اسکی آنکھوں کے سامنے ہر چیز دھندلانے لگی’ہاتھ پائوں من من بھر کے لگنے لگے پھر ذرا دیر بعد اسے اپنا وجود ہلکا پھلکا محسوس ہونے لگا اور وہ جیسے ہوائوں میں تیرنے لگی ‘بدن میں میٹھا میٹھا درد جاگ اٹھا جو رگوں میں نشہ بن کر دوڑنے لگا کتنا پر لطف تجربہ تھا جس نے حنا کے انگ انگ میں لذت بھر دی تھی’دل کی دھڑکن کبھی تیز ہو جاتی اور کبھی ہلکی’ذرا سی دیر بعد غنودگی نے اسے اپنی نرم گرم آغوش میں سمیٹ لیا اور وہ قالین پر پیر پھیلائے بے خبر سو گئی۔
کتنی پر سکون نیند تھی جب اسکی آنکھ کھلی تو وہ بھونچکی رہ گئی یہ گھر اسکا نہیں تھا۔اسنے بار بار آنکھیں ملیں’یہ قیمتی غالیچے ریشمی سرسراتے پردے’جھلمل کرتے کشن اور جھاگ جیسے نرم سوفے اسکے گھر میں کہاں تھے۔دماغ پر ابھی تک دھند سی چھائی ہوئی تھی’کچھ دیر یوںہی گم صم سی بیٹھی رہی اور رفتہ رفتہ اسے یادآنے لگا کہ یہ گھر نورین کا ہے۔وہ کالج سے چند لڑکیوں کے ساتھ نورین کے گھر آئی تھی۔یہ یاد آتے ہی اسکے کانوں میں ہلکی ہلکی سرگوشیوں کی آواز آنے لگی۔سبھی لڑکیوں کو ہوش آگیا تھا حنا شب سے آخر میں جاگی تھی اور اب اسکو سب کچھ یاد آگیا کہ نسرین نے سب لڑکیوں کو مارفیا کے انجیکشن لگائےتھے۔
کالج میں یہ گروپ سب سے زندہ دل سمجھا جاتا تھا کھاتے پیتے گھرانوں پر مشتمل ان لڑکیوں سے ہر کوئی مرعوب تھا۔حنا مدت سے ان لڑکیوں کی دوستی کی خواہاں تھی’آج روبی کی پر زور سفارش پر حنا کو اس گروپ کی رکنیت مل گئی تھی اور نورین نے اس سے حلف وفاداری اٹھوانے کے بعد اپنی خوش باش زندگی کا راز افشاں کیا تھا۔یہ سب لڑکیاں مارفیا کے انجیکشن کی عادی ہو چکی تھیں۔حنا نے پہلی بار یہ انجیکشن لگایا تھا۔
حنا کے ابو حمید الدین ان لوگوں میں سے تھے جو اپنی دنیا سے باہر نکل کر دوسری دنیا میں نہیں جھانکتے تھے۔انکی دنیا ان کے دفتر اور دوست احباب تک محدود تھی۔حنا یا گھر کے کسی فرد سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔حنا کی ماں اسے دو ماہ کا چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملی۔حمید الدین نے بچی کو اپنی ماں کے سپرد کر کے دوسرا بیاہ رچا لیا۔دادی نے پوتی کو بڑے چائو سے پالا’مگر ملک الموت نے انہیں جیتنے کی مہلت نہ دی۔چار سال کی عمر میں دادی کی وفات کے بعد سوتیلی ماں کے رحم و کرم پر ان کے پاس آ گئی۔سوتیلی ماں نے اس سے روایتی مائون والا برتائو تو نہیں کیا مگر پیار کی نظر سے بھی کبھی نہیں دیکھا۔اسکی حیثیت گھر میں پڑے پرانے فرنیچر جیسی تھی۔
بچپن جیسے تیسے گزراکالج میں آئی تواسے یہ دنیا طلسمی نظر آئی۔جہاںنہ کوئی بندش تھی نہ جا بے جا ڈانٹ ڈپٹ۔لڑکیوں کا موڈ ہوتا تو پیریڈ اٹینڈ کرتیں’ورنہ سر درد کا بہانہ کر کے کالج سے کھسک جاتیں۔پورا کالج مختلف گروپوں میں تقسیم تھا۔کوئی کسی خوبصورت لیکچرار کے عشق میں آہیں بھرتا تھا اور کسی کو یونین بازی اور ہنگامہ آرائیاں پسند تھیں۔حنا ان سب کے جاندار قہقہے دیکھ کر رشک کرتی خاص طور پر زریں گروپ کی ھنستی مسکراتی لڑکیوں نے اس کے دل میں ویسا ہی بن جانے کی خوائش جگا دی اور ایک سال کی مسلسل کوششوں کے بعد وہ کامیابی سے ہمکنار ہو گئی۔زریں گروپ کی لڑکیاں تین تین چار چار سال سے لگاتار فیل ہو رہی تھیں۔بڑے گھر کی ان خوش فکر لڑکیوں کو تعلیم سے ذرہ بھر بھی دلچسپی نہیں تھی۔حنا کو ان میں گلنے ملنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔سب سے پہلے اس نے مس شازیہ سے لڑائی کی’کیوکہ زریں نے گروپ میں شمولیت کی پہلی شرط یہ رکھی تھی ک مغرور لیکچرار مس شازیہ کی اسمبلی ہال میں بے عزتی کرو۔اسی طرح کے چھوٹے موٹے امتحانات سے گزرنے کے بعد زریں گروپ نے اسے قبول کر لیا۔
حنا کا خیال تھا وہ جلد ہی ان سب سے علیحدگی اختیار کریگی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔جو بات مذاق مذاق میں شروع ہوئی تھی وہ سنجیدگی اختیار کرگئی۔حنا باقاعدہ مارفیا کے انجیکشن لینے لگی۔اپنے ماحول سے جب فرار حاصل کرنا چاہتی زریں کے گھر پہنچ جاتی’جہاں اسکا بڑے والہانہ پن سے استقبال کیا جاتا۔پھر وہ حنا گروپ کا چندہ بھی باقاعدگی سے ادا کرنے لگی اور اسی باقاعدگی سے مارفیا کی عادی ہوتی گئی۔ماں باپ کو فرصت کہاں تھی کہ وہ اسکی کھوئی کھوئی کیفیت کا نوٹس لیتے۔حمید الدین نے اسکی فرمائش پر جیب خرچ بڑھا دیا تھا مگر جب انٹر میڈیٹ کا نتیجہ آیا تو وہ بری طرح فیل تھی۔
حمید الدین کو زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ حنا انہیں مایوس کرنے لگی ہے۔انہوں نے اسے بلا کر جھاڑ پلائی اور بولے۔”بس تمہاری پڑھائی ختم! گھر بیٹھ کر روٹی تھوپو یہی تمہارا مقدر ہے۔میں تمہیں پڑھا لکھا کر معقول لڑکی بنانا چاہتا تھا مگر تم نے مجھے سخت مایوس کیا ہے”
حنا کو کالج سے اٹھا لیا گیا مگر سہیلیوں سے ملنے جاتی رہی اور اپنا روزمرہ کا معمول پورا کرتی رہی کبھی سہیلیاں اس کے گھر آگھستیں اس کے کمرے میں آزادانہ انجیکشن لگاتیں سوتیلی ماں نے کبھی بھولے سے بھی جھانک کر نہیں دیکھا کہ اس کمرے میں کیا ہو رہا ہے۔
ایک دن حنا کی خالہ اچانک آ دھمکیں انہوں نے حنا کو دیکھا تو بھونچکی رہ گئیں۔ابھی دو برس پہلے کیا سیب جیسے سرخ گال تھے لڑکی کے۔آنکھیں ستاروں کی طرح چمکتی تھیں۔رخساروں کی سرخی اب غائب ہو چکی تھی اوربجھی بجھی آنکھوں کے نیچے گہرے گہرے ہلکے پڑے ہوئے تھے۔وہ حمید الدین پر برس پڑیں۔
“تم نے ہماری بچی کا ستیاناس کر دیا۔یہ سارا ظلم صفیہ ڈائن نے ڈھایا ہے۔بچی کو جلا جلا کر راکھ بنا دیا” وہ منہ میں دوپٹہ ٹھونس کر رونے لگیں۔
حمید الدین غصے میں ادھر ادھر ٹہلتے رہے اور صفیہ حسب عادت خونی نظروں سے شوہر کو گھورتی رہی ان دونوں کو چپ دیکھ کر خالہ کے تن بدن میں آگ بھر گئی۔حنا کو آواز دیتے ہوئے بولیں۔
“بیٹی اپنا سامان اکھٹا کر لے’اب اس گھر میں تجھے ایک منٹ نہیں چھوڑوں گی”
حمید الدین پہلی بار بولے۔”تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے قدسیہ بھلا تمہارے نوجوان لڑکوں کے درمیان اپنی بیٹی کو تنہا کیسے بھیج دوں’ دنیا کیا کہے گی؟”
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...