آپ کی نظر اپنی نانی پر پڑی۔ آنکھ سے پراسس ہونے والے ڈیٹا کو آپ نے کس طرح پراسس کیا ہے؟ ان کی جلد کا رنگ، آنکھوں، بالوں وغیرہ کے خد و خال دماغ کے جس حصے تک پہنچے ہیں، یہ ویژوئل کورٹیکس کہلاتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب نکالنے میں چند ملی سیکنڈ لگیں گے۔ اور آپ انہیں پہچان لیں گے۔
لیکن فرض کیجئے کہ انہیں کسی غیرمتوقع جگہ پر دیکھا ہوتا؟ انہوں نے دھوپ کی سنہری عینک پہنی ہوتی اور ساتھ عجیب رنگوں والی ٹوپی بھی؟ غیرمتوقع ہونے کی وجہ سے پہچاننے میں چند سیکنڈ تاخیر ہو جاتی۔ یہ تاخیر اس چیز کی نشاندہی کرتی ہے کہ دماغ میں کیا چل رہا ہوتا ہے۔
ہمیں اس پراسس کی مکمل سمجھ نہیں ہے۔ لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ ایسا نہیں کہ دماغ کمپیوٹر کی طرز پر منظر کے ہر حصے کو ایک ایک پکسل کی صورت میں رجسٹر کرتا ہے۔ پھر تصاویر کی ڈیٹابیس سے اس کا موازنہ کرتا ہے اور آخرکار ایک میچ ڈھونڈ کر لاتا ہے جس پر نانی کا لیبل لگا ہے۔ یہ بہت محنت طلب کام ہو گا۔
اور کبھی آپ نانی کو دھوپ میں دیکھتے ہیں، کئی بار ان کے چہرے پر گہرا سایہ پڑ رہا ہوتا ہے، کئی بارے سامنے سے تو کئی بار ایک سائیڈ سے۔ ٹوپی کے ساتھ یا بغیر، ہنستے ہوئے یا اداس۔ یہ ان گنت ویری ایشن ہے۔ اگر دماغ کو ڈیٹابیس سے تصاویر کو میچ کرنا پڑتا تو پھر یہ سب بھی رکھنا پڑتا۔
یہاں پر دماغ پکسل کے گچھوں سے فیچر نکالتا ہے۔ بامعنی فیچر آپ کیلئے نانی کے تصور کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہمیں اس کا کیسے معلوم ہے؟ کیونکہ ہم مشاہدہ کر چکے ہیں کہ آپ کے دماغ میں نانی کو دیکھنے سے جو نیورون فائر ہوتے ہیں، وہی ہیں جو ان کا نام دیکھنے سے یا ان کو پکارے جانے سے یا پھر ان کی کسی چیز کو یاد کرنے سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیوروسائنٹسٹ انہیں concept cells کہتے ہیں۔ ہمارے پاس لوگوں، جگہوں اور چیزوں کے لئے کانسپٹ سیلز کے نیٹورک ہیں۔ ہارنے اور جیتنے جیسے خیالات کے لئے بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(یہاں پر نانی کی مثال قصداً دی گئی ہے۔ نیوروسائنٹسٹ انہیں grandmother cells کہتے تھے۔ اور یہ طنزیہ دیا گیا نام تھا۔ سمجھا جاتا تھا کہ ایسے کوئی چیز موجود نہیں اسے مزاح کے طور پر کہا جاتا تھا کہ “آپ یقینی طور پر یہ نہیں سمجھتے ہوں گے کہ آپ کے دماغ میں خلیات کا ایک نیٹورک آپ کی نانی کے بارے میں سوچ کے لئے ہے”۔ لیکن جب یہ خلیات 2005 میں واقعی میں دریافت ہو گئے تو یہ فقرہ طنزیہ نہ رہا اور ان کا نام تبدیل کر لیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتدائی تجربات میں سائنسدانوں نے مرگی کے سنجیدہ مریضوں کے دماغ میں الیکٹروڈ نصب کئے۔ ان سے یہ پتا لگ جاتا تھا کہ دماغ کا کونسا حصہ متحرک ہوا ہے۔ مشہور جگہوں کی تصاویر دکھائی گئیں۔ مشہور لوگوں کی تصاویر دکھائی گئیں۔ اور یہاں پر جو چیز حیران کن تھی، وہ یہ کہ ایک فنکار اور اس کے کردار کیلئے ایک ہی نیٹورک آن ہوتا تھا۔
یہ نیٹورک سوچ کے عمل کے بلڈنگ بلاک ہیں۔ اور نیورون کئی نیٹورکس میں شئیر ہوتے ہیں۔ اور اس طرح ہم مختلف تصورات کو آسانی سے آپس میں جوڑ لیتے ہیں اور نئے تصورات بنا لیتے ہیں۔ سوچ کے الگ تاروں کو جوڑتے ہوئے ہم نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا یہ پراسس کمپیوٹر کے مقابلے میں انتہائی پیچیدہ ہے۔ یہ ہمارے لئے ممکن کرتا ہے کہ ہم اس دنیا کا سامنا تصوراتی تجزیے کی حیرت انگیز وسعت کے ساتھ کر سکیں۔
اور یہ وجہ ہے کہ یہی دماغ قدیم طرزِ زندگی رکھنے والوں کیلئے زندگی کے مسائل بھی حل کرتا ہے۔ اسی سے ہم سائیکل بھی بنا سکتے ہیں، کوانٹم تھیوری بھی سمجھ سکتے ہیں، تجریدی آرٹ بھی کر سکتے ہیں، اور قیمے والے کریلے بھی بنا سکتے ہیں۔ کیونکہ سوچ کی لچک ہمیں اپنی موجودہ دنیا تک محدود نہیں رکھتی۔ نئے تصورات ایجاد کئے جا سکتے ہیں۔
جہاں پر باقی جانوروں کو شکار کے لئے وسیع میدانوں میں بھاگنا پڑتا ہے، جبکہ ہم فِٹ رہنے کیلئے اپنی مرضی سے جاگنگ کرتے ہیں، پھر میٹھی چٹنی اور چاٹ مصالحہ ڈال کر دہی بھلے اور مائیکروویو میں گرم کر کے روسٹ مرغ اڑاتے ہیں، جن کے اجزا درجنوں اقسام کے پودوں اور جانوروں سے آئے ہوتے ہیں۔ اور جنہیں ہماری پلیٹ تک پہنچنے کیلئے دریاؤں کے بہاؤ کی طاقت اور زمین کی تہوں میں قدیم جانداروں کی باقیات سمیت ڈھیروں عوامل ہیں جو ہماری صناعی کی صلاحیت کا نتیجہ ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...