ارشیہ تم ٹھیک ہوں نہ“ ولی نے کہی بار پوچھا سوال ایک بار پھر پوچھا۔ ارشیہ کو یہاں آئے کافی دیر ہو گئی تھی۔ وہ جب سے آئی تھی یونہی گم سم سی بیٹھی تھی۔
“ولی مجھے سمیر نے کیڈنیپ کیا تھا “ ارشیہ نے اس کے سوال کا جواب دیے بنا کھوئے کھوئے سے لہجے میں کہا۔
“اس نے ایسا کیوں کیا“ ولی نے ارشیہ کے سامنے کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
“اسے لگتا ہے کہ میری وجہ سے اس کا بھائی مرا ہے۔۔ تمہیں یاد ہے رحمان احمد۔۔۔ جس کا میں نے تمہیں بتایا تھا“ ارشیہ نے ولی کے چہرے پر نظریں جمائے جواب دیا۔
“ہاں جس نے تمہیں پرپوز کیا تھا تو تم نے تھپڑ مارا تھا اسے“ ولی کہہ کر ہلکا سا مسکرایا لیکن ارشیہ نے بغیر مسکرائے ہاں میں سر ہلایا۔
“اس نے اگلے دن ہی خودکشی کر لی تھی۔۔ سمیر کو لگتا ہے کہ میری وجہ سے اس نے خودکشی کی۔۔ لیکن وہ تو زیاد نے اسے مارا تھا۔۔۔ اور کور اپ کے لیے اس کو پنکھے سے لٹکا دیا تھا “ ارشیہ نے ولی کے چہرے پر نظریں جمائے کہا تھا جبکہ ولی کا چہرا سفید ہوا تھا۔
“تمہیں کیسے پتہ” ولی نے سفید پڑتے چہرے کے ساتھ ارشیہ سے پوچھا۔ ولی کو اس بات کی حیرانی تھی کہ وہ اس سب سے لاعلم نہیں تھیں پھر بھی وہ ایک قاتل کے ساتھ گھومتی تھی۔ اس کی دوست ایک قاتل کو پسند کرتی تھی۔
“زیاد کی اس سے کوئی دشمنی تھی۔ اس دن جب میں نے اسے تھپڑ مارا تھا تو اس دن زیاد اس کے پاس گیا تھا۔ اگلے دن مجھے اس کی موت کی خبر ملی جب میں نے زیاد سے پوچھا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا لیکن بعد میں جب میں نے عزیز سے پوچھا تو اس نے مجھے بتایا تھا کہ ان کی موت خود کشی قرار دی گئی ہے۔۔ لیکن وہ ایک قتل تھا“ ارشیہ نے اس کے سفید پڑتے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
“اور تم نے کچھ نہیں کیا۔۔۔تم۔۔ تم“ ولی نے بے یقینی سے کہا۔ الفاظ اس کے منہ سے نکلنے سے انکاری تھے۔
“مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ سمیر اس کا بھائی ہے۔۔۔اور وہ مجھے اس کی موت کا ذمہ دار سمجھ رہا تھا„ ارشیہ نے اپنی صفائی پیش کی تھی۔
“تم سمیر کو سب سچ بتا دوں “ ولی نے مشورہ دیا جس پر وہ سمجھتے ہوئے سر ہاں میں ہلا گئی اور پھر تھوڑی دیر بعد ڈرائیور کو کال کرکے بلوایا اور واپس چلی گئی۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””””
زوہیب جلد از جلد ہاسپٹل پہنچا تھا عدیل بھی اس کے ساتھ ہی تھا۔ گاڑی وہی چھوڑ کر وہ اندر کی طرف بھگا۔ کاؤنٹر سے اکرام صاحب کے بارے میں پوچھ کر وہ اس طرف گیا۔ وہاں سامنے ہی حیدر صاحب، جیا بیگم اور نجمہ بیگم باہر بیٹھے ہوئے تھے۔
جیا بیگم مسلسل نجمہ کو تسلی دیے رہی تھیں۔ زوہیب کو آتا دیکھا وہ زوہیب سے لپٹی تھی۔عدیل گاڑی کو پارکنگ ایریا میں چھوڑ کر اندر کی طرف آیا اور وہاں زوہیب کے پاس قدرے فاصلے پر کھڑا ہو گیا۔
“چپ ہو جائے ماما۔۔ کچھ نہیں ہوا بابا کو“ زوہیب نے نجمہ کو اپنے ساتھ لگائے تسلی دی تھی۔ اور آنکھوں ہی آنکھوں میں حیدر صاحب سے پوچھا جس پر انہوں نے اسے تسلی دی۔
“تائی امی آپ ماما کو لے کر عدیل کے ساتھ گھر چلے جائے“ حیدر نے نجمہ کو خود سے الگ کرتے ہوئے جیا بیگم سے کہا تھا۔ جس پر انہوں نے اثبات میں سر ہلایا اور نجمہ بیگم کو لے کر گھر کی طرف چلی گئی۔ ارشیہ اس وقت اپنے گھر ہی تھی۔ حیدر صاحب نے اس کی خراب طبیعت کی وجہ سے نہیں بتایا۔
“میں بابا سے مل لو“ زوہیب کہتے ہوئے روم کی طرف بڑھا۔ اندر اکرام صاحب کے بازو پر پلاسٹر چڑھا ہوا تھا۔ وہ بیڈ پر نیم دراز تھے۔ زوہیب کی موجودگی کو محسوس کرتے انہوں نے اپنی آنکھیں کھولیں۔
“بابا۔۔۔ کیسے ہوا یہ سب“ زوہیب نے اکرام صاحب کے چہرے پر نظریں جمائے پوچھا تھا جس پر وہ ہلکا سا مسکرائے۔
“کچھ نہیں ہوا بیٹا“ اکرام صاحب نے تسلی دینے سے انداز میں کہا۔ تبھی حیدر صاحب اندر داخل ہوئے۔
“بیٹا کچھ نہیں ہوا۔۔۔ بس وہ ڈیل ہمیں مل گئی تھی۔۔۔ اسی لیے انہوں نے یہ ایکسیڈنٹ کروایا ہے۔۔۔ فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔۔ تم آرام کرو۔۔ میں نے ایف آئی آر درج کرو دی ہے“ حیدر صاحب نے زوہیب کو تسلی دیتے ہوئے ساری بات بتائی اور اسے گھر جانے کا کہا جس پر وہ چپ چاپ اٹھ کر باہر چلا گیا۔
ڈرائیور کو فون کر کے اس نے گاڑی منگوائی اور گھر کی طرف چلا گیا۔ اس وقت عبیرہ اس کے ذہین سے بلکل نکل چکی تھی لیکن جب شام میں اسے یاد آیا تو فارم ہاوس کی طرف گیا لیکن عبیرہ کو وہاں نہ پا کر وہ پورے فارم ہاوس میں پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈ رہا تھا۔
“کہاں گئی وہ۔۔۔ تن لوگ یہاں جھک مار رہے تھے“ زوہیب غصے سے اپنے گارڈز پر چلا رہا تھا جبکہ وہ سب سر جھکائے کھڑے تھے۔ عدیل بھی ان کے ساتھ ایک طرف کھڑا تھا لیکن ابھی اس کے دل و دماغ میں اطمینان تھا۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””””’
سمیر کے خلاف ارشیہ نے ایف آئی آر درج کروائی تھی۔ لیکن سمیر نے اپنے اثرورسوخ استعمال کرکے اپنی ضمانت کروالی تھی۔ سمیر کوارشیہ نے سب حقیقت بتا دی۔ اس وقت وہ چپ کر گیا لیکن بعد میں جب وہ زیاد سے ملنے گیا تو راستے میں ہی تیز رفتار کی وجہ سے اس کی گاڑی ایک ٹرک سے ٹکرا گئی جس کی وجہ سے اس کی موقع پر ہی وفات ہو گئی۔
آج اس واقعے کو دو ہفتے ہو چکے تھے۔ شام کے اندھیرے ابھی پھیل رہے تھے جب ارشیہ نے بے اختیار ہی گاڑی یوسف کے گھر کی طرف بڑھائی۔ گاڑی اس کے گھر سے تھوڑی دور کھڑی کی۔ اس علاقے کو دیکھ اس کے لبوں پر مسکراہٹ مچلی۔
“ہنہہہ۔۔ میں اس دھول مٹی میں جاؤں گئی بھی نہیں “ اپنی ہی بات یاد کرکے اس کے لبوں پر مسکراہٹ آئی۔
گاڑی سے نکل کر یونہی گھر کی طرف پیدل چل دی کہ راستے میں اسے یوسف گھر کی طرف جاتا دیکھائی دیا۔
“ہائے“ یوسف کو اپنے پیچھے سے کسی لڑکی کی آواز آئی تو اس نے قدم وہی روک لیے۔ ارشیہ بھاگ کر اس کے پاس آ کر روکی۔
“ہائے۔۔۔ کیا حال ہے“ ارشیہ نے بے تکلفی سے تیز تنفس کو نارمل کرتے ہوئے کہا جس پر ہنوز نظریں جھکائے کھڑے ہوسف کے ماتھے پر ناگواری سے بل پڑے۔
“کوئی کام ہے آپ کو“ یوسف نے ناگواری سے پوچھا جس پر ارشیہ نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلا کر نہیں کہا تھا۔
“آگر کوئی کام ہے آپ کو تو بتائیں ورنہ یوں بازار میں آئندہ میرا راستہ نہ روکیے گا مہربانی ہوں گئی“ نظریں اپنے پیروں پر جمائے یوسف نے دھیمے لہجے میں کہا اور جانے کے لیے اپنے قدم بڑھائے۔
“اہممم۔۔کام تو کوئی نہیں تھا۔۔۔ بس حال چال دریافت کرنا تھا آپ کا“ ارشیہ نے اس کے چہرے پر نظریں جمائے قدم سے قدم ملاتے ہوئے کہا جس پر یوسف کے ماتھے کے بلوں میں اضافہ ہوا۔
“آئندہ میرا راستہ نہ روکیے گا“ یوسف اتنا کہہ کر آگے بڑھ گیا۔
“جلد ہی ملے گئے۔۔۔ بائے بائے“ ارشیہ نے پیچھے سے اونچی آواز میں کہا جس کو یوسف نے سنی ان سنی کر دیا۔
“تمہارے سارے راستے تو اب مجھ تک ہی آئے گئے۔۔ یوسف احمد“ ارشیہ نے دوبارا سے اونچی آواز میں کہا جس کو وہ نظر انداز کیے اپنے گھر کی طرف بڑھ گیا۔
وہاں موجود لوگوں نے ایک بار اس پاگل لڑکی کو دیکھا جیسے نہ اپنی فکر تھی نہ اپنے خاندان کی عزت کی۔
ارشیہ مسکراتے ہوئے گاڑی کی چابی کو اپنی انگلیوں میں گھماتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف واپس چل دی۔ دو آنکھوں نے یہ منظر بڑے غور سے اور چھبتی نگاہوں سے دیکھا تھا۔
ارشیہ نے گاڑی چلا کر اپنے گھر کی طرف بھگا لی۔ جس پر اس سارے منظر کو بڑے غور سے دیکھتے زوہیب ز نے گاڑی کا شیشہ چڑھایا اور غصے سے گاڑی بھگالی۔
””””””””””””””””””””””””””””””””””””””
“ہیلو۔۔۔ ولی کیا حال یے“ ارشیہ نے فون کان سے لگائے ولی سے حال احوال دریافت کیا تھا۔
“اسلام وعلیکم ارشیہ! میں ٹھیک ہوں تم سناؤ “ دوسری جانب ولی نے اپنی والدہ کو دلیہ کھلاتے ہوئے کہا۔
“میں بھی ٹھیک تم سناؤ آنٹی کا کیا حال ہے اب“ ارشیہ نے مسکراتے ہوئے ولی کی امی کے بارے میں پوچھا تھا۔
“وہ کافی بہتر ہیں اب۔۔۔ بس تھوڑی سی کمزوری ہے۔۔ کچھ دنوں تک وہ بھی ٹھیک ہوں جائے گئی “ ولی نے ان کا چہرہ ٹشو پیپر سے صاف کرتے ہوئے جوبا دیا تھا۔ اور پھر انہیں آرام کرنے کا کہہ کر برتن سمیٹ کر کچن کی طرف چک پڑا۔
“ایک بات کرنی تھی۔۔ محبت کیا ہوتی ہے“ ارشیہ نے آنکھیں بند کیے ولی سے پوچھا تو ولی نے ہممم کہتے ہوئے اجازت دی تو ارشیہ نے سوال کیا تھا۔
“محبت۔۔۔۔ کہتے ہیں کسی ایک کو ہی سوچتے رہے۔۔ اس کی پسند نا پسند کا خیال رکھے۔۔۔ اسے یاد کرتے وقت آپ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھرے۔۔ اسے دیکھ دل کو اطمینان ملے۔۔۔ شاید۔۔ شاید اسے محبت کہتے ہیں“ ولی نے سمجھانے سے انداز میں جواب دیا تھا۔
“دین ولی۔۔۔ آئی ایم ان لو وید سم ون“ ارشیہ کی بند آنکھوں کے آگے کسی کا عکس لہرایا تو اس کی مسکراہٹ اور گہری ہوئی تھی۔
“کس سے” ولی نے اچنبھے سے پوچھا تھا۔
“یوسف احمد“ ارشیہ نے یوسف کا چہرہ تصور میں لائے جواب دیا تھا۔
“نامحرم کی محبت عذاب سے کم نہیں ہوتی ارشیہ۔۔۔ وہ کھبی بھی نہیں مانے گا۔۔۔ اپنے اور اس کے سٹیٹس کا فرق ہی دیکھ لوں ارشیہ۔۔۔ اسے شاید فرق نہ پڑے۔۔ لیکن تمہیں۔۔ تمہارے گھر والے انکل آنٹی سب۔۔ ارشیہ واپس لوٹ آوں“ ولی نے خدشے کے پیشِ نظر اسے کہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ حیدر ملک کے لیے اپنا رتبہ اور شان و شوکت کیا اہمیت رکھتا ہے۔۔۔
“وہ کھبی بھی نہیں اپنائے گا ارشیہ۔۔۔ لوٹ آوں۔۔۔ ابھی بھی وقت ہے۔۔۔یہ راستہ تباہی کے دھانے کی طرف لے کہ جاتا ہے“ ولی نے سمجھانا چاہا تھا۔
“کیا پتہ بربادی کی جگہ آباد ہو جاؤں“ ارشیہ نے اس کے جواز کو رد کرتے ہوئے کہا جس پر دوسری جانب ولی خاموش ہوں گیا۔ ارشیہ نے کال ڈسکنکٹ کرکے سائیڈ پر رکھا اور ویسے ہی لیٹے لیٹے سوچنے لگی۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””””’
عبیرہ اور حائقہ کو لے کر یوسف جب گھر آیا تو حائقہ نے جلدی سے عبیرہ کا کچھ سامان پیک کیا اور یوسف سے اجازت لے کر عبیرہ کو لے کر اپنی امی کی ایک دوست کی طرف چلی گئی۔
حائقہ کی امی کی دوست ایک درمیانی عمر کی خاتون تھیں۔ حائقہ کی طرح وہ بھی بچوں کو قرآن کا سبق پڑھاتی تھیں۔ وہ اکیلی ہی رہتی تھیں۔ ان کی صرف ایک بیٹی تھی جو کہ شادی کے بعد اپنے گھر چلی گئی تھی۔
انہوں نے خوش دلی سے دونوں کو ویلکم کیا اور جب تک وہ چاہیے تک تک انہیں وہاں رہنے کی اجازت دیے دی۔
حائقہ کی ان کے ساتھ بات چیت ہوتی رہتی تھی۔ ان سے بات کرکے حائقہ عبیرہ کو لے کر ان کے پاس چلی گئی جبکہ یوسف ان کو وہاں چھوڑ کر واپس گھر آ گیا۔
حائقہ نے انہیں ساری بات بتا دی تھی جس پر انہوں نے اسے کچھ نہیں کہا۔ حائقہ اور عبیرہ ان کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹا دیتی تھیں۔ عبیرہ اور حائقہ کو وہاں رہتے ہوئے دو ہفتے ہونے کے قریب تھے۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””””’
“سنیں۔۔۔۔ یہ گھر کو تالا لگا ہوا ہے۔۔۔ گھر والے کہاں ہیں“ ارشیہ نے یوسف کے گھر کے پس سے گزرتے ایک شخص کو روک کر پوچھا۔ جس پر اس شخص نے ایک نظر ارشیہ اور اس کے حلیے کو دیکھا۔
گوری رنگت پر پنک ٹی شرٹ کے ساتھ وائٹ جینز ڈالے بالوں کو کندھوں پر آزاد چھوڑے آنکھوں پر گلاسز چڑھائے وہ پیاری لگ رہی تھی۔
“یوسف تو اس وقت اکیڈمی میں ہوتا ہے۔۔۔ اور اس کی بہن اپنے کسی رشتے دار کے گھر گئی ہوئی ہے“ اس آدمی نے تفصیل بتائی جس پر ارشیہ اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے واپس اپنی گاڑی میں بیٹھی اور گاڑی نعمان صاحب کج اکیڈمی کی طرف بھگا لی۔
“آپ یوسف احمد کو بلوا دیے“ ارشیہ نے گاڑی میں بیٹھے ہی گاڑی سے کہا جس پر اس نے ایک حیرانی بھری نظر ارشیہ پر ڈالی اور اندر یوسف کو بلوانے چلے گیا۔
تھوڑی دیر بعد گارڈ کے ساتھ یوسف بیلک کرتے شلوار میں ملبوس باہر آیا۔ اسے دیکھ ارشیہ کے چہرے پر مسکان بکھری۔ ارشیہ گاڑی سے نکل کر اس کے سامنے آئی جس پر گارڈ تھوڑا سائیڈ پر ہو کر کھڑا ہو گیا۔
“اسلام و علیکم! جی کوئی کام تھا آپ کو“ یوسف نے آتے ہی مدعے کی بات کی۔ کچھ دنوں سے ارشیہ مسلسل اسے زچ کر رہی تھی۔ جبکہ دوسری طرف ارشیہ کے چہرے کی مسکان گہری ہوئی۔
“جی بات کرنی تھی۔۔۔ اگر کچھ وقت مل جاتا تو“ ارشیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ گارڈ تھوڑی دور کھڑا بظاہر اپنا کام کر رہا تھا جبکہ سارا دھیان ارشیہ اور یوسف کی طرف تھا۔
“جی کہے” مختصر سا جواب آیا تھا۔
“یہاں ہی۔۔۔ ویسے مجھے تو کوئی پرابلم نہیں ہے۔۔ آپ کو پرابلم ہو گئی“ ارشیہ نے اردگرد دیکھتے ہوئے کہا۔گزرتے لوگ انہیں مڑ کر دیکھ رہے تھے۔
“جو بھی کام ہے جلدی کہے۔۔ میرے پاس ٹائم نہیں ہے“ یوسف نے زچ ہوتے ہوئے کہا تھا۔ جس پر ارشیہ نے سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور پھر ااس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھی۔
“ویل یو میری می“ ارشیہ حیدر اس وقت یوسف کو پرپوز کر رہی تھی۔
“نہیں”یوسف نے حیرانی سے اسے دیکھا اور جلدی ہی اپنی بے اختیاری پر شرمندہ ہو کر سر جھکایا اور یک لفظی جواب دیے کر اندر کی طرف بڑھنے لگا کہ ارشیہ کے الفاظ اس کی سماعت میں گونجے۔
“انکار کی وجہ بھی بتا کر جائے۔۔۔ کیا کمی ہے مجھ میں۔۔۔ خوبصورت ہوں۔۔۔ پڑھی لکھی ہوں۔۔ ویل مینرڈ ہوں۔۔ اچھی فیملی سے بیلونگ کرتی ہوں“ ارشیہ نے اسے اندر جاتے دیکھ پوچھا تھا۔
“نیک اور پاکیزہ ہیں؟“ یوسف نے مڑے بغیر مختصر سا جواب دینے کی بجائے سوال کیا تھا۔ اور یہ سوال آج ارشیہ حیدر ملک کو لاجواب کر گیا تھا۔
یوسف یہ کہہ کر روکا نہیں اور اندر کی جانب بڑھ گیا۔ ارشیہ نے اپنے قدم گاڑی کی طرف بڑھائے اور گاڑی میں بیٹھ کر واپسی کی راہ لی تھی۔۔۔
کیا واپسی اتنی جلدی تھی۔۔۔۔
کیا اتنی غیر متوقع ۔۔۔
نَرم جھونکا سا اِک ہوا کا تھا،
عِشق مِیرا کچھ اِس طرح کا تھا،
جانے وہ عِشق تھا کہ غلطی تھی،
یا کوئی مرحلہ یہ سزا کا تھا،
ھَم ہِی مجرم بِھی، مدعی ھم ہِی،
مسئلہ تھا تو بس گواہ کا تھا،
مَیں تو پتھر تھا پِھر بِھی ٹوٹ گیا،
معجزہ یہ کِسی ادا کا تھا،
وقتِ رخصت جو ھم نا کہہ پاۓ،
آخری لفظ وہ دعا کا تھا،
ھم جدا کیوں ھوۓ؟نہیں معلوم،
کیوں کہ سب لکھا خدا کا تھا
”””””””””””””””””””””””””””””””””””””’
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...