یہ غیرت ہے؟ بے غیرتو!۔ اے ایس آئی کٹکٹاتی آواز میں عمر رسیدہ بطخ کی طرح قرقرایا۔ قیک قیک کی آواز ریگ مال کی طرح بہت سوں کے کانوں میں رگڑ کھاتی، گھومتی، دماغوں میں چھید ڈالتی ہوئی، بے پرواہی سے کھڑے، ہتھکڑیوں میں جکڑے دو جوانوں کے پاس سے ہوا کی طرح گزر گئی پیروں میں قینچی چپلیں، پسینے سے بھیگی سفید داغدار بنیانیں، ٹخنوں سے اوپر خون کی چھینٹوں سے لتھڑی شلواریں، شوکی اور حیاتا دیوار سے ٹیک لگائے کھڑے تھے۔ دونوں کے ہاتھ پیچھے لے جا کر کمر پر باندھ دیے گئے تھے۔
ماسی سکھاں زمیں پر ایسے بیٹھی تھی جیسے بیٹھی نہ ہو گر پڑی ہو: ’’اوئے کنجرو اے کی کیتا اے۔۔۔‘‘ ماسی سکھاں نے دھرتی پر دو ہتڑ مارے کہ نیلو نیل رانیں مزید چوٹ سہنے سے قاصر تھیں۔ دھرتی دھول اڑا کر ساکت ہو گئی، بھونچال نہیں آیا۔
اے ایس آئی کے گلے میں بطخا بولا: کنجر کھرا سودا کرتے ہیں اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے، ایسی بے غیرتی نہیں کرتے۔۔۔ اوئے خنزیرو!۔۔۔۔۔
دونوں بھائیوں کی بے نیازی تو آسمان سے بھی بڑھ گئی تھی۔ حیاتے نے آسمان کو نظر بھر کر دیکھا کہ کہیں گواہی تو نہیں دے رہا آسمان بھی سپید اور خاموش تھا۔ سنتے ہیں کہ گئے وقتوں میں قتل ہوتا تو آسمان لال ہو جاتا لیکن اب تو اندھے کی بے نور آنکھوں کی مانند بے حس جامد پتھرایا ہوا تھا۔
اے ایس آئی کے ماتھے پہ پسینہ تھا۔ ابھی سورج نے اپنے چھل بل نہیں دکھائے تھے پھر بھی پسینہ؟۔ شاید آنسو آنکھوں کی بجائے ماتھے سے ٹپک پڑے یا شاید ادھ سوتے جاگتے میں جو دوڑ لگی تھی وہ پسینہ لے آئی ورنہ اے ایس آئی اتنی ننگی، کٹی پھٹی لاشیں دیکھ چکا کہ اس کا دل پتھر ہو گیا تھا۔ اب تو اس کی ماں کے ساتھ بھی کوئی ایسا ویسا کر جائے تو اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں آنے والے، ’’یہ سارے ماں یاویں!‘‘ اے ایس آئی نے تھوک کے ساتھ گالی بھی باہر پھینکی۔۔ اخ تھو! ’’بس تماشا دیکھنے کو ہیں۔‘‘
لاشوں پر چادریں ڈال دی گئی تھیں۔ نیلی پیلی چادروں پر لہو کے پھیلتے ہوئے دھبے لال گلابوں جیسے لگ رہے تھے۔
دونوں بھائی شوکت عرف شوکی، حیات عرف حیاتا دیوار کے ساتھ ایسے کھڑے تھے جیسے نظر آتے منظر سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ دل ہی دل میں اپنی بیویوں کو کوئی ہزار بار طلاقیں دے چکے تھے۔
شوکت اور حیات کا باپ قافیہ پیمائی کا بڑا شوقین تھا۔ اس نے اپنے نام برکت کے ساتھ کئی ہم آواز نام نرینہ اولاد واسطے جوڑ رکھے تھے۔ گھر والی مجازی خدا کے شوق پورے کرنے واسطے ایسی اتاولی ہوئی کہ دو لڑکوں کے بعد کئی کچے پھل پھینک دیے اور پھر رحمت بی بی کی پیدائش پر زندگی ہی دغا دے گئی دائی کو مشکل کیس سنبھالنے نہیں آتے تھے اور ہسپتال جانے کا رواج نہیں تھا۔ رحمت بی بی تیری میری گود میں پلتی رہی پھر بے اولاد ماسی سکھاں نے گود لے لیا۔ جب تک برکت زندہ رہا، اس نے سکھاں کا بہت مان رکھا۔ گھر کی بھینسوں کا دودھ ہو کہ گندم باقاعدگی سے سکھاں کے گھر پہنچاتا رہا۔ بیوی کے مرنے کے بعد برکت نے بہت کوشش کی کہ کوئی اور عورت گھر میں ڈال لے۔ بھڑولا گندم سے لبالب تھا لیکن وٹے سٹے کا رواج پیروں کی زنجیر بن گیا۔
رحمت بی بی ابھی گود میں تھی ورنہ رشتوں کی کیا کمی!! اک بانہہ پکڑائی جاتی تو دوسری تھامی جاتی برکت اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ زندگی نے پھر دغا دے دیا، بساط ہی الٹا دی۔ کدال اٹھا کر پانی لگانے رات کو گیا تھا، دن چڑھے لوگوں نے کھال میں مردہ پایا۔
معاملہ کیا ہوا؟۔ نہ تو کسی کو خبر ہوئی اور نہ ہی کسی نے ٹوہ لی۔ خیر جو ہوا سو ہوا، اللہ کی مرضی کہہ کر برکت کو دفنا دیا گیا۔ لڑکے ابھی تیرہ چودہ سال کے تھے۔ باپ کی شہ پر کہ ’مرغوں نے بانگیں ہی تو دینی ہیں‘ اتھرے، منہ زور پھرتے۔ مرغیاں، انڈے چراتے۔ موقع ملے تو بکریاں بھی، بکری والے گلی محلوں ہی میں تلاش کر رہے ہوتے کہ یہ منڈی جا کر اونے پونے ٹھکانے لگا دیتے۔ لڑکیوں بالڑیوں سے بھی چھینا جھپٹی کر جاتے، ان کی ماؤں سے گالیاں کھاتے ،حرامدے!۔
باپ کے جانے کے بعد حرامزدگیاں بھی موقوف ہوئیں کہ کھانے کے علاوہ کمانے کا جنجال بھی سر تھا۔ کچھ سال گزرے دونوں نے پاؤں جما لیے۔ گھر کی دیواریں ذرا اور اونچی کر لیں اور اپنا ٹریکٹر بھی لے لیا۔ دس بارہ ایکڑ زمین باپ سے ورثے میں مل گئی تھی۔ دونوں بھائیوں نے کاشتکاری اور مکان سانجھا ہی رکھا کہ تقسیم میں تو ہر چیز آدھی ہو جاتی ہے۔ رحمت بی بی ’’پرائے گھر کی چیز‘‘ تو کسی کھاتے میں نہیں تھی۔ وقت من موجی ہے، کبھی اڑیل گدھے کی طرح ایک مقام پر قدم جمائے سالوں کھڑا رہتا ہے اور کبھی جمبو جیٹ بن جاتا ہے۔ رحمت بی بی کو ابھی تیرھواں سال لگا تھا کہ بھائی مالکی جتانے لگے
رحمت بی بی کے لاڑے پر دونوں بھائیوں کے گھر بس گئے۔ الھڑ مٹیار دسویں پاس بہنیں اس وعدے پر رخصت کر دی گئیں کہ اگلی فصل کی کٹائی پر رحمت بی بی کی رخصتی کر دی جائے گی۔ بارٹر سسٹم کہ وٹا سٹا ایک ہی بات ہے۔
نسل کی بڑھوتری کے لیے عورت گھر ڈالی جاتی ہے – پھنڈر گائے بھینس کو قصائی کے حوالے کر دیا جاتا یے، بانجھ عورت کس کام کی!
واماندگی، نامرادی دم دارو، ٹونے ٹوٹکے کرواتی رہیں۔ پیڑ کے شاخوں پر دھاگے بھی بندھواتی رہیں۔ گاؤں کی ڈسپنسری میں شہر سے لیڈی ڈاکٹر آتی تھی۔ پہرہ داری پر میاں بھی ساتھ بندھے ’سرکار‘ آتے۔
’سرکار‘ چائے کی چسکار کے ساتھ کرسپی باقر خانی کے بھی رسیا تھے۔ چق کی اوٹ سے آتی جاتی عورتوں کو تاکتے۔ بیوی کی اکثر فہمائش ہوتی کہ ’’تم کس لیے اِن بیچاری عورتوں کو الٹرا ساؤنڈ کے چکر میں ڈالتی ہو، میں تو ان کی چال دیکھ کر بتا سکتا ہوں کہ کتنے پانیوں میں ہیں اور یہ بھی کہ کتنیوں کو لال نوٹ پٹا سکتا ہے اور کتنیوں کو سبز وعدہ‘‘۔
ڈاکٹر جھینپی ہوئی مسکراہٹ سے رجھاتی ہوئی نظروں سے معرفت کو پہنچے شوہر کو دیکھتی مٹھار، پچکار لجا کر بولتی۔۔ ’’ہائے اللہ! آپ بھی تو بس!‘‘
بہت کم عورتیں لیڈی ڈاکٹر کے پاس آتیں۔ بہت کم جو آتیں وہ بھی طاقت کی دوائیوں کے لالچ میں آ جاتیں جو مفت میں مل جاتی تھیں۔
’’بی بی! اپنے میاں کو ساتھ لاؤ اس کے بھی ٹیسٹ ہوں گے‘‘۔ لیڈی ڈاکٹر نے رپورٹ دیکھ کر نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
شوہر تو مالک ہوتے ہیں وہ ایسی باتیں کب برداشت کرتے ہیں اور برداشت کریں بھی کیوں؟ اکڑتے، جھنجھلاتے، گالیاں بکتے۔ ’’کیوں ہم نامرد ہیں، تسلی نہیں کرواتے کیا! اس کو شک ہے نا تو اسے کہو اپنے خصم کی نظر بچا کر کسی وقت آ جائے شک نکال دیں گے، لنگڑاتی واپس جائے گی تو پھر نہ بولے گی کہ اپنے میاں کو لاؤ، کم عقل کم جات عورتیں! دو حرف پڑھ کر آپے سے باہر ہو جاتی ہیں، بے حیائی پھیلاتی ہیں‘‘۔
دونوں بھاوجیں ڈاکٹر کا آسرا چھوڑ کر پیروں فقیروں کے چکر لگانے لگیں۔
رحمت بی بی کو چار و نا چار ساتھ لے جانا پڑتا تھا کہ جوان لڑکی کو گھر تنہا تو نہیں چھوڑا جا سکتا۔ مرد تو کام پر چلے جاتے ہیں، کوئی کلائی مڑوڑ دے، کانچ کی چوری ٹوٹ جائے تو پھر بھلا جڑتی ہے!
رحمت بی بی لمبے پینڈے سے گھبرا کر گھر رہنے پر اصرار کرتی تو ایک بھاوج سمجھاتی تو دوسری معنی خیز بولتی ہوئی نظروں سے مہر بہ لب تکتی رہتی۔ ’’چنڈال! آخر اکیلے گھر رہنا کیوں چاہتی ہے؟؟؟؟؟؟‘‘۔۔ کئی سوالیہ نشان سنپولیے مانند کنڈل مارے کلبلاتے۔
‘‘اب تو گلی سے لڑکے کھنگورا مار کر گزرتے ہیں، وہ جو شہر پڑھتا ہے، سوکھی ٹانگوں پر پتلون چڑھائے، کالی عینکاں آنکھوں پر لگائے، بھینگا، لمبو!! اس کا باپ ووٹ لینے گھر گھر پھرتا ہے اور پھر جھنڈے والی وڈی گڈی پر بیٹھ ایسا اڑنچھو ہوتا، پچھاں مڑ کے دیکھتا نہیں، بیٹا روز اپنی حویلی جانے کیا کھے کھانے آیا ہوتا ہے۔ کل ہی دروازے کے سامنے سے گانا گاتا ہوا گزرا ’’تینوں پی گئے نصیباں والے اوووو نشے دی ایے یے ے ے بند بوتلے!‘‘۔ مرن جوگے کے حلق اور موٹر سیکل دونوں کے سیلنسر نکلے ہوئے۔۔۔۔ دل دھک کر رہ جاتا ہے۔ سینے پر ہاتھ رکھ کر بے ترتیب ہوتی دھڑکنوں کو سنبھالا دیتی ہوئی بھاوج بڑبڑائی: ’’کوئی نہ کوئی تے گل ہے‘‘۔۔ تیرہ چودہ سال کی رحمت بی بی کی شفاف آنکھیں ان کہی سمجھنے میں الجھتی رہیں۔ بھاوج نے سمجھداری سے سر ہلاتے ہوئے سوچا کہ کوئی رسک نہیں لینا چاہیے، عورت کی تو قبر میں بھی رکھوالی کرنا پڑتی ہے۔
عرق گلاب میں نہائی ہوئیں سبز چادروں میں ملفوف قبروں والے، زندوں سے بڑھ کر زندہ تھے۔
نانگا فقیر مزار سے دور کھڑا ہوتا تھا۔ وہ میل دوری کا سنگ میل تھا اور بس سٹاپ کا سمبل بھی۔
ویگنوں، بسوں پر لدی سواریاں سٹاپ پر اتر جاتیں۔ نانگے فقیر کے پاؤں چھو کر آشیر باد لے کر مزار جانے کا قصد کیا جاتا۔ جوتے اتار ننگے پیر پیادہ مزار تک پہنچا جاتا۔ روڑے پتھروں کانٹوں سے مبرا ملائم ریتلی مٹی والے کچے راستے پر چلتے ہوئے ایسا لگتا جیسے دبیز قالین پر چل رہے ہوں۔ یہ الگ بات کہ جب جیٹھ ہاڑ کا سورج چمکتا تو یہ دبیز قالین جلتے انگاروں میں بدل جاتا۔
نانگا فقیر الف ننگا، الف سیدھا کھمبے کی طرح کھڑا ہوتا تھا۔
ماتھے اور گالوں کی ابھری ہوئی ہڈیوں بیچ آنکھیں یوں دھنسی ہوئیں جیسے برسات میں لا وارثی کچی قبریں زمین میں دھنس جاتی ہیں۔
فاسٹنگ بدھا کی طرح پسلیوں کے ٹانڈے نظر آتے کہ سینہ پنجرہ دکھتا۔ اس پنجرے میں کسی غیر مرئی پنچھی کے ہر دم کر لانے سے ارد گرد کی فضا مرتعش رہتی۔ یہ لرزش نانگے فقیر کے آلے دوالے ہر کوئی اپنے بدن میں محسوس کرتا تھا۔ استخوانی ہاتھ ایک دوسرے میں سختی سے پیوست رہتے جیسے میخوں سے گاڑ دیے گئے ہو۔ انگلیوں کے سروں پر ناخنوں کی بجائے ابھرا ہوا گوشت نظر آتا تھا۔ ننگے تن پر چیتھڑا بھی نہیں تھا نانگے فقیر کو کبھی کسی نے چلتے پھرتے نہیں دیکھا تھا۔ جب بھی نگاہ میں آتا سوکھے پیڑ کی طرح ساکت اپنے مقام پر ایستادہ ہوتا۔ کچھ گھڑیوں بعد ایسے غائب ہو جاتا تھا جیسے دھرتی نے نگل لیا ہو۔
زرد پتوں کی مانند ادھر ادھر اڑتی ہوئی سرگوشیاں سناتی ہیں کہ وہ کسی کالج میں پڑھاتا تھا، اخباروں میں لکھتا تھا، چائے خانوں میں بیٹھ کر الٹی سیدھی ہانکتا تھا۔ ایک دن دھرتی سے غائب ہو گیا لوگ تو اس کا نام بھول بھال گئے پر نام ماں باپ کے دل سے نہ مٹا۔ جب وہ دونوں زمین سے اڑھائی گز نیچے اتر گئے تو سالوں بعد پروفیسر بھی آک کے خود رو پودے کی طرح زمیں سے نکل آیا۔
بھاوجوں نے گرد سے اٹے پیروں کو چھو کر اپنی پیشانیوں پر بھبول لگائی۔ رحمت بی بی دونوں کے پیچھے کھڑی تھی، اس نے لاکھ جتن کیے کہ نظریں نانگے فقیر پر سے ہٹا لے لیکن نگاہیں چپک کر رہ گئیں۔ گردن سے ریڑھ کے ہڈی کے آخری مہرے تک خنک رو لہریے بناتی چلی گئی
بھاوج نے ہاتھ سے پکڑ کر کھینچا تو بے جان سی اس کے ساتھ گھسٹتی چلی گئی لمحہ بھر بعد نانگے فقیر کو دھرتی نے پھر سے نگل لیا۔
مزار کے باہر بیری کا چھتناور پیڑ تھا۔ مڈھ کی اکھڑی چھال صدیوں کی داستان سناتی محسوس ہوتی۔ پیڑ کے ساوے پتوں سے لال بیر جھانکتے تھے۔ چنچل ہوا کے جھونکے شاخیں جھلاتے پیڑ کے نیچے عورتیں جھولیاں پھیلائے بیٹھی ہوتیں سنا تھا کہ جس دامن میں بیر گرتا ہے کوکھ ہری کر جاتا ہے
دونوں دیگر ویلے تک آس نراس میں ڈولتی خالی جھولی پھیلائے رہیں۔ بیر تو کجا پتا تک جھولی میں نہیں گرا۔ چن چن کر لال بیر کھاتی رحمت بی بی اکتا سی گئی تھی۔ شاخ پر بیٹھے کوے نے پٹاخ سے رحمت بی بی کے سر پر بیٹ کر دی۔ ناک کی سیدھ میں کنگھی رکھ کر پریم پریت سے نکالی گئی مانگ سے بیٹ بہتی ہوئی پیشانی تک چلی آئی۔ ’’دفاں دووور کلموا!‘‘ کہتے ہوئے رحمت بی بی نے اپنی سفید لان کی چادر سے، جس پر نکی نکی گلابی بوٹیاں کاڑھی گئی تھیں، اپنی پیشانی صاف کی پھر چنری کو داغ سے بچانے اسے ہاتھ میں تھام کر، وضو کے لیے قطار در قطار لگے نلکوں کی طرف دوڑ لگا دی۔ رحمت بی بی کی لمبی سیاہ چٹیا پتلی کمر سے ہوتی ہوئی تیزی سے شکار کے پیچھے لپکتے سانپ کی طرح بل کھا کر سرینوں پر پٹختی۔ اس کی نو خیز چھاتیاں ست ربڑی گیند کی مانند اچھل رہی تھیں۔ ٹونٹی کھول اس نے جلدی سے چادر کا کونا دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں میں لیا اور پانی کی دھار کے نیچے رکھ کر ایک دوسرے کے ساتھ رگڑا۔ اطمینان کا سانس لیتے ہوئے گیلے ہاتھ سے اپنی پیشانی اور سر کو صاف کیا، ہاتھ کے اشارے سے کوے پر لعنت بھیجتے ہوئے بولی: ’’بجلی کی تاروں سے کرنٹ لگے۔۔۔ شالا!۔‘‘
دونوں بھاوجیں گھبرائی ہوئیں اس کے پیچھے آن کھڑی ہوئیں۔ ایک نے ڈانٹ کر اسے چادر کھول کر لینے کو کہا۔ ڈوبتا سورج الوداعی کرنیں منظر پر ڈال رہا تھا۔
عورتیں تو سر شام دیوے جلا کر اپنے گھروں کا رخ کرتیں کہ اندھیرا پھیلتے ہی مرادوں کی نوعیت ہی بدل جاتی تھی۔ اردھ ناریشور سرخ لپ اسٹک سے لتھڑے ہونٹ، چہرے پر سفید پوڈر کی تہیں جمائے ادھر ادھر مٹکتے ٹھمکے پھرتے۔ مونچھوں کو بل دیتے ہوئے جوان، ادھیڑ عمر چٹی بگی ریش والے دھانسو، تربوز جیسی شیپ میں باہر نکلی ہوئی پچھاڑیوں پر چٹکیاں کاٹتے، سیلیکون چھاتیوں پر ہاتھ پھیر کر آہیں بھرتے، ایک آنکھ بند کر کے ہاتھوں سے اشارے کرتے، ہزار کے نوٹ کا سرا قمیص کی فرنٹ پاکٹ سے باہر نکال کر رکھتے تھے۔
مایوس اور با مراد عورتوں کا گروہ تیز تیز قدموں سے ویگن سٹینڈ کی طرف چل پڑا۔ اندھیرے تعاقب میں تھے۔
ہر ایک کو اپنے گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔
شوکی اور حیاتا جب تک چھڑے رہے موج میں رہے۔ فصل کاٹتے اور پیسہ اڑاتے۔ نہ فکر نہ فاقہ، پلو جھاڑ جہاں گنجائش دیکھتے وہیں سو جاتے۔ گرہستی کے بعد خرچہ بڑھ گیا۔
پھر رت ایسی نامراد آئی کہ پکی فصل پر بارش برس جاتی۔ اگر فصل اچھی ہو جاتی تو دام گر جاتے۔ بیج، کھاد دوائیاں قرضہ لے کر خریدتے۔ فصل اٹھاتے ہی قرضہ چکاتے اور پھر قرضہ لے کر بیجائی کرتے۔
پہلے تو آنگن میں لگا نیم کا درخت ہی ساری اندرونی بیرونی صفائیوں کا ذمہ دار تھا۔ اب صابن ٹوتھ برش کے خرچے الگ۔ برادری میں مرنا پرنا بھی بھگتانا پڑتا تھا سگی ماسی کا بیٹا جس کے ساتھ بنٹے، کوڈی کھیلی ہوئی تھی، صرف دس لاکھ کے لیے بیچ چورا ہے میں بے عزت کر گیا:
’’میری رقم لوٹاؤ‘‘۔ منہ پر ہاتھ پھیر کر بولا: ’’ورنہ پیچھے ایسا ڈنڈا دوں گا کہ منہ سے اگلو گے‘‘۔
برادری میں تھو تھو الگ ہوئی، شریکوں کے طعنے الگ۔
دس لاکھ کہاں سے آئیں؟ راتیں گھر سے باہر تھڑے پر صلاح مشورہ کرتے گزرنے لگیں۔ گھر کے اندر تو ایک لفظ منہ سے نہ نکالتے۔: ‘‘عورتیں پیٹ کی ہلکی ہوتی ہیں، انھیں کوئی بات ہضم نہیں ہوتی۔‘‘
ستاروں کی جھرمٹ میں اکیلا چاند سہما ہوا، انھیں دیکھتا رہتا۔
سوچوں نے بچھو کا ڈنک اٹھایا ہوا تھا۔ رات دیر گئے مسات آیا اس نے ٹھنڈے میٹھے لہجے میں رقم کی واپسی کا تقاضا کیا۔ دونوں بھائی بھی اس کے سامنے بچھ بچھ جاتے رہے۔ بچپن، لڑکپن کے واقعات، عورتوں کو رسوئی میں مصروف دیکھ کر، خاص مہمات کا احوال بھی مزے لے لے کر دہراتے، اک دوجے کے ہاتھوں پر ہاتھ مار قہقہے لگاتے رہے۔ کھانے کے بعد مسات نے چائے کی فرمائش کی۔ باقی گھر والوں کو تو چائے کی عادت نہ تھی۔ اس کے لیے پیالہ بھر چائے تیار ہونے لگی۔ شوکی اٹھ کر رسوئی گیا۔
’’اوئے! چائے ہے کہ کٹا جو گل نہیں رہا‘‘ اونچی آواز میں ایسے بولا جیسے پاس کھڑی بیوی کو نہیں باہر بیٹھے ہوئے مہمان کو سنوا رہا ہو۔ ڈب سے اخباری کاغذ کی تکونی بنی پڑی کھول کر ابلتی ہوئی چائے میں ڈال دی۔ بیوی پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتی رہی۔ ’’اگر کچھ بولی تو زبان کھینچ لوں گا‘‘۔ دھیمی آواز میں شوکتا ہوا، قدم اٹھاتا باہر صحن میں بیٹھ کر دوبارہ خوش گپیوں میں مصروف ہو گیا۔
رات بھیگتی جا رہی تھی۔ مسات نے ذرا منہ بنا کر چائے کے گھونٹ نگلے۔ ’’پرجھائی نے چائے کڑک بنائی ہے‘‘۔
تھوڑی دیر بعد تینوں صحن میں صحن میں منجیوں پر دراز تھے۔ چاند جیسے سانس روکے ہوئے تھا۔ بادل کا کوئی آوارہ ٹکڑا سامنے آ جاتا تو جلدی سے پلک جھپک ہٹا دیتا۔ ہوا کے ہلکے جھونکے مست کر رہے تھے صحن میں نیم کا پیڑ ہلکے سے ایسے جھوم رہا تھا جیسے گہری نیند میں ہو۔
چھوٹی بڑی بھاوج اور رحمت بی بی بڑے کمرے میں منجیاں ساتھ جوڑے سو رہی تھیں لمبے گہرے سانسوں کی آوازیں کمرے کی خاموشی میں سرسرا رہی تھیں۔ اچانک ہڑبونگ سے آنکھ کھلتی ہے تو کیا دیکھتی ہیں شوکی ایک ہاتھ سے رحمت بی بی کا گلا دبوچے دوسرے ہاتھ سے اس کی کلائی پکڑے باہر گھسیٹ رہا ہے۔ کانچ کی چوڑیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر فرش پر بکھری ہیں۔ دونوں بھاوجیں منجی سے ٹانگیں لٹکائے ہکا بکا دیکھتی رہیں۔ برامدے میں جلتے بلب کی چھن کر آتی روشنی میں سفید بنیان پر لال دھبے نمایاں نظر آ رہے تھے۔ چھوٹی بھاوج کا ذہن گراموفون کی سوئی کی طرح ایک مقام پر اٹکا رٹ لگا رہا تھا۔ ’’یہ نشان کیسے؟۔ مشین سے کپڑے نکال کر دوبارہ ہاتھوں سے مل کر دھوتے ہیں۔ پھر یہ کیسے دھبے ہیں؟‘‘
شوکی کی لہو رنگی آنکھیں دیکھ کر رحمت بی بی کو صورتحال کا الہام ہو گیا۔ وہ بلبلائی ’’نہ ویرے! تینوں اللہ رسول دا واسطہ۔‘‘ جب فریاد خاموشی کی دیواروں سے ٹکرا کر اپنے ہی منہ پر آ کر طمانچے کی طرح لگی تو بے اختیاری میں چلائی ’’ابا جییییییییی۔۔۔۔۔‘‘۔۔ شوکی نے گردن ایسے دبائی جیسے مرغی کی گردن ہاتھوں کے شکنجے میں ہو۔ شاید دم وہیں نکل گیا۔۔ باہر ایک منجی پر ذبح ہوا مسات پڑا تھا۔ اسی چارپائی پر رحمت بی بی رکھ دی گئی۔ قربانی کے لیے تیار کروائے گئے تیز دھار آلے خوب کام آئے۔ سب کام آسانی سے ہوتا گیا۔۔ شوکت حیات نے بہن کی شلوار کھینچ کر اتاری۔ مسات کے کپڑے تو پہلے ہی اترے ہوئے تھے۔
اس دوران چھوٹی بھاوج پچھلی کھڑکی کو پھلانگ کر بھاگتی ہوئی نمبردار کے گھر پہنچ گئی برکت نے اپنا گھر گاؤں سے ذرا ہٹ کر ٹیوب ویل کے پاس بنایا تھا۔ نمبردار کے گھر پہنچنے میں پندرہ بیس منٹ ہی لگے ہوں گے۔۔ شہر نزدیک تھا۔ کال ملتے ہی آدھا سویا آدھا جاگا اے ایس آئی چند سپاہیوں کے ساتھ موقع واردات پر تھا۔ دونوں بھائی ابھی دلجمعی سے موقع واردات کو فنشنگ ٹچ دے رہے تھے کہ پولیس نے دھر لیا۔ سورج دھیرے دھیرے معاملہ روشن کرتا چلا گیا۔
سٹل لائف کی کوئی پینٹنگ ہو، جیسے راجکماری کا سویا ہوا محل ہو، لوگ تصویروں کی طرح ساکت تھے۔ شوکی نے ذرا پریشان نظر آتے بھائی کو تسلی دی ’’حوصلہ رکھ! جج بھی غیرت کی سوجھ رکھتے ہیں، چند سال ہی تو ہیں‘‘ پیچھے بندھے ہاتھ کے انگوٹھے اور انگلی سے چٹکی بجا کر بولا۔۔ ’’ایسے جائیں گے‘‘۔ لاشیں منجی پر آری ترچھی پڑی تھیں۔ منجی کے نیچے لہو نے تالاب سا بنا دیا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی اناڑی قصائی نے قربانی کے جانور ذبح کیے ہوں۔ ایک راہ بھولی ڈب کھڑبی دوغلی آوارہ کتیا لوہے کے بڑے گیٹ سے گزرتی ہوئی ٹریکٹر کے بڑے پہیے کے ساتھ کچھ لمحے کھڑی رہی۔ اس کے دودھ سے لبریز تھن زمین کو چھو رہے تھے۔۔ آہستہ خرامی سے لاشوں کے پاس گئی، تھوتھنی لگا کر سونگھا۔ پھر کتیا نے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر لمبی ہوک لگائی۔۔۔۔ ہووووووووووو۔۔۔۔۔
شوکی، کخ کی آواز کے ساتھ چلایا: ’’دررر رررر رررر رر ر۔۔۔ نجس!‘‘۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...