صبح کے ٹھیک آٹھ بجے سرہانے لگے ہوئے الارم نے اُسے جگا دیا۔ سر درد سے پھٹا جارہا تھا۔ وہ آنکھیں مَلتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ کھرکی کے شیشے سے پردہ سرکایا۔ باہر وہی پیلا پیلا سا دُھند تھا۔ تین دن پیشتر ایک دھول بھری، پیلی آندھی آئی تھی مگرپھر یہیں آکر رُک گئی، آگے نہیں گئی۔ اب ہوا بالکل بند تھی مگرآندھی کا غبار ٹھہرا رہا۔ اگربارش ہو جاتی تو یہ غبار دُھل جاتا مگربارش کا دور تک پتہ نہ تھا۔ کچھ چیزیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ وہ ایک جگہ پہنچ کر رُک جاتی ہیں، وہ جن پہیوں پر سفرکرتی ہیں وہ جام ہو جاتے ہیں۔
یہ بڑا منحوس موسم ہوتا یہ، بڑا حبس پیدا کرتا ہے۔ اُس نے کہا۔ ہر موسم خراب ہوتا ہے۔ اُس کی بیوی اُکتا کربولی۔ وہ کمرے سے نکل کر سیدھا ٹوائیلٹ میں چلا گیا۔ آٹھ منت بعد، ٹھیک آٹھ منٹ بعد اُس نے فلش کی زنجیر کھینچی۔ پانی کے ریلے کی گڑ گڑاہٹ کے ساتھ ناقابلِ برداشت بدبو کا ریلا بھی آیا۔ اُس نے گھبرا کر ناک بند کرلی۔ پھر نالی بند ہو گئی۔ اس نے سوچا، سڑاندھ ہی سڑاندھ ہے۔ اُس کے سر کے درد میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ باہر آیا، واش بیسن پر جھک کر کلّی کرنے لگا۔ منھ کچھ نمکین ہوگیا اور زبان کڑوی، دانت کر کرانے لگے۔ وہ بڑبڑانے لگا۔ کئی دن سے رات میں سو نہیں پاتا۔ منھ کے ذائقے کا ستیاناس ہوکر رہ گیا۔ سوؤ گے بھی تو کیسے۔ آدھی آدھی رات کو اُٹھ کر تو میرے اوپر چڑھنے کی کوشش کرتے ہو۔ تم چڑھنے دیتی ہو۔ ہو بھی اس قابل۔ میرا کیا بس یہی مصرف رہ گیا ہے، کیا میں کوئی کائی لگی ہوئی چٹان ہوں کہ تم چڑھتے رہو اور پھسلتے رہو بلکہ پھسلو کچھ زیادہ ہی۔ کڑک چائے بنا کر لاؤ۔ رات میں بتاؤں گا چائے لاؤ، پھر میں جاؤں نہانے، جلدی آفس پہنچنا ہے۔ اُس نے کہا، دفتر جا کرکرتے کیا ہو، ایک پیسے کی کمائی نہیں۔ بیوی ترش روئی سے بولی۔ اچھا، اتنے عیش تو کررہی ہو۔ عیش؟ اتنا بجٹ تو بڑھا نہیں سکے کہ ایک بچہ ہی پیدا ہو جاتا۔ یہی رٹ لگا رکھی ہے کہ ابھی نہیں۔ ابھی نہیں۔ تین سال ہو گئے، شادی کو، اس منحوس شادی کو۔ دیکھ لینا میں جلد ہی اس عمر سے نکل جاؤں گی۔ چائے، میں نے کہانا کہ چائے کی پیالی۔ گرم، بہت گرم۔ آج موسم بہت خراب ہے۔ بیوی پیر پٹکتی ہوئی کچن کی طرف جانے لگی۔ تمھارے ہاتھ کے بنائے ہوئے مکانوں کے نقشے کسی کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ کوئی انھیں پسند نہیں کرتا۔ پتہ نہیں کیسے آرکی ٹیکٹ ہو۔ ہو بھی یا جعلی ڈگری ہے۔ اوپر سے آفس کھول کر بیٹھے ہیں۔ گلوبل کنسٹرکشن کمیٹی، ہونہہ۔ وہ اُسے کچن میں اِدھر سے اُدھر چلتا پھرتا دیکھ رہا تھا۔ اُس کی چال میں شہوانیت تھی۔ وہ زہریلے انداز میں مسکرانے لگا۔
یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ آس پاس کے چھوٹے چھوٹے گاؤں سے گھرا ہوا۔ شہر کے علاقے سے وہ شاہراہ بہت نزدیک ہے جو ملک کے مغربی خطے کو مشرقی خطے سے ملاتی ہے۔ اس شہر میں یا تو مالدار بنیے ہیں جن کی اولادیں ڈونیشن کے ذریعے ڈگری پاس کرکرکے اپنے کلینک اور نرسنگ ہوم کھولتی جارہی ہیں یا پھر اہلِ حرفہ اور معمولی کاریگر ہیں، بڑھئی درزی، کارچوبی اور راج گیرتو یہاں کے دور دور تک مشہور ہیں۔ یہاں کا سرمہ اور فرنیچر بیرونِ ملک تک جاتا ہے۔ یہ ایک صاف ستھرا شہر ہے (اب تو خیر سارے شہر میں کھدائی کا کام چل رہا ہے) اور مذہبی رواداری نیز امن و امان کے لیے بھی پورے صوبے میں شہرت رکھتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ضلع کے سارے اعلیٰ حکام اپنی ملازمت سے سبک دوشی ہوجانے کے بعد مستقل طورپر یہیں بس جانا چاہتے ہیں۔ اس لیے شہری ترقی کے نام پر پچھلے پانچ چھ سالوں سے یہاں کئی قیمتی پراجیکٹ چل رہے ہیں اور بلڈر مافیا شہر میں روز بروز مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ کئی چھوٹے چھوٹے گاؤں کی زمینیں کٹ کٹ کر کالونیوں میں بدل چکی ہیں۔ شہر پھیلنے لگا ہے اور مضافاتی علاقوں میں دور تک نئے نئے فلیٹ بنتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ انھیں اطراف میں کئی شاپنگ مال بھی کھل گئے ہیں اور کچھ فیکٹریاں بھی جو مقامی سیاست کی کشمکش کے خوش آئند نتائج ہیں۔ انھیں میں وہ مشہور گوشت کی فیکٹری بھی ہے جہاں جدید ترین مشینوں کے ذریعے بڑے جانور ذبح کیے جاتے ہیں اوراُن کے گوشت کی، انٹرنیشنل معیار کے مطابق عمدہ پیکنگ کی جاتی ہے اوراُسے نہ صرف ملک کے دوسرے خطوں میں بے حد احتیاط، صفائی اور حفظانِ صحت کے اُصولوں کا خیال رکھتے ہوئے پہنچایا جاتا ہے بلکہ کئی خلیجی ممالک کو ایکسپورٹ بھی کیا جاتا ہے۔ ذبح میں نکلے ہوئے خون کو مشینوں اور پائپوں کے ذریعہ زمین کے اندر پہنچا دیا جاتا ہے۔ سافٹ اور کولڈ ڈرنک بنانے والی مشہور کمپنیوں نے بھی اپنی اپنی فیکٹریاں کھولنا شروع کردی ہیں۔ جہاں ان مشروبوں کا ڈرائی فارمولا سفوف کی شکل میں تیار شدہ بھیجا جاتا ہے مگرپانی نہیں۔ پانی کو مقامی سطح پر ہی فراہم کیا جاتا ہے۔ آؤٹ سورسنگ اورسرمایہ کاری کا یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم کے نجی سیکٹر میں شامل کیے جانے کے بعد سے یہاں انجینئرنگ، میڈیکل اور مینجمنٹ کالج بہت بڑی تعداد میں کھلتے جارہے ہیں یہ شہر چھوٹا ہے اور اتنا پھیلاؤ برداشت نہیں کرسکتا۔ اس لیے جنگل، کھیت، تالاب اور جھیلیں سب سیمنٹ کے گھروندوں میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ یہی نہیں جگہ جگہ فلائی اوور بنائے جارہے ہیں، اس لیے پچھلے کئی سالوں سے یہ پورا شہر اُدھڑے ہوئے سوئیٹر کی طرح نظرآنے لگا ہے۔ سڑکیں، گلیاں سب کھدی ہوئی نظرآتی ہیں۔ چلنے والوں کو اسی ملبے سے بچ کر نکلنا ہوتا ہے۔ چاہے اُنھیں اسپتال جانا ہو یا کچہری یا پھر سڑک کنارے کھڑے ہوکر گول گپّے ہی کیوں نہ کھانا ہوں۔ بہت سنبھل کر چلنا ہوتا ہے۔ کہیں بھی کوئی گڈّھا راستے میں آسکتا ہے۔ جس میں کیچڑ اور پانی بھرے ہوں۔ گڈّے میں گرکر کوئی بھی اپنے ہاتھ پیر تڑواسکتا ہے یا پھر سڑک کے بیچوں بیچ ڈالی جا رہی سیورلائن کے کھلے ہوئے مین ہول پَل بھرمیں کسی کے پیٹ سے نکلے ہوئے فُضلے یا کینچوئے کی طرح آپ کو شہر کے دوسرے حصے پر بہنے والی قلعے کی ندی کے کنارے پر واقع بائیو گیس کے پلانٹ میں پہنچاکر جہنم رسید کرسکتے ہیں۔ ان نئی بنی ہوئی کالونیوں تک جانے کے لیے آپ کو اتنا ہوشیار تو رہنا ہی پڑے گا۔ چاہے آپ کے پاس بائیک ہو، سائیکل ہو یا رکشہ ہو مگرسب سے زیادہ خطرہ تو پیدل ہی چلنے والوں کو اُٹھانا پڑے گا اور اگر اتفاق سے بارش ہو رہی ہو، پھر تو کہنا ہی کیا۔
یہ بھی ایک نئی سوسائٹی بن کر تیا رہوئی ہے۔ تین منزلہ فلیٹوں کی۔ اس کا نام لائف اپارٹمنٹ ہے۔ اس کالونی کے سارے مکان باہر سے پیلےے رنگ کے پُتے ہوئے ہیں اور مکان کے اندر باہر کے رنگ سے کچھ کم پیلا رنگ کیا گیا ہے۔ پچھلے آٹھے سالوں سے یہی رنگ فیشن میں ہے اور آرکی ٹیکٹ مکانوں کے نقشے تیار کرنے کے بعد اس رنگ کی سفارش کرتا ہے۔ اُس کا خیال ہے کہ مکانوں کے ڈیزائن سے اِسی رنگ کی ایک خاص مطابقت ہے۔ اس رنگ کا فی الحال ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ باہر پھیلی ہوئی پیلی دُھند کی وجہ سے یہ چھوٹے فلیٹ کچھ پھیلے ہوئے اور وسیع و عریض نظرآنے لگے ہیں۔ ایک چھوٹا سا پارک۔ چند ضروری سامان کی دکانیں اور ہمہ وقت یہاں تک کہ دن میں بھی روشن نیون لائٹس۔ یہ وہ عناصر ہیں جن سے لائف اپارٹمنٹ کی تشکیل و تعمیر ہوتی ہے۔ یہ جس زمین پر بنی ہے وہ پہلے ایک تالاب تھی،جسے پاٹ پاٹ کر اور مٹی ڈال ڈال کر خشک زمین میں بدل دیا گیا ہے۔ تالاب کے کنارے کبھی ایک بہت پرانا قبرستان بھی ہوا کرتا تھا جس کی قبریں نہ جانے کب کی دھنس چکی تھیں اوراب وہ ایک بڑے سے گڈھے میں بدل چکا تھا۔ ایک زمانے سے اس قبرستان میں کوئی فاتحہ تک پڑھنے نہیں آتا تھا اور نہ ہی کوئی مُردہ دفن ہونے۔ چند سال پیشتر تک کچھ آسیبی روایات بھی اس جگہ سے منسوب رہی تھیں مگراب شہری منصوبہ بندی اور ترقی کی شاندار اور جگمگاتی ہوئی روشنیوں نے توہم پرستی، خوف اور دہشت کو ہمیشہ کے لیے اپنے اندر نگل لیا تھا۔ اب شاید ہی کسی کو یہ بھی یاد رہ گیا ہو کہ اُس تالاب سے منسلک ایک بہت چھوٹی اور پتلی سی ندی بھی بہا کرتی تھی اوراس طرح کی کالونیوں میں بنے ہوئے مکانات کی بنیادیں انسانی پنجروں اور ہڈیوں کی راکھ اور چونے پر ٹکی ہوئی تھیں۔ ویسے بھی اس قسم کی باتوں کو یاد کرنا یا یاد رکھنا سرے سے بے تُکا تھا۔ اورکسی حد تک غیر اخلاقی بھی کیونکہ اخلاقی اقدار کا تعلق ہمیشہ اپنے زمانے سے ہوا کرتا ہے۔ ‘زمانے’ کو تو بُرا کہا ہی نہیں جا سکتا ممکن ہے کہ زمانہ ہی خدا ہو۔ اور یہ زمانہ ایک دوسری متبادل اخلاقیات گڑھ رہا تھا۔
لائف اپارٹمنٹ میں بجلی کا کنکشن تو بہت جلد ہوگیا تھا مگرپانی کی قلّت ابھی بھی کسی حد تک موجود تھی۔ ضلع جل بورڈ کا پانی چوبیس گھنٹے میں صرف دوبار آتا تھا جس کا کوئی وقت متعین نہ تھا۔ اس لیے اُسے اسٹور کرکے رکھنا پڑتا تھا۔ پانی کے ذخیرے ساری دنیا میں تیزی سے کم ہوتے جارہے ہیں آئندہ سو سال میں ہمیں پانی کے بغیر خوش دِلی کے ساتھ زندہ رہنا سیکھنا ہوگا اور نسلِ انسانی کو پانی کا کوئی متبادل ڈھونڈنا ہوگا۔ سوسائٹی کی انتظامیہ کمیٹی نے اپنا بورنگ الگ سے کروا رکھا تھا مگربورنگ کا پانی بہت کھارا تھا اوراُس میں کیلشیم، میکنیشم، سوڈیم اور پوٹیشیم کی مقدار خطرناک حد تک تھی۔ اس پانی میں ریت اور مٹّی کے ذرات بھی ملے ہوئے تھے جن کی وجہ سے پانی کا رنگ دھندلا اور مٹیالہ تھا۔ ظاہر ہے کہ اِس پانی کو پینا مشکل بھی تھا اورمُضر بھی۔ خاص طورسے گردوں اور پھیپھڑوں کے لیے۔ بورنگ کے پانی کو اُبال کریا چھان کر بلکہ آر۔او۔ کے ذریعہ بھی آلودگی دورنہیں کی جاسکتی تھی۔ یہ پانی صرف ٹوائلٹ اورکسی حد تک نہانے یا کپڑے دھونے میں ہی بحالتِ مجبوری استعمال کیا جا سکتا تھا۔ اوپر سے طرّہ یہ کہ ہردوتین مہینے کے بعد بورنگ بند ہو جایا کرتا تھااورپھر نئے سرے سے کوئی دوسری جگہ تلاش کرکے وہاں کی زمین کو کھودنا پڑتا اور بورنگ کرانا پڑتا۔ مگرمحلے کے ذلیل اور نچلے طبقے کے لوگون کے درمیان رہنے سے کہیں بہتر تھا کہ ہر شریف آدمی کو اِس طرح کی نئی کالونیوں میں آکربس جانا چاہیے۔ یہاں اتنی روشنی تھی، اتنا سکون تھا اور بلند سماجی مرتبہ تھا۔ سب سے برھ کر یہ کہ یہاں شریفوں کے بچوں کو کھیلنے کے لیے اچھے اچھے پارک ہیں اور وہ اَب محلے کے گھٹیالوگوں کے بچوں کے ساتھ کھیل کر بگڑیں گے نہیں۔ اب رہا وہ زردغبار اور رہی وہ پیلی دُھند تو جہاں نئی تعمیر ہوتی ہے وہاں یہ غبار اور ملبہ ہونا لازمی ہے۔ اِس غبار کو دیکھا ہی کیوں جائے۔ زمین کھودی جارہی ہے۔ اُس میں گڈّھے کیے جارہے ہیں۔ چاروں طرف مٹی اُڑ رہی ہے یا پھر کوّے۔ اس غبار کو دیکھا ہی کیوں جائے اِن کوؤں کی کائیں کائیں سنی ہی کیوں جائے۔ آنکھوں پرکالا چشمہ لگا لیا جائے اورگھرسے نکلنے سے پہلے اورگھر پہنچنے کے بعد اچھی طرح مَل مَل کر نہا لیا جائے۔ بس اتنا ہی تو کرنا ہے۔ اپارٹمنٹ کے تقریباً تمام افراد مع بچوں کے کالا چشمہ لگا کر باہر نکلتے ہیں اور واپس آکر خوشبودار صابنوں سے غسل کرلیتے ہیں۔ ایک معیاری زندگی گزارنے کے لیے کیا یہ زیادہ ہے۔
اُس نے بیوی کے ہاتھ سے سے لے کر چائے کا کپ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔ بیوی نے جلدی جلدی اپنے ہاتھ کو اوپر نیچے کرنا شروع کردیا۔ یہ اُس کی مدتوں پُرانی عادت تھی۔ اُسے یہ وہم تھا کہ بار باراُس کا ہاتھ سُن ہو جاتا ہے۔ نہ تو میرے اندر خون بچا ہے۔ سارا خون جل گیا ہے اور نہ ہی کچھ اور وہ بڑبڑاتی۔ ویسے دیکھنے میں وہ ایک صحت مند اور طویل القامت عورت تھی جسے سطحی نظررکھنے والے خوبصورت بھی کہہ سکے ہیں اگرچہ عورت کو مرد سے زیادہ خوبصورت سمجھنا تمام جانداروں میں صرف انسانوں کا ہی حماقت آمیز فیصلہ ہے۔ عورت عقل مند اور طاقت ورتو ہے۔ بشرطیکہ طاقت کو اُس کے اصل مفہوم میں سمجھا جائے مگراُس کی خوبصورتی کے بارے میں ہمیشہ شک کیا جانا چاہیے کیونکہ وہ معاشرے کی تشکیل کرتی ہے اور سماج پر مردسے زیادہ حاوی ہے۔ چاہے لاکھ اس سماج کو مردوں کا سماج کہا جائے۔ کیا اس قسم کی کوئی بھی جابرشے خوبصورت ہوگی مگرعورت کا سماج پر حاوی ہونا انسان کی ننگی آنکھوں سے ہرگز نہیں دیکھا جاسکتا۔ اُس کی طاقت خون کی بال کی طرح باریک رگوں میں اپنا جال بنا کر معاشرے کی پوری ذہنیت کی ساخت کی تشکیل کرتی ہے۔ عورت کی طاقت کو اُس خوردبین کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے جس سے کسی جرثومے یا وائرس کو۔ کیڑے مکوڑے تک اس معاملے میں انسانوں سے زیادہ عقلمند ہیں بلکہ کہنا چاہیے کہ انسانی معاشرے کے نروں سے زیادہ سمجھ دار وہی ہیں۔ اس لیے عورت کے جسم کو حسین سمجھ لینا ایک اندھے حیوان تک کے لیے مشکل بات ہے۔ عورت کے جسم کا ہر حصہ اتنا زیادہ فاضل گوشت سے بھرا ہوا اور تھل تھل کرتا ہوا چربی زدہ ہے کہ یہی ایک بات اس امر کی گواہ ہے کہ یہ خوبصورتی نہیں ہے۔ عورتوں کے جسم کا رنگ بھی قدرتی طورپر اتنا چمکیلا نہیں جتنا کہ ایک مرد کے جسم کا ہوتا ہے۔ اسی لیے اُنھیں میک اپ کی ضرورت پڑتی ہے۔ نئی نویلی دلہن کو بغیر میک اپ کے زیادہ دن دیکھنے سے مرد کا دماغ خراب ہو سکتا ہے۔ دن میں، گھاس میں پڑا ہوا، سکڑا ہوا، پرڈالے ہوئے ایک بے سدھ نرپتنگا بھی اپنے رنگوں کے لحاظ سے رات کو اُڑنے والی مادہ پتنگے سے زیادہ چمکیلا ہے۔ مردتو صرف جنگ کے لیے پیدا ہوتے ہیں اوراب توجس طرح کی جنگ ہوتی ہے اس میں بھی مردوں کا کوئی خاص کام نہیں رہ گیا ہے۔ اب ان کا ایک ہی کام ہے کہ وہ عورتوں کے پیٹ میں اپنا بیج ڈالتے پھریں۔ ایک بد عقل آوارہ گھومتے ہوئے سانڈ کی طرح اوراس طرح انھیں اور بھی زیادہ مضبوط بناتے پھریں۔ اصل حاکم یقین مانیے کہ عورت ہی ہے۔ اُس نے یونہی کھڑے کھڑے چائے کا ایک گھونٹ لیا اور فوراً منھ سے اُسے باہر نکالتے ہوئے کلّی سی کرڈالی۔ چائے ہے یا زہر؟ وہ چلاّیا۔ میرے منہ پر ہی کلّی کردیتے نا۔ وہ زور زورسے اپنا ہاتھ اوپر نیچے کرنے لگی اوراُس کے بھورے بالوں کا جوڑا کھل کر بکھر گیاجس کی وجہ سے اُس کی ایک آنکھ ڈھک گئی۔ وہ اسی چہرے سے ڈرتا تھا جب بھی اُس کی ایک آنکھ ماتھے سے سرکے ہوئے بالوں سے ڈھک جاتی اور بس ایک آنکھ چہرے پر نظرآتی۔ اس ایک آنکھ میں ایک سرد اور خوفناک حکم تھا۔ دراصل یہی ایک اصل جابر حاکم کی آنکھ تھی۔ کسی دیو مالائی کردار کی غصہ ورآنکھ۔ اگراُس کے چہرے پر دونوں آنکھیں نظرآتی رہتیں تو وہ اس غضبناک چہرے کا مقابلہ کر بھی سکتا تھا مگرماتھے پر صرف ایک بڑی بھوری اورسرخی مائل آنکھ گھورتی نظرآتی ہے۔ تقریباً ایک شیطانی آنکھ جس پر کبھی گہائی تک نکلنے کی ہمت نہیں کرسکتی۔ وہ واقعی ڈرگیا۔ اُسے معلوم تھا کہ بُری نظر بھی ایک ہی آنکھ سے لگتی ہے اورجس آنکھ سے لگتی ہے اُس میں کبھی آنسو نہیں ہوتے۔ چائے کا کپ اُس نے ایک اسٹول پر پہلے ہی رکھ دیا تھا۔ اُس خشک آنکھ سے اپنی آنکھیں پھیرتے ہوئے غسل خانے میں جاکر اُس نے دروازہ اندر سے بند کرلیا۔ وہ شدید سے شدید گرمی میں بھی گرم پانی ہی سے نہاتا تھا۔ اُس نے سب سے پہلے گیزر کا سوئچ آن کیا۔ سوئچ آن کرنے پر ہلکا سا اسپارک کرتا تھا۔ گیزر کی لال بتی روشن ہوئی مگراُس لال بتی کا کوئی بھروسہ نہیں تھا۔ گیزر میں ایک عجیب خرابی پیدا ہو گئی تھی وہ کبھی گرم پانی دیتا تھا اور کبھی برف کی طرح ٹھنڈا۔ پوری سردیاں اسی طرح بیت گئیں۔ گرم پانی کی علامت اُس لال بتی کے نیچے وہ کانپتا اور ٹھٹھرتا رہا۔ درمیان میں کبھی کبھی گرم پانی کا ریلہ بھی آجاتا جیسے خواب میں کسی دوست کا چہرہ نظرآجائے۔ وہ اپنی مصروفیات کی بنا پر (اگرواقعی اُس کی کوئی مصروفیت تھی) اورکچھ اس یقین کی بنا پر کہ ایسی عجیب و غریب تکنیکی خرابیاں جلدی دور نہیں ہوتی ہیں۔ کیونکہ ان کا ایک نادیدہ رشتہ انسانوں کے مقدر اور ستاروں کی گردش سے ہوتا ہے۔ یہ پُراسرار باتیں ہیں اور فی الحال وہ پُراسرار باتوں کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ آئینے کے سامنے کھڑا ہوا شیو کررہا تھا۔ یہ بھی ایک چٹخا ہو ا آئینہ تھا۔ چٹخے ہوئے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ دیکھ کر شیوکرنے کے دوران اکثراُس سے اندازے کی غلطی ہو جاتی۔ بلیڈ کہیں کا کہیں چل جاتا۔ چہرے پر لگے ہوئے صابن کے سفید گاڑھے جھاگوں میں خون کی لکیریں شامل ہو جاتیں۔ آئینے کا نہ بدلنا یقیناً اُسی کی لاپرواہی تھی مگروہ یہ نہیں جانتا تھا کہ آئینہ چاہے چٹخا ہوا نہ بھی ہو تب بھی ہر آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر آدمی کی آنکھیں ہمیشہ اندھیرے میں غلطاں ہوتی ہیں۔ وہ مستقبل کے بارے میں تو زیادہ ہی بے خبرہوجاتا ہے۔ صابن کے سفید جھاگوں سے اُس کا سانولا چہرہ اس طرح ڈھک گیا جیسے کسی گڈھے میں کالے اورسڑتے ہوئے پانی پر سفید ریت اور چونا ڈال کر وقتی طورپر ڈھک دیا جاتا ہے۔ اُس نے اس چہرے سے جھانکتی ہوئی آنکھوں سے اپنے دائیں ہاتھ پر نکلے ہوئے پھوڑے کے پرانے نشان کو دیکھا۔ وہ ہمیشہ شیو بناتے ہوئے اس زخم کے نشان کو دیکھتا۔ یہ نشان ہتھیلی کے بالکل نیچے کلائی پراُس جگہ واقع تھا جو گالوں پر ریزر چلاتے وقت بار بار نمایاں ہوجاتی تھی۔ اگریہ زخم اُس کے چہرے پر اپنا نشان چھوڑتا اور کسی پھوڑے کے باعث نہیں بلکہ چاقو یا تلوار کے کسی خطرناک وار کے نتیجے میں وجود میں آیا ہوتا تو کسی بھی عورت کے لیے اُس کی شخصیت میں سیکس اپیل بہت بڑھ جاتی۔ اُس نے شیو کرنے والےبُرش سے کلائی پرآئے ہوئے اس بھدے نشان پر صابن کے سفید جھاگ لگادیے، بالکل اُسی طرح جیسے دیوار پر اُبھرآئے ہوئے کسی بدنما سیلن کے دھبے پرسفیدی پوت دی جاتی ہے۔ غسل خانے کی کھڑکی کے باہر پھیلا ہوا پیلا غبار اُسی طرح ساکت و جامد موجود تھا۔ آج دفترپہنچ کر وہ اُن تصاویر سے کچھ نئے گوشے نکال کر مکانوں کے چند نقشے نمونے کے طورپر بنائے گا۔ جن کا البم کئی ہفتوں کی محنت کے بعد وہ حاصل کر پایا تھا۔ یہ قبرستانوں کی تصویریں تھیں اور شمشان گھاٹوں کی بھی۔ قبرستان میں جاجاکر طرح طرح کی پکی قبروں کی تصویریں جو اُس نے پوشیدہ طورپر اپنے کیمرے سے لی تھیں۔ کئی ہفتوں سے وہ شہر کے قبرستانوں کا چکر لگاتا پھررہا تھا۔ کبھی فاتحہ پڑھنے کے بہانے کبھی کسی عزیز یا دوست کی قبرتلاش کرنے کے بہانے اوراُن دنوں کسی کی تدفین تواُس نے چھوڑی ہی نہیں تھی کیونکہ قبرستان تک جانے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔ قبرستانوں کے گرداب فصیل بندی کردی گئی ہے اوربے وجہ قبرستان میں گھومنے پھرنے والے کو شک کی نظرسے دیکھا جانے لگا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انسان بجّو جیسے قبرکھودو حیوان سے بھی بدتر ہوگئے ہیں۔ بجّو توپھر بھی اپنا پیٹ بھرنے کے لیے قبر کھود کر مُردے کھاتا ہے۔ مگرانسان تو قبروں سے لاشیں نکال نکال کر بیرونی ممالک کے میڈیکل کالجوں میں اسمگل کرنے لگے ہیں تاکہ ان کے اعضانکال کراُن پر نئے نئے تجربے کیے جاسکیں۔ تجربہ تو وہ بھی کرنا چاہتا تھا۔ وہ مکانوں کی تعمیر میں وہی رمز پیدا کرنا چاہتا تھا جو قبروں میں پایا جاتا ہے اور یہ یقیناً فنِ تعمیر میں ایک نیا اضافہ ہوگا سنجیدہ باوقار فکرانگیز اور روحانی بھی۔ آجکل اتنے اوٹ پٹانگ قسم کے نقشوں پر مبنی مکان تعمیر کیے جاتے ہیں اور اتنے بچکانہ، بھدے اورآنکھوں میں چبھنے والے تیز رنگوں کا استعمال کیا جاتا ہے کہ ان مکانوں میں رہ کر انسان صرف ڈپریشن کا شکار ہوسکتا ہے۔ یا ہسٹیریا کا یا پھر کابوسوں کے ایک کبھی نہ ختم ہونے والے سلسلے کا۔ انسانوں کو اگرحقیقی سکون اپنے گھر میں چاہیے تواُس کے بنائے ہوئے مکانوں کے ان نقشوں اور ڈیزائنوں میں ملے گا جو مختلف النوع قسم کی قبروں کی اسمبلاژ سے تیار کیے جائیں گے۔ انسانوں کی زندگی میں ہمیشہ موت کی ایک جھلک، ایک آہٹ ضرور شامل رہنی چاہیے۔ موت کو اپنے گھروں کی دیواروں سے بے دخل نہیں کرنا چاہیے۔ ہم اپنے پاس نئے اور پرانے نوٹ ایک ساتھ جمع کرکے رکھتے ہیں پھرایک دن آتا ہے جب پرانے نوٹ ایک ساتھ جمع کرکے رکھتے ہیں پھرایک دن آتا ہے جب پرانے نوٹ واپس لے لیے جاتے ہیں اور نئی سیریز کے نوٹ بازار میں داخل کردیے جاتے ہیں۔ لوگ نہ مرتے مرتے تھکتے ہیں اور نہ پیدا ہوتے ہوتے اسی لیے گھروں میں دونوں رنگ شامل ہونا چاہئیں۔ زندگی اور موت کی ایک جُگل بندی۔ وہ جب بھی قبرستان سے باہر آتا موت کا کوئی چیتھڑا اُس کے جوتے کے تَلے میں چپک کر اُس کے ساتھ باہر آجاتا۔ وہ اُسے اپنے پیروں کے تلوؤں میں صاف اور واضح طورپر محسوس کرتا۔ اُس کی ٹھنڈک کو، اُس کی اُداسی کو اور اُس کےرمز کو یا اسرار کو۔ اسرار توکسی بھی قسم کا ہو اُسے جانا نہیں جاسکتا صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اُسے یہ احساس تھا کہ اُس کی بیوی بھی ایک اسرار ہے بلکہ یہ شادی بھی ایک اسرار ہی تھی جو کیوں ہوئی۔ اُس کی کوئی خاص وجہ آج تک سمجھ میں نہیں آئی ہے۔ بس اتنا ضرور تھا کہ اُن دنوں شادی سے کچھ ماہ پہلے اُس کی جنسی خواہش ناقابلِ یقین حد تک بڑھ گئی تھی۔ اُسے ایک ہی رات میں کئی کئی بار احتلام ہوجایا کرتا تھا۔ اُسے احتلام سے ہمیشہ سے ہی بہت ڈرلگتا تھا کیونکہ خواب میں نکیلے اور لمبے دانتوں والی چڑیلیں پاؤں میں پائل باندھے چھن چھن چھن کرتی ہوئی اُس کے جسم کا سارا خون پی جانے کے لیے اُس کی چھاتی پر آکر سوار ہو جاتیں۔ اُسے لگتا جیسے وہ پیلا پڑنے لگا ہے۔ اِس لیے اب یہی ایک شریفانہ حل رہ گیا تھا اور وہی اُس نے تلاش کرلیا۔ دوستوں سے کہہ کہلا کر ایک رشتہ طے کیا اورایک عورت کو گھرمیں لے آیا۔ عورت جس کے کہنے کے مطابق خود اُس کے اپنے جسم میں بھی خون جل گیاتھا مگرپھر بھی وہ ایک صحت مند عورت تھی اورحکم چلانے کا مادہ رکھتی تھی۔ بیوی نے کچن میں جا کر انڈے تلاش کرنا شروع کردیے۔ وہ ہمیشہ انڈے کہیں رکھ کر بھول جاتی تھی۔ فریج میں انڈے رکھنے کے وہ سخت خلاف تھی۔ اُس کا خیال تھا کہ فریج کی ٹھنڈک سے انڈوں کی زردی جم جاتی ہے اوراُسے کسی بھی جمی ہوئی چیز کو پگھلانا سخت ناپسند تھا۔ پگھلنے کا منظر اُسے کر یہہ نظر آتا تھا۔ وہ تو پگھلتا ہوا مکھن، گھی اور یہاں تک کہ برف کو بھی پگھلتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی تھی، اسی لیے اُس نے پاورکٹ کے زمانے میں اپنے گھر میں آج تک موم بتی نہیں جلائی۔ یہ اتفاق نہیں تھا کہ اپنے شوہر کے کہیں بھی ہاتھ لگانے سے،چھو لینے سے یا بوسہ لینے کی رسمی اوراخلاقی کوشش سے بھی وہ نہیں پگھلی۔ اُس کے جسم میں رقیق مادوں اور پانی کی بہت کمی تھی۔ اُس کے ہونٹ بھی خشک رہتے تھے اور آنکھیں بھی۔ دل کا پتہ نہیں، دل کا پگھلنا تو محض محاورہ ہے۔ اب یہ تو بالکل صاف ہے کہ اُن دونوں میں محبت نہیں تھی اور اگرہوتی بھی تو کیا۔ محبت اور نفرت دو ایسی ندیوں کی مانند ہیں جو تھوڑا سافاصلہ برقرار رکھتے ہوئے برابر برابر چلتی ہیں، مگرکبھی کسی شہر یا گاؤں میں پہنچ کر الگ الگ سمتوں میں نکل جاتی ہیں۔ چکر کاٹتی ہیں، بل کھاتی ہیں، کبھی تو سانپ کی طرح پھر بہت دور کہیں آگے جاکر کوئی ایسا مقام ضرور آتا ہے جہاں دونوں ایک دوسرے میں مدغم ہوجاتی ہیں۔ پھر جو پانی آگے بڑھتا ہے اُس میں سوائے تکلیف، حسدو جلن اوراوچھے پن کے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ آگے بڑھتا ہوا پانی محبت اور نفرت دونوں سے زیادہ کمینے اورخطرناک سمندر میں جا کر گرجاتا ہے۔
جہاں تک ان دونوں کے یہاں بچوں کے نہ ہونے کا سوال ہے تو اس کا ذمہ داراپنے شوہر اوراُس کی معاشی مجبوریوں کو ٹھہرانا ایک غلط الزام تھا۔ وہ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتی تھی کہ اس کے جسم میں ایک بھیانک خشکی تھی۔ یوں تو وہ ماں بننا چاہتی تھی مگراِسے کیا کیا جائے کہ شوہر سے مباشرت کے وقت(اگراِسے مباشرت کہا جا سکتا ہو) بغیر کسی محبت اور خواہش کے ساتھ سوکھے ہوئے ہونٹ، لعاب سے یکسر خالی منھ، زبان اورخشک اندام نہانی کے ساتھ لیٹے رہنا داصل ریپ کے عمل سے بھی زیادہ گھناؤنا اور بدتر تھا۔ اگرایسی صورتِ حال میں اتفاق سے اُس کی کوکھ میں کسی بچے کا بیچ پڑ بھی جاتا تو وہ ایک بدنصیب اور بِن بُلائی جان ہی ہوتی۔ وہ خود بھی برف کی ایک جمی ہوئی چٹان تھی۔ اُسے اپنے آپ سے بھی چڑتھی اواپنے آپ کو پگھلتے ہوئے دیکھنے سے تواُس سے بھی زیادہ۔ جہاں تک خواہش کا سوال ہے تو وہ جسم کی ایک بڑی غلط فہمی ہے۔ وقت کا ایک ذرا سا پانسہ پلٹنے پر، جسم کے اندر بہنے والے کیمیائی مادوں کی معمولی سی غداری سے ہی وہ کینہ پرور، مذاق اُڑاتی ہوئی کٹنی روشنی پیدا ہو جاتی ہے جس میں محبت، نفرت، خواہش اورمامتا سب ایک ساتھ کسی جادوئی طاقت کے زیرِ اثر سرکے بَل کھڑے نظرآتے ہیں اس لیے اصل بات جو بغیر کسی اخلاقی فراڈ کے اور لاگ لپٹ کے، کہی جا سکتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ مراد اپنے، تقریباً ہروقت ایستادہ عضوِ تناسل سے عاجز تھا اورعورت اپنی سوکھی ہوئی معذور اندامِ نہانی سے۔
ٹھیک اُسی لمحے میں بجلی چلی گئی۔ جب اُس نے فرائی پان میں انڈے توڑے، گرم گرم تیل میں ایک ناگوار آواز کے ساتھ زردی اور سفیدی دونوں اپنی اپنی الگ دنیا میں سکڑتی جا رہی تھیں۔ آج کل صبح صبح بھی جانے لگی ہے۔ وہ بڑبڑائی۔ گرمی بڑھ رہی ہے، بجلی جانے کا سب سے بڑا نقصان تو یہی ہے کہ پسینہ آئے گا۔ اندھیرا تو برداشت کرہی لیا جاتا ہے۔ روشنی کوئی اتنی اچھی چیز بھی نہیں مگرپسینے میں جسم پگھل پگھل کر بہتا ہے۔ جسم اپنے کناروں سے باہر آنے لگتا ہے۔ نمکین گندے رقیق مادے کی شکل میں اوربدبودار پانی کی شکل میں۔ بجلی کیوں چلی گئی؟ اتنی دیر میں بجلی آگئی۔ لابی میں لگے ہوئے چھت کے پنکھے کے پَر ابھی پوری طرح گھوم بھی نہ پائے تھے کہ بجلی پھر چلی گئی۔ اُس نے بجلی کو کوسنا شروع کردیا اوراپنے ہاتھ کو اوپر نیچے کرنا بھی۔ مگربجلی کو کوسنے سے بہتر تھا کہ اپنے مقدر کو کوس لیا جائے۔ بجلی کی اپنی ایک الگ شخصیت ہے جیسے پانی کی۔ اُس کے اپنے اُصول ہیں اور اپنی اخلاقیات۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...