(Last Updated On: )
نقل 81
ایک روز اکبر بادشاہ کے رو برو کسی مغل نے از راہِ ظرافت راجا ٹوڈل مل سے پوچھا کہ راجا صاحب! تمھارے یہاں مل لفظ کے کیا معنی ہیں؟ وونہیں سمجھ کر راجا نے جواب دیا کہ مرزا صاحب! جو لفظ بیگ کے معنی ہیں سوئی مل کے ہیں۔ اتنی بات کے سنتے ہی وہ مغل بہت شرمندہ ہوا۔
خلاصہ اس کا یہ ہے کہ سنسکرت میں یے دونوں نام گوہی کے ہیں۔
نقل 82
کسی مکان پر کوئی ملا بیٹھا لڑکے پڑھاتا تھا کہ ایک لڑکے کے باپ نے آ کر اسے اُلہنا دیا: میاں صاحب! میرے بیٹے کو آپ نے کچھ نہ تربیت کیا۔ دیکھو اب تک چھوکروں کے ساتھ وہ کھیلتا پھرتا ہے اور میرا کہا نہیں مانتا۔ اتنی بات کے سنتے ہی میاں جی خفا ہو کر بولا کہ ہاں صاحب! نیکی برباد گنہ لازم۔ میں نے ایک برس محنت مشقت کر لکھا پڑھا گدھے سے آدمی بنایا اور تم نے یہ بات کہی۔ اب مجھے تم سے کچھ لینے پانے کی امید باقی نرہی۔ یہ یاس کا کلمہ سن کر لڑکے کا باپ تو میاں جی کو بہت سی تسلی دے کے چلا گیا، پر ایک دھوبی اور دھوبن بڑے دولت مند جنھوں نے میاں جی کی زبانی یہ بات رستے میں کھڑے ہو کے سنی تھی کہ میں نے تمھارے لڑکے کو برس دن میں لکھا پڑھا گدھے سے آدمی کیا۔ وے دونوں جورو خصم آ موجود ہوئے اور ہاتھ جوڑ کر بولے کہ میاں جی صاحب! جتنے رُپے چاہیے لیجیے اور میرے بھی گدھے کو آدمی بنا دیجیے۔ ملا نے ان دونوں کی بات سن کے دل میں بچارا کہ یے ہیئے کے اندھے، مت کے ہینے، گانٹھ کے پورے میری قسمت سے آن ملے ہیں۔ اِن سے رُپے کیوں نہیں لیتا۔ یہ سمجھ ان نے اُن سے کہا کہ ہزار رُپے دو اور گدھے کو باندھ جاؤ۔ ایک برس کے بعد آ کر لے جائیو۔ اِس بات کے سنتے ہی وے جھٹ توڑا دے گدھا باندھ گئے اور ایک برس بعد پھر آن موجود ہوئے۔ اُن کو دیکھتے ہی میاں جی نے کہا کہ دو دن پہلے آتے تو اسے پاتے۔ اب تو وہ جا کے جون پور کا قاضی ہوا۔ اُنھوں نے پوچھا کہ اب ہم اُسے کیوں کر پاویں۔ میاں جی نے کہا کہ تم اُس کے باندھنے کی رسی اور دانا کھانے کا نندولا لے جا کے سوں ہیں کھڑے ہو دکھلاؤ۔ جب وہ پہچان کے تمھیں پاس بلاوے، تب تم نرالے لے جا کے سب احوال کہیو۔ اپنا احوال سن کر وہ تمھیں بہتیرا ڈراوے گا، پر تم نہ ڈریو اور کہیو کہ جو تم ہماری بات نہ مانو تو چل کر میاں جی سے پوچھ لو۔
غرض وے دونوں جون پور گئے اور اُسی طرح کرنے لگے۔ تب قاضی نے اِن دونوں کو پاس بلا کر پوچھا کہ تم یہ کیا کرتے ہو۔ بولے: نرالے چلو تو اس کا احوال کہیں۔ قاضی انھیں نرالے لے گیا۔ پھر اِنھوں نے سب احوال کہہ سنایا۔ قاضی نے دریافت کیا کہ کسی شخص نے انھیں بہکایا ہے۔ اس سے اِن کی بات بن قبول کیے کسی طرح یے میرا پیچھا نہ چھوڑیں گے۔ یوں سمجھ قاضی نے کہا: جو تم نے کہا سو سب سچ، پر اب تم ہم سے کیا چاہتے ہو؟ یے بولے: ہم بے اولاد ہیں، ہمارے مال اموال کے وارث ہو کے مرنے سے مٹی دیجو۔ یہی ہم چاہتے ہیں۔ آخر مارے شرم کے قاضی نے ان کی بات قبول کی، اس لیے کہ کوئی اور نہ سنے۔
نقل 83
ایک کھتری دنیا سے بیزار ہو کے کسی نانک پنتھی فقیر کا جا کے چیلا ہوا۔ کتنے ایک دن پیچھے ایک روز اُس نے گرو سے کہا کہ مہاراج! میرا جی چاہتا ہے جو آپ کی آگیا پاؤں تو پرتھوی پردچھنا کر آؤں۔ گرو نے کہا: بہت اچھا۔ اتنی بات کے سنتے ہی وہ دنڈوت کر بدا ہوا اور لگا ملک بہ ملک پھرنے۔ جس ملک میں گیا، وہاں اس نے ہر ملک کا آدمی دیکھا تو حیران ہوا۔ ندان کتنے مہینے میں پھر کر گرو کے پاس آیا اور تعجب کر پوچھا کہ مہاراج! یہ کیا آشچرج ہے جو ایک ملک میں آدمی پیدا ہوے اور دوسرے میں جا کر بسے۔ گرو بولا کہ بابا! تو جو اتنا اچنبھا کرتا ہے، سو کیا تو نے یہ دوہا نہیں سنا ؎
کِت کاشی کِت کاشمیر کِت خراسان گجرات
پرسرام یا جیو کی پرا لبدھ لے جات
نقل 84
کسی مکان کے بیچ پانچ سات سپاہی بیٹھے آپس میں ڈینگ مارتے تھے۔ کوئی کہتا تھا میں نے چار گھاؤ کھائے اور کوئی کہتا تھا پانچ۔ غرض ہر ایک نے اپنے اپنے لڑنے اور زخم کھانے کا احوال بیان کیا۔ ایک بوڑھا ٹھٹھول ان کے پاس بیٹھا تھا، بولا کہ میاں! جوانی میں ہم بھی سینکڑوں لڑائیاں لڑے اور ہم نے بھی ہزاروں زخم کھائے ایسے کہ کہیں بدن پر تل دھرنے کی جگہ باقی نہیں رہی۔ ہمارے آگے اب کوئی کیا لڑے گا اور کیا زخم کھائے گا۔ اتنی بات کے سنتے ہی اُن میں سے ایک جوان خفا ہو کر بولا: بڑے میاں! کپڑے تو اتارو، دیکھیں تم نے کہاں کہاں گھاؤ کھائے ہیں۔ وہ ہنس کے بولا: میاں گبرو! نہ وہ زمانہ رہا، نہ وے دن رہے، نہ وہ جوانی رہی، نہ وہ تیاری رہی، نہ وہ جسم ہی رہا۔ اب کیا دیکھوگے۔ اتنا کہہ چنپت ہوا۔
نقل 85
کسی منشی کے پاس ایک باہرے کا سید نوکر ہوا۔ ایک روز اُس کا خدمت گار حاضر نہ تھا۔ اُس نے اس سے کہا کہ آج میرا آدمی حاضر نہیں ہے، تم میرے ساتھ دربار چلو۔ کہا: بہت خوب۔ اِس نے اُسے چار پیسے دے کر کہا کہ سارے دن دربار میں رہنا ہوگا، تم ان کے پان لے کے چار گلوری لگوا لاؤ۔ جب میں اشارہ کروں، تب دو کھیلی دیجو۔ میں آگے جاتا ہوں، تم لے کر جلد آؤ۔ یہ کہہ وہ تو دربار میں جا بیٹھا اور اِس نے اپنے دل میں بچارا کہ چار پیسے کے پان سے تو میاں کا پیٹ نہ بھرے گا، اس سے بہتر ہے کہ چار پیسے کی چار روٹی لے چلوں تو میاں پیٹ بھر کھائے گا۔ یہ من میں ٹھان چار پیسے کی چار روٹی لے رومال میں باندھ بغل میں دبا میاں کے سوں ہیں جا کھڑا ہوا۔ منشی نے اسے دیکھتے ہی جوں اشارہ کر ہاتھ بڑھایا توں اُس نے رومال سے دو روٹی کھول اُس کے ہاتھ دیں۔ وہ دیکھتے ہی ہکا بکا ہو لگا اِس کی طرف دیکھنے۔ اُس کے طور بگڑے دیکھ یہ بولا: بھونڈی طرح دیدے پھاڑ پھاڑ دیکھے سے کے میں نہیں کھائی، دو اور دھری سیں۔ یہ سن وہ شرمندہ ہو اپنے دل میں کہنے لگا کہ کسی نے سچ کہا ہے کہ اناڑی کا سودا بارہ باٹ۔
نقل 86
ایک زمیندار کے دو بیٹے، پر ان دونوں میں ہمیشہ ان بناؤ رہتا۔ ایک ایک کو نہ دیکھ سکتا۔ جب ان کا باپ مر گیا، تب وے دونوں آپس میں لڑنے لگے۔ ندان بڑے بھائی نے چھوٹے کو زمینداری سے بے دخل کر مار کے نکال دیا۔ تب وہ کسی اور بڑے زمیندار کو اپنے بڑے بھائی پر چڑھا لایا۔ اُس نے آتے ہی کھڑی سواری اسے مار لیا اور ساری زمینداری کو اپنے قبضے میں کیا۔ جو چڑھا لایا تھا، وِسے کچھ کھانے کو کر دیا۔ یہ ماجرا دیکھ کسی نے تلسی داس گسائیں کے آگے جا کے کہا کہ مہاراج! دنیا کے آرام کے لیے اور چند روز کی زندگی کے واسطے اُس نے بھائی کو مروایا اور دین و دنیا کو گنوایا۔ اِس میں اُس کے ہاتھ کیا آیا۔ جب بھائی بھائی سے یہ سلوک کرے تب دوسرے سے کوئی کیا توقع رکھے۔ تلسی داس جی بولے کہ اس بات کا اچرج مت کرو، ایسے اور بھی ٹھور کہا ہے ؎
بدھک بدھیو مِرگ بان تیں رُدھرو دِیو بتائے
اتِ ہت ان ہت ہوت ہے تلسی دُردنِ پائے
نقل 87
ایک روز کسی حبشی نے راہ میں درپن پڑا پایا۔ ہاتھ میں لے جوں اِس نے اُس میں دیکھا تو اسے اپنے چہرے کا عکس نظر آیا۔ تب لا حول و لا قوۃ الا باللہ پڑھ آرسی پر تھوک یہ کہہ پھینک دیا کہ جب ایسا برا منہ ہے تبھی کوئی رستے میں ڈال گیا ہے۔
نقل 88
اکبر بادشاہ کے روبرو ایک روز میاں تان سین نے سورداس کا یہ بسن پد گایا ؎
جسدا بار بار یہ بھاکھی
ہے کوو برج میں ہتو ہمارو
چلت گُپا لہ راکھی
شاہ نے اس کے معنیٰ پوچھے۔ میاں نے کہا: جسودا گھڑی گھڑی یہ کہے ہے، ہے کوئی برج میں دوست ہمارا جو چلتے ہوئے گوپال کو رکھے۔ میاں تو گائے سمجھائے چلے گئے۔ اس میں آئے بیربل۔ حضرت نے اُن سے بھی اس کا ارتھ پوچھا۔ بیربل بولے: پیر و مرشد! بار کہتے ہیں دروازے کو، سو جسودا دروازہ دروازہ یہ کہتی ہے کہ ہے کوئی برج میں دوست ہمارا جو گوپال کو نجانے دے۔ اتنے میں راجا ٹوڈل مل آئے۔ حضرت نے اُن سے بھی معنیٰ پوچھے۔ کہا: حضرت سلامت! جسودا کرشن کی ما۔ بار کہتے ہیں پانی کو اور دروازے کو۔ سو پانی کا دروازہ ہوا گھاٹ۔ اس سے معنیٰ یے ہوئے کہ جسودا گھاٹ گھاٹ یہ کہتی ہے کہ ہے کوئی برج میں دوست ہمارا جو گوپال کو چلنے سے باز رکھے۔
اس درمیان آئے ملا فیضی۔ بادشاہ نے اُن سے بھی وِس کے معنیٰ پوچھے۔ جواب دیا: جہاں پناہ سلامت! بار بمعنیٰ آب اور در۔ یہاں آب سے مراد ہے آنسو اور در سے مراد ہے آنکھ۔ اس سے معنیٰ یے نکلے کہ جسودا رو کر یہ کہتی ہے کہ ہے کوئی برج میں دوست ہمارا جو گوپال کو نجانے دے۔ اس عرصے میں آئے نواب خان خاناں۔ شاہ نے اُن سے بھی اُس کے معنیٰ پوچھے۔ تب نواب نے عرض کی کہ قبلۂ عالم! اس بسن پد کے معنیٰ کسی اور نے بھی کہے ہیں۔ اس بات کے سنتے ہی جس جس نے جو جو معنیٰ کہے تھے، حضرت نے کہہ سنائے۔ تب نواب نے کہا: جہاں پناہ! یہ تو اُس بسن پد کے معنیٰ نہیں، پر ہاں ہر ایک نے اپنے دل کا خیال بیان کیا۔ شاہ نے فرمایا: سو کیا؟ بولا: وہ بچارا کلاونت جیسے ایک نوم توم لفظ کو گھڑی گھڑی کہتا ہے، وِس کے دل میں یہی خیال بندھا کہ جسودا بھی گھڑی گھڑی کہتی ہے۔ اور بیربل ذات کا باہمن، در در کا پھرنے والا۔ اس کے بھی دل میں یہی خیال بندھا کہ جسودا در در کہتی ہے۔ اور ٹوڈل مل متصدی۔ اُس کے خیال نے یہی بندش باندھی کہ جسودا گھاٹ گھاٹ کہتی ہے۔ اور فیضی شاعر، اسے سواے رونے کے اور مضمون نہ سوجھا۔ اس سے اُس کے خیال میں آیا کہ جسودا رو رو کہتی ہے۔ یہ بات سن کر شاہ نے فرمایا کہ بھلا، اب تم کہو اُس کے کیا معنیٰ ہیں۔ عرض کی کہ جہاں پناہ! بار کہتے ہیں بال کو۔ سو جسودا کا بال بال یہ کہتا ہے کہ ہے کوئی برج میں دوست ہمارا جو گوپال کا چلنا موقوف کرے۔
معنیٰ کے سنتے ہی شاہ نے خوش ہو سب کی داد دی اور وسعتِ زبانِ برج کی نہایت تعریف کی۔
نقل 89
کسی راجا کی سبھا میں ایک کبِ جا کے چپ چاپ بیٹھ رہا۔ اس میں کوئی راج سبھا میں سے بولا کہ آج کیا ہے جو کبِ جی تم مون گہے بیٹھے ہو۔ اِس نے اُس کی بات کا اتّر تو ندیا، پر یہ دوہا پڑھا ؎
اتِ کا بھلا نہ برسنا اتِ کی بھلی نہ دُھپ
اتِ کا بھلا نہ بولنا اتِ کی بھلی نہ چپ
اس کے سنتے ہی اس نے بھی اِس دوہے کو پڑھ سنایا ؎
کون چہے ہے برسنا کون چہے ہے دُھپ
کون چہے ہے بولنا کون چہے ہے چپ
پھر کبِ نے یہ دوہا کہہ سنایا ؎
مالی چاہے برسنا دھوبی چاہے دُھپ
ساہ جو چاہے بولنا چور جو چاہے چپ
نقل 90
کوئی کایتھ ہمیشہ اپنے بیٹے کو سمجھاتا اور یہ کہتا کہ بابا جان! دنیا بری جگہ ہے۔ کر تو ڈر، نکر تو بھی ڈر۔ اُس کا بیٹا سن کر یہ جواب دیتا: لالا جی! بری برے کے واسطے ہے۔ کر تو ڈر، نکر تو نہ ڈر۔ غرض جب نہ تب ان دونوں میں یہی گفتگو ہوتی۔
ایک روز اُس نے اپنا وہ گھوڑا سواری کو منگوایا کہ جس پر کبھی سوار نہوا تھا اور کھلا پلا کے خوب تیار کیا تھا۔ گھوڑے کے آتے ہی باپ نے بیٹے سے کہا: بابا جان! اس پر تم سوار ہو، ہم دیکھیں۔ بیٹے نے بھی یہی کہا۔ ندان بہت سی کہا سنی کے بعد اُس کا باپ ہی سوار ہوا اور بیٹا پیچھے پیچھے دیکھتا چلا۔ اس میں کئی ایک شخصوں نے دیکھ کر کہا: دیکھو یہ کیا کم بخت ہے کہ قبر میں پانو لٹکا چکا، اور تو بھی اس کی ہوس نہیں گئی۔ جوان بیٹا پیچھے جوتی چٹکاتا آتا ہے اور آپ گھوڑے پر چڑھا جاتا ہے۔ یہ سن وہ اتر پڑا اور بیٹے کو چڑھا آپ پیچھے پیچھے دیکھتا چلا۔ پھر کئی آدمی دیکھ کے بولے کہ دیکھو یہ کیا نالایق و ناخلف ہے جو آپ سوار ہو باپ کو جلو میں دوڑاتا ہے۔ یہ سن آگے بڑھ وے دونوں چڑھ لیے۔ تب کوئی بول اٹھا کہ یے کیا مسخرے ہیں جو ایک گھوڑے پر دو لد لیے ہیں۔ یوں سن وے دونوں اتر پڑے اور سائیس نے گھوڑا ڈُریا لیا۔ یے پیچھے پیچھے دیکھتے چلے۔ تب انھیں دیکھ ایک نے ایک سے کہا کہ بھائی! دیکھو حرام کا مال مفت جاتا ہے اور کسی کے کام نہیں آتا۔
اس بات کے سنتے ہی کایتھ نے بیٹے سے کہا: کیوں بابا جان! دنیا کی زبان سے بچنے کی کوئی اور تدبیر ہو تو کرو۔ مجھ سے تو اب کچھ نہیں بن آتی۔ لا جواب ہو بیٹا بولا: لالا جی! تم سچ فرماتے تھے۔ دنیا بری جگہ ہے۔ کر تو ڈر، نہ کر تو بھی ڈر۔ اس کا کچھ علاج نہیں۔
نقل 91
ایک شخص اپنے شہر سے تباہ ہو کر پر شہر میں گیا۔ جاتے ہی وہاں اُس نے تھوڑے سے رُپیوں سے آڑھت کی دوکان کی اور بہت سا قرض دام کر کے اُس نے اپنی دوکان چمکائی اور تجارت بڑھائی ایسی کہ اُس کی ٹکر کا اُس نگر میں کوئی دوکان دار نرہا جو کسی بات میں اُس کا سامھنا کرے۔ قضاکار پانچ چار معاملوں کے بلٹنے میں اس کا دِوالا نکلا اور قید پڑا۔ ندان وہاں ہیں مرا، دَین سے چھٹ نکل نہ سکا۔ تب کسی نے اس کے بننے اور بگڑ کر مرنے کا سب احوال جا کر ایک مہاجن کی محفل میں کہا۔ سن کر محفل کے لوگ اُس کے حال پر بہت افسوس کرنے لگے۔ صاحب محفل بولا: تم جو اتنا افسوس کرتے، سو کیا تم نے کبھی یہ مثل بھی نہیں سنی کہ ؎
سنپت تھوڑی رِن گھنا بیری میں کا باس
ندی کنارے رو کھڑا جب تب ہوئے بناس
اس کے سنتے ہی ایک اُن میں سے بول اٹھا: ہاں ساہ جی! سچ کہتے ہو، یہ وہی کہاوت ہوئی کہ اوچھی پونجی خصمیں کھائے۔
نقل 92
ایک سوداگر بچہ اپنے باپ دادے کی سب دولت اڑا پڑا مفلس ہو لگا دکھ پانے۔ تب اس کے دل میں آیا کہ بزرگوں نے سوداگری کر کے پیسے جمع کیے تھے۔ بہتر ہے کہ میں بھی سوداگری کروں، خدا مجھے بھی دے گا۔ یہ سمجھ حویلی بیچ چار ہزار رُپے لے سوداگری کو نکلا۔ تو ایک اُس کے باپ کا غلام تھا سو بھی ساتھ ہو لیا۔ اور چلا چلا کسی شہر میں پہنچا۔ وہاں بازار میں دیکھے تو سب طرف سب جنس بکتی ہے اور ایک اور ایک شخص مسند بچھائے حقہ لگائے بیٹھا رہ رہ یہ کہتا ہے کہ میں بات بیچتا ہوں۔ جسے درکار ہو مجھ سے مول لے۔ اس نے اُس کے پاس جا ہزار رُپے دے کہا کہ ان کی بات ہمیں دو۔ اُس نے توڑا لے کہا کہ جوچھوٹے سے بڑا ہو، وِسے چھوٹا کبھی نجانیے۔ اِس نے کہا: اور؟ بولا: اور رُپے دو اور لو۔ اِس نے پھر ایک توڑا دیا۔ اُس نے کہا: کسی کا عیب دیکھیے تو اُس کی پردہ پوشی کیجیے۔ پھر اس نے پوچھا: اور؟ وہ بولا: اور رُپے دو اور لو۔ پھر اس نے ہزار دیے۔ تب اُس نے کہا: بھوکھ لگی ہوئی ہوئے اور کوئی کھانے کی تواضع کرے تو ہزار کام چھوڑ کھانا کھائے۔ پھر اِس نے پوچھا: اور؟ پھر وِس نے رُپے لے کہا: بے قدر خاوند کی نوکری کبھی نکریے۔ غرض یہ چار ہزار رُپے دے چار بات لے تباہ ہو وہاں رہا اور قضاکار وہ غلام اُس شہر کا بادشاہ ہوا۔
ایک روز بادشاہ تخت رواں پر سوار چلا جاتا تھا اور وہ سوداگر بچہ سامھنے شکستہ حال ننگے پانو تین دن کے فاقے سے نظر آیا۔ دیکھتے ہی شاہ نے فرمایا کہ اِس شخص کو میرے نہ پہنچتے نہ پہنچتے جلد مکان پر لاؤ۔ لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لے جا حاضر کیا۔ اس نے آداب بجایا۔ تب شاہ نے فرمایا: تو مجھے جانتا ہے؟ سچ کہہ۔ بولا: جہاں پناہ! آپ نیم خدا ہیں اور ملک کے مالک۔ پھر شاہ نے دو دفع پوچھا اور اِس نے یہی جواب دیا۔ تد خوش ہو اُس نے اِسے اپنا وزیر کیا اور سب سلطنت کا مختار۔
ایک روز محل سرا میں بادشاہ کے پیچھے پیچھے چلا جاتا تھا کہ اس نے دیکھا جو ایک خاص خواص شہر کے کوتوال کو لیے شراب پیے نیند میں غافل پڑی ہے۔ اس نے دیکھتے ہی کمر سے دُشالہ کھول اُن دونوں پر ڈال دیا۔ شاہ پھر کر محل میں داخل ہوئے اور یہ رخصت ہو اپنے گھر آیا۔ اس میں اُن کی آنکھ کھلی تو وِنھوں نے شاہ کا آنا اور وزیر کا دُشالا اڑھانا معلوم کیا۔ کوتوال تو وہاں سے نکل وزیر کی ڈیوڑھی پر جا حاضر ہوا اور اُس بد ذات نے کپڑے پھاڑ، بال کھسوٹ، زمین میں لوٹ بادشاہ کو بلا کے کہا کہ وزیر کی یہ جان جو تمھارے رہتے مجھ پر ہاتھ ڈالے اور بے حرمت کرے۔ افسوس دُشالا میرے ہاتھ رہ گیا اور وہ بھاگ کر نکل گیا۔ خدا کی قسم پکڑ پاتی تو بوٹیاں کاٹ کاٹ کھاتی۔ یہ کہہ ہاتھ کاٹ پچھاڑ کھا زمین پر گری۔ اُس کی حالت دیکھ اور بات سن شاہ نے خفا ہو وزیر کو بلا بھیجا۔ جتنے وہ آوے تتنے ایک رقعہ فوجدار کو لکھا کہ جو شخص رقعہ لے کر آتا ہے، وِس کا سر فی الفور کاٹ کے بھیج دوگے اور اس میں کچھ دیری ہوئی تو تمھارا سر نہیں۔ وزیر کے آتے ہی شاہ نے رقعہ دے کے فرمایا کہ تمھارا یہ درجہ نہیں جو رقعہ لے فوجدار کے یہاں جاؤ، پر مجھے دوسرے کا اعتبار نہیں۔ اس لیے تمھیں بھیجتا ہوں۔ اس رقعہ کا جواب جلد لاؤ۔ وہ جوں رقعہ لے کے چلا توں راستے میں کسی امرا نے کھانے کی تواضع کی۔ یہ بولا: کام ضرور کا ہے اور کھانا تیار۔ میں کیا کروں۔ قضا کار کوتوال بھی ان کے ساتھ تھا۔ از راہ خوش آمد بولا کہ پیر و مرشد! آپ کھانا نوش جان فرمائیے۔ تب تک بندہ رقعے کا جواب لا دیتا ہے۔ وزیر نے رقعہ اُس کے ہاتھ دیا اور آپ کھانا کھایا۔ جوں کھانا کھا کر اٹھا تو خاں میں کسا اُس کا سر آن موجود ہوا۔ یہ لے حضور میں گیا۔ شاہ نے اتنا کہہ محل سرا میں بھیج دیا کہ جس نے تجھے بے حرمت کیا یہ اس کا سر ہے، لے۔ وہ دیکھ ڈر کر چپ ہو رہی۔ پھر بادشاہ نے سب بھید کہہ کر وزیر سے پوچھا کہ میں نے تو تیرا سر کاٹنے کو لکھا تھا۔ یہ کیا سبب جو کوتوال کا سر کٹا؟ وزیر نے جوں کا توں سب احوال کہہ سنایا اور رخصت مانگی۔ شاہ نے فرمایا: یہ کبھی نہوگا کہ اب تمھیں رخصت ملے۔ بولا: جہاں پناہ! آپ کو یاد ہے جو میں نے چار بات خریدی تھیں؟ فرمایا: مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ کہا: تین تو آزمائیں اور چوتھی یہ ہے کہ بے قدر خاوند کی نوکری کبھی نہ کریے۔ اس سے اب آپ کچھ نفرمائیے۔ بندہ ہرگاہ نہ رہے گا۔ اتنا کہہ وزیر رخصت ہوا اور بادشاہ شرمندہ ہو دم کھا رہا۔
نقل 93
تام گرام صاحب کو گھوڑوں کا بہت شوق تھا۔ ایک روز ایک عربی مول لیا۔ اس میں منشی صدر الدین نے از راہ خیر خواہی کہا کہ اس گھوڑے پر پنجابی سائیس رہے تو اس کی خدمت بہ خوبی ہو۔ یہ بات سن صاحب نے اصطبل سے سائیسوں کے جمعدار کو بلا کر فرمایا کہ ہمیں ایک پنجابی سائیس لا دے اور بھول گئے۔
بیس پچیس دن بعد ایک روز صاحب کو وہ بات یاد آئی۔ وِسے بلوا کے پوچھا کہ سائیس ملا یا نہیں۔ وہ بولا: خداوند! غلام ڈھونڈھتا ہے، ابھی نہیں پایا۔ یہ بات سن کے منشی نے کہا: کیا بد ذات ہے، ایک مہینے سے ٹال مٹال کرتا ہے اور سائیس نہیں لا دیتا۔ بولا: پیر و مرشد! بد ذات کے کہے کا میں برا نہیں مانتا۔ آپ خاوند ہیں جو مزاج میں آوے سو کہیے۔ پر خاوندوں کے رو برو حق بات کہنے میں کچھ عیب نہیں۔ تقصیر معاف! یے مولوی منشی نہوئیں جو ایک کے بلانے سے سَو آن حاضر ہوئیں۔ یے تو سائیس ہیں، مہینوں کی تلاش میں ایک آدھ مل جائے تو مل جائے۔ نہیں تو ملنا محال۔ یہ سن صاحب ہنسے اور امیدوار جو مولوی منشی اُس وقت حاضر تھے، شرمندہ ہوئے اور منشی صدر الدین پشیمان ہو دم کھا رہا۔
نقل 94
ایک روز دلی کے دو کنگال بانکے شام کے وقت بازار میں گئے تو انھوں نے دیکھا کہ ایک حلوائی مٹھائی کا خوانچہ منہا منہ بھرا آگے دھرے بیٹھا ہے۔ یے اس کے سامنے جا کھڑے ہوئے اور ایک نے ایک سے کہا کہ اسے نظر نہیں آتا۔ دوسرے نے دو انگلیاں اُس کی آنکھ کے سامنے کیں۔ وہ بولا: یہ کیا کرتے ہو؟ اِس نے کہا: ہم نے جانا تھا کہ تجھے دیستا نہیں اور جو دیستا ہے تو آگے دھری مٹھائی کس لیے نہیں کھاتا۔ بولا: اس کے کھانے سے گھر جاتا ہے۔ اتنی بات کے سنتے ہی وے وِسکی سب مٹھائی کھا یہ کہہ چلے گئے کہ تیرا گھر رہے بھلا ہمارا ہی گھر جائے گا۔ اور وہ بچارا اپنے کہنے سے شرمندہ ہو رو کر بیٹھ رہا۔
نقل 95
ایک دن راجا سوائی جے سنگھ پنڈتوں کی سبھا کیے بیٹھے تھے اور شاستر چرچا ہو رہی تھی۔ اس میں کچھ ذکر جو آیا تو راجا نے سب کی طرف مخاطب ہو پوچھا کہ پرتھی کا مدھیہ بھاگ کہاں ہے، سو ہمیں بتاؤ۔ اس بات کے سنتے ہی سب دم کھا رہے اور کسی سے کچھ جواب نہ بن آیا۔ تب ایک چوبے بول اٹھا کہ دھرماوتار! جو آپ میرے ساتھ چلو تو ہوں بتاؤں۔ یہ سن راجا اٹھ کھڑا ہوا اور بولا کہ چلو دکھا دو۔ وہ بھی سبھا سمیت راجا کو لیے کسی میدان بیابان میں جا کچھ ادھر اُدھر ناپ ایک جگہ برچھی گاڑ بولا کہ جہاں یہ سیل گڈیو ہے، سوئی دھرتی کو بیچ ہے۔ راجا نے کہا: ہم کیسے مانیں؟ جواب دیا: یا کوں کہا چاہیے، نمانو تو ماپ لیو۔ اس بات کو سن راجا اور اُس کے ساتھ کے لوگ لا جواب ہو گھر آئے۔
نقل 96
ایک روز کوئی افیمی دو گھڑی دن رہے افیم کا گھولا چڑھا بازار کی سیر کو نکلا تو دیکھتا کیا ہے کہ سوں ہیں سے بھس اور کڑوی سے بھرے چھکڑوں کا تانتے کا تانتا چلا آتا ہے۔ اُسے دیکھ اتنا کہہ وہ کسی بھلے آدمی کے بند کیواڑ سے بھڑ کر کھڑا ہو رہا کہ بچائیو بچائیو، خبردار دھکا نہ لگے۔ اس میں پینک جو آئی تو اسے وہیں کھڑے کھڑے پہر بھر گذر گیا۔ ندان جب گھر والے نے دروازہ کھولا تب وہ پچھاڑ کھا کے گرا اور بولا کہ اتنا کہا “بچائیو بچائیو”، پر گرائے بن نرہا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ ساروان گاڑی وان مانند حیوان ہیں۔
نقل 97
کوئی بھلا مانس صاحب شعور زمانے کی گردش سے اپنے گھر میں بیٹھا فاقے کشی کر رہا تھا کہ یہ خبر سن اُس کے کسی دوست نے آکر کہا: یہ کیا غضب ہے کہ ہاتھ پاے کے کاہلی منہ میں مونچھیں جائیں۔ بولا: میں کیا کروں؟ اِن نے کہا: دانا لوگوں کا قول ہے کہ انسان پر جب تباہی پڑے تب سفر کرے۔ اسی بات کو عمل میں لاؤ۔ غرض اُس نے آشنا کی بات مان سفر دور دراز کیا اور چند برس میں کئی بڑا روپے لے اپنے گھر آیا۔ اسے آسودہ حال دیکھ ایک نے ایک سے کہا کہ اس شہر میں یہ بھوکھا مرتا تھا۔ باہر جا کہاں سے اتنی دولت لے آیا جو مال ور ہو گیا۔ وہ بولا: کیا تم نے یہ کہاوت نہیں سنی جو اتنا تعجب کرتے ہو؟ پوچھا: کیا؟ کہا ؎
پان پدارتھ سگھڑ نر ان تولے ہی بکائیں
جوں جوں چڑھیں دِساوراں مول مہنگے جائیں
نقل 98
دلی میں کسی افیمی کے چھ لڑکے تھے۔ ایک دن وہ تین لڑکوں کو ساتھ لے حضرت قطب کے میلے میں گیا۔ وہاں بھیڑ بھڑکّا دیکھ یہ ڈر کر ایک لڑکے کو کاندھے پر چڑھائے، دوسرے کو گودی میں لے، تیسرے کا ہاتھ پکڑ الگ ہو جوں ایک طرف کھڑا ہوا توں پینک میں آیا۔ پہر ایک بعد میلے میں کچھ ہلڑ جو ہوا تو وہ پینک سے چونک کاندھے کے لڑکے کو نہ دیکھ بہت گھبرایا۔ ندان یوں کہتا کہتا کوتوال کے پاس آیا کہ ہائے میرا لڑکا کھویا گیا۔ کوتوال نے پوچھا: تمھارے کے لڑکے ہیں؟ بولا: چھ۔ اُن میں سے ایک کھویا ہے۔ کوتوال نے سن کے ڈھنڈوریے کو اس کے ساتھ کر دیا۔ وہ تمام دن اُسے سارے شہر میں لیے پھرا۔ آخر رو جھینکھ شام کے وقت جوں گھر میں دھسا توں دروازہ کی چوکھٹ لڑکے کے سر میں لگی۔ وہ رویا۔ تب یہ بولا: اے کمبخت ناشدنی! تمام شہر میں خراب کر مجھے رلا کے جو تو اب رویا، پہلے ہی کیوں نہ بولا جو میں اتنا خراب نہ ہوتا۔ اس بات کو سن کسی اس کے آشنا نے کہا: بھائی! جو مثل ہم سنتے تھے، سو تم نے سچ کر دکھائی کہ بغل میں لڑکا شہر میں ڈھنڈورا۔
نقل 99
شہر کلکتے کے بیچ کوئی مولوی ساٹھ ستر برس کے سن میں خضاب کر رات کے وقت کٹنیاں لگائے ایک ہندوستانی بی بی کو نکاح کر لایا۔ وہ رات بھر تو جوان کے دھوکھے خوش رہی۔ پر بھور ہوتے ہی اِس کے چہرے کی جھریاں اور بالوں کی سپیدی، ہاتھ پانو کی سختی، باتوں کی کرختی دیکھ سن لگی کٹنیوں کو گالیاں دے دے سر پیٹ پیٹ بے اختیار پکار پکار رونے اور ارادہ نکلنے کا بھی کیا۔ حیا اور شرم نے نہ نکلنے دیا۔ چار ناچار دنیا سے بے زار من مار رہنے لگی۔
ایک روز مولوی صاحب کلپ لگانے کی تیاری کر رہے تھے کہ اس نے دور سے دیکھ اصیل کو پکار کے کہا: اے ماما اے ماما! اس بوڑھے خبیس سے پوچھ کہ ایک دفع کالا منہ کر کے تو مجھے دام میں لایا۔ اب کسے برباد کرنے کو روسیاہ کرتا ہے۔ اتنی بات سن شرمندہ ہو مولوی نے اُس دن سے پھر خضاب نہ کیا۔
نقل 100
شاہ جہاں بادشاہ کے شہزادے دارا شکوہ کو علم نجوم سے بڑا شوق تھا۔ نجومی اور جوتشی ہمیشہ نوکر رہتے۔ ایک ایک سے عداوت رکھتا، پر شہزادے کے خوف سے کوئی کسی کا کچھ کر نہ سکتا۔ ایک روز قابو پا نجومیوں نے شہزادے کو سکھایا کہ خداوند! ان جوتشیوں سے پوچھیے کہ بھوں چال کب آوے گا۔ شہزادے نے سب کو بلا کر پوچھا اور کہا کہ یا تو تم بھوں چال کا آنا بتاؤ۔ نہیں میرے شہر سے نکل جاؤ۔ یہ بات سن جوتشیوں نے عرض کی کہ دھرماوتار! آٹھ دن میں اس کا اتر دیں گے تو بھلا۔ نہیں آپ کا نگر چھوڑ دیں گے۔ اتنا کہہ باہر آ ایک مکان پر بیٹھ یے فکر کرتے تھے کہ کسی چوبے نے انھیں فکر مند دیکھ پوچھا: بابا! جو آج کہا ہے جو تم بھاوِت ہو رہے ہو۔ وِنھوں نے سب ماجرا کہہ سنایا۔ تب چوبے بولا: تم مو کوں لے چلو، یا کو اوتر ہوں دیؤں گا۔ اتنی بات اس کے منہ سے نکلتے ہی وے ہاتھوں ہاتھ چوبے کو حضور میں لے گئے اور کہا کہ بھوں چال کا احوال یے کہیں گے۔ شہزادے نے فرمایا: اچھا کہے۔ چوبے بولا: دھرم مورت! جا سمیں بھگوان نے سِرشٹ رچوے کی اِچّھا کی، تا سمیں دُوے منکھ بنائے اور اوپر سوں نیچے نرک میں ڈار دیے۔ تن میں ایک منہ کے گریو اور دوسرو چوتڑ کے۔ منہ کے بل گرن وارو مسلمان بھیو اور دوسرو ہندو۔ ایک کی درشٹ نیچے کوں رہی اور دوسرے کی اوپر کوں۔ یا ہی تیں جوتشی آکاش کی سب بات جانتُ ہیں۔ گرہن کو ہو نوں یے بتائے دیں گے اور بھوں چال کی بات وِنتیں پوچھو، وے بتاویں گے۔
چوبے کی یہ جگت سن شہزادے نے ہنس کر کہا: اس کی دلیل کیا ہے؟ بولا: یا ہی لیے بھور اٹھ مسلمان منہ دھووت ہیں اور ہندو جنگل جاتُ ہیں۔ یا کو یہی پرمان ہے۔ اس حاضر جوابی اور بے باکی سے خوش ہو شہزادے نے چوبے کو انعام دیا اور جوتشیوں کو بحال کیا۔
تمام شد