(Last Updated On: )
نور آج واپسی پر ہم لنچ کرنے جائیں گے اور آپ انکار نہیں کرو گی ٹھیک ہے؟
علی نے گاڑی چلاتے ہوئے اعلان کیا اور فیصلہ بھی کردیا اپنی جانب سے۔
نور نے اثبات میں سر ہلا دیا وہ نہ چاہتے ہوئے بھی علی اور عادل کا موازنہ کرنے لگی تھی وہ دل ہی دل میں یہ سوچ رہی تھی کہ کاش یہ مزاج ایسا رویا کبھی عادل کا بھی ہوتا میرے ساتھ۔
نور علی کی دل سے عزت کرتی تھی اس کو ایک اچھا دوست مانتی تھی مگر دل کی دھڑکنیں آج بھی جس نام پر تیز ہوتی تھی جس کو دیکھ کر نور کے ہاتھ پیر پھول جاتے تھے وہ عادل ہی تھا۔
“شاید ہمیں اس شخص سے ہی شددت سے پیار ہوتا ہے جو ہمیں بار بار ہرٹ کرے ہمارا دل دکھائے”۔
نور کن سوچوں میں گم ہو میں نے کچھ سوال پوچھا تھا،
وہ نور کے اثبات میں ہلتے سر کو نہیں دیکھ سکا تھا۔
نور: ہاں ٹھیک ہے جائئیں گے کھانے پر اگر یونی پہنچ بھی گئے تو جیسے آپ گاڑی چلا رہے ہو ایسے میں ہم وہاں پہنچیں گے تب جب سب واپس آرہے ہوں گے۔
علی: میں تو آہستی اس لیے چلا رہا ک پاؤں کو پھر سے کچھ نہ ہو جائے ورنہ میں تو فارمولا ون والو سے بھی بہت تیز چلاتا ہوں، جانتی ہو نا فارمولا ون یا یہ بھی بتانا پڑے گا، گاریوں کی ریس ہوتی ہے ایسے،
( اتنا کہتے ہی علی نے گاڑی کو فل سپیڈ میں چلانا شروع کر دیا مگر جلد ہی رفتار کم کر لی نور کی بگڑتی حالت کو دیکھتے ہوئے)۔
کیا ہوا نور ٹھیک ہو نا آپ علی نے گاڑی کو سڑک کنارے روک لیا اور پریشانی سے نور کو دیکھنے لگا۔
مجھے تیز رفتار سے ڈر لگتا ہے اور سر گھومنے لگتا ہے میرا،
نور نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا اور چپ ہو گئی۔
اوہ تو پہلے بتاتی نا چیلنج کیا تو پھر میں نے بھی اپنے ڈرئیونگ کے جوہر دیکھا دیے،
ابھی میں آرام سے چلا رہا اوکے۔
یونیورسٹی چھوڑنے کے بعد علی کسی ضروری کام کے لیے چلا گیا،
نور کی حالت خراب ہو رہی تھی دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو رہی تھی۔
لنچ کے لیے جاتے ہوئے نور کچھ مضطرب سی دیکھائی دے رہی تھی اور بار بار کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن کچھ کہ نہیں پارہی تھی۔
علی: کیا بات ہے کچھ کہنا ہے یا درد ہو رہا ہے پاؤں میں ایسے کیا دیکھ رہی ہو بار بار مجھے میرے فیس پر کچھ لگا تو نہیں ہے نا؟
نور: نہیں میں وہ مجھے نا ڈاکٹر کے پاس جانا ہے آج دوائی لینی ہے کیا میں آپکے ساتھ چل سکتی ہوں؟
علی: ہاں کیوں نہیں یہ کون سی ایسی شرمانے گھبرانے کی بات ہے لیکن دواقئی وغیرہ تو کل نہیں لے کر آئی،
ڈاکٹر کے پاس تو ٹائم کل کا تھا نا تو آج پھر کون سی دوائی لینی ہے
(علی نے نور کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا)
نور: علی وہ مجھے نہیں رہنے دیں میں کل لے لوں گی فیلو کے ساتھ چلی جاؤں گی آپ ابھی لنچ لیے ہی لے چلیں۔۔
نور کے انداز سے واضح تھا کہ وہ کوئی بات چھپا رہی ہے وہ کہنا بھی چاہتی مگر ایک دم سے علی پر اپنا مکمل اعتماد ظاہر نہیں کر سکتی۔
علی: نور ہم میں زیادہ نہیں تو کم سے کم دوستی تو ہو سکتی ہے نا میں اپنی منگیتر کی جگہ شاید آپکو نہیں دے سکتا لیکن ایک دوست بن کر میں آپکی مدد کر سکتا ہوں، اور آپ بھی مجھے ایک دوست سمجھ کر سب شیئر کر سکتی ہو۔
میں نہیں جانتا کوئی آپکی لائف میں آیا تھا یا نہیں لیکن میری زندگی میں وہ آکر چلی تو گئی مگر میری زندی پر بہت زیادہ اثر انداز ہو چکی ہے ۔۔
نور: علی میں بھی کبھی ان کی جگہ لینے کی کوشش نہیں کروں گی اور نہ میں یہ خواہش رکھتی کے آپ ان کو بھلا دیں، اور رہی بات دوستی کی تو میں تیار ہوں کیا آپ میری باتوں کو راز رکھ سکو گے علی؟؟
علی: ایسا کیا راز ہے آپکی لائف میں نور،
آپ خوش تو ہیں نا میرے ساتھ ہونے والی اس منگنی سے ؟
نور: علی میں نہیں جانتی خوشی کا مفہوم کہ یہ ہوتی کیا ہے کچھ حاصل کر لینا کوئی مل جانا خوشی ہے یا پھر انسان سکھ کی سانس لے وہ خوشی ہوتی ہے، جو بھی ہے میں آپکی کمپنی میں انجوائے کرتی ہوں میں آپ کے سامنے نیچرل رہ سکتی ہوں مجھے یہی خوشی دیتا ہے۔
علی: اوہ گاڈ بس بس فلسفہ میرے سر سے بہت اوپر سے گزر جاتا ہے اور اب بتائیں یہ ایسا کون سا راز ہے جس کا آپ ذکر کر رہی تھی۔
نور: پہلے لنچ کر لیں پھربتاتی ہوں ابھی بھوک لگی ہے پیٹ میں چوہے ناچ رہے ہیں۔
کھانا تو اچھے سے کھاو نا یہ کیا چکھ رہی ہو زرا زرا ابھی کہ رہی تھی کہ چوہے ناچ رہے اور اب یہ تبدیلی کیسے آگئی،
علی نے نور پر ایک نظر ڈالی اور ایک نظر نور کی پلیٹ کو دیکھا۔۔
نور: نے صاف انکار کر دیا علی نے بھی کوئی زور زبردستی نہیں کی، وہ کسی سے بھی زبردستی کا قائل نہیں تھا ۔۔۔
ڈرگ سٹور میں داخل ہوتے ہوتے جو بات علی کی سماعتوں سے ٹکرائی وہ سن کر جیسے علی کے پاؤں نیچے سے زمیں نکل گئی تھی، وہ حیران تھا کہ یہ دھان پان سی لڑکی اور اس کو یہ سب برداشت کرنا پڑتا ہے اور یہ کیسے ایک گڑیا کی طرح ہنستی مسکراتی رہتی ہے،
علی کے قدم بوجھل ہوتے جا رہے تھے۔۔
” اللہ تعالیٰ بھی پھول جیسے لوگوں کو کیسے کانٹوں بھری زندگی دے دیتا ہے،
اتنے سارے امتحان وہ بھی تنہا سہنے پڑتے ہیں ” ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عادل: امی کل لاسٹ پیپر ہے میرا پھر دو دن کے لیے آوں گا گھر واپس اور امی پھر آپ بات کے لیے آئیں گی نا کشمالہ کے گھر؟
زرینہ بیگم: بیٹا بات ابھی کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن بہتر نہیں ہو گا کہ رزلٹ کے بعد بات کریں ہم، کوئی پریشانی تو نہیں ہے نا؟ وہ کمٹیڈ تو ہے نا تمھارے ساتھ؟
عادل: امی ہم میں ایسی کوئی بات تو نہیں ہوئی کبھی لیکن امی، (وی آر سو کلوز ٹو ایچ ادھر)
اور مجھے کون انکار کر سکتا ہے آپ ہی بتائیں؟
زرینہ بیگم: عادل میں پہلے بھی بہت بار سمجھا چکی ہوں تمھیں اور آج بھی کہ رہی ہوں بیٹا کانفیڈنٹ ہونا اچھی بات ہے۔ مگر اس میں حد سے گزر جانا اچھی بات نہیں ہے، تم میں تمھارے ابا کی باقی سب خصوصیت تم میں ہیں مگر یہ غرور ان میں نہیں تھا عادل، بیٹا دل جیتنا سیکھو فتح تو کوئی بھی حاصل کر لیتا ہے مگر دلوں میں گھر کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اور ابھی پیپر دے لو پھر بات کریں گے۔
عادل فون بند کرنے کے بعد ماں کی کہی ہوئی باتوں کو سوچنے لگا وہ ماں کی باتیں ہمیشہ سے سن کر اس پر مکمل عمل کرتا تھا مگر یہ ایک ایسی بات تھی جس کو وہ نہ خود سمجھ پایا تھا اور نہ ہی وہ اپنے مزاج کو کبھی غلط سمجھتا تھا ۔
وہ جانے انجانے میں مغرور ہوتا جا رہا تھا اس کو اپنے قد کاٹھ اپنی پیاری شکل و صورت کا گھمنڈ ہونے لگا تھا وہ اللہ تعالی کی ہر عطا کو اپنا حق سمجھنے لگا تھا۔
دنیا سے لڑتے لڑتے وہ بھول گیا تھا کہ کوئی ہے جو اس سب کو اپنی مرضی کے مطابق چلاتا ہے، یہ اس کی نوازشیں ہیں کسی کو کچھ دیتا ہے یا کسی سے کچھ چھین لیتا ہے۔
عادل مجھے نوٹس مل سکتے آپ کے مجھے بس کاپی کروانے ہیں پلیز شزا نے ریکویسٹ کرتے ہوئے کہا۔
عادل: نو میں نہیں دے رہا محنت کرتی نا
شزا: گھمنڈی شخص
عادل: کیا کہا؟
شزا: کچھ بھی نہیں،
عادل: بہتر ہے کچھ کہو بھی نہیں میں ویسے بھی تمھاری فالتو باتیں سننے کے موڈ میں نہیں ہوں۔
شزا: اتنا غرور کس بات کا ہے عادل؟
عادل: تم سے مطلب؟
شزا: پچھتاؤ گے عادل تم،
عادل: جو ہوگا دیکھا جائے گا اور اگر تمھارا اشارہ کشمالہ کی طرف ہے بے فکر رہو تم اس معاملے میں۔
شزا: جو تم سوچ رہے ہو نا ویسا ہونے نہیں والا اور دیکھ لینا تم کبھی خوش رہ نہیں سکو گے کیوں کے تمھیں دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرنی نہیں آتی سیلف سینٹرڈ آدمی ہو تم۔
نہ جانے خدا بھی نوازتا ان کو ہی کیوں ہے جن کے اندر دل نہیں پتھر ہوتا ہے۔
اس سے پہلے کہ عادل کوئی جواب دیتا شزا نے کال کاٹ دی۔
عادل کا سر بار بار ایک ہی بات سن کر پھٹنے لگا تھا وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ آکر آج سب کو ہو کیا گیا ہے۔
اگر میں لائف میں آگے بڑھ رہا ہوں تو یہ میری محنت ہے کسی کے سہارے کے بغیر ہی میں سب کرتا ہوں لوگ مجھ سے جلتے کیوں ہیں؟۔،
جب میں محروم تھا تب میں نے تو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا میں نے اپنے ماموں کے آگے۔ نہ کبھی مانگا کچھ جو بھی کیا یہ میں نے اپنے زور ء بازو سے ہی تو کیا ہے، پھر میں سب کو سنگدل کیوں لگتا گھمنڈی کیوں لگتا یہ میری فطرت ہے میں ایسا ہی ہوں اور رہوںگا۔
بدل لے جس کو بدلنا ہے مجھ سے میں سب کچھ حاصل کر سکتا ہوں مجھے کسی کی ضرورت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور: آج بہت دیر کردی آپ نے آنے میں کیا بات ہے سب ٹھیک تو ہے نا؟
(نور نے علی کی طرف دیکھا اور گاڑی میں بیٹھ گئی)۔
علی: ہاں میں پیکنگ کر رہا تھا یونٹ سے کال آگئی ہے پرسوں واپس جانا ہے
( علی نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا)۔
نور: یوں اچانک سے کیوں؟ ابھی تو چھٹی باقی ہے آپکی،
(نور نے حیرانگی سے دیکھا علی کی جانب جیسے کہنا چاہتی ہو کہ مت جاؤ ابھی تو میں نے جینا شروع کیا ہے)۔
علی: بس جی حکم کے غلام ہیں ہم تو کیا کر سکتے ہیں چلو یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی ابھی مارکیٹ چلتے ہیں مجھے کچھ چیزیں لینی ہیں پھر گھر جانا اور لاسٹ میں آپکو گھر ڈراپ کر دوں گا، کوئی خاص کام تو نہیں ملا ہوا نا؟
(علی نے شام سے رات تک کا تمام پلان بتاتے ہوئے آخر میں سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے سوال کیا)۔
نور: نہیں کام تو نہیں ہے مگر بابا کی اجازت کے بغیر میں کیسے چل سکتی ہوں(نور نے منہ بناتے ہوئے سوال کیا)
علی: میں اتنا بھی ابھی پاگل نہیں کہ یہ سب پلان خود سے کر لوں، یہ سب پلان میں نے ہٹلر انکل سے پوچھ کر ہی بنایا ہے(علی نے ہنستے ہوئے نور کی طرف دیکھا اور چونک اٹھا)
اووہ میں نے کچھ غلط کہ دیا کیا؟
نور کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر علی نو سوال کیا۔
نور:آپ نے میرے بابا کو ہٹلر بولا ہے میں نہیں جاتی آپکے ساتھ جائیں میں ناراض ہوں،
( نور کی آنکھوں میں شرارت تھی وہ انجوائے کر رہی تھی اس وقت علی کے چہرے پر ہوئیاں اڑتی دیکھ کر)۔
علی کاچہرہ اتر گیا تھا وہ کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن چپ رہا۔
نور کی دبی دبی ہنسی سنائی دینے لگی، تو علی نے نور کی طرف دیکھا۔
نور: توبہ کتنا ڈرتے ہیں آپ،
نور نے علی کو ستاتے ہوئے کہا۔
علی: پہلے نہیں ڈرتا تھا مگر اب ہرٹ کرتا ہوں نا کسی کو تو برا لگتا ہے خود کو،
( علی کی آنکھوں میں آنسوں تیرتے ہوئے صاف دیکھائی دے رہے تھے)۔
شاپنگ کے بعد گھر کی طرف جاتے ہوئے علی کا موڈ قدرے بہتر ہو گیا تھا اور وہ اب پہلے کی طرح ہنس رہا تھا۔
نور: سوری علی میں نے آپکو اداس کر دیا تھا میرا مذاق شاید بہت بچوں جیسا ہوتا ہے ہمیشہ غلط کر دیتی ہوں میں تو۔
علی: نہیں ایسی بات نہیں ہے نور اٹس اوکے،
میں آج اپکو ایک بات بتاؤں گا مگر گھر چل کر ابھی چپ ہو جاؤ اچھے بچی بنو۔
نور نے منہ بسوڑتے ہوئے علی کو دیکھا اور خاموش ہو گئی۔
علی کے گھر پہنچ کر نور کو وی آئی پی پروٹوکول ملا اور وہ ایک لمحے کے لیے بھی علی سے بات نہ کر سکی،
اس بات کا احساس نور کو بھی تھا اور علی بھی بہت بے چین دیکھائی دے رہا تھا اس دوران۔
رات کھانے کے بعد علی ڈراپ کرنے کی غرض سے نور کو جلدی ہی وہاں سے لے آیا تھا۔
علی: نور آپکو شاید معلوم نہیں ہوگا کہ میں جیسا اب ہوں ویسا کبھی بھی نہیں تھا مجھ میں نہ اچھا اخلاق تھا اور نہ ہی کبھی میں پڑھائی میں اچھا رہا، نور میرے بابا جب تک ٹھیک رہے میں نے زندگی میں کسی بھی کام کو ڈھنگ سے نہیں کیا۔
اس بات کا مجھے بےحد افسوس ہے کاش میرے بابا آج زندہ ہوتے وہ مجھے ایسے دیکھ کر کتنا خوش ہوتے نا؟
علی نے رفتار کم کر دی تھی گاڑی کی اور وہ بہت کچھ کہنا چاہتا تھا بہت سی باتیں نور کو سمجھا دینا چاہتا تھا۔
وہ اس سہمی ہوئی لڑکی کو ایک بہادر لڑکی میں بدل دینا چاہتا تھا وہ نہیں جانتا تھا کہ اس جزبہ کو وہ کیا نام دے،
یہ پیار تو نہیں ہے کیا یہ ہمدردی ہے یا بحثیت ایک دوست کے وہ مدد کرنا چاہتا ہے۔
نور: علی کیوں نہ گھر چل کر ہم اس بارے میں بات کریں آپ نے پوری شام میرے ساتھ گزاری ہے اب اظہار تشکر کے لیے ایک کپ کافی میرے ساتھ میرے ہاتھ کی بنی ہوئی۔
نور: علی جائے لیں گے یا کافی؟
علی: چائے مل جائے مزہ آجائے۔
نور: جو حکم آپکا ابھی لاتی ہوں میں۔
علی: میں باہر لان میں ہوں یہاں اندر سب ہماری وجہ سے ڈسٹرب ہوں گے،
( دبے پاؤں علی باہر آگیا،آج علی چاہتے ہوئے بھی اداسی کو چھپا نہیں پارہا تھا)۔
لان میں گھومتے ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی ابھی کہ نور آتی دیکھائی دی، نور کو دیکھ کر علی لان میں رکھی کرسیوں کے پاس نیچے گھاس پر ہی بیٹھ گیا۔
نور: لیں اسپیشل چائے نور کے ہاتھ کی بنی ہوئی آپ بھی کیا یاد کریں گے لیجے لیجے گھبرائیں مت۔
علی: جی جی یہ خاص سوغات پیئے بنا میں چلا جاتا تو ہمیشہ ہی کف ء افسوس ملتا رہتا نا۔
( علی نے مکمل کتابی انداز میں جواب دیا)
اس بات پر دونوں ہنسے بنا نہ رہ سکے۔
نور: اگر یہاں عادل ہوتا نا وہ چائے کم پیتا اور میری نالائقی کے قصے زیادہ سناتا۔
علی: ویسے نور فرینکلی سپیکنگ مجھے لگتا کبھی کبھی آپ عادل سے بہت پیار کرتی ہو۔
علی کے منہ سے اچانک یہ بات سن کر نور جیسے پتھر کی ہو گئی ایسے جیسے کسی نے جادو کے زور پر ہر حرکت کو باندھ دیا ہو،
نور کا سر جھک گیا تھا وہ چاہتے ہوئے بھی علی سے نظر نہیں ملا پارہی تھی۔
علی:نور کم آن مجھ سے آپ شیئر کر سکتی ہو اور ویسے بھی کسی کو پسند کرنا کوئی گناہ تو نہیں ہے۔
نور میں آپکے ماضی میں جھانکنا نہیں چاہتا اور نہ ہی میرا مقصد آپکو شرمندہ کرنا تھا۔
نور: علی آپ ٹھیک کہتے ہیں پیار کرنا کوئی گناہ نہیں ہے مگر جب وہ پیار ہمیں حاصل نہ ہو سکے تو اس سے بڑھ کر کوئی دوسری سزا بھی نہیں ہوتی،
آپ سے بہتر اس بات کو کون جان سکتا ہے علی آپ نے بھی تو ارج کو کھویا ہے نا ۔
علی: میں نے ارج کو کھویا بھی تو اپنی ہی حماقت سے،
نہ میں چیلنج کرتا نہ وہ ٹرین کا سفر کرتی نہ اس حادثے میں جان سے جاتی اور نہ مجھے ہمیشہ کا یہ دکھ برداشت کرنا پرتا ۔
علی آج بولنا چاہتا تھا اور وہ بول رہا تھا نور کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ان سب باتوں کے جواب میں کیا بولے۔
کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد علی دوبارہ سے گویا ہوا۔
علی: میں میٹرک میں بہت مشکلوں سے پاس ہوا تھا میرے مارکس اس قدر کم تھے کہ میرے ابا کی سب امیدیں اس روز دم توڑ گئی تھیں ان کو نہیں لگتا تھا کہ میں یعنی ان کا نالائق بیٹا کبھی زندگی میں کچھ کر سکے گا کچھ حاصل کر سکے گا۔
علی کی آنکھو میں آنسو تیر رہے تھے،
وہ سیدھا بیٹھ کر نور کو دیکھنے لگا جو بنا پلک جھپکے علی کو دیکھ رہی تھی اور سب باتیں غور سے سن بھی رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاموشی کے طویل وقفے کے بعد علی نے پھر سے بولنا شروع کر دیا،۔
علی: نور کچھ لوگ غیر محسوس انداز میں ہماری زندگیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں،
کبھی تو یہ اثرات مثبت اور کبھی منفی ہوتے ہیں ایک اچھا انسان آپ کے اندر چھپے ہوئے انسان کو باہر نکال لاتا ہے۔
نور: آپ کیسے بدل گے علی؟ آپ تو سب سے پیچھے تھے اور اب یہ
( نور حیران تھی کہ کیا پیار میں یتنی قوت ہوتی ہے؟
اگر ہوتی ہے تو کیا میرا پیار سچا نہیں ہے)
علی: یہ تبدیلی مجھ میں ارج لائی وہ بہت کم بولتی تھی مجھے اس سے یہی شکایت ہوا کرتی تھی کہ ارج بولتی کیوں نہیں ہو؟ وہ ہمیشہ کہتی تھی میں اپنے نصیب میں لکھے الفاظ کو فالتو باتوں میں لٹا نہیں دینا چاہتی مجھے ان لفظوں کو تمھارے ساتھ جیتے ہوئے استعمال میں لانا ہے۔
میں اکثر اس کی ان باتوں پر ہنستا تھا میں اس کی باتوں کہ ہنسی میں اڑاتا تھا وہ ہر بار کہتی تھی سنجیدہ ہو جاؤ علی غافل نہ بنو تم تایا جان کی طرف دیکھو تم ایک ہی بیٹے ہو ان کے تم بھی اگر کسی قابل نہیں بنے تو تمھاری بہنیں کیا کریں گی زندگی میں، تایا جی کی طبعیت دیکھو ان کی زندگی پر رحم کرو۔
میں نے غصہ میں کہ دیا تم کر لو یہ سب مجھ سے نہیں ہوتا اور تم بھی کیا کر لو گی؟
اسی دن ہمارے بیچ ایک جنگ کا آغاز ہوا دیکھتے کون زیادہ اچھا پڑھے گا۔
علی نے اپنے آنسوں کو صاف کیا گھڑی پر نظر ڈالی اور پھر نور کو دیکھا اوہ بہت دیر ہو گئی ہے نور انکل مائنڈ نہ کریں یوں میرا یہاں رکنا مجھے جانا چائے وہ اٹھتے ہوئے بولا مگر۔
نور نے علی کو روک لیا اور یاد کروایا کہ بابا تو گھر پر نہیں ہیں آپ بھی کمال کرتے کیپٹن صاحب۔
علی دوبارہ سے بیٹھ گیا اور اپنی زندگی کے بدلنے کے بارے میں بتانے لگا،
امتحانات میں اچھے نمبر حاصل کر لینے کے بعد دونوں کی منگنی کی تقریب رکھی گئی تھی اس کے بعد علی میں بہتری آنے لگی تھی، ان ہی دنوں آرمی میں ٹیسٹ دیا اور کامیاب بھی رہا، اس کے بعد آیا وہ وقت جب علی کے والد بہت بیمار ہوئے اور کومہ میں چلے گئے تھے۔
اس سے کچھ روز پہلے انہوں نے علی کے نصیحت کی اور کہا
“بیٹا کبھی کسی پر حد سے بڑھ کر بھروسہ مت کرنا”
اور دوسرا
” کبھی کسی کے ساتھ کی عادت مت ڈال لینا، سب بدل جاتے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ”۔
نور: علی اور ارج کو کیا ہوا تھا؟
علی: ارج کو میرے چیلنج نے شکست دے دی وہ زندگی بھی ہار گئی، میں نے ارج کو چیلنج کیا کے میں نے تمھارے کہنے پر پڑھائی کی بلکہ تمھارے پیار میں اور اب تم ثابت کرو کے مجھ سے کتنا پیار کرتی ہو مجھے ملنے اکیلی ٹرین میں سفر کر کے آو۔
نور وہ آگئی تھی ملنے وہ گھر سے آگئی تھی اور پھر،
علی کا گلہ جیسے بند ہو گیا تھا وہ رو رہا تھا، نور میں نے کھو دیا خودغرضی سے اپنی ضد سے ۔۔
نور کی آنکھو میں آنسو تھے وہ رو رہی تھی وہ حیران تھی کہ کیسے ایک مضبوط اعصاب کا شخص کیسے بچوں کی طرح رو رہا تھا۔
آج پہلی بار نور نے کسی اور کو پیار میں روتے دیکھا تھا۔
علی نے آنسوں کو صاف کیا اور بولا
نور کبھی بھی کسی کی عادت مت ڈالنا، نہ کبھی کسی کے پیار میں اپنی ذات کی اس قدر نا قدری کرنا کے دوسرے کو تمھاری قدر بھی نہ ہو۔
نور بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر خاموش رہی وہ علی کو جاتے دیکھ رہی تھی ،فجر کی آذانوں کی آوازیں دور دور سے سنائی دے رہی تھی اور بوجھل قدموں کے ساتھ چلتی چلتی اپنے کمرے کی جانب جا رہی تھی،
نور نے فیصلہ کر لیا تھا وہ اب خود سے پیار کرے گی خود کو اس لائق بنائے گی کہ لوگ اس سے پیار کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
عادل کو واپس آئے ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا وہ گھر میں رہتے ہوئے بیزار ہونے لگا تھا اسکو ہوسٹل لائف کی عادت ہو چکی تھی۔
گروپ فیلوز کے ساتھ آنا جانا پڑھائی کرنا اس سب میں وقت کٹ جایا کرتا تھا مگر اب نہ کچھ کرنے کو تھا نہ ہی پڑھائی باقی تھی۔
گھر میں بھی کوئی ایسا نہیں تھا جس کے ساتھ عادل کوئی بات کر سکتا وہ ایسا بھی نہیں تھا کہ کبھی بہت سے دوست بنائے ہوتے اور سب سے بڑھ کر عادل کو کشمالہ سے بات نہ ہونے کا بھی دکھ ہو رہا تھا۔
پیپرز کی شام کو ہی عادل کو واپس گھر آنا پڑا تھا وہ گھومنے بھی نہیں جا سکا تھا اور نہ ہی آتے ہوئے کشمالہ سے مل پایا تھا، اور جب سے واپس آیا تھا کشمالہ کا نمبر مسلسل بند جا رہا تھا۔
زرینہ بیگم: عادل باہر آو بیٹا جلدی سے۔
عادل: آتا ہوں امی۔
جب ماں نے آواز دی تو عادل باہر جانے کی تیاری کر رہا تھا اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ جم جوائن کرے گا اسی سلسلے میں وہ جم جا رہا تھا۔
زرینہ بیگم: عادل بیٹا نور کا پیپر ہے اور گھر میں گاڑی نہیں ہے جو اسے لے جائے پلیز تم لے جاؤ بیٹا۔
خدیجہ: بیٹا تم لوگوں کی بھابھی بھی نہ جانے کہاں سے ڈھونڈ کر لائے تھے خاور، اس کو معلوم بھی تھا نور نے جانا ہے اور یہ گاڑی لے گئی شاپنگ کے لیے اب کیا کروں میں اس کا۔
نور: امی ضروری ہے گاڑی میں جایا جائے میں ٹیکسی میں چلی جاتی ہوں کیوں آپ اپنا بلڈ پریشر ہائی کرتی ہیں ( وہ سکارف میں پن لگاتے ہوئے بولی)۔
زرینہ بیگم: بیٹا عادل لے جائے گا نا تمہیں کیا ضرورت ہے ٹیکسی میں کہیں آنے جانے کی۔
انہیں باتوں کو کرتے کرتے سب گاڑی تک آگئےماں اور پھپی سے دعائیں لے کر نور عادل کے ساتھ یونیورسٹی کے لیے نکل آئی۔
عادل کے دماغ کی سوئی اب تک کشمالہ پر اٹکی ہوئی تھی وہ کشمالہ کو بہت بار کال کرنے کی کوشش کر چکا تھا مگر کشمالہ کا نمبر مسلسل بند جا رہا تھا، وہ پوچھتا بھی تو کس سے راجہ سے فیصل سے یا شزا سے۔
اس سے تو عادل کی بات چیت بہت دن پہلے سے بند تھی، رہی بات فیصل کی وہ تو اپنے گاؤں جا چکا تھا اور راجہ قسمت آزمائی کے لیے کراچی چلا گیا تھا۔
اس کا خیال تھا کہ دانا پانی یہاں سے اٹھ چکا ہے اور دوسری بات یہ کہ وہ زیادہ پر امید بھی نہیں تھا کامیابی کےلیے۔
راجہ کو یہی لگتا تھا کے سول سروس میں بھی بنا سفارش کے کچھ نہیں ہو سکت تھا،
یہاں بھی امیر زادوں کو یا پھر اچھے لنکس والے لوگ ہی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
عادل کن خیالوں میں گم ہو یونیورسٹی پیچھے رہ گئی ہے،
نور کی پر اعتماد آواز نے عادل کے خیالوں کے سلسلے کو بریک لگا دی تھی،
عادل حیران تھا کل تک منمناتے ہوئے سہمے ہوئے میمنے کی طرح عادل کو مخاطب کرنے والی آج اس قدر اعتماد کے ساتھ بات کیسے کر رہی ہے۔
عادل دل ہی دل میں خوش بھی تھا اور حیران بھی، چلو اچھا ہے جو میں چاہتا تھا آخر اس کو ہوش آہی گیا۔
عادل: کچھ نہیں بس میں رزلٹ کا سوچ رہا تھا،
تمھارے ایگزیمز کیسے ہو رہے ہیں اور لاسٹ کب ہے؟
نور: لاسٹ جمعے کو ہے اور آپکے پیپرز کیسے ہوئے کیا ہوپ ہے آپکو؟
عادل: ہوپس آر ہائی اب دیکھو کیا ہوتا ہے،
کیمپس کے سامنے عادل نے گاڑی روک دی،
بیسٹ آف لک نور۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ہی پیپرز ختم ہوئے اور تم بیمار ہو گئی ہو کتنا کہتی تھی کہ اپنا خیال رکھو مگر تمہیں تو بس پڑھائی کرنی ہے۔
جب بھی کہتی ہوں ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتی ہوں کہ دیتی میں چلی جاوں گی اور نہ جانے کس نالائق ڈاکٹر پاس جاتی ہو جس سے دوائیاں لینے کے باوجود بھی تم ٹھیک نہیں ہو رہی ہو۔
آج آنے دو فون تمھارے بابا کا کہتی ہوں میں ان کو وہی تم کو بھیجیں گے ڈاکٹر کے پاس تب اچھا ہو گا نا؟
ماں کی ڈانٹ سن کر نور نے اپنا منہ چادر میں چھپا لیا اور سونے کی ایکٹنگ کرنے لگی،
بابا کو بتانے والی بات پر فوراً
سے نور چادر سے باہر نکل آئی،
نور: امی نہیں نا پلیز میں چلوں گی بس بابا کو نہ بتانا آپ،
(گھبرا کر اٹھ بیٹھی)۔
نور دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ کیسے سب کو یہ ضروری بات بتائے۔ سب کا ری ایکشن کیسا ہوگاِِ۔
نور: اماں وہ مجھے آپ سے ضروری بات کرنی تھی،
( نور بستر میں بیٹھتے ہوئے بولی،
بے چینی کے عالم میں وہ اپنی منگنی کی انگوٹھی کو گھما رہی تھی)
خدیجہ: بولو بیٹی کیا بات ہے، کیوں فکرمند دیکھائی دے رہی ہو سب ٹھیک تو ہے نا؟
ماں بیٹی ابھی بات کر ہی رہی تھی کہ باہر سے چیخنے چلانے کی آوازیں آنے لگی۔
خدیجہ: یا اللہ خیر یہ تو صبیحہ کی آواز ہے
(وہ باہر کہ جانب دوڑیں)
ان کے پیچھے ہی نور تیز قدموں سے چلتی ہوئی باہر آگئی، تیز قدم اٹھانے سے نور کی سانس پھولنے لگی تھی وہ دیوار کا سہارا لے کر کھڑی ہو گئی۔
خدیجہ: کیا ہوا صبیحہ کیوں شور کر رہی ہو اور یہ صوفے پر ایسے پاؤں اوپر کر کے کیوں بیٹھی ہو؟؟
صبیحہ: امم امی ووو وہ لا لا لال بیگ ہے نیچے
( روتے ہوئے بولیں)
اوہ میرے خدایا کون سی قیامت آگئی ہے لال بیگ کو دیکھ کر اول تو یہ بیچارا لال بیگ تمھیں دیکھ کر سہم گیا ہوگا خدیجہ نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
نور نے بمشکل اپنی ہنسی کو روکا اور واپس کمرے کی جانب چل پڑی پئچھے سے ماں نے روکا بھی کہ کیا بات کرنی تھی بتاتی جاؤ لیکن نور نے اس بات کو مزید راز میں رکھنا ہی مناسب سمجھا اور بنا جواب دیے وہ کمرے میں آکر لیٹ گئی۔ دوسری جانب عادل بھی گھر میں اچانک شور شرابہ سن کر گھر کے اس حصہ میں چلا آیا،
وہ اب یہاں بہت کم آتا جاتا تھا ۔
اس کے اندر آنے سے پہلے ہی یہ چھوٹا سا ڈرامہ ختم ہو چکا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اماں میں لاہور جانا چاہتا ہوں کشمالہ کا گاؤں لاہور کے پاس ہی ہے میری اس سے بات نہیں ہو پا رہی اور مجھے بہت بے چینی سی ہو رہی ہے۔ عادل نے ماں کو چونکا دیا اچانک سے یہ بات کہ کر،زرینہ بیگم ابھی فجر کی نماز پڑھ کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے ہی والی تھیں-
زرینہ بیگم: عادل صبح صبح لوگ خدا کو یاد کرتے ہیں اور تمھیں اس وقت بھی کشمالہ کی فکر ہے بس اسکا ہی غم کھائے جا رہا ہے۔
(زرینہ بیگم کے لہجےسے خفگی کا اظہار نمایاں تھا،)
عادل: اماں نماز ہی پڑھ کر آرہا ہوں میں، اتنا بھی کافر نہیں ہوں میں
( عادل ماں کے پاس زمین پر بیٹھتے ہوئے بولا)
زرینہ بیگم: اللہ نہ کرے بیٹا کافر کیوں ہو تم ایسے ہی بول دیتے ہو جو منہ میں آتا ہے۔
عادل: امی مجھے جانے دیں نا پلیز!
زرینہ بیگم: اجازت تو دے ہی دوں گی مگر تم اس کا گاؤں کیسے دھونڈو گے بیٹا وہ علاقہ بھی تمھاری جان پہچان کا نہیں ہے۔
عادل: امی ان کے گھر جو کام کرنے والی ہے وہ جانتی ہے ان کے گاؤں کدھر ہے اور میں جانتا کہ وہ ملازمہ کہاں رہتی ہے بس آپ اجازت دے دیں جانے کی۔
زرینہ بیگم نے ایک نظر اپنے بیٹے پر ڈالی اور اداس ہو گئی،
کل تک بن سنور کر رہنے والے عادل کے کپڑے دو دن سے تبدیل نہیں ہوئے تھے نہ ہی عادل نے شیو بنائی تھی۔
عادل کو جیسے اپنی کوئی ہوش ہی نہیں رہی تھی وہ کشمالہ کے لیے دیوانگی کی حد تک جا پہنچا تھا،
نہ کھانے پینے کی ہوش نہ ہی اپنا کوئی خیال۔
نہ چاہتے ہوئے بھی زرینہ بیگم نے اجازت دے دی اور یہ شرط بھی رکھی کہ وہاں کشمالہ سے ملنے کے بعد اس کی امی سے میری بات لازمی کروانی ہے۔
عادل کا مرجھایا ہوا چہرہ کھل اٹھا وہ ماں سے لپٹ گیا، عادل کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا بن باپ کے بچے نے زندگی کی ہر مشکل ہر امتحان میں ماں کے سہارے ہی تو کامیابی سے سرخرو ہوا تھا اور آج بھی ماں نے اپنے بیٹے کا ساتھ دیا تھا۔
عادل جلدی سے اٹھا وہ مزید دیر نہیں کرنا چاہتا تھا اس کو کشمالہ کو دیکھنا تھا اس سے ملنا تھا وہ کشمالہ کے بغیر خود کو تنہا محسوس کر رہا تھا۔ کشمالہ نے بھی تو اس پتھر جیسے انسان کو پگھلا دیا تھا،
زیادہ نہ سہی کچھ ہلچل تو مچانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
ہلکی ہلکی ضرب لگتے رہنے سے پتھر پر بھی دراڑ نمودار ہونے لگی تھی۔
عادل نے تازہ شیو کی نہایا اور کپڑے بدلے تب تک زرینہ بیگم نے بیٹے کے لیے اس کی پسند کا ہاف فرائی ایگ ناشتہ میں بنایا اور چائے بنا چینی کے پھیکی جیسے خود عادل کا مزاج اور ایک عدد پراٹھا،
یہ تمام چیزیں عادل کے مزاج کی طرح بچپن سے اب تک ناشتہ میں شامل تھی ان میں کسی قسم بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
عادل: امی ناشتی تیار ہے کیا، عادل نے کمرے سے ہی آواز دی
زرینہ بیگم: عادل کیا میں اب یہ کمرے میں دینے آوں تمھیں۔ زرینہ بیگم کی غصہ سے بھری آواز گونجی۔
ماں کو ستانے کے بعد عادل ہنستا ہوا باہر آگیا ماں کیا کرتی ہیں یہ عنایت اور رعایت تو کبھی مجھے بچپن میں نہیں ملی اب کہاں ملے گی اماں۔
اب زیادہ بنو مت عادل کب نہیں رعایت کی تم سے بیٹا اتنی ہی ظالم ماں ہوتی نا کبھی بھی اپنی بھتیجی کی منگنی نہ ہونے دیتی میں اسی وقت حکم دیتی کے جاو مولوی صاحب کو لے کر آو اور تمھارا نکاح پڑھا دیتی میں۔
زرینہ بیگم نے سنجیدگی سے کہا اور عادل کا ناشتہ میز پر لگانے لگی۔
عادل: امی آپ تو سنجیدہ ہو گئی میں تو مذاق کر رہا تھا اور بہت بہت بہت شکریہ یہ ظلم نہیں ڈھایا آپ نے مجھ پر،
عادل نے ماں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی غرض سے مذاق کیا۔
زرینہ بیگم: عادل بیٹا تم نہیں جانتے کس ہیرے کو کھو دیا ہے بیٹا جی کیا چیز ہے نور نہیں جانتے ہو ابھی تم،
” کبھی کبھی لوگوں کے جانے کے بعد ہی ہمیں ان کی قدر آتی ہے مگر تب تک وقت ہاتھوں سے نکل چکا ہوتا ہے”۔
عادل چپ چاپ ماں کی بات سن رہا تھا پوری بات سن لینے کے بعد وہ بولا،
عادل: امی سب سے بڑی خامی اس میں کانفیڈینس نہیں ہے اور مجھے وہ لڑکیاں پسند ہیں جو گھبراتی نہیں ہیں بلکہ وہ گھر کے باہر بھی اعتماد سے رہتی ہیں۔
زرینہ بیگم: عادل عورت اور مرد میں یہی فرق ہوتا بیٹا،عورت کو عورت ہی رہنے دینا چایئے۔
یہ آج کل کا آئڈیئل ازم ہماری زندگیوں کو مشکل میں ڈال دیتا ہے بیٹا جی۔
عادل: اماں اب آپ ٹپیکل مولوی بن رہی ہیں مذہب اور ماڈرن سو سائٹی میں اب عورت گھر سے باہر ہی رہتی ہے۔
زرینہ بیگم: گھر سے باہر کی پابندی مذہب بھی نہیں لگاتا عادل لیکن عورت کی جو ڈیوٹی ہے وہ اسکو ہی کرنی ہے بیٹا جی،
اب جیسے چاند نے رات کو ہی نکلنا ہے وہ دن میں آئے گا تو کام بگڑ جائے گا نا ایسے ہی جب مرد کے مدار میں عورت کا دخل ہو جاے گا تب بھی مسائل پیدا ہوں گے اور بیٹا مائنڈ نہ کرو تو ایک بات کہنی ہے تم سے۔
عادل غور سے ماں کی باتیں سن رہا تھا وہ جواب دینا چاہتا تھا لیکن رک گیا کے ماں نے کون سی ایسی بات کہنی جس لیے اجازت مانگ رہی ہیں۔
عادل: امی آپ کیوں کہ رہی ایسا میں آپکی بات کا کیوں مائنڈ کروں گاآپ بولیں نا،
عادل نے پلیٹوں کو اکٹھا کیا وہ ماں کا کام میں بھی ہاتھ بٹانا چاہتا تھا۔
زرینہ بیگم: عادل مجھے لگتا ہے تمھارا نبھا نہیں ہو سکے گا کشمالہ سے وہ بہت اونچے خوابوں والی لڑکی ہے اور تمھارا مزاج ایسی لڑکی کو پیار تو کر سکتا مگر اس کے ساتھ تمام عمر گزارنا بہت الگ بات ہے اس کے لیے تمھیں اپنا رویہ نرم کرنا ہو گا اور دوسروں کی رائے کا بھی احترام کرنا ہوگا میرا بچہ۔
عادل: امی اس کے لیے کچھ بھی کر جاؤں گا آخر چوہدری جہان کا بیٹا ہوں ماں،
( عادل کی آنکھوں میں شرارت تھی)
زرینہ بیگم: چل ہٹ شرارتی کہیں کا ،
( زرینہ بیگم بھی ہنسے بنا نہیں رہ سکی)
ماں کو ہنستا مسکراتا چھوڑ کر اور کامیابی کی دعا لے کر عادل لاہور کی جانب روانا ہو گیا۔
—————————————————-