فرحہ بی حیدر کا فون آیا تھا کچھ زیادہ بھتری نہیں ڈاکٹرس کہہ رہے ہیں دعا کرو
دادو جائے نماز پر بیٹھی دعائیں کر رہی تھی –
ویسے آپ کو ایک بات بتائوں آرزو کی یے حالت اس کے باپ کی وجہ سے ہوئی ہے –
کیا مطلب ہے تمہارا –
مطلب یے کے کل آرزو ان کے کمرے میں گئی تھی چائے لیکر اور جب وہ کمرے سے باھر آئی تو رو رہی تھی اور بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی گئی پتا نہیں ایسا کیا کہا تھا عثمان بھائی –
عثمان کہاں ہے -دادو نے غصے سے پوچھا کیوں کی اب بہت ہوگیا تھا آرزو نے اپنے ناکردہ گناہ کی بہت زیادہ سزائیں سہہ لیں تھی اب اور نہیں-
وہ ابھی پانچ منٹ پہلے آئے تھے اپنے کمرے میں ہوں گے
ثمینہ بیگم نے دادو کو بتایا-
دادو جائے نماز سمیٹ کر ان کے کمرے میں چلی گئی –
مبارک ہو عثمان شاہ مبارک ہو
دادو نے کمرے میں داخل ہوتے کہا عثمان کوئی کتاب پڑھ رہا تھا حیرانی سے اپنی ماں کو دیکھنے لگا-
کس بات کی مبارک امی جان –
تمہاری زندگی کی سب سے بڑی مصیبت کے جانے کی –
آپ کیا بول رہی ہیں مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا-
آرزو زندگی اور موت کے بیچ میں کھڑی ہے تمہاری سب سے بڑی دشمن کو اس کے کیئے کی سزا ملنے والی ہے تمہاری بیوی کو قتل کرنے والی کو سزا ملنے والی ہے خوش ہو نا تم جائو جاکر مٹھائیاں بٹوائو یہاں کیا کر رہے جائو –
دادو جزباتی لہجے میں بولی –
اور عثمان بس خاموش رہے
کب تک اس معصوم کو سزا دیتے رہو گے بیٹی ہے وہ تمہاری
خون ہے تمہارا اتنی نفرت وہ ابھی اپنی بیٹی سے عثمان جس بیوی کے مرنے کا سوگ منا رہے ہو نا اس نے اپنی جان اسے بچانے کے لیئے دی تھی وہ محبت کرتی تھی اپنی بیٹی سے اس پر کھرونچ بھی نہیں آنے دیتے تھی وہ ایک زمیداری چھوڑ کر گئی تھی تمہارے لیئے اپنی جان سے پیاری بیٹی تمہارے حوالے کر گئی تھی تم نے کیا کیا کبھی اس سے سیدھے منہ بات تک نا کی خیال تو بہت دور کی بات ہے تم تو یے بھی بھول گئے کے تمہاری کوئی بیٹی بھی ہے کیا منہ دکھائو گے اپنی محبوب بیوی کو جس کے غم میں پڑے رہتے ہو کبھی سوچا ہے تم نے جب وہ پوچھے گی میری بیٹی کا خیال رکھا کس منہ سے جواب دوگے ہاں مجھے تو تمہیں اپنا بیٹا کہتے ہوئے بھی شرم آ رہی ہے
روز نا جانے کتنے لوگ مرتے ہیں کیا ان کی موت کی وجہ بھی اپنے ہوتے ہیں نہیں نا ہم اتنا ہی جیتے ہیں جتنا لکھوا کے آتے ہیں زرمین اتنی ہی زندگی لکھوا کر آئی تھی اگر اس دن وہ آرزو کو بچانے سے نا مرتی تو کسی اور وجہ سے مر جاتی موت کا وقت مقرر ہے ایک سیکنڈ نا آگے نا پیچھے اسے جب آنا ہوتا ہے آ جاتی ہے تم اتنی سی بات کیوں نہیں سمجھ پائے عثمان
اور ہاں ساری زندگی میری بچی کو اس کی ماں کا قاتل کہتے آئے ہو نا تو ایک بات یاد رکھنا اگر میری آرزو کو کچھ ہوا نا تو اس کے زمیدار تم ہوگے اس کے قاتل تم ہوگے
بولتے بولتے ان کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہو گیا تھا وہ ایک نفرت بھری نظر خاموش کھڑے عثمان پر ڈال کر چلی گئی –
اور عثمان صاحب وہیں زمین پر بیٹھ گئے اج ان کی ماں نے ان کی آنکھیں کھول دی تھی آج انہیں پتا چلا انہوں اپنی زندگی میں سب کچھ کھو دیا ہے
اگر میں زرمین کی جگہ ہوتا تو کیا میں اپنی معصوم بچی کو نہیں بچاتا اور کیا میرے مرنے کے بعد زرمین آرزو کے ساتھ ویسا کرتی جیسا میں نے کیا نہیں وہ ایسا نہیں کرتی وہ سمجھدار تھی پھر میں نے ایسا کیوں کیا کیوں اپنی ہی بیٹی سے نفرت کرتا رہا وہ بھی بلاوجہ مجھے کبھی اس کی معصوم آنکھوں میں اذیت نہیں دکھائی دی میں ایسا کیوں ہو گیا تھا باپ تو میرے جیسے نہیں ہوتے
وہ خد سے ہی سوال کر رہے تھے آج انہیں پتا چلا انہوں اپنی بیوی ہی نہیں بلکے بیٹی بھی کھو دی تھی آج وہ اپنے ہی گلٹ میں ڈوب رہے تھے کاش وقت پیچھے چلا جاتا اور سب کچھ ٹھیک ہو جاتا
مجھے معاف کردو زرمین میں اپنی ہی بیٹی کی خوشیوں کا قاتل بن گیا ایک تم تھی جس نے آرزو کو بچانے کے لیئے موت کو گلے لگا دیا اور ایک میں ہوں جس نے اسے موت کی دھلیز میں لا کر کھڑا کردیا کتنا فرق ہے نا ہم دونوں میں اگر میری بچی کو کچھ ہوا تو میں مر جائوں گا میں اس کا قاتل نہیں بننا چاہتا
وہ رو رہے تھے پر ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کے وہ آرزو کے پاس جاتے وہ شرمندہ تھے اپنے جھوٹی نفرت کو ثابت کرنے کے لیئے وہ بہت گر گئے تھے اب ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کے وہ کسی کا سامنہ کر سکیں آج وہ جان گئے تھے کے وہ غلط تھے ہمیشہ ست غلط تھے وہ ایک ظالم باپ تھے جو اپنی ہی بیٹی کے موت کے زمیدار بننے والے تھے
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤
آرزو کیسی ہے کیا میں اس مل سکتا ہوں صرف پانچ منٹ کے لیئے پلیز –
عون نے ایک نرس سے کہا-
دیکہیں سر آپ ان سے نہیں مل سکتے انہیں ہوش نہیں آیا ابھی تک
صرف پانچ منٹ کے لیئے میں زیادہ ٹائیم نہیں لوں گا –
عون اس بار تھوڑے غصے سے بولا-
سر آپ سمجھ نہیں رہے
مجھے نہیں سمجھنا مجھے بس اسے دیکھنا ہے
عون نے اس کی بات کاٹ کر کہا-
ٹھیک ہے سر آپ جائیں مریض کو زیادہ ڈسٹرب مت کیجیئے گا ”
نرس کو نا چاہتے ہوئے بھی اس کی بات ماننی پڑی کیوں کی وہ نہیں ماننے والا تھا –
عون آہستہ سے اندر داخل ہوا آرزو کا وجود مشینوں میں جکڑا ہوا تھا وہ بلکل خاموش پڑی تھی دنیا جہان سے بیگانی عون تو ہمیشہ سے اسے خاموش دیکھنا چاہتا تھا تو پھر اب اسے خاموش دیکھ کر مجھے تکلیف کیوں ہو رہی ہے –
عون اس کے بیڈ کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اس کے دوسرے ہاتھ میں ڈرپ لگی ہوئی تھی –
آرزو تم نے کہا تھا نا ایک دن آئے گا جب تم خاموش ہو جائو گی اور میں تمہاری آواز سننے کے لیئے تڑپو گا
آرزو وہ دن آ گیا ہے میں تڑپ رہا ہوں تمہاری آواز سننے کے لیئے مجھے تمہاری خاموشی توڑ رہی ہے پلیز کچھ تو بولو پلیز اٹھ جائو نا آرزو میں جانتا ہوں میں بہت برا ہوں میں نے کبھی تمہاری قدر نہیں کی لیکن تم تو مجھ سے محبت کرتی ہو نا مجھے اتنی بڑی سزا مت دو پلیز ٹھیک ہو جائو میری آرزو بن جائو جو ہر وقت بولتی رہتی تھی
عون نم لہجے میں بول رہا تھا
جب وہ بولتی تھی تو وہ خاموش رہتا تھا یے سوچے بغیر کے اس پر کیا بیتتی ہوگی اس کی خاموشی اسے کتنی تکلیف پھچاتی ہوگی
آج عون بول رہا تھا اور وہ خاموش تھی آج اسے اس کی خاموشی اذیت دے رہی تھی آج وہ آرزو کا دکھ سمجھ پایا تھا وہ سمجھ گیا تھا کے کچھ لوگ ہماری زندگی ہوتے ہیں اور ہم ان کی قدر نہیں کر پاتے پھر جب وہ ہم سے دور جاتے ہیں تب پتا چلتا ہے کے ان کا مقام کیا ہوتا ہے ہماری زندگی میں ان کے بنا تو سانس لینا بھی مشکل ہوتا ہے ایسے لوگ انمول ہوتے ہیں اگر ان کی قدر نہیں کی تو وہ بہت دور چلے جاتے ہیں پھر سوائے پچھتانے کے کچھ نہیں بچتا –
آج عون شاہ یے باتیں سمجھ گیا تھا-
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤
آرزو کے سامنے اندھیرا تھا اسے نہیں پتا تھا وہ کہاں ہے اس اندھیرے میں ہلکی سی روشنی نطر آئی اور اس روشنی میں ایک سایہ نطر آیا پھر ایک انسان وہ اور کوئی نہیں آرزو کی ماں تھی –
امی آپ آگئی آپ مجھے لینے آئی ہیں نا آرزو خوشی سے بولی –
ہا میری جان میں تمہیں لینے آئی ہوں تم چلو گی نا میرے ساتھ –
جی امی میں آپ کے ساتھ چلوں گی یہاں کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا مجھے آپ کے ساتھ چلنا ہے –
آئو میرا ہاتھ پکڑو بہت سہہ لیا تم نے اب تمہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا انہوں نے اپنا ہاتھ آگے کیا جیسے آرزو نے جلدی سے پکڑ لیا –
آرزو ان کے ساتھ جا رہی تھی تب کسی نے اس کا دوسرا ہاتھ پکڑ لیا اور وہ رک گئی
آرزو تم نہیں جائو گی میں تمہیں نہیں جانے دوں گا
عون مجھے آپ کے ساتھ نہیں رہنا میں اپنی امی کے ساتھ جائوں گی آرزو نے اپنا ہاتھ چھڑایا ہاتھ چھوٹنے ہی والا تھا کے عون نے اسے مضبوطی سے پکڑ لیا میں نے کہا نا تم نہیں جائو گی اور ویسے بھی ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو میں چاہتا ہوں -عون نے ضدی لہجے میں کہا
آرزو نے اپنی ماں کی طرف دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا
امی امی کہاں گئی آپ آرزو انہیں بلا رہی تھی پر وہ نہیں تھی اور پھر سے اندھیرا چھانے لگا “”””””””””””””””
آرزو کیا ہوا نرس ڈاکٹر کو بلائو جلدی- عون نے ہڑبڑاتے ہوئے کہا آرزو گھرے گھرے سانس لے رہی تھی نرس جلدی سے ڈاکٹر کو لے آئی آپ باھر جائیں پلیز ڈاکٹر نے عون کو جانے کے لیئے کہا اور وہ مردہ قدموں سے باھر نکلا اس کی جان آرزو میں اٹکی ہوئی تھی –
حیدر باھر ہی کھڑا تھا مشتاق صاحب بھی ان کے ہمراہ تھے عون بھی ایک کونے میں کھڑا ہو گیا –
کچھ دیر بعد ڈاکٹر باھر آیا حیدر اور مشتاق صاحب جلدی سے ان کی طرف گئے عون اپنی جگہ میں ساکت کھڑا تھا
ڈاکٹر صاحب وہ آرزو کیسی ہے
شی از فائن نائو ان کی طبیعت اب پہلے سے بہتر ہے بہت جلد انہیں ہوش آ جائے گا ایک دو دن میں آپ لوگ اسے گھر لے جاسکتے ہیں
ڈاکٹر نے انہیں خوشخبری سنائی تھی انہوں بے اختیار خدا کا شکر ادا کیا –
عون کو لگا کسی نے اس کو جینے کی وجہ دے دی ہو وہ جلدی سے مسجد گیا شکرانے کے نوافل پڑھنے کے لیئے اللہ نے اسے اس کی آرزو لوٹا دی تھی وہ جتنا شکر کرتا کم تھا-
مشتاق صاحب نے گھر کال کر بتا دیا تھا ان لوگوں نے بھی اللہ کا شکر ادا کیا ،،،،،
آزرو کو ہوش آ گیا تھا دادو اور باقی سب اس کے پاس تھے
عثمان صاحب بھی آئے تھے اب وہ مزید اپنی بیٹی کو دکھ نہیں دینا چاہتے تھے باقی سب لوگ اس سے مل کر چلے گئے تھے
عثمان صاحب کمرے میں داخل ہوئے تو وہ سو رہی تھی وہ آہستہ سے اس کے پاس آئے اور اسے دیکھنے لگے وہ تو ان کی لاڈلی بیٹی تھی انہوں کئی بار زرمین کو اس کی وجہ سے ڈانٹا تھا تم نے اسے یے کیوں کھلایا یے ایسے کپڑے کیوں پہنائے وہ ہر چھوٹی چھوٹی بات پر زرمین کو ڈانٹتے تھے اور پھر جب وہ ان کی زندگی سے چلی گئی تو انہیں پتا چلا کے وہ ان کے لیئے کیا تھی وہ ان کے ساتھ بھی انصاف نہیں کر پائے تھے انہوں آرزو کے ساتھ بھی وہی کیا آج جب انہین لگا وہ بھی انہیں چھوڑ کر چلی جائے گی اور پھر پچھتانے کے علاوہ کچھ نہیں بچے گا اس بار انہیں اپنی غلطی کا احساس وقت رہتے ہو گیا تھا
انہوں نے جھک کر آرزو کی پیشانی چوم لی اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگے آرزو نے کسی احساس کے تحت آنکہیں کھولیں تو اس کے بابا اس کے پاس تھے ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ محبت سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے آرزو کو لگا وہ خواب دیکھ رہی ہے
آرزو بیٹا طبیعت کیسی ہے اب انہوں پیار سے پوچھا
بابا آپ سچ میں یہاں ہیں
آرزو نے حیران کن لہجے میں پوچھا اسے اب بھی لگ رہا تھا وہ خواب دیکھ رہی ہے-
آرزو بیٹا اپنے بابا کو معاف کردو میں نے تمہارے ساتھ بہت غلط کیا کبھی تمہیں ایک باپ کا پیار نا دے سکا –
انہوں نے ندامت سے کہا –
بابا آپ ایسا کیوں بول رہے ہیں میں کون ہوتی ہوں آپ کو معاف کرنے والی مجھے اپنے بابا کی معافی نہیں ان کی محبت چاہیئے جس کے لیئے میں بچپن سے تڑپی ہوں
آرزو نے نم لہجے میں کہا
بہت دکھ دیئے ہیں نا میں نے تمہیں بہت برا باپ ہوں میں –
نہیں بابا آپ بہت اچھے بابا ہیں آرزو کے بابا کبھی برے نہیں ہو سکتے
آرزو نے روتے ہوئے کہا-
بس اب اور نہیں رونا تم نے جتنا رونا تھا رو لیا اب تمہارا یے باپ تمہاری آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں آنے دے گا
عثمان صاحب نے اس کے آنسو پونچتے ہوئے محبت سے کہا –
تم آرام کرو میں چلتا ہوں
انہوں نے اٹھتے ہوئے کہا
بابا آپ پھر سے پہلے جیسے نہیں ہو جائیں گے نا آرزو نے ڈرتے ہوئے پوچھا
کبھی نہیں
انہوں نے یقین سے کہا آرزو مسکرا دی-
سب اسے دیکھنے آئے تھے پر وہ جیسے دیکھنا چاہتی تھی وہ پتا نہیں کہاں تھا اب تو بابا بھی آ گئے عون آپ کہاں ہیں
آرزو نے دل میں سوچا
تھوڑی دیر بعد عون آیا آرزو نے اسے دیکھا تو مسکرائی
کیسی ہو عون نے آتے ہی پوچھا-
ٹھیک ہوں
عون آپ کو پتا ہے
آرزو بول رہی تھی کے
عون نے لمبی سانس لی اور مسکرایا
کیا ہوا آپ مسکرا کیوں رہے ہیں
آرزو تمہیں پتا ہے دو دن سے میرے کان ترس گئے تھے یے الفاظ سننے کے لیئے مجھے لگا میں نے تمہیں کھو دیا آرزو کبھی اپنے عون کو چھوڑ کے مت جانا ورنا مر جائوں گا
عون نے جزبات سے پر لہجے میں کہا –
کیا یے سچ میں عون ہے آرزو کو یقین نہیں آ رہا تھا پہلے بابا پھر عون جن کی محبت کے لیئے وہ ساری زندگی تڑپتی آئی تھی وہ اسے ایسے مل جائے گی اس نے کبھی نہیں سوچا تھا بیشک اللہ اپنے بندوں کے ساتھ کبھی نا انصافی نہیں کرتا اس نے صبر کیا تھا اور اللہ نے اسے اس کے صبر کا پھل دے دیا تھا اس نے اللہ کا شکر ادا کیا –
کیا ہوا آرزو چپ کیوں ہو گئی پلیز کچھ بولو مجھ سے تمہاری خاموشی برداشت نہیں ہو رہی
آرزو تو حیرانی کے سمندر میں غوطے لگا رہی تھی –
عون آپ ٹھیک تو ہیں نا آپ مجھے خد بولنے کے لیئے کہہ رہے ہیں مجھے یقین نہیں آ رہا
آرزو نے شاکی انداز میں کہا
ہا میں ہی ہوں اور میں ہی تمہیں بولنے کے لیئے بول رہا ہوں کیوں تمہاری خاموشی مجھے سانس نہیں لینے دیتی –
بس بس عون کہیں میں حیرانی سیے ہی نا مر جائوں –
آرزو بکواز نہیں کتنی بار کہا ہے فضول باتیں مت کیا کرو –
پر ابھی تو آپ بول رہے تھے کے باتیں کرو اور آپکو تو پتا ہی ہے میری باتیں فضول ہوتی ہیں –
اچھا چھوڑو تم کیا بتانے والی تھی مجھے وہ بتائو –
کچھ نہیں بتانے والی تھی –
آرزو نے منہ بنا کے کہا-
اچھا میں تمہیں ایک بات بتائوں
آپ مجھے کوئی بات بتائیں گے اف کہیں سچی میں تو میں خواب نہیں دیکھ رہی –
تیری قدر جانی تیرے جانے کے بعد
پر اللہ کا شکر ہے کے اس نے تمہیں مجھے واپس کر دیا اگر تمہیں کچھ ہو جاتا نا تو میں زندہ نہیں رہ پاتا-
تمہیں پتا ہے مجھے تم سے اتنی محبت ہے …
کہ جیسے۔۔۔ سیپ کو بارش کی بوندوں سے۔۔
کہ جیسے۔۔۔ چاند کو سورج کی کرنوں سے۔۔
کہ جیسے۔۔۔ تتلیوں کو پھول کی رنگت لبھاتی ہے۔۔
کہ جیسے۔۔۔ جگنوؤں کو رات آنچل میں سجاتی ہے۔۔
کہ جیسے۔۔۔ موج ساحل کیلئے پل پل ترستی ہے۔۔
کہ جیسے۔۔۔ پھول کی خوشبو ہوا کے دل میں بستی ہے۔۔
کہ جیسے۔۔۔ خشک صحرا ابر کو دل سے بلاتا ہے۔۔
کہ جیسے۔۔۔ بھٹکا راہی منزلوں کی اور جاتا ہے۔۔
کہ جیسے۔۔۔ رات کی رانی کو راتیں شاد کرتی ہیں۔۔
کہ جیسے۔۔۔ شبنمی بوسوں کو کلیاں یاد کرتی ہیں۔۔
کہ جیسے۔۔۔ خواب اور آنکھوں کا رشتہ ہے اٹل ایسے۔۔
کہ جیسے۔۔۔ جھیل کی بانہوں میں کِھلتا ہے کنول ایسے۔۔
کہ۔۔۔ جتنے لفظ لکھے ہیں محبت کی کتابوں میں۔۔
کہ۔۔۔ جتنے رنگ ہوتے ہیں بہاروں میں ،گلابوں میں۔۔
کہ۔۔۔ نیلے آسماں پر جس قدر روشن ستارے ہیں۔۔
کہ۔۔۔ جتنے اس زمیں پر چاہتوں کے استعارے ہیں۔۔
کہ جیسے۔۔۔ موت کے بستر پہ کچھ پل سانس کی چاہت۔۔
کہ جیسے۔۔۔ لمسِ عیسٰی سے ملے بیمار کو راحت۔۔
کہ جیسے۔۔۔ غم کے ماروں سے ہو غمخوار کا رشتہ۔۔
کہ جیسے۔۔۔ دھوپ کے راہی سے سایۂ دیوار کا رشتہ۔۔
کہ جیسے۔۔۔ بانسری کی لے پہ سانسیں گیت بُنتی ہیں۔۔
کہ جیسے۔۔۔ وصل رُت میں دھڑکنیں سنگیت بُنتی ہیں۔۔
کہ جیسے۔۔۔ بلبلیں پھولوں کی رُت میں گنگناتی ہیں۔۔
کہ جیسے۔۔۔ چودھویں کے چاند کو لہریں بلاتی ہیں۔۔سبھی کچھ کہہ دیا پھر بھی ہے دل میں ان کہی باقی۔۔رہی اظہار کے لفظوں کی یوں ہی تشنگی باقی۔۔
محبت کے سمندر کے کنارے ہو نہیں سکتے۔۔
میرے جذبوں کے قابل استعارے ہو نہی سکتے ۔۔۔
سچچچچی ،،،،
آرزو نے زور سے کہا –
مچچچچی ،
عون نے بھی اسی کے انداز سے کہا پھر دونوں مسکرا دیئے –
زندگی میں کچھ حادثے زندگی کو خوبصورت بنا دیتے ہیں آرزو کی زندگی سے بھی سب دکھ ختم ہو گئے تھے اس نے صبر کیا تھا اور اللہ کو صبر کرنے والے بہت پسند ہوتے ہیں –
آگے کا سفر بہت خوبصورت تھا —–
ختم شدہ
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...