میرے بھاری جوتے خزاں گزیدہ سوکھے پتوں کی احتجاجی آوازوں سے بے نیاز، انہیں روندتے چلے جا رہے تھے۔ میری کیفیت سے بے پروا زوال پذیر سورج نارنجی اُفق میں غروب سے قبل کی آخری رنگ ریزی میں مگن تھا۔
میں زرد پڑتی گھاس کے بیچ لیٹی گرد پوش پگڈنڈی پر خود کو گھسیٹتا اس کے قریب ہوتا جا رہا تھا۔
سیاہ ریشمی زلفوں کی چھدری اوٹ سے ماہتاب چہرہ ضو فشاں ہوا۔
اُداسی نے چاروں اور ڈیرے ڈال رکھے تھے اور فضا سوگوار سی تھی۔
وہی چوبی بنچ ادھر بھی، جھکے ہوئے گھنے پیڑ کے نیچے۔
یا مظہر العجائب۔
وہ چونکی نہ میری طرف متوجہ ہوئی۔
یہ نا ممکن تھا کہ اس نے میرا وہاں آنا محسوس نہ کیا ہو۔ وہ ہمیشہ، دیکھے بنا مجھے پہچان لیا کرتی تھی۔ اسی کے بلاوے پر تو میں آیا تھا۔ اسی کی محبت کا اَسیر، سحر میں جکڑا، کشاں کشاں اس مقام حیرت پر آ وارد ہوا تھا۔ پھر یہ تمکنت، یہ بے نیازی اور بے اعتنائی؟
کوئی ذی روح نہیں تھا اس وسیع و عریض مقام وحشت پر۔ بس ہم دو تھے اور لامتناہی پھیلاؤ کا مظہر گہرا سکوت۔
ایسا سکوت جو ہمیں تحلیل کر کے خود میں جذب کر لینے پر قادر تھا۔
کائنات رکی ہوئی، وقت تھما ہوا، آسمان جھکا ہوا، متوجہ اور زمان و مکان ساکت و حیران۔
ہر گاہ گہری گمبھیر خاموشی۔
میرا ورود اس متعین وسیع کینوس میں بے اثر و بے معنی تھا یا شاید وہ لا علم تھی۔
اپنی ہی سوچوں کے گرداب میں غرق۔
اپنی ذات میں مشغول۔
پھر ایک زمانے کے بعد سکوت مرتعش ہوا۔ فضا گنگنا اٹھی۔
’’بالآخر پہنچ ہی گئے تم یہاں؟ ‘‘
اُس نے میری طرف دیکھے بغیر کہا۔
اسے پتہ چل چکا تھا کہ میں بھٹکتا بھٹکتا قرنوں کی گردشوں کا اسیر، اُس کے سیارے پر آ پہنچا تھا۔ اُس کے ساتھ آہستگی سے چوبی بنچ پر بیٹھ چکا تھا۔ بالکل ویسے جیسے کبھی ہم بیٹھا کرتے تھے۔
بہت دیر ہم دونوں چپ رہے۔
درختوں کے سائے لامبے ہو کر سہ پہر کو شام کرنے کے درپے تھے۔
’’یہ لارنس گارڈن تو نہیں ہے نا، جہاں ہم نے سفید چادر بچھا کر جنوری کی دھوپ کھائی تھی۔‘‘
ناگاہ اس کی سرسراتی، نامانوس آواز نے میری سماعتوں پر غیر متوقع دستک دی۔
’’یاد ہے تمہیں، ہمارے سر مَس ہو رہے تھے۔ تمہاری باتیں میرے کان میں گدگدی کرتی تھیں۔ تم بولتے ہی جا رہے تھے۔ کبھی نثر اور کبھی نظم۔
کیا غنائیت تھی تمہاری گفتگو میں۔
ٹھہر ٹھہر کر صاف اور واضح لفظ، کیا روانی سے پھسلتے جاتے تھے تمہارے تراشیدہ ہونٹوں سے۔
کیا گنگنا رہے تھے تم؟ ‘‘
اس نے یہ ساری باتیں ایک غیر جذباتی، سرد اور سپاٹ انداز میں کر دیں۔
جیسے کوئی رو بوٹ۔
اِس گفتگو کا متن، اسلوب اظہار سے لگا نہیں کھا رہا تھا۔
’’اور وہ رات بھی یاد ہو گی۔
کتنی شدید بارش ہو رہی تھی باہر۔
تیز ہوا بھی گاہے بگاہے دروازوں کھڑکیوں کو بجا کر اپنی موجودگی کی سند لے رہی تھی۔
رات کا پچھلا پہر۔
اور تم نے اپنی ساری نظمیں سارے گیت مجھے سنا ڈالے ۔‘‘
میرے دل کو ایک دھکا سا لگا۔
وہ پر فسوں بھیگی سرد رات میری یادداشت کی کھڑکی کے رستے سیدھی میری روح میں اتر گئی۔
میں بھلا کیا جواب دیتا؟
میں تصورِ وصل کے سحر کا اسیر۔
ہوش میں تھا یا نہیں کچھ ٹھیک سے یاد نہیں۔
مکمل طور پر اس کی دسترس، اس کی رسائی میں تھا۔ مجھے بے بسی کا احساس ہوا۔
میری آنکھیں نمناک ہو گئیں۔
شدید خواہش ہوئی کہ اسے ساتھ لگا کر بھینچ لوں۔ بہت زور سے۔
اتنا زور سے کہ وہ مجھ میں مدغم ہو جائے اور ہم ایک وجود بن جائیں۔
جو ایک وجود تشکیل پائے وہ اس کا ہو یا میرا، یہ میرے لئے قطعی اہم نہیں تھا۔
بس وہی ایک جسم ہم دونوں ہوں۔
خاموشی کا ایک وقفہ آیا۔
پھر میں نے اپنی آواز سنی،
’’جو تم کہا کرتی تھیں کہ محبت رونا ہی رونا ہے۔ مجھے بہت دیر بعد تمہاری اِس بات کی سمجھ آئی‘‘ ۔
یہ اعتراف تھا اور شاید بہت تاخیر سے کیا گیا اظہار بھی۔
میں کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا لیکن اُس کی پراسرار سنجیدگی نے میری ہمت چھین لی۔
’’کدھر آ نکلے ہو تم؟
اتنی صدیوں بعد؟ ‘‘
اُس کی مترنم آواز جیسے سرسرا گئی۔
وہ بولنے میں اپنے مخصوص نون غنہ کے صوتی آہنگ سے کچھ ہٹ کر تاثر دے رہی تھی۔
مجھے اُس کے لہجے میں پنہاں اداسی اور گلہ کھل گیا۔
میرا کلیجہ کٹ کر رہ گیا۔
’’میں اپنا سوال اور ہفت جہاں کا بوجھ اٹھائے تمہیں ڈھونڈھتا پھرا ہوں۔ ہزاروں سال۔ کروڑوں میل۔ بے حد و حساب۔
تمہیں نے تو کہا تھا نا کہ آنا میرے پاس۔
سو اَب آیا ہوں۔
تیرے حکم کا پابند۔
تیری چاہت کا قیدی۔‘‘
اس کی بے اعتنائی میں بظاہر کوئی فرق نہ آیا۔
وہ کہیں اور ہی کھوئی رہی اور ایک توقف کے بعد پھر سرسراتی آواز میں گویا ہوئی،
’’تو میں کہاں تھی؟
میں تو کہیں بھی نہیں گئی۔
میں نے کہا تو تھا کہ میں نے کہاں جانا ہے۔
ہمیشہ اور ہر لڑائی کے بعد۔
جب تم پچھتاتے تھے اور پھر اپنی چاہ سے مغلوب مجھے ڈھونڈنے، منانے نکلتے تھے۔
شرمندہ سے۔
تو کیا کہتی تھی میں؟
یہی نا کہ میں نے کہاں جانا ہے؟ تم سے تو کبھی جھوٹ بول ہی نہیں سکی۔
گئی نہیں کہیں۔ یہیں منڈلاتی رہی تمہارے اردگرد۔‘‘
مجھے لگا کہ میری آنکھیں پھر بھر آئی ہیں۔
مرد ہو کر اتنا رقیق القلب ہونا زیب نہیں دیتا لیکن سب کچھ اپنے بس میں تھوڑے ہی ہوتا ہے۔
اس کے الفاظ بہرحال امید کے کئی در بھی وا کر گئے۔
مجھے خود کو سنبھال کر بولنا پڑا۔
’’تو کہاں گئی تھیں پھر؟
کیوں گئی تھیں؟
یہ سوچے بنا کہ میرا کیا ہو گا۔
کیوں اتنا بے بس کیا۔
یہ جان کر بھی کہ جیوں گا تو بھی زندگی مرنے سے بدتر ہو گی۔
اگر میں بھٹکتا ہوا یہاں نہ آ نکلتا تو صدیوں بھٹکتا ہی رہ جاتا۔
آوارہ بے منزل۔‘‘
اس کی کسی حرکت کسی اِشارے سے نہ لگا کہ وہ کچھ پگھلی ہے۔ پسیجی ہے۔
ایک بے حس خودکار سے میکانکی انداز میں وہ سب مثبت باتیں کرتی چلی جا رہی تھی اور میرے نوحے بھی سن رہی تھی۔
میں حیران تھا کہ لفظ اور جملے جو مجھے موم کئے دیتے ہیں اس نازک طبع پر کیسے غیر موثر ہیں۔
ایک بوجھل وقفے کے بعد مجھے اس کی آواز پھر سنائی دی۔
’’ہماری آخری بات تو یاد ہو گی نا تمہیں؟ ‘‘
میں ذرا گھبرایا اور سوچ میں پڑ گیا۔
پھر اسی کی مدد چاہی۔
’’کون سی آخری بات؟
بھلا بات بھی آخری ہوتی ہے اگر دل کی بات ہو؟ ‘‘
اس نے پہلی بار میری طرف گردن گھمائی۔
اس کی آنکھوں میں عجب سکون ہلکورے لے رہا تھا۔ جسم اور اعضاء جیسے کیف آور کسلمندی سے مغلوب ہوں، سو آنکھیں بھی اِس کیفیت کے زیر اثر۔
اداس سی آشنائی کی رمق نظر نواز ہوئی لیکن مجموعی تاثر بے پروائی اور لا غرضی ہی کا ابھرا۔
الفاظ جیسے میرے حلق میں پھنس سے گئے۔
ذرا سا رک کر میں نے ہمت مجتمع کی اور پھر بول پڑا،
’’معاف کر دو مجھے۔ تمہارے فلسفے تب نہ سمجھ سکا کبھی تو اب بھلا کیا سمجھوں گا؟ ‘‘
اس نے نظریں پھر افق پر گاڑ لیں اور کھوئی ہوئی سی آہستگی سے بولی،
’’اگر واقعی سمجھنا چاہتے ہو تو میں مدد کروں؟
کیا کہنا ہے؟ کیا سمجھنا ہے؟
خون ہوتے ارمانوں کا نوحہ؟
ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کرچیاں؟
بکھرے ہوئے سپنے؟
خدا کے لئے۔ پھر سستی رومانویت نہ شروع کر دینا۔‘‘
مجھے لگا کہ میری رومانوی یاسیت پسندی کے نقوش اس کے ذہن کے تاریک گوشوں میں ہنوز محفوظ پڑے تھے۔
شام کی آمد سے قبل واپسی کے متمنی پرندوں کے غول بلند قامت گھنے درختوں کی سمت محو پرواز نظر آئے۔
ان کی چہکار میں امید سے زیادہ فکر آگیں مایوسی محسوس ہوئی۔
پرندوں کی پرواز بھی سست رَو سی تھی۔
’’اچھا آج تو یہ بتا دو کہ وہ پیار تھا کہ ضرورت؟ ‘‘
میں موقع غنیمت جان کر پھر گویا ہوا۔
یہ کئی بار کا پوچھا سوال تھا۔
ہنوز جواب کی تشنگی سے معمور۔
’’اُف‘‘ ۔
وہ بس اتنا ہی بولی۔
میں پھر گویا ہوا،
’’اچھا۔ خیر سنو تو۔
وہ لائبریری میں کتابوں سے لبریز بڑی بڑی الماریوں کے بیچ تنگ، نیم تاریک کونے میں جب میں نے پہلی بار تمہارے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔ ایک کپکپی سی تمہارے اَن چھوئے، شفاف، معطر جسم سے نکل کر میری ہتھیلی سے گزر گئی تھی۔
ہر مشام جاں کو مہکا گئی تھی، لرزیدہ کر گئی تھی۔
اِس کنواری لرزش کے معنی کھول دو۔‘‘
اس نے گردن کو ہلکا سا خم دے کر دزدیدہ نظروں سے مجھے دیکھا،
’’تم ابھی بھی وہی رومانویت میں پھنسے احمق ہو؟ ‘‘
میں بھی موضوع بدلنے والا نہیں تھا۔
’’وہ لرزش، وہ معطر، مقدس کپکپی تمہارے جسم سے بہی تھی۔ میرے جسم نے تو محسوس کی تھی۔
بھیگا تھا اس کی لذت میں۔
شرابور ہوا تھا۔
اس کا ہدف تھا ماخذ نہیں۔‘‘
میں سراپا سوال بن گیا۔ گویا جواب پر میری مکتی منحصر تھی۔
مگر جواب تو اسی نے دینا تھا نا۔ اگر چاہتی،
آہستگی سے بولی
’’کوئی جواب نہیں۔
ایسے سوالوں کا جواب کبھی دیا ہے میں نے۔
کیا وہی ایک تحیر کا فسوں زدہ لمحہ تھا تمہاری زندگی میں جو بھولے نہیں بھولتا؟ ‘‘
مجھے جواب کی تلاش میں کوئی تامل نہ ہوا۔
جیسے سوچنے کی بھی ضرورت نہ ہو۔
جواب سامنے دھرا ہو۔
’’ارے نہیں۔ سب سے آسودہ، سب سے تسکین آور سحر انگیز لمحہ تو وہ تھا جب تم اس رات نڈھال ہو کر میرے سینے پر سر رکھ کر گہری نیند سو گئیں۔
اتنی مست کہ ہلکے ہلکے خراٹے لے رہی تھیں۔
حالانکہ تم خراٹے نہیں لیتیں۔
میں سویا تھوڑے ہی تھا۔
میں تو مد ہوش تھا۔
سر شار۔
نیم وا آنکھوں کے دیدبان سے چپکا، تیری دید کے نشے میں مست۔
تیری آسودگی میرے رگ و پے میں سرائت کر رہی تھی اور میں مد ہوش۔
میں تو بس تمہیں دیکھتا رہا تا آنکہ تم پھر جاگ گئیں۔‘‘
مجھے لگا کہ اس بات نے اس کو بھی جھنجھوڑ دیا ہے۔ جیسے وہ بھی اس مشترکہ پل کی تلاش میں نکل گئی ہے جو زندگی کا حاصل تھا۔
پھر سنبھلی اور بولی،
’’ارے بس کر دو۔
یادوں کو یادیں ہی رہنے دو۔
انہیں کچھ بے بس لمحوں نے تو زندگی کو معنی دئیے۔ ورنہ مجھے تو جانتے ہو۔
ٹھنڈی اور قانع۔
لا غرض۔
اپنی بولو۔
کیوں ڈھونڈھتے رہے؟
میری نا رسائی تمہارا مقدر تو نہیں تھی۔
پھر کیا گم کر بیٹھے؟ کیا کھو گیا؟
بھرے پڑے تھے۔
سب میسر۔
پھر کیوں فقیر بنے پھرتے تھے؟
کیوں بھکاری بنے پھرتے ہو، بھٹکتے، ابھی تک؟
کیا چاہئے تمہیں شہزادے؟
کیا کمی رہ گئی کہیں؟ مرضی کے مالک!‘‘
اُس کا محبوب موضوع چھڑ رہا تھا بالآخر۔
اِس موضوع پر بولتے اس کے لہجے میں ہمیشہ پیار کے ساتھ استہزاء شامل ہو جاتا تھا۔
جواب تو تھا میرے پاس۔
اتنا واضح ہو چکا تھا کہ شاید پہلے کبھی نہ ہوا ہو۔
’’کچھ تو کھو جاتا ہے جو بے کل رکھتا ہے۔ مرضی کا مالک کون ہے اور کتنا ہے۔ یہ نہ تب طے ہوا تھا نہ اب طے ہو سکے گا۔
ہر کسی کا اپنا مشاہدہ ہے اور اپنا گمان۔
ہر کسی کا اپنا جبر بھی ہے۔
حصہ تو بٹانا پڑتا ہے نا۔
آسمان کہکشاؤں سے سجا نظر آتا ہے۔
کوئی وہاں پہنچے تو دیکھے کہ آسماں تو خالی ہے۔ کہکشاں تو کوئی اور ہی روشنی بناتی ہے کسی اور ہی ذریعہ سے گزر کر۔
خوبصورتی ایک کم از کم بُعد کی محتاج ہوتی ہے۔ ذرا سی نا رسائی مانگتی ہے۔
کبھی کسی خوبصورت چہرے کو انتہائی قریب سے دیکھا ہے؟
نہیں نظر آتا نا۔
ہاں! جہاں نظر دم توڑتی ہے تو قربت لمس میں ڈھلتی ہے۔
بُو باس میں رچ کر بکھرتی ہے۔
قربت ادغام کی دعوت ہو سکتی ہے لیکن کشش اور خوبصورتی کی ترسیل و تقویم بہرحال فاصلے کی محتاج ہے۔
سو سمجھ لو کہ کہکشاں دور ہی سے دیکھنے کی چیز ہے۔ مسحور ہونے کے لئے ۔‘‘
میری باتوں نے شاید اس کو اور بھی دکھی کر دیا تھا۔
اب جو بولی تو اُس کی آواز میں پژمردگی واضح تھی۔
’’بس یہی باتیں کرنے آئے ہو اِتنی دِقت اُٹھا کر، اتنی دور؟ ‘‘
میری بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔
میں نے پھر بات شروع کی،
’’تم بزُعم خویش ایک دوسرے کو سانس لینے کی جگہ دینے کی بھی قائل تھیں اور میری ناک اور منہ بند کر کے تماشہ بھی دیکھتی تھیں۔
کبھی لگتا تم اس نظریہ کی پیروکار ہو کہ انسان بنیادی طور پر ایذا پسند ہے۔
کبھی ایذا جھیل کر مزہ لیتا ہے اور کبھی ایذا رسانی سے۔
مجھے دفاعی پوزیشن میں ڈال کر زچ کر کے کیا لذت کشید کرتی تھیں؟ ‘‘
لامبے، پھیلے قدیم درختوں پر پرندے اب سستارہے تھے۔ ان کی آوازوں میں چہکار نہیں تھی۔ ایک سرگوشیوں کی سی سسکاریاں تھیں۔
جانے کیوں پرندے بہت اداس اور سوگوار لگ رہے تھے۔ یہ سب کچھ قدرے غیر حقیقی سا تھا۔
فسوں زدہ سا۔
جیسے کوئی رومانوی فلم سست روی سے چل رہی ہو۔
میں نے ایک گہری ٹھنڈی سانس لی۔
فضا مغموم تر ہو گئی۔
یہ موقع تھا کہ میں موضوع بدل دوں۔
’’باتیں تو صدیوں میں ختم نہ ہوں۔
بقول تمہارے جب کوئی بات آخری بات ہوتی ہی نہیں تو باتیں ختم بھی کیونکر ہوں۔
چلو لگے ہاتھ، بالآخر، آج یہ فیصلہ بھی کر لیں کہ قصور کس کا تھا۔‘‘
وہ ذرا سا چونکی۔ اور بولی
’’واہ صاحب! ۔
اگر یہ فیصلہ آسان ہوتا تو ہو چکا ہوتا۔
عام بات یہ ہے کہ تمہارا۔
لیکن رد عمل میں تم فوراً کہو گے کہ نہیں تمہارا۔
ایک اور بحث۔ ایک اور لڑائی۔
تو جان چھڑانے کو یا خود کو ایثار پیشہ ثابت کرنے کو میں کہتی ہوں کہ میرا۔
تو بات نپٹ گئی کیا؟
ایک اور بھی حل ہے۔
ایک تیسرا اور آسان راستہ۔
تقدیر کا۔
تو کیا تم مطمئن ہو گئے؟
اب بولو کوئی چوتھا راستہ ہے؟
چلو مان لیتے ہیں۔ بھئی معاشرے کا۔ دنیا کا۔ سب کا۔
اب بولو تمہاری آخری بات ختم ہوئی؟
باتوں کے تم شوقین ہو سدا کے۔
صدیاں گزار دو گے باتوں میں۔
وہ دیکھو کون آیا ہے تمہیں لینے ۔‘‘
جھاڑ جھنکاڑ ہٹاتے، بچتے بچاتے، لمبی خودرَو گھاس کو روندتے وہ مجھ تک آ پہنچا۔
’’بابو جی!
باجی کہہ رہی ہیں میں تھک گئی ہوں ٹیکسی میں بیٹھے بیٹھے۔
جہاز کا وقت نکلا جا رہا ہے۔
فاتحہ پڑھ لی ہے تو اب آ جائیں۔‘‘
٭٭٭