبح اٹھی تھی تو ارادہ جاب ڈھونڈنے کے لیے نکلنے کا تھا۔ تھبی کچھ دوستوں اور جاننے والوں کو میسجز کر کے اپنے لیے جاب ڈھونڈنے کی ریکوئیسٹ بھی کی تھی۔ وہ شاور کے لیے واش روم کی طرف بڑھ رہی تھی جب فون بجا۔ اسے ایک امید کی کرن دکھائی دی تھی۔ اجنبی نمبر دیکھ کر بھی کال ریسیو کرلی تھی۔ دوسری طرف کوئی خاتون تھیں اسے آواز کچھ جانی پہچانی سی لگ رہی تھی۔
’’آپ اس وقت آفس آسکتی ہیں ریان حق آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘ یہ وہی ریسیپشنسٹ تھی جس نے اسے اندر جانے سے روکا تھا اور جسے جھانسا دے کر وہ زبردستی ریان حق سے ملنے چلی گئی تھی۔ ریان حق کیوں ملنا چاہتا تھا اس سے؟اس کی سانس لمحہ بھر کو رکی تھی۔ اوہ‘ تو کہیں اس نے اسے اپنی گاڑی کے ٹائروں کی ہوا نکالتے دیکھ تو نہیں لیا تھا؟ اف خدا! اس نے اس کا کیا حشر کرنا تھا۔
اختیارات تو تھے اس کے پاس۔ کہیں وہ اسے جیل کی ہوا کھانے ہی نا بھجوا دیتا۔اس کے لیے یہ کیا مشکل تھا۔ مقامی بندہ تھا‘ امیر تھا کئی اختیارات تو رکھتا ہی تھا۔ وہ ہی غصے میں پاگل ہوگئی تھی۔ دھیان ہی نہیں رہا کہ کس سے الجھ رہی ہے۔ مسٹر حیات کا غصہ بھی اس کی گاڑی پر نکال دیا۔ اب ایک پل میں ہوش آیا تھا۔ فون کا سلسلہ منقطع کر کے وہ کچھ دیر سوچتی رہی تھی۔
’’نہیں‘ میں ریان حق سے ملنے نہیں جائوں گی۔‘‘ اس نے فیصلہ کن انداز میں سوچا تھا اور واش روم میں گھس گئی۔ وہ سارا دن اس نے سڑکیں ناپتے ہوئے گزارا تھا۔ تبھی دن کے اختتام پر ایک دوست کا میسج موصول ہوا تھا۔
’’میں ان دنوں ایک ریسٹورنٹ میں کام کر رہا ہوں۔ کوشش کر کے تمہارے لیے جگہ نکلوا سکتا ہوں۔ مگر ایس فوری نہیں ہوسکتا کچھ انتظار کرسکتی ہو تو میں بات کروں۔‘‘
کچھ امید کی کرن تو دکھائی دی تھی۔ چھوٹی جاب حاصل کرنا بھی کسی معرکے سے کم نہیں تھا۔ سو اس نے ہاں کردی تھی۔ سروائیو تو کرنا تھا اور اب کوئی راہ تو دکھائی دی تھی۔ کچھ نا ہونے سے ہونا بہتر تھا۔ جان پہچان کے بنا یہ ممکن نہیں تھا۔ وہ تھکن سے چور گھر پہنچی تھی جب نمرہ کا فون آیا تھا۔
’’میں نے اپنے ایک دوست سے کہا تھا تمہاری جاب کے لیے جاب بڑی نہیں ہے دو گھنٹوں کی ہے مگر تمہیں دو گھنٹوں کے پچیس پائونڈ ملیں گے۔ تمہیں ریسٹورنٹس کے مسالوں کو چھانٹ کر الگ الگ جار میں بھرنا ہے۔ بس اتنی سی جاب ہے۔ مگر اس کی ٹائمنگ رات کی بھی ہوسکتی ہے۔ آج کل رات میں حملہ آوروں کے قصے عام ہیں۔ موبائل اور رقم چھیننے کے واقعات سامنے آچکے ہیں۔ کچھ راہ گیر تو بری طرح زخمی بھی ہوچکے ہیں۔ میں تمہیں اس جاب کو کرنے کا مشورہ نہیں دے سکتی۔ مگر…!‘‘ نمرہ نے آخر میں ایک سوالیہ نشان چھوڑا تھا وہ تلخی سے مسکرا دی تھی۔
’’یہ لندن شہر عجیب ہے۔ مقامی لوگ اسے فارنرز کی سٹی کہتے ہیں اور فارنرز یہاں کتے سے بد تر زندگی جیتے ہیں۔ میں ان گروہوں کے قصے پڑھ چکی ہوں۔ پریشان مت ہو۔ میں برائون بیلٹ ہوں مارشل آرٹ سے واقف ہوں مجھ سے ٹکرانے والا خالی ہاتھ واپس نہیں جائے گا۔ میں یہ جاب ضرور کرنا چاہوں گی۔ نا ہونے سے ہونا بہتر ہے۔‘‘
وہ اس تھوڑے کو بہت جان رہی تھی۔ کیونکہ اس نے سروائیو کرنا تھا۔ ایک مہینے کے سات ساڑھے سات سو پائونڈ کچھ برا نہیں تھا۔ وہ گھر کچھ تو بھجوا سکتی تھی۔ دو سوپائونڈز شیئرنگ کمرے کے نکال کر بھی کچھ ہاتھ آسکتا تھا۔ جب تک دوسرے ریسٹورینٹ کی بات ہوتی اور بنتی تب تک وہ فارغ رہنا نہیں چاہتی تھی۔ ایک اطمینان کی سانس لیتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں آگئی تھی۔ بیڈ پر لیٹتے ہوئے صبح
کی کال یاد آگئی تھی۔
یہ ریان حق کتنا عجیب بندہ تھا۔ کیا بگڑ جاتا اگر وہ مدد کردیتا۔ وہ اس کی جاننے والی تھی نا کوئی رشتے دار وہ صرف ہم وطن ہونے پر کتنی امیدیں لگا بیٹھی تھی اور وہ شخص بھی ایک کائیاں تھا اس نے صرف ٹائروں کی ہوا ہی تو نکالی تھی اور اس نے باز پرس کرنے وہاں بلوایا تھا۔ خدا گنجے کو ناخن نہ دے۔ اس کے پاس دو پیسے کیا آگئے تھے یہاں اس سر زمین پر پیدا کیا ہوگیا خود کو خدا سمجھنے لگا تھا۔ کتنے عجیب ہوتے ہیں ایسے لوگ۔
وہ کتنی دیر سوچتی رہی تھی۔ دو بار ملی تھی اس بندے سے یا پھر تین بار مگر وہ کوئی خاص تاثر نہیں چھوڑ پایا تھا یا پھر وہی امپریسڈ ہونے والوں میں سے نہیں تھی۔ تمام سوچوں کو ایک طرف رکھ کر وہ آنکھیں موند کر سونے کے جتن کرنے لگی تھی۔
…٭٭٭…
کچھ لوگ شاید دوسروں سے زیادہ حوصلہ رکھتے ہیں تبھی مشکلات بھی اتنی ہی وافر مقدار میں تعاقب میں رہتی ہیں۔ ایلیاہ میر نے ہوش سنبھالا تھا تو اطراف کی کچھ سمجھ آنے لگی تھی۔ گھر میں ممی اور تین بھائی بہن تھے۔ پاپا کبھی کبھی آتے تھے۔ ممی سے ان کی دوسری شادی تھی۔ وہ اپنی پہلی بیوی کے ساتھ رہ رہے تھے سو ان کے پاس زیادہ دیر نہیں ٹھہرتے تھے۔ آتے بھی تھے تو قیام مختصر ہوتا تھا۔ وہ گریجویشن میں تھی جب خبر ہوئی اس کی نسبت بچپن سے پاپا نے اپنے بھانجے سے طے کردی ہے اور اس کی شادی بھی اس سے ہونا قرار پائی ہے۔ اس کے ذہن میں کوئی خاص امیج نہیں تھا۔ اس نے خواب دیکھنا نہیں سیکھا تھا۔ حقیقت پسندی نے اسے خواب دیکھنے کی عادت پڑنے ہی نہیں دی تھی۔ ممی کو سخت محنت کر کے گھر چلاتے دیکھا تھا۔ وہ دو جابز کر رہی تھیں۔ پاپا گھرچلانے میں ان کی مدد نہیں کرتے تھے کہ ان کے اور دیگر بچے بھی تھے۔ پھوپھو جب بھی آتیں طنز کے تیر چلا جاتیں۔ شاید وہ انہیں اتنی پسند نہیں تھی یا پھر پسند ہوتی اگر وہ پاپا کی دوسری بیوی کی اولاد نہ ہوتی۔ سارا بھید شاید اس رشتے سے تھا۔ اسے ہمیشہ لگتا تھا وہ اور ممی پھوپھو کی پسندیدہ نہیں وہ اس رشتے کے لیے کوئی فیلنگز نہیں رکھتی تھی۔ بہت برف سا احساس تھا اس رشتے کا۔ حمزہ کو بھی اس سے شاید کوئی خاص انٹرسٹ نہ تھا۔ تبھی وہ ضروری یا غیر ضروری رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کرتا تھا نا ان میں زیادہ بات چیت ہوتی تھی۔ وہ ایک بار گھر آیا تھا تو ممی نہیں تھیں۔ تبھی اس نے چائے کا پوچھا تھا۔ وہ کچھ دیر اس کو بغور دیکھتا رہا تھا پھر جانے کیوں مسکرا دیا تھا۔
’’جانے کیوں لگتا ہے تم کیکٹس کے پھول جیسی ہو۔ جسے دیکھو تو شاید خوشنما لگے مگر جس سے محبت نہیں ہوسکتی۔‘‘ وہ پہلی بار تھا جب وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا تھا۔ وہ معنی سمجھ نہیں پائی تھی۔ پوچھ بھی نہیں پائی تھی۔ وہ کیون اسے کیکٹس کے پھول سے ملا رہا تھا۔ محبت اتنی اذیت ناک تھی‘ یا بہت خوب صورت یا پھر اس سے محبت کا ہونا اتنا انوکھا اور نایاب تھا جیسے کیکٹس کا پھول؟ وہ اپنے طور پر معنی تلاشتی تھی۔ پہلی بار تھا جب اس نے محبت کا سوچا تھا۔ احساس ہوا تھا کہ محبت بھی کوئی شے ہوتی ہے۔ مگر وہ جو اس کا ہم سفر بننے جا رہا تھا اسے اس سے محبت نہیں تھی؟ اگر محبت نہیں تھی تو عمر ساتھ کیسے گزرتی۔ ایک عمر جب ایک لمحے کو سن کر اس کا دل گھٹن سے بھر گیا تھا۔ اس نے اپنی ممی کو راتوں کو اٹھ کر روتے دیکھا تھا۔ شادی اگر سمجھوتا تھی تو کیوں نباہ رہی تھیں وہ؟ کیونکہ وہ سہام میر سے محبت کرتی تھیں۔ پورا خاندان جب خلاف تھا تو سہام میر نے ان سے شادی کیوں کی تھی؟ وہ اس سوال کا جواب نہیں ڈھونڈ پائی تھی۔ مگر یہ بات اس نے محسوس کی تھی کہ وہ یا اس کی ماں سہام میر کی فیملی کی پسندیدہ کبھی نہیں تھیں۔ یہ رشتے مخالف سمت کیوں بہتے ہیں۔ اس کا پتا وہ کبھی نہیں لگا پائی تھی۔
وہ اس راز کی کھوج میں سوچتی رہتی تھی۔ مگریہ سوچ اس روز تھمی جب پھوپھو کسی بات سے ممی سے الجھ پڑیں۔ جانے کیابات ہوئی تھی وہ کالج سے واپس لوٹی تھی جب ممی کو اس نے روتے دیکھا اور اس کے بعد جب وہ گرنے کو تھیں اس نے خود آگے بڑھ کر ان کو اپنے بازوئوں میں تھاما تھا۔ کیا بات ہوئی تھی؟ کس بات کا صدمہ پہنچا تھا۔ وہ کس سے پوچھتی۔ اس کے بعد ممی تو ہوش میں ہی نہیں آئیں پندرہ دن تک وہ کوما میں رہیں اور پھر اسی دوران ان کی ڈیتھ ہوگئی۔ صدمہ کیا ہوتا ہے‘ دکھ کسے کہتے ہیں؟ یہ بات اس نے پہلی بار اس شدت سے جانی تھی۔ وہ سرے ڈھونڈتی رہی تھی دکھ سے نمٹنے اور نبرد آزمانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ممی گئیں تو ساری ذمہ داری اس کے کاندھوں پر ڈال گئیں۔ اپنی جگہ اسے کھڑا کر گئیں ممی کو کیسے لگا تھا وہ اتنی بڑی ذمہ داری نبھا سکتی ہے؟ وہ تو ابھی زندگی کے معنی بھی ٹھیک سے نہیں جانتی تھی۔ ابھی تو اسے ڈھنگ سے دنیا کی سمجھ بھی نہیں آئی تھی پھر کجا اتنی ساری ذمہ داریوں کو نبھانا۔ وہ ایسے محسوس کر رہی تھی جیسے کوئی پہاڑ اس کے سر پر آن پڑا ہوا۔ ممی کی موت کے بعد حمزہ سے صرف ایک بار بات ہوئی تھی۔ وہ اسے خاموشی سے دیکھتا رہا پھر بولا تھا
’’اس رشتے کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا مجھے سمجھ نہیں آتا یہ آگے کیسے بڑھے گا‘ صائمہ مامی تمہیں اپنی جگہ کھڑا کر گئیں تم ساری عمر اب ان رشتوں کا بوجھ ڈھوتی رہو گی اور… مجھے نہیں لگتا یہ مناسب ہے کہ…!‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا تھا۔
وہ سانس روکے اسے سن رہی تھی۔ جب وہ شاید اس کا خیال کر کے مسکرایا تھا۔
’’تم بہت خوب صورت ہو اگر اچھی نہ لگو تو یہ عجیب ہوگا۔ محبت سے نابلد سہی مگر مرد کی آنکھ تو رکھتا ہوں اگر تم باعث کشش لگتی ہو تو اس سے انکار نہیں کرسکتا۔‘‘
وہ مسکرائی نہیں تھی۔ وہ اگر مذاق بھی تھا تو بہت بھونڈا تھا۔ وہ بتانا چاہ رہا تھا کہ وہ اس رشتے کو آگے نہیں بڑھا سکتا کیونکہ اس پر ذمے داریوں کا بوجھ ہے۔ اس سے آگے اسے کچھ سنائی نہیں دیا تھا۔ وہ یہ بات فراموش نہیں کرسکتی تھی کہ وہ ایک لڑکی تھی‘ نا وہ یہ فراموش کرسکتی تھی کہ اس سے چھوٹے بہن بھائی اپنی ضرورتوں کے لیے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ وہ بہت مشکل سے ممی کی دوست کی مدد سے ایک جاب ڈھونڈ پائی تھی۔ مگر اس کے لیے اسے اپنی تعلیم جاری رکھنا محال ہو رہا تھا۔ مگر اسے کچھ بھی کر کے خود کو آگے ضرور بڑھانا تھا کہ اگر اس کا سفر رک جاتا تو باقی سب کے خواب بھی منجمد ہوجاتے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...