’’بابا کانا ٹیم پیس ! بابا کانا ٹیم پیس!‘‘کے آوازے کستے ہوئے ہم اس سے دور بھاگ جاتے۔ وہ ہمارے پیچھے گالیاں دیتا ہوا کچھ فاصلے تک بھاگتا، پھر کوئی پتھر اٹھا کر پورے زور سے ہماری طرف پھینک دیتا جو کافی پیچھے رہ جاتا۔ ہم اس کی سخت مزاجی کو جانتے تھے لہٰذا ہمیشہ اس پر اس وقت آوازہ کستے جب ہمیں اطمینان ہو تا کہ پکڑے نہ جاسکیں گے یا اس کے پتھر کی زد سے دور رہیں گے۔
گاؤں کے بچوں کو اس سے کچھ زیادہ ہی چڑ تھی۔ کوئی بچہ ہی ایسا ہو گا جو اس سے مذاق کر کے نہ بھاگتا ہو۔ گاؤں کا یہ واحد نائی جس کی بچوں کے ساتھ یوں کھلے بندوں دشمنی چلی آتی تھی۔ بچے، جن میں میں خود بھی شامل تھا، نہ صرف اس پر آوازے کستے بلکہ شدید نفرت بھی کرتے۔
اس کی ایک آنکھ کانی تھی۔ایک ٹانگ سے لنگڑا کر چلتا اور ہر قدم کے ساتھ ساٹھ درجے کے زاویے تک دائیں طرف کو جھک جاتا۔ پاؤں میں ٹائر کے بنے ہوئے جوتوں کے سوا میں نے کوئی جوتا نہیں دیکھا۔ شکل انتہائی کریہہ جس سے دیکھنے والے کو گھن آتی۔ جہاں سے گزرتا، بد بو اور تعفن پھیلاتا جاتا۔ شاید عید بقر عید نہاتا ہو، لیکن اکثر یہی کہتا سنا گیا کہ جو بندہ نہانے کے لئے سواکلو پانی سے زیادہ استعمال کرے گا وہ خدا کا عذاب اٹھائے گا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس کی ایک لنگی اور ایک ہی کرتا تھا۔ گرمیوں میں جب وہ اپنی چارپائی باہر کھلی فضا میں رکھ کر سوتا تو وہی لنگی کمر سے کھول کر اوپر لے لیتا تا کہ مچھروں سے بچا رہے۔ گاؤں کے اکثر لوگوں نے اسے اس بات پر ٹوکا بھی، مگر وہ اپنی دھن کا پکا تھا۔ غالباً نیا کپڑا لینے یا پرانے کو اتار کر دھونے کے جھنجھٹ میں وہ کبھی نہیں پڑا۔ کپڑے دھونا تو دور کی بات، اس نے اپنے چائے اور ہانڈی روٹی کے برتن بھی شاید ہی کبھی دھوئے ہوں، جو اس واحد جھونپڑی میں کھلے پڑے رہتے تھے جس کے آگے نہ کوئی صحن تھا، نہ صحن کی دیوار۔صبح چائے بناتے ہوئے راہ چلتوں کو نہ کبھی ان نے چائے کی دعوت دی اور نہ ہی کسی نے شریک ہونے کی خواہش کی۔ چائے پی کر اپنے اوزاروں کی پوٹلی کھولتا اور نو بجے تک وہیں بیٹھا دیوار کے سائے میں لو گوں کی حجامت بناتا جو اس کے دروازے پر چل کر آتے۔ اگر کوئی چائے پینے کے دوران آ جاتا تو ایسے فقیرانہ استغنا برتتا کہ آدمی رشک سے مر جائے۔ بال کترتے وقت زبان قینچی سے زیادہ چلاتا، اس لئے کہ سالوں بعد اگر کبھی موج میں آتا تو قینچی کا منھ لگوا لیتا۔ اس سے بھی بری حالت ٹِنڈ کرنے والی مشین کی تھی جس سے بچے تو بچے بڑوں کے بھی پسینے جھوٹ جاتے۔ بال کاٹنے سے زیادہ کھینچتی تھی۔ اس کے باوجود ہمارا سارا محلہ، جس میں قریب قریب دوسو گھر ہوں گے، سب کے سب اسی سے بال کٹواتے کیوں کہ ایک تو اس کا معاوضہ بہت کم تھا اور دوسرا بال کاٹنے یا یوں کہیں ٹنڈیں کرنے عین وقت پر آ جاتا۔ ہر گھر میں ٹنڈیں کرنے کی تاریخ اسے ہمیشہ یاد رہتی۔ بعض گھرانوں کی ٹنڈیں تو وہ بغیر معاوضے کے ہی، یعنی صرف روٹی اور چائے پر ہی کر دیتا۔ یوں اس کا زیادہ تر کام بار ٹر سسٹم کے مطابق چلتا۔ بالوں کو بناتے ہوئے معتوب کا مشورہ سننا اپنی شان کے خلاف سمجھتا۔ فورا دھکا دے کر پر ے کر دیتا اور اپنی مشین گتھلی میں ڈال دیتا۔ لہٰذا ادھ خطے کو اپنے مشاورتی الفاظ اسی وقت واپس لینا پڑتے۔
میرے ساتھ اس کی دشمنی اس وقت شروع ہوئی جب میں نے اس سے ٹنڈ کروانے سے انکار کر دیا جو میرے باپ کو بہت برا لگا۔ اس نے چھڑیوں سے مار مار کر مجھے کانا ٹیم پیس کے آگے کر دیا۔اس دن ظالم نے میرے بال مشین کے ساتھ اتنے اکھیڑے کہ میرے سرکی جلد سوج گئی۔ میں کئی گھنٹے روتا رہا اور رات سوتے وقت کانے ٹیم پیس کے حق میں خلوص دل سے بد دعائیں کیں کہ یا اللہ صبح یہ زندہ نہ اٹھے۔ مگر وہ یونہی زندہ رہ کر میرے سینے پر مونگ دلتا رہا۔مجھے ٹنڈ کرانے پر کوئی اعتراض نہیں تھا، مگر کانے سے ٹنڈ کرانے میں قباحت یہ تھی کہ لوگ اور لڑکے پہچان جاتے کہ کانے ٹیم پیس کے ہاتھ لگے ہیں۔ یہی بات میرے لئے پریشانی کا باعث تھی۔ اس نے اپنا ایک طبی فلسفہ خاص کر ہر والدین کو ازبر کرا دیا تھا کہ ٹنڈ کرائے رکھنے سے بچہ صحت مند رہتا ہے،خاص کر گردن موٹی رہتی ہے۔
اس کی ایک خصوصیت بہر حال، با وجود اس کے کہ مجھے اس سے شدید نفرت تھی، میں تسلیم کرتا ہوں۔ وہ بغیر گھڑی کے بالکل صحیح وقت بتاتا۔ صرف سورج کو دو تین بار دیکھتا اور اپنا فیصلہ سنا دیتا کہ کتنے بجے ہیں۔ غالباً پانچ سات منٹ سے زیادہ فرق نہ نکلتا۔ مگر یہی خصوصیت بچوں نے اس کی چھیڑ بنا دی۔ رفتہ رفتہ یہ چھیڑا اتنی زیادہ بن گئی کہ کوئی وقت بھی پوچھ لیتا تو یہ اینٹ اٹھا لیتا اور گالیاں دیتے دیتے گاؤں سے چلے جانے کی دھمکی بھی دے دیتا کہ میرے بعد تمہارے بال کوئی نہیں کاٹے گا،پھر سکھ بن جاؤ گے۔
میرے والد نے اکثر اسے کرید نے کی کوشش کی، ’’میاں شرفو (اصل نام شریف تھا)، آخر تمہارے کہیں بیوی بچے بھی ہوں گے، کوئی اصلی وطن ہو گا۔ کچھ تو خبر کرو۔کل کلاں خدا نہ کرے ایس ویسی کوئی بات ہو گئی، پھر ہم کس کا منہ دیکھیں گے۔‘‘
مجھے انتہائی خوشی اس بات کی ہو تی کہ شادی غمی میں کانے ٹیم پیس سے کوئی بھی دیگیں نہ پکواتا، نہ کوئی برتن دھلواتا۔ پھر بھی ایسا کمینہ تھا، خود بخود چلا آتا اور نائیوں کو مشورے دینے شروع کر دیتا: نمک یہ ڈالو، مرچ فلاں ڈالو، گھی کم ڈالو، وغیرہ وغیرہ۔ مگر نائی بھی اپنی ہی کرتے، فقط اس سے پیاز کٹوا لیتے۔
چونکہ شرفو کی جھونپڑی ہمارے گھر سے کوئی بیس قدم پر ہو گی، لہٰذا اکثر ٹاکر ا ہوتا۔ مجھے نہیں پتا کہ جب وہ بیمار ہوتا تو اس کی دیکھ بھال کون کرتا تھا۔ ہم نے یا اس کے پڑوس میں دو ایک گھر جو اور تھے انہوں نے تو کبھی نہیں کی۔ کوئی بال کٹوانے جاتا اور وہ کہہ دیتا کہ میں بخار میں ہوں یا سردرد ہے تو اس کا جواب سن کر واپس لوٹ آتا، یہ سوچے بغیر کہ اب اس کے دروازے کا ذمہ دار کون ہے۔ خیر، مجھے ان چیزوں سے کو ئی غرض نہیں تھی۔ میری اور دوسرے کئی بچوں کی خوشی تو اسی میں تھی کہ جتنی جلدی ہو سکے یہ مر جائے تاکہ ہماری ٹنڈوں سے جان چھٹے۔
رفتہ رفتہ ہم بڑے ہوتے گئے۔ وہ بوڑھا ہو تا گیا۔ اب وہ ہماری مرضی کے بغیر ہماری ٹنڈیں نہیں کرسکتا تھا۔ہم اسے نزدیک سے بھی آ کر چھیڑ سکتے تھے۔آوازہ کسنے کے ساتھ ساتھ پیچھے سے آ کر دھکا بھی دے دیتے اور بھا گ جاتے کیوں کہ اب ایک تو وہ بھاگ نہیں سکتا تھا، دوسرایہ کہ پتھر اٹھا کر ہمارے پیچھے پھینکنا بھی اب اس کے لئے آسان نہیں تھا، بس گالیاں دیتا رہ جاتا جن سے ہم مزید لطف اندوز ہوتے۔
ہمارے گھر سے چالیس قدم مغرب کی طرف ہائی سکول تھا جس میں شیشم، شہتوت اور نیم کے بے تحاشا درخت تھے۔ گاؤں کے اکثر لوگ گرمی سے بچنے کے لئے اپنی چارپائیاں دوپہر کو وہیں لے آتے کیوں کہ تین ماہ سکول بند رہتا۔ کانے ٹیم پیس کا بھی سارا دن اب وہیں گزرتا۔ وہیں حجامتیں ہوتیں۔ حتیٰ کہ کانے ٹیم پیس کے آوازے بھی وہیں کسے جاتے، جس پر بہت ہنگامہ آرائی اور شغل رہتا۔ بعض اوقات گالیاں دیتے دیتے اسے کھانسی کا دورہ بھی پڑتا جس میں اسے کافی تکلیف ہوتی اور سانس ٹوٹنے لگ جاتا۔
سکول کھلتے ہی لوگ بکھر گئے۔ کانا ٹیم پیس اب بیمار رہنے لگا تھا۔سر مونڈ نا بھی کم کر دیے۔ لوگ مذاق کرنا بھی چھوڑ گئے کیوں کہ اس نے گالیاں دینا بند کر دیں تھیں، فقط غصے سے دیکھ کر منہ دوسری طرف کر لیتا۔ یہاں تک کہ اب بچوں کے مذاق کو بھی سہہ جاتا۔لیکن بچے باز آنے والے کب تھے۔ جب دیکھتے کہ ہمارے آوازہ کسنے اور دھکا دینے پر بھی چپ رہا تو دور سے کنکر اٹھا کر مارنے شروع کر دیے۔ ادھر یہ کچھ دن تو گزارا کر تا رہا، آخر تنگ آ کر اپنی جھونپڑی میں ہی بیٹھ رہا، بازار میں آنا جانا چھوڑ دیا۔
اب کوئی اکا دکا اس سے حجامت کروانے جاتا ورنہ اکثر لوگوں نے دوسرے نائیوں کی طرف رجوع کر لیا۔سردیاں آئیں تو چارپائی پھر جھونپڑی میں چلی گئی۔
صبح کے وقت میں ادھر سے گزرتا۔ اب میں نے کبھی اسے چائے بناتے اور پیتے نہیں دیکھا۔شاید ناشتہ ترک کر دیا تھا۔ البتہ حجامت کرنے کا سلسلہ ابھی جاری تھا۔ایک دن میں صبح اپنے سکول جا رہا تھا کہ کچھ لوگ کانے ٹیم پیس کی جھونپڑی کے گرد کھڑے نظر آئے۔ میں بھی پاس جا کھڑا ہوا۔دروازہ اندر سے بند تھا ایک آدمی نے آگے بڑھ کر کہا، ’’یار، دروازہ تو ڑ کر دیکھو۔‘‘ دوسرے نے تائید کی۔
دروازہ توڑا گیاتو عین توقع کے مطابق ٹیم پیس مر دہ پڑا ہوا تھا۔انتہائی گندی رضائی جو سینے تک اوڑھی ہوئی تھی اور منہ پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ منہ اور آنکھیں کھلی تھیں۔ چہرہ نہایت خوفناک ہو گیا تھا۔ لیکن عجیب بات یہ تھی کہ آج مجھے اس کے مرنے کی ذرہ برابر خوشی نہ ہوئی، اور شاید کوئی غم بھی نہیں تھا۔جھونپڑے میں ایک لوہے کا صندوق، اوزاروں کی گتھلی اور واحد چارپائی جس پر اس کی لاش پڑی تھی، ان کے سوا مجھے کوئی چیز نظر نہ آئی۔
خیر دو مصلی بلوائے گئے جنہوں نے اسے نہلایا۔ ایک آدمی نے کفن دے دیا اور شام سے پہلے ہی جنازہ کروا کر اسے دفنا دیا۔ زندگی میں شاید یہ واحد جنازہ تھا جس میں میں نے کسی کو روتے یا آنسو بہاتے نہیں دیکھا۔اتنی خاموشی سے دفن کر دیا گیا جیسے کوئی مرا ہی نہیں۔ چوتھے دن ایک ادھیڑ عمر شخص آیا جس نے اپنے آپ کو شرفو ٹیم کا پیس کا بیٹا بتایا۔لو گوں نے فورا یقین کر لیا کیوں کہ اس کی شکل شرفو سے ملتی جلتی تھی۔وہ ٹیم پیس کا بستر،چارپائی، اور اوزاروں کی گتھلی اور صندوق ریڑھی پر رکھ چکا تھا اور دروازہ اکھیڑ رہا تھا تاکہ یہ سامان اپنے ساتھ لے جائے۔ آخر وہ ٹیم پیس کا بیٹا تھا، لہٰذا ترکے کا وارث اس کے سواکون ہو سکتا تھا کیوں کہ وہ بتا چکا تھا وہ اس کی واحد نرینہ اولاد ہے۔