حیا عثمان اریشہ اور ایمان مال میں گھوم رہے تھے۔کہ حیا کی نظریں ایک شاپ پر کھڑی ہادیہ پر پڑیں وہ خوش ہوکر اسکی طرف بڑھنے لگی کہ منزہ کہیں سے نمودار ہوکر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کچھ پوچھنے لگی۔حیا کے قدم وہیں رک گئے
“منزہ بھی اسکے ساتھ ہے؟” حیا دکھ سے صرف سوچ کر رہ گئی
“ارے ہادیہ یہ چڑیل اسکو بلا کر لاتا ہوں” عثمان نے حیا کی آنکھوں کے تعاقب میں دیکھا تو ہادیہ کو دیکھ کر چونک گیا
“نہیں وہ بزی ہے” اسکو بے ساختہ عثمان کو روکنے کیلئے ہاتھ پکڑنا پڑا اس نے پیچھے دیکھ کر پہلے اپنے ہاتھ پر رکھے حیا کے ہاتھ کو دیکھا پھر اسکی شکل۔دیکھی حیا نے شرمندہ ہوکر ہاتھ چھوڑ دیا
“میں ان دونوں کو دیکھ لوں پتہ نہیں کیا گل کھلا رہی ہیں” وہ اسکی شرمندگی دور کرتے ہوئے ہنستے ہوئے بولا
اور چلا گیا جبکہ حیا نے ہادیہ کو کال ملائی
“ہیلو” ہادیہ کی چہکتی ہوئی آواز آئی
“کہاں ہو؟” حیا نے اپنا لہجہ نارمل رکھا
“یار مال میں ہوں کچھ شاپنگ کرنی تھی” وہ تھکے تھکے لہجے میں بولی
“اچھا اکیلی ہو؟” وہ پوچھنے لگی
“نہیں منزہ ہے اسکو بھی کچھ لینا تھا نا” ہادیہ نے نارمل لہجے میں کہا تو حیا کا دل مزید دکھ گیا کہ اسکی ناراضگی کی پروا نہیں تھی
“ٹھیک بائے” حیا نے غصے میں کہتے ہوئے فون بند کردیا جبکہ وہ ہیلو ہیلو کرتی رہ گئی ہے
_________________________________________
“زنیرہ” وہ لان میں اداس بیٹھی سامنے دو بلیوں کے کھیل کو دیکھ رہی تھی کہ پیچھے سے حسین کی آواز آئی لیکن اس نے مڑ کر نہیں دیکھا حسین جانتا تھا وہ نہیں دیکھے گی بہت سخت ناراض تھی نا
“زنیرہ ہم بات کرسکتے ہیں؟” وہ اسکے قریب آتے ہوئے بولا تو زنیرہ جھٹکے سے اٹھ کر جانے لگی لیکن حسین نے ہاتھ پکڑ اسکو اپنے سامنے کھڑا کیا
“بہت ناراض ہو نا؟” اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بہت نرمی اور پیار سے بولا
“مجھے ناراض ہونے کا کوئی حق نہیں” وہ بے رخی سے بولی
“ناراض ان سے ہوا جاتا ہے جن سے محبت ہو کیا میں یہ سمجھوں کہ میری زونی کی محبت ختم ہوگئی؟” حسین نے اسی کا جملہ اسی پر لٹایا تو وہ سر جھکا کر رہ گئی
“بیٹھو ادھر” بینچ کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا
“مجھے نہیں بیٹھنا پلیز حسین اکیلا چھوڑیں مجھے کیوں دیتے ہیں اتنا پیار جب چھوڑ کر جانا ہوتا ہے ” زنیرہ کا ضبط جواب دے گیا اور آنکھوں سے تواترا آنسو بہنے لگے حسین لب بھینچے اسکو دیکھ رہا تھا جسکے آنسو بہت تکلیف دیتے تھے
“زنیرہ مجھے نہیں پتہ تھا کہ بابا بھیجیں گے اور تمہیں لگتا ہے کہ دکھ صرف تمہیں ہورہا ہے مجھے نہیں؟؟ میں خوشی سے جارہا ہوں؟؟ کم از کم تم تو مجھے سمجھو زونی بابا کو تو اپنے کام سے مطلب ہے لیکن تم۔۔۔زونی پلیز تین دن سے ناراض ہو نہ میسج کا رپلائی نہ کال اٹینڈ کرتی ہو میری حالت پر بھی غور کرو میں ایک گھنٹہ بھی تمہاری ناراضگی نہیں برداشت کرسکتا اور تم تین دن سے تڑپا رہی ہو” وہ نرم لہجے میں اسکو منا رہا تھا زنیرہ سے برداشت نہیں ہوا اس نے حسین کے کندھے پر سر ٹکا دیا اور جتنا رو سکتی تھی رو دی
“اب بس بھی کرو زونی کتنی تکلیف دوگی؟” وہ اداسی سے بولا
“کب جائیں گے آپ؟”وہ اس سے الگ ہوتے ہوئے بولی
“کل” حسین نے ہلکی آواز میں جواب دیا اور زنیرہ اسکو دیکھتی رہ گئی
_________________________________________
“تھینک یو سر” عثمان نے گاڑی انکے دروازے پر روکی تو حیا نے تشکر سے دیکھتے ہوئے کہا کہ اسکی وجہ سے آج ایمان بہت خوش تھی اور اپنی ننھی بہن کی خوشی میں وہ بھی خوش تھی
“پھر سر بولا نا؟” عثمان تھوڑا خفگی سے بولا
“پھر کیا بولوں؟” وہ کنفیوژ ہونے لگی
“مانی بھائی بولا کریں” پیچھے سے اریشہ کی آواز آئی جو ایمان کے اندر جانے کے بعد ان دونوں کی طرف متوجہ تھی
” ہاہا اوکے مانی بھائی؟” حیا کھلکھلا کی ہنس دی
“ضرورت نہیں ہے یہ بکواس بولنے کی میرا نام عثمان ہے” وہ برہمی سے بولا جسپر حیا ہنس دی
“اوکے بائے” وہ اترتے ہوئے بولی تو عثمان نے بھی مسکراتے ہوئے بائے کہا اور تب تک اسکو دیکھتا رہا جبتک وہ اندر نہ چلی گئی
“حیا آپی اچھی ہیں نا مانی بھائی؟” اریشہ آگے آتے ہوئے بولی
“ہاں بہت” عثمان مسکراتے ہوئے بولا اور کچھ سوچنے لگا
_________________________________________
“آپی یہ لیں کھانا کھالیں” شہیرہ اسکے پاس کھانا لے کر آئی
“ارے چندا میں تو کھا چکی ہوں تم لوگوں نے کھایا؟” وہ مسکراتے ہوئے بولی
“جی کھالیا” وہ واپس جانے لگی
“شہیرہ ٹرے کچن میں رکھ کر میرے پاس آؤ” وہ پیچھے سے بولی
“جی آپی” کچھ دیر بعد شہیرہ کمرے میں آئی
“بیٹھو” وہ اپنے پاس بٹھاتے ہوئے بولی
“کتنے دنوں سے بات ہی نہیں کوئی تم سے؟پڑھائی
کیسی جارہی ہے؟” حیا مسکراتے ہوئے بولی
“بہت اچھی” شہیرہ فقط اتنا بولی
“شہیرہ میں جانتی ہوں تم اتنی کم گو نہیں تھی جتنی اب ہوگئی ہو کیا بات ہے؟” وہ پیار سے پوچھ رہی تھی
“نہیں کچھ نہیں” شہیرہ سر جھکا کر بولی
“مجھ سے شیر کرو چندا جو بھی دل میں بات ہے”
“نہیں آپی کوئی بات نہیں”
“میں یقین کرلوں اس بات پر؟” وہ ابرو اچکاتے ہوئے بولی
“جی” سر جھکائے جواب دیا
“سوچ لو بعد میں کچھ پتہ چلا تو میں ناراض ہوجاونگی” وہ مسکراتے ہوئے دھمکانے لگی
“ٹھیک ہے” وہ بھی مسکرادی
“آپی آپی” ایمان دروازہ کھول کر بھاگتی ہوئے آئی
“کیا ہوا آپی کی جان؟” وہ اسکو گود میں اٹھا کر کہنے لگی
“میرا کل اسکول میں فنکشن ہے مجھے کوئی وائٹ کلر کی فراک پہننی ہے” وہ بچوں کے انداز میں بولی
“ارے آپکے پاس تو اتنی اچھی وائٹ فراک ہے بالکل پرنسس لگتی ہے میری گڑیا اسمیں” وہ اسکے پھولے گال کھینچے ہوئے بولی
“سچی؟” وہ اسکے گلی میں ہاٹھ ڈال کر بولی
“مچی۔۔ اچھا اب جاؤ اور زنیرہ آپی کو بلا کر لاو” وہ سب بہنوں سے باتیں کرنا چاہتی تھی
” نہیں آپی وہ ہر وقت ڈانٹتی رہتی ہیں اب” وہ نروٹھے پن سے بولی
“بلا کر تو لاؤ جاؤ شاباش بولو حیا آپی بلا رہی ہیں” وہ اسکو بیڈ سے اتارتے ہوئے بولی
کچھ دیر بعد سب بہنیں کمرے میں جمع تھیں اور باتوں میں مگن تھیں
“زونی” سب کے جانے کے بعد زنیرہ اسکی گود میں سر رکھے لیٹی تھی
“ہوں”
“کیا تم سے صرف حسین محبت کرتا ہے؟؟کیا ماما میں دادا دادی شہیرہ اور ایمان نہیں کرتے؟؟؟ اسکے جانے پر اتنا اداس کیوں ہورہی ہو چندا؟؟ حیا پیار سے اپنا ہاتھ اسکے بالوں میں پھیر رہی تھی
“ماما کو تائی اماں ہر وقت مصروف رکھتی ہیں آپ کے پاس میرے لیئے ٹائم۔نہیں ہوتا اور شہیرہ اور ایمان ابھی چھوٹی ہیں میں کس سے باتیں کروں کس سے اپنے دل کی باتیں شیئر کروں؟؟” زنیرہ اداسی سے بولی
“میں جب آفس سے آیا کروں تو میرے پاس آجایا کرو چندا میں صرف بڑی بہن نہیں ہوں دوست بھی ہوں” وہ پیار سے بولی
“اور تم اب اداس نہیں ہوگی میری کوئی بھی بہن اداس ہوتی ہے تو میرا دل تڑپتا ہے زونی وہ آجائیگا اور روز تم سے بات بھی کریگا تم اپنے آپ مصروف رکھنے کیلئے کوئی جاب کرلو یا کوئی کورس کرلو فارغ بیٹھو گی تو یوں ہی الٹا سیدھا سوچوگی” وہ پیار سے اسکو سمجھا رہی تھی جسکو زنیرہ اچھے سے سمجھ بھی رہی تھی
_________________________________________
“مان یہ کیا اتنا تیار کیوں ہورہی ہو؟؟” وہ جیسے ہی کمرے میں آئی ایمان کو فینسی فراک پہنے دیکھ کر حیرت سے دیکھنے لگی
“مانی بھائی مجھے لینے آرہے ہیں ہم لوگ آئیسکریم کھانے جائیں گے اور پتہ ہیں اریشہ اور انکل آنٹی بھی ہونگے” وہ خوشی سے اپنی فراک گول گول گھماتے ہوئے کہ رہی تھی
“مان بات سنو” وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر صوفے پر بیٹھ گئی اور اسکو اپنے سامنے کھڑا کیا
“ایسے ہر کسی کے ساتھ نہیں جانتے مان” وہ اسکو سمجھاتے ہوئے بولی
“وہ میرے بھائی ہیں آپی” وہ بے نیازی سے بولی
“ہاں پر سگے نہیں” وہ اسکو سمجھانا چاہ رہی تھی
“یہ کیا ہوتا ہے؟” وہ معصومیت سے بولی تو حیا نے لب بھینچ لئیے
“کچھ نہیں۔۔کب تک آئیں گے وہ” وہ یہ موضوع کسی اور دن کیلئے سوچتے ہوئے بولی
“بس آنے والے ہیں” ایمان سے ہاتھ چھڑا کر واپس گول گول گھومنے لگی اور ایمان پیار سے دیکھنے لگی
“کم ان” ناک کی آواز سن کر حیا نے کہا تو عثمان اندر داخل ہوا
“السلام علیکم” عثمان کی آواز پر حیا بے ساختہ صوفے سے اٹھی
“ارے آپ” وہ حیرانی سے بولی
“ہاں تم تیار نہیں ہوئی؟” وہ اسکے رف حلیے کو دیکھ کر بولا
“میں۔۔ پر کیوں” حیا انگلی سے اپنی جانب اشارہ کرتی ہوئی بولی
“ہائے ہم جارہے ہیں نا ایمان آپ نے بتایا نہیں آپی کو؟” وہ ایمان کی طرف متوجہ ہوا جو بہت خوش لگ رہی تھی
“میں نے بتانا تھا پر یہ کہنے لگیں ایسے ہی ہر کسی کے ساتھ نہیں چلے جاتے” ایمان کے بھانڈا پھوڑنے پر اور عثمان کے اسکو دیکھنے پر حیا کا دل۔چاہا اپنا سر دیوار پر ماردے
“آں حیا تیار ہوجاو ہم باہر ویٹ کر رہے ہیں” وہ ایمان کو لے کر باہر چلا گیا جبکہ حیا کپڑے چینج کرنے چلی گئی
_________________________________________
“حیا” وہ آفس میں بیٹھی کام کر رہی تھی جب ہادیہ کی آواز پر سر اٹھایا لیکن فورا ہی سر جھکالیا
“میری کالز ریسیو کیوں نہیں کر رہی؟” وہ اسکو دیکھتے ہوئے بولی
“میں بزی ہوں” وہ بے نیازی سے بولی جسپر ہادیہ کا سر گھوم گیا
“آج سے پہلے آپ اتنی بزی نہیں ہوئیں مس حیا سلمان کی میری کال ریسیو نہ کریں” وہ طنز کرتے ہوئے بولی
“آج سے پہلے ایسی نوبت بھی نہیں آئی مس ہادیہ عرفان کہ آپکی کال اٹھانے کا دل نہ چاہے” وہ اسی کی انداز میں بولی
“حیا مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے کیوں ناراض ہو؟” وہ کرسی پر بیٹھتے ہوئے اس سے پوچھنے لگی
“میں وجہ بتانا ضروری نہیں سمجھتی” وہ لیپ ٹاپ پر کام کرتے ہوئے بول رہی تھی
“حیا میں اس دن جارہی تھی تو منزہ خود چلنے لگی میں نے نہیں بولا تھا اسے” وہ اپنی صفائی پیش کرنے لگی
“واہ وہ چلنے لگی اور آپ لے گئیں” وہ طنزیہ ہنستی ہوئی بولی
“تم جانتی ہو میں کسی کو منع نہیں کرسکتی” وہ اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی
“بھلے اسمیں میرا دل کتنا ہی کیوں نہ ٹوٹ جائے” وہ دکھ سے اسکی طرف دیکھنے لگی
“کیا ہوگیا ہے حیا اتنی سی بات کا اتنا بڑا بتنگڑ کیوں بنا رہی ہو” وہ زچ ہوتے ہوئے بولی اور حیا اسکو حیرانی سے دیکھنے لگی کتنی بدل۔گئی تھی وہ پہلے اسکی ناراضگی پر تڑپ جاتی تھی اور اب تنگ ہوگئی تھی اور اب ناراضگی کا کوئی فائدہ نہیں تھ
“میں ناراض نہیں ہوں” وہ کہتے ہوئے عثمان کے کمرے میں فائل دینے چلی گئی جبکہ حیا مطمئن ہوکر واپس آگئی
“سنیں مس یہاں ہادیہ آئی تھی چلی گئی؟” وہ باہر آئی تو ہادیہ کو نا پاکر پاس بیٹھی اپنی کولیگ سے پوچھنے لگی
“ہاں وہ تو چلی گئی” کولیگ کے جواب پر حیا کا دل کانچ کی طرح ٹوٹا۔۔۔اس سے بیٹھا نہیں جارہا تھا۔۔۔۔وہ عثمان سے طبیعت کا بہانہ کرکے گھر آگئی
_________________________________________
“میں جارہا ہوں” حسین سب سے مل۔کر آخر میں اسکے پاس آیا
“جائیں” وہ اسکی طرف بنا دیکھے بولی
“ادھر دیکھو” وہ انگلی سے اسکی ٹھوڑی اپنی جانب کرتے ہوئے بولا
“جی” وہ آنسو بھری آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بولی
“مجھے تمہارے آنسو تکلیف دیتے ہیں زونی اگر مجھ سے پیار کرتی ہو تو روگی نہیں” وہ پیار سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولا
“اوکے؟” جواب نہ پاکر حسین واپس گویا ہوا
“جی” وہ فورا اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی جسپر حسین مسکرایا
“اوکے میں چلتا ہوں اپنا خیال رکھنا آئی لو یو زونی انشاء اللہ وہ ول بی ٹوگیدر سون (I love you zoni insha Allah we will be together soon ( وہ اسکو ساتھ لگا کر چلا گیا اور زونی اسکی پیٹھ دیکھتی رہی
_________________________________________
“حیا” ہادیہ نے اسکو کال کی تھی
“ہاں” اب وہ بغیر کسی جوش کے بولتی تھی
“کیسی ہو؟” ہادیہ کا لہجہ نارمل تھا
“ٹھیک” فقط اتنا بولی
“کہاں ہو تم” حیا نے بات نا پاکر یہی پوچھ لیا
“کینٹین میں ہوں سوچا تمہیں کال کرلوں” وہ مسکراتے ہوئے بولی
“ہادیہ تم ادھر ہو پوری یونی چھان ماری میں نے کہا بھی تھا آج میں لنچ کرواونگی” منزہ کی آواز سن کر حیا کے ہاتھ سے سیل گرتے گرتے بچا۔۔ ہادیہ اس سے دور اور منزہ سے قریب ہوتی جارہی تھی۔۔۔ اور یہ بات اسکو اندر ہی اندر مار رہی تھی۔۔۔ اسکی ایک ہی بچپن کی دوست تھی اور وہ بھی کھونے لگی تھی۔۔۔ہر طرف اسکو اپنا آپ اکیلا لگ رہا تھا
_________________________________________
“شائستہ شائستہ” تائی کی گرجناک آواز پر شائستہ بیگم بھاگتی ہوئی آئیں جہاں انکی دوست بھی بیٹھی تھیں
“یہ یہ چائے ہے کوئی؟؟ ایسا لگ رہا ہے پانی ابال کے دے دیا ہے کوئی ٹیسٹ ہی نہیں ہے” اتنی بے عزتی پر شائستہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے
“اب کیا آنسو بہا رہی ہو جاکر بنا کر لاؤ اچھی سی” شہیرہ ماں کے آنسو دیکھ کر خود بھی آنسو پیتی اپنے کمرے کی طرف بھاگی جبکہ زنیرہ غصے سے مٹھیاں بند کرتی رہی
“یار کیسی نوکرانی رکھی ہے تم لوگوں نے” تائی کی دوست کے الفاظ تھے یا خنجر جو شائستہ کے دل کو چیر گئے
“یار چھوڑو اب ہم نے تو ترس کھا کر رکھ لیا اسکو” وہ ہنستے ہوئے نحوست سے بولیں تو شائستہ آنسو پیٹی کچن کی طرف بڑھ گئیں اور چولہے کے پاس اپنی قسمت بھی آگ کی طرح جلتا دیکھ رہی تھیں
حیا شام کو آئی تو زنیرہ نے ساری کہانی اسکے گوش گزار دی جسکو سن کر حیا بہت غصے سے کمرے سے باہر جانے لگی
“کیا کر رہی ہیں آپی مت جائیں چھوڑیں اور تماشہ بنے گا” زنیرہ اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی
“بس۔۔۔ بہت ہوا اب میں اپنی ماں کیلئے ایسے الفاظ استعمال نہیں کر سکتی بہت لحاظ کرلیا” وہ ہاتھ اٹھا کر بولتے ہوئے کمرے سے تیزی سے نکلی
تائی اپنے کمرے میں تھیں جبکہ تایا بھی آ چکے تھے
وہ ناک کر کے اندر داخل ہوئی تو تایا تائی حیرانی سے اسکو دیکھنے لگے
“آپکو کسی نے یہ حق نہیں دیا کہ میری ماں کو نوکرانی کہیں یا انکو دوسروں کے سامنے بے عزت کریں” غصے کی وجہ سے اسکی آواز بھی کپکپا رہی تھی
“اے لڑکی کیا ہوا ہے پاگل ہوگئی ہے کیا؟” تائی نے حقیرانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
“ہونہہ پاگل میں نہیں ہوئی ہوں لیکن شاید آپ اپنے اور پرائے میں فرق کو بھول چکی ہیں” وہ انکی طرف دیکھتے ہوئے بولی تو وہ اٹھ کر اسکے سامنے آگئیں
“تو نے چار جماعتیں کیا پڑھ لیں زبان ایک گز لمبی نکل آئی تیری ہاں” تائی نے چیخ کر کہا شور کی آواز سن کر سب اسی طرف آگئے تھے
“حیا چلی جاؤ یہاں سے” تایا نے چبھتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
“میں چلی جاوں؟؟ تایا آپ تو اپنے ہیں باپ کے بھائی باپ کی جگہ ہوتے ہیں میرا باپ چھوڑ کر چلا گیا تو آپ نے بھی منہ پھیر لیا اپنی بیگم سے پوچھیں کیا کیا ہے انہوں نے” وہ رندھی آواز میں بولی
“حیا چلو یہاں سے” شائستہ بیگم بیٹی کے ارادے دیکھ کر اسکو کھینچ کر لے جانے لگیں
“نہیں میں نہیں جاؤں گی” وہ اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے بولی شائستہ نے بے بسی سے اسکو دیکھا جو آج ایک طوفان بنی ہوئی تھی
“نکل جاؤ میرے کمرے سے” تایا چلائے
“کیوں نکلوں؟؟ کیوں آپکو اپنی سگی بھتیجوں کا دکھ نہیں دکھتا کیوں آپ کو بیویاں ہمیشہ صحیح لگتی ہیں” حیا بول۔رہی تھی جو اسکے منہ میں آرہا تھا جو دل میں بھرا تھا وہ یہ بھول گئی تھی کہ کس کے سامنے بول رہی ہے جو اس سے کئی گنا زیادہ طاقتور تھے اسکے آنسو تواتر سے بہ رہے تھے
“چپ ہوجاو لڑکی” تائی کا ہاتھ ایک دم اٹھا اور اسکے گال پر پڑا سب شاک میں تھے شائستہ نے اپنی چیخ روکنے کیلئے بے ساختہ منہ پر ہاتھ رکھا
“امی کیا کر رہی ہیں آپ” حسن ایک دم آگے بڑھا اور ماں کا ہاتھ پکڑ لیا جو ایک اور بار اٹھنے والا تھا
“ہٹ جاؤ حسن آج اسکو اسکی اوقات یاد دلاؤں” تائی آپے سے باہر ہوتے ہوئے بولیں
“حیا آپی آپ چلیں یہاں سے” شہیرہ اسکو زبردستی کھینچ کر اسکے کمرے میں لائی
“یہ تربیت کی ہے تم نے اپنی بچیوں کی” تایا شائستہ بیگم۔کی طرف مڑ کر بولے
“بھائی صاحب اسکی طرف سے میں معافی مانگتی ہوں” شائستہ بیگم ہاتھ جوڑ کر بولیں
“شائستہ تم اپنے کمرے میں جاؤ بیٹا” دادا انکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے تو وہ فورا حیا کی طرف چل دیں
“کچھ خدا کا خوف کرو اکرام کسی کی آہ پوری زندگی برباد کر سکتی ہے پھر پچھتانے کے علاوہ کچھ نہیں رہیگا” دادا ٹھنڈے لہجے میں بولتے ہوئے چلے گئے جبکہ تایا نی ہونہہ کہ کر دروازہ زور سے بند کیا
_________________________________________
“کیا ضرورت تھی تمہیں ادھر جانے کی؟” شائستہ بیگم حیا پر غصہ ہورہی تھیں
“کیا مطلب امی ہم کب تک چپ رہیں گے ہماری بھی کوئی عزت ہے” وہ دکھ درد سے انکو دیکھتے ہوئے بولی
“نہیں ہے کوئی عزت ہم جیسوں کی کوئی عزت نہیں ہے سمجھی آئندہ تم نہیں جاؤگی ادھر ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کوئی مجھے کیا کہے آئی سمجھ؟” شائستہ بیگم اسکو سنا کر چلی گئیں اور وہ اتنا سوچ کر رہ گئی کہ حالات اور لوگوں کے رویوں نے میری ماں کو کتنا پتھر دل بنا ڈالا تھا وہ اٹھی اور دروازہ لاک کردیا أسوقت کسی کا بھی سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی نہ کسی کی ہمدردی سمیٹنا چاہتی تھی سوائے ایک کے جو اسکی دکھ درد کی ساتھی تھی
اس نے ہادیہ کو کال ملائی وہ۔کال ریسیور نہیں کر رہی تھی۔پھر گھر کے نمبر پر کال ملائی
“ہیلو” دو تین بیل کے بعد آنٹی نے کال اٹھائی
“السلام علیکم آنٹی ہادیہ ہے؟” اس نے پوچھا
“بیٹا وہ گئی ہوئی ہے کسی دوست کی پارٹی میں کوئی کام تھا؟” آنٹی شگفتہ لہجے میں بولیں
“کون سی فرینڈ آنٹی؟” وہ فون کو سختی سے پکڑتے ہوئے بولی
“وہ منزہ ہے نا اس نے پارٹی کی تھی شاید وہیں گئی ہے آتی ہوگی بس کافی دیر ہوگئی ہے” آنٹی اسکی حالت سے بے خبر کہے جارہی تھیں
“ٹھیک ہے آنٹی میں اس سے بات کرلیتی ہوں آپ میری کال کا نہ بتائیگا” اس نے بمشکل حلق سے آواز نکالی اور کال کاٹ دی
دل کی دھڑکن تیز ہوتی جارہی تھی اعصاب شل ہو رہے تھے پر شاید وہ ایک مظبوط لڑکی تھی اس نے اپنا ساتھی ڈائری اور تکیہ کو بنایا اور روتی چلی گئی روتی چلی گئی بنا کسی کا احساس کئے اپنے خیالوں میں مگن وہ ایک لڑکی جو اپنے بابا کی لاڈلی تھی آج انکو مس کر رہی تھی لیکن نفرت کے ساتھ
“بابا آپ نے بالکل اچھا نہیں کیا میں آپکو کبھی معاف نہیں کرونگی کبھی نہیں۔۔۔۔” وہ چیخ کر بولی اور تکیہ میں منہ چھپادیا
__________________________________
“مس حیا فائل کمپلیٹ ہوگئی تو لے آئیں” عثمان نے انٹرکام کر کے کہا جو وہ سن دماغ سے سن رہی تھی
“ہیلو؟” کچھ جواب نہ پاکر وہ گویا ہوا
“جج جی سر” وہ اٹھی اور فائل لے کر روم میں لے آئی
“ارے یہ کیا حیا یہ تو کمپلیٹ نہیں ہوئی؟” عثمان نے فائل دیکھ کر اسکی شکل کو دیکھا جسکی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں اور آنکھوں کے نیچے حلقے شاید وہ ہوش میں بھی نہیں تھی وہ شاک سا رہ گیا
“بیٹھیں” وہ تشویش سے دیکھتے ہوئے بولا
“کیا ہوا اس ایوری تھنگ آل رائٹ؟” وہ فکرمندی سے بولا
“یس” انتہائی دھیمی آواز میں بولی
“آپکی آئس ریڈ ہورہی ہیں آپکی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی مجھے” وہ اسکیلئے فکرمند تھا
“میں ٹھیک ہوں سر” حیا دھیمی آواز میں بولی اسکیلئے آنسو روکنا مشکل ہورہا تھا
“حیا کوئی پرابلم ہے تو مجھ سے شیئر کرو” وہ آگے ہوتے ہوئے بولا
“نن نہیں کچھ نہیں میں جاؤں؟” وہ اس شخص کے سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی
“اوکے نو پرابلم لیکن دل میں چھپی وہ بات جو آپ کو تکلیف دے دوسروں سے شیئر کرلینی چاہیئے اس سے دل ہلکا ہوتا ہے” وہ اسکو سمجھاتے ہوئے بولا
“آپ گھر جاسکتی ہیں” وہ مسکراتے ہوئے بولا
“نہیں میں یہیں رکوں گی” وہ گھر جانا ہی نہیں چاہتی تھی تبھی آج آگئی تھی
“اوکے پھر ریسٹ روم۔میں جاکر آرام کریں پلیز” حیا سر ہلاتی ہوئی ریسٹ روم میں آگئی
_________________________________________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...