انیسویں صدی کے وسط میں برطانیہ میں صنعتکار فکرمند ہونے لگے تھے کہ ان کا انحصار ایک ملک پر بہت بڑھ چکا ہے۔ گلاسگو چیمبر آف کامرس نے اس پر وارننگ دی کہ برطانوی صنعت اب امریکی جاگیرداروں پر حد سے زیادہ منحصر ہے۔ برطانیہ کو تین خطرات تھے۔ اول تو یہ کہ امریکہ خود صنعتکاری کی طرف جا رہا ہے۔ اپنی فیکٹریاں لگا رہا ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکل سکتا گا کہ اس کی کپاس کی برآمد کم ہو جائے گی۔ دوسرا یہ کہ امریکی کپاس کے دوسرے یورپی خریدار بھی زیادہ تعداد میں آ سکتے ہیں۔ لیکن تیسرا اور سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ دنیا میں غلامی کے خلاف تحریک چل رہی تھی اور اس سلسلے میں لیا گیا بڑا قدم کپاس کی برآمد پر بڑا اثر ڈال سکتا تھا۔
ایک اور خطرہ کھیت کے اندر تھا۔ کئی لوگوں کا خیال تھا کہ غلام اور آقا میں طاقت کا توازن الٹ سکتا ہے۔ 1844 میں ایک آرٹیکل سے، “ہمارے ملک کی معاشی سیفٹی کے لئے ضروری ہے کہ ہم امریکی کپاس پر انحصار کم کریں۔ موقع پاتے ہی غلاموں نے بھاگ جانا ہے۔ ایک بار یہ ہو گیا تو کپاس اگنا بند ہو جائے گی۔ غلامی کا خاتمہ ملک کی بنیادیں ہلا دے گا”۔
امریکی یقین دہانی کرواتے رہے کہ امریکہ ہیٹی کی طرح نہیں۔ یہاں غلام بغاوت نہیں کر سکتے لیکن یورپی صنعتکاروں نے افریقہ اور ایشیا کی طرف دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ سینیگال اور انڈیا اچھی جگہیں تھیں۔
امریکی سیاست غیرمستحکم تھی۔ کاٹن کے صنعتکاروں نے برطانوی پارلیمان پر دباوٗ ڈالا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو یہ ٹارگٹ دیا جائے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو اس میں دلچسپی نہیں تھی۔ وہ ہندوستانی کپاس کا بڑا حصہ مقامی ہی کھپ جاتا تھا۔ برآمد کیا جانے والی کپاس کمپنی یورپ سے زیادہ چین کو بیچا کرتی تھی۔
مانچسٹر کے صنعتکاروں نے ایسٹ انڈیا کمپنی، برطانوی حکومت اور بعد میں برٹش کالونیل منتظمین پر دباوٗ ڈالا کہ وہ ہندوستانی کپاس کی پیداوار کے لئے کچھ کریں۔ اور برٹش حکومت اپنا حصہ ڈالے۔
ہندوستان میں انفراسٹرکچر بنائے جانا ترجیح قرار پایا۔ ریلوے لائن بنائی جائے۔ دریاوٗں پر پل بنائے جائیں۔ دوسری چیز ٹیکنالوجی کی تھی۔ امریکی کپاس کا بیج ہندوستان بھیجا گیا۔ کپاس اوتنے کے لئے ایجاد ہونے والے وہٹنی جن ممبئی بھیجی گئی۔ 1829 میں تجرباتی طور پر چار ماڈل کھیت بنائے گئے اور یہ زمین یورپیوں کو دی گئی۔ 1831 میں جنوبی ماہ رتا ڈسٹرکٹ میں کپاس خریدنے کی ایجنسی قائم ہوئی۔ 1839 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے انفراسٹرکچر کے علاوہ قانون پر کام شروع کیا۔ 1851 میں قانون بنا جس میں معاہدوں میں فراڈ کرنے والے کے لئے سات سال جیل کی سزا قرار پائی۔
برٹش انڈیا حکومت نے 1848 میں پورے برِصغیر کا سروے کیا کہ کپاس اگانے کے لئے نئی مناسب جگہ کونسی ہو گی۔ کئی امریکی کاشتکاروں کو پیشکش کی گئی کہ وہ ہندوستان جائیں اور اپنی تجرباتی کھیتوں میں اپنی خدمات دیں۔ ڈبلیو وڈ سمیت دس ایسے کاشتکار ہندوستان آئے۔
ان کی کوششیں ناکام رہیں۔ تجرباتی کھیت جلد ناکام ہو گئے۔ بارش کے پیٹرن ویسے نہیں تھے جیسے امریکہ میں۔ انفراسٹرکچر ٹھیک نہیں تھا۔ ٹرانسپورٹ مشکل تھی۔ امریکی طریقے ہندوستان میں کام نہیں کرتے تھے۔ یہاں پر کام کرنے والے اجرت پر کام کرتے تھے اور ان سے ویسے کام نہیں لیا جا سکتا تھا جیسے امریکی کھیتوں پر کام کرنے والوں سے۔ اور پھر کئی جگہوں پر مقامی لوگوں کی طرف سے مزاحمت آئی۔ مرسر کا بنگلہ اور زمین کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ امریکیوں کو مقامی زبان، رسوم و رواج کا بھی علم نہیں تھا۔ ایک سال میں یہ تجربہ ختم کر دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانوی صنعتکاروں کی طرف سے ایسٹ انڈیا کمپنی پر الزام لگایا جا رہا تھا کہ وہ جان کر انڈیا میں کپاس کی کاشت کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہی۔ برسوں تک یہ کھٹ پٹ چلتی رہی۔
تجرباتی کھیتوں کی ناکامی سے ایک اور چیز سامنے آئی تھی کہ ایک اہم وجہ ٹرانسپورٹ کے انفراسٹرکچر کا ناکافی ہونا ہے۔ کپاس کو بیل گاڑی میں یا ریہڑے میں لاد کر کھیت سے منڈی لایا جاتا تھا۔ یہ بہت سست اور مہنگا طریقہ تھا۔ 1854 میں پوری ہندوستان میں صرف 34 میل کی ریلوے لائن موجود تھی۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ ہندوستانی کاشتکار اکانومی برآمدی اکانومی نہیں تھی۔ یہ تصور نہیں تھا کہ کپاس کا مونوکلچر ہو گا یعنی بڑے خطے پر صرف کپاس ہو گی۔ ہندوستانی کسان اس کو باقی فصلوں کے ساتھ کچھ مقدار میں اگاتے تھے۔ یہ خوف تھا کہ اگر کپاس کی فصل ناکام ہوئی یا فروخت نہ ہوئی تو وہ بھوکے مر جائیں گے۔ گندم یا چاول یا دال کھائی جا سکتی تھی۔ کپاس ثانوی فصل تھی۔
تیسری وجہ یہ کہ ہندوستانی نئے طریقے اپنانے میں مزاحمت دکھاتے تھے۔ وہٹنی جن استعمال نہیں کیا گیا۔ اس کی جگہ چرخہ کاتا جاتا رہا۔ نئے بیج نہیں بوئے گئے۔
مقامی تاجر طاقتور رہے۔ 1860 کی دہائی تک یہ کاروبار زیادہ تر ہندوستانی آڑھتی اور ایجنٹوں کے پاس تھا۔
قصہ مختصر یہ کہ ہندوستان کی کپاس کی منڈی میں یورپی حصہ ناقابلِ ذکر رہا۔ دوسرا یہ کہ اجرت پر کھیت پر کام کروانے کا ماڈل بری طرح ناکام ہوا۔
ڈھاکہ کے کمشنر ڈنبار نے 1848 میں نتیجہ اخذ کیا۔ “اس قدیم اور گنجان آباد ملک میں زمین مہنگی ہے اور کرایے آسمان سے باتیں کرتے ہیں۔ زرعی خدمات کا تصور نہیں۔ معاشرہ دیہی ہے۔ مہارت کی مانگ نہیں۔ منافع کی طلب نہیں۔ یہاں کی پیداوار کمتر ہے۔ ذرائع نقل و حمل کی لاگت بہت زیادہ ہے۔ اس کا امریکہ سے مقابلہ کروانا دیوانے کا خواب ہے”۔
ساتھ لگی تصویر وہٹنی جن کی۔ یہ صنعتی انقلاب ممکن کرنے والی ایک اہم ایجاد تھی۔ اس سے کپاس کا ریشہ اور بیج الگ کئے جاتے تھے۔