دوسری جنگِ عظیم جاری تھی۔ جاپان نے پرل ہاربر پر انتہائی کامیاب حملہ کر کے بحرِ اوقیانوس میں امریکی فوج کو بھاری نقصان پہنچایا تھا۔ اس کے دو ہفتوں اکیس دسمبر 1941 کو امریکی صدر روزویلٹ نے افواج کے سربراہان کی میٹنگ میں کہا تھا کہ جاپان پر بمباری کرنا ضروری ہے۔ لیکن یہ ناممکن کام تھا۔ امریکہ کے پاس ایسے طیارے ہی نہیں تھے جو جاپان تک پہنچ سکیں۔
اس سے چند ہفتوں بعد امریکی بحریہ کے فرانسس لو اس بارے میں سوچ رہے تھے۔ باقی سب کی طرح ان کے پاس بھی ایسا کوئی آئیڈیا نہیں تھا کہ اسے کیسے کیا جا سکتا ہے۔ یہ ناقابلِ تصور تھا۔ ان کی مہارت آبدوزوں میں تھی اور وہ بحریہ میں رہے تھے۔ بمبار طیارے ان کی مہارت نہیں تھے۔ وہ بمبار طیاروں کی مشقیں دیکھ رہے تھے جس میں طیارے ایک ائیرکرافٹ کیرئیر کو ڈبونے کی مشق کر رہے تھے جسے سفید رنگ سے پینٹ کیا گیا تھا۔ اور ان کے ذہن میں اچانک ہی ایک خیال نمودار ہوا۔
اگر کوئی ماہر ان کا خیال سنتا تو اسے احمقانہ قرار دیتا۔ بمبار طیارے کو ائیرکرافٹ کیرئیر سے اڑایا جا سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک ایسا موقع تھا جب کسی مسئلے کو حل کرنے کے لئے لاعلمی مفید رہتی ہے یا کم از کم لاعلمی کا مفروضہ لینا۔ ایسا نہیں تھا کہ لو اس بارے میں کوئی علم نہیں رکھتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ ان کا یہ آئیڈیا کیوں کام نہیں کرے گا لیکن انہوں نے ان وجوہات کو نظرانداز کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے پہلے یہ مفروضہ لیا کہ اسے کام کرنا چاہیے اور پھر اس میں رکاوٹوں کے حل کا تجزیہ کرنا شروع کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ایسی بہت سی رکاوٹیں تھیں۔ ائیرکرافٹ کیرئیر ہلکے اور تیزرفتار طیاروں کے لئے بنے ہوتے ہیں، نہ کہ بمبار طیاروں کے لئے۔ بمبار بھاری طیارے ہیں جنہیں اڑنے کیلئے بڑا رن وے درکار ہے۔
اس کے علاوہ بمبار طیارے زیادہ چست نہیں ہوتے اور آسانی سے گرائے جا سکتے ہیں۔ ان کی حفاظت کیلئے ان کے ساتھ فائٹر طیاروں کو اڑنا ہوتا ہے۔ ائیرکرافٹ کیرئیر کے پاس اتنی جگہ نہیں ہوتی کہ دونوں کو ساتھ رکھ سکے۔
اور سب سے اہم یہ کہ اگر کسی طرح یہ سب کر بھی لیا جائے اور کیرئیر کو جاپان کے قریب لے جایا جائے تو اگلا سوال یہ ہو گا کہ یہ لینڈ کیسے کریں گے۔ بمبار میں دم اونچی اور اس کا سٹرکچر کمزور ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر لینڈنگ ہُک نصب نہیں ہو سکتا۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ طیارے واپس کیرئیر پر لینڈ نہیں کر سکتے۔ لو کے پاس ان میں سے کسی سوال کا حل نہیں تھا لیکن انہوں نے اس بات کو قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ حل مل نہیں سکتا۔
لو ایڈمرل ارنسٹ کنگ سے ملنے گئے اور تناہئی میں انہیں اپنا آئیڈیا بتایا۔ اگرچہ اس کی کامیابی کا امکان نہیں تھا لیکن کوئی اور راہ بھی نہیں تھی۔ ایڈمرل بھی کسی بھی خیال کے لئے بیتاب تھے۔ اگلے چند مہینوں میں، بمبار طیاروں میں سے ہر غیرضروری چیز نکال کر انہیں ممکنہ حد تک ہلکا کیا گیا۔ اور اس کی جگہ پر ان کی رینج بڑھانے کیلئے ایندھن کا اضافی ٹینک لگایا گیا۔ پائلٹوں کو تربیت دی گئی کہ اتنی چھوٹی رن وے سے کیسے اڑا جائے۔ کیسے نیچی پرواز کی جائے جس سے ریڈار سے بچا جا سکے اور فائٹر طیاروں کو ساتھ لے جانے کی ضرورت نہ پڑے۔
اور جہاز لینڈ کرنے کے مسئلے کو اس طرح “حل” کیا گیا کہ جہازوں کی واپس لینڈنگ کا ارادہ ہی ترک کر دیا جائے۔ بم گرا کر جہازوں کو یا تو چھوڑ دیا جائے یا پھر سوویت یونین یا چین کی طرف لے جایا جائے اور انہیں وہاں اتار لیا جائے۔ ان ممالک نے اپنے علاقے سے حملہ کرنے کی اجازت نہیں دی ہوئی تھی لیکن یہ تو جہاز کی صرف لینڈنگ تھی۔ اور انہیں بتانے کی ضرورت نہیں تھی۔ پائلٹوں کی بدقسمتی کہ ان کے پاس واپس آنے کی امید بہت اچھی نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پلان پر عملدرآمد کی ذمہ داری جنرل ہنری آرنلڈ کے پاس آئی۔ 80 رضاکار جمع ہوئے۔ کرنل ڈولٹل کی قیادت میں سولہ طیارے مشن پر گئے۔
چونکہ یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ امریکی طیارے جاپان تک پہنچ سکتے ہیں، اس لئے اینٹی ائیرکرافٹ سے کوئی مزاحمت نہیں ملی۔ ان طیاروں نے ٹوکیو پر سولہ ٹن کے بم گرائے اور پھر چین کی طرف چلے گئے جہاں پر جہاز کریش لینڈ کر دئے۔ حملہ کرنے والوں کے عملے میں سے چھ مارے گئے جبکہ باقی بچ کر واپس آ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کس قدر عجیب و غریب طریقہ تھا؟ جاپانی فوج کے ماہرین کے ذہنوں میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ جہاز کسی کیرئیر سے آئے ہوں گے۔ انہیں یقین ہو گیا کہ یہ جزیروں کے ایک جھرمٹ (مڈوے اٹول) سے اڑے ہوں گے کیونکہ یہی واحد ممکنہ زمین ہو سکتی تھی۔ ان جزیروں کو فتح کرنے کے لئے بحری بیڑا بھیجا گیا۔ امریکی بحریہ کو اس کی پہلے سے توقع تھی۔ یہاں لگائی گئی گھات نے اس بیڑے کو بڑا بھاری نقصان پہنچایا۔ مورخ جان کیگان کے مطابق یہ جنگ کا اہم ترین موڑ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی بار سب سے طاقتور انکشاف یہ ہوتا ہے کہ صورتحال تبدیل ہو گئی ہے۔ آپ کو جن رولز کی عادت ہے، وہ اب متعلقہ نہیں رہے۔
کامیاب حربہ وہ ہو سکتا ہے جسے موجودہ رولز کے حساب سے مسترد کیا جا چکا ہو۔ اور یہ آزاد کر دینے والا خیال ہے۔ اب آپ اپنی بنیادی assumptions کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ اور سوچ کی تنظیمِ نو کر سکتے ہیں۔
یہاں پر جنگی منصوبہ بندی کا معمہ تھا۔ ائیرکرافٹ کیرئیر اس کا ایک ٹکڑا تھا جبکہ بمبار طیارہ دوسرا۔ عام حالات میں یہ ٹکڑے اکٹھے فِٹ نہیں ہوتے۔ لیکن لو کے اس آئیڈیا کی وجہ یہ بات کو پہچان لینا تھا کہ پرل ہاربر کے نتیجے میں معمہ تبدیل ہو گیا ہے۔
تاریخ ۔۔۔ اور ہماری زندگی ۔۔۔ ایسے مواقع سے بھری پڑی ہے جب ہم اس بات کو نہیں پہچان پاتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب لو سے پوچھا گیا کہ انہوں نے یہ منصوبہ بنانے کا خیال کیسے آیا؟ تو انہوں نے کہا کہ “خوش قسمتی سے بس کہیں اچانک ہی یہ وارد ہو گیا تھا”۔
ان کے شعوری ذہن کو اس کا احساس اسی طرح سے ہوا تھا جیسے انہوں نے اس کا بتایا تھا۔
لیکن ہم جانتے ہیں کہ لو کی یہ بصیرت ایسے نہیں تھی۔ یہ غیرشعوری طور پر ہونے والے پیچیدہ پراسسز کا نتیجہ تھی۔ اور اس وقت جب شعوری ذہن کی منطقی توجیہہ اس میں ناکام ہو گئی تھیں۔
ہم نے اس سے پہلے یہ پڑھا تھا کہ ڈیفالٹ نیٹورک اس وقت دماغ میں ایسوسی ایشن بنا رہا ہوتا ہے جب ہم کسی چیز پر توجہ نہیں دے رہے ہوتے۔ ایسی زیادہ تر ایسوسی ایشن شعوری آگاہی تک نہیں پہنچتے۔ لو کے ذہن پر چونکہ اس معمے کو حل کئے جانے کا جنون سوار تھا اور ایسا آئیڈیا بھی شعوری آگاہی تک نمودار ہو گیا جو عام حالات میں مسترد کر دیا جاتا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...