مندرجہ ذیل جوناتھن ہائیٹ اپنا ذاتی واقعہ بتاتے ہیں۔
“گیارہ ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد میرا دل بڑی شدت سے ایک کام کرنے کو کیا، جس کو میں دوستوں کے آگے تسلیم کرنے میں شرمندہ تھا۔ میں اپنی گاڑی پر اپنے ملک کا جھنڈا لگانا چاہتا تھا۔
یہ خواہش اچانک ہی کہیں سے آئی تھی۔ اس کا کوئی بھی تعلق کسی ایسی چیز سے نہیں تھا جس کی وجہ مجھے سمجھ آتی ہے۔ یہ میرے دماغ کی کسی تہہ میں چھپا ہوا الارم تھا۔ مجھے اس الارم کے ہونے کا کوئی علم نہیں تھا۔ لیکن اس وقت میں مجھے اپنے ملک سے تعلق کا احساس چھا گیا۔ میں کچھ کرنا چاہتا تھا۔ میں نے جا کر خون کا عطیہ دیا۔ اجبنبیوں سے مہربانی بڑھ گئی۔ اور اس وقت میں یہ دکھانا چاہتا تھا کہ میں ایک ٹیم کا ممبر ہوں اور جھنڈا اس کی علامت تھا۔
لیکن میں تو ایک پروفیسر ہوں اور پروفیسر ایسے کام نہیں کرتے۔ جھنڈے لہرانا اور قومیت پسندی کے مظاہرے قدامت پسندوں کے کام ہیں۔ پروفیسر عالمی انسانی برادری کے قائل ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں پر تنقید کرتے ہیں جن کی نظر میں ان کا ملک دنیا میں کوئی خاص حیثیت رکھتا ہے۔
میرے لئے یہ ایک نئی دریافت تھی کہ میں محبِ وطن تھا۔
ساڑھے تین روز کی ذہنی کشمکش کے بعد (اور ایسا میرے ساتھ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا)، مجھے ایک حل مل گیا۔ میں نے اپنی گاڑی کے پچھلے شیشے کے ایک کونے میں اپنے ملک کا جھنڈا لگا لیا اور دوسرے میں اقوامِ متحدہ کا۔ تا کہ میں اپنے ملک کی محبت کا اعلان بھی کروں اور اپنے عالمی شہری ہونے کا بھرم بھی رہ جائے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی تک اس سیریز میں انسانی فطرت کی تصویر کچھ قنوطیت والی ہے۔ وجدان پہلے آتا ہے اور جواز بعد میں۔ جہاں موقع ملے، ہم جھوٹ بولتے ہیں، دھوکہ دیتے ہیں اور اخلاقیات سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔ اور پھر اپنی ساکھ کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنے کاموں کا جواز بنا لیتے ہیں۔ کچھ بھی کر لینے کے بعد ہم اپنی نظر میں اچھے ہیں اور اپنی راست بازی کے قائل رہتے ہیں۔
ہم اخلاقی نفسیات کا ایک بڑا حصہ “روشن خیال ذاتی مفاد” کی نظر سے دیکھ سکتے ہیں۔ جین خودغرض ہیں۔ ان سے بننے والے جاندار مختلف ذہنی ماڈیول رکھتے ہیں اور ان کا ایثار حکمتِ عملی کے تحت ہوتا ہے جس پر ہر وقت بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہم رشتہ داروں سے زیادہ بہتر سلوک کرتے ہیں اور دوسروں سے اچھا سلوک کرنے کی وجہ جوابی ایثار ہے۔ اور اس میں زبان اور گفتگو کا اضافی عنصر ہماری ساکھ کو manage کرنے کے لئے ہے۔ اخلاقیات کے ارتقا پر لکھی تقریباً ہر کتاب کچھ ایسا ہی بتاتی ہے۔
لیکن یہ تصویر نامکمل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں، یہ درست ہے کہ لوگ بہت بار خودغرض ہوتے ہیں۔ ہمارے اخلاقی یا سیاسی رویے کے ایک بڑے حصہ کو چھپی ہوئی مفادپرستی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بات بھی اتنی ہی درست ہے کہ ہم گروہ پسند (groupish) ہیں۔ ہم کلب، گروپ، تنظیمیں، ٹیمیں بناتے ہیں۔ ہم گروہی شناخت اپناتے ہیں اور اجنبیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر پرجوش طریقے سے کام کرتے ہیں تا کہ اپنا مشترک مقصد حاصل کیا جا سکے۔ ہمارا ذہن ٹیم ورک کے لیے بنا ہے۔ اخلاقیات، سیاست یا مذہب کو اس وقت تک نہیں سمجھا جا سکتا جب تک ہم انسان کے گروہی رویے کو نہ سمجھ لیں۔ کنزرویٹو اخلاقیات ہوں یا سوشلسٹ۔ ہماری سماجیات میں گروہی رویہ ایک بنیادی کردار رکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم کہتے ہیں کہ انسانی فطرت خودغرضی کی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس کئی ایسے ذہنی مکینزم ہیں جن کی وجہ سے ہم دوسروں کے مقابلے میں اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور جب ہم کہتے ہیں کہ انسان گروہ پسند بھی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے کئی ذہنی مکینزم ہیں جن کی وجہ سے ہم دوسروں کے مقابلے میں اپنے گروہی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم نیکی کے مینار نہیں لیکن ہم اپنی ٹیموں کے اچھے کھلاڑی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دونوں الگ مکینزم انسانی فطرت کو دو بڑی مختلف سمتوں میں دھکیلتے ہیں۔ یہ ہمارے اندر خودغرضی اور بے لوثی کا ایک عجیب امتزاج ہے۔ جس کو ہم تھوڑے سے غور و فکر سے خود اچھی طرح سے اپنے اندر بھی پہچان لیتے ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...