نجانے کتنے لمحے بیتے کتنا وقت گذرا وہ اس کے سینے سے اب بھی لگی سسک رہی تھی وہ آنکھیں موندے اسے خود میں بھینچے اسکی موجودگی کو محسوس کر رہا تھا کاش اس ہوجائے کے یہ لمحہ یہی پر تھم جائے مہر اسی طرح میرے قریب رہے میری بس یہی خوائش ہے ارحم دل ہی دل میں خود سے مخاطب ہوا ….
مہر نے ہوش سمبھالا دھیرے سے وہ ارحم سے الگ ہوئی وہ اب تک سہمی ہوئی تھی ارحم نے اسکو قریب کیا اور دھیرے سے اسکے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھے اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیکر انگلیون کے پرون سے اسکے آنسوں صاف کیے مہر خاموش تھی اور وہ خاموش ہی رہنا چاہتی تھی اسے اس وقت ایک مضبوط سہارے کی ضرورت تھی اور وہ مضبوط سہارا اس کے پاس تھا اتنا پاس کے وہ اسکی دھڑکنون کو صاف سن سکتی تھی اسنے مہر کی کلائی تھامی سی مہر کے منہ سی نکلا اس کو ہاتھ میں چوٹ آئ تھی جہاں سے خون رس رہا تھا یہ کیا ہوا مہر کی کلائی میں جا بجا ناخنون کے نشان تھے ارحم نے جیب سے رومال نکال کے مہر کی کلائی پر باندھ لیا وہ دم سادہے بس اس کو دیکھے جا رہی تھی….
ارحم نے اسکا ہاتھ پکڑا اور قریب آتی کیب کو روکا اسنے پہلے مہر کی سائیڈ کا دروازہ کھولا پھر اپنی سائیڈ کا دروازہ کھول کے اس کے مقابل بیٹھ گیا فاصلہ بہت کم تھا ان دونو میں وہ موبائل ہاتھ میں پکڑے کسی کو کال کر رہا تھا اسنے اب تک مہر کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا مہر نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش نہیں کی تھی کچھ ہی دیر میں وہ یونی بس کے سامنے تھے ارحم نے دھیرے سے مہر کا ہاتھ چھوڑا مجھے اپنی غلطی کا دل سے پشتاوا ہے مہر جب ہم کسی رشتے میں نہیں بندھے تھے تب تو تمنے بینا سوچے سمجھے مجھ پر یقین کرکے خود کو مجھسے جوڑا تھا اب جب ہم ایک مضبوط رشتے میں بندہ چکے ہیں اب بھی ایک مرتبہ صرف ایک مرتبہ مجھ پر بھروسہ کرکے مجھے معاف کرکے مجھے خود سے جوڑ لو ارحم کی آنکھوں میں التجا تھی پھر اس کی سائیڈ کا دروازہ کھولا سب سٹوڈنٹس ہجوم بنائے مہر کا انتظار کر رہے تھے مہر نے جیسے ہی حیا کو دیکھا بھاگ کے اس سے لپٹ گئی حیا نے اسے دلاسا دیا بس اپنے سفر کو چل دی مہر ڈری سہمی بیتے لمحے یاد کر رہی تھی اسے بس ارحم کی باتیں یاد تھیں جو کچھ دیر پہلے اسنے مہر سے کہیں تھیں تو کیا اب مجھے اسے معاف کر دینا چاہیے اس کا دماغ ماؤن ہوگیا تھا پورے راستے مہر ارحم کی نظروں کے حصار میں رہی مہر نے آخری نظر ارحم کو دیکھ کے اپنے گھر کا رخ کیا
گھر پوھنچ کے وہ چہت کو گھور رہی تھی اسنے اپنے گال کو چھو کے ارحم کے لمس کو محسوس کیا پھر کلائی پر باندھا رومال دیکھنے لگی اسنے رومال کو وارڈروپ میں رکھا اور لیٹ گئی مہر اٹھ جاؤ بیٹا طبیعت تو ٹھیک ہے نا آپ کی خدیجہ بیگم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اٹھ جاؤ دیکھو آج جمعہ کے بابرکت دن ہے بیٹا خدیجہ بیگم نے لاڈ سے کھا
وہ اٹھی اور نہا دھو کے نماز پڑھی
اسنے سب اپنے رب پر چھوڑ دیا تھا اب وہ مزید سوچ کے خود کو تھکانا نہیں چاہتی تھی
وہ اپنے کل کے پیپر کی تیاری کرنے لگی اسے ہوش ہی نہیں رہا کب پڑھتے پڑھتے مغرب ہوگئی وہ اٹھی اور وضو کرکے مغرب پڑھی مہر یہ والا ٹوپک سمجھ میں نہیں آرہی چلو نا فہد بھائی سی کلیر کرا لیں حیا نے کتاب میں دیکھتے ہوے کہا
وہ صوفے پر بیٹھا لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلا رہا تھا نوک کی آواز پر رخ موڑ کے دروازے کی طرف دیکھا بھائی ہم آجائیں ؟؟؟ حیا نے مسکرا کر پوچھا
یس وہ لیپ ٹاپ بند کرکے سیدھا ہوکے بیٹھ گیا
اصل میں فہد بھائی یہ والا ٹوپک کلیر کرا دیں
اوکے دکھائین فہد نے کتاب ہاتھ میں پکڑتے ہوے کھا
بس اتنی سی بات تھی اتنا مشکل ٹوپک نہیں ہے وہ کتاب حیا کو پکڑاتا ہوا بولا شکریہ مہر اور حیا یک زبان ہوکے بولیں
اگلا پورا ہفتہ انکا مصروفیت میں گزرا وہ دونو تو بس کمرے تک محدود ہوگئین تھیں
بالا خیر امتحانات بھی اختتام کو پوھنچے
وہ شام کی چائے بنا کر جیسے ہی فارغ ہوئی فہد کو اپنی جانب آتا دیکھ کے سیدھی ہوکے بیٹھ گئی مامو والے آرہے ہیں میں ان کو پک کرکے آتا ہوں وہ جلدی جلدی کہتا ہوا باھر چلا گیا
بابا آرہے ہیں اور مجھے پتا تک نہیں مہر بڑبڑائی
اف حیا میں تمہارا قتل کر دونگی وہ کمرے کی طرف بھاگی
جہاں پر وہ آئینے کے سامنے تیار ہونے میں مشغول تھی تم نے بکنا پسند نہیں کیا کے بابا والے آرہے ہیں مہر نے اسکو گھورتے ہوے پوچھا
وہ اس لیے میری جان کے بابا تمہیں سرپرائز دینا چاہتے تھے مہر نے اسکو کندھوں سے تھام کے کہا ایک بات کہوں مہر بکو پھر سن رہی ہوں میں وہ دونو بیڈ پر بیٹھ گئیں
مہر اب تو پڑھائی بھی پوری ہوگئی ہے تم ارحم بھائی کو معاف کرکے گھر واپس چلو نا
وہ مجھسے ابو والوں سے سب سے معافی مانگ چکے ہیں میری جان سب نے انھیں معاف کر دیا ہے بس تم ہی ہو جسنے ارحم بھائی کو معاف نہیں کیا عورت کے نصیب اتنے اچھے نہیں ہوتے مہر کے مرد اس کے پاس لوٹ جائے یہ تو تمہری خوش نصیبی ہے کے ارحم بھائی نے تمہارے لیے ایک ایک شخص سی معافی مانگی ہے وہ تمہیں دل و جان سے چاہتے ہیں مہر اب تم بھی سب بھلا کے انھیں معاف کر دو اب خود پر رحم کر کے خوش رہو میری جان حیا نے اسکا شانہ ہلایا وہ بس حیا کو دیکھے جارہی تھی چلو کچن میں پریپریشن کرتے ہیں
حیا وہ ان سب سے مل چکا ہے تو کسی نے مجھے بتایا کیوں نہیں اب تک؟؟ مہر نے آبدیدہ آنکھوں سے حیا کی طرف دیکھتے ہوے پوچھا حیا اسکے اس سوال پر سٹپٹا گئی اور تم بھی یہ سب پہلے سے جانتی تھی بس صرف میں ہی لا تعلق تھی اب تک ان سب باتوں سے ہے نہ ؟ مہر تم جو سمجھ رہی ہو ایسا کچھ نہیں ہے بس ہم تمہیں اپنی زندگی میں خوش دیکھنا چاہتےہیں
ہونہ خوش مہر نے منہ موڑا
ٹھیک آدھے گھنٹے بعد دروازے پر بیل ہوئی فہد خوش گوار لہجے میں حماد سے باتیں کرتا ہوا آرہا تھا مدیحہ بیگم حسین صاحب عوروہ سب خوشی خوشی خدیجہ بیگم اور حیا سے بلگیر ہوۓ اسنے سب بھلا کے باہر جانے کا سوچا اسنے تنبہیہ کیا کے وہ ایک بھی آنسو نہیں بہائےگی پھر جب حسین صاحب سے ملی تو پھوٹ پھوٹ کے رو پڑی سب ہی کی آنکھیں مہر کی وجہہ سے نم ہوگئین حسین صاحب اس کو دلاسا دینے لگے پھر اسنے خود کو سمبھالا اور چائے رول کباب اور دیگر لواذمات لیکے آنے میں حیا کا ہاتھ بٹایا آج وہ خوش تھی کیوں کے اتنے عرصے بعد وہ اپنی پوری فیملی کے ساتھ تھی اسنے سب سوچوں کو جھٹک کے ان قیمتی لمحوں پر دھیان دینا ضروری سمجھا حیا اور خدیجہ بیگم کچن میں رات کا کھانا بنانے میں مصروف ہوگئین وہ حسین صاحب اور مدیحہ بیگم کے کمرے میں چلی گئی یہاں پر دونو میاں بیوی محو۔گفتگو تھے مہر کو دیکھ کے خاموش ہو گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر میری بچی آؤ میرے پاس بیٹھو مدیحہ بیگم اسے ماتھے اور بوسہ دینے لگیں مہر یہ سب نم آنکھوں سے دیکھ رہی تھی کتنا مس کیا تھا اسنے یہ سب
مہر بیٹا یہاں آئین بابا کے پاس وہ حسین صاحب کے پاس ایک سائیڈ پر ٹک گئی جی بابا اسنے ساعت مندی سے کہا
بیٹا حیا نے آپ کو بتایا ہوگا کے ہم یہاں کیوں اے ہیں میں زیادہ طویل بات نہیں کرونگا ارحم کو ہم سب اسکے کیے پر معاف کر چکے ہیں اور ہم چاہتے ہیں آپ بہی انھیں معاف کردیں بیٹا جو ہوا وہ ہو چکا اب اپنی زندگی سے ان سب واقعیت کو بھول کے نئ شررعات کرو بچے وہ بس آنسو بہتتی رہی بابا میرا دل سخت ہو چکا ہے میں کیسے معاف کروں کیسے سب بھول جاؤں مہر ہچکیون کے بیچ بولی
حسین صاحب نے اسے گلے لگا لیا بیٹا آپ کو پتا ہے جب ہمارے نبی (صلہ اللہ علیہوسلم )سے جب پوچھا گیا کے ایمان کیا ہے ؟؟تو پتا ہے آپنے کیا جواب دیا ؟حسین صاحب نے مہر کے بولنے کا انتظار کیا مہر سر جھکائے بیٹھی رہی پھر سوالیہ نظروں سے حسین صاحب کو دیکھنے لگی آپ (صلى الله عليه وسلم )نے جواب دیا معاف کرنا اور درگزر کرنا ہی ایمان ہے …
ابھی خلیل صاحب کی فیملی آرہی ہے آپ کو لینے امید ہے آپ میری باتیں یاد رکھیںگی آپ تیار ہو جائین وائٹ پاؤں کو چہوتھا فراک جس پر سرخ دوپٹہ تھا اس اور ہم رنگ سرخ چوڑیان پہنے لائٹ سے مکیپ میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی عوروہ اور حیا نے اسے حلقہ پھلکا سا تیار کیا اسنے ایک نظر بھی خود کو نہیں دیکھا وہ بت بنی بیٹھی رہی ارحم بار بار دروازے کی طرف بے صبری سے دیکھ رہا تھا مہر اب تک کمرے میں تھی حیا اور عوروہ اپنا کام کرکے جا چکی تھی وہ آپنے کمرے میں تنہا بیٹھی سوچوں میں غم تھی جب تحمینا بیگم نے آکر اسکے سر پر ہاتھ رکھا وہ بوکھلا گئی کیسی ہو بیٹا تحمینا بیگم نے محبت بھرے لہجے میں پوچھا وہ خاموش رہی بیٹا ارحم نے جو آپ کے ساتھ کیا وہ بہت ہی غلط تھا آپ میری بیٹی کی طرح ہیں اور مجھے بہت ہی عزیز ہو بیٹا میں آپ سے ارحم کی طرف سے معافی مانگتی ہوں تحمینا بیگم نے مہر کے سامنے ہاتھ جوڑے مہر نے انکے دونو ہاتھوں کو تھام لیا نہ نہیں آنٹی آپ مجھسے ایسے معافی مانگ کے مجھے شرمندہ نہ کریں مہر انکے گلے لگ گئی وہ بت بنی اسکے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی پورا رستہ وہ باہر کے بھاگتے منظرون کو دیکھتی ۔رہی ارحم نے بھی کوئی بات کرنے سے دفاع کیا گاڑی ایک بہت ہی شاندار گھر کے سامنے رکی ارحم نے اسکی سائیڈ کا دروازہ کھولا وہ ہنوز بنی بیٹھی رہی وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے روم میں لے آیا جہاں پر مہر کے بہت سی تصویریں لگی ہوئی تھیں مہر نے ایک نگاہ بھی ان تصویروں کو نہیں دیکھا اسنے جھٹکے سے اپنا ہاتھ ارحم کی مضبوط گرفت سے آزاد کیا اور پوری طاقت سے ارحم کو پیچھے دھاکیلا بہت ہوگیا ارحم اب اور نہیں کیا سمجھتے هو تم خود کو جب چاہا ہاتھ پکڑ کے چھوڑ دیا جب دل چاہا اپنی زندگی میں شامل کر لیا اسکے آنکھوں سے بے اختیار آنسو به رہے تھے جنہیں اسنے سختی سے رگڑا کیا چاہتے هو تم کے تمہاری اتنے ذلت کے باوجود میں تمہیں اپنا لوں سب بھول جاؤں اپنی اتنی تذلیل کے بعد تمہیں پھولوں کے ہار پہناوں نہیں ارحم نہیں بہت ذلیل کیا ہے تمنے مجھ اب اور نہیں وہاسکے رونے میں روانی آگئی مہر میری بات سنو سات سے میں نے چاہا تھا سارا کو اس دن بابا نے مجھ بہت فورس کیا کے میں تمہیں اپنا لوں تم ہی بتاؤ مہر میں کیا کرتا سارا کی محبت میں مینے وہ سب کیا تمسے شادی کرنے کو بابا نے کھا تھا میری مرضی نہیں تھی اس میں میں تو کچھ وقت کے لیے آیا تھا حسین انکل بابا کے دوست تھے اس لیے انہوں نے مجھ فورس کیا اگر میں تم سے شادی نہیں کرتا تو بابا پھر مجھے ہمیشہ کے لیے بے دخل کر دیتے مہر نے اس کی بات کاٹی تو اس کا بدلہ تم نے میری زندگی کو برباد کر کے لیا میں تو نہیں آہی تھی تمہارے پاس کے مجھ اپنا بنا لو میں نے تو نہیں بولا تھا ارحم کے مجھے اپنا لو تم خود آئے تھے تم نے مجھے محرم بنایا تھا اپنی مرضی سے اپنے ہوش و حواس میں آنسوں اب بھی اس کے گلابی گالوں کو بھگو رہے تھے ناک سرخ هو چکی تھی آنکھیں بے حساب لال هو گئیں تھیں یاسر نے مجھ اگرٹھکرا دیا تو اس سب میں میری کیا غلطی تھی وہ پھوٹ پھوٹ کے رو دی ارحم اس کے پاس آیا اور اسکے گال پر ہاتھ رکھا مت چھئو مجھ مہر نے سختی سے اسکا ہاتھ جھٹکا سٹے آوے فروم مے ائ جست ہیٹ یو اسکے رونے میں روانی اگئی مہر پلیز چپ ہوجاؤ تمہارے آنسوں مجھے تکلیف دے رہے ہیں مہر نے جھٹکے سے اپنا جھکا سر اٹھایا اور ارحم کی شرٹ کو سختی سے اپنے مٹھی میں جکڑ لیا اچھا اگر اتنا ہی درد ہوتا ہے نا تو آزاد کرو مجھے اس پل پل کے درد سے ارحم نے حیرت سے اسے دیکھا طلاق دو مجھ اور آزاد کرو اس روز روز کے درد سے مہر چیخ پڑی چٹاخ ایک زور دار تہپہڑ مہر کے گال لال کر گیا وہ سکتے کے عالَم می پھٹی پھٹی آنکھوں سے ارحم کو۔ دیکھ رہی تھی
کیا کہا طلاق دے دوں تمہیں ہاں اس کی آنکھوں میں خون اتر رہا تھا طلاق دوں تمہیں تاکے تم اپنے اس سو کولڈ کزن سے شادی کرلو ہے نا نہیں مہر بی بی نہیں تم صرف میری ہو اور میری ہی رہو گی یہ بات اپنے اس ننھے سے دماغ میں فٹ کر لو سمجھی تم کو اب میرا ہی رہنا ہے چاہے اس کے لیے مجھے مرنا پڑے یا پھر کسی کو مارنا ہی کیوں نا پڑے اسے دور کرتا وہ صوفے کو ٹھوکر مارتا باہر نکل گیا مہر گرنے کے انداز میں زمین پر ہے ڈٹے چلی گئی اور چہرے پر ہاتھ رکھ کے پھوٹ پھوٹ کے رو پڑی ارحم بہت برے هو تم بہت زیادہ لیکن میرا اللہ جانتا ہے کی مینے صرف تمسے پیار کیا ہی صرف تم کو ہی چاہا ہے ارحم صرف تم کو ہی اتنی آزمائش کیا لو میرے صبر کی 😥
وہ بلا وجہہ سڑکوں پر گاڑی دوڑاتا رہا تھک ہار کے اسنے سر کو سٹیرنگ پر ٹکا دیا یہ کیا ہوگیا مجھسے کیوں میرا غصہ مجھ سے برداشت نہیں ہو پاتا کیسے مینے اس پر پھر سے ہاتھ اٹھا دیا کیسے اسنے زور سے اپنا ہاتھ سٹیرنگ پر مارا
روتے روتے اسکی آنکھ لگ گئی تھی اسنے چاروں طرف نظریں گھمائین کمرہ خالی تھا ارحم ابھی تک گھر نہیں آیا تھا اسنے کھانا بہی نہیں کھایا تھا وہ اٹھی اور واشروم سے فریش ہوکے باہر آئ اسکی نظر کمرے میں موجود جا بجا اپنی تصویروں پر پڑی وہ تعجب بھری نظروں سے ایک ایک تصویر کو دیکھ رہی تھی یہ تصویریں تو میرے پاس تھیں اس کے پاس کیسے وہ سوچ میں پڑ گئی کیا واقعی ارحم مجھ سے محبت کرتے ہیں وہ خود سے سوال کرنے لگی
ہونہ محبت لوگ محبت میں پیار جاتاتے ہیں اور یہ کمینہ تھپہڑ مار کے محبت کے ہار پہناتا ہے مجھے اسنے غصے سے برش ٹیبل پر پٹکھا 😡
اسنے ایک نظر بیڈ کو دیکھا اب اتنا اچھا تو وہ نواب ہے نہیں کے خود صوفے پر سوجائے اور مجھے کہی کے بیڈ پر سو جاؤ مہر نے منہ بنایا 😉 اگر میں خود بیڈ پر سوجاؤن تو وہ کچھ کریگا تو نہیں مہر بڑ بڑائ ہونہ
آیا بڑا محبت کرنے والا وہ صوفے پر لیٹ گئی کچھ دیر بعد وہ روم میں داخل ہوا مہر کو صوفے پر لیٹا دیکھ کے ٹہٹک گیا پھر یہ سوچ کے پر سکوں ہوگیا کے وہ اسکے ساتھ تو تھی وہ سر جھٹک کے وارڈ روپ کی طرف بڑھا اور کپڑے نکال کے واشروم میں گھس گیا
آگیا کمینہ اب مجھے نیند آنے سے رہی مہر نے جل کے کھا
وائٹ کڑتا شلوار میں وہ بہت سمارٹ لگ رہا تھا بالوں میں برش کرکے وہ لیپ ٹاپ بیڈ پر لیکے کام کرنے میں مصروف ہوگیا مہر ہلکا سا کسمسائی اسے بہت سردی لگ رہی تھی ارحم نے یہ بات نوٹ کی پھر لیپ ٹاپ سائیڈ پر رکھ کے مہر کی جانب بڑھا اسنے ہاتھ بڑھا کے مہر کا شانہ ہلایا اٹھو اور بیڈ پر سوجاؤ یہاں پر بہت سردی ہے
میں آپ کے ساتھ ہرگز نہیں سئونگی سمجھے آپ ؟؟
ارحم نے سرد اہ بھری مینے کب کھا کے تم میرے ساتھ آکے سوجاؤ ارحم نے شرارت سے ابرو اچکائے
مہر سٹپٹا گئی
ویسے اگر میرے ساتھ سو بھی جاؤ تو مجھے کوئی اعترض نہیں وہ شانے اچکا کے بولا
مہر نے غصے سے بلینکٹ ہٹایا اور بیڈ پر تکیے سیٹ کر کے آپنے اور ارحم کے درمیان فاصلہ بنایا
ارحم یہ سب بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا
آہستہ آہستہ چل کر وہ بیڈ تک آیا پھر سینے پر ہاتھ باندھ کے مہر کودیکھنے لگا
مہر کو اس کے دیکھنے سے کوفت ہوئی
کیا مسلہ ہے اب کیا آنکھوں سے کھانے کا ارادہ رکھتے ہیں آپ وہ زچ ہوکے بولی 🙄 ہائے یہ غصہ قسم سے قتل کر دیگا مجھے ارحم نے دل پر ہاتھ رکھ کے ڈائیلاگ بولا
رسی لاؤںیا پھر چھری اس سے قتل کروں آپکا مہر کو اسکا یہ انداز تپا گیا
اتنی جلدی کہاں میری جان ابھی تو آپ پر مرنے کا ارادہ ہے وہ دانت نکال کے بولا
وہ غصے سے کمبل اوڑھکے سو گئی ارحم کا۔ قہقا بلند ہوا
صبح اسکی آنکھ جلدی کھل گئی وہ اٹھی اور وضو کرنے واشروم چلی گئی اسنے دیکھا کمرہ خالی تھا وہ سر جھٹک کے نماز پڑھنے لگی نماز پڑھ کے اسنے اپنے رب کی نوازش کا شکر ادا کیا وہ ارحم کو معاف کر چکی تھی اس نے سب اپنے رب پر چھوڑ دیا تھا وہ خوش تھی کے اسکی محبت اسکے پاس تھی
وہ نیچے چائے بنانے کے ارادے سے گئی تو دیکھا لان کی لائٹ آن تھی کچن میں تحمینا بیگم چائے بنانے میں مصروف تھیں اسلام علیکم امی وہ ایک سائیڈ پر ٹک گئی
وعلیکم سلام میری بچی تحمینا بیگم نے مہر کا ماتھا چوما وہ ہلکا سا مسکرائی بیٹا آج تمہارا اور ارحم کا ولیمہ ہے تم ریڈی تو ہو نا
مہر کو تو جیسے کچوکے ہی لگ گئے اس کو ارحم پر بہت زیادہ غصہ آیا تمہاری ولیمے کی ڈریس مینے رکھوا دی ہے بیوٹیشن تمہیں گھر پر آکر تیار کر دیگی ٹھیک ہے ابھی تم جاکے تھوڑا ریسٹ کرو ٹھیک ہے وہ اسکا گال تھپتھپا کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں
ہونہ کیا تھا اگر وہ مجھے ایک بار بتا دیتا میری بلا سے بھاڑ میں جائے ضرور یہی کوشش ہوگی اس کی کے اس کو ہی سب فنکشن میں سراہیں اور مجھے سب ماسی سمجھیں
میں بھی اسے دکھا دونگی وہ اپنے روم میں آئ اور وارڈ روپ کی طرف بڑھی سامنے ہی اس کے ولیمے کا ڈریس رکھا تھا وہ ایک خوبصورت سا اوف وائٹ کلر کا لہنگا تھا جس کے دامن پر نگ اور موتی لگے تھے ساتھ ہی پنک کلر کا دوپٹہ تھا جس کے بارڈر پر سنہیرے موتیون کا کام ہوا وا تھا وہ وارڈ روپ بند کرکے بیڈ پر لیٹ گئی
ماشااللہ بہت پیاری لگ رہی ہو مدیحہ بیگم نے اسکی نظر اتاری خوبصورتی سے کیا گیا مکیپ آنکھوں میں ہلکا سا کاجل ماتھے پر مانگ ٹیکا بالوں کا جوڑا بناے وہ نظر لگ جانے کی حد ٹک خوبصورت لگ رہی تھی
وہ اسٹیج پر بار بار گھڑی کی طرف دیکھ رہا تھا بلیک ڈنر کوٹ میں مبلوث جیل سے سیٹ کیے بال ہلکی سی شیو اس پر اوف وائٹ ٹائی لگاے وہ بہت دیشنگ لگ رہا تھا حیا اسکا ہاتھ تھام کر آرہی تھی اس کی نظر جب سجی سنوری مہر پر پڑی تو وہ پلکیں چھپکانا بھول گیا اسنے ایسا حسن پہلی بار دیکھا تھا اس کی ایک بیٹ مس ہوئی وہ بس اسے دیکھے جا رہا تھا ریحان نے اسکو کہنی ماری ابے کیا ایسے دیکھتا رہے گا اب جا اسنے مہر کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا مہر نے نرمی سے اسکا ہاتھ تھام لیا ارحم نے اسکو اپنے ساتھ بٹھایا
ارے آپ میری پلیٹ کیوں تک رہے ہیں کیا آپ کے لیے پلیٹیں نہیں بچی حیا کھا جانے ولی نظروں سے ریحان کو دیکھ رہی تھی اوہ ہیلو یہ میری پلیٹ تھی جو آپ جیسی بھکڑ نے اچک لی سمجھی آپ
اچھا مینے آپ کی پلیٹ لی یہ لیں رائتا تو چخ لیں حیا نے پوری پلیٹ میں رائتا ڈال دیا ہونہ آیا بڑا وہ کہتی چل پڑی وہ دانت پیس کے رہ گیا
یار کیا ہے یہ لڑکی وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولا
فنکشن خیر و عافیت سے گزرا سب لوگون نے مہر کو خوب دعائین دیں
وہ سو کے اٹھی تو فریش ہوکے نیچے چلی آئ جہاں پر شام کی چائے پی جا رہی تھی ارحم نے اس کو دیکھ کے آنکھ ماری مہر نے منہ بگاڑا
چھچھورا کہیں کا وہ چائے کا کپ اٹھا کے دوسرے صوفے پر بیٹھ گئی وہ چائے کے چھوٹے چھوٹے سپ لینے لگی ارحم نے اسکی طرف بسکٹ کی پلیٹ بڑھائی مہر اسکی شرارت بھاپھ گئی اسنے پلیٹ کے نیچے سے ارحم کے ہاتھ کی پشت پر اپنے ناخن گاڑھ دئے ارحم کی چیخ نکل گئی خلیل صاحب اور تحمینا بیگم اسکی طرف دیکھنے لگے کیا ہوا بیٹا آپ چیخے کیوں؟؟ تحمینا بیگم نے پریشانی سے پوچھا
کچھ نہیں امی بس ہاتھ میں کچھ چھبھ گیا ارحم نے دانت پیس کے کھا مہر نےبے اختیار اپنی ہنسی دبائی