عائشہ عذیر کو سلا کر اپنے سونے کے لیے چادر ٹھیک کر رہی تھی کہ خالہ جان چلی آئیں۔
آپ سوئی نہیں ابھی تک۔۔۔ عائشہ نے کلاک پہ نظر ڈالتے ہوئے حیرت سے پوچھا، اس وقت دس بج رہے تھے اور خالہ آٹھ بجے سو جانے کی عادی۔
بس بیٹا نیند نہیں آ رہی تھی۔خالہ پاس آ کر بیڈ کے کنارے پہ بیٹھ گئیں۔
وہ بھی پاس بیٹھ گئی۔
بیٹا عذیر بتا رہا تھا کہ وہ لڑکا جو کل آیا تھا وہ موحد کا چاچا ہے،
خالہ کے پوچھنے پہ عائشہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
شادی شدہ ہے کیا؟
دوسرا سوال اسے چونکا گیا، دائیں بائیں سر ہلا کر وہ نظریں جھکا گئی۔
خالہ جان اسکے سر پہ پیار سے ہاتھ پھیر کر چلتی بنیں۔انکا انداز عجیب سا تھا۔۔۔
پیچھے اسکی آنکھوں سے موتی ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگے، اس نے گھٹنوں میں سر دے دیا اور آنکھوں کو دل کھول کر برس جانے دیا۔
اتنے سال تو تمہیں کچھ نہ ہوا،اچھی بھلی زندگی گزر رہی تھی، اب یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی نامراد۔۔۔ اس نے اپنے دل سے کہا۔
%%%%%%%%%%%%%
رات کے دو بج رہے تھے، ہر طرف سناٹا، اور وہ کھڑکی میں کھڑا، سگریٹ پہ سگریٹ پھونکے جا رہا تھا، اپنے دل کی بے قراری اس دھواں میں اڑانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا، درد تھا کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔۔۔۔
وہ سگریٹ کا عادی نہ تھی، آج تیسری بار ایسا کر رہا تھا، پہلی بار بھائ کی ڈیتھ پہ دوسری بار پہلی محبت کے مرنے پہ اور آج۔۔۔۔ آج سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیوں پی رہا ہے، دوسری محبت کے ہاتھ سے چھوٹ جانے پہ یا عائشہ کے دھوکا دینے پہ۔۔۔۔۔ دل پہ شدید غصہ تھا جو دوسری بار بھی غلط انتخاب کر بیٹھا تھا۔۔۔۔۔ نکمے ہو تم بالکل نکارا، تمہیں تو چیر کے رکھ دینا چاہیے، اس نے سینے کے بائیں طرف اک گھونسا رسید کیا۔۔۔۔۔
کبھی عائشہ کا چہرہ اسکی نگاہوں میں گھومنے لگتا اور کبھی عذیر کی خوبصورت آنکھیں اسکے سامنے آ ٹھہرتیں۔۔۔۔
وہ بھول جانا چاہتا تھا دونوں کو۔۔۔۔۔ دفع ہو جاؤ یہاں سے، میں تمہاری صورت بھی نہیں دیکھنا چاہتا، اس نے ایش ٹرے شبیہہ پہ دے مارا۔
%%%%%%%%%%%%%%
عائشہ۔۔۔۔۔ عائشہ۔۔۔۔ اٹھو بیٹا، دیکھو سکول کا وقت نکلا جا رہا ہے، خالہ نے بازو سے ہلاتے ہوئے کہا،
میں بھی اتنی بار اٹھا چکا ہوں۔۔۔۔ پر اٹھ ہی نہیں رہیں، عذیر منہ بنائے پاس بیٹھا تھا۔
خالہ نے گھبرا کر اسکی پیشانی چھوئی جو کہ آگ سی دہک رہی تھی۔ ہائے اللہ اسے تو بہت تیز بخار ہے، عائشہ کو بری طرح جھنجھوڑ ڈالا کہ ہوش میں آئے پر وہ تو ایسے بے سدھ جیسے جسم میں روح ہی نہ ہو۔
دروازے کے پاس جا کر گلی سے گزرتے لڑکے کو آواز دی کہ محلے کے ڈاکٹر کو بلا لائے،
واپس آ کر اسکی پیشانی پہ ٹھنڈی پٹیاں رکھنی شروع کر دیں۔
تھوڑی دیر میں ڈاکٹر چلا آیا،
چیک کیا، انجکشن لگایا اور کچھ ادویات لکھ دیں۔
خالہ جی میں نے ادویات لکھ دیں ہیں یہ فوراً منگوا لیں۔ اور ٹائم سے دینی ہے، انہیں بہت تیز بخار ہوا، یہ بخار جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔۔۔۔
پر بیٹا دوائی دینی کیسے ہے، یہ تو بے ہوش ہے۔ خالہ نے فکرمندی سے پوچھا۔
میں نے انجکشن لگا دیا ہے تھوڑی دیر میں اس قابل ہو جائیں گی کہ دوا لے سکیں۔
ڈاکٹر تسلی دے کر چلتا بنا۔
خالہ پاس بیٹھ کر پھر سے اسکی پیشانی پہ پٹیاں رکھنے لگیں۔۔۔۔
تھوڑی دیر میں وہ آنکھیں کھول چکی تھی، خالہ نے اسے سہارا دے کر اٹھایا اور دوا دی۔
دودھ لاؤں یا چائے، خالہ نے پوچھا۔
کچھ بھی نہیں، کہہ کر وہ پھر سے لیٹ گئی اور آنکھیں موند لیں، دو آنسو آنکھوں کے کناروں پہ آ ٹھہرے۔
میری بچی، اتنے برس بیت گئے، اپنوں کی کی گئی زیادتیوں کو اب تو بھلا دے۔۔۔جب انہیں چھوڑ دیا تو اب یاد بھی نہ کیا کر،جو صبر تو نے کیا، اسکا بہت اچھا اجر ملے گا تجھے ان شا اللہ۔ دیکھ جب بھی تو زیادہ سوچتی ہے اسی طرح بیمار ہو جاتی ہے، آج تو میں ہوں، تجھے دیکھ لیتی ہوں، سنبھال لیتی ہوں، کل کو میں نہ ہوئی تو کون خیال کرے گا تیرا، اپنا نہیں تو اس معصوم کا ہی خیال کر لے۔۔۔۔ خالہ نے عذیر کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
چل میری جان اٹھ،دفع کر، مت سوچا کر بغیرت لوگوں کے بارے میں، بتا کیا کھائے گی۔۔۔؟
چائے دے دیں۔۔۔ آنکھوں میں ٹھہرے آنسو بہہ نکلے۔
%%%%%%%%%%%%%
سر مے آئی کم ان۔۔۔۔۔
نوووووو۔۔۔۔۔ ریحان نے دیکھےبنا ہی کورا جواب دے دیا۔
سر پلیز۔۔۔۔۔ سیکرٹری کسی ضروری کام سے آئی تھی۔
آئی سے گیٹ لاسٹ، وہ جو دونوں ہاتھ ٹیبل پہ دھرے ان پہ سر ٹکائے بیٹھا تھا، یکدم چیخا اور ساتھ ہی کلاس بھی دیوار پہ دے مارا۔
قریب تھا کہ سیکریٹری کی چیخ نکل جاتی، وہ واپس گھبرا کر واپس مڑ گئی۔
اپنی میز پہ جا کر کتنی ہی دیر شاک کی سی کنڈیشن میں رہی، پھر مسٹر علی کو کال ملا دی۔
وہ کافی سالوں سے ریحان کے ساتھ کام کر رہی تھی اسے بہت حد تک سمجھ چکی تھی، جانتی تھی کہ ایسی حالت میں ریحان کو صرف ایک ہی بندہ سنبھال سکتا ہے وہ ہے علی، اسکے بچپن کا دوست، اسکے ہر دکھ درد کا ساتھی۔
تھوڑی دیر میں سیکریٹری کو علی آتا دکھائی دیا تو اس کی سانس میں سانس آئی۔
وہ قریب آیا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی، علی اسے ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کا کہہ کر ریحان کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
بنا اجازت اندر داخل ہو گیا۔
اوو میرے دل جگر گردے،پھیپھڑے کیسا ہے تو۔۔۔۔ اتنے دن ہو گئے، ملا ہی نہیں تو، دیکھ میں خود ہی چلا آیا، چل اب جلدی سے چائے پلا دے۔۔۔اور ہاں چائے کے ساتھ کچھ میٹھا نمکین بھی منگوا لینا۔۔ ۔ وہ دراصل تیری بھابھی ناراض تھی ناں، اسے شاپنگ پہ نہیں لے جا سکا تھا تو اس نے کھانا پینا بند کیا ہوا ہے میرا۔۔۔۔۔۔ ناشتے کے بغیر ہی آیا ہوں۔
ایک مشورہ دینے آیا ہوں،
شادی نہ کرنا یارو
پچھتاؤ گے ساری لائف
علی کے گنگنانے پہ ریحان مسکرا دیا۔
اسکی تنی ہوئی رگیں، دھیرے دھیرے نارمل ہو گئیں، وہ کچھ دیر پہلے والا انتشار ہوا ہو گیا۔
چائے آ گئی، دونوں نے ہلکے پھلکے ماحول میں ہیوی ٹی لی۔ کہ ناشتہ دونوں نے ہی نہیں کیا ہوا تھا۔
کیا بھابھی واقعی ہی اتنی ظالم ہے اور تو واقعی شادی کر کے پچھتا رہا ہے۔۔۔۔ ریحان نے آج حقیقت معلوم کرنا چاہی۔
علی جب بھی ملتا، رونے ہی روتا تھا۔
نہیں میرے یار، بات اتنی ہوتی نہیں جتنا میں بڑھا کر تجھے سناتا ہوں اور ہاں چھوٹے موٹے جھگڑے تو میاں بیوی میں ہوتے ہی رہتے ہیں۔
اور میرے دوست یہ حقیقت ہے کہ بنا شادی کے نارمل لائف بھی نہیں گزاری جا سکتی۔
میرا مشورہ ہے کہ اب تم حفضہ کو بھول جاؤ اور آگے بڑھ کر کسی اچھی سی لڑکی کا ہاتھ تھام لو۔
اچھی سی لڑکی۔۔۔۔ ہاہاہا ریحان ہنسا تھا۔
میرے دوست اچھی لڑکیاں ناپید ہو چکی ہیں یا شاید میری قسمت میں نہیں ہے۔
بڑی مشکل سے ماضی سے چھٹکارا ملا تھا کہ پھر وہی چوٹ کھا بیٹھا ہوں، میں نے جسکا آگے بڑھ کر خلوص نیت سے ہاتھ تھامنا چاہا، وہ چیٹر نکلی، اللہ کا شکر ہے کہ وقت سے پہلے ہی اسکی اصلیت میرے سامنے آ گئی۔
شکر کہ اسکے پیار میں پاگل ہونے سے پہلے ہی مجھے عقل آ گئی۔۔۔۔ حالانکہ وہ تو عشق سمندر میں غرق ہو چکا تھا پر یہ بات صرف وہی جانتا تھا، دوست کے سامنے تو بھرم رکھا جا سکتا تھا ناں۔۔۔۔
ایک منٹ۔۔۔ ایک منٹ۔۔۔۔ یار یہ پہیلیاں میری سمجھ سے باہر ہیں، مجھے پوری بات بتا۔۔۔۔
علی ذرا آگے ہو کر بیٹھ گیا۔
ریحان نے گہری سانس خارج کی۔
اپنی کنپٹی کو زور سے مسلا۔۔۔۔ اور کرسی کی پشت سے سر ٹکا لیا گویا خود کو تیار کر رہا ہو، اک بار پھر اذیت سے گزرنے کے لئے۔
اس بے وفا کا فقط ذکر بھی کسی عذاب سے کم نہ تھا۔
پھر اس نے پہلے دن سے آخری تک سب کہہ ڈالا۔
ہمممم مم۔۔۔۔۔۔ علی ساری بات سن چکا تو ہنکارا بھرا۔
ریحان غلطی تمہاری ہے۔۔۔۔
رہی بات اس لڑکی کی تو تم اسے بے وفا یا چیٹر ہر گز نہیں کہہ سکتے کہ اس نے تمہیں چیٹ نہی کیا، نہ تم سے کوئی جھوٹ بولا۔ بلکہ اس نے تو تم سے کوئی ایسی بات کی ہی نہیں جس سے ظاہر ہو کہ وہ تمہیں چاہنے لگی ہے۔۔۔۔
سب کچھ تم خود ہی خود سوچ لیتے رہے۔
کھلے لفظوں میں تو تم نے بھی اسے یہ باور نہیں کروایا کہ تم اسے پسند کرنے لگے ہو، اگر تم ایسا کرتے تو وہ تمہیں اسی وقت روک دیتی، تمہیں بتا دیتی کہ وہ شادی شدہ ہے اور ایک پانچ سالہ بچے کی ماں بھی ہے۔۔۔۔۔
پلیز اپنی اصلاح کرلو، اسے بے وفا چیٹر سمجھ کر اپنے آپ کو ازیت نہ دو بلکہ اپنی اس غلطی کو کھلے دل سے تسلیم کرو کہ تم ایک آنٹی سے پیار کرنے جا رہے تھے۔۔۔ ہاہاہا
ویری فنی۔۔۔۔ ہو جاتا ہے ایسا کبھی کبھی۔۔۔۔ چل پھر آج مجھے لنچ کروا۔۔۔۔ چل تیری اس بھونڈی حرکت کو سیریبریٹ کرتے ہیں۔۔۔۔ آنٹی۔۔۔ آئی لو یو ذرا ذرا۔۔۔۔ہاہاہا
علی کے قہقہے پہ وہ تپ گیا۔
شٹ اپ یار۔۔۔۔ وہ آنٹی نہیں ہے۔۔۔۔۔
اچھا دفع کر۔۔۔۔ چل اٹھ، لنچ کرنے چلتے ہیں، قسم سے بہت بھوک لگ گئی۔۔۔۔ دیکھنا جب تیری بھابھی کو پتہ چلے گا کہ اس نے بھنڈیاں بنائی ہیں اور میں باہر سے زبردست سا لنچ کر کے آیا ہوں تو تپ ہی جائے گی۔۔۔۔
بہت مزہ آئے گا۔۔۔۔ جب اسکا چہرہ لال ٹماٹر سا ہو جاۂے گا۔
اس کی سوچ نے ریحان کو بھی ہنسنے پہ مجبور کر دیا۔
%%%%%%%%%۔
چاچو مجھے میم عائشہ بہت یاد آتی ہیں، موحد سونے کے لیے لیٹا تو رو دینے کو تھا۔
یاد تو مجھے بھی بہت آتی ہیں، وہ کہنا چاہتا تھا۔
یاد آتی ہیں۔۔۔۔ کیا مطلب۔۔۔۔ روز ملتے نہیں ان سے، ریحان نے حیرت سے پوچھا۔
نہیں چاچو وہ کئی دنوں سے سکول نہیں آ رہیں۔ اب ہمیں میم ہاجرہ پڑھاتی ہیں، مجھے بالکل بھی نہیں پسند، اتنا زور سے بولتی ہیں کہ بچہ ڈر ہی جاتا ہے، اور بلا وجہ ہاتھ بھی اٹھا دیتی ہیں بچوں پہ۔
مجھے نہیں پڑھنا ان سے چاچو، مجھے میم عائشہ سے پڑھنا ہے۔۔۔ موحد ہچکیاں لے لے کر رونے لگا۔
اووو میری جان بی بریو۔۔۔۔ پہلے تو آپ کو میم عائشہ بھی اچھی نہیں لگتی تھیں، یاد ہے ناں آپ کو۔۔۔۔۔ جس طرح آپ کو ان سے محبت ہو گئی، اسی طرح چند ہی دنوں میں میم ہاجرہ بھی اچھی لگنے لگیں گی۔
چلو شاباش اب جلدی سے آنکھیں بند کرو نہیں تو نیند روٹھ جائے گی۔۔۔
موحد بے یقینی سے اسے دیکھنے لگا پھر خاموشی سے آنکھیں موند لیں۔
اور وہ سوچنے لگا کہ کیا مجھے بھی کوئی اور مل جائے تو میں عائشہ کو بھول سکتا ہوں، اور مجھے نئی ملنے والی سے بھی ایسی ہی محبت ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔ یا میں خود کو اور موحد کو بہلانے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں۔
مجھے اسے دوش نہیں دینا چاہیے، شاید علی ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔ بس اسے بھول جانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ خوش فہمی مجھے ہی ہوئی تھی۔
%%%%%%%%%%
سنسان سی جگہ پہ وہ اک طرف ڈری سہمی کھڑی دیکھ رہی تھی، شہزادے کا گھوڑا بدکا ہوا تھا، شہزادہ اسکی طرف آنا چاہتا تھا پر گھوڑا تھا کہ قابو میں ہی نہیں آ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ خوف سے اسکے پسینے چھوٹے ہوئے تھے۔
وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی، وہ پسینے سے شرابور تھی، ہر طرف گھپ اندھیرا تھا، لائٹ گئی ہوئی تھی یا بلب فیوز ہو گیا تھا، جیسے اسکی زندگی سے خوشیوں کی ساری روشنیاں فیوز ہو چکی تھیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...