(Last Updated On: )
نقل 41
بنارس میں ایک چوبے نے کسی مکان پر کتنے ایک بدیارتھیوں کو ہل ہل کر پڑھتے دیکھ کِسو پنڈت سے سوال کیا ؎
جھکت جھکت بدیارتھی کہا بوڑھے کہا بار
میں تُہِ پوچھوں ہے سکھے یا کو کون بچار
جواب دیا ؎
آگے سمد اگمیہ ہے اپنے بیٹھ کرار
رتن لین کوں جھکت ہیں جھجھکت دیکھ اپار
نقل 42
کسی دن سوائی جے سنگھ ایک مکان میں بیٹھے براہمن کھلاتے تھے اور دربانوں کو یہ حکم تھا کہ سواے براہمن کے اندر اور کوئی نہ آنے پاوے۔ اس میں ایک بھاٹ دروازے پر گیا اور اس نے چاہا کہ بھیتر جاؤں پر ڈیوڑھی داروں نے نجانے دیا۔ اس نے سبب پوچھا۔ انھوں نے جو راجا کا حکم تھا، سو کہہ سنایا۔ تب اس نے اتنا راجا کو لکھ بھیجا ؎
درد مند دروازے ٹھاڑھے بھیتر ہیں بے دُوا
اس کی بتیاں ہم جانت ہیں وے باندھت ہیں ہوا
اس بات کے پڑھتے ہی ہنس کر راجا نے سو رُپے دلوا بھیجے۔ وہ لے اسیس دے خوشی سے اپنے گھر گیا۔
نقل 43
ایک بنیاں ہمیشہ بھنڈ سال بھرا کرتا۔ کسی دن اس کے بڑے بھائی نے آ کے اس سے کہا کہ بھیا! تجھے اس میں کیا نفع ہوتا ہوگا؟ کچھ اور روزگار کیوں نہیں کرتا جو زیادہ فائدہ ہو۔ بولا: بھائی صاحب! اس میں بھی آم کے آم گٹھلی کے دام ہوتے ہیں اور کتنا نفع ہوگا۔ اُس کے بھائی نے کہا: میں کچھ نہیں سمجھا، بُجھا کے کہو۔ جواب دیا: مع نفع دام اٹھاتا ہوں اور بچتا ہے سُو برس بھر اچھی طرح کھاتا ہوں۔ یہ سن وہ چپکا ہی چلا گیا۔
نقل 44
عید کے دن دو ڈھاڑی بچے، ایک ہتھیار بند اور دوسرا نہتھا، مل کر کسی امرا کے یہاں ڈھولک تنبورا ساتھ لواے مجرے کو گئے اور جب وہاں سے گائے بجائے رجھائے انعام لے پھر آئے تب آپس میں بخرا بانٹا کرنے کے وقت جھگڑنے لگے۔ کئی ایک راہ گیر تماشا دیکھنے کو آن کھڑے ہوئے اور اُن میں سے ایک ٹھٹھول نے نہتھے سے کہا کہ میاں! تو اس سے ڈرتا نہیں، اُس کے ہاتھ میں تلوار ہے۔ بولا کہ حضرت سلامت! یہ اپنے جی میں کچھ اور نہ سمجھے، میرے گھر بٹوے میں دو رپے دھرے ہیں۔ گھر سے رپے لے چوک میں جا ڈیڑھ رُپے کی تلوار خرید آٹھ آنے باڑیے کو دے مسوری باڑ چِروا لا ابھی سر کاٹ ڈالتا ہوں۔ اس بات کو سن سب تماش بین ہنس پڑے اور اُن دونوں کو ملا چلے گئے۔
نقل 45
راجا سوائی جے سنگھ نے متھرا میں عبد النبی خاں کی مسجد کے مینار کی بلندی دیکھ کر کہا کہ اس پر سے کوئی کودے تو ہزار رُپے دوں۔ یہ سن ایک چوبے نے پوچھا کہ مہاراج! جو یا پے تیں کودے گو وا ہِ ہزار رُپیّا دیوگے؟ کہا: ہاں۔ اتنی بات کے سنتے ہی وہ چوبے اپنے گھر جا ایک بڑھیا سو برس کی جاں بلب ہو رہی تھی اسے لے آیا۔ اُسے دیکھ کر راجا نے کہا: اسے کیوں لائے ہو؟ بولا: یہی گمٹی پر سوں کودے گی، ہزار رُپیّا دیو۔ راجا نے کہا: بڑھیا کی شرط نہیں۔ جواب دیا: مہاراج! آپ کوں بوڑھی باری تیں کہا کام۔ تمھیں ایک ہتیا لینی ہے سو لیو اور موں کوں ہزار رُپیّا دیو۔ اس ظرافت و حاضر جوابی سے خوش ہو راجا نے اُسے رُپے دلوا دیے۔ وہ لے اپنے گھر گیا۔
نقل 46
ایک بنیاں اپنے گھر میں رات کو نیند میں غافل پڑا سوتا تھا کہ ایک چوہا اُس کے پیٹ پر ہو کر ادھر سے اُدھر چلا گیا۔ وہ نیند سے چونک پڑا اور لگا چیخ مار مار رونے اور یہ کہنے کہ ہاے جان گئی، ہاے جان گئی! اُس کے رونے کی آواز سن کے سب گھر کے لوگ گھبرائے اور لگے پوچھنے کہ تجھے کیا دکھ ہے جو اتنا روتا ہے؟ بولا: اِس گھر میں رہ نہیں سکتا۔ کہا: کیوں؟ جواب دیا: ایک چوہا میری چھاتی پر ہو کر اس طرف سے اُس طرف چلا گیا۔ لوگوں نے کہا: چلا گیا چلا گیا۔ اِس کے واسطے اتنا رونا کیا تھا۔ بولا: کسی نے سچ کہا ہے کہ جا تن لگے سوئی تن جانے، دوجا کیا جانے رے بھائی۔ میں اس کے جانے پر نہیں روتا۔ روتا اس واسطے ہوں کہ یہ راہ بری نکلی۔ آج چوہا گیا ہے، گل کو سانپ جائے گا تو میں کاہے کو جیتا رہوں گا۔
نقل 47
ایک کھترانی نوجوان خوب صورت چست و چالاک بسنت رُت میں اپنی بہنیلی کے یہاں گئی اور کچھ اِدھر اُدھر کی من لگن باتیں کر رہی تھی کہ پیاسی ہوئی اور پانی مانگا۔ اُس کی اُس منہ بولی بہن نے کورے کلھڑے میں بھر کر لا دیا۔ جوں اس نے منہ لگا کر پیا توں کلھڑا ہونٹھوں سے لگ رہا۔ یہ کھل کھلا کر ہنسی اور اِس دوہے کو پڑھنے لگی ؎
رے ماٹی کے کولھرا تو ہِ ڈاروں پٹکائے
ہوٹھ رکھے ہیں پیو کوں تو کیوں چوسے جائے؟
یہ دوہا سن اُس کی بہنیلی نے کلھڑے کی طرف سے جواب دیا ؎
لات سہی مونکی سہی الٹے سہے کُدار
ان ہوٹھن کے کار نے سر پر دھرے انگار
نقل 48
ایک سوداگر کا گماشتہ کہیں سے روکڑ لِوائے چلا آتا تھا۔ راہ میں کسی سراے کے بیچ اترا کہ وہاں ڈاکا آیا۔ تب اِس نے وہاں کے رہنے والوں سے کہا کہ بھائیو! جو تم لڑ بھڑ کے اِن رُپیوں کو ڈکیتوں کے ہاتھ سے بچاؤ تو آدھے پاؤ۔ غرض اُن لوگوں نے جوں توں کر رُپے بچائے اور آدھے پائے۔ باقی رہے سو لے وہ اپنے خاوند کے پاس پہنچا۔ اُس وقت اُس کے منیب نے راہ کا احوال سن خوش ہو اُسے ایک دو شالا انعام دے کر کہا کہ شاباش! تم نے خوب دانائی کی۔ اُس وقت وہی مناسب تھا۔ یہ مثل ہم بھی ہمیشہ بزرگوں کی زبانی سنتے آئے ہیں کہ جو دھن جاتا جانیے تو آدھا دیجے بانٹ۔
نقل 49
کسی امرا کے یہاں کوئی بھلا آدمی کئی ایک مہینے سے آمد و رفت کرتا تھا۔ ایک روز اُس نے اس کے حال پر مہربان ہو کر پانچ سو رُپے اپنے دیوان سے دلوائے۔ اُس نے نٹ کھٹی اور اپنی بد ذاتی سے ٹال مٹال کر کے کئی ایک دن لگائے۔ تب دکھ پا اِس بچارے نے سرِ مجلس کہا کہ دیوان جی صاحب! بھلا مانیے یا برا۔ حق بات کہنے میں کچھ عیب نہیں۔ آپ کی وہی مثل ہے کہ داتا دے بھنڈاری کا پیٹ پھولے۔ اس مثل کے سنتے ہی شرمندہ ہو اُس نے اِسے اُسی وقت رُپے گن دیے۔
نقل 50
کسی مکان پر کئی ایک تجارت پیشہ بیٹھے آپس میں اپنی اپنی کمائی کا احوال بیان کر رہے تھے کہ ایک عاشق تن بھولا بھٹکا وہاں جا نکلا اور اُن کی باتیں سن آہ کر یہ شعر پڑھا ؎
جو آئے اس جہاں میں سو کچھ کچھ کما چلے
ایک بے سلیقہ ہم ہیں کہ دل بھی گنوا چلے
نقل 51
ایک گونگیرہ کسی حکیم کے یہاں حکمت کی کتاب پڑھنے نت آتا اور یہ بات کہتا کہ پیر مرشد! جو غلام کو آپ کے تصدّق سے اس فن میں کچھ مناسبت ہو جائے گی تو یہ بن مول کا غلام آپ کے قدم مبارک چھوڑ کر کہیں نجائے گا اور ہمیشہ خدمت میں رہے گا۔ غرض اسی دم بازی سے کئی ایک برس کے عرصے میں تمام کتاب پڑھ سن کے وہاں سے ایسا گیا کہ جیسے گدھے کے سر سے سینگ گئے، پھر نظر بھی نہ آیا۔
ایک روز حکیم جی نے اُس کے کسی دوست سے کہا کہ تمھارے آشنا نے ہم سے کیا قول کیا تھا اور اب دکھائی بھی نہیں دیتا۔ وہ بولا: حکیم صاحب! کیا آپ نے یہ مثل نہیں سنی جو ایسی بات زبان پر لاتے ہو “کام سرا دکھ بیٖسرا چھاچھ نہ دیت اہیر”۔
نقل 52
کوئی شخص کسی پر عاشق تھا، پر مارے حجاب کے اپنا عشق اس کے آگے اظہار نہ کرتا اور جس پے عاشق تھا وہ بھی جان بوجھ کر شرم سے کچھ نہ کہتا۔ ایک روز وے دونوں کسی مکان پر رات کو بیٹھے تھے کہ ایک پروانہ شمع پر آ چلا۔ اس کو جلتا دیکھ عاشق نے کنایے سے یہ دوہا پڑھا ؎
آہ دئی کیسی بنی انچاہت کو سنگ
دیپک کے بھانویں نہیں جل جل مرے پتنگ
اس کے جواب میں معشوق نے بھی یہ دوہا کہہ سنایا ؎
آؤ پتنگ نسنک جل جلت نہ موڑو انگ
پہلے تو دیپک جلے پاچھے جلے پتنگ
نقل 53
اکبر بادشاہ کا یہ معمول تھا کہ ہمیشہ فقیر کا بھیگھ لے رات کو شہر کی گلی گلی کوچے کوچے میں پھرتے اور جس غریب کنگال دُکھی کو دیکھتے اس کا دکھ دور کرتے۔ ایک دن جوں نکلے توں دیکھتے کیا ہیں کہ کوئی سوداگر بچی دروازے کے اوپر گوکھ میں کھڑی رو رو بسور رہی ہے۔ یے بولے: مائی! ٹکڑا بھیجیو۔ وہ روٹی دینے آئی۔ اِنھوں نے اُس سے پوچھا: تو کیوں روتی ہے؟ جواب دیا: میرا خاوند بارہ برس سے جہاز لے سودا گری کو نکلا ہے، اُس کی کچھ خبر نہیں پائی۔ اِس دکھ سے روتی ہوں۔ اتنا سن روٹی لے دعا دے آگے بڑھے تو دیکھا کہ کوئی رنڈی رو رو چکی پیس رہی ہے۔ اُسی طرح اس سے بھی پوچھا۔ اُن نے کہا: میرا خصم چوری کو گیا ہے، اُسے تین دن ہوئے نجانوں جیتا ہے یا مارا گیا۔ اِس دکھ سے روتی ہوں۔ یہ سن وہاں سے بھی چل نکلے۔ پھر دیکھا کہ ایک عورت نوجوان کھڑکی میں بیٹھی ڈاڑھیں مار مار روتی ہے۔ اُس سے پوچھا: تو کیوں روتی ہے؟ ان نے کہا: میرا شوہر کم سن ہے۔ اس بات کے سنتے ہی بادشاہ اداس ہو گھر آئے اور دوسرے دن دیوان خاص میں بیٹھ بیربل کی طرف مخاطب ہو بولے: وے تینوں بِلّائیں۔ بیربل نے کچھ جواب ندیا۔ پھر شاہ نے کہا: بیربل! وے تینوں بِلّائیں۔ بولا: ہاں جہاں پناہ سلامت! اتنی بات کے سنتے ہی شاہ نے لیلی پیلی آنکھیں کر کہا: یا تو اِس کا بیان کر، نہیں تو ابھی مار ڈالتا ہوں۔ تو نے کیا سمجھ کے میری بات کا جواب دیا۔ بولا ؎
ایک سمندر بنج کرے اور نت اٹھ چوری جائیں
بالک ہی سے نیہ لگاوے وے تینوں بِلّائیں
اس بات کے سنتے ہی خوش ہو بادشاہ نے بیربل کو نہال کر دیا۔
نقل 54
کسی دن اکبر بادشاہ نے لاڑ کپور کا گانا سن ریجھ کے ایک گھوڑا دلوایا۔ اسطبل کے داروغہ نے نٹ کھٹی کر کے بھلا گھوڑا ندے ایک بہت بوڑھا ترکی دیا، ایسا کہ جس کے خائے مانند گھڑے کے تھے۔ یہ لے نا خوش ہو اپنے گھر آئے۔ کتنے دنوں کے بعد ایک روز بادشاہ نے ان سے کہا کہ کل تم بھی میرے ساتھ فجر شکار کو چلیو۔ یے “بہت خوب” کہہ کر رخصت ہو اپنے مکان پر آئے۔ اور دوسرے دن چار گھڑی رات رہے سوار ہو دونوں بادشاہ کی ڈیوڑھی پر جا حاضر ہوئے۔ ایک بھائی اُسی ترکی کے گلے میں بالو کا بھرا گھڑا باندھ سوار ہو گیا تھا۔ جوں حضرت بر آمد ہوئے، توں ہی انھوں نے بڑھ کے سلام کیا۔ شاہ نے دیکھتے ہی ہنس دیا اور فرمایا کہ ابے فجر ہی فجر یہ کیا سوانگ بنا لائے ہو۔ بولے: بلیّا لیوں، اُلل پڑنے کے ڈر سے دوؤ اور بوجھ برابر کر لیو ہے اور حضور کے داروغہ نے تو گرانے کو فکرِ معقول ہی کیو ہو۔
اس لطیفے کے سنتے ہی شاہ نے داروغہ کو تنبیہ کی اور اِنھیں اس کے عوض دو گھوڑے دیے۔
نقل 55
سورج مل کے وقت میں کسی مسلمان نے از راہِ تمسخر ایک جاٹ سے کہا: ابے جاٹ بے جاٹ، تیرے سر پر کھاٹ۔ اس نے کہا: ابے میاں بے میاں، تیرے سر پر کولھو۔ یہ بولا: تک نہ ملی۔ اُس نے جواب دیا کہ تُک نہ ملی تو کہا بھیو ارے بوجھن تو مریگو۔
نقل 56
دو زمیندار اپنے گانو سے کہیں کو چلے جاتے تھے۔ راہ میں ایک پچاس ساٹھ بیگھے اچھی زمین کا قطعہ دیکھ کر اُن میں سے ایک نے کہا کہ بھائی! یہ جگہ اگر ہمارے تمھارے ہاتھ لگے تو کیا کرو؟ بولا: میں تو اپنے حصے کی زمین میں پھلواری لگاؤں۔ کہو تم اپنی جگہ میں کیا کرو گے؟ کہا: میں اپنی گائیں بھینسیں چراؤں گا۔ اِس نے کہا: بھلا مانو یا برا، میں تو اپنے باغیچے کے پاس نہ چرانے دوں گا۔ وہ بولا: تمھارا کچھ اِجارا نہیں ہے۔ میں اپنی زمین میں جو چاہوں گا سو کروں گا۔ غرض اسی طرح ہُدّا تُدّی کر کے لگے ہاتھا پائی کرنے۔ اِس میں کئی ایک راہ گیر جو ان کو جھگڑتے دیکھ جمع ہو گئے تھے، اُنھوں نے بیچ بچاؤ کر کے اِن سے پوچھا کہ تم کیوں آپس میں لڑتے ہو؟ اس کا سبب کہو۔ اُنھوں نے سب ماجرا کہہ سنایا۔ سنتے ہی اُن میں سے ایک شخص بولا کہ تمھاری وہی مثل ہے کہ “سوت نہ کپاس، کولی سے لٹھا لٹھی”۔
نقل 57
کسی مکان میں پنڈت ساہوکار اور سپاہی یے تینوں بیٹھے بحث رہے تھے۔ ایک کہتا تھا کہ منُش گُن سے بڑا کہلاتا ہے اور دوسرا کہتا تھا کہ نہیں، دھن سے اور تیسرا کہتا تھا کہ نہ، مددگاروں سے آدمی بڑا کہلاتا ہے۔ اِس میں کوئی کبیشور وہاں جو جا نکلا، اُنھوں نے اِسے ثالث مان کے کہا کہ مہاراج! اِس مقدمے میں جو تمھارے نزدیک سچ ہو سو اپنے دھرم سے کہو۔ تب اِس نے اُن کے جواب میں یہ سورٹھا کہہ سنایا ؎
گن تیں گروو ہوت نہیں سنپت نہ سہاے تیں
پونوں چند اُدوت دُتیا کی سر بر نہیں
یہ سن وے تینوں چپکے ہو رہے۔
نقل 58
ایک روز اکبر بادشاہ نے بیربل سے کہا کہ تو مجھے چار شخص لا دے: سوربیر، کایر، صاحبِ شرم اور بے شرم۔ بیربل دوسرے دن بھور ہی ایک رنڈی کو ساتھ اپنے حضور میں لے گیا۔ شاہ نے پوچھا: لایا؟ بولا: خداوند! حاضر ہے۔ یہ کہہ بیربل نے اُس رنڈی کو بادشاہ کے سوں ہیں لے جا کھڑا کیا۔ حضرت نے فرمایا کہ ابے! میں نے چار شخص بلوائے تھے، تو ایک کو لایا۔ اور تین کہاں ہیں؟ عرض کی: جہاں پناہ! اِس میں چاروں کی صفات ہیں۔ ارشاد کیا: بیان کر۔ بولا کہ جس وقت یہ اپنی سسرال میں رہتی ہے مارے شرم کے اچھی طرح گلا کھول کر بولتی بھی نہیں۔ اور جس بریاں کہیں شادی میں گالیاں گاتی ہے تو باپ بھائی شوہر سسر اور برادری کے لوگ بیٹھے سنا کرتے ہیں، پر یہ کسی کی شرم نہیں کرتی۔ اور جب اپنے شوہر کے پاس بیٹھتی ہے تو رات کو اکیلی گھر کے کوٹھے میں بھی نہیں جاتی اور کہتی ہے مجھے ڈر لگتا ہے۔ پھر جس وقت کسی سے اِس کی آنکھ لگتی ہے تو آدھی رات کی اندھیری میں اکیلی بے ہتھیار یار کے پاس نِدھڑک چلی جاتی ہے اور چور چکار بھوت پلیت سے نہیں ڈرتی۔ یہ بات سن شاہ نے خوش ہو بیربل کو انعام دیا اور فرمایا: تو سچ کہتا ہے۔
نقل 59
کوئی جوگی کسی جنگل میں سرِ راہ ایک پیڑ کے نیچے بھبھوت لگائے دھونی جلائے سیلی سینگی مدرا پہنے باگھنبر بچھائے ننگ دھڑنگا آسن مارے اپنے بھگوان کی یاد میں مگن بیٹھا بھجن کرتا تھا کہ چار مسافر وِس راہ سے آئے اور اُسی درخت کے نیچے جا بیٹھے۔ اُن میں سے پہلے ایک نے اُس جوگی سے کہا کہ آج کیا ہے جو تم جوا کھیلنے نہیں گئے۔ کچھ ہار آئے ہو جو اِس بن میں یہ سوانگ بنا کر آن بیٹھے ہو؟ بولا: ہاں بابا۔ سچ کہتا ہے۔ پھر دوسرے نے کہا: تو تو کل شراب پیے شہر کی گلیوں میں گرتا پڑتا پھرتا تھا۔ آج کس لیے یہاں مکر کر آن بیٹھا ہے؟ جواب دیا: ہاں بابا، سچ کہتا ہے۔ تیسرے نے کہا: تم نے اِس راہ میں بہت قافلے غارت کیے ہیں، کہو اب کس کی تاک پر بیٹھے ہو؟ بولا: ہاں بابا، سچ کہتا ہے۔ بعد چوتھے نے کہا: ناتھ جی! آپ بھگوان کے خاص بندوں سے ہو، کچھ میرے حال پر رحم کرو۔ اسے بھی یہی جواب دیا: ہاں بابا، سچ کہتا ہے۔ غرض یہ کہہ سن کر وے چاروں چلے گئے۔ تب ایک اور مسافر جو الگ وہیں بیٹھا سنتا تھا، اُس کے پاس آیا اور آدیس کر بولا کہ ناتھ جی! آپ نے چار آدمیوں کے چار سوالوں کا ایک ہی جواب دیا۔ اِس کا کیا سبب؟ اُس نے اِس سے بھی کہا کہ ہاں بابا، سچ کہتا ہے۔ یہ بولا کہ مہاراج! میں وِن جیسا نہیں ہوں کہ مجھے بھی بہکا دوگے۔ بدون سمجھائے آپ کا پیچھا نہ چھوڑوں گا۔ اِس بات کے سنتے ہی اُس جوگی نے کہا کہ بابا! جو کوئی جیسا ہوتا ہے وہ دوسرے کو بھی ویسا ہی سمجھتا ہے۔ اُن کے کہنے سے میرا کیا بگڑا۔ فقیر تو جیسے کا تیسا بیٹھا ہے۔
نقل 60
ایک روز راجا بکرماجیت کے یہاں چار شخص ایک ساتھ چوری کے معاملے میں پکڑے گئے۔ راجا نے اُن میں سے ایک کو پاس بلا اتنا کہہ چھوڑ دیا کہ تمھارے لائق یہ کام نہ تھا اور دوسرے کو پانچ چار گالیاں دے نکال دیا۔ تیسرے کو دس بیس دھول جوتیاں لگوا دھکے دلوا نکلوا دیا اور چوتھے کی ناک اور کان کٹوا کالا منہ کروا گدھے پر چڑھوا شہر بدر کروایا۔
یہ عدالت دیکھ ہر ایک درباری ایک ایک کا منہ دیکھنے لگا۔ اُس وقت راجا نے اُن سے پوچھا کہ تمھارے دل میں کیا ہے سو کہو۔ اُنھوں نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ دھرماوتار! آپ نے نیاؤ تو سمجھ ہی کے کیا ہوگا، پر اس کا بھید کچھ ہم پر نہ کھلا۔ راجا نے ہنس کے کہا کہ تم ان چاروں کے پیچھے ہرکارے لگا دو کہ یے جا کے کیا کرتے ہیں، اس کی خبر لاویں۔ اُنھوں نے سوئی کیا۔ تیسرے دن جب ہرکارے خبر لے حضور میں آ حاضر ہوئے تب راجا نے دیکھ کر فرمایا کہ اُن کے سماچار لائے؟ جواب دیا: ہاں، پرتھی ناتھ لائے۔ ارشاد کیا: کہو۔ وے دنڈوت کر ہات جوڑ بولے کہ دھرماوتار! جسے آپ نے یہ کہہ چھوڑ دیا کہ تمھارے لائق یہ کام نہیں تھا، وہ تو جاتے ہی زہر کھا مر گیا۔ اور جسے گالیاں دے چھڑوایا تھا وہ شہر چھوڑ کر چلا گیا۔ اور جو مار کھا کے چھوٹا ہے سو وِس دن سے گھر کے باہر نہیں نکلا۔ اور مہاراج! جس کی ناک اور کان کاٹے گئے، تس کا احوال سنیے کہ راہ میں گدھے پر سوار چلا جاتا تھا اور تماش گیر بھی دو چار سَو چاروں طرف سے لعنت ملامت کرتے جاتے تھے اور سوں ہیں سے اُس کی جورو آئی۔ اُن نے اُسے پاس بلا کر سب کے دیکھتے کہا کہ تو گھر جا کر نہانے کا پانی جلد گرم کر رکھ، تھوڑا شہر پھرنا باقی ہے۔ ابھی پھر کر اِن موذیوں کے ہاتھ سے چھوٹ چلا آتا ہوں۔
اتنی بات کے سنتے ہی راجا نے اُن لوگوں سے کہا جنھوں نے کہا تھا کہ دھرماوتار! ہم نے اس نیاؤ کا بھید نجانا: کہو اب تو سمجھے؟ انھوں نے عرض کی کہ پرتھی ناتھ، آپ کا نیاؤ آپ ہی سے بنے۔ دوسرے کی کیا سامرتھ جو اس میں دم مارے۔ یہ وہی ہے جو کسی نے کہا ہے ؎
راگی باگی پارکھی ناری اور نیاؤ
اِن پانچوں کے گرو ہے پر اپجے انگ سُبھاؤ