سکندرِ اعظم تاریخ کی ایک سحر انگیز غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال شخصیت کا مالک تھا۔ یہ وہی شخص تھا جس نے زمیں کا زیادہ تر حصہ فتح کر رکھا تھا۔ ایک عظیم فاتح جنگجو ہونے کے ساتھ ساتھ سکندر ایک دانش ور بھی تھا، ’ارسطو‘ کا شاگِرد تھا، ’ہومر‘ کی شاعری سے بصیرت حاصل کرتا تھا۔ اور صاحبِ بصیرت لوگوں کی محفل میں بیٹھنے کا شوق رکھتا تھا۔ ایک بار سکندرِ اعظم اپنے دور کے ایک بے نیاز مجذوب فلسفی دیو جانس کلبی سے ملنے آیا تو سردی عروج پر تھی کلبی سورج کی حدت اور کِرنوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ سکندر حاضر ہوا اور احتراماً کھڑا رہا۔ کلبی سے کہنے لگا کہ
’میں نے دنیا فتح کی ہے کیا میں آپ کے کسی کام آ سکتا ہوں ‘
تو اس بے نفس مجذوب نے اُس فاتح سے بے تکلفی سے صرف اتنا کہا کہ:
’آپ جہاں پر کھڑے ہیں۔ مہربانی فرما کر یہاں سے ذرا سا ایک طرف ہو جایئے۔ کیوں کہ جو دھوپ مجھ پر پڑ رہی تھی آپ نے اسے روک رکھا ہے۔ ‘
اور ایک انتہائی اہم سبق دیا کہ:
’اس دنیا کو فتح کرنے سے بڑا کام خود کو فتح کرنا ہے۔ ‘
کون سی ایسی آنکھ ہے جو کامیابی کا خواب نہیں دیکھتی، کون سا ایسا دل ہے جس میں کوئی خواہش نہ ہو، کون سا ایسا شخص ہے جو سر اٹھا کے جینا نہ چاہتا ہو۔ ہم سب کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی روز ہمارے دروازے پر دستک ہو، ہم دروازہ کھولیں تو ہمیں ایک پیغام ملے جس میں کامیابی کی نوید ہو۔ ہم سب کامیاب ہونا چاہتے ہیں لیکن نہ جانے کیوں کبھی ہم خود کو پہچاننا نہیں چاہتے۔ ہم دوسروں کو کامیاب دیکھ کر ان پر فِقرے تو کَستے ہیں، اُن پر الزامات تو لگاتے ہیں، خود کو اُن سے بہتر قرار دینے کے لئے سو بہانا تو تلاش کرتے ہیں لیکن خود کو بہتر بنانے کے لئے اپنا تزکیہ نفس نہیں کرتے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم طرح طرح کے خوف اور بے وقعت عقائد کو اپنے دل میں پنپنے اور اپنے دماغ پر حاوی ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ مثلاً
’اگر اس کو فلاں شخص کا سہارا نہ ملتا تو وہ کبھی بھی اس اچھی پوزیشن پر نہ ہوتا۔ ‘
’اس نے کوئی بڑا ہاتھ ہی مارا ہو گا جو آج اس کے پاس بڑی گاڑی خریدنے کے پیسے آ گیا۔ ‘
’کل تک اسے بات کرنے کا طریقہ بھی نہیں آتا تھا اور آج یہ ہمیں سکھائے گا کہ کیسے بولنا ہے۔ ‘
وغیرہ وغیرہ۔
لیکن اس کے نتیجے میں کب ہمارا ذہن غلط سمت میں گامزن ہو جاتا ہے ہمیں یہ معلوم ہی نہیں ہو پاتا۔ ہم خوف کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنی صلاحیتوں پر شک کرنے لگ جاتے ہیں۔ ہم جو بھی کام کرنا چاہتے ہیں ناکامی کا خوف ہمیں وہ کام کرنے سے روکتا ہے۔ جس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جیسا کہ سیانے کہتے ہیں:
’جس شخص میں ناکامی کا خوف کامیابی کی چاہت سے بڑھ جاتا ہے۔ وہ کبھی کامیاب نہیں ہو پاتا۔ ‘
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم کو کامیاب ہونا ہے۔ تو سب سے پہلے اپنے اندر سے ناکامی کے اس خوف کو نکال باہر کرنا ہو گا۔ کیوں کہ خوف آپ کی صلاحیت کو غفلت کے پَردوں میں مخفی کر دیتا ہے۔ جس سے آپ کی کار کردگی محدود ہو جاتی ہے۔ اور محدود کار کردگی سے لا محدود نتائج حاصل کرنا نا ممکن ہے۔ اس بات کو سمجھانے کے لئے میں آپ کو امریکی ماہرینِ نفسیات کے ایک ٹڈے (Grasshopper) پر کئے گئے ایک تجربے کی مثال دیتا ہوں تا کہ آپ کو اندازہ ہو جائے کہ خوف کس طرح سے کسی کی صلاحیتوں کو دباتا ہے۔
انہوں نے ایک ایسے ٹِڈے کو لیا کہ جو پانچ میٹر لمبی چھلانگ لگا سکتا تھا اور اسے ایک ایسے ڈبے میں بند کر دیا جو کہ چار میٹر لمبا تھا۔ اسی ڈبے میں اسے خوراک دی جاتی، لیکن اسے باہر نہ آنے دیا جاتا۔ تقریباً ایک ماہ بعد جب اسے باہر نکالا گیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ ٹڈا چار میٹر سے زیادہ لمبی چھلانگ لگانے سے محروم تھا پھر اسی طرح اسے تین میٹر پھر دو میٹر اور آخر میں اسے اسی کے حجم کے مطابق ایک ڈبی میں بند کر دیا گیا اور جب آ کر میں اسے باہر نکالا گیا تو اب وہ اپنے جگہ پر پڑے پڑے صرف تھرتھراتا تھا۔ وہ اچھلنا تو کجا چلنا بھی بھول چکا تھا۔
اسی طرح کی مِلتی جُلتی ایک مثال بابا اشفاق احمد صاحب کے ایک پروگرام میں سنی۔ وہ بھی آپ کو بتا دیتے ہیں اور پھر بات کریں گے کہ خوف کی کتنی اقسام ہیں، اس ناکامی کے خوف سے جان کیسے چھڑائی جائے اور اس پر قابو کیسے پایا جائے۔
اشفاق صاحب اس محفل میں بیٹھے لوگوں سے ایک سوال کرتے ہیں کہ ’ وہ کون سا جانور ہے کہ جس کو چڑیا گھر میں بچپن میں لایا جاتا ہے اور اس کی وجہ کیا ہوتی ہے؟ ‘
سب نے اپنی اپنی سوچ اور معلومات کے مطابق جوابات دیے، کسی نے کہا سانپ، کسی نے شیر اور کسی نے زرافہ کی نشان دہی کی۔ پھر اشفاق احمدؒ صاحب جواب دیتے ہیں کہ وہ جانور ہاتھی ہے اور جب وہ چھوٹا ہوتا ہے تو اس کے پاوں میں لوہے کی ایک زنجیر ڈال دی جاتی ہے۔ شروع کے چند دنوں میں وہ بچہ زنجیر کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ناکام ہو جاتا ہے۔ اور اس زنجیر کا اس کے دماغ میں ایک ایسا تصور بیٹھ جاتا ہے کہ پھر جب وہ اس سے کئی گناہ بڑی زنجیر کو توڑنے کے بھی قابل ہوتا ہے تو بھی وہ کبھی کوشش نہیں کرتا۔ اور آخر میں کہتے ہیں کہ ایسی ہی کئی زنجیریں بچپن سے ہمارے ذہن اور سوچ کے گِرد باندھ دی جاتی ہیں کہ ہم کبھی کامیابی کے بارے میں صحیح طریقے سے سوچ بھی نہیں پاتے۔
دنیا میں ہونے والی خوف کے موضوع پر ریسرچ سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ خوف کی بنیادی تین اقسام ہیں۔ ایک وہ جو ہماری جبلت میں رکھ دیا گیا ہے۔ جب بھی کوئی انہونی ہوتی ہے۔ کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے جو اچانک واقع ہوا ہو تو ہم خوف کا شکار ہو جاتے ہیں ڈر جاتے ہیں۔ اس قسم میں کسی بلند آواز یعنی کسی دھماکہ ہونے پر آنے والی بلند آواز کا خوف، دوسرا بلندی سے گِرنے کا خوف اور سانس کے بند ہونے کا خوف وغیرہ شامل ہیں یہ وہ خوف ہے جو جبلی طور پر ہمارے اندر موجود ہوتا ہے۔ یہ خوف وقتی ہوتا ہوتا ہے۔
خوف کی دوسری قسم وہ ہے جو بچپن سے لے کر اب تک ہمارے ماں باپ، بہن بھائی، دوست احباب یعنی ہمارے اردگرد کے لوگ ہمارے ذہنوں میں ڈالتے ہیں۔ یہ خوف ہمارے ذہن کو مختلف عقائد بنانے اور ان پر یقین کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
تیسری قسم کا خوف ہمارے ماضی کے تلخ تجربات کے باعث پیدا ہوتا ہے۔ مطلب اگر ماضی میں ایک وَن ٹو فائیو موٹر سائیکل سوار نے خدانخواستہ خدانخواستہ لوٹا تھا۔ تو اب جب بھی آپ کو وَن ٹُو فائیو موٹر سائیکل کی آواز سنائی دے گی تو آپ کے ذہن میں وہی پرانا واقعہ آپ کو محتاط ہونے پر مجبور کر دے گا، چاہے ایسا کچھ ہو یا نہ ہو۔
مندرجہ بالا میں دوسری اور تیسری قسم کے خوف میں موت کا خوف، لوگ کیا کہیں گے، غربت کا خوف، غلطی کا خوف اور مار کا خوف سرِ فہرست ہیں۔ اِن اقسام کا خوف ہمیشگی اختیار نہیں کرتا اس کو بدلا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کو بدلنے کے لئے سب سے اہم اور ضروری چیزوں میں سب سے اہم یہ ہے کہ ہمارے دل میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر کامل یقین خوفِ خدا کا ہونا بہت ضروری ہے۔
موت کا خوف
آج کل بہت سے لوگوں کو مارنے کی دھمکی دے کر جان بخشی کے بدلے میں ان سے بہت سے ناجائز کام کروائے جاتے ہیں۔ اس خوف سے نجات پانے کے لئے یہ سمجھنا ہو گا کہ موت ایک ایسی سچائی ہے کہ جس سے کسی کو فرار حاصل نہیں۔ اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ ’ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ ‘ تو جب ہم اس آیتِ قرآنی پر یقین کر لیتے ہیں تو ہمارا موت کے بارے میں عقیدہ یہ ہونا چاہئے کہ جیسے پیدا ہونا ہمارے بس میں نہیں تھا اسی طرح مرنا بھی ہمارے بس میں نہیں ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری زندگی اور موت کا فیصلہ کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ خدائے واحدو یکتا عز و جل کے پاس ہے۔ وہ جب چاہے گا، جسے چاہے گا، جو چاہے گا کرے گا۔ جب آپ یہ عقیدہ اپنا لیتے ہیں اوراس کو تہہ دِل سے قبول کرتے ہیں تو آپ آزادی سے فیصلہ کرنے کے قابِل ہو جاتے ہیں۔
لوگ کیا کہیں گے
ایک وقت تھا کہ جب بھی کسی کو کوئی کام کرنا ہوتا تو وہ یہ دیکھتا تھا کہ جو کام میں کرنے جا رہا ہوں کیا یہ رضائے الٰہی کے خلاف تو نہیں؟ کیا یہ انسانیت کے تقاضوں کی مخالفت تو نہیں کرتا؟ کیا یہ میرے لئے نقصان دہ تو نہیں؟ کیا اس سے میرے گھر والوں، دوستوں اور اردگرد کے لوگوں کو فائدہ ہو گا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن وقت کے ساتھ جیسے جیسے معاشرے کے اندر بگاڑ پیدا ہوئے اِن سوالات کی ہیئت میں بھی تبدیلی آئی اور آج ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کوئی بھی کام کرنا ہو تو ہم یا تو اپنے ذاتی مفاد کی فِکر کرتے ہیں یا لوگوں کی سوچ کی، اس میں رضائے الٰہی کا عنصر بھی شامل کرنا ہمیں گوارا نہیں ہوتا۔
’لوگ کیا کہیں گے؟ ‘دنیا کا سب سے بڑا خوف اور روگ بن چکا ہے۔ یہ ایک ایسا جملہ ہے جس نے لاکھوں خواب چکنا چور کر دیے۔ اور خاص طور پر اِس کا اثر نوجوان نسل پر ہوا ہے۔ آج نوجوانوں کا یہ یقین بن چکا ہے کہ جمہور (لوگوں کی بڑی تعداد) جو کرتا ہے وہ ہی درست ہے۔ اور اسی ایک سوچ نے ہماری پوری نسل کا بیڑا غرق کر رکھا ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اس بُری اور فضول سوچ کا حصہ نہ بنیں اور اس خوف سے نجات پا سکیں تو ہمیں واپس انہیں سوالات کو اپنی زندگی میں لانا اور نافذ کرنا ہو گا کہ جن سے دوری نے ہمارا یہ حال کیا ہے۔ اگر جو کام آپ کرنا چاہتے ہیں اس میں کسی کو ارادتاً نقصان نہیں ہو رہا اور وہ کام رضائے الٰہی کے عین مطابق ہے تو آپ بسم اللہ کیجئے۔ خدا آپ کی مدد فرمائے گا۔ لوگ کیا کہیں گے یہ لوگوں کو سوچنے دیجئے۔
غربت کا خوف
باقی تمام اقسام کے خوف کی طرح غربت کا خوف بھی بے بنیاد ہے۔ لیکن اس خوف کا شکار امیر اور غریب دونوں ہیں۔ اُمراء کو خوف ہے کہ کہیں وہ غریب نہ ہو جائیں اور جو غریب ہیں اُن کو یہ خوف ہے کہ کہیں اور زیادہ غریب نہ ہو جائیں۔ جب میں یہ بات کرتا ہوں تو بلال قطب صاحب کا ایک قول یاد آتا ہے کہ:
’بعض لوگوں کی غربت ختم ہو جاتی ہے مگر احساسِ غربت نہیں جاتا۔ ‘
غریب کے لئے میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ غریب اس وجہ سے غریب نہیں کہ اس کے پاس مواقع یا وسائل کی کمی ہے۔ بلکہ وہ غریب اس لئے ہے کہ وہ یہ سوچتا ہے کہیں وہ اور غریب نہ ہو جائے بجائے اس کے کہ وہ امیر کیوں نہیں؟
رہی بات امراء کی تو ان کے پاس یہ خوف رکھنے اور اس خوف میں جینے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کیوں کہ ایسا سوچنے والا امیر طبقہ یا تو دو نمبری سے امیر بنتا ہے۔ یا امیر رہنے کے لئے اس نے غلط طریقے آزمائے ہو تے ہیں۔
لیکن ان سب سے بڑھ کر اس خوف کی جو سب سی بڑی وجہ ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کا خدائے کون و مکاں پر یقین کامل نہیں ہوتا۔ یہاں پر پھر سے سکندرِ اعظم اور دیو جانس کلبی سے جُڑا ایک اور واقعہ آپ قارئین کے گوش گزار کرتا چلوں:
ایک بار سکندرِ اعظم اپنے ساتھیوں کے ساتھ دیوجانس کلبی کے پاس آیا اسے کچھ دیر وہاں ٹھہرنا تھا۔ جب کھانے کا وقت آیا تو دیو جانس نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ سکندر کے باقی ساتھیوں کے لئے معمول کے مطابق کھانا پیش کیا جائے البتہ سکندر اور میں ایک ساتھ کھائیں گے۔ اور ہمارے کھانے کی جگہ طشت میں ہیرے جواہرات لائے جائیں جب دستر خوان لگا تو سکندر یہ سب چیزیں دیکھ کر بڑا حیران ہوا اور بولا
’ حضور! یہ تو کھانے کی چیزیں نہیں ہیں یہ کیسے کھائیں گے؟ ‘
مجذوب بولا،
دوسروں کے لئے تو عام کھانا ہے یہ صرف آپ کے لئے ہے۔
سکندر نے حیرت سے جواب دیا کہ
جناب یہ کھانے کی چیزیں نہیں ہیں میں انہیں نہیں کھا سکتا
تو کلبی بولا،
’میں تو سمجھا تھا کہ تم اب فاتح بن کر عام انسانوں والا کھانا نہیں کھاتے ہو گے بلکہ ہیرے جواہرات اب تمھاری خوراک ہوں گے۔ مگر آج پتا چلا تمہیں بھی اسی خوراک کی ضرورت ہے۔ جو عام انسان کھاتے ہیں۔ اگر یہی کھانا کھاتے ہو تو اتنے بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور تباہی و بربادی کی کیا ضرورت ہے۔ یہ سب تو گھر بیٹھے بھی کھا سکتے ہو۔
غلطی کا خوف
یہ خوف بھی ایک بھیانک قسم کا خوف ہے۔ یہ خوف ہمارے اندر ماضی کے تلخ تجربات کی صورت میں موجود ہوتا ہے۔ مثلاً ماضی میں آپ نے کوئی کاروبار کیا۔ لوگوں اور رشتہ داروں کے منع کرنے کے باوجود کیا۔ اور اس میں ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا یا نقصان اٹھانا پڑا تو آپ کے اندر یہ خوف پیدا ہو جائے گا اب جب بھی آپ کچھ نیا کرنے کی کوشش کریں گے یہ خوف آپ کے راہ میں روڑے اٹکائے گا۔ آپ کو بار بار آپ کی ماضی کی یاد دلائے گا اور نتیجتاً آپ اپنے اندر بہتری لانے کے قابِل نہیں رہیں گے۔
اس خوف سے جان چھڑانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ اس بات کا یقین رکھیں
’خدا جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے، جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے ‘
جب آپ کو اس بات کا یقین ہو گا تو آپ کو اس کاروبار کی ناکامی کی وجہ تلاش کرنے کا موقع ملے گا۔ آپ اس کاروبار کا انتہائی غور سے معائنہ کریں گے۔ آپ کو سمجھ میں آئے گا کہ میں نے اس اس جگہ یہ یہ غلطیاں کیں تھیں۔ اب آپ جب نیا کاروبار کریں گے اور ویسی غلطیوں سے اجتناب کریں گے تو آپ کو یقیناً کامیابی نصیب ہو گی۔
مار کا خوف
یہ بھی ایک انتہائی بھیانک اور بد ترین خوف ہے یہ زیادہ تر 18 سے 20 سال کی عمر تک بچوں میں رہتا ہے۔ اور یہی وہ عمر ہے جس میں کوئی بھی بچہ سیکھتا ہے۔ اس عمر میں بچہ اپنی زندگی کی 100 میں سے 80 فیصد چیزیں سیکھتا ہے۔ لیکن اس عمر میں یہ خوف کسی بچے کے دل و دماغ پر طاری ہو گیا تو پھر یوں سمجھ لیجئے کہ وہ بچہ زندگی بھر اسی عمر کا رہے گا جس عمر میں یہ خوف اس کے دل میں گھر کر گیا۔
یاد رکھئے اس عمر کے درمیان ایک بچہ جو کچھ بھی سیکھتا ہے اس کا پچپن فیصد اپنے ماں باپ بہنوں یا بھائیوں سے سیکھتا ہے۔ پچیس فیصد اپنے باقی رشتہ داروں سے، دس فیصد اپنے دوستوں سے اور باقی دس فیصد اس کے اپنے تجربات ہوتے ہیں لہذا اس عمر میں اگر کوئی بچہ کسی قسم کی غلطی کرتا ہے یا کوئی غلط قدم اٹھاتا ہے تو اسے مارنے سے پہلے ان سب لوگوں کا جائزہ لیں کہ کہاں کون ایسا ہے جو اس بچے کے اس عمل کا سبب بن رہا ہے۔
اگر آپ بغیر ان سب چیزوں کا جائزہ لئے اس بچے کو ماریں گے تو اس میں کچھ نیا کرنے اور سیکھنے کا جذبہ مر جائے گا جو انتہائی تشویش ناک عمل ہے۔
ان تمام اقسام کے خوف سے جان چھڑانے کے اخلاقی طریقے تو ہم نے اوپر ہی آپ کے گوش گزار کر دیے۔ اب اس کے کچھ نفسیاتی طریقے بھی آپ کو بتائے دیتے ہیں تا کہ اس لعنت سے آپ کو چھٹکارا نصیب ہو۔ سب سے پہلے تو اگر آپ کو کسی قسم کا کوئی خوف یا پریشانی ہے تو کسی ایسے شخص کو ڈھونڈیں جو انسانی نفسیات کو جانتا ہو یا ان مسائل میں آپ کی رہنمائی کر سکتا ہو۔ اگر آپ کو کوئی ایسا شخص نصیب نہیں تو اپنے خوف کا بار بار تذکرہ کرنا چھوڑ دیجئے۔ مثلاً اگر آپ کو اندھیرے سے خوف آتا ہے تو اپنی گفتگو سے رات کت وقت ہونے والے برے واقعات کے تذکرے کو نکال دیں۔ کیوں کہ جیسے پودے کو پانی ملتا ہے تو وہ نشو و نما پاتا ہے اسی طرح اپنے خوف کے بارے میں بار بار گفتگو سے آپ کا ڈر اور خوف بڑھتا ہے۔
تیسرا اور بہت اہم طریقہ یہ کہ اپنے خوف کے بارے میں سوال اٹھائیں۔ مثلاً اگر آپ اس خوف کو پنپنے دیں گے تو آپ کو کیا نقصانات اٹھانے پڑ سکتے ہیں؟ اور اگر آپ اس خوف کو اپنے دِل سے نکال دیں تو آپ کو کیا فوائد حاصل ہوں گے؟
ایک بار حضرت عبدالقادر جیلانیؒ ایک محفل میں تشریف فرما تھے تو ایک شخص نے آپ کے کان میں سرگوشی کی۔ آپ نے اپنے دل کی طرف دیکھا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کان میں سرگوشی کی، آپ نے پھر دِل کی طرف دیکھا اور خدا کا شکر ادا کیا۔ لوگوں کے پوچھنے پر آپ نے بتایا کہ پہلے شخص نے مجھے خبر دی کہ آپ کی کشتی دریا میں غرق ہو گئی میں دل کی طرف دیکھا تو دِل رضائے الٰہی پر خوش تھا تو میں نے خدا کا شکر ادا کیا۔ پھر دوسرے شخص نے مجھے ایک خوشخبری دی میں دل کی طرف دیکھا اور رضائے الٰہی پر خدا کا شکر ادا کیا۔
’ خوفِ خدا اور ناکامی کا خوف ایک ہی دل میں کبھی نہیں ہو سکتے۔ اس لیے اگر آپ کے دل میں کوئی خوف ہے تو اپنا تزکیہ نفس ضرور کیجئے۔ ‘